Friday 10 February 2023

فضائل و مناقب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ حصّہ یازدہم

0 comments

فضائل و مناقب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ حصّہ یازدہم

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر اعتراضات کے جوابات : ⬇

اعتراض : ایک دفعہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے کندھوں پر یزید کو لے جا رہے تھے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جہنمی پر جہنمی سوار ہے )معاذ اللہ (معلوم ہوا کہ یزید بھی دوزخی اور امیر معاویہ بھی دوزخی (نعوذ بااللہ) ؟
جواب : ماشاء اللہ یہ ہے دشمن صحابہ کی تاریخ پر نظر اور یہ ہے ان کی نادانی کا حال ۔ دلیل : یزید کی پیدائش حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور حکومت میں ہوئی ۔ دیکھو کتاب جامع ابن اثیر اور کتاب الناہیہ وغیرہ ۔ آپ نے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں یزید کو پیدا کردیا ‘ کیا یزید عالم ارواح سے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے کندھے پر کود کر آگیا ۔ لاحول ولاقوۃ ۔

اعتراض : حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بددعا دی ‘ چنانچہ مسلم شریف کی حدیث لاتے ہیں کہ حضرت عبدﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک بار مجھے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو بلاؤ میں بلانے گیا تو وہ کھانا کھا رہے تھے ۔ میں نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم وہ کھا رہے ہیں تو فرمایا ان کا پیٹ نہ بھرے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا بھی قبول ہے اور خلاف دعا بھی چنانچہ حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف دعا کی ۔
جواب : اعتراض کرنے والے نے اس حدیث کو سمجھنے میں غلطی کی ‘ کم از کم اتنی ہی بات سمجھ لی ہوتی کہ جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گالیاں دینے والوں کو معاف کردیتے وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس موقع پر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف کیوں دعا کرتے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ حضرت ابن عباس رضی ﷲ عنہما نے حضرت معاویہ رضی ﷲ عنہ سے یہ کہا بھی نہیں کہ آپ کو سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بلا رہے ہیں ۔ صرف دیکھ کر خاموش واپس آئے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے واقعہ عرض کیا ۔ تیسری بات یہ ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کا نہ کوئی قصور تھا نہ کوئی خطا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے خلاف دعا کریں ‘ یہ ناممکن ہے۔ اب اعتراضات کے جوابات پڑھیئے کہ عرب میں محاورۃ اس قسم کے الفاظ پیار و محبت کے موقع پر بھی بولے جاتے ہیں ان سے بددعا مقصود نہیں ہوتی۔ مثلا: تیرا پیٹ نہ بھرے‘ تجھے تیری ماں روئے‘ وغیرہ کلمات غضب کے لئے نہیں بلکہ کرم کے لئے ارشاد ہوئے ہیں اور اگر مان بھی لیا جائے کہ سرکار علیہ السلام نے حضرت معاویہ رضی ﷲ عنہ کے خلاف بددعا کی تو بھی یہ بددعا حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کے حق میں رحمت بنی‘ ﷲ تعالیٰ نے حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کو اتنا بھرا اور اتنا مال دیا کہ انہوں نے سینکڑوں کا پیٹ بھر دیا ۔ ایک ایک شخص کو بات بات پر لاکھوں لاکھوں انعام دیتے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب عزوجل سے عہد لیا تھا کہ اے ﷲ تعالیٰ اگر میں کسی مسلمان کو بلاوجہ لعنت یا اس کے خلاف دعا کروں تو اسے رحمت اجر اور پاکی کا ذریعہ بنا دینا۔ حدیث : حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا ‘ حضرت ابوہریرہ رضی ﷲ عنہ سے کتاب الدعوات میں حدیث ہے کہ فرمایا‘ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہ اے ﷲ تعالیٰ جس کسی کو برا کہہ دوں تو قیامت میں اس کے لئے اس بد دعا کو قرب کاذریعہ بنا ۔ (بحوالہ مسلم شریف) ۔ اب سمجھ میں آگیا کہ حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ پر لگائے گئے سارے الزامات بے بنیاد ہیں اور حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کاتب وحی‘ عاشق رسو ل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جیّد صحابی ہیں ۔ (اس کا تفصیلی جواب آگے آ رہا ہے ان شاء اللہ)

اعتراض : حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ دشمنِ اہل بیت رضی اللہ عنہم تھے دلیل واقعہ کربلا ۔
جواب : اس سوال کا جواب مسلک اہل سنت کی سینکڑوں کتابوں میں موجود ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ اہل بیت سے سچی محبت کرتے تھے لیکن اس کا جواب ہم شیعہ حضرات کی معتبر کتابوں سے دیتے ہیں ۔ شیعہ مولوی ملا باقر مجلسی کتاب جلاء العیون میں لکھتا ہے : حضرت معاویہ رضی ﷲ عنہ وصال کے وقت یزید کو یہ وصیت فرماگئے کہ امام حسین رضی ﷲ عنہ پس ان کی نسبت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہے ۔ تجھے معلوم ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بدن کے ٹکڑے ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گوشت و خون سے انہوں نے پرورش پائی ہے ۔ مجھے معلوم ہے کہ عراق والے ان کو اپنی طرف بلائیں گے اور ان کی مدد نہ کریں گے۔ تنہا چھوڑ دیں گے اگر ان پر قابو پالے تو ان کے حقوق کو پہچاننا ‘ ان کا مرتبہ جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہے اس کو یاد رکھنا ‘ خبردار ان کو کسی قسم کی تکلیف نہ دینا ۔ (جلاء العیون جلد دوم ص 421,422،چشتی)

صاحب ناسخ التواریخ شیعہ مٶرخ لکھتا ہے : حضرت معاویہ رضی ﷲ عنہ نے یزید کو یہ وصیت فرمائی ۔ ’’کہ اے بیٹا ! ہوس نہ کرنا اور خبردار جب ﷲ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہو تو تیری گردن میں حسین بن علی رضی ﷲ عنہما کا خون نہ ہو ۔ ورنہ کبھی آسائش نہ دیکھے گا اور ہمیشہ عذاب میں مبتلا رہے گا ۔
غور کیجئے ! حضرت معاویہ رضی ﷲ عنہ‘ یزید کو یہ وصیت کر رہے ہیں کہ ان کی تعظیم کرنا بوقت مصیبت ان کی مدد کرنا ۔ اب اگر یزید پلید اپنے والد کی وصیت پر عمل نہ کرے تو اس میں حضرت معاویہ رضی ﷲ عنہ کا کیا قصور ؟ حضرت امام مالک علیہ الرحمہ نے یزید پلید کو کافر لکھا ہے اور اہل سنت و جماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ یزید پلید‘ شرابی‘ ظالم اور امام حسین رضی ﷲ عنہ کے خون کا ذمہ دار ہے‘ لیکن اس کے بدلے میں حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کو بدنام کرنا یہ کون سی دیانت ہے ؟ الحَمْدُ ِلله ! ان تمام دلائل سے معلوم ہوا کہ شان حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کتنی بلند ہے۔ ان دلائل سے ان لوگوں کو عقل کے ناخن لینے چاہیے جو علم نہ ہونے کی وجہ سے بکواس کرتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کے بارے میں اپنی زبان کو بند رکھیں ‘ خصوصا واعظین اور خطباء جو جوشِ خطابت میں حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کو باغی کہہ دیتے ہیں اور ذرا بھی ادب و لحاظ نہیں کرتے ۔ ایسے لوگ احتیاط کریں ۔ اگر کوئی حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ اور حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے مابین جنگ سے متعلق سوال بھی کرے تو حکمت عملی سے یہ کہہ کر عوام اہلسنت کو مطمئن کردیں کہ ہمارے لیے دونوں ہستیاں لائق احترام و تعظیم ہیں لہٰذا ہمیں اپنی زبانوں کو بند رکھنا چاہیے ۔ کہیں ایسا نہ ہوکہ ہمارا ایک جاہلانہ بول بروز قیامت ہمیں مہنگا نہ پڑ جائے ۔ حضرت عمر فاروق رضی ﷲ عنہ کا فرمان ہمارے لیے کافی ہے ۔ آپ فرماتے ہیں کہ حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کا ذکر کرو تو خیر سے کرو سادات کرام بھی حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کے متعلق احتیاط سے کام لیں اور اپنی نسبت کا لحاظ رکھتے ہوئے امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کی شان میں گستاخی سے بچیں ۔

شیادت حضرت امامِ حسن اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما کے متعلق ایک اعتراض کا جواب : سنن ابی داؤد کی درج ذیل روایت میں چند سوالات ہیں : اس روایت اور اس جیسی روایات کیا درجہ صحت کو پہنچتی ہیں ؟

حضرت امامِ حسن رضی اللہ عنہ کی وفات پر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا یہ سوال کرنا کہ ’’ أَتَرَاهَا مُصِيبَةً ؟ ‘‘ کیا آپ ان کی وفات کو مصیبت سمجھتے ہیں اور حضرت مقدام کا سخت جواب دینا اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حضرت معاویہ وفاتِ حضرت امامِ حسن رضی اللہ عنہ کو ہلکا لے رہےتھے اور حضرت معاویہ کے دل میں حضرت امامِ حسن رضی اللہ عنہ کا کوئی خاص مقام نہیں تھا ۔

حضرت مقدام رضی اللہ عنہ کے بقول حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے گھر میں سونا ، ریشم اور درندوں کی کھالیں استعمال میں لائی جاتی تھیں حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے استعمال سے منع فرمایا ہے ۔

حضرت معاویہ کی موجودگی میں ان کے ساتھی اسدی نے حضرت حسن کے بارے میں یہ کہا کہ ’’انگارہ تھا جو بجھ گیا‘‘ اور حضرت مقدام اس پر غصہ ہوئے یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ حضرت معاویہ کے ہوتے ہوئے حضرت حسن رضی اللہ عنہم کی بارے میں اس طرح کی بات کی جائے  ۔

سنن ابی داود کی روایت یہ ہے : حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ بْنِ سَعِيدٍ الْحِمْصِيُّ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، عَنْ بَحِيرٍ، عَنْ خَالِدٍ، قَالَ: وَفَدَ الْمِقْدَامُ بْنُ مَعْدِي كَرِبَ، وَعَمْرُو بْنُ الْأَسْوَدِ، وَرَجُلٌ مِنْ بَنِي أَسَدٍ مِنْ أَهْلِ قِنَّسْرِينَ إِلَی مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، فَقَالَ مُعَاوِيَةُ لِلْمِقْدَامِ: أَعَلِمْتَ أَنَّ الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ تُوُفِّيَ؟ فَرَجَّعَ الْمِقْدَامُ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: أَتَرَاهَا مُصِيبَةً؟ قَالَ لَهُ: وَلِمَ لَا أَرَاهَا مُصِيبَةً، وَقَدْ وَضَعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حِجْرِهِ فَقَالَ: «هَذَا مِنِّي» وَحُسَيْنٌ مِنْ عَلِيٍّ؟، فَقَالَ الْأَسَدِيُّ: جَمْرَةٌ أَطْفَأَهَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ. قَالَ: فَقَالَ الْمِقْدَامُ: أَمَّا أَنَا فَلَا أَبْرَحُ الْيَوْمَ حَتَّی أُغَيِّظَكَ، وَأُسْمِعَكَ مَا تَكْرَهُ، ثُمَّ قَالَ: يَا مُعَاوِيَةُ إِنْ أَنَا صَدَقْتُ فَصَدِّقْنِي، وَإِنْ أَنَا كَذَبْتُ فَكَذِّبْنِي، قَالَ: أَفْعَلُ، قَالَ: فَأَنْشُدُكَ بِاللَّهِ هَلْ تَعْلَمُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «نَهَی عَنْ لُبْسِ الذَّهَبِ؟» قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَأَنْشُدُكَ بِاللَّهِ، هَلْ تَعْلَمُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «نَهَی عَنْ لُبْسِ الْحَرِيرِ؟» قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَأَنْشُدُكَ بِاللَّهِ، هَلْ تَعْلَمُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «نَهَی عَنْ لُبْسِ جُلُودِ السِّبَاعِ وَالرُّكُوبِ عَلَيْهَا؟» قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَوَاللَّهِ، لَقَدْ رَأَيْتُ هَذَا كُلَّهُ فِي بَيْتِكَ يَا مُعَاوِيَةُ، فَقَالَ مُعَاوِيَةُ: قَدْ عَلِمْتُ أَنِّي لَنْ أَنْجُوَ مِنْكَ يَا مِقْدَامُ، قَالَ خَالِدٌ: فَأَمَرَ لَهُ مُعَاوِيَةُ بِمَا لَمْ يَأْمُرْ لِصَاحِبَيْهِ وَفَرَضَ لِابْنِهِ فِي الْمِائَتَيْنِ، فَفَرَّقَهَا الْمِقْدَامُ فِي أَصْحَابِهِ، قَالَ: وَلَمْ يُعْطِ الْأَسَدِيُّ أَحَدًا شَيْئًا مِمَّا أَخَذَ، فَبَلَغَ ذَلِكَ مُعَاوِيَةُ، فَقَالَ: أَمَّا الْمِقْدَامُ فَرَجُلٌ كَرِيمٌ بَسَطَ يَدَهُ، وَأَمَّا الْأَسَدِيُّ فَرَجُلٌ حَسَنُ الْإِمْسَاكِ لِشَيْئِهِ۔ (سنن ابی داود، کتاب اللباس، باب في جلود النمور والسباع)

جواب : یہ روایت ابو داؤد شریف میں موجود ہے ۔ صاحبِ ابو داود نے یہ روایت نقل کر کے اس پر کوئی کلام نہیں فرمایا جو ان کے نزدیک صحیح ہونے کی علامت ہے ۔ حدیث میں یہ قول حضرت امیر معاویہ کی طرف منسوب نہیں ہے بلکہ اہل مجلس میں سے کسی کا ہے ۔ چناں چہ روایت میں ’’فقال له رجل‘‘ کا لفظ ہے ، لہذا حضرت امیر معاویہ کا حضرت امامِ حسن کی وفات کو ہلکا سمجھنا ثابت نہیں ہوا ، اسی لیے حضرت امیر معاویہ پر یہ اعتراض بھی غلط ہےکہ ان کے دل میں حضرت امامِ حسن کا کوئی مقام نہیں تھا ۔ بلکہ دیگر روایات سے ثابت ہے کہ حضرت امیر معاویہ ، حضرت امامِ حسن کا بہت احترام فرماتے تھے ۔ اہل سنت والجماعت کی یہی رائے ہے کہ حضرت امامِ حسن بہت محترم ومکرم صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں ۔ دیگر حضرات کی طرح حضرت امیر معاویہ کا ان سے عزت واحترام کا برتاؤ تھا رضی اللہ عنہم ۔

روایت میں ان چیزوں کے گھر میں ہونے کا تو ذکر ہے لیکن خود حضرت امیر معاویہ کے استعمال فرمانے کا ذکر نہیں ہے ، اس لیے اس روایت کی بنیاد پر ان پر حدیث کی مخالفت کا الزام درست نہیں ۔

’’انگارہ‘‘ کہنے پر حضرت معاویہ کی خاموشی کسی حکمت پر مبنی ہو سکتی ہے ، لہٰذا محض خاموشی کی وجہ سے ان پر عدمِ احترام کا الزام درست نہیں معلوم ہوتا ۔ لیکن اس کے برعکس ایسی اور بہت سی روایات ایسی موجود ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت امیر معاویہ اور حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہم کے درمیان تعلقات انتہائی عمدہ اور خلوص سے پر تھے، مثلاً : ⬇

جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت قائم ہو گئی تو حضرت امامِ حسین ، اپنے بھائی حضرت امامِ حسن رضی اللہ عنہما کے ساتھ حضرت معاویہ کے پاس جایا کرتے تھے ۔ وہ ان دونوں کی بہت زیادہ تکریم کرتے ، انہیں خوش آمدید کہتے اور عطیات دیتے ۔ ایک ہی دن میں حضرت معاویہ نے انہیں بیس لاکھ درہم دیے ۔ (تاريخ دمشق لابن عساکر، حرف الميم، معاوية بن صخر أبي سفيان،چشتی)

حضرت امامِ حسن بن علی ایک مرتبہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہم کے پاس آئے تو انہوں نے فرمایا : میں آپ کو ایسا عطیہ دوں گا جو مجھ سے پہلے کسی نے نہ دیا ہو گا ۔ چنانچہ انہوں نے حضرت امامِ حسن کو چالیس لاکھ درہم دیے ۔ ایک مرتبہ امامِ حسن و امامِ حسین رضی اللہ عنہما دونوں ان کے پاس آئے تو انہیں بیس بیس لاکھ درہم دیے ۔  (تاريخ دمشق لابن عساکر، حرف الميم، معاوية بن صخر أبي سفيان)

جب حضرت امامِ حسن کا انتقال ہوا تو حضرت امامِ حسین برابر ہر سال حضرت معاویہ رضی اللہ عنہم کے  پاس جاتے رہے ۔ وہ انہیں عطیہ دیتے اور ان کی بھر پور عزت کرتے ۔ (البداية والنهاية، سنة ستين من الهجرة، قصة الحسين بن علي،چشتی)

حضرت معاویہ کا حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہم کو تحفے بھیجنا اتنی معروف بات ہے کہ ابو مخنف شیعہ کو بھی اس سے انکار نہیں ہے موصوف لکھتے ہیں : معاویہ ہر سال امامِ حسین رضی اللہ عنہما کو ہر قسم کے تحفوں کےعلاوہ دس لاکھ دینار بھیجا کرتے تھے ۔ (مقتل الحسین علیہ السلام لابی مخنف قم مطبعہ امیر)

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر ظالم بادشاہ ہونے کا الزام کا جواب
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو ظالم بادشاہ ثابت کرنے والے رافضی دلاّلوں کو حضرت امام قاضی علی بن محمد بن ابی العز الدمشقی علیہ الرحمہ کا زوردار طمانچہ حضرت امام فرماتے ہیں : وأول ملوك المسلمين معاوية وهو خير ملوك المسلمين ۔
ترجمہ : حضرت امیر معاویہ پہلے مسلمان بادشاہ تھے اور مسلمان بادشاہوں میں سب سے بہترین بادشاہ تھے ۔ (شرح العقیدہ الطحاویہ صفحہ 722)

یہ اہل سنت و جماعت کا عقیدہ ہے جو حضرت امام طحاوی علیہ الرحمہ نے لکھا ہے پھر یہ بھی کہ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے حضرت امیر معاویہ کو خلافت سپرد کی اور بیعت بھی کی اگر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ ظالم بادشاہ ہوتے تو امام حسن رضی اللہ عنہ اور امام حسین رضی اللہ عنہ بیعت نہ کرتے اور نہ ہی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے تحفے قبول کرتے اگر رافضی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو ظالم بادشاہ کہے گے تو وہ حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کے تعلق سے کیا کہے گے کہ انہوں نے بیعت کی تحفے قبول کیے اور دونوں خاندانوں میں رشتہ داریاں بھی ہوئیں ۔

حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ کی عبارت حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے تعلق سے ۔ آج کل رافضی دلاّلوں کو پاگل کتے نے کاٹ لیا ہے یہ اتنے پاگل ہو گئے ہیں کہ جہاں دیکھو وہاں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے تعلق سے بکواس کرتے ہوئے نظر آرہے اکابرینِ اہل سنت کی ادھوری یا تحریف کی ہوئی عبارات کو عوام کو دیکھا کر گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ایک ویڈیو بھی دیکھنے میں آئی جو کسی فاسق و فاجر مجاور کی تھی جس کو ڈھنگ سے اردو بھی بولنا نہیں آرہا تھا اس مجاور نے حضرت شاہ عبدالعزیز کا حوالا بتا کر یہ ثابت کرنا چاہا کہ شاہ عبدالعزیز دہلوی بھی اس مجاور کی طرح حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے تعلق سے باطل عقیدہ رکھتے ہیں اس طرح فیس بک وٹساپ پر رافضی دلال حضرت شاہ عبدالعزیز دہلوی کی عبارات بتا کر گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ہم آپ کو شاہ عبدالعزیز دہلوی کا اصل عقیدہ انہیں کی زبانی بتاتے ہیں حضرت شاہ عبدالزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق فقیر کی جانب سے کوئی سست باتیں نہیں ہوئیں ہیں ،اگر تحفہ اثنا عشریہ میں ملتی ہیں تو وہ کسی نے مکر وفریب سے فتنہ انگیزی کے لئے یہ کام کیا ہوگا کیونکہ زامنہ قدیم سے رافضیوں کا یہ ہی طریقہ کار ہے جیسا کے بندہ نے بھی سنا ہے کہ الحاق شروع ہوچکا ہے اللہ ہی بہترین محافظ ہے اور یہ اعتراضیہ جملے معتبر نسخوں میں نہیں پائے جاتے ۔ (مکتوبات شاہ عبدالعزیز و شاہ رفیع الدین صفحہ 265،266،چشتی)

حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے رافضی دلالوں کے اپنے ہی زمانے میں منہ ایسا کالا کردیا تھا کہ اور اتنے جوتے زور کے لگائے تھے کے آج تک رافضی اور ان کے دلال کے گھر عقل سے گنجے بچےپیدا ہو رہے ہِیں ۔

دشمنان حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر ایک حدیث کے حوالے سے اعتراض کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہما کو حمار کہا ہے جہاں سے یہ رافضی دلال روایت نقل کرتے ہیں اسی کے آگے پیچھے یہ بھی روایت موجود ہے کہ یہ لفظ دوسری روایت میں موجود نہیں رافضی دلالوں نے طحاوی شریف کے حوالے سے ایک پوسٹ بنائی ہے جبکہ اسی صفحہ پر دوسری روایت بھی موجو د ہے کہ : ابوبکرہ نے عمران کی سند سے اسی طرح روایت کی مگر اس میں لفظ ‘حمار’ کا لفظ نہیں ہے ۔ (طحاوی شریف جلد اول صفحہ 828) ۔ مزید یہ کہ حمار والی روایت مین اباغستان مالک بن یحی السوسی الھمدانی ہے جو کہ منکر الحدیث ہے ۔ (تہذیب الکمال 8 صفحہ 139)

اگر بالفرض روایت تسلیم بھی کی جائے تو اس میں کوئی عیب بھی نہیں کہ یہ ایسے ہی ہے جیسے استاد شاگرد کو کہتا ہے والدین اپنے بچوں کو کہتے ہیں کوئی بہت ہی زیادہ قریبی دوست اپنے عزیز دوست کو کہتا ہے اور یہ بھی تو ہے کے عرب میں کیے جملے محاوروں کے بھی مشہور رہے ہیں جس کا ثبوت ہمیں احادیث پاک سے بھی ملتا ہے کہ سرکارکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی صحابی سے فرمایا تمہاری ناک خاک آلود ہو اور کسی سے فرمایا تیری ماں تجھے روئے وغیرہ لہذا یہ روایت رافضی دلالوں کے کام کی نہیں ۔ اور آخر میں یہ بھی عرض کردوں کہ تقیہ کرنا یہ رافضی دلالوں کا کام ہے اہل سنت و جماعت تمام اہل بیتِ اطہار رضی اللہ عنہم کے تعلق سے یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ تقیہ سے پاک تھے اور جہاں کہیں حق گوئی بیان کرنا ہوتا کر دیتے چاہے اس کے لئے اپنی جان تک ہی قربان کرنی کیوں نہ پڑے امام حسین رضی اللہ عنہ کی حق گوئی کو کون بھول سکتا ہے اس لیے رافضی دلالو تم جھوٹا الزام حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما پر نہ لگانا کہ وہ حضرت امیر معاویہ کو تقیہ کر کے فقیہ مانتے تھے بلکہ وہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو حقیقۃً فقیہہ مانتے تھے ۔

حضرت علی اور حضرت امیر معاویہ بھائی بھائی یہ بات امام جعفر نے بتائی : حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے تعلق سے رافضی دلال نے امیج بنائی کہ معاذ اللہ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو اپنا دشمن کہتے تھے جبکہ انہیں رافضی دلالوں کے آقا یعہ نے قرب الاسناد میں لکھا ہے : حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ اپنے والد حضرت امام باقر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے مد مقابل (حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ) اور ان کے ساتھیوں میں سے کسی کو مشرک یا منافق نہیں کہتے تھے لیکن یو فرمایا کرتے تھے کہ وہ ہمارے بھائی تھے ان سے زیادتی ہوگئی ۔ (قرب الاسناد صفحہ 94)

اب رافضی اور ان کے دلال سینہ کوبی کریں یا اپنے امام پر تبرا لعن طعن جو کرنا ہے کری

حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کے والد شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہما الرحمہ کے نذدیک حضرت امیر معاویہ رضی الله عنه کا گستاخ حرامی ہے : ⬇

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جاننا چاہیے کہ حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما ایک شخص تھے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں سے اور زمرہ صحابہ رضوان اللہ علیہم میں بڑے صاحب فضیلت تھے تم کبھی اُن کے حق میں بد گمانی نہ کرنا اور ان کی بد گوئی میں مبتلا نہ ہونا ورنہ تم حرام کے مرتکب ہوگے ۔ (ازالۃ الخفاء جلد اول صفحہ 349،چشتی)

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمة الله عليه کی اس عبارت سے صاف ظاہر ہوگیا کہ خاندان شاہ ولی اللہ میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے تعلق سے کیا عقیدہ و نظریہ تھا. اب وہ رافضی جو حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمة الله عليه کا حوالہ لے کر ناچ رہے تھے اب وہ اپنے رافضی معبودانِ باطل پر ماتم کریں کیونکہ شاہ ولی اللہ رحمة الله عليه کی عبارت کی روشنی میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی گستاخی کرنے والا حرامی ہے ۔ ﷲ تعالیٰ ہمیں اپنے پیاروں کی شان میں گستاخی سے محفوظ فرمائے آمین ثم آمین ۔ (مزید حصّہ دوازدہم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