شَعبانُ المعظم کی فضیلت و اہمیت ، نوافل اور عبادات شب برات حصّہ ہفت
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور اولیائے عِظام رحمہم اللہ علیہم اور شبِ برات : اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اُمت کو بےشمار فضیلتوں اور انعامات سے نوازا جو سابقہ امتوں کو عطا نہیں فرمائے گئے تھے۔ خالقِ دو جہاںنے سابقہ امتوں کو طویل عمریں عطا فرمائی تھیں جن میں وہ کثرت سے نیک اعمال بجا لاتے اور اپنے نامۂ اعمال میں بیش بہا اضافہ کرتے ، لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی اور رضا کےلیے امتِ محمدیہ پر اپنا خصوصی فضل و کرم فرماتے ہوئے اسے عمریں تو مختصر دیں مگر بدلے میں ایسی مقدس راتیں عطا فرما دیں جن میں سے ایک ایک رات فضیلت اور برکت میں ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور اولیائے عِظام رحمہم اللہ علیہم شعبانُ الْمُعَظَّم بالخصوص اس کی پندرھویں (15ویں) رات میں عبادات کا اہتمام فرمایا کرتے تھے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معمولات کے متعلق اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شعبانُ الْمعظّم سے زیادہ کسی مہینے میں روزہ رکھتے نہ دیکھا ۔ (جامع ترمذی جلد 2 صفحہ 182 حدیث نمبر 736)
اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا مزید فرماتی ہیں : ایک رات میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہ پایا ۔ میں آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تلاش میں نکلی تو آپ مجھے جنّتُ البقیع میں مل گئے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیشک اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرھویں (15ویں) رات آسمانِ دنیا پر تجلّی فرماتا ہے، پس قبیلۂ بنی کَلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ لوگوں کو بخش دیتا ہے ۔(ترمذی جلد 2 صفحہ 183 حدیث نمبر 739) ۔ معلوم ہوا کہ شبِ براءت میں عبادات کرنا ، قبرستان جانا سنّت ہے ۔ (مراٰۃ المناجیح جلد 2 صفحہ 290،چشتی)
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرمان : یُعْجِبُنِي أَنْ یُفَرِّغَ الرَّجُلُ نَفْسَهٗ فِي أَرْبَعِ لَیَالٍ : لَیْلَةُ الْفِطْرِ، وَلَیْلَةُ الأَضْحٰی ، وَلَیْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ ، وَأَوَّلُ لَیْلَةٍ مِنْ رَجَبٍ ۔
ترجمہ : مجھے یہ بات پسند ہے کہ ان چار راتوں میں آدمی خود کو (تمام دنیاوی مصروفیات سے عبادت الٰہی کے لیے) فارغ رکھے۔ (وہ چار راتیں یہ ہیں:) عید الفطر کی رات ، عید الاضحی کی رات ، شعبان کی پندرہویں رات اور رجب کی پہلی رات ۔ (ابن جوزی التبصرة جلد 2 صفحہ 21)
حضرت طاؤس یمانی علیہ الرّحمہ فرماتے ہیں کہ میں نے امام حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے پندرہ شعبان کی رات اور اس میں عمل کے بارے میں پوچھا تو آپ نے ارشاد فرمایا : میں اس رات کو تین حصوں میں تقسیم کرتا ہوں : ایک حصے میں اپنے نانا جان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود شریف پڑھتا ہوں ۔ دوسرے حصے میں اللہ تعالیٰ سے اِستغفار کرتا ہوں ۔
تیسرے حصے میں نماز پڑھتا ہوں ۔ میں نے عرض کیا : جو شخص یہ عمل کرے اس کےلیے کیا ثواب ہوگا ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے سنا اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اسے مقربین لوگوں میں لکھ دیا جاتا ہے ۔ (سخاوی، القول البدیع، باب الصلاة علیه صلی الله علیه وآله وسلم فی شعبان صفحہ 207)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا فرمان : خَمْسُ لَیَالٍ لَا یُرَدُّ فِیهِنَّ الدُّعَاءُ: لَیْلَةُ الْجُمُعَةِ، وَأَوَّلُ لَیْلَةٍ مِنْ رَجَبٍ، وَلَیْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، وَلَیْلَةُ الْعِیْدِ وَلَیْلَةُ النَّحْرِ ۔
ترجمہ : پانچ راتیں ایسی ہیں جن میں دعا رد نہیں ہوتی: جمعہ کی رات، رجب کی پہلی رات، شعبان کی پندرہویں رات، عید الفطر کی رات اور عید الاضحی کی رات ۔ (بیهقی، شعب الایمان جلد 3 صفحہ 342 رقم : 3713)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا فرمان : ایک آدمی لوگوں کے درمیان چل رہا ہوتا ہے ، حالانکہ وہ مُردوں میں اٹھایا ہوا ہوتا ہے ، پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی : اِنَّـآ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةٍ مُّبٰـرَکَةٍ اِنَّا کُنَّا مُنْذِرِیْنَ ۔ فِیْهَا یُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍ حَکِیْمٍ ۔ ترجمہ : بے شک ہم نے اسے ایک با برکت رات میں اتارا ہے بے شک ہم ڈر سنانے والے ہیں ۔ اس (رات) میں ہر حکمت والے کام کا (جدا جدا) فیصلہ کر دیا جاتاہے ۔ (سورہ الدخان، 44: 3-4) ۔ پھر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : اس رات میں ایک سال سے دوسرے سال تک دنیا کے معاملات کی تقسیم کی جاتی ہے ۔ (طبری ، جامع البیان جلد 25 صفحہ 109،چشتی)
حضرت اَنس رضی اللہ عنہ کا فرمان : أَرْبَعٌ لَیَالِیْهِنَّ کَأَیَّامِهِنَّ وَأَیَّامُهُنَّ کَلَیَالِیْهِنَّ، یُبِرُّ ﷲُ فِیْهِنَّ الْقَسَمَ، وَیُعْتِقُ فِیْهِنَّ النَّسَمَ، وَیُعْطِي فِیْهِنَّ الْجَزِیْلَ، لَیْلَةُ الْقَدْرِ وَصَبَاحُهَا، وَلَیْلَةُ عَرَفَة وَصَبَاحُهَا، وَلَیْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ وَصَبَاحُهَا، وَلَیْلَةُ الْجُمْعَةِ وَصَبَاحُهَا ۔
ترجمہ : چار دن ایسے ہیں کہ ان کی راتیں (فضیلت میں) ان کے دنوں کی طرح ہیں اور ان کے دن (فضیلت میں) ان کی راتوں کی طرح ہیں ۔ ان میں ﷲ تعالیٰ (اپنے بندوں کی) قسم کو پورا کر دیتا ہے اور ان میں لوگوں کو (جہنم سے) آزاد فرما دیتا ہے اور ان میں بہت زیادہ اجر و ثواب عطا فرماتا ہے (وہ راتیں اور دن یہ ہیں) : شبِ قدر اور اس کا دن، شب عرفہ اور اس کا دن،شبِ برأت اور اس کا دن اور جمعہ کی رات اور جمعہ کا دن ہے ۔ (کنزل العمال جلد 12 صفحہ 144 رقم : 35214)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے علاوہ تابعین ، تبع تابعین ائمہ کرام اور امت مسلمہ کے اکابرین علیہم الرّحمہ کا ہمیشہ سے اس رات میں شب بیداری کا معمول رہا ہے۔ ذیل میں چند ائمہ کرام کے معمولات و آراء ذکر کئے جارہے ہیں : ⬇
امام ابن رجب حنبلی ، امام عسقلانی اور ابن الجوزی علیہم الرّحمہ بیان کرتے ہیں : حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ بصرہ میں اپنے عمال (گورنروں) کو لکھتے تھے : عَلَیْکَ بَأَرْبَعِ لَیَالٍ مِنَ السَّنَةِ فَإِنَّ ﷲَ یُفَرِّغُ فِیْهِنَّ الرَّحْمَةَ إِفْرَاغًا: أَوَّلُ لَیْلَةٍ مِنْ رَجَبٍ، وَلَیْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، وَلَیْلَةُ الْفِطْرِ، وَلَیْلَةُ الأَضْحٰی ۔
ترجمہ : تم پر لازم ہے کہ سال میں (شب قدر کے علاوہ) چار راتوں کو اہتمام کے ساتھ منایا کرو ۔ یقینا ان راتوں میں ﷲ تعالیٰ کی رحمت وافر مقدار میں عطا ہوتی ہے۔ رجب کی پہلی رات نصف شعبان کی رات، عید الفطر کی رات اور عید الاضحی کی رات ۔ (ابن رجب حنبلی، لطائف المعارف صفحہ 137)
حضرت امام محمد بن ادریس الشافعی علیہ الرّحمہ (م204ھ) فرماتے ہیں : وَبَلَغَنَا أَنَّهٗ کَانَ یُقَالُ إِنَّ الدُّعَاءَ یُسْتَجَابُ فِي خَمْسِ لَیَالٍ: فِي لَیْلَةِ الْجُمُعَةِ، وَلَیْلَةِ الْأَضْحٰی، وَلَیْلَةِ الْفِطْرِ، وَأَوَّلِ لَیْلَةٍ مِنْ رَجَبٍ، وَلَیْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ ۔
ترجمہ : ہمیں یہ خبر ملی کہ کہا جاتا تھا : بے شک دعا پانچ راتوں میں قبول ہوتی ہے : جمعہ کی رات، عید الاضحی کی رات، عید الفطر کی رات، ماهِ رجب کی پہلی رات اور ماهِ شعبان کی پندرہویں رات ۔ (شعب الایمان جلد 3 صفحہ 341 رقم : 3711)
حضرت ابن کُردُوس علیہ الرّحمہ بیان کرتے ہیں : مَنْ أَحْیٰی لَیْلَةَ الْعِیْدَیْنِ وَلَیْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ لَمْ یَمُتْ قَلْبُهٗ یَوْمَ تَمُوْتُ الْقُلُوْبُ ۔
ترجمہ : جس نے دونوں عیدوں (عید الاضحی اور عید الفطر) کی رات اور پندرہ شعبان کی رات کو (عبادت کر کے) زندہ رکھا اس کا دل اُس دم بھی مردہ نہیں ہوگا جس دن (سب کے) دل مردہ ہو جائیں گے ۔ (کنزالعمال جلد 8 صفحہ 251 رقم : 24107،چشتی)
حضرت شیخ محی الدین عبد القادر الجیلانی رحمۃ اللہ علیہ (م 561ھ) نے ’غنیۃ الطالبین‘ میں شب برأت کی فضیلت پر پورا باب قائم کیا ہے اور کثرت کے ساتھ اَحادیث مبارکہ اور ان کے لطائف و معارف بیان فرمائے ہیں ۔ آپ فرماتے ہیں : جس طرح مسلمانوں کے لیے زمین پر دو عیدیں ہیں۔ اسی طرح فرشتوں کی آسمان میں دو عیدیں ہیں۔ فرشتوں کی وہ دو عیدیں شب برأت اور شبِ قدر ہیں اور مومنین کی عیدیں عید الفطر اور عید الاضحی ہیں۔ فرشتوں کی عیدیں رات کو اس لیے ہیں کہ وہ سوتے نہیں اور مومنوں (انسانوں) کی عیدیں دن کو اس لیے ہیں کہ وہ رات کو سوتے ہیں ۔
علامہ ابن تیمیہ (م 728ھ) جن کی تعلیمات پر پورے سعودی عرب کے علماء اور ان کے فتاویٰ کا دار و مدار ہے ۔ نے ’مجموع الفتاوی‘ اور ’اقتضاء الصراط المستقیم‘ میں اس رات کی فضیلت و اہمیت کے حوالے سے نہایت تفصیل سے لکھا ہے۔ علامہ ابن تیمیہ ’اقتضاء الصراط المستقیم‘ میں لکھتے ہیں : اس باب میں شعبان کی پندرھویں رات بھی ہے، اس کی فضیلت میں مرفوع احادیث اور کئی آثار روایت کیے گئے ہیں، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ بڑی فضیلت والی رات ہے، بعض علماء سلف اس فضیلت کو اس رات کی نماز کے ساتھ خاص کرتے ہیں۔ ماهِ شعبان کے روزے کے بارے میں صحیح احادیث وارد ہوئی ہیں ۔ آگے جاکر مزید لکھتے ہیں : ہمارے مسلک اور دوسرے مسلک کے کثیر یا اکثر اہلِ علم کا اس کی فضیلت پر اتفاق ہے ۔ اس بارے میں بہت ساری احادیث وارد ہونے کی وجہ سے امام احمد بن حنبل کی حدیث (اس رات کی فضیلت پر) دلالت کرتی ہے اور ائمہ اسلاف کے آثار سے اس کی تصدیق بھی ہوتی ہے۔ چنانچہ اس کے بعض فضائل کتب سنن و مسانید میں روایت کیے گئے ہیں ۔ (اقتضاء الصراط المستقیم جلد 1 صفحہ 302،چشتی)
امام العبدری الفاسی الشہیر بابن الحاج مالکی رحمۃ اللہ علیہ ( م 737ھ) شب برأت کے متعلق اَسلاف کا نظریہ بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں : فَهٰذِهِ اللَّیْلَةُ وَإِنْ لَمْ تَکُنْ لَیْلَةُ الْقَدْرِ فَلَهَا فَضْلٌ عَظِیْمٌ وَخَیْرٌ جَسِیْمٌ وَکَانَ السَّلَفُ یُعَظِّمُوْنَهَا وَیُشَمِّرُوْنَ لَهَا قَبْلَ إِتْیَانِهَا فَمَا تَأْتِیْهِمْ إِلَّا وَهُمْ مُتَأَهَبُوْنُ لِلِقَائِهَا وَالْقِیَامِ بِحُرْمَتِهَا عَلٰی مَا قَدْ عُلِمَ مِنِ احْتِرَامِهِمْ لِلشَّعَائِرِ عَلٰی مَا تَقَدَّمَ ذِکْرُهٗ هٰذَا هُوَ التَّعْظِیْمُ الشَّرْعِيِّ لِهٰذِهِ اللَّیْلَةِ ۔
ترجمہ : اور یہ (شعبان کی پندرہویں رات) اگرچہ شب قدر کی رات نہیں ہے ۔ مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ رات بڑی با برکت اور اللہ تعالیٰ کے یہاں بڑی عظمت والی ہے ۔ اور (ہمارے) اسلاف اس رات کی بڑی تعظیم کیا کرتے تھے اور اس کے آنے سے پہلے ہی اس کے اِستقبال کےلیے تیاری کیا کرتے تھے ، جب یہ رات آتی تھی تو وہ اس کی ملاقات اور اس کی حرمت و عظمت بجا لانے کےلیے مستعد ہو جاتے تھے ، کیونکہ یہ بات معلوم ہو چکی ہے کہ وہ شعائر اللہ کا بہت احترام کرتے تھے جیسا کہ اس کا ذکر گزر چکا ۔ اور وہ اس رات کے لیے تعظیم شرعی تھی ۔ (المدخل جلد 1 صفحہ 299)
یاد رہے کہ علامہ ابن الحاج المالکی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ بیان کوئی معمولی حیثیت نہیں رکھتا ، آپ یہ بیان اس کتاب میں دے رہے ہیں جو آپ نے خاص طور پر بدعات کی تردید میں لکھی ہے ۔ اس کتاب میں آپ شبِ برأت کو شعائر ﷲ قرار دیتے ہوئے اس کے متعلق اَسلاف علیہم الرّحمہ کا نظریہ اور طریقہ ذکر کر رہے ہیں کہ ہمارے اسلاف اس رات کی تعظیم کرتے تھے اور اس کے آنے سے پہلے ہی اس کے استقبال کے لیے تیاری کیا کرتے تھے ۔
امام ابن رجب حنبلی رحمۃ اللہ علیہ (م 795ھ) - جو کہ علامہ ابن تیمیہ کے شاگرد ہیں - نے اپنی معروف کتاب ’لطائف المعارف‘ میں ’’اَلْمَجْلِسُ الثَّانِي فِي نِصْفِ شَعْبَانَ‘‘ کے عنوان سے باب قائم کیا اور اس میں شبِ برأت کی فضیلت پر نہایت تفصیل سے گفتگو کی ہے اور احوالِ سلف کا تذکرہ کیا ہے ۔ اس میں فرماتے ہیں : ایک قول یہ ہے کہ اس رات کو مسجد میں شب بیداری کے لیے اجتماع کرنا مستحب عمل ہے۔ چنانچہ حضرت خالد بن معدان، اور لقمان بن عامر وغیرہ تابعین اس رات اعلیٰ لباس زیب تن فرماتے، خوشبو اور سرمہ لگاتے اور اس رات مسجد میں قیام اللیل فرماتے۔ اس پر امام اسحاق بن راہویہ نے ان کی موافقت کی ہے اور کہا ہے کہ اس رات کو مساجد میں قیام کرنا بدعت نہیں ہے ۔ (لطائف المعارف صفحہ 137)
امام احمد رضا خان خان قادری رحمۃ اللہ علیہ (1440ھ) ’فتاوی رضویہ‘ میں فرماتے ہیں : پندرہ راتوں میں شب بیداری مستحب ہے ۔ آگے چل کر فرمایا : ان میں ایک شعبان المعظم کی پندرھویں رات ہے۔ اس میں شب بیداری کرنا مستحب ہے ۔ اس میں مشائخ کرام سو رکعت ہزار مرتبہ قُلْ هُوَ ﷲُ أَحَدٌ کے ساتھ ادا کرتے ، ہر رکعت میں دس دفعہ قُلْ هُوَ ﷲُ أَحَدٌ پڑھتے ۔ اس نماز کا نام انہوں نے صلوٰۃ الخیر رکھا تھا ، اس کی برکت مسلّمہ تھی ، اس رات (یعنی پندرہ شعبان) میں اجتماع کرتے اور احیاناً اس نماز کو با جماعت ادا کرتے تھے ۔ (فتاویٰ رضویه جلد 7 صفحہ 418،چشتی)
بزرگانِ دین کے معمولات بزرگانِ دین رحمہم اللہ علیہم بھی یہ رات عبادتِ الٰہی میں بسر کیا کرتے تھے حضرت خالد بن مَعدان ، حضرت لقمان بن عامر اور دیگر بزرگانِ دین رحمہم اللہ علیہم شعبانُ المُعَظَّم کی پندرھویں (15ویں) رات اچّھا لباس پہنتے ، خوشبو ، سُرمہ لگاتے اور رات مسجد میں (جمع ہو کر) عبادت کیا کرتے تھے ۔ (ماذا فی شعبان صفحہ 75)
امیرُالْمُؤمِنِین حضرت عمر بن عبدالعزیز علیہ رضی اللہ عنہ بھی شبِ براءت میں عبادت میں مصروف رہا کرتے تھے ۔ (تفسیرروح البیان پارہ 25 سورہ الدخان الآیۃ : 3 جلد 8 صفحہ 402،چشتی)
اہلِ مکّہ کے معمولات تیسری صدی ہجری کے بزرگ ابو عبدالله محمد بن اسحاق فاکِہی علیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جب شبِ براءت آتی تو اہلِ مکّہ کا آج تک یہ طریقۂِ کار چلا آ رہا ہےکہ مسجد ِحرام شریف میں آجاتے اور نَماز ادا کرتے ہیں ، طواف کرتے اور ساری رات عبادت اور تلاوتِ قراٰن میں مشغول رہتےہیں ، ان میں بعض لوگ 100 رکعت (نفل نماز) اس طرح ادا کرتے کہ ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد دس مرتبہ سورۂ اخلاص پڑھتے۔ زم زم شریف پیتے ، اس سے غسل کرتے اور اسے اپنے مریضوں کےلیے محفوظ کر لیتے اور اس رات میں ان اعمال کے ذریعے خوب برکتیں سمیٹتے ہیں ۔ (اخبارِ مکہ جز 3 جلد 2 صفحہ 84)
اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں : اللہ تعالیٰ چار راتوں میں (خصوصی طور پر) بھلائیوں کے دروازے کھول دیتا ہے (1) عید الاضحیٰ کی رات ، (2) عید الفطر کی رات ، (3) شعبان کی پندرہویں رات کہ اس رات میں مرنے والوں کے نام اور لوگوں کا رزق اور (اس سال) حج کرنے والوں کے نام لکھے جاتے ہیں ، (4) عرَفہ (نو ذو الحجہ) کی رات اذانِ فجر تک ۔ (تفسیر الدر المنثور)
یعنی بہت سی راتوں میں سے صرف ایک شبِ قدر ہی کو دیکھا جائے تو فضیلت و برکت کے اعتبار سے وہی ہزار مہینوں سے بہتر ہے ۔ ایسی ہی بابرکت راتوں میں سے ایک رات ، پندرہ شعبان المعظم کی شب ہے ۔ عرفِ عام میں اسے شبِ برأت یعنی دوزخ سے نجات اور آزادی کی رات بھی کہتے ہیں ، کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد مبارک کے مطابق اس رات رحمتِ خداوندی کے طفیل لاتعداد انسان دوزخ سے نجات پاتے ہیں ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نصف شعبان کی رات اللہ تعالیٰ قبیلہ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے بھی زیادہ لوگوں کی بخشش فرماتا ہے ۔ (شعب الایمان)
اللہ تعالیٰ نے شبِ برأت کو ظاہر کیا اور شبِِ قدر کو پوشیدہ رکھا ۔ اس لیے کہ شبِِ قدر رحمت ، بخشش اور جہنم سے آزادی کی رات ہے ، اللہ تعالیٰ نے اسے مخفی رکھا تاکہ لوگ اس پر بھروسہ کرکے نہ بیٹھ جائیں اور شبِِ برأت کو ظاہر کیا کیوں کہ وہ فیصلے ، قضا ، قہر و رضا ، قبول و ردّ ، نزدیکی و دوری ، سعادت و شقاوت اور پرہیزگاری کی رات ہے ۔ کتنے ہی لوگوں کا کفن بُنا جا رہا ہے اور وہ بازاروں میں مشغول ہیں ، کتنی قبریں کھودی جارہی ہیں لیکن قبر میں دفن ہونے والا اپنی بے خبری کے باعث خوشی اور غرور میں ڈوبا ہوا ہے ، کتنے ہی چہرے کھلکھلا رہے ہیں حالانکہ وہ ہلاکت کے قریب ہیں ، کتنے مکانوں کی تعمیر مکمل ہو گئی لیکن ان کا مالک موت کے قریب پہنچ چکا ہے ۔
لہٰذا ان مقدس راتوں میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اجتماعی طور پر مغفرت طلب کرنی چاہیے اور ایسی راتوں کو شبِ توبہ اور شبِ دعا کے طور پر منایا جانا چاہیے تاکہ اللہ رب العزت ہمارے حال پر خصوصی فضل و کرم فرمائے اور اپنے اعمال کے سبب آج ہم انفرادی و اجتماعی طور پر جس ذلت و رسوائی ، بے حسی ، بدامنی ، خوف و دہشت گردی اور بے برکتی کی زندگی بسر کر رہے ہیں اس سے ہمیں چھٹکارا اور نجات عطا فرمائے ۔
شعبان کی پندرہویں شب کے بارے میں وارد ہونے والی اَحادیث مبارکہ کے مطالعہ سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ اس مقدس رات قبرستان جانا، کثرت سے اِستغفار کرنا، شب بیداری اور کثرت سے نوافل ادا کرنا اور اس دن روزہ رکھنا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معمولاتِ مبارکہ میں سے تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت مبارکہ کی اتباع میں یہی معمولات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، تابعین، اتباع تابعین اور ائمہ سلف کے بھی ہمیشہ سے رہے ہیں اور آج تک تسلسل سے چلے آرہے ہیں۔
صدرِ اوّل سے ہی ائمہ و اَسلاف علیہم الرّحمہ نہ صرف اس پر عمل کرتے آئے ہیں بلکہ اپنی تصنیفات و تالیفات میں اس کا ذکر بھی کرتے آئے ہیں۔ ان میں سے چند اہم کتابیں درج ذیل ہیں : ⬇
امام ابوبکر عبد اللہ بن محمد القرشی ابن ابی الدنیا (208-281ھ) نے ’کتاب التھجد وقیام اللیل‘ کے نام سے کتاب لکھی۔
امام ابو عبد الرحمن احمد بن شعیب النسائی (215-303ھ) نے ’عمل الیوم واللیلۃ‘ کے نام سے کتاب تالیف کی اور جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے کہ اس میں انہوں نے شب و روز کے مسنون اعمال و اذکار اور ان کے فضائل کا بیان کیا۔
امام احمد بن محمد الدینوری ابن السنی (284-364ھ) نے ’عمل الیوم واللیلۃ‘ عنوان سے کتاب لکھی۔
امام ابو بکر احمد بن حسین بیہقی (384-458ھ) نے ’فضائل الأوقات‘ اور ’شعب الإیمان‘ وغیرہ تالیف فرمائیں۔
الشیخ محی الدین عبد القادر الجیلانی (م 561 ھ) نے ’غنیۃ الطالبین‘ تالیف فرمائی۔
امام محمد بن عبد الواحد ضیاء مقدسی (569-643ھ) نے ’فضائل الأعمال‘ تالیف کی۔
امام ابو محمد عبد العظیم بن عبد القوی منذری (581-656ھ) نے ’الترغیب والترہیب‘ لکھی۔
امام ابو زکریا یحییٰ بن شرف النووی (631-677ھ) ’الأذکار من کلام سید الأبرار‘ کے عنوان سے معروف زمانہ کتاب تالیف فرمائی۔
ابو الفرج عبد الرحمن بن احمد ابن رجب حنبلی (736-795ھ) نے ’لطائف المعارف فیما لمواسم العام من الوظائف ‘ کے نام سے کتاب لکھی۔
شیخ عبد الحق محدث دہلوی (م 1052ھ) نے ’ما ثبت بالسنۃ في أیام السنۃ‘ لکھی ۔ (رحمہم اللہ علیہم اجمعین)
اور اشرف علی تھانوی دیوبندی (1362ھ) نے ’زوال السِنۃ عن أعمال السَنۃ‘ مرتب کی ۔
جیسا کہ ہم سابقہ مضامین میں عرض کر چکے ہیں دس کے قریب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مختلف سندوں کے ساتھ درجنوں کتب احادیث میں مختلف مضامین سے شب برأت اور اس کی اہمیت و فضیلت پر یہ احادیث وارد ہوئی ہیں ۔ لیکن پھر بھی اس حوالے سے یہ کہنا کہ فلاں حدیث میں ضعف ہے یہ فقط ہٹ دھرمی یا کم علمی ہے ۔ جمیع محدثین علیہم الرّحمہ کے ہاں اُصولِ حدیث کا متفق علیہ قاعدہ ہے کہ فضائلِ اَعمال میں حدیثِ ضعیف بھی مقبول ہوتی ہے جبکہ شبِ برأت کے حوالے سے تو کثیر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے روایات مروی ہیں ۔ لہٰذا یہ تصور ذہن میں نہیں آنا چاہیے کہ کسی ایک روایت اور سند پر کسی ایک نے لکھ دیا کہ اس میں ضعف ہے تو معاذ ﷲ اسے اٹھا کر پھینک دیا جائے ۔ لوگوں کو یہ بھی معلوم نہیں کہ ضعف کسے کہتے ہیں ؟ ضعیف حدیث ، موضوع روایت کو نہیں کہتے ۔ یہ بھی واضح رہے کہ ضعف کبھی حدیث کے متن و مضمون (الفاظ) میں نہیں ہوتا ، بلکہ ضعف اس کی اسناد میں کسی وجہ سے ہوتا ہے اور اگر ایک سبب سے ایک سند میں ضعف ہے اور دوسری سند اس سے قوی آ جائے تو اس پہلی سند کا ضعف بھی ختم ہو جاتا ہے۔ بعض لوگ صرف اپنی کم علمی کی وجہ سے لوگوں کے ذہنوں کو پراگندہ کرتے رہتے ہیں ۔
محترم قارئینِ کرام : شبِ برأت پر کثیر تعداد میں مروی احادیث ، تعاملِ صحابہ ، تابعین ، تبع تابعین ، ائمہ سلف ، فقہاء رضی اللہ عنہم صرف اس لیے نہیں ہیں کہ کوئی بھی بندہ فقط ان کا مطالعہ کر کے یا بنا مطالعہ کے ہی انہیں قصے ، کہانیاں سمجھتے ہوئے ان سے صرفِ نظر کرے بلکہ ان کے بیان سے مقصود یہ ہے کہ انسان اپنے مولا خالقِ کائنات کے ساتھ اپنے ٹوٹے ہوئے تعلق کو پھر سے اُستوار کرے جو کہ اس رات اور اس جیسی دیگر روحانی راتوں میں عبادت سے باسہولت میسر آ سکتا ہے ۔ اِن بابرکت راتوں میں رحمتِ الٰہی اپنے پورے جوبن پر ہوتی ہے اور اپنے گناہ گار بندوں کی بخشش و مغفرت کےلیے بے قرار ہوتی ہے ، لہٰذا اس رات میں قیام کرنا ، کثرت سے تلاوتِ قرآن ، ذکر ، عبادت اور دعا کرنا مستحب ہے اور یہ اَعمال احادیثِ مبارکہ اور سلف صالحین علیہم الرّحمہ کے عمل سے ثابت ہیں ۔ اس لیے جو شخص بھی اس شب کو یا اس میں عبادت کو بدعتِ ضلالۃ کہتا ہے وہ درحقیقت احادیثِ صحیحہ اور اعمالِ سلف صالحین کا منکر اور فقط ہوائے نفس کی اتباع اور اطاعت میں مشغول ہے ۔ یہ اَمر بھی قابلِ غور ہے کہ جو عمل خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ثابت ہو ، تابعین ، اتباع تابعین اور اسلاف امت علیہم الرّحمہ اس پر شروع سے ہی عمل پیرا رہے ہوں ، فقہائے کرام جسے مستحب قرار دیتے ہوں ، کیا وہ عمل بدعت ہو سکتا ہے ؟ اگر ایسا عمل بھی بدعت ہے تو پھر سنت و مستحب عمل کیا ہوگا ؟
الغرض قرونِ اولیٰ سے عصر حاضر تک اکابرین امت ، مجددین ملت اور علماء حق امت علیہم الرحمہ کی اعتقادی ، فکری اور روحانی اصلاح کا فریضہ سرانجام دیتے آئے ہیں اور دیتے رہیں گے ان شاء اللہ ۔ انہوں نے اس مقصد کےلیے یہ ذخائر علمیہ مہیا فرمائے ۔ اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو اور اُن صدقے ہم پر بھی رحمت ہو آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment