Monday, 13 February 2023

حضرت سیّدُنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ حصّہ اوّل

حضرت سیّدُنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ حصّہ اوّل

محترم قارئینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : اَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى ۔ (سورۃ النجم آیت نمبر 39)

ترجمہ : اور یہ کہ آدمی نہ پائے گا مگر اپنی کوشش ۔


اس دنیا کی زندگی کو سہل اور پُرآسائش بنانے کے لیے انسان بہت زیادہ تگ و دو کرتا ہے، کوئی مزدوری کرتا ہے تو کوئی ملازمت اور کوئی دن رات اپنے کاروبار کو ترقی کی راہوں پر گامزن کرنے کے لیے فکرمند رہتا ہے ۔ اس دوران دور دراز علاقوں کا سفر کرنا پڑے، اہل و عیال سے دور رہنا پڑے یا مشکلات کا سامنا کرنا پڑے تو بنا کسی تردد کے سب کچھ برداشت کر لیا جاتا ہے لیکن جب انسان راہِ حق کی تلاش پر نکلتا ہے ، دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو اسے اپنے عزیز و اقارب کی طرف سے مخالفتوں اور ملامتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بہت سی تکالیف سہنی پڑتی ہیں ۔ ایسے میں بہت سے لوگ گھبرا کر راہِ حق کو ترک کر دیتے ہیں ۔ اگر روزگارِ زندگی کے لیے مشکلات اور تکالیف برداشت کی جا سکتی ہیں تو راہِ حق کےلیے کیوں نہیں ! راہِ حق کے سفر میں دی گئی قربانیوں کا تو اجر بھی بہت بڑا ہے ۔ اس راہ میں کامیابی پر اللہ تعالیٰ کا قرب اور وصال نصیب ہوتا ہے ۔ راہِ حق پر صرف وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو ان مشکلات اور مصائب کا صبر و تحمل سے سامنا کرتے ہیں ، قربانیوں اور آزمائشوں سے گھبراتے نہیں ، استقامت کے ساتھ اپنی منزل کی جانب رواں دواں رہتے ہیں اور بالآخر ایک دن وہ اپنی منزل پا لیتے ہیں ۔ ایسی ہی ہستیوں میں ایک نام حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا ہے جنہوں نے تلاشِ حق میں ایک طویل عرصہ گزارا ، والد کی جانب سے مخالفت کا سامنا بھی کیا، دور دراز علاقوں کا سفر بھی کیا، اس دوران غلامی کی زندگی بھی بسر کی اور بالآخر اپنی منزلِ مقصود کو پا لیا یعنی حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی صحبت اور دیدار سے سرفراز ہوئے ۔


حضرت سلمان فارسی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے جلیل القدر صحابہ میں سے ایک تھے ۔ آپ رضی اللہ عنہ کی ولادت ایران کے مشہور شہر اصفہان کے گاؤں میں ہوئی ۔ آپ رضی اللہ عنہ کی تاریخ پیدائش میں کافی اختلاف پایا جا تا ہے مگر اکثر مؤرخین کے نزدیک آپ رضی اللہ عنہ کی پیدائش ۵۸۰ عیسوی میں ہوئی ۔ آپ رضی اللہ عنہ کے مشہور القابات سلمان احمدی ، سلمان الطاہر ، سلمان الخیر ، سلمان پاک ، سلمان الفاری ہیں ۔ سلسلہ نقشبندیہ کے شجرہ طریقت میں تیسرا نام سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا ہے ۔ آپ رضی اللہ عنہ فارسی، عبرانی ، سریانی اور عربی زبان کے ماہر تھے ۔ حضرت داتا علی ہجویری علیہ الرحمہ کی کتاب کشف المحجوب کے مطابق آپ رضی اللہ عنہ کا شمار اصحاب صفہ کے قابل قدر گروہ میں ہوتا ہے ۔ آپ رضی اللہ عنہ کا وصال مبارک ۳۵ ہجری ۶۵۶ عیسوی میں ہوا ۔ آپ رضی اللہ عنہ کا مزار شریف عراق کے علاقے مدائن میں واقع ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے ارشاد مبارک فرمایا : سَلْمَانُ مِنَّا اَہْلَ الْبَیْت ۔ سلمان ہمارے اَہلِ بیت سےہیں ۔ (مسند بزار جلد ۱۳ صفححہ ۱۳۹ حدیث نمبر ۶۵۳۴)


حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر سورۃ جمعہ نازل ہوئی اور آپ نے یہ آیت پڑھی : ان میں اور بھی لوگ ہیں جو اب تک آکر ان سے نہیں ملے ہیں ۔ تو ایک صحابی نے عرض کی : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم وہ کون لوگ ہیں ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ان کا کوئی جواب نہ دیا ۔ حتیٰ کہ اس صحابی نے ایک بار یا دو بار یا تین بار سوال کیا ۔ اس وقت حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ پر ہاتھ رکھا اور فرمایا ’’ اگر ایمان ثریا (آسمان پر ستاروں کا ایک جھرمٹ جس میں سے سات ستارے دیگر ستاروں کی نسبت زیادہ روشن ہیں ۔ اس جھرمٹ کا زمین سے فاصلہ 444.2 نوری سال ہے۔) کے قریب بھی ہوتا تو ان میں سے کچھ لوگ اس کو حاصل کر لیتے ۔ (صحیح مسلم حدیث نمبر 6498)


حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے انہیں اپنی آپ بیتی خود سنائی ۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں اصفہان کی ایک بستی میں جسے ’جئی‘ کہا جاتا تھا، کا رہنے والا ایک فارسی شخص تھا۔ میرے والد اپنی بستی کے کسان تھے ۔ میں انہیں سب سے زیادہ محبوب تھا۔ وہ مجھ سے اسی طرح محبت کرتے رہے حتیٰ کہ انہوں نے مجھے اس طرح اپنے گھر میں روک لیا یعنی آگ کا رکھوالا بنا کر جس طرح لڑکی کو روکا جاتا ہے۔ میں نے مجوسیت میں بہت محنت کی حتیٰ کہ میں آگ کا مستقل نگران بن گیا جو آگ کو ایک گھڑی بجھنے نہیں دیتا تھا۔ میرے والد کی بہت بڑی جاگیر تھی۔ ایک دن وہ گھر کے کام کاج میں مصروف تھے، مجھ سے کہنے لگے ’’بیٹے! آج میں گھر پر کام میں مصروف ہوں، آپ جاگیر کا چکر لگا آؤ۔‘‘ اس کے علاوہ کچھ مزید باتوں کا کہا۔ میں ان کے کام سے نکلا۔ میں عیسائیوں کے ایک کلیسے کے پاس سے گزرا اور میں نے ان کی آواز سنی۔ وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ میں لوگوں کے معاملات کو نہیں جانتا تھا کیونکہ میرے والد نے مجھے گھر تک محدود رکھا تھا۔ جب میں ان کے پاس سے گزرا اور ان کی آوازیں سنیں تو ان کے پاس چلا گیا تاکہ دیکھوں کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ جب میں نے انہیں دیکھا تو مجھے ان کی نماز اچھی لگی، اور ان کے معاملے میں دلچسپی ہونے لگی۔ میں کہنے لگا واللہ! یہ اس دین سے بہتر ہے جس پر ہم ہیں۔ واللہ! میں نے غروبِ آفتاب تک انہیں نہیں چھوڑا اور والد کے کہنے کے مطابق جاگیر پر بھی نہیں گیا۔ میں نے ان سے کہا: اس دین کی اصل کہاں ہے؟ وہ کہنے لگے شام میں۔ پھر میں اپنے والد کے پاس آنے لگا جو میری تلاش میں چند لوگ بھیج چکے تھے۔ میں نے ان کو ان کے کام سے بھی مصروف کردیا تھا۔ جب میں ان کے پاس پہنچا تو انہوں نے پوچھا ’’بیٹے کہاں تھے؟ کیا میں نے تمہیں کام سے نہیں بھیجا تھا؟ میں نے کہا ’’ابا جان! میں کچھ لوگوں کے پاس سے گزرا جو اپنے کلیسے میں نماز پڑھ رہے تھے، میں نے ان کا طریقہ دیکھا تو مجھے بہت اچھا لگا، میں سورج غروب ہونے تک ان کے پاس ہی تھا۔‘‘ انہوں نے کہا’’بیٹے! اس دین میں کوئی خیر نہیں، تمہارا اور تمہارے آباء کا دین اس سے بہتر ہے ۔‘‘ میں نے کہا  ’’ہرگز نہیں۔ اللہ کی قسم! وہ ہمارے دین سے بہتر ہے۔‘‘ وہ میرے بارے میں خوف زدہ ہو گئے (کہ کہیں میں عیسائیوں کا دین نہ قبول کرلوں) اور میرے پاؤں میں بیڑیاں ڈال دیں، پھر مجھے اپنے گھر میں قید کر دیا۔ عیسائیوں نے میرے پاس پیغام بھیجا تو میں نے کہا کہ جب تمہارے پاس شام کے عیسائی تاجروں کا قافلہ آئے تو مجھے اطلاع دینا۔ جب ان کے پاس شام کے عیسائی تاجروں کا قافلہ آیا تو انہوں نے مجھے اطلاع دی۔ میں نے کہا جب وہ اپنے کام سے فارغ ہو کر جانے لگیں تب مجھے خبر دینا۔ پھر جب وہ واپس جانے لگے تو انہوں نے مجھے بتایا میں نے اپنے پاؤں سے بیڑیاں نکالیں اور ان کے ساتھ شام آگیا۔ جب میں شام پہنچا تو میں نے پوچھا ’’اس دین کے ماننے والوں میں سب سے بہترین شخص کون ہے؟‘‘ لوگوں نے کہا کنیسا کا پادری۔ میں اس کے پاس آیا اور کہا ’’مجھے اس دین کا شوق ہوا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ کنیسا میں آپ کے ساتھ رہوں اور آپ کی خدمت کروں۔ آپ سے تعلیم حاصل کروں اور آپ کے ساتھ نماز پڑھوں۔‘‘ اس نے کہا:آجاؤ۔ میں اس کے ساتھ اندر چلاگیا۔ وہ ایک برا آدمی تھا۔ لوگوں کو صدقے کی ترغیب دیتا تھا جب لوگ صدقے کی چیزیں جمع کر کے اس کے پاس لاتے تو اپنے پاس محفوظ کر لیتا اور مسکینوں کو اس میں سے کوئی چیز نہ دیتا۔ حتیٰ کہ اس نے سونے چاندی کے سات مٹکے بھر لئے۔ اسے ایسا کرتے دیکھ کر مجھے اس پر سخت غصہ آیا۔ پھر وہ مر گیا۔ عیسائی اسے دفنانے کے لئے جمع ہو ئے۔ میں نے ان سے کہا: یہ ایک برا آدمی تھا، یہ تمہیں صدقے کا حکم اور ترغیب دیتا تھا، جب تم صدقہ اس کے پاس لاتے تو اپنے لئے رکھ لیتا اور مساکین کو اس میں سے کوئی چیز نہ دیتا۔ لوگوں نے کہا: یہ بات تمہیں کس نے بتائی؟ میں نے کہا: میں تمہیں اس کے خزانے تک لے چلتا ہوں۔ لوگوں نے کہا: ٹھیک ہے تم اس کا خزانہ ہمیں دکھاؤ۔ میں نے اس کے خزانے کی جگہ انہیں دکھائی، انہوں نے وہاں سے سونے چاندی کے بھرے ہوئے سات مٹکے نکالے۔ جب انہوں نے وہ مٹکے دیکھے تو کہا: واللہ! ہم تو اسے کبھی بھی دفن نہیں کریں گے۔ لوگوں نے اسے سولی پر چڑھا دیا۔ پھر اسے پتھروں سے سنگسار کر دیا۔ پھر ایک دوسرے آدمی کو لا کر اس کی جگہ مقرر کر دیا۔ میں نے پانچ نمازیں نہ پڑھنے والوں میں سے (یعنی مسلمانوں کے علاوہ) ایسا کوئی آدمی نہیں دیکھا، دنیا سے انتہائی بے رغبت، آخرت کی طرف رغبت رکھنے والا، دن اور رات عبادت میں  انتہائی محنت کرنے والا۔ میں اس سے اتنی محبت کرنے لگا کہ اس سے پہلے کسی سے نہ کی تھی۔ میں کافی عرصہ اس کے ساتھ رہا، جب وہ فوت ہونے لگا تو میں نے اس سے کہا: اے فلاں! میں آپ کے ساتھ رہا اور آپ سے اتنی محبت کی جتنی پہلے کسی سے نہ کی تھی۔ اور اب آپ کے لئے اللہ کا حکم آپہنچا ہے۔ اب کس شخص کی طرف جانے کا مجھے حکم دیتے ہیں؟ اور میرے لئے اب کیا حکم ہے؟ اس نے کہا: بیٹے! واللہ! آج کے دن میں کسی کو اس دین پر نہیں دیکھتا جس پر میں ہوں، لوگ ہلاک ہوگئے اور انہوں نے دین میں تبدیلیاں کرلیں اور ان اکثر چیزوں کو چھوڑ دیا جن پر اسلاف تھے، سوائے ایک شخص کے جو موصل میں ہے۔ اس کا خاص نام بتایا، وہ اسی دین پر ہے جس پر میں ہوں اس سے جا کر ملو۔ جب وہ مر گیا اوراسے دفنا دیا گیا تو میں موصل والے شخص کے پاس پہنچ گیا اور اس سے کہا: اے فلاں ،فلاں شخص نے اپنی موت کے وقت مجھے وصیت کی تھی کہ میں تم سے ملوں اور اس نے مجھے بتایا تھا کہ تم اس کے دین پر ہو۔ اس نے مجھے کہا: ٹھیک ہے میرے پاس قیام کرو، میں اس کے پاس ٹھہرا رہا میں نے اسے بھی اپنے ساتھی کے دین پر عمل کرنے والا بہترین آدمی پایا، ابھی تھوڑا ہی وقت گزرا تھا کہ اس کی موت کا وقت آگیا جب اس کی وفات کا وقت آیا تو میں نے اس سے کہا: اے فلاں! فلاں شخص نے مجھے آپ کی طرف بھیجا تھا اور اب آپ کے پاس بھی اللہ کا حکم آگیا ہے، آپ مجھے کس شخص کی طرف جانے کی وصیت کرتے ہیں اور مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟ اس نے کہا: بیٹے! واللہ میرے علم میں کوئی ایسا شخص نہیں جو اس دین پر ہو جس پر ہم تھے سوائے ایک شخص کے جو نصیبین میں ہے۔ اس کا فلاں نام ہے اس سے جا ملو۔ جب وہ مرگیا اور اسے دفنا دیا گیا تو میں نصیبین والے شخص سے جا ملا۔ میں اس کے پاس آیا اور اپنا واقعہ بتایا اور میرے ساتھی نے مجھے جو حکم دیا تھا۔ اس نے کہا: ٹھیک ہے میرے پاس ٹھہرو۔ میں نے اس کے پاس قیام کیا اور اسے بھی اپنے دونوں ساتھیوں کے دین پر پایا۔ میں نے ایک بہتر شخص کے ساتھ قیام کیا۔ واللہ ابھی تھوڑا ہی وقت گزرا تھا کہ اس کی موت کا وقت بھی آگیا۔ میں نے اس سے کہا: اے فلاں! فلاں شخص نے مجھے فلاں کی طرف وصیت کی، پھر اس نے مجھے آپ کی طرف وصیت کی، آپ کس شخص کی طرف جانے کی وصیت کرتے ہیں؟ اور مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟ اس نے کہا: بیٹے! واللہ میرے علم میں نہیں کہ ہمارے دین پر کوئی شخص باقی ہے جس کے بارے میں تمہیں کہوں کہ تم اس کے پاس جاؤ سوائے ایک آدمی کے جو عموریہ میں ہے، وہ شخص ہمارے دین پر ہے۔ اگر تمہیں پسند ہو تو اس کے پاس چلے جاؤ کیونکہ وہ ہمارے دین پر ہے۔