فضائل و مناقب حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ حصّہ نمبر 2
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری رحمة اللہ علیہ العطایا النبویہ فی الفتاویٰ الرضویہ جلد 8 لکھتے ہیں : بخاری و مسلم و نسائی و ابن ماجہ بطُرُقِ عدیدہ سیدنا ابو ہریرہ رضی ﷲ تعالٰی عنہ سے راوی وھذا لفظ مؤلَّف منھا دخل حدیث بعضھم فی بعض (آئندہ الفاظ ان متعدد روایات کا مجموعہ ہیں ، بعض کی احادیث بعض میں داخل ہیں ۔ ت)
قال خرج النبی صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم فجلس بفناء بیت فاطمۃ رضی ﷲ تعالٰی عنہا فقال اُدعی الحسن بن علی فحبستہ شیئا فظننت انھا تلبسہ سخابا او تغسلہ فجاء یشتد وفی عنقہ السخاب فقال النبی صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم بیدہ ھکذا فقال الحسن بیدہ ھکذا حتی اعتنق کل منھما صاحبہ فقال صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم اللھم اِنیّ اُحبُّہ، فَاَحِبَّہ، وَاَحِبَّ مَنْ یُّحِبُّہ ۔ (الصحیح للمسلم باب فضل الحسن والحسین مطبوعہ راولپنڈی ۲/ ۲۸۲)
یعنی ایک بارسید عالم صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم حضرت بتول زہرا رضی ﷲ تعالٰی عنہا کے مکان پر تشریف لے گئے اور سید نا امام حسن رضی ﷲ تعالٰی عنہ کو بلایا، حضرتِ زہرا نے بھیجنے میں کچھ دیر کی، میں سمجھا انھیں ہار پہناتی ہوں گی یا نہلا ررہی ہوں گی ، اتنے میں دوڑتے ہوئے حاضر آئے ، گلے میں ہار پڑا تھا ، سید عالم صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے دست مبارک بڑھائے حضور کو دیکھ کر امام حسن نے بھی ہاتھ پھیلائے ، یہاں تک کہ ایک دوسرے کو لپٹ گئے ، حضور صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے گلے لگا کر دعا کی : الہٰی ! میں اسے دوست رکھتا ہوں تو اسے دوست رکھ اور جو اسے دوست رکھے اسے دوست رکھ۔ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وعلٰی حِبِّہٖ و بارک وسلم ۔
صحیح بخاری میں امام حسن رضی ﷲ تعالٰی عنہ سے مروی : کان النبی صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم یا خُذ بیدی فیُقعدنی علی فخِذِہٖ ویقعد الحسین علٰی فخِذِہ الاُخرٰی ویَضُمُّناَ ثم یقول رب انی ارحمھما فار حمھما ۔ (الصحیح البخاری باب وضع الصبی فی الحجر مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۸۸۸،چشتی)
نبی کریم صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم میرا ہاتھ پکڑ کر ایک ران پر مجھے بٹھا لیتے اور دوسری ران پر امام حسین کو ، اور ہمیں لپٹا لیتے پھر دعا فرماتے : الہٰی ! میں ان پر رحم کرتا ہوں تو ان پر رحم فرما ۔
اسی میں حضرت عبدﷲ بن عباس رضی ﷲ تعالٰی عنہما سے روایت ہے : ضَمَّنیِ النبی صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم الٰی صدرہ ۔ فقال اللھم علمہ الحکمۃ ۔ (الصیح البخاری مناقب ابن عباس مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/۵۳۱)
سید عالم صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم نے مجھے سینے سے لپٹایا پھر دُعا فرمائی : الہٰی ! اسے حکمت سکھا دے ۔
امام احمد اپنی مُسْنَد میں یعلٰی رضی ﷲ تعالٰی عنہ سے راوی : ان حسناً وحُسینا رضی ﷲ تعالٰی عنہما یستبقا الٰی رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم فضمّھما الیہ ۔ (مسند احمد بن حنبل مناقب ابن عباس مطبوعہ دارالفکر بیروت ۴/ ۱۷۲،چشتی)
ایک بار دونوں صاحبزادے حضور اقدس صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم کے پاس آپس میں دوڑ کرتے ہوئے آئے حضور نے دونوں کو لپٹا لیا ۔
جامع ترمذی میں انس رضی ﷲ تعالٰی عنہ سے حدیث ہے : سُئِلَ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم ای اھل بیتک احبّ الیک قال الحسن والحسین وکان یقول لفاطمۃ ادعی لی ابنی فیشمھما ویضمھما ۔ (جامع ترمذی مناقب الحسن والحسین مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی ص ۴۰ ۔ ۵۳۹،چشتی)
سید عالم صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم سے پوچھا گیا حضور کو اپنے اہل بیت میں زیادہ پیارا کون ہے؟ فرمایا : حسن اور حسین ۔ اور حضور دونوں صاحبزادوں کو حضرت زہرا رضی اللہ عنہا سے بلوا کر سینے سے لگالیتے اور ان کی خوشبوُ سُونگھتے ۔
ابن سعد نے طبقات الکبریٰ میں بیان کیا ہے کہ امام محمد (الباقر) بن علی (زین العابدین) بن حسین بن علی(رضی اللہ عنہم) سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت حسن ، حضرت حسین ، حضرت عبد اللہ بن عباس اور حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہم کو بیعت فرمایا اس حال کہ وہ صِغر سنی میں (یعنی عمر میں چھوٹے) تھے اور ابھی باریش نہیں ہوئے تھے اورنہ سن بلوغ کو پہنچے تھے ۔ مزید فرماتے ہیں کہ حضور نبی رحمت صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم نے صرف ہمیں ہی چھوٹی عمرمیں بیعت فرمایا تھا - ( طبقات الکبریٰ)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ کھجور کے درختوں سے کھجوریں اتارتے وقت رسول اللہ صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم کے پاس کھجوریں لائی جاتیں ، سو یہ شخص کھجوریں لاتا اور وہ شخص کھجوریں لاتا حتیٰ کہ آپ صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم پاس کھجوروں کا ڈھیر لگ جاتا پس حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما ان کھجوروں کے ساتھ کھیل رہے تھے ، تو ان میں ایک نے کھجور اپنے منہ میں ڈال لی ۔ پس رسول اللہ صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم نے ان کی طرف دیکھا اور آپ صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم نے وہ کھجور ان کے منہ سے نکال لی اور ارشادفرمایا : أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ آلَ مُحَمَّدٍ صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم لَا يَأْكُلُونَ الصَّدَقَةَ ‘‘ ’’ کیاتم کو معلوم نہیں کہ (سیدنا) محمد صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم کی آل صدقہ نہیں کھاتی ‘‘ ۔ (صحیح البخاری ،کتاب الزکوٰۃ،چشتی)
یہاں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ اپنے بچپن کی زندگی بسر کر رہے تھے ، اگر کھجور تناول بھی فرما لیتے تو کوئی ذی شعور اس بات پہ اعتراض نہ کرتا ، کیونکہ بچپن کا عالم تھالیکن قربان جائیں ، حضور خاتم الانبیاء صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم کے اندازِ تربیت پہ کہ آپ صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم نے اس عمر میں ان کےحلقومِ مبارکہ سے خلاف شرع چیز داخل ہونے کو ناپسند فرمایا ۔ اس سے ہر صاحبِ اولاد اپنے بچوں کی تربیت کے حوالے سے کئی اسباق اخذ کر سکتا ہے ۔
اِنصاف کی بات یہ ہے کہ جن کے والدِ ماجد ’’شہرِ علم کا دروازہ‘‘ اور ’’ امام المتقین‘‘ ہوں اُن کا علم و تقویٰ اپنی رفعت و بلندی اور وسعت و جلالت میں ہمارے فہم و ادراک سے ماوریٰ ہے ، مگر صرف بنیادی سی معلومات کیلئے چند روایات نقل کی جاتی ہیں ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے حضورنبی کریم صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم اورحضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایات لیں اور آپ رضی اللہ عنہ سے آپ رضی اللہ عنہ) کے صاحبزادے علی بن حسین ، آپ رضی اللہ عنہ کی شہزادی فاطمہ اور آپ رضی اللہ عنہ کے بھتیجے زید بن حسن اور شعیب بن خالد ، طلحہ بن عبید اللہ العقیلی ، یوسف الصباغ ، عبید بن حنین ، ھمام بن غالب الفرزدق اور ابوہشام رضی اللہ عنہم نے روایات نقل کیں ( تاریخ دمشق لابن عساکر،باب:الحسين بن علی بن أبی طالب،چشتی)
جنگ کے دوران حالانکہ ایک ایک فرد قیمتی ہوتا ہے اور کئی لوگ جنگ میں سب تمام اصولوں کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں جبکہ آپ رضی اللہ عنہ اس نازک موقع پہ بھی نہ صرف شریعت کا معاشی و معاشرتی اصول قائم رکھا بلکہ حقو ق العباد کا بھی خاص خیال رکھا ۔ جیسا کہ روایت میں ہے : حضرت ابو جحاف رضی اللہ عنہ اپنے والدسے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے عرض کی کہ مجھ پرقرض ہے تو آپ رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا : لَا يُقَاتِلْ مَعِيَ مَنْ عَلَيْهِ دَيْنٌ ۔ وہ شخص میرے ساتھ شریک ِ جنگ نہ ہو جس پر قرض ہو ۔ (الطبقات الکبرٰی کتاب الحسين بن علی)
وَ قَالَ مُصْعَبٌ الزُّبَيْرِيُّ : حجَّ الحُسَيْنُ خَمْساً وَ عِشْرِيْنَ حَجَّةً ماشيًا ۔ حضرت مصعب الزبیری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے پچیس حج پیدل ادا فرمائے ۔ (تہذيب الكمال فی أسماء الرجال الحسين بن عَلِی بن الحسين بْن علی بْن أَبی طَالِب،چشتی)
صوفیاء کرام ہمیشہ استقامت کو کرامت پہ ترجیح دیتے ہیں بلاشبہ میدان استقامت میں بھی آپ رضی اللہ عنہ اپنی مثال آپ ہیں اور جہاں تک کرامت کا تعلق ہے آپ رضی اللہ عنہ کی پوری حیات مبارکہ کرامت ہے ۔ ہم صرف دو کرامات کو زیب قرطاس کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں ۔ ایک کا تعلق بچپن سے ہے (اِسے امام طبرانی نے روایت فرمایا) اور دوسری کا تعلق جوانی کی عمر مبارک سے ہے جسے علامہ ابن سعد (رحمۃ اللہ علیہ) نے طبقات الکبریٰ میں نقل کیا ہے ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ امام حسین رضی اللہ عنہ حضور نبی کریم صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم کے پاس تھے اور رسول اللہ صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم امام حسین رضی اللہ عنہ سے بہت زیادہ محبت فرماتے تھے ۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے عرض کی : مَیں اپنی والدہ ماجدہ کے پاس جانا چاہتا ہوں ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ عرض کرتے ہیں کہ یا رسول اللہ صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم کیا میں ان کے ساتھ چلاجاؤں ؟
’’فجاءت برقة من السماء فمشى في ضوئها حتى بلغ‘‘
’’پس (اسی اثناء میں) آسمان سے ایک نور آیا اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اس کی روشنی میں چلتے رہے ، یہاں تک کہ (اپنی والدہ ماجدہ کے پاس) پہنچ گئے ۔ (المعجم الكبير طبرانی باب الحاء،چشتی)
حضرت ابوعون رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ آپ رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ تشریف لے جا رہے تھے اور راستے میں ابن مطیع کے پاس سے گزرے جو اس وقت کنواں کھود رہے تھے ۔ اور اس دن کنویں سے کوئی پانی نہ نکلا انہوں نے عرض کی (میرے والدین آپ پہ قربان) اگر آپ دعا فرمائیں تو آپ نے فرمایا کہ ا س کا پانی لے آؤ ، تو میں پانی لے آیا ، ’’فَشَرِبَ مِنْهُ ثُمَّ مَضْمَضَ ثُمَّ رَدَّهُ فِي الْبِئْرِ فَأَعْذَبَ وَأَمْهَى‘‘ ’’ آپ رضی اللہ عنہ نے پانی نوش فرمایا ، پھر کلی فرمائی اور اس کا پانی کنویں میں ڈال دیا تو وہ کنواں میٹھا بھی ہو گیا اور اس کا پانی بھی بڑھ گیا‘(الطبقات الکبرٰی لابن سعد(المتوفی:230،باب: عَبْدُ حوالہ:الله بْنُ مُطِيعِؓ)
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوا اس حال میں کہ امامِ حسن و حسین رضی اللہ عنہما آپ صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم کے سینہ مبارک پہ کھیل رہے تھے ، تو مَیں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم ’’ أَتُحِبُّهُمَا ؟ قَالَ : كَيْفَ لَا أُحِبُّهُمَا وَهُمَا رَيْحَانَتَايَ مِنَ الدُّنْيَا ‘‘
’’ کیا آپ صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم ان دونوں سے محبت کرتے ہیں ؟ تو آپ صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میں ان سے محبت کیسے نہ کروں ، یہ دونوں دنیاکے میرے دو پھول ہیں ۔ (سیراعلام النبلاء ،الحُسَيْنُ الشَّهِيْدُ أَبُو عَبْدِ اللهِ بنُ عَلِيِّ بنِ أَبِي طَالِبٍ،چشتی)
ایک اور روایت میں ہے کہ حضور نبی کریم صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مَنْ أَحَبَّنِي فَلْيُحِبّ هَذَيْنِ ‘‘ جو مجھ سے محبت کرنا چاہتا ہے وہ ان دونوں (شہزادوں سیدنا امام حسن اور سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہما سے محبت کرے ۔ (مسند أبی يعلى باب مسند عبداللہ بن مسعود)
عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ، قَالَ : مَرَّ رَسُولُ اللهِ صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم بِالْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ وَهُوَ حَامِلُهُمَا عَلَى مَجْلِسٍ مِنْ مَجَالِسِ الْأَنْصَارِ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ نِعْمَتِ الْمَطِيَّةُ قَالَ: «وَنِعْمَ الرَّاكِبَانِ ‘‘ حضرت ابوجعفر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم انصار کی مجلس سے گزرے اس حال میں کہ آپ صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم دونوں شہزادوں کو (اپنے کندھوں پہ) اٹھائے ہوئے تھے ، تو لوگوں نے عرض کی:کتنی اتنی اچھی سواری ہے ! تو آپ صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : دونوں سوار بھی کتنے اچھے ہیں ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ،باب: مَا جَاءَ فِي الْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا)
حضرت یعلیٰ عامری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم حضور نبی کریم صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ ایک دعوت میں شرکت کے لیے نکلے راستے میں حضرت امام حسین بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے ، پس آپ صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم باقی لوگوں سے آگے تشریف لے گئے اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو پکڑنے کے لیے آپ صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم نے اپنا دستِ اقدس بڑھایا ، لیکن آپ رضی اللہ عنہ کبھی اِدھر بھاگ جاتے کبھی اُدھر اور حضور نبی کریم صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم خوش ہو رہے تھے یہاں تک حضور نبی کریم صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کو پکڑ لیا اور آپ صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم نے اپنا ایک ہاتھ مبارک آپ کی ٹھوڑی کے نیچے رکھا اور دوسرا گردن پہ رکھا پھر آپ صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم نے اپنا سرمبارک جھکا کر اپنا دہن مبارک حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے دہن پہ رکھا اور انہیں بوسہ دیا اور پھر آپ صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : حُسَيْنٌ مِنِّي وَأَنَا مِنْ حُسَيْنٍ ، أَحَبَّ اللهُ مَنْ أَحَبَّ حُسَيْنًا، حُسَيْنٌ سِبْطٌ مِنَ الْأَسْبَاطِ ‘‘ حسین مجھ سے ہیں اورمیں حسین سے ہوں یااللہ تواُس سے محبت فرما جوحسین سے محبت کرے ، حسین (میرے) نواسوں میں ایک نواسہ ہے ۔ (مسند أبی يعلى باب مسند عبداللہ بن مسعود)
حضرت سلمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مَیں نے رسول اللہ صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ ابْنَايَ، مَنْ أَحَبَّهُمَا أَحَبَّنِي، وَمَنْ أَحَبَّنِي أَحَبَّهُ اللهُ، وَمَنْ أَحَبَّهُ اللهُ أَدْخَلَهُ الْجَنَّةَ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمَا أَبْغَضَنِي، وَمَنْ أَبْغَضَنِي أَبْغَضَهُ اللهُ، وَمَنْ أَبْغَضَهُ اللهُ أَدْخَلَهُ النَّارَ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ ‘‘ (حضرت) حسن و حسین رضی اللہ عنہما میرے بیٹے ہیں جس نے ان دونوں سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی جس نے مجھ سے محبت کی اللہ اس سے محبت فرمائے گا اور جس سے اللہ فرمائے گا اس کو جنت میں داخل کرے گا اور جس نے ان دونوں سے بغض رکھا اللہ اس سے ناراض ہوگا اور جس سے اللہ ناراض ہوگا اسے جہنم میں داخل کرےگا ۔(المستدرك حاکم ،وَمِنْ مَنَاقِبِ الْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ ابْنِي بِنْتِ رَسُولِ اللہِ صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم) ۔ امام حاکم نے کہا کہ یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے ۔
امام ترمذی نے روایت کیا ہے کہ ’’حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’رسول اللہ صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کے ہاتھ کو پکڑا اور ارشاد فرمایا : مَنْ أَحَبَّنِي وَ أَحَبَّ هَذَيْنِ وَأَبَاهُمَا وَأُمَّهُمَا كَانَ مَعِي فِي دَرَجَتِي يَوْمَ القِيَامَةِ ۔
’’جس نے مجھ سے ، ان دونوں سے ، ان دونوں کے والد سے اور ان کی والدہ (محترمہ) سے محبت کی تو وہ قیامت کے دن میرے ساتھ ہوگا ۔ (سنن الترمذی، کتاب المناقب،چشتی)
حضرت مدرک بن عمارہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو دیکھا وہ حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کی سواری کی لگام پکڑئے ہوئے ہیں ۔ آپ رضی اللہ عنہ سے عرض کئی گئی : کیا آپ حسنین کریمین رضی اللہ عنہم کی سواری کی لگامیں تھامے ہوئے ہیں حالانکہ آپ رضی اللہ عنہ ان سے بڑے ہیں ؟ تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ان هذين ابنا رسول الله صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم أو ليس من سعادتي أن آخذ بركابهما ‘‘ بے شک یہ دونوں رسول اللہ صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم کے نواسے ہیں تو کیا یہ میرے لیے سعادت نہیں کہ میں ان کے سواری کی لگام کو تھاموں ۔ (تاریخ دمشق لابن عساکر باب الحسين بن علی بن أبی طالب)
حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ خانہ کعبہ کے سائے میں بیٹھے ہوئے تھے جب آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت امام حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو آتے ہوئے دیکھا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : هذا أحب أهل الأرض إلى أهل السماء اليوم ‘‘ یہ ہستی آج مجھے زمین و آسمان میں سب سے زیادہ محبوب ہے ۔ ( تہذیب التہذیب للعسقلانیؒ،باب:الحاء،چشتی)
حضرت ابوالمہزم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اپنے کپڑے کے کنارے سے سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے قدمین شریفین سے مٹی جھاڑ رہے تھے تو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا : اے ابوھریرہ ! آپ یہ کیا کر رہے ہیں ؟ تو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : دعني فو الله لو يعلم الناس منك ما أعلم لحملوك على رقابهم ‘‘ مجھے چھوڑدو ، اللہ کی قسم ! اگر لوگوں کو تمہارے بارے میں وہ علم ہو جائے جو میں جانتا ہوں تو وہ تم کو اپنے کندھوں پہ اٹھا لیں ۔ (الطبقات الکبرٰی کتاب الحسين بن علی)
تخلیق کائنات سے لیکر آج تک کی تاریخ کو اگر بغور دیکھا جائے تو بہت سے واقعات سامنے آتے ہیں ، لیکن جس طرح سرزمین کربلا میں امام عالی مقام حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت اپنے جان نثاروں کے ساتھ ہوئی ہے اس طرح کی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی۔ آپ کی ولادت سے لے کر شہادت تک کے واقعات کو پڑھ کر انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔ سب سے پہلے آپ رضی اللہ عنہ کے بچپن کے حالات کو دپڑھتے ہیں : ⬇
عن ابی رافع رضی اللہ عنہ ان النبی صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلم اَذَّنَ فی اذن الحسن والحسین علیہم السلام حین ولدا ۔ (مجمع الزوائد)
حضرت ابی رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضرت امام حسن و حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی ولادت ہوئی تو حضور اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خود ان دونوں کے کانوں میں آذان دی ۔
عن ابن عباس رضی اللہ عنہما ان رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلم عق عن الحسن و الحسین کبشا کبشا ۔ (سنن ابوداؤد شریف)
ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خود امام حسن اور امام حسین کی طرف سے عقیقے میں ایک ایک دنبہ ذبح کیا ۔
عن المفضل قال ان اللہ تعالیٰ حجب اسم الحسن و الحسین حتیٰ سمی بہما النبی صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلم ابنیہ الحسن و الحسین ۔ (البدایہ والنہایہ ابن کثیر)
ترجمہ : حضرت مفضل سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حسن اور حسین کے ناموں کو حجاب میں رکھا یہاں تک حضور اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے بیٹوں کا نام حسن اور حسین رکھا ۔
عن یحییٰ بن ابی کثیر ان النبی صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلم سمع بکاء الحسن و الحسین فقام زعما فقال ان الولد لفتنۃ لقد قمت الیہما وما اعقل۔ (ابن ابی کثیر البدایہ والنہایہ،چشتی)
ترجمہ : حضرت یحییٰ بن ابی کثیر روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا رونا سنا تو آپ پریشان ہوکر کھڑے ہوگئے اور فرمایا بیشک اولاد آزمائش ہے میں بغیر غور کرنے کے کھڑا ہوگیا ہوں ۔
حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلم نماز ادا فرما رہے تھے تو حضرت امام حسن و حسین رضی اللہ عنہما آپ صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پشت پر سوار ہوگئے تو لوگوں نے ان کو منع کیا تو آپ صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ان کو چھوڑدو ، ان پر میرے ماں باپ قربان ہیں ۔
حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما سے محبت کی تو اس نے مجھ سے محبت کی ۔ (سنن ابن ماجہ)
حضرت ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی و فاطمہ و حسن و حسین رضی اللہ عنہم کی طرف دیکھا اور فرمایا جس نے تم سے جنگ کی اس نے مجھ سے جنگ کی ۔ (مشکوٰۃ المصابیح)
شہادت سے قبل شہات کی خبریں
مذکورہ روایت کی طرح اور بھی کئی روایات موجود ہیں جن سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ حضور صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلم کس طرح امام حسن اور حسین رضی اللہ عنہما سے محبت کرتے تھے ، کس طرح امام حسین کو اپنے کندھوں پر سوار کرتے تھے ، کس طرح امام حسین کا رونا آپ صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تکلیف دیتا تھا ۔ کس طرح امام حسن و امام حسین رضی اللہ عنہ کےلیے جنت سے کپڑے آتے تھے ۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شہیدِ کربلا امام عالی مقام میرے محبوب صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے محبوب نواسے تھے اور آپ صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس معرکہ عظیم کے دن کےلیے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی خود تربیت بھی فرماتے تھے ۔ اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں صراحۃً فرماتے تھے کہ میرے اس بیٹے کو میری امت کے اوباش حاکم شہید کریں گے ۔ اور کبھی فرماتے تھے کہ ” یا ام سلمۃ اذا تحولت ہٰذہ التربۃ دما فاعلمی ان ابنی قد قتل ۔ (معجم الکبیر عربی،چشتی)
ترجمہ : اے ام سلمہ جب یہ مٹی خون میں تبدیل ہوجائے تو یقین کرلینا کہ میرا لخت جگر شہید کیا گیا ۔ میرے محبوب نبی صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی وفات کی جگہ بھی بیان فرمادی تھی کہ ”انہ تقتل بکربلائ“ یہ میرا نواسہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کربلاء کی زمین میں شہید کیا جائے گا ۔
ایسے دور میں جب حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ رونما ہونے والا تھا تو اس دور کےلیے آپ صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ : تعوذوا باللہ من سنۃ سنین و امارۃ الصبیان ۔ (البدایہ والنہایہ جلد نمبر ۸،چشتی)
ترجمہ : یعنی ساٹھ ہجری کے سال اور لڑکوں کی حکومت سے پناہ مانگو ۔ اس مذکورہ حدیث کو سامنے رکھ کر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ یہ دعا کرتے تھے کہ ”اللّٰہم انی اعوذبک من رأس الستین وامارۃ الصبیان“ اے اللہ میں ساٹھ ہجری اور لڑکوں کی حکومت سے تیری پناہ مانگتا ہوں ۔
حضور اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ ”ان ہلاک امتی او فساد امتی رؤس امراء اغیلمۃ سمہاء من قریش“ بیشک میری امت کی ہلاکت یا فساد قریشوں کے بیوقوف اور اوباش حکمرانوں کے ہاتھوں ہوگا ۔ (مسند احمد بن حنبل،چشتی)
مذکورہ صحیح روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح امام حسین رضی اللہ عنہ سے میرے آقا صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے محبت اور پیار کیا تھا اس کا مثال ملنا محال ہے ۔ لیکن اس کے ساتھ اپنے محبوب نواسے کو یہ سب کچھ سمجھادیا کہ تیری شہادت کب ، کہاں اور کیوں ہو گی ۔ اب ہم اگر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی سیرت کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے آپ نے کس طرح اپنے آقا صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شریعت و سنت کو اپنی جان سے عزیز تر سمجھا تھا کہ کبھی پوری رات نماز میں ہوتے تھے ، کبھی تلاوت میں ، کبھی مخلوق کی خدمت میں ، کبھی سخاوت میں ، ہر وقت اوامر و نواہی پر عمل کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔
جب حضور اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ظاہری زندگی سے آپ کو محبوب حقیقی کی طرف سے وصال کا پیغام آیا اور آپ صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلم برقعہ پوش ہو گئے تو اس وقت عالمِ اسلام کےلیے قیامت کا منظر تھا ۔ لیکن اس کے بعد گلشن توحید کی آبیاری کےلیے خلفائے راشدین اس گلشن کو اپنے محبوب قائد صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اسوہ حسنہ سے بڑھاتے رہے ۔ حتیٰ کہ وہ ساٹھ ہجری کا وقت آگیا جس کے متعلق حضور اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ”یہ میری امت کو قریش کے اوباش حکمران تباہ کریں گے ۔
اب ایک ظالم و جابر حکمران سامنے آتا ہے اور شریعت کی حدود کو کچلنے کی کوشش کرتا ہے۔ شراب پینا شروع کر دیا ، زنا عام ہوگئی ، قتل و غارت عام ہوگئی ، ظلم بڑھنے لگا ۔ اب یہ وقت تھا جب شہیدِ کربلا امام حسین رضی اللہ عنہ کو اپنے محبوب آقا صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمان ہر طرف نظر آنے لگا کہ میری امت کو اوباش حکمران ہلاک کریں گے ۔
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو معلوم تھا کہ جب عربستان کی سر زمین پر معصوم بچیوں کو زندہ درگور کیا جاتا تھا ، بت پرستی عام تھی ، ویاج خوری عام تھی، زنا کو زندگی کا اہم حصہ سمجھا جاتا ہے ، جہالت و ظلم کی انتہا تھی ۔ ایسے پرفتن دور میں میرے محبوب آقا صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کس طرح توحید کا اعلان کیا تھا، میرے محبوب آقا صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اعلان کے بعد کس طرح ابولہب نے ناشائستہ کلمات کہے تھے جس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے سورہ لہب نازل فرمائی تھی ۔ میرے محبوب صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو طائف کے میدان میں کس طرح لہولہاں کردیا گیا تھا ۔ میرے محبوب صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پہلی غلام عورت حضرت بی بی سمیہ رضی اللہ عنہا کو کس طرح ظالموں نے سرِ عام شہید کر دیا تھا ۔ حضرت خبیب رضی اللہ عنہ کو کس درخت کے ساتھ باندھ کر اور تیروں سے آپ کے جسم کو خون میں نہلایا گیا تھا ۔ میرے محبوب صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کس طرح اپنے صحابہ کے ساتھ شعب ابی طالب میں محصور کیا گیا تھا ۔ اور ان تین سالوں میں کتنے معصوم بچے اسلام کی آبیاری کےلیے بھوکے پیاسے شہید ہوگئے تھے ، کتنی معصوم بچیاں پانی کے ایک گھونٹ کےلیے چلاتی چلاتی تڑپتی ہوئی حالت میں دم توڑ چلی تھیں ۔ میرے محبوب صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کس طرح جنگ احد میں اپنے رب کریم کی توحید کی بلندی کےلیے اپنے دانت مبارک شہید کروا دیے تھے ۔
یہ وہ منظر تھا جو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی ذات کے سامنے ہر وقت طواف کر رہا تھا ، اب جب ایک ظالم نے اس گلشنِ اسلام کی ویرانی کےلیے راستہ ہموار کرنے کی کوشش کی تو حضرت امام حسین کی روح تڑپ اٹھی، آنکھوں کے سامنے محبوب آقا صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمان مبارک تھا کہ عنقریب قریش کے اوباش حکمران میری امت کو ہلاک کردیں گے ۔
اس دینِ محمد صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بچانے کے لیے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا تن من دھن ، اپنا وطن ، اولاد ، مال ، دولت ہر طرح کی قربانی دینے کےلیے تیار ہو گئے ۔ اور پھر وہ وقت بھی آگیا کہ جب تاریخ عالم نے دیکھا کہ ایک طرف ہزاروں لوگ جو بظاہر مسلمان تھے اپنے محبوب نبی صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے محبوب نواسے کو بھوکا اور پیاسا دیکھتے خوشی محسوس کر رہے تھے ۔ لیکن امام حسین رضی اللہ عنہ کو اور ان کے جان نثاروں کو پانی کا ایک گھونٹ پلانا ان کی نظر میں بڑا جرم تھا ۔ در حقیقت یہ مقام رضا تھا جہاں بڑے بڑے اولیاء اللہ بھی ڈگمگاتے ہیں ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ذات کا فیصلہ ہے کہ انسان کو بھوک ، خوف ، مال ، ثمرات وغیرہ کی کمی سے آزمایا جاتا ہے کہ دیکھا جائے کہ انسان اپنے مالک حقیقی کی رضا پر راضی رہتا ہے یا نہیں ۔ لیکن تاریخ عالم نے دیکھا کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اس مقام پر بھی رضا کا دامن نہیں چھوڑا اور جابر و ظالم کے سامنے اپنی گردن نہ جھکائی ۔ اب وہ آخری مرحلہ مقام رضا بھی آ پہنچا جب حضرت امام عالی مقام کے سامنے آپ کے جان نثاروں کو ایک ایک کرکے شہید کیا گیا ۔
اور آخر وہ گھڑی بھی آگئی جب معصوم علی اصغر کی شہادت واقع ہوئی ۔ لیکن اس صبر کے پہاڑ نے اپنے نانا محمد صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دین کو مضبوطی کے ساتھ سنبھال کر رکھا ۔ اور پھر یہ مردِ مجاہد مردِ غازی جس نے 72 نفوسِ قدسیہ کے ساتھ بالآخر خود بھی شہادت کا جام پی لیا ۔ اور اپنے نانا کے دین کے ساتھ ایسا رشتہ جوڑ کر اپنے مالک حقیقی سے جا ملا جس کا مثال تاریخ عالم میں ملنا محال ہے ۔
حضرت امام عالی مقام کی شہادت کا پہلا پیغام عملی جد و جہد کا پیغام ہے ۔ محبت حسین رضی اللہ عنہ کو فقط رسمی نہ رہنے دیا جائے بلکہ اسے اپنے عمل و حال و قال میں شامل کر لیا جائے اور اپنی زندگی کا مقصد بنایا جائے، یعنی معلوم کیا جائے کہ یزیدی کردار کیا ہے اور حسینی کردار کیا ہے ۔
یزید نے کھلم کھلا اسلام کا انکار نہیں کیا تھا اور نہ ہی بتوں کی پوجا کی تھی ، مسجدیں بھی مسمار نہیں کی تھیں ۔ وہ اسلام کا نام بھی لیتا تھا ، وہ یہ بھی کہتا تھا کہ میں نماز بھی پڑھتا ہوں ، میں مسلمان بھی ہوں ، میں موحد بھی ہوں ، میں حکمران بھی ہوں ، میں آپ کا خیر خواہ بھی ہوں ۔ اسلام کا انکار یہ تو ابوجہلی ہے ، ابولہبی ہے ۔ یزیدی کردار یہ ہے کہ مسلمان بھی ہو اور اسلام سے دھوکہ بھی کیا جائے ، امانت کی دعویٰ بھی ہو اور خیانت بھی کی جائے ، نام اسلام کا لیا جائے اور آمریت بھی مسلط کی جائے ۔ اپنے سے اختلاف کرنے والوں کو کچلا جائے ۔ اسلام سے دھوکہ فریب یزیدیت کا نام ہے ۔ بیتُ المال میں خیانت کرنا ، دولت کو اپنی عیش پرستی پر خرچ کرنا یزیدیت کا نام ہے ۔ معصوم بچوں اور بچیوں کے مال کو ہڑپ کرنا یزیدیت کا نام ہے ۔ مخالف کو کچلنا اور جبراً بیعت اور ووٹ لینا یزیدیت کا نام ہے ۔
آج روحِ حسین رضی اللہ عنہ ہم سے پکار پکار کر کہتی ہے کہ ” میری محبت کا دم بھرنے والوں میں دیکھنا چاہتی ہوں کہ میری محبت رسمی ہے یا پھر آج تم کوئی معرکہ کربلا برپا کرتے ہو ۔ میں دیکھنا چاہتی ہوں کہ میری محبت میں پھر تم آج کے وقت یزیدیوں کو للکارتے ہو یا نہیں ۔ روح حسین رضی اللہ عنہ آج پھر دریائے فرات کو رنگین دیکھنا چاہتی ہے ، آج تمہارے صبر و استقامت کا امتحان لینا چاہتی ہے ۔ کہ کون اسلام کا جھنڈا سربلند کرتے ہوئے تن من دھن کی بازی لگاتا ہے ، کون ہے جو مجھ سے حقیقی پیار کرتا ہے ۔
حسینیت کا تقاضا یہ ہے کہ جہاں جہاں تمہیں یزیدیت کے کردار کا نام و نشان نظر آئے حسینی لشکر کے غلام و فرد بن کر یزیدیت کے بتوں کو پاش پاش کر دو ۔ اس کےلیے اگر تمہیں مال ، جان ، اور اپنی اولاد ہی کیوں نہ قربان کرنی پڑے ۔
پہلے حسینی کردار کی تجلی اپنے اندر پیدا کرو ، سیرت حسین کو اپنے سینے پہ سجالو ، پھر اس قوت حسینی سے یزیدی کردار کی مخالفت کرو اور اس کا مقابلہ کرو۔ کاش ہمیں وہ دل نصیب ہوجائے جس میں عمل و محبت حسین رضی اللہ عنہ ہو ۔ کیوں کہ یہ دنیا تو ہر کسی کو چھوڑنی ہے ، جس نے اقتدار کے نشے میں اگر لوگوں کا قتلِ عام کیا ، معصوموں کا خون بہایا ، ظلم کے پہاڑ گرائے وہ بھی مر گیا ، جس نے اپنے سینے پر تیروں کو جگہ دی ، شریعت کی پیروی کی ، مخلوق کی خدمت کی وہ بھی چلا گیا ۔ لیکن یزیدیت تباہی و بربادی کا نام ہے ، اور حسینیت محبت و اخوت و بہادری کا نام ہے ۔ جو ظالم ہوکر مرتا ہے وہ خالق و مخلوق کی نظر میں مردود ہے ۔ جو عادل ہوکر اپنی جان رب کریم کے حوالے کرتا ہے وہ مقبول ہو جاتا ہے ۔ یہی شہادت حسین رضی اللہ عنہ کا فلسفہ تھا ۔ یہی آپ کا جذبہ تھا کہ حسینیت کبھی کسی ظالم و جابر کے سامنے سرخم نہیں کرتی اور کبھی مصیبت میں نہیں گھبراتی ۔ وہ مصیبت میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا میں راضی ہے تو خوشی میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا میں راضی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے پیغام و مقصد کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین ۔ (مزید حصّہ نمبر 3 میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment