Tuesday, 14 February 2023

معراج النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حصّہ دوم

معراج النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حصّہ دوم

واقعہ معراج اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے ۔ چشم زدن میں عالم بالا کا نقشہ بدل گیا ۔ حکم ربی ہوا : اے جبرائیل ! اپنے ساتھ ستر ہزار فرشتے لے جاؤ ۔ حکم الہٰی سن کر جبریل امین علیہ السلام سواری لینے جنت میں جاتے ہیں اور آپ نے ایسی سواری کا انتخاب کیا جو آج تک کسی شہنشاہ کو بھی میسر نہ ہوئی ہوگی ۔ میسر ہونا تو دور کی بات ہے دیکھی تک نہ ہوگی ۔ اس سواری کا نام براق ہے ۔ تفسیر روح البیان میں ہے کہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے براق پر کوئی سوار نہیں ہوا ۔ ماہ رجب کی ستائیسویں شب کس قدر پرکیف رات ہے مطلع بالکل صاف ہے فضاؤں میں عجیب سی کیفیت طاری ہے۔ رات آہستہ آہستہ کیف و نشاط کی مستی میں مست ہوتی جارہی ہے ۔ ستارے پوری آب و تاب کے ساتھ جھلملا رہے ہیں ۔ پوری دنیا پر سکوت و خاموشی کا عالم طاری ہے ۔ نصف شب گزرنے کو ہے کہ یکا یک آسمانی دنیا کا دروازہ کھلتا ہے ۔ انوار و تجلیات کے جلوے سمیٹے حضرت جبرائیل علیہ السلام نورانی مخلوق کے جھرمٹ میں جنتی براق لیے آسمان کی بلندیوں سے اتر کر حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لاتے ہیں ۔ جہاں ماہِ نبوت حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم محو خواب ہیں ۔ آنکھیں بند کیے ، دلِ بیدار لیے آرام فرمارہے ہیں ۔ حضرت جبرائیل امین ہاتھ باندھ کر کھڑے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ اگر آواز دے کر جگایا گیا تو بے ادبی ہوجائے گی ۔ فکر مند ہیں کہ معراج کے دولہا کو کیسے بیدار کیا جائے ؟ اسی وقت حکم ربی ہوتا ہے یاجبریل قبل قدمیہ اے جبریل ! میرے محبوب کے قدموں کو چوم لے تاکہ تیرے لبوں کی ٹھنڈک سے میرے محبوب کی آنکھ کھل جائے ۔ اسی دن کے واسطے میں نے تجھے کافور سے پیدا کیا تھا ۔ حکم سنتے ہی جبرائیل امین علیہ السلام آگے بڑھے اور اپنے کافوری ہونٹ محبوب دو عالم حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پائے ناز سے مس کردیے ۔

یہ منظر بھی کس قدر حسین ہوگا جب جبریل امین علیہ السلام نے فخر کائنات حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں کو بوسہ دیا۔ حضرت جبرائیل امین علیہ السلام کے ہونٹوں کی ٹھنڈک پاکر حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم بیدار ہوتے ہیں اور دریافت کرتے ہیں اے جبرائیل! کیسے آنا ہوا؟ عرض کرتے ہیں: یارسول اللہ! ( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) خدائے بزرگ و برتر کی طرف سے بلاوے کا پروانہ لے کر حاضر ہوا ہوں۔ان الله اشتاق الی لقائک يارسول الله ۔ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اللہ تعالیٰ آپ کی ملاقات کا مشتاق ہے‘‘۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے چلئے زمین سے لے کر آسمانوں تک ساری گزر گاہوں پر مشتاق دید کا ہجوم ہاتھ باندھے کھڑا ہے ۔ (معارج النبوۃ جلد دوم)

چنانچہ آپ نے سفر کی تیاری شروع کی۔ اس موقع پر حضرت جبرائیل امین علیہ السلام نے آپ کا سینہ مبارک چاک کیا اور دل کو دھویا۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ میرے پاس ایک آنے والا آیا اور اس نے میرا سینہ چاک کیا۔ سینہ چاک کرنے کے بعد میرا دل نکالا پھر میرے پاس سونے کا ایک طشت لایا گیا جو ایمان و حکمت سے لبریز تھا۔ اس کے بعد میرے دل کو دھویا گیا پھر وہ ایمان و حکمت سے لبریز ہوگیا۔ اس قلب کو سینہ اقدس میں اس کی جگہ پر رکھ دیا گیا۔(بخاری شريف جلد اول صفحہ نمبر 568،چشتتی)

مسلم شریف میں ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے سینہ چاک کرنے کے بعد قلب مبارک کو زم زم کے پانی سے دھویا اور سینہ مبارک میں رکھ کر سینہ بند کردیا۔(مسلم شربف جلد اول صفحة: 92)

حضرت جبرائیل علیہ السلام فرماتے ہیں کہ قلب ہر قسم کی کجی سے پاک اور بے عیب ہے اور اس میں دو آنکھیں ہیں جو دیکھتی ہیں اور دو کان ہیں جو سنتے ہیں۔(فتح الباری جلد: 13: صفحة: 610)

سینہ اقدس کے شق کئے جانے میں کئی حکمتیں ہیں۔ جن میں ایک حکمت یہ ہے کہ قلب اطہر میں ایسی قوت قدسیہ شامل ہوجائے جس سے آسمانوں پر تشریف لے جانے اور عالم سماوات کا مشاہدہ کرنے بالخصوص دیدار الہٰی کرنے میں کوئی دقت اور دشواری پیش نہ آئے۔ پھر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر انور پر عمامہ باندھا گیا۔ علامہ کاشفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: شب معراج حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو عمامہ شریف پہنایا گیا وہ عمامہ مبارک حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے سات ہزار سال پہلے کا تیار کیا ہوا تھا۔ چالیس ہزار ملائکہ اس کی تعظیم و تکریم کے لئے اس کے اردگرد کھڑے تھے۔

حضرت جبرائیل علیہ السلام نے سرور کونین حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نور کی ایک چادر پہنائی۔ زمرد کی نعلین مبارک پاؤں میں زیب تن فرمائی، یاقوت کا کمر بند باندھا۔(معارج النبوة صفحة 601،چشتی)

حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے براق کا حلیہ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: سینہ سرخ یاقوت کی مانند چمک رہا تھا، اس کی پشت پر بجلی کوندتی تھی، ٹانگیں سبز زمرد، دُم مرجان، سر اور اس کی گردن یاقوت سے بنائی گئی تھی۔ بہشتی زین اس پر کسی ہوئی تھی جس کے ساتھ سرخ یاقوت کے دور کاب آویزاں تھے۔ اس کی پیشانی پر لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ لکھا ہوا تھا۔

چند لمحوں کے بعد وہ وقت بھی آگیا کہ سرور کونین حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم براق پر تشریف فرما ہوگئے۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے رکاب تھام لی۔ حضرت میکائیل علیہ السلام نے لگام پکڑی۔ حضرت اسرافیل علیہ السلام نے زین کو سنبھالا۔ حضرت امام کاشفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ معراج کی رات اسی ہزار فرشتے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دائیں طرف اور اسی ہزار بائیں طرف تھے۔(معارج النبوة صفحہ 606)

فضا فرشتوں کی درود و سلام کی صداؤں سے گونج اٹھی اور آقائے نامدار حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم درود و سلام کی گونج میں سفر معراج کا آغاز فرماتے ہیں۔ اس واقعہ کو قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس طرح بیان فرمایا ہے:

سُبْحٰنَ الَّذِیْ اَسْرٰی بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰـرَکْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ اٰيٰـتِنَا.
ترجمہ : وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصیٰ تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس (بندہِ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں ۔ (بنی اسرائيل،17: 1)

آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نہایت شان و شوکت سے ملائکہ کے جلوس میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔ یہ گھڑی کس قدر دلنواز تھی کہ جب مکاں سے لامکاں تک نور ہی نور پھیلا ہوا تھا، سواری بھی نور تو سوار بھی نور، باراتی بھی نور تو دولہا بھی نور، میزبان بھی نور تو مہمان بھی نور، نوریوں کی یہ نوری بارات فلک بوس پہاڑیوں، بے آب و گیاہ ریگستانوں، گھنے جنگلوں، چٹیل میدانوں، سرسبز و شاداب وادیوں، پرخطر ویرانوں پر سے سفر کرتی ہوئی وادی بطحا میں پہنچی جہاں کھجور کے بیشمار درخت ہیں۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام عرض کرتے ہیں کہ حضور یہاں اتر کر دو رکعت نفل ادا کیجئے یہ آپ کی ہجرت گاہ مدینہ طیبہ ہے۔ نفل کی ادائیگی کے بعد پھر سفر شروع ہوتا ہے۔ راستے میں ایک سرخ ٹیلا آتا ہے جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قبر ہے۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ معراج کی رات میں سرخ ٹیلے سے گزرا تو میں نے دیکھا کہ وہاں موسیٰ علیہ السلام کی قبر ہے اور وہ اپنی قبر میں کھڑے ہوکر نماز پڑھ رہے ہیں۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے بیت المقدس بھی آگیا جہاں قدسیوں کا جم غفیر سلامی کے لئے موجود ہے۔ حوروغلماں خوش آمدید کہنے کے لئے اور تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء و مرسلین استقبال کے لئے بے چین و بے قرار کھڑے تھے۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اس مقام پر تشریف فرماہوئے جسے باب محمد (صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہا جاتا ہے ۔ حضرت جبریل علیہ السلام ایک پتھر کے پاس آئے جو اس جگہ موجود تھا ۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے اس پتھر میں اپنی انگلی مار کر اس میں سوراخ کردیا اور براق کو اس میں باندھ دیا۔(تفسير ابن کثير جلد 3 صفحہ 7،چشتی)

آفتاب نبوت حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد اقصیٰ میں داخل ہوتے ہیں۔ صحن حرم سے فلک تک نور ہی نور چھایا ہوا ہے۔ ستارے ماند پڑچکے ہیں، قدسی سلامی دے رہے ہیں، حضرت جبرائیل علیہ السلام اذان دے رہے ہیں، تمام انبیاء و رسل صف در صف کھڑے ہورہے ہیں۔ جب صفیں بن چکیں تو امام الانبیاء فخر دوجہاں حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم امامت فرمانے تشریف لاتے ہیں۔ تمام انبیاء و رسل امام الانبیاء کی اقتداء میں دو رکعت نماز ادا کرکے اپنی نیاز مندی کا اعلان کرتے ہیں۔ ملائکہ اور انبیاء کرام سب کے سب سرتسلیم خم کیے ہوئے کھڑے ہیں۔ بیت المقدس نے آج تک ایسا دلنواز منظر اور روح پرور سماں نہیں دیکھا ہوگا۔ وہاں سے فارغ ہی عظمت و رفعت کے پرچم پھر بلند ہونے شروع ہوتے ہیں۔ درود و سلام سے فضا ایک مرتبہ پھر گونج اٹھتی ہے۔ سرور کونین حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نوری مخلوق کے جھرمٹ میں آسمان کی طرف روانہ ہوتے ہیں ۔

حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : ثم عرج بی پھر مجھے اوپر لے جایا گیا۔ براق کی رفتار کا عالم یہ تھا کہ جہاں نگاہ کی انتہاء ہوتی وہاں براق پہلا قدم رکھتا۔ فوراً ہی پہلا آسمان آگیا۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ دربان نے پوچھا کون ہے؟ جواب دیا جبرائیل ! دربان نے پوچھا، من معک تمہارے ساتھ کون ہے ؟ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم دربان نے کہا : مرحبا دروازے انہی کے لیے کھولے جائیں گے۔ چنانچہ دروازہ کھول دیا گیا۔ آسمان اول پر حضرت آدم علیہ السلام نے حضور سرور کونین صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خوش آمدید کہا۔ دوسرے آسمان پر پہنچے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت یحییٰ علیہ السلام نے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خوش آمدید کہا۔ تیسرے آسمان پر حضرت یوسف علیہ السلام نے، چوتھے آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے، پانچویں آسمان پر حضرت ہارون علیہ السلام نے، چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اور ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سرور کونین حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا استقبال کیا اور خوش آمدید کہا۔ پھر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جنت کی سیر کرائی گئی۔ پھر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اس مقام پر پہنچے جہاں قلم قدرت کے چلنے کی آواز سنائی دیتی تھی۔ اس کے بعد پھر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سدرۃ المنتہٰی تک پہنچے۔ سدرہ وہ مقام ہے جہاں مخلوق کے علوم کی انتہاء ہے۔ فرشتوں نے اذن طلب کیا کہ اے اللہ تیرے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم تشریف لارہے ہیں ، ان کے دیدار کی ہمیں اجازت عطا فرما۔ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ تمام فرشتے سدرۃ المنتہٰی پر جمع ہوجائیں اور جب میرے محبوب کی سواری آئے تو سب زیارت کرلیں۔ چنانچہ ملائکہ سدرہ پر جمع ہوگئے اور جمالِ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو دیکھنے کےلیے سدرہ کو ڈھانک لیا۔(درمنشور، جلد 6 صفحہ 126)

اس مقام پر حضرت جبرائیل علیہ السلام رک گئے اور عرض کرنے لگے : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہم سب کے لئے ایک جگہ مقرر ہے۔ اب اگر میں ایک بال بھی آگے بڑھوں گا تو اللہ تعالیٰ کے انوار و تجلیات میرے پروں کو جلاکر رکھ دیں گے۔ یہ میرے مقام کی انتہاء ہے۔ سبحان اللہ! حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رفعت و عظمت کا اندازہ لگایئے کہ جہاں شہباز سدرہ کے بازو تھک جائیں اور روح الامین کی حد ختم ہوجائے وہاں حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پرواز شروع ہوتی ہے۔ اس موقع پر حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں، اے جبرائیل کوئی حاجت ہو تو بتاؤ۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے عرض کی حضور( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ مانگتا ہوں کہ قیامت کے دن پل صراط پر آپ کی امت کے لئے بازو پھیلاسکوں تاکہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک ایک غلام آسانی کے ساتھ پل صراط سے گزر جائے۔(تفسیر روح البيان جلد پنجم صفحہ نمبر 221،چشتی)

نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم جبرائیل امین کو چھوڑ کر تنہا انوار و تجلیات کی منازل طے کرتے گئے۔ مواہب الدنیہ میں ہے کہ جب حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم عرش کے قریب پہنچے تو آگے حجابات ہی حجابات تھے تمام پردے اٹھادیئے گئے۔ اس واقعہ کو قرآن مجید اس طرح بیان فرماتا ہے : فَاسْتَوٰی ۔ وَ هُوَ بِالْاُفُقِ الْاَعَلٰی ۔ (سورہ النجم: 6، 7)
ترجمہ : پھر اُس (جلوہِ حُسن) نے (اپنے) ظہور کا ارادہ فرمایا ۔ اور وہ (محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم شبِ معراج عالمِ مکاں کے) سب سے اونچے کنارے پر تھے (یعنی عالَمِ خلق کی انتہاء پر تھے) ۔

اس آیت کی تفسیر میں مفسرِ قرآن حضرت امام رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سرور دو عالم حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم شب معراج آسمان بریں کے بلند کناروں پر پہنچے تو تجلی الہٰی متوجہ نمائش ہوئی۔ صاحب تفسیر روح البیان نے فرمایا کہ فاستوی کے معنی یہ ہیں کہ حضور سید عالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے افق اعلیٰ یعنی آسمانوں کے اوپر جلوہ فرمایا ۔

پھر وہ مبارک گھڑی بھی آگئی کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم حریم الہٰی میں پہنچے اور اپنے سر کی آنکھوں سے عین عالم بیداری میں اللہ تعالیٰ کی زیارت کی۔ قرآن مجید محبوب و محب کی اس ملاقات کا منظر ان دلکش الفاظ میں یوں بیان کرتا ہے:ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰی ۔ فَکَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰی ۔ (سورہ النجم:8، 9)
ترجمہ : پھر وہ (ربّ العزّت اپنے محبوب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے) قریب ہوا پھر اور زیادہ قریب ہو گیا ۔ پھر (جلوۂِ حق اور محبوب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں صِرف) دو کمانوں کی مقدار فاصلہ رہ گیا یا (انتہائے قرب میں) اس سے بھی کم (ہوگیا) ۔

صاحبِ روح البیان فرماتے ہیں کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے قرب سے مشرف ہوئے یا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کو اپنے قرب سے نوازا ۔ (تفسیر روح البیان)

جب نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم بارگاہ الہٰی میں پہنچے تو ارشاد فرمایا : فَاَوْحٰی اِلٰی عَبْدِهِ مَآ اَوْحٰی ۔ (النجم: 10)
ترجمہ : پس (اُس خاص مقامِ قُرب و وصال پر) اُس (ﷲ) نے اپنے عبدِ (محبوب) کی طرف وحی فرمائی جو (بھی) وحی فرمائی ۔

حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ وحی اللہ تعالیٰ نے براہ راست اپنے محبوب کو ارشاد فرمائی درمیان میں کوئی وسیلہ نہ تھا۔ پھر رازو نیاز کی گفتگو ہوئی ۔ اسرار و رموز سے آگاہی فرمائی جسے اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق سے پوشیدہ رکھا ۔ اس گفتگو کا علم اللہ تعالیٰ اور حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کو ہے ۔

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے : مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰی . (النجم: 11)
ترجمہ : (اُن کے) دل نے اُس کے خلاف نہیں جانا جو (اُن کی) آنکھوں نے دیکھا ۔

اس آیت مبارکہ میں نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب انور کی عظمت کا بیان ہے کہ شب معراج آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مقدس آنکھوں نے انوار و تجلیات اور برکات الہٰی دیکھے حتی کہ اللہ تعالیٰ کے دیدار پر انوار سے مشرف ہوئے تو آنکھ نے جو دیکھا دل نے اس کی تصدیق کی یعنی آنکھ سے دیکھا اور دل نے گواہی دی اور اس دیکھنے میں شک و تردد اور وہم نے راہ نہ پائی ۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں اپنے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی آنکھوں کا ذکر فرماتا ہے : مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰی ۔ (سورہ النجم:17)
ترجمہ : اُن کی آنکھ نہ کسی اور طرف مائل ہوئی اور نہ حد سے بڑھی (جس کو تکنا تھا اسی پر جمی رہی) ۔

اس آیت کریمہ میں نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مقدس آنکھوں کا ذکر ہے کہ جب آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم شب معراج کی رات اس مقام پر پہنچے جہاں سب کی عقلیں دنگ رہ جاتی ہیں وہاں آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم دیدار الہٰی سے مشرف ہوئے تو اس موقع پر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دائیں بائیں کہیں بھی نہیں دیکھا۔ نہ آپ کی آنکھیں بہکیں بلکہ خالق کائنات کے جلوؤں میں گم تھی ۔ واقعہ معراج کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں مزید ارشاد فرماتا ہے : لَقَدْ رَاٰی مِنْ اٰ يٰتِ رَبِّهِ الْکُبْرٰی ۔ (سورہ النجم: 18)
ترجمہ : بے شک انہوں نے (معراج کی شب) اپنے رب کی بڑی نشانیاں دیکھیں ۔

اس آیت مقدسہ میں بتایا گیا ہے کہ معراج کی رات حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مقدس آنکھوں نے اللہ تعالیٰ کی بڑی بڑی نشانیاں ملک و ملکوت کے عجائب کو ملاحظہ فرمایا اور تمام معلوماتِ غیبیہ کا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو علم حاصل ہو گیا ۔ (تفسیر روح البيان)

نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : رايت ربی فی احسن صورة فوضع کفه بين کتفی فوجدت بردها ۔
ترجمہ : میں نے اپنے رب کو حسین صورت میں دیکھا پھر اس نے میرے دونوں کندھوں کے درمیان اپنا ید قدرت رکھا اس سے میں نے اپنے سینہ میں ٹھنڈک پائی اور زمین و آسمان کی ہر چیز کو جان لیا ۔ (مشکوٰة شريف صفحہ نمبر 28،چشتی)

ایک موقع پر مزید ارشاد نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوتا ہے : رايت ربی بعينی وقلبی ۔
ترجمہ : میں نے اپنے رب کو اپنی آنکھ اور اپنے دل سے دیکھا ۔ (مسلم شريف)

دیدار الہٰی کا ذکر ایک اور حدیث میں اس طرح فرمایا : فخاطبنی ربی ورايتة بعينی بصری فاوحی ۔
ترجمہ : میرے رب نے مجھ سے کلام فرمایا اور میں نے اپنے پروردگار کو اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھا اور اس نے میری طرف وحی فرمائی۔(تفسیر صاوی صفحہ نمبر 328،چشتی)

حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ اور حضرت حسن  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ شب معراج حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی سر کی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کی ذات کا مشاہدہ فرمایا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خلیل، موسیٰ علیہ السلام کو کلام اور حضرت سیدالمرسلین صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے دیدار کا اعزاز بخشا۔ حضرت امام احمد رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں حدیث حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قائل ہوں کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا۔ حضرت خواجہ حسن بصری رضی اللہ عنہ قسم کھاتے ہیں کہ حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شب معراج اللہ تعالیٰ کو دیکھا۔

نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شب معراج اللہ تعالیٰ نے تین تحفے عطا فرمائے۔ پہلا سورہ بقرہ کی آخری تین آیتیں۔ جن میں اسلامی عقائد ایمان کی تکمیل اور مصیبتوں کے ختم ہونے کی خوشخبری دی گئی ہے۔ دوسر اتحفہ یہ دیا گیا کہ امت محمدیہ (صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں جو شرک نہ کرے گا وہ ضرور بخشا جائے گا۔ تیسرا تحفہ یہ کہ امت پر پچاس نمازیں فرض ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان تینوں انعامات و تحائف کو لے کر اور جلوہ الہیٰ سے سرفراز ہوکر عرش و کرسی، لوح و قلم، جنت و دوزخ، عجائب و غرائب، اسرار و رموز کی بڑی بڑی نشانیوں کا مشاہدہ فرمانے کے بعد جب پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم واپسی کے لئے روانہ ہوئے تو چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دریافت کیا، کیا عطا ہوا؟ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت پر پچاس نمازوں کی فرضیت کا ذکر فرمایا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا: اے اللہ کے نبی! میں نے اپنی قوم (بنی اسرائیل) پر خوب تجربہ کیا ہے۔ آپ کی امت یہ بار نہ اٹھاسکے گی۔ آپ واپس جایئے اور نماز میں کمی کرایئے۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پھر تشریف لے گئے اور دس نمازیں کم کرالیں۔ پھر ملاقات ہوئی اور موسیٰ علیہ السلام نے پھر کم کرانے کے لئے کہا۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پھر بارگاہ الہٰی میں پہنچے دس نمازیں کم کرالیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مشوروں سے بار بار مہمان عرش نے بارگاہ رب العرش میں نماز میں کمی کی التجا کی کم ہوتے ہوتے پانچ وقت کی نماز رہ گئی اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : اے محبوب! ہم اپنی بات بدلتے نہیں اگرچہ نمازیں تعداد میں پانچ وقت کی ہیں مگر ان کا ثواب دس گنا دیا جائے گا ۔ میں آپ کی امت کو پانچ وقت کی نماز پر پچاس وقت کی نمازوں کا ثواب دوں گا ۔

تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم براق پر سوار ہوئے اور رات کی تاریکی میں مکہ معظمہ واپس تشریف لائے۔(تفسير ابن کثير، جلد سوئم صفحه: 32،چشتی)

اس واقعہ میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کی بڑی بڑی نشانیاں موجود ہیں۔ یہ ساری کائنات جو کہ کارخانہ قدرت ہے اور اس کارخانہ عالم کا مالک حقیقی اللہ تعالیٰ ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب پیغمبر کو اپنی قدرت کی نشانیاں دکھانے کے لئے بلوایا تو اس میں کتنا وقت لگا، اس کا اندازہ ہم نہیں لگاسکتے۔ اللہ تعالیٰ جو ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے اس رب کائنات نے اس کارخانہ عالم کو یکدم بند کردیا سوائے اپنے محبوب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان چیزوں کے جنہیں حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے متحرک پایا۔ باقی تمام کائنات کو ٹھہرادیا، چاند اپنی جگہ ٹھہر گیا، سورج اپنی جگہ رک گیا، حرارت اور ٹھنڈک اپنی جگہ ٹھہر گئی، حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بستر مبارک کی حرارت اپنی جگہ قائم رہی، حجرہ مبارک کی زنجیر ہلتے ہوئے جس جگہ پہنچی تھی وہیں رک گئی، جو سویا تھا سوتا رہ گیا جو بیٹھا تھا بیٹھا رہ گیا غرض یہ کہ زمانے کی حرکت بند ہوگئی ۔

جب نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم راتوں رات ایک طویل سفر کرکے زمین پر تشریف لائے تو کارخانہ عالم بحکم الہٰی پھر چلنے لگا۔ ہر شے از سر نو مراحل کو طے کرنے لگی، چاند سورج اپنی منازل طے کرنے لگے، حرارت و ٹھنڈک اپنے درجات طے کرنے لگی۔ غرض یہ کہ جو جو چیزیں سکون میں آگئی تھیں مائل بہ حرکت ہونے لگیں۔ بستر مبارک کی حرارت اپنے درجات طے کرنے لگی۔ حجرہ مبارک کی زنجیر ہلنے لگی۔ کائنات میں نہ کوئی تغیر آیا اور نہ ہی کسی کو احساس تک ہوا۔(روح البيان، جلد5، صفحه، 125)

نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صبح ہوتے ہی اس واقعہ کا ذکر اپنی چچا زاد بہن ام ہانی سے فرمایا۔ انہوں نے عرض کی قریش سے اس کا تذکرہ نہ کیا جائے لوگ انکار کریں گے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں حق بات ضرور کروں گا میرا رب سچا ہے اور جو کچھ میں نے دیکھا وہی سچ ہے۔ صبح ہوئی تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم خانہ کعبہ میں تشریف لائے۔ خانہ کعبہ کے آس پاس قریش کے بڑے بڑے رؤساء جمع تھے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم مقام حجر میں بیٹھ گئے اور لوگوں کو مخاطب کرکے واقعہ معراج بیان فرمایا۔ مخبر صادق حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تذکرہ کو سن کر کفارو مشرکین ہنسنے لگے اور مذاق اڑانے لگے۔ ابوجہل بولا، کیا یہ بات آپ پوری قوم کے سامنے کہنے کے لئے تیار ہیں؟ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بے شک۔ ابوجہل نے کفار مکہ کو بلایا اور جب تمام قبائل جمع ہوگئے تو حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سارا واقعہ بیان فرمایا۔ کفار واقعہ سن کر تالیاں بجانے لگے اور اللہ تعالیٰ کے محبوب کا مذاق اڑانے لگے۔ ان قبائل میں شام کے تاجر بھی تھے انہوں نے بیت المقدس کو کئی بار دیکھا تھا۔ انہوں نے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا، ہمیں معلوم ہے کہ آپ آج تک بیت المقدس نہیں گئے۔ بتایئے! اس کے ستون اور دروازے کتنے ہیں؟ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ یکا یک بیت المقدس کی پوری عمارت میرے سامنے آگئی وہ جو سوال کرتے میں جواب دیتا جاتا تھا مگر پھر بھی انہوں نے اس واقعہ کو سچا نہ مانا ۔

جب نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد اقصیٰ کے بارے میں جواب دے چکے تو کفار مکہ حیران ہوکر کہنے لگے مسجد اقصیٰ کا نقشہ تو آپ نے ٹھیک ٹھیک بتادیا لیکن ذرا یہ بتایئے کہ مسجد اقصیٰ جاتے یا آتے ہوئے ہمارا قافلہ آپ کو راستے میں ملا ہے یا نہیں؟ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ایک قافلہ مقام روحاء پر گزرا، ان کا ایک اونٹ گم ہوگیا تھا۔ وہ لوگ اسے تلاش کررہے تھے اور ان کے پالان میں پانی کا بھرا ہوا ایک پیالہ رکھا ہوا تھا۔ مجھے پیاس لگی تو میں نے پیالہ اٹھا کر اس کا پانی پی لیا۔ پھر اس کی جگہ اس کو ویسے ہی رکھ دیا جیسے وہ رکھا ہوا تھا۔ جب وہ لوگ آئیں تو ان سے دریافت کرنا کہ جب وہ اپنا گم شدہ اونٹ تلاش کرکے پالان کی طرف واپس آئے تو کیا انہوں نے اس پیالہ میں پانی پایا تھا یا نہیں؟ انہوں نے کہا ہاں ٹھیک ہے یہ بہت بڑی نشانی ہے۔ پھر حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں فلاں قافلے پر بھی گزرا۔ دو آدمی مقام ذی طویٰ میں ایک اونٹ پر سوار تھے ان کا اونٹ میری وجہ سے بدک کر بھاگا اور وہ دونوں سوار گر پڑے۔ ان میں فلاں شخص کا ہاتھ ٹوٹ گیا۔ جب وہ آئیں تو ان دونوں سے یہ بات پوچھ لینا۔ انہوں نے کہا اچھا یہ دوسری نشانی ہوئی۔(تفسير مظهری)

اہل ایمان نے اس واقعے کی سچائی کو دل سے مانا اور اس کی تصدیق کی مگر ابوجہل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس دوڑا دوڑا گیا اور کہنے لگا: اے ابوبکر! تو نے سنا کہ محمد (صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا کہتے ہیں۔ کیا یہ بات تسلیم کی جا سکتی ہے کہ رات کو وہ بیت المقدس گئے اور آسمانوں کا سفر طے کرکے آبھی گئے ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرمانے لگے اگر میرے آقا(صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تو ضرور سچ فرمایا ہے کیونکہ ان کی زبان پر جھوٹ نہیں آسکتا۔ میں اپنے نبی کی سچائی پر ایمان لاتا ہوں۔ کفار بولے۔ ابوبکر تم کھلم کھلا ایسی خلاف عقل بات کیوں صحیح سمجھتے ہو ؟ اس عاشق صادق نے جواب دیا: میں تو اس سے بھی زیادہ خلاف عقل بات پر یقین رکھتا ہوں ۔ (یعنی باری تعالیٰ پر) اسی دن سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو دربار نبوت سے صدیق کا لقب ملا ۔

اسراء اور معراج

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اخصِ خصائص اور اشرفِ فضائل و کمالات اور روشن ترین معجزات و کرامات سے یہ امر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو فضیلت اسراء اور معراج سے وہ خصوصیت و شرافت عطا فرمائی جس کے ساتھ کسی نبی اور رسول کو مشرف و مکرم نہیں فرمایا اور جہاں اپنے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو پہنچایا۔ کسی کو وہاں تک پہنچنے کا شرف نہیں بخشا۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:سُبْحٰنَ الَّذِیْ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَی الَّذِیْ بَارَکْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰتِنَا اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ ۔
ترجمہ : ’’پاک ہے جو لے گیا اپنے (خاص) بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے طرف مسجد اقصیٰ کے جس کے آس پاس ہم نے (بہت) برکت نازل فرمائی۔ تاکہ ہم (اپنے) اس (بندئہ خاص) کو اپنی قدرت کی (خاص) نشانیاں دکھائیں۔ بے شک وہی سننے والا دیکھنے والا ہے ۔ (بنی اسرائیل: ۱)

اسراء اور معراج میں فرق

اگرچہ عام استعمالات میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اس تمام مبارک سیر عروج یعنی مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ اور وہاں سے آسمانوں اور لامکان تک تشریف لے جانے کو معراج کہا جاتا ہے۔ لیکن محدثین و مفسرین کی اصطلاح میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک تشریف لے جانا اسراء کہلاتا ہے۔ کیونکہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس کو لفظ اسراء سے تعبیر فرمایا ہے اور مسجد اقصیٰ سے آسمانوں کی طرف حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا عروج فرمانا معراج کہلاتا ہے ۔ اس لیے کہ اس کےلیے معراج اور عروج کے الفاظ احادیث صحیحہ میں وارد ہوئے ہیں ۔

اسراء ، معراج اور اعراج

حضرت خواجہ نظام الدین دہلوی رضی اللہ عنہ فارسی میں فرماتے ہیں ۔ جس کا اردو خلاصہ یہ ہے کہ مسجد حرام سے بیت المقدس تک اسراء ہے اور وہاں سے آسمانوں تک معراج ہے اور آسمانوں سے مقامِ قاب قوسین تک اعراج ہے ۔ (فوائد الفواد صفحہ نمبر ۳۰۸،چشتی)

آیت اسراء

اللہ تعالیٰ نے اس عظیم و جلیل واقعہ کے بیان کو لفظ سبحان سے شروع فرمایا جس کا مفاد اللہ تعالیٰ کی تنزیہ اور ذات باری کا ہر عیب و نقص سے پاک ہونا ہے۔ اس میں یہ حکمت ہے کہ واقعاتِ معراج جسمانی کی بناء پر منکرین کی طرف سے جس قدر اعتراضات ہو سکتے تھے ان سب کا جواب ہو جائے۔ مثلاً حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا جسم اقدس کے ساتھ بیت المقدس یا آسمانوں پر تشریف لے جانا اور وہاں سے ثُمَّ دَنٰی فَتَدَلّٰی کی منزل تک پہنچ کر تھوڑی دیر میں واپس تشریف لے آنا منکرین کے نزدیک ناممکن اور محال تھا۔ اللہ تعالیٰ نے لفظ سبحان فرما کر یہ ظاہر فرمایا کہ یہ تمام کام میرے لئے بھی ناممکن اور محال ہوں تو یہ میری عاجزی اور کمزوری ہو گی اور عجز و ضعف عیب ہے اور میں ہر عیب سے پاک ہوں۔ اسی حکمت کی بناء پر اللہ تعالیٰ نے اَسْرٰی فرمایا جس کا فاعل اللہ تعالیٰ ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو جانے والا نہیں فرمایا بلکہ اپنی ذات مقدسہ کو لے جانے والا فرمایا۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لفظ سبحان اور اَسْرٰی فرما کر معراج جسمانی پر ہونے والے ہر اعتراض کا جواب دیا ہے اور اپنے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ذاتِ مقدسہ کو اعتراضات سے بچایا ہے۔ گویا یوں فرمایا کہ اے منکرو! خبردار، واقعہ معراج میں میرے حبیب (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) پر اعتراض کرنے کا تمہیں کوئی حق نہیں ۔ اس لیے کہ اس نے معراج کرنے اور مسجد اقصیٰ یا آسمانوں پر خود جانے کا دعویٰ نہیں کیا۔ ایسی صورت میں تمہیں اس پر اعتراض کرنے کا کیا حق ہے؟ یہ دعویٰ تو میرا ہے کہ میں اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو لے گیا ۔ اب اگر میرے لے جانے پر اعتراض ہے کہ اللہ تعالیٰ کیسے لے گیا ؟ یہ لے جانا اور ذرا سی دیر میں آسمانوں کی سیر کرا کے واپس لے آنا تو ممکن نہیں۔ تو یاد رکھو کہ میں سبحان ہوں۔ جو چیز مخلوق کےلیے عادتاً ناممکن اور محال ہے، اگر میرے لئے بھی اسی طرح محال اور ناممکن ہو تو میں عاجز اور ناتواں ٹھہروں گا اور عاجزی و ناتوانی عیب ہے اور میں ہر عیب سے پاک ہوں۔ معلوم ہوا کہ آیت اَسْرٰی کا پہلا لفظ ہی معراج جسمانی کی روشن دلیل ہے ۔ وللّٰہ الحمد ۔

نکتہ : اللہ تعالیٰ نے اس آیہ کریمہ میں نہ اپنا نام لیا اور نہ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا اپنی ذات پاک کو اَلَّذِیْ اور اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو عَبْدِہٖ سے تعبیر فرمایا۔ اَلَّذِیْ اسم موصول ہے، جس کے معنی ہیں ’’وہ ذات‘‘ یہ ایسا لفظ ہے کہ ہر چیز پر اس کا اطلاق کر سکتے ہیں اور ہر چیز کو اَلَّذِیْ کہہ سکتے ہیں اور لفظ عبد بھی ایسا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا ہر شے عبد ہے۔ خلاصہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اور اپنے حبیب، دونوں کے لئے ایسا لفظ ارشاد فرمایا جو تمام ممکنات کو حاوی ہے۔ ہر شے اَلَّذِیْ ہے اور ہر چیز عبد ہے۔ گویا اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ اَلَّذِیْ تو ہر چیز ہے لیکن جس کو کامل اَلَّذِیْ کہا جا سکے وہ وہی ہے جو اَسْرٰی کا فاعل ہے۔ کیونکہ اَلَّذِیْ کے معنی ہیں ’’وہ ذات‘‘ اور ظاہر ہے کہ کمال ذات، وجوب ذاتی، الوہیت اور قدرتِ کاملہ کے بغیر متصور نہیں۔ واجب ممکن کو اور اِلٰہ و معبود ہر عبد و مملوک کو اور قادرِ مطلق ہر مقدور کو محیط ہے اور اس میں شک نہیں کہ واجب بالذات، معبود برحق اور قادرِ مطلق اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں۔ لہٰذا کامل اَلَّذِیْ صرف اللہ تعالیٰ ہے اور کمال کی دلیل اَسْرٰی ہے کیونکہ معراج کو لے جانا قدرتِ کاملہ کے بغیر محال ہے اور قدرتِ کاملہ جس کے لئے ہو گی معبودِ برحق وہی ہو گا اور معبودِ برحق کےلیے وجوب ذاتی لازم ہے اور وجوبِ ذاتی ہی اَلَّذِیْ کا کمال ہے۔ لفظ اَلَّذِیْ دال ہے اور ذاتِ کاملہ اس کا مدلول۔ دال کا تمام کائنات کو حاوی ہونا اشارہ ہے اس امر کی طرف کہ مدلول ہر ذرہ کائنات کو بالذات محیط ہے ۔ وَہُوَ بِکُلِّ شَیْئٍ مُّحِیْطٌ ۔ علیٰ ہٰذا القیاس ’’عبد‘‘ بھی ہر چیز ہے۔ اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق اس کی عبد ہے لیکن جس کو تمام عباد کاملین میں سے سب سے زیادہ کامل اور عبد اکمل کہا جا سکے وہ وہی ہے جو اَسْرٰی کا مفعول بِہٖ ہے اور جسے آیت اسراء میں عبدہٖ سے تعبیر فرمایا ہے اور اس کی دلیل بھی یہی لفظ اَسْرٰی ہے جس کا مفعول بِہٖ یہی عبدِ مقدس ہے کیونکہ عبدہ کے معنی ہیں ’’اللہ کا بندہ‘‘ اور اللہ کی بندگی کا سب سے بڑا کمال اللہ تعالیٰ کا قرب اور اس کی نزدیکی ہے۔ اسراء اور معراج میں اس عبدِ مقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اللہ تعالیٰ کا جو قرب نصیب ہوا اور مرتبہ قاب قوسین کی جو نزدیکی حاصل ہوئی وہ اولین و اٰخرین میں سے آج تک نہ تو کسی کو حاصل ہوئی ہے نہ ہو گی اور نہ ہو سکتی ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کے جملہ عباد میں عبد کامل صرف ’’عبدہ‘‘ہے اور بس ! حاصل کلام یہ کہ جس طرح اَلَّذِیْ سب ہیں مگر کامل اَلَّذِیْ (واجب الوجود) صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ اسی طرح ’’عبد‘‘ سب ہیں مگر کامل عبد صرف حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہیں۔ لفظ عبد دال ہے اور کامل فی العبودیت (حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) مدلول۔ دال کا تمام عالم کو حاوی ہونا اشارہ ہے۔ اس امر کی طرف کہ مدلول تمام موجوداتِ عالم کو (بالعطاء) محیط ہے (وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ) ۔ اَلَّذِیْ اور عبد کا تمام ممکنات اور موجودات کو محیط ہونا اس امر کی طرف بھی مشیر ہے کہ تمام عالم اَلَّذِیْ اور ’’عبدہ‘‘ کے حسن و جمال کا آئینہ دار ہے۔ جس طرح ہر تعین میں وجود حقیقی کامل اَلَّذِیْ (رب العالمین) کا جلوہ ہے، ایسے ہی ہر مخلوق میں حقیقت نور عبد کامل رحمۃ للعالمین کا ظہور ہے جَلَّ جَلَالُـہٗ وَصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ اَلَّذِیْ اور عبدہ دونوں میں ابہام ہے اور اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کا حسن ذات تمام کائنات سے ابہام میں ہے اسی طرح ذاتِ محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا حسن بھی نگاہِ عالم سے مبہم اور پوشیدہ ہے۔ پھر اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ میں چونکہ ضمیر ہُوَ کا مرجع اَلَّذِیْ اور عبد دونوں ہو سکتے ہیں ۔ (تفسیر روح المعانی پارہ ۱۵ صفحہ ۱۳،چشتی)(تفسیر روح البیان پ ۵ ص ۱۰۶)
اس لیے یہ احتمال اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ ہو سکتا ہے کہ شب معراج اَلَّذِیْ عبدہ کا سمیع و بصیر ہوا اور عبدہ اَلَّذِیْ کا ۔

مقام عبدیت : قربِ الٰہی کا وہ بلند ترین مقام ہے جہاں بندہ اپنے تعینات کو معدوم پا کر جلوہ معبود میں محو ہو جاتا ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر رَسُوْلِہٖ وَ نَبِیِّہٖ نہیں فرمایا بلکہ بعبدہٖ فرمایا۔
عبدہٖ : معراج کے بیان میں عبدہٖ فرما کر اس حقیقت کی طرف اشارہ فرما دیا کہ باوجود اس قربِ عظیم کے جو شب معراج میں میرے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو حاصل ہوا وہ میرے عبد ہی ہیں معبود نہیں۔
عبد کی اقسام
عبد کی کئی قسمیں ہیں لیکن ایک اعتبار خاص سے اس کی تین قسمیں ہیں۔ عبد رقیق، عبد اٰبق، عبد ماذون۔
عبد رقیق سے مراد وہ مملوک غلام ہے جو پوری طرح اپنے مالک کے قبضہ اور اس کی ملک میں ہو۔
عبد اٰبق اپنے مالک سے بھاگے ہوئے غلام کو کہتے ہیں (جو مالک مجازی کے قبضہ سے باہر ہوتا ہے) اور عبد ماذون وہ غلام ہے جو مالک کی ملک اور اس کے قبضہ میں ہے اور اس کی قابلیت صلاحیت استعداد اور خوبی کی وجہ سے اس کے مالک نے اپنے کاروبار کا اسے مختار و ماذون بنا دیا ہو اور اسے اس بات کا اذن دے دیا ہو کہ وہ مالک کے کاروبار میں جائز اور ممکن تصرف کرے۔ اس غلام کا بیچنا، خریدنا، لینا، دینا سب کچھ اس کے مالک کا بیچنا، خریدنا، لینا، دینا متصور ہو گا۔ عام مومنین خواہ عاصی ہوں یا مطیع سب اللہ تعالیٰ کے بمنزلہ عبد رقیق کے ہیں اور کفار مشرکین منافقین بمنزلہ عبد اٰبق (بھاگے ہوئے غلام) کے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے محبوبین بمنزلہ عبد ماذون کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اس کے قرب کے مطابق ماذونیت کا شرف عطا فرماتا ہے۔ ساری کائنات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے برابر کوئی اللہ تعالیٰ کا مقرب نہیں ۔ اس لیے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے عبدِ ماذون ہیں ۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰیo اِنْ ہُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰیo‘‘ (النجم: ۳، ۴) ’’وَمَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰـکِنَّ اللّٰہَ رَمٰیo‘‘ (الانفال: ۱۷) ’’مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ۔‘‘ (النساء: ۸۰) پھر فرمایا ’’اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْہِمْ‘‘ (الفتح: ۱۰) اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا ’’اَللّٰہُ یُعْطِیْ وَاَنَا قَاسِمٌ‘‘ ۔ مختصر یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے عبدِ ماذون ہونے کی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے ۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا بولنا اللہ تعالیٰ کا فرمانا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فعل مبارک اللہ تعالیٰ کا فعل مبارک ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا بیچنا اللہ تعالیٰ کا بیچنا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا خریدنا اللہ تعالیٰ کا خریدنا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا دینا اللہ تعالیٰ کا دینا اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا لینا اللہ تعالیٰ کا لینا ہے ۔

عبدہ معراج جسمانی کی دلیل ہے

اللہ تعالیٰ نے عبدہ فرما کر اس حقیقت کو روشن سے روشن تر فرما دیا کہ معراج صرف روح کو نہیں ہوئی بلکہ روح مع الجسد کو ہوئی ہے کیونکہ قرآن و حدیث یا کلام عرب میں ایسا کوئی استعمال موجود نہیں جس سے یہ ثابت ہو جائے کہ کسی کی دنیاوی زندگی میں اسے عبد کہا گیا ہو اور لفظ عبد سے صرف روح مراد ہو بلکہ اس کے برعکس آپ قرآن و حدیث اور محاورات عرب میں یہی پائیں گے کہ جب بھی کسی کو اس کی حیاتِ ظاہری میں لفظ عبد سے تعبیر کیا گیا ہے تو اس لفظ سے روح مع الجسد مراد لیا گیا ہے۔ دیکھئے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا ’’فَاَسْرِ بِعِبَادِیْ لَیْلاً ‘‘ ۔ (پ ۲۵ سورہ دخان) اے موسیٰ! میرے بندوں کو رات میں لے جا۔ یہاں بھی لفظ عبد سے روح مع الجسد اور اسراء سے اسرایٔ جسمانی مراد ہے ۔ نیز اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’اَرَأَیْتَ الَّذِیْ یَنْہٰی۔ عَبْدًا اِذَا صَلّٰی۔‘‘ (العلق: ۹، ۱۰) کیا تو نے اسے دیکھا جو روکتا ہے عبد (مقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) کو جب وہ نماز پڑھے۔ دیکھیے یہاں بھی عبد سے جسم و روح کا مجموعہ مراد ہے۔ ایک اور آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللّٰہِ یَدْعُوْہُ‘‘ (الجن: ۱۹) جب کھڑا ہو اللہ کا عبد (مقدس حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) اس حال میں کہ اللہ تعالیٰ کو پکارتا یعنی اس کی عبادت کرتا تھا۔ اس آیت میں بھی لفظ عبد سے جسم و روح دونوں مراد ہیں ۔ وللّٰہ الحمد ۔ (چشتی)

عبدہ کی اضافت

اللہ تعالیٰ نے ’’اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ‘‘ فرمایا اور عبد کو ضمیر مجرور کی طرف مضاف کیا جو اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹتی ہے۔ اس میں یہ حکمت ہے کہ میرے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم عام عباد کی طرح عبد نہیں بلکہ وہ عبد خاص ہیں بلکہ عبد نہیں عبدہ ہیں۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اسی مضمون کو اس شعر میں ادا کیا ہے : ⬇

عبد دیگر عبدہٗ چیزے دگر
او سراپا انتظار ایں منتظر

لَیْلاً اسراء کے معنی رات کو لے جانے کے ہیں۔ اس کے باوجود لفظ اسریٰ کے بعد لَیْلاً فرمایا تاکہ ظاہر ہو جائے کہ معراج تمام رات نہیں ہوئی بلکہ رات کے بہت تھوڑے حصہ میں ہوئی ہے ۔ مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۔ مسجد حرام مکہ مکرمہ کی وہ مبارک مسجد ہے جس کے وسط میں بیت اللہ شریف واقع ہے ۔ مسجد اقصیٰ : مسجد اقصیٰ بیت المقدس کی وہ مشہور مسجد ہے جو انبیاء سابقین علیہم السلام کا مرکز رہی ہے ۔ ان انبیاء کرام علیہم السلام و محبوبین باری تعالیٰ کی ذواتِ قدسیہ سے جو برکتیں اس خطۂ پاک کو حاصل ہوئیں اللہ تعالیٰ نے بَارَکْنَا حَوْلَہٗ فرما کر ان ہی کا اظہار فرمایا ہے۔
نکتہ: اللہ تعالیٰ نے بَارَکْنَا حَوْلَہٗ فرمایا اس لیے کہ ارد گرد برکتیں ہیں ۔ اس کے اندر تو یقینا عظیم و جلیل برکتیں ہوں گی ۔ خلاصہ یہ کہ فیہ فرمانے سے اندر کی برکتیں ثابت ہو جاتیں لیکن ارد گرد ان کا ثبوت نہ ہوتا اور حَوْلَہٗ فرمانے سے اس کے اندر اور باہر سب جگہ برکتیں ثابت ہو گئیں ۔

لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰتِنَا : ان آیات سے آسمانی آیات مراد ہیں اور معنی یہ ہیں تاکہ ہم انہیں آسمانوں پر لے جا کر وہاں کی عجیب و غریب نشانیاں دکھائیں۔ روح المعانی میں اسی آیت کے تحت ارقام فرماتے ہیں ’’ای لنرفعہ الی السماء حتّٰی یرٰی ما یرٰی من العجائب العظیمۃ‘‘ یعنی تاکہ ہم انہیں آسمانوں کی طرف اٹھائیں یہاں تک کہ وہ دیکھنے کے قابل عجیب و غریب نشانیاں دیکھیں۔ اس بیان سے معلوم ہوا کہ اس آیت کریمہ میں اسراء اور معراج دونوں کا بیان ہے ۔

لفظ مِنْ کی تشریح

لفظ مِنْ سے یہ سمجھنا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو بعض آیتیں دکھائی گئیں اور بعض نہیں دکھائی گئیں تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو تمام آیات کا علم نہ ہوا کسی طرح صحیح نہیں۔ اس لیے کہ آیات مختلف قسم کی تھیں۔ بعض کا تعلق دیکھنے سے تھا اور بعض ایسی تھیں جن کا تعلق سننے، سمجھنے اور چکھنے سے تھا۔ جیسے صریف اقلام کا سننا اور دودھ کا چکھنا وغیرہ۔ اگر من تبعیضیہ ہو تو اس کی وجہ سے کل آیات کا بعض مراد ہوں گی اور ظاہر ہے کہ جو آیتیں دیکھنے کے قابل ہیں وہ کل آیات کا بعض ہی ہیں۔ اس لئے آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ کل آیات میں سے جو آیتیں دیکھنے کے قابل تھیں وہ سب ہم نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو دکھانے کے لئے آسمانوں پر بلند فرمایا۔ اس صورت میں بعض آیات سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی لاعلمی ثابت نہ ہوئی ۔

اِنَّـہٗ ہُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ : بے شک وہی سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔ بعض مفسرین نے اِنَّہٗ کی ضمیر صرف اللہ تعالیٰ کی طرف راجع کی اور بعض نے صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی طرف اس کو راجع کیا۔ جیسا کہ علامہ زرقانی رحمۃ اللہ علیہ نے امام سبکی رحمۃ اللہ علیہ سے نقل فرمایا ۔ (زرقانی شریف جلد ۳ صفحہ ۱۲۴،چشتی) ۔ اور بعض مفسرین نے فرمایا کہ یہ ضمیر اگر اللہ تعالیٰ کی طرف راجع ہو تب بھی جائز ہے اور اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی طرف اس کو راجع کیا جائے تب بھی درست ہے ۔ (تفسیر روح المعانی پ ۱۵ صفحہ ۱۳)

معراج جسمانی کے متعلق اختلافِ اقوال

بعض کا قول ہے کہ معراج روحانی طور پر خواب میں ہوئی۔ بعض کہتے ہیں کہ معراج کئی دفعہ ہوئی۔ ایک دفعہ بیداری میں ہوئی اور دیگر اوقات میں بحالت خواب۔ بعض کہتے ہیں کہ معراج مکہ مکرمہ میں ہوئی اور بعض کے نزدیک مدینہ میں بعض کہتے ہیں کہ اسراء جسمانی ہے اور معراج روحانی۔ لیکن جمہور علماء، صحابہ، تابعین و تبع تابعین اور ان کے بعد محدثین و فقہا اور متکلمین سب کا مذہب یہ ہے کہ اسراء اور معراج دونوں بحالت بیداری اور جسمانی ہیں اور یہی حق ہے اور عارفین کا قول ہے کہ اسراء اور معراج بہت مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو کرائی گئیں۔ بعض نے چونتیس کا عدد بھی لکھا ہے مگر وہ سب خواب میں روحانی طور پر واقع ہوئیں۔ بجز ایک مرتبہ کے جیسا کہ جمہور امت کا مذہب ہے ۔

ایک سوال کا جواب : اگر سوال کیا جائے کہ جب اسراء اور معراج دونوں جسمانی ہیں اور بحالت بیداری ان کا تحقق ہوا تو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے مکہ شریف سے مسجد اقصیٰ تک لے جانے کے ذکر پر کیوں اکتفا فرمایا ۔ اسراء کے ساتھ آسمانی معراج کا بیان نہ کرنے میں کیا حکمت ہے ؟ تو جواباً عرض کیا جائے گا کہ آیت کریمہ میں مسجد اقصیٰ کے ذکر کی تخصیص اس لیے ہے کہ کفار قریش نے مسجد اقصیٰ دیکھی ہوئی تھی اور انہیں اس کے متعلق معلومات حاصل تھیں۔ اس لئے انہوں نے واقعہ معراج کا انکار کرتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے اس کی علامات وغیرہ دریافت کیں اور بڑی شدت کے ساتھ جھگڑا اور اختلاف کیا لیکن حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ان کو مسکت جوابات دئیے اور مسجد اقصیٰ کی تمام علامتیں اور نشانیاں بتائیں جو کفار قریش نے دریافت کی تھیں بلا کم و کاست بیان فرما دیں اور نہایت خوبی کے ساتھ ان پر حجت قائم فرما دی۔ جس کے بعد ان کے لئے مجال انکار باقی نہ رہی اور اس طرح حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اسراء اور معراج کی صداقت پر ایک عظیم الشان دلیل قائم کی گئی۔اس لیے اللہ تعالیٰ نے خصوصیت کے ساتھ مسجد اقصیٰ کا ذکر فرمایا۔ اگر ادنیٰ تامل سے کام لیا جائے تو قرآن کریم میں واقعہ معراج کی صداقت پر لا جواب دلیل قائم کی گئی ہے۔ وہ مسجد اقصیٰ کا ذکر ہے۔ کیونکہ ایک طرف تو مشرکین مکہ کے ذہن میں مسجد اقصیٰ کی تمام علامتیں محفوظ تھیں اور دوسری طرف انہیں اس بات کا یقین تھا کہ حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے مسجداقصیٰ کبھی نہیں دیکھی ۔ جب انہوں نے سنا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم مسجد اقصیٰ جانے اور معراج فرمانے کا حال بیان فرما رہے ہیں تو انہوں نے سوچا کہ اس سے بہتر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تکذیب کا موقع ہاتھ نہیں آ سکتا ۔ آسمان وغیرہ تو ہمارے دیکھے ہوئے نہیں جن کی علامتیں اور نشانیاں ہم ان سے دریافت کریں۔ لیکن مسجد اقصیٰ کا نقشہ تو ہمارے ذہن میں محفوظ ہے ۔ چلو اسی کی بابت ان سے سوالات کریں ۔ جب ہماری دریافت کی ہوئی نشانیاں وہ نہ بتا سکیں گے تو (معاذ اللہ) ان کا دعویٰ خود بخود جھوٹا ہو جائے گا لیکن معاملہ اس کے برعکس ہوا۔ کفارِ قریش نے مسجد اقصیٰ کی جو نشانیاں پوچھیں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ٹھیک ٹھیک بیان فرما دیں۔ جس کو سن کر اپنے دل میں انہیں قائل ہونا پڑا کہ واقعی یہ اپنے دعویٰ میں سچے ہیں۔ مسجد اقصیٰ تک جانے میں جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا سچا ہونا ثابت ہو گیا تو آسمانوں کی معراج بھی سچی ثابت ہو گئی۔ اس لیے کہ جس طرح آسمانوں پر جانا محال ہے بالکل اسی طرح رات کے تھوڑے سے حصہ میں مکہ سے مسجد اقصیٰ جا کر واپس آ جانا بھی محال ہے۔ جب یہ جانا اور آنا محال نہ رہا تو آسمان پر جا کر واپس آنا ان کے لئے کیونکر محال رہ سکتا تھا ؟
اس مختصر بیان سے واضح ہو گیا کہ مسجد اقصیٰ کا ذکر صداقت معراج کی دلیل اس لئے بن گیا کہ منکرین نے مسجد اقصیٰ دیکھی ہوئی تھی۔ اب اگر مسجد اقصیٰ کی طرح آسمانوں کا ذکر بھی تفصیل سے کر دیا جاتا تو وہ اس عظیم الشان خارق عادت واقعہ معراج کی سچائی کے لئے دلیل نہیں بن سکتا تھا۔ کیونکہ منکرین نے کبھی آسمان نہیں دیکھے تھے نہ ان کے ذہن میں وہاں کی کسی چیز کا کوئی تصور تھا۔ اس لئے وہ اگر آسمانوں کی بابت کوئی نشانی دریافت کرتے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم انہیں بتا دیتے تو ان کے خالی الذہن ہونے کی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا بتانا ان کے حق میں بے فائدہ رہتا اور واقعہ معراج کی تصدیق کے لیے کوئی دلیل قائم نہ ہوتی ۔ اس حکمت کی بناء پر اللہ تعالیٰ نے آسمانی معراج کا ذکر تفصیل کے ساتھ نہیں فرمایا بلکہ ’’لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰتِنَا‘‘ میں اجمال کے ساتھ اسے بیان فرما دیا تاکہ مسجد اقصیٰ کی طرف حضور کا لے جانا ان کو آسمانوں پر لے جا کر وہاں کی آیات دکھانے پر دلیل قائم ہو جائے۔ خلاصۃ الکلام یہ کہ آیۂ کریمہ میں اسراء کا بیان مفصل ہے اور معراج کا ذکر مجمل۔ اور مفصل مجمل کی دلیل ہے۔ آیۂ کریمہ میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اس تمام سفر مبارک کو اس طرح بیان فرمایا ہے کہ اس کے تین مرحلے الگ الگ نظر آتے ہیں ۔

پہلا مرحلہ مسجد حرام سے شروع ہو کر مسجد اقصیٰ پر ختم ہوتا ہے۔ دوسرے مرحلے کا بیان ’’لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰتِنَا‘‘ میںوارد ہے اور تیسرے مرحلہ کا بیان ’’اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ‘‘ میں موجود ہے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم مسجد حرام سے چل کر مسجد اقصیٰ پہنچے اور مسجد اقصیٰ سے آسمانوں پر جلوہ گر ہوتے ہوئے عرشِ الٰہی تک تشریف لے گئے۔ پھر عرشِ الٰہی سے ’’اِلٰی حَیْثُ شَائَ اللّٰہُ‘‘ (جہاں تک اللہ نے چاہا) جلوہ فگن ہوئے اور زمان و مکان بلکہ عالم امکان کی قیود سے بالا تر ہو کر اللہ تعالیٰ کے قرب خاص سے مشرف ہوئے اور اپنے رب کا جمال اپنے سر اقدس کی آنکھوں سے بے حجاب دیکھا ۔

سُبْحٰنَ الَّذِیْ سے لے کر اَلَّذِیْ بَارَکْنَا حَوْلَہٗ تک اسریٰ کا تفصیلی بیان ہے اور لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰتِنَا میں تمام آسمانی سفر کا اجمالی ذکر ہے اور اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ میں اللہ تعالیٰ کے قرب خاص میں اس کا کلام سننے اور جمال دیکھنے کا بیان ہے ۔

مراحل ثلاثہ میں باریک اور لطیف فرق

مسجدِ حرام سے مسجد اقصیٰ تک دنیائے جسمانیات اور عالم شہادت ہے اور مسجد اقصیٰ سے اوپر آسمانوں اور عرش کا عالم روحانی، نورانی اور مجرد لطیف کائنات ہے۔ اس کے بعد فوق العرش اللہ تعالیٰ کی بارگاہِ قدس ہے۔ جس میں کسی کائن و مخلوق کا شائبہ تک متصور نہیں بلکہ زمان و مکان سے بالا تر، اللہ تعالیٰ کے جلوہ ہائے عظمت و جلال کے ظہور کا وہ عالم ہے جسے عالم کہنا بھی صرف مجاز ہے۔ حقیقت میں وہ عالم و عالمیات سے کہیں اعلیٰ اور برتر ہے کیونکہ زمان و مکان کی حدود میں جمال الوہیت کا ظہور اتم مقید نہیں ہو سکتا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ذاتِ گرامی کا تینوں مرحلوں سے تعلق ۔ ان تینوں مرحلوں سے حضور نبی کریم کی ذات گرامی کا ربط اور تعلق یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تین شانیں ہیں : ⬇

(۱) بشریت : جس کو عالم جسمانیت سے ربط ہے ۔
(۲) ملکیت اور روحانیت : جسے عالم انوار اور حقائق مجردات قدسیہ سے تعلق ہے ۔
(۳) محمدیت : یعنی حق تعالیٰ کی ذات و صفات اور حسن و جمال کا مظہر اتم ہونا، جسے بارگاہِ قدس اور حضرت جمال الوہیت سے گہرا تعلق ہے ۔

سفرِ معراج کے تینوں مرحلوں اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تینوں شانوں کا تعلق اور باہمی مناسبت کو ذہن نشین کر لینے کے بعد آیت کریمہ کی روشنی میں فلسفۂ معراج نہایت آسانی کے ساتھ سمجھ میں آ سکتا ہے ۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ معراج کا مقصد نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا اپنی شایانِ شان بلند اور اونچے مراتب تک پہنچنا ہے ۔ چونکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی یہ مذکورہ شانیں ایسی ہیں کہ تمام کمالاتِ محمدی ان ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں اور ہر کمالِ نبوی کا سرچشمہ یہی تین شانیں ہیں ۔ لہٰذا ان میں سے ہر ایک کا اپنے عروج پر پہنچنا تکمیل معراج کے لیے ضروری ہوا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بشریت، نورانیت و مظہریت سب کا عروج ضروری ہوا۔ یہ امر واضح رہے کہ ہر چیز کا عروج اسی عالم میں متصور ہے جس سے اس چیز کا تعلق پایا جاتا ہے۔ اس لیے بشریت کا معراج عالم بشریت میں ہو گا اور نورانیت اور روحانیت کا معراج عالم ارواح و عالم انوار میں اور اسی طرح حقیقت محمدیہ یعنی مظہریت حق کا معراج بارگاہِ حق تعالیٰ میں ہو گا ۔
آیتِ کریمہ کے مضمون میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی معراج مبارک بالکل اسی شان سے واقع ہوئی ۔ دیکھیے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم مسجد حرام سے چل کر مسجدِ اقصیٰ پہنچے جہاں تمام انبیاء علیہم السلام نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اقتداء کی اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سب کے امام بنے ۔ مسجد اقصیٰ عالم اجسام میں ہے اور اس میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بشریت مطہرہ کو یہ عروج حاصل ہوا کہ تمام انبیاء علیہم السلام نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بشریت مقدسہ کے پیچھے اقتدا کی ۔ بشریت محمدی کا مسجد اقصیٰ میں انبیاء علیہم السلام کا مقتدا ہونا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بشریت کا معراج ہے ۔ اس حیثیت سے کہ عالم بشریت میں انسانیت اور بشریت کا کمال رکھنے والے یعنی حضرات انبیاء علیہم السلام پیچھے ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بشریت آگے ہے۔ اس کے بعد جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم مسجد اقصیٰ سے آسمانوں پر تشریف لے گئے اور ساتوں آسمانوں سے گزر کر سدرۃ المنتہیٰ پہنچے ۔ یہ تو وہ مقام ہے کہ جہاں سے اللہ تعالیٰ کے بڑے بڑے فرشتے بھی آگے نہیں جا سکتے۔ آسمان اول سے لے کر سدرہ تک تمام روحانی اور نورانی افراد یعنی ملائکہ کرام پیچھے رہ گئے۔ حتیٰ کہ جبریل علیہ السلام بھی وہاں سے آگے نہ بڑھ سکے۔ لیکن حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سب کو پیچھے چھوڑ کر سدرۃ المنتہیٰ سے آگے تشریف لے گئے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا سدرہ سے آگے تشریف لے جانا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی حقیقت ملکیہ اور آپ کی نورانیت و روحانیت کا چمکتا ہوا معراج تھا۔ اس حیثیت سے کہ عالم ملائکہ میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نورانیت و روحانیت درحقیقت ملکیت کی معراج ہے ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا بلند زمان و مکان کی قیود سے بالا ہو کر فوق العرش پہنچ کر بارگاہِ حق تعالیٰ جل مجدہٗ میں حاضر ہونا اور ثُمَّ دَنٰی فَتَدَلّٰی فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰی کے مراتب عالیہ پر فائز ہونا اور سر اقدس کی آنکھوں سے بے حجاب اللہ تعالیٰ کو دیکھنا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی حقیقت محمدیہ اور صورت حقیہ کی معراج ہے۔ اس حیثیت سے کہ وہ عرشِ عظیم جو تجلیات حسن حقیقی کی بلند ترین جلوہ گاہ ہے اسی طرح پیچھے رہ گیا جس طرح مسجد اقصیٰ میں کمال انسانیت رکھنے والے انبیاء علیہم السلام پیچھے رہ گئے اور سدرۃ المنتہیٰ پر کمال ملکیت و نورانیت رکھنے والے ملائکہ مقربین پیچھے رہ گئے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ان سے آگے تشریف لے گئے تھے۔ بالکل اسی طرح حسن الوہیت کی بلند ترین جلوہ گاہ عرشِ عظیم بھی پیچھے رہ گیا اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم زمان و مکان اور تحت و فوق کو پیچھے چھوڑ کر ایسے عالم میں جسے عالم کہنا در حقیقت مجاز ہے اپنی حقیقت محمدیہ اور صورت حقیہ کے ساتھ اس عرشِ عظیم کی بلندی سے بلند ہو کر اس ذات والاصفات کے ساتھ واصل ہوئے جس کے حسن ذات و صفات کا مظہر اتم تھے۔ اس کا کلام سنا اور اس کا جمال دیکھا نہ ان کی بات سننے اور انہیں دیکھنے والا رب کے سوا کوئی اور تھا نہ رب کا کلام سننے اور اسے دیکھنے والا ان کے سوا کوئی دوسرا تھا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام رب کے سمیع و بصیر تھے اور رب کریم حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا سمیع و بصیر تھا ۔

فوائد الفواد ملفوظات حضرت خواجہ نظام الدین محبوب الٰہی دہلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک حوالہ تو اس سے قبل عرض کر چکا ہوں۔ وہ فرماتے ہیں کہ مسجد حرام سے بیت المقدس تک اسراء ہے اور وہاں سے آسمانوں تک معراج اور آسمانوں سے قاب قوسین تک اعراج ہے۔ یہ ملفوظ مبارک بھی فقیرکے بیان سابق پر بلا تاویل واضح اور روشن دلالت کر رہا ہے۔ دوسرے حوالہ کی فارسی عبارت کا اردو خلاصہ حسب ذیل ہے ۔ کسی خادم نے عرض کیا، حضور! لوگ کہتے ہیں کہ قلب کو بھی معراج ہوئی ہو گی اور قالب کو بھی اور روح کو بھی۔ ہر ایک کو کس طرح معراج ہوئی ہو گی؟ حضور خواجہ غریب نواز نے جواب میں یہ مصرع پڑھا ’’تظن خیرا ولا تسئل عن الخیر‘‘یعنی ’’گمان خیر رکھ اور خیر کی بابت تحقیق نہ کر ۔ (فوائد الفواد جلد نمبر ۴ صفحہ نمبر ۲۰۸،چشتی)

مطلب یہ ہے کہ یہ معاملہ اللہ اور رسول کے مابین راز ہے جس کو مان لو اور اس کی ماہیت و کیفیت کے پیچھے نہ پڑو ۔ اس مضمون سے بھی فقیر کے بیان پر اس طرح روشنی پڑتی ہے کہ قالب بشریت ہے روح ملکیت اور قلب مظہریت حق۔ تینوں کو معراج ہوئی۔ یہ اجمال ہے۔ اس کی تفصیل وہ تھی جو فقیر وضاحت کے ساتھ بیان کر چکا ہے ۔ مختصر یہ کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بشریت ملکیت اور مظہریت تینوں کو معراج کرائی ۔ بشریت اس عالم کی چیز ہے اس کی معراج یہاں یعنی مسجد اقصیٰ میں ہوئی۔ ملکیت و نورانیت عالم سمٰوٰت سے تعلق رکھتی ہے ۔ اس کی معراج آسمانوں پر ہوئی۔ مظہریت حقیہ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات سے متعلق ہے ۔ اس لئے اس کی معراج فوق العرش لامکان میں ہوئی۔ جہاں اللہ تعالیٰ کا دیدار حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ہوا۔ بشریت کی معراج اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصٰی میں تفصیلاً مذکور ہے اور آسمانی معراج لِنُرِیَہٗ میں اجمالا مذکور ہے اور معراج فوق العرش قربِ ایزدی و دیدار الٰہی کا ذکر اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ میں ہے ۔

معلوم ہوا کہ سفر معراج کے تین حصے صرف اس لیے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تین صفتیں ہیں۔ ہر صفت کی معراج کا مستقل ذکر ہے ۔ ہمارے اس بیان سے کوئی شخص اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو جائے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بشریت کو جب معراج ہوئی تھی تو اس وقت روح مبارک نہ تھی یا جس وقت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی حقیقت ملکیہ کی معراج آسمانوں پر ہوئی تو اس وقت جسمانیت مطہرہ ساتھ نہ تھی ۔ اسی طرح جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی مظہریت مطہرہ کو معراج ہوئی تھی تو روحِ اقدس یا جسمِ مبارک اس وقت موجود نہ تھا ۔ اس لئے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ان تمام مراحل میں جسم اقدس اور روح مبارک کے ساتھ جلوہ گر تھے۔ جب مسجد اقصیٰ تشریف لے گئے تو جسم اقدس کے ساتھ روح مبارک بھی تھی اور جب مسجد اقصیٰ سے آسمانوں اور سدرۃ المنتہیٰ پر تشریف لے گئے تو اس وقت بھی روح مبارک بدن اقدس میں جلوہ گر تھی ۔ البتہ یہ ضرور ہوا کہ اس عالم ناسوت میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بشریت مطہرہ بالفعل تھی اور ملکیت مقدسہ بالقوۃ۔ جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام جسم و روح اقدس کے ساتھ عالم ملائکہ میں پہنچے تو اس وقت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بشریت بالقوۃ اور ملکیت بالفعل ہو گئی تھی اور جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام مقام ’’دَنٰی فَتَدَلّٰی‘‘ پر جلوہ گر ہوئے تو بشریت و ملکیت دونوں بالقوۃ ہو گئیں اور کمال مظہریت قوت سے فعل کی طرف متوجہ ہوا۔ اس کی مثال یہ ہے کہ آدمی جب کسی پر غضب ناک ہوتا ہے تو اس میں رحم کی صفت موجود ہوتی ہے ۔ بولنے کے وقت خاموش ہونے کی اور خاموشی کے وقت بولنے کی طاقت انسان میں موجود ہوتی ہے۔ حرکت کے وقت سکون کی اور سکون کے وقت حرکت کی قوت انسان میں پائی جاتی ہے ۔ اسی طرح بشریت کے معراج کے وقت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ملکیت و مظہریت موجود تھی اور حقیقت ملکیہ کے وقت بشریت اور مظہریت دونوں صفتیں بحال تھیں۔ پھر حقیقت مظہریت کی معراج ہوئی تو بشریت اور ملکیت دونوں بدستور تھیں ۔ ان تینوں میں سے ہر ایک کی معراج کے وقت اسی حقیقت کا غلبہ تھا ۔ مسجد اقصیٰ میں بشریت اور آسمانوں میں ملکیت و روحانیت اور عرش پر حقیقت مظہریت کو اللہ تعالیٰ نے غالب فرما دیا تھا ۔ (مقالات کاظمی جلد اوّل) ۔ (مزید حصّہ سوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق محترم قارئین کرام : علامہ اقبال اور قائداعظم کے خلاف فتوی دینے کے سلسلے میں تج...