جب وہ مر گیا اور اسے دفنا دیا گیا تو میں عموریہ والے کے پاس چلا گیا اور اپنا واقعہ بتلایا۔ اس نے کہا: میرے پاس قیام کر لو، میں اس شخص کے پاس ٹھہرا رہا جو اپنے ساتھیوں کے دین اور طریقے پر تھا۔ میں نے کمائی بھی کی حتیٰ کہ میری کچھ گائیں اور مال ہو گیا۔ پھر اس پر بھی اللہ کا حکم نازل ہو گیا، جب اس کی موت کا وقت آگیا تو میں نے اس سے کہا: اے فلاں میں فلاں کے پاس تھا، اس نے مجھے فلاں کے پاس جانے کی وصیت کی ،اس نے مجھے کسی اور کے پاس جانے کی وصیت کی، پھر اس نے مجھے آپ کی طرف جانے کی وصیت کی۔ آپ مجھے کس کی طرف جانے کی وصیت کرتے ہیں؟ اور مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟ اس نے کہا: بیٹے! اب ایسا وقت آگیا ہے کہ میرے علم میں کوئی ایسا شخص نہیں جو ہمارے دین پر ہو جس کے بارے میں میں تمہیں کہوں کہ تم اس کے پاس جائو، لیکن اب آخری نبی صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے مبعوث ہونے کا وقت قریب ہے جو دینِ ابراہیم کے ساتھ مبعوث ہوگا، عرب کی سر زمین میں اس کا ظہور ہوگا، دو پہاڑوں کے درمیان والی جگہ کی طرف ہجرت کرے گا جس میں کھجوریں ہیں، اس میں ایسی علامات ہیں جو مخفی نہیں۔ وہ تحفہ قبول کرے گا، صدقہ نہیں کھائے گا، اس کے کاندھوں کے درمیان مہرِ نبوت ہو گی، اگر تم میں اتنی طاقت ہے کہ اس سے جا ملو تو ایسا کر گزرو۔ پھر وہ مر گیا اور اسے دفنا دیا گیا۔ جب تک اللہ نے چاہا میں عموریہ میں ٹھہرا رہا، پھر بنوکلب کا ایک تجارتی قافلہ میرے پاس سے گزراتو میں نے ان سے کہا: تم مجھے سر زمین ِعرب تک لے چلو، میں اپنی ساری گائیں اور بکریاں تمہیں دے دوں گا۔ انہوں نے کہا ٹھیک ہے۔ میں نے انہیں ساری گائیں اور بکریاں دے دیں اور انہوں نے مجھے سوار کر لیا حتیٰ کہ جب وادی قریٰ میں پہنچے تو مجھ پر ظلم کرتے ہوئے ایک یہودی شخص کے ہاتھ غلام بنا کر بیچ دیا۔ میں اس کے پاس ٹھہرا رہا، میں نے کھجوریں دیکھیں، مجھے امید تھی کہ یہ وہی شہر ہے جس کے بارے میں مجھے میرے ساتھی نے بتایا تھا لیکن ابھی مجھے پختہ یقین  نہیں تھا۔ میں اس یہودی کے پاس ہی تھا کہ بنو قریظہ سے تعلق رکھنے والا اس کے چچا کا بیٹا مدینے سے اس کے پاس آیا، اس نے مجھے خرید لیا اور مدینے لے آیا۔ واللہ جب میں نے وہ علاقہ دیکھا تو اپنے ساتھی کے بتائے ہوئے وصف کی بنا پر اسے پہچان لیا۔ میں وہیں ٹھہرا رہا، اللہ نے اپنے رسول کو مکہ میں مبعوث کر دیا اور وہ مکہ میں قیام پذیر رہا جب تک اللہ نے چاہا میں غلامی کی مصیبت میں ہونے کی وجہ سے اس کا تذکرہ نہیں سن سکا۔ پھر اس نے مدینے کی طرف ہجرت کی۔ واللہ میں ایک کھجور کی چوٹی پر چڑھا کوئی کام کر رہا تھا، میرا مالک نیچے بیٹھا ہوا تھا، اچانک اس کے چچا کا بیٹا اس کے سامنے آکر کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا: اللہ بنی قیلہ کو برباد کرے وہ اس وقت قبا میں اس شخص کے پاس جمع ہو رہے ہیں جو آج مکہ سے آیا ہے، ان کا خیال ہے کہ وہ نبی ہے۔ جب میں نے یہ بات سنی تو مجھ پر کپکپی طاری ہوگئی، حتیٰ کہ ایسا محسوس ہونے لگا کہ میں اپنے مالک کے اوپر گر جاؤں گا۔ میں نیچے اترا اور اس کے چچا کے بیٹے سے پوچھنے لگا: تم کیا کہہ رہے تھے؟ تم کیا کہہ رہے تھے؟ میرا مالک غصے میں آ گیا اورایک شدید قسم کا گھونسہ مجھے رسید کیا پھر کہنے لگا: تمہیں اس سے کیا سروکار؟ اپنے کا م پر توجہ دو۔ میں نے کہا: کچھ نہیں میں تو ویسے ہی یہ بات پوچھ رہا تھا۔ میرے پاس کچھ سامان تھا جو میں نے جمع کیا ہوا تھا۔ شام ہوئی تو میں وہ سامان لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے پاس پہنچا۔ آپ قبا میں تھے، میں آپ کے پاس آیا تو کہا: مجھے خبر ملی ہے کہ آپ نیک آدمی ہیں اور آپ کے ساتھ آپ کے غریب حاجتمند ساتھی ہیں، میرے پاس یہ کچھ سامان صدقے کےلیے ہے ، تو میرے خیال میں آپ اس کے زیادہ حقدار ہیں۔ میں نے وہ سامان آپ کی طرف بڑھا دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنے صحابہ سے کہا: کھاؤ اور اپنا ہاتھ روک لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے اس میں سے نہیں کھایا۔ میں نے اپنے دل میں کہا: یہ پہلی نشانی ہے۔ پھر میں واپس لوٹ آیا اور کچھ چیزیں جمع کیں۔ اس وقت تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مدینے پہنچ چکے تھے۔ میں آپ کے پاس آیا اور کہا: میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کو دیکھا کہ آپ صدقہ نہیں کھاتے، یہ آپ کے لئے تحفہ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس میں سے کھا لیا اور اپنے ساتھیوں کو حکم دیا تو انہوں نے بھی اس میں سے کھا لیا۔ میں نے اپنے دل میں کہا : یہ دوسری نشانی ہے۔ پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے پاس آیا، آپ بقیع الغرقد میں تھے اور اپنے کسی صحابی کے جنازے میں شریک تھے۔ آپ کے اوپر دو چادریں تھیں اور آپ صحابہ میں بیٹھے تھے۔ میں نے آپ کو سلام کیا، پھر میں گھوما، آپ کی پشت کی طرف آکر دیکھا کہ کیا میں وہ مہر دیکھ سکتا ہوں جو میرے ساتھی نے مجھے بتائی تھی ۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے مجھے اس طرح گھومتے دیکھا تو جان گئے کہ میں ایسی چیز کا ثبوت تلاش کر رہا ہوں جو مجھے بیان کی گئی ہے۔ آپ نے اپنی کمر سے چادر گرادی میں نے اس مہر کی طرف دیکھا تو پہچان گیا، میں اس سے چمٹ گیا اسے بوسہ دینے لگا اور ساتھ ساتھ رونے لگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے مجھ سے کہا کہ پیچھے ہو جاؤ۔ میں اس سے ہٹ گیا اور آپ کو اپنی داستان سنائی جس طرح اے ابن عباس رضی اللہ عنہما میں نے آپ کو سنائی ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کو یہ بات پسند آئی کہ میں اپنی داستان آپ کے صحابہ کو سناؤں، اس وقت تک میں غلام ہی تھا اور اس وجہ سے غزوہ بدر و احد میں بھی شریک نہ ہو سکا ۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے مجھ سے فرمایا : سلمان! مکاتبت کر لو۔ میں نے اپنے مالک سے پانی کے راستے پر تین سو کھجور کے درخت لگانے اور چالیس اوقیہ چاندی پر مکاتبت کر لی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے صحابہ سے  فرمایا: اپنے بھائی کی مدد کرو، لوگوں نے کھجور کے درختوں کے پنیری کے ساتھ میری مدد کی، کوئی آدمی تیس کھجوریں ، کوئی آدمی بیس، کوئی پندرہ، کوئی دس لے آیا یعنی جس آدمی کی جتنی استطاعت تھی اس نے میری مدد کی، حتیٰ کہ میرے لئے تین سو کھجور کی پنیری جمع ہو گئی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم  نے مجھ سے فرمایا: سلمان جاؤ ان کے لئے گڑھے کھودو، جب گڑھے کھود کر فارغ ہو جاؤ تو میرے پاس آجانا، میں انہیں اپنے ہاتھ سے رکھوں گا۔ میں نے ان کے لئے گڑھے کھودے، میرے ساتھیوں نے میری مدد کی۔جب میں ان سے فارغ ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس آیا اور آپ کو بتایا تو آپ میرے ساتھ نکل پڑے۔ ہم کھجور کے پودے آپ کے قریب کرنے لگے اور رسول اللہ انہیں اپنے ہاتھ سے رکھنے لگے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں سلمان کی جان ہے، ان میں سے ایک پودا بھی نہیں مر جھایا، میں نے وہ کھجوریں اسے دے دیں باقی مال میرے ذمے رہا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے پاس مرغی کے انڈے کے برابر سونے کی ڈلی کسی معرکے میں سے آئی تو آپ نے پوچھا: سلمان فارسی کا کیا حال ہے؟ مجھے بلایا گیا، آپ نے فرمایا : یہ پکڑو اور تم پر جو ہے اسے ادا کردو۔ میں نے کہا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم مجھ پر جو رقم ہے یہ اس کے برابر کہاں پہنچ سکتا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے فرمایا اسے لے لو اللہ عزوجل اس کے ذریعے تمہاری رقم ادا کردے گا ۔ میں نے وہ ڈلی لے لی اور اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں سلمان کی جان ہے، اس ڈلی سے میں نے ان کو چالیس اوقیے وزن کر کے دیے ۔ میں نے ان کا حق انہیں ادا کیا مجھے آزاد کر دیا گیا پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے ساتھ غزوہ خندق میں حاضر ہوا اس کے بعد پھر کسی معرکہ میں بھی پیچھے نہیں رہا۔ (مسند احمد حدیث نمبر 11743)


چونکہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ غریب الدیار تھے اس لیے حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے آپ کی حضرت ابوالدردا رضی اللہ عنہ کے ساتھ مواخات قائم کر دی ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے وصال کے بعد آپ رضی اللہ عنہ کچھ عرصہ مدینہ میں مقیم رہے ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے آخری دور میں آپ رضی اللہ عنہ عراق ہجرت کر گئے جبکہ حضرت ابوالدردا رضی اللہ عنہ نے شام میں سکونت اختیار کی جہاں اللہ پاک نے انہیں کثیر مال و اولاد سے نوازا ۔ انہوں نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو بھی اپنے پاس آنے کی دعوت دیتے ہوئے خط لکھا ’’ آپ سے بچھڑ کر اللہ تعالیٰ نے مجھے کثیر مال و دولت اور اہل و عیال سے سرفراز کیا ہے اور عرضِ مقدس کی سکونت کا شرف عطا ہوا ہے ۔‘‘ اس خط کے جواب میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے انہیں خط لکھا ’’یاد رکھو! مال و اولاد کی کثرت میں کوئی بھلائی نہیں۔ بھلائی اس میں ہے کہ تمہارا حلم زیادہ ہو اور تمہارا علم تمہیں نفع پہنچائے۔ محض ارضِ مقدس میں قیام تمہیں کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتا جب تک تمہارا عمل اس قابل نہ ہو اور عمل بھی اس طرح ہو کہ گویا اللہ تم کو دیکھ رہا ہے اور تم اپنے آپ کو مردہ سمجھو ۔


عہدِ فاروقی رضی اللہ عنہ میں مدائن کے گورنر رہے ۔ شادی بھی وہیں کی ۔ ٹوکریاں بنا کر اپنے روزگار کا بندوبست کرتے ۔ آپ رضی اللہ عنہ کی وفات 35ھ میں ہوئی اور آپ رضی اللہ عنہ کا مزار سلمان پارک مدائن میں ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے طویل عمر پائی ۔ بعض روایات کے مطابق آپ رضی اللہ عنہ کی عمر تین سو پچاس سال جبکہ بعض روایات کے مطابق دو سو پچاس سال ہے ۔ لیکن زیادہ اتفاق دو سو پچاس سال پر ہے ۔ 


حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا مقام و مرتبہ بہت بلند ہے ۔ آپ کا شمار اصحابِ صفہ رضی اللہ عنہم میں ہوتا ہے ۔ آپ رضی اللہ عنہ کا فارسی نام ’مابہ‘ تھا ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے ہی آپ رضی اللہ عنہ کا نام سلمان رکھا اور ’سلمان الخیر‘ کا لقب بھی عطا فرمایا ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم سے کثیر علم حاصل کیا اور آپ رضی اللہ عنہ سے بہت سی روایات مروی ہیں ۔


حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ رات میں بالکل ہی اکیلے صحبتِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم سے مستفید ہوا کرتے تھے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے کہ سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے علم ِ اوّل بھی سیکھا اور علمِ آخر بھی ۔ اور وہ ہم اہل ِبیت میں سے ہیں ۔ معاملہ کچھ اس طرح ہے کہ مہاجرین کا کہنا تھا کہ سلمان فارسی رضی اللہ عنہم ان میں سے ہیں جبکہ انصار کا کہنا تھا کہ سلمان فارسی رضی اللہ عنہم ان میں سے ہیں ۔ جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم تک یہ بات پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ سلمان رضی اللہ عنہ ہم اہلِ بیت میں سے ہیں ۔


سلسلہ نقشبندیہ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا نام ہی آتا ہے ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ دینِ حق میں سبقت لے جانے والے اور دوسروں سے آگے بڑھ جانے والے چار لوگ ہیں ۔ میں عرب والوں سے سبقت لے جانے والا ہوں ، صہیب روم والوں سے، سلمان فارس والوں سے اور بلال حبشہ والوں سے ۔ (المستدرک حاکم)


سیدّنا بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’بیشک اللہ تعالیٰ میرے چار صحابہ سے محبت رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے مجھے بتلایا ہے کہ وہ ان سے محبت رکھتا ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ میں بھی ان سے محبت رکھوں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دریافت کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم وہ کون کون ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’ علی ، ابوذر غفاری ، سلمان فارسی اور مقداد بن اسود کندی رضی اللہ عنہم ۔ (مسند احمد حدیث نمبر 11897)


راہِ فقر راہِ حق ہے اور یہ انہی کو نصیب ہوتی ہے جو اللہ کی تلاش میں نکلتے ہیں۔ محض وظائف کرلینے یا علوم سیکھنے سے اللہ کی معرفت حاصل نہیں ہوتی اور نہ ہی قرب و وصال نصیب ہوتا ہے ۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی مثال ہمارے سامنے ہے جنہوں نے کسی بھی مقام پر تلاشِ حق کے سفر کو ترک نہیں کیا اور نہ ہی ان کی جستجو کم ہوئی بلکہ وہ مزید شوق اور ولولے سے آگے بڑھتے رہے ، مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا ، ایک بااثر اور زمیندار گھرانے سے تعلق ہونے کے باوجود غلامی کی زندگی بھی بسر کی، اذیتیں سہیں، مصائب کا سامنا کیا اور طویل سفر بھی اختیار کیے ۔ اصفہان سے شام ، شام سے موصل ، نصیبین ، عموریہ ، ام القریٰ اور پھر یثرب ۔ یہ سفر کوئی معمولی سفر نہیں ہے کیونکہ اس وقت آج کے جدید دور کی طرح تیز رفتار سواریاں دستیاب نہیں تھیں ۔ پھر آج لوگ تلاشِ حق کی جستجو نہیں کرتے ، یہ کیوں چاہتے ہیں کہ گھر بیٹھے سب کچھ مل جائے ۔ اگر روزگار کی تلاش میں گھر سے نکلا جا سکتا ہے تو تلاشِ حق کے لیے کیوں نہیں ؟ ملازمت اور کاروبار کےلیے دوسرے شہروں اور ملکوں تک کا سفر کیا جا سکتا ہے تو مالکِ حقیقی کے عرفان کےلیے گھر سے نکلنا کیوں دشوار محسوس ہوتا ہے ؟ خوابِ غفلت سے جاگیں ، یہ دنیا عارضی اور چند روزہ ہے جس کے بعد ہمیں اپنے خالق اور مالکِ حقیقی کے روبرو حاضر ہونا ہے ۔ اس وقت نہ کوئی بہانہ کام آئے گا اور نہ کوئی حیلہ ۔ لہٰذا ابھی بھی وقت ہے اللہ کی معرفت حاصل کرنے کےلیے مرشد کاملِ اکمل کو تلاش کریں جس طرح حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے اپنے مرشد یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تلاش کیا ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ راہِ حق کے متلاشیوں کو ان کی منزل تک پہنچائے ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق محترم قارئین کرام : علامہ اقبال اور قائداعظم کے خلاف فتوی دینے کے سلسلے میں تج...