فضائل و مناقب حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ حصّہ نمبر 13
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نےیزید پلید کی بیعت کی تھی ان میں چند بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شامل تھے جیسے حضرت عبداللہ بن عمر ، عبد اللہ بن عباس ، ابو سعید خدری ، ابو ایوب انصاری ، ابو عبداللہ انصاری ، جابر بن عبداللہ انصاری ، سلمہ بن اکوع انصاری ، ابو امامہ انصاری ، اسامہ بن زید ، انس بن مالک ، جابر بن سمرہ ، جریر بن عبداللہ ، عبداللہ بن جعفر طیار ، عبداللہ بن عامر ، عدی بن حاتم رضوان اللہ تعالی علیھم عنھم اجمعین شامل تھے ، اور پانچ امہات المونین حضرت حفضہ ، حضرت جویرہ ، حضرت عایشہ صدیقہ ، حضرت ام سلمہ ، اور حضرت میمونہ رضی اللہ عنہن شامل تھیں ۔ اس کے علاوہ کٸی عظیم المرتبت تابعی جن میں حضرت محمد بن الحنفیہ برادر سیدنا حسین رضی اللہ عنہم بھی بعیت میں شامل تھے ۔
اس بات کا کوئی بک ریفرینس دینے کی ضرورت نہیں ہے ۔ میں نے تقریبا 20 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے جو نام لکھے ہیں ان کی سن وفات لکھ دیتا ہوں ۔ ان تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کیوں کی اور پھر بیعت کیوں توڑ دی اس مضمون آپ پڑھیں گے ان شاء اللہ :
بیعت کرنے والوں میں سے چند کے اسماۓ مبارکہ
حضرت حفضہ سن 54 ہجری
حضرت جویریہ سن 56 ہجری
حضرت عایشہ سن 58 ہجری
حضرت ام سلمہ سن 59 ہجری
حضرت میمونہ سن 61 ہجری
حضرت عبداللہ بن عمر سن 74 ہجری
حضرت عبداللہ بن عباس حضرت عبداللہ بن زبیر کے دور خلافت میںوفات پائی
حضرت ابو سیعد خدری اموی خلیفہ عبدالمالک کے عہد تک زندہ رہے
حضرت ابوایوب انصاری سن 49 ہجری میں قسطنطیہ کی محاصرے میں وفات پائی
حضرت جابر بن عبداللہ انصاری سن 76 یا 78 ہجری
حضرت سلمہ بن اکوع سن 74 ہجری
حضرت ابو امامہ باہلی سن 62 ہجری
حضرت اسامہ بن زید سن 54 یا 59 ہجری
حضرت انس بن مالک اموی خلیفہ ولید کے عہد تک زندہ رہے
حضرت جابر بن سمرہ سن74 ہجری
حضرت جریی بن عبداللہ سن 54 ہجری
حضرت عبداللہ بن جعفر طیار سن 85 ہجری
حضرت عبداللہ بن عامر سن 59ہجری
حضرت عدی بن حاتم سن 68 ہجری
یاد رہے واقعہ کربلا، حضرت امام حسین کی شہادت سن 61 ہجری میں ہوئی تھی ۔ (رضی اللہ عنہم اجمعین)
اس کے علاوہ مزید کٸی نام ہیں ۔ یہ معلومات فقیر چشتی نے مختلف کتابوں مثلا تاریخ طبری ، البدایہ والنہایہ ، تاریخ ابن خلدون اور تاریخ ابن اثیر سے حاصل کیں ہیں ۔ جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یزید کی بیعت کی تو اس وقت یزید پلید کا فسق و فجور ظاہر نہ ہوا تھا جب اس خبیث پلید یزید کے کرتوت ظاہر ہوۓ تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بیعت توڑ دی : ⬇
محترم قارئینِ کرام : سید الشہداء امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے واقعۂ جانکاہ کی وجہ سے اہل مدینہ یزید کے سخت مخالف ہوگئے اور صحابی ابن صحابی حضرت عبد اللہ بن حنظلہ رضی اللہ عنہما کے دست مبارک پر بیعت کرلئے تو یزید پلید نے ایک فوج مدینہ طیبہ پرچڑھائی کےلیے روانہ کی جس نے اہل مدینہ پر حملہ کیا اور اس کے تقدس کو پا مال کیا اس موقع پر حضرت عبد اللہ بن حنظلہ رضی اللہ عنہما نے اہل مدینہ سے روح پرور خطاب کیا اور اس میں یزید کی خلافِ اسلام عادات واطوار کا ذکر کیا جیسا کہ محدث وقت مؤرخ اسلام محمدبن سعد رحمۃ اللہ علیہ (متوفی230 ھجری) کی طبقات کبری میں اس کی تفصیل موجود ہے : اجمعواعلی عبد الله بن حنظلة فاسندواامرهم اليه فبايعهم علی الموت وقال ياقوم اتقوا الله وحده لاشريک له فوالله ماخرجنا علی يزيد حتی خفنا ان نرمی بالحجارة من السماء ان رجلا ينکح الامهات والبنات والاخوات ويشرب الخمر ويدع الصلوة والله لو لم يکن معی احد من الناس لابليت لله فيه بلاء حسنا ۔ (طبقات کبری جلد 5 صفحہ 66،چشتی)
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن حنظلہ رضی اللہ عنہما نے اہل مدینہ سے تادم زیست مقابلہ کرنے کی بیعت لی او رفرمایا : اے میری قوم ! اللہ وحدہ سے ڈرو جس کا کوئی شریک نہیں ، اللہ کی قسم ! ہم یزید کے خلاف اس وقت اُٹھ کھڑے ہوئے جبکہ ہمیں خوف ہوا کہ کہیں ہم پر آسمان سے پتھروں کی بارش نہ ہوجائے ، وہ ایسا شخص ہے جو ماؤں، بیٹیوں اور بہنوں سے نکاح جائزقرار دیتا ہے ، شراب نوشی کرتا ہے ،نماز چھوڑتا ہے ، اللہ کی قسم ! اگر لوگوں میں سے کوئی میرے ساتھ نہ ہوتب بھی میں اللہ کی خاطر اس معاملہ میں شجاعت وبہادری کے جوہر دکھاؤں گا ۔
جب یزید لعین کی بد کرداریاں سامنے آئیں تو بیعت کرنے والے صحابہ رضی اللہ عنہم بیعت توڑ دی اور یزید کے خلاف اعلان جنگ کیا اور اکثر ان میں سے شہید ہوئے ۔ (تاریخ ابن خلدون جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 550،چشتی)
علامہ ابن اثیر رحمۃ اللہ علیہ (متوفی630 ھجری) کی تاریخ کامل ابن اثیر میں 51 ہجری کے بیان میں ہے وقال الحسن البصری ۔ سکير اخميرا يلبس الحرير ويضرب بالطنابير : حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ یزید کے بارے میں فرماتے ہیں وہ انتہادرجہ کا نشہ باز، شراب نوشی کا عادی تھا ریشم پہنتا اور طنبور ے بجاتا ۔
علامہ ابن کثیر (مولود 700 ھ متوفی 774 ھ) لکھتے ہیں : وکان سبب وقعة الحرةان وفدامن اهل المدينة قدمواعلی يزيد بن معاوية بدمشق ۔ ۔ ۔ فلمار جعوا ذکروا لاهليهم عن يزيد ماکان يقع منه القبائح فی شربه الخمرو مايتبع ذلک من الفواحش التی من اکبر ها ترک الصلوة عن وقتها بسبب السکر فاجتمعوا علی خلعه فخلعوه عند المنبرالنبوی فلما بلغه ذلک بعث اليهم سرية يقدمها رجل يقال له مسلم بن عقبة وانما يسميه السلف مسرف بن عقبة فلما وردالمدينة استباحها ثلاثة ايام فقتل فی غضون هذه الايام بشرا کثيرا ۔
ترجمہ : واقعۂ حرہ کی وجہ یہ ہوئی کہ اہل مدینہ کا وفد دمشق میں یزید کے پاس گیا ،جب وفد واپس ہواتواس نے اپنے گھر والوں سے یزید کی شراب نوشی اور دیگر بری عادتوں اور مذموم خصلتوں کا ذکر کیا جن میں سب سے مذموم ترین عادت یہ ہیکہ وہ نشہ کی وجہ سے نماز کو چھوڑدیتا تھا ،اس وجہ سے اہل مدینہ یزید کی بیعت توڑنے پر متفق ہوگئے او رانہوں نے منبر نبوی علی صاحبہ الصلوۃ والسلام کے پاس یزید کی اطاعت نہ کرنے کا اعلان کیا ،جب یہ بات یزید کو معلوم ہوئی تو اس نے مدینہ طیبہ کی جانب ایک لشکر روانہ کیا جس کا امیر ایک شخص تھا جس کو مسلم بن عقبہ کہا جاتا ہے سلف صالحین نے اس کو مُسرِف بن عقبہ کہا ہے جب وہ مدینہ طیبہ میں داخل ہوا تو لشکر کے لئے تین دن تک اہل مدینہ کے جان و مال سب کچھ مباح قرار دیاچنانچہ اس نے ان تین روز کے دوران سینکڑوں حضرات کوشہید کروایا ۔ (البدایۃ والنہا یۃ جلد نمبر 6 صفحہ نمبر 262،چشتی)
امام بیقہی رحمۃ اللہ علیہ (مولود384 ھ متوفی458 ھ) کی دلائل النبوۃ میں روایت ہے عن مغيرة قال أنهب مسرف بن عقبة المدينةثلاثة ايام فزعم المغيرة أنه افتض فيها الف عذراء ۔
ترجمہ : حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں مسرف بن عقبہ نے مدینہ ٔطیبہ میں تین دن تک لوٹ مار کی اورایک ہزارمقدس و پاکبازان بیاہی دخترانِ اسلام کی عصمت دری کی گئی ۔ العیاذ باللہ ۔
جبکہ اہل مدینہ کو خوف زدہ کرنے والے کیلئے حدیث شریف میں سخت وعید آئی ہے مسند احمد ، مسند المدنيين میں حدیث مبارک ہے عن السائب بن خلاد ان رسول الله صلی الله عليه وسلم قال من اخاف اهل المدينة ظلماًاخافه الله وعليه لعنة الله والملائکة والناس اجمعين لايقبل الله منه يوم القيامةصرفاولاعدلا ۔
ترجمہ : سیدنا سائب بن خلاد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے اہل مدینہ کو ظلم کرتے ہوئے خوف زدہ کیا اللہ تعالی اس کوخوف زدہ کرے گا او راس پر اللہ کی ، فرشتوں کی اورتمام لوگوں کی لعنت ہے ، اللہ تعالی اس سے قیامت کے دن کوئی فرض یا نفل عمل قبول نہیں فرمائے گا - (مسند احمد ، مسند المدنيين حدیث نمبر 15962)
اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس شخص کاکیا انجام ہوگا جو اہل مدینہ کو صرف خوفزدہ وہراساں ہی نہیں کیا بلکہ مدینہ طیبہ میں خونریزی قتل وغارتگری کیا اور ساری فوج کے لئے وحشیانہ اعمال کی اجازت دیدی ۔
فن عقیدہ میں پڑھائی جانے والی درس نظامی کی مشہور کتا ب شرح عقائد نسفی صفحہ 117 میں علامہ سعد الدین تفتازانی رحمۃ اللہ علیہ نے تحریر فرمایا ہے : وبعضهم اطلق اللعن عليه لماانه کفرحين امر بقتل الحسين واتفقواعلی جوازاللعن علی من قتله اوا مربه اواجازبه ورضی به ،والحق ان رضايزيد بقتل الحسين واستبشاره بذلک واهانة اهل بيت النبی صلی الله عليه وسلم مماتواترمعناه وان کان تفاصيله احاداً فنحن لانتوقف فی شانه بل فی ايمانه لعنة الله عليه وعلی انصاره واعوانه ۔
ترجمہ : بعض ائمہ نے امام حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے کا حکم دینے کی وجہ سے مرتکب کفر قرار دیکر یزید پر لعنت کو جائز رکھا ہے ، علماء امت اس شخص پر لعنت کرنے کے بالاتفاق قائل ہیں جس نے امام حسین رضی اللہ عنہ کو شہیدکیا یا شہید کرنے کا حکم دیا یا اسے جائز سمجھا اور اس پر خوش ہوا ، حق یہ ہے کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت پر یزید کا راضی ہونا اس سے خوش ہونا اور اہل بیت کرام رضی اللہ عنہم کی توہین کرنا ان روایت سے ثابت ہے جو معنوی طور پر متواتر کے درجہ میں ہیں اگرچہ اس کی تفصیلات خبرِ واحد سے ثابت ہیں چنانچہ ہم یزید کے بارے میں توقف نہیں کر سکتے بلکہ اس کے ایمان کے بارے میں توقف کریں گے اس پراور اس کے اعوان و مدگاروں پر اللہ کی لعنت ہو ۔
حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک یزید کافر اور لعنتی : ⬇
قاضی ثناء اللہ پانی پتی حنفی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 1225 ھ) جو کہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد تھے اورحضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے "اپنے دور کا بیہقی" ہونے کا لقب دیا ، اپنی مشہور رفسیر تفسیرِمظہری میں لکھتے ہیں : یزید اور اس کے ساتھیوں نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی اور اہل ِبیت کی دشمنی کا جھنڈا انہوں نے بلند کیا اور حضرت حسین کو انہوں نے ظلماً شہید کردیا اور یزید نے دین ِمحمدی کا ہی انکار کردیا اور حضرت حسین کو شہید کر چکا تو چند اشعار پڑھے جن کا مضمون یہ تھا کہ آج میرے اسلاف ہوتے تو دیکھتے کہ میں نے آلِ محمد اور بنی ہاشم سے ان کا کیسا بدلہ لیا ۔ یزید نے جو اشعار کہے تھی ان میں آخری شعر یہ تھا : احمد نے جو کچھ (ہمارے بزرگوں کے ساتھ بدر میں) کیا اگر اولاد سے میں نے اس کا انتقام نہ لیا تو میں بنی جندب سے نہیں ہوں ۔
یزید نے شراب کو بھی حلال قرار دے دیا تھا ۔ شراب کی تعریف میں چند شعر کہنے کے بعد آخری شعر میں اس نے کہا تھا : اگر شراب دین ِاحمد میں حرام ہیں تو (ہونے دو) مسیح بن مریم کے دین (یعنی عیسایت) کے مطابق تم اس کو (حلال سمجھ کر) لے لو ۔ یزید اور اس کے ساتھیوں اور جانشینوں کے یہ مزے ایک ہزار مہینے تک رہے، اس کے بعد ان میں سے کوئی نہ بچا ۔ (تفسیر مظہری عربی جلد 5 صفحہ 271 سورہ 14 آیت 29)،(تفسیر مظہری جلد پنجم صفحہ نمبر 327،چشتی)
یزید بد بخت نے امام حسین رضی اللہ عنہ شہید کروایا اور اسے بدر والے مقتول کفار کا بدلہ قرار دیا،یزید شرابی کو حلال جنات ، حرمت کعبۃ اللہ و مدینۃ المنوّرہ پامال کی غرض کونسا جرم ہے جو اس نے نہ کیا ۔ (تفسیر مظری جلد پنجم صفحہ 645)
نوٹ : ہمیشہ کی طرح دیوبندیوں نے دارالاشاعت کراچی کے ترجمہ میں ڈنڈی مار ہے اور یزید کے اشعار جو قاضی ثناء اللہ پانی پتی حنفی رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیے ہیں وہ مکمل طور پر نقل نہیں کئے ۔
یزید ملعون کے کفریہ اشعار یہ ہیں : ⬇
لَعِبَتْ هاشِمُ بِالْمُلْکِ فَلاَ ۔۔۔۔۔۔۔ خَبَرٌ جاءَ وَ لاَ وَحْىٌ نَزَلْ
لَیْتَ اَشْیاخِی بِبَدْر شَهِدُوا ۔۔۔۔۔۔۔ جَزَعَ الْخَزْرَجُ مِنْ وَقْعِ الاَسَلْ
لاََهَلُّوا وَاسْتَهَلُّوا فَرَحاً ۔۔۔۔۔۔۔ وَ لَقالُوا یا یَزِیدُ لاَ تَشَلْ
فَجَزَیْناهُ بِبَدْر مَثَلا ۔۔۔۔۔۔۔ وَ اَقَمْنا مِثْلَ بَدْر فَاعْتَدَلْ
لَسْتُ مِنْ خِنْدِف اِنْ لَمْ اَنْتَقِمْ ۔۔۔۔۔۔۔ مِنْ بَنِی اَحْمَدَ ما کانَ فَعَلْ
ترجمہ اشعار : اے کاش ہمارے وہ آباء و اجداد (کفّار) جو بدر میں مارے گئے ، وہ زندہ ہوتے تو وہ دیکھ لیتے کہ آل احمد سے ہم نے کیسے انتقام لیا ۔ ہم نے ان کے بزرگوں کو قتل کر کے بدر کا بدلہ چکا دیا ہے ۔ اگر آل احمد سے بدلہ نہ لیا ، تو میں بنی خندف سے نہیں ہوں ، بنی ہاشم نے حکومت کے ساتھ کھیل کھیلا ہے ان پر نہ کوئی وحی نازل ہوئی ہے اور نہ کوئی فرشتہ اتر آیا ہے ۔ (سیره ابن هشام جلد 3 صفحه 143)(تاریخ طبری جلد 7 صفحه 383)(البدایہ والنھایہ ج 8 ص 208)(اخبار الطوال دینوری ص267)(تفسیر ابن کثیر ج 1 ص 423)(ابن جوزی، المنتظم ،ج 2،ص 199)(ابو الفرج اصبہانی، مقاتل الطالبيين ،ج 1 ،ص 34)(ابن المطهر ،البدء والتاريخ ،ج 1،ص 331،چشتی)(الدولة الأموية للصلابي ،ج 2،ص 256) (البداية والنهاية ،ج 8،ص 192)(تاريخ الطبري ،ج 8،ص 187)(تاريخ الطبري - ،ج 8 ،ص 188)(تفسیر مظہری عربی ، ج 5 ص 271 سورہ 14 آیت 29)(تفسیر مظہری جلد پنجم صفحہ نمبر 327)
سورہ نمبر 24 آیت 55 کی تفسیر میں بھی قاضی ثناءاللہ پانی پتی حنفی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آیت "ومن كفر بعد ذلك" میں یزید بن معاویہ کی طرف اشارہ ہو۔ یزید نے رسول اللہ کے نواسے کو اور آپ کے ساتھیوں کو شہید کیا۔ یہ ساتھی خاندان ِنبوت کے ارکان تھے ، عزتِ رسول کی بےعزتی کی اور اس پر فخر کیا اور کہنے لگا آج بدر کے دن کا انتقام ہوگیا، اسی نے مدینۃ الرسول پر لشکر کشی کی اوت حرہ کے واقع میں مدینہ کو غارت کیا اور وہ مسجد میں جس کی بناء تقویٰ پر قائم کی گئی تھی اور جس کے جنت کو باغوں میں سے ایک باغ کہا گیا ہے اس کی بے حرمتی کی، اس نے بیت اللہ پر سنگباری کےلیے منجیقیں نصب کرایئں اور اس نے اول خلیفہ رسول حضرت ابو بکر کے نواسے حضرت عبداللہ بن زبیر کو شہید کرایا اور ایسی ایسی نازیبا حرکتیں کیں کہ آخر اللہ کے دین کا منکر ہوگیا اور اللہ کی حرام کی ہوئی شراب کو حلال کردیا ۔ (تفسیر مظہری جلد 8 صفحہ 268)
قاضی ثناء اللہ پانی پتی حنفی رحمۃ اللہ علیہ السّیف المسلول میں فرماتے ہیں : یزید پر لعنت کرنا جائز ہے امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن سے ثابت کیا ہے اور جو اللہ کو مانتا ہے وہ یزید سے دوستی نہیں کرے علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک یزید پر لعنت ہے ، اور یزید کا کفرِ صریح یہ ہے کہ اس نے سرِ امام حسین رضی اللہ عنہ کی توہین کی اور کفریہ اشعار پڑھےایسوں پر اللہ ، تمام فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہو ۔ (السیّف المسلول صفحہ نمبر 488 تا 490)
قاضی ثناء اللہ پانی پتی حنفی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ایک خط میں تحریر کیا : غرض یہ کہ یزید کافر معتبر روایت سے ثابت ہے ۔ پس وہ مستحقِ لعنت ہے اگرچہ لعنت کرنے میں کوئی فائدہ نہیں ہے لیکن الحب فی اللہ البغض فی اللہ اس کا متقاضی ہے ۔ (المکتوبات صفحہ نمبر 203) ۔ (مزید حصّہ نمبر 14 میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment