Sunday 12 February 2023

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ طلقاء میں سے ہیں

0 comments
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ طلقاء میں سے ہیں رافضیوں اور اُن کے ہم نوا سنیوں میں چھپے رافضیوں کو مدلل جواب
محترم قارئینِ کرام : رافضی اور اُن کے ہم نوا سنیوں میں چھپے رافضی اعتراض کرتے ہیں کہ : معاویہ کا شمار صحابہ کرام میں نہیں ہوتا بلکہ طلقاء میں ہوتا ہے ۔ امام ابن عساکر علیہ الرحمہ اپنی اسنادِ جید کے ساتھ بحوالہ امام ابوداؤد الطیاسی علیہ الرحمہ بیان کرتے ہیں وقال ابن عساكر بإسناد عن أبى داود الطياسى ثنا أيوب بن جابر عن أبى إسحاق ، عن لاشود بن يزيد قال : قلت لعائشة :  إلا تعجبين لرجل من الطلقاء ينازع أصحاب محمد صلى الله عليه و آله وسلم في الخلافة فقالت عائشة : وما تعجب من ذلك هو سلطان الله يوتيه البر والفاجر ، وقد ملك فرعون أهل مصر أربعمائة سنة ۔
ترجمہ : حضرت اسود بیان کرتے ہیں کہ میں نے عائشہ رضی الله عنہا سے کہا کیا آپ اس شخص (معاويه) پر تعجب نہیں کرتی جو طلقاء میں سے ہے اور خلافت کے معاملہ میں رسول اللہ کے اصحاب (امیر المومنین علی) سے جھگڑتا ہے ۔ تو عائشہ رضی الله عنہا نے فرمایا : نہیں تعجب والی بات نہیں ، یہ اقتدار الہی ہے وہ نیک و بد کو بھی عطا کرتا ہے اس نے فرعون کو اہل مصر پر چار سو سال تک بادشاہ بنایا اور اسی طرح دیگر کفار کو بھی ۔ (البداية والنهاية ت: التركي الجزء الحادی عشر ، ص/ 130-131)
طُلَقَاء اسمِ طَلِیق کی جمع ہے طلیق کے لغوی معنی رہا یا آزاد شدہ غلام کے ہیں ایسا شخص جو قابو میں آگیا ہو ، پکڑا جا چکا ہو ، گرفتار کیا جا چکا ہو جمہور آئمہ کے قول کے مطابق طلقاء ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو لوگ فتح مکہ کے دن المؤلفة قلوبهم یعنی دباو کے تحت اسلام لانے مثلاً ابوسفیان ، معاویہ ، یزید اور ان کے دیگر ہمنوا کو طلقاء کہا جاتا ہے ۔ (امام ابن‌ منظور، لسان العرب جلد 10 صفحہ 227 ۔ طلیق ۔ فعیل به معنای مفعول ۔ و هوالأسیر إذا أطلق سبیله ۔ مقریزی)(امام تقی‌الدین؛ إمتاع الأسماع، بیروت، دار‌الکتب العلمیة، 1420، طبع اول جلد 8 صفحہ 388)امام محمد بن عبد البر، الاستیعاب، جلد 1 صفحہ 401)

اعتراض کا جواب : رافضی اور اُن کے ہمنوا سنیوں کے لبادے میں چھپے نیم رافضی کہتے ہیں کہ : حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے فتح مکہ کے موقع پر اسلام قبول کیا ، آپ رضی اللہ عنہ طلقاء و مؤلفۃ القلوب میں سے تھے ۔ اور ساتھ ہی کہتے ہیں کہ طلقاء وہ آزاد کردہ اہل مکہ تھے جنہیں عرب جنگی قوانین کے مطابق قیدی اور غلام بنایا جا سکتا تھا اور وہ سب اس پر خوفزدہ تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انہیں اذہبوا فانتم الطلقاء کی نوید سنا کر آزاد کر دیا کہ جاؤ تم سب آزاد ہو ۔ اور مؤلفۃ القلوب وہ نو مسلم تھے جن کو اسلام پر قائم رکھنے کےلیے ان کی مالی مدد کی جاتی تھی ۔ یعنی رافضیوں و نیم رافضیوں کا خیال ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا اسلام پختہ نہ تھا اور ان کا قائم بہ اسلام رہنا مشکوک تھا اس لیے ان کی تالیف قلب کےلیے مالی امداد کی جاتی تھی ۔ ان تینوں اعتراضات کے جواب میں سب سے پہلے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام کے وقت کا تعین کرتے ہیں جس کے ساتھ ہی معلوم ہو جائے گا کہ اگر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ فتح مکہ کے موقع پر اسلام نہیں لائے تو لا محالہ نہ وہ طلقاء میں سے ہیں اور نہ ہی مؤلفۃ القلوب میں سے ۔ بخاری شریف کتاب الحج کے باب الحلق و التقصیر عند الاحلال میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث ہے جس میں آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے مشقص سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بال مبارک تراشے تھے ۔ اگر اس کے ساتھ مسند احمد کی وہ روایت بھی ملا لیں جس میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے مروہ کے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سر مبارک کے بال چھوٹے کیے ۔ تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ کسی عمرہ کا واقعہ ہے کیوں کہ یہ متفقہ بات ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے صرف ایک حج اور وہ بھی فتح مکہ کے بعد ادا کیا تھا اور اس میں بال چھوٹے (قصر) نہیں کروائے بلکہ حلق کروایا یعنی سر منڈوایا ۔ اس لیے کہ حج میں منیٰ کے مقام پر حلق کروایا جاتا ہے نہ کہ مروہ کے مقام پر اور یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ نبی علیہ السلام نے حج کے موقع پر حلق کروایا تھا اور یہ جو بال کٹوائے تھے یہ کسی عمرہ کا واقعہ ہے ۔ اور ہجرت مدینہ کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم 6 ہجر ی کو عمرہ کے ارادہ سے مکہ کےلیے عازم عمرہ ہوئے مگر عمرہ ادا نہ کرنے دیا گیا اور پھر 7 ہجری میں عمرۃالقضاء کے موقع پر صلح حدیبیہ کی شرائط کے مطابق عمرہ ادا کیا ۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دوسر ا عمرہ غزوۂ حنین سے واپسی پر راتوں رات چند صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی معیت میں ادا فرمایا تھا اور اس عمرہ میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی عدمِ شرکت یقینی ہے ۔ اب صرف 7 ہجری کا ہی عمرہ رہ جاتا ہے جس میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بال تراشے ۔ یعنی ثابت ہوا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ فتح مکہ سے قبل دولتِ اسلام سے بہرہ ور ہو چکے تھے اسی لیے فتح مکہ سے پہلے نبی کریم علیہ السلام کے بال مبارک کاٹے ۔ ازالۃ الخفاء جلد 1 صفحہ 472 پر ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ قرشی اموی صلح حدیبیہ کے سال اسلام لائے ۔ یعنی پتہ چلا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ 7 ہجری عمرۃالقضاء سے قبل حدیبیہ کے سال یعنی 6 ہجری میں ہی مشرف بہ اسلام ہو چکے تھے ۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے فتح مکہ پر اپنے قبول اسلام کا اظہار فرمایا تھا ۔

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام کے بارے میں دو قسم کی روایات ملتی ہیں ۔ ایک روایت فتح مکہ سن 8 ہجری ۔ دوسری روایت فتح مکہ سے قبل کی ہے ۔

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے قبول اسلام کا اعلان فتح مکہ 8 ھ کے موقع پر فرمایا ، لیکن اس سے بہت عرصے پہلے آپ رضی اللہ عنہ کے دل میں اسلام داخل ہوچکا تھا ،جس کا ایک اہم اور واضح ثبوت یہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے جنگ بدر ، جنگ احد ، جنگ خندق اور صلح حدیبیہ میں حصہ نہیں لیا ، حالانکہ آپ رضی اللہ عنہ جوان اور فنون حرب وضرب کے ماہر تھے ۔

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی ہی سے روایت ہے کہ قصرت عن رسول اللہ بمشقص میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بال مبارک ( مروہ کے مقام پر) چھوٹے کیے ۔

امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : کہ ان کا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے یہ بال کاٹنا ’’مروۃ ‘‘ کے مقام پر تھا ۔

اس سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ بال ترشوانا کسی عمرہ میں تھا ۔ کیونکہ نبی کریم ﷺ نے صرف ایک حج کیا وہ بھی فتح مکہ کے بعد اور اس میں حلق کروایا تھا نہ کے قصر ۔ اور حج میں منی کے مقام پر حلق کروایا جاتا ہے نہ کہ مروہ کے مقام پر ۔ چنانچہ امام نووی علیہ الرحمہ نے تصریح کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حج کر رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے منی کے مقام پر حلق کروایا تھا اور ابو طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ کے بال مبارک لوگوں میں تقسیم کیے ۔ (شرح مسلم نووی)

معلوم ہوا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بال تراشنے کا واقعہ کسی عمرہ کے دوران ہوا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہجرتِ مدینہ کے بعد ۶ ہجری کو عمرہ کی نیت سے مکہ کےلیے روانہ ہوئے تھے مگر آپ کو مقام حدیبیہ پر روک لیا گیا تھا ۔ جس کے بعد اگلے سال آپ نے یہ عمرہ ادا کیا ۔ پس ثابت ہوا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ صلح حدیبیہ اور عمرۃ القضا کے درمیان کسی وقت میں ایمان لائے تھے اور عمرۃ القضاہ میں وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ شامل تھے ۔

قبول اسلام ظاہر نہ كرنے كي وجہ : ⬇

میں عمرةالقضا سے بھی پہلے اسلام لاچکا تھا ، مگر مدینہ جانے سے ڈرتا تھا ، جس کی وجہ یہ تھی کہ میری والدہ نے مجھے صاف کہہ دیا تھا کہ اگر تم مسلمان ہو کر مدینہ چلے گئے تو ہم تمہارے ضروری اخراجات زندگی بھی بند کردیں گے ۔ (طبقات ابن سعد)

حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ سے اس بات کی تصریح موجود ہے کہ جب کفارِ مکہ اور مسلمانوں کے درمیان حدیبیہ کا واقعہ پیش آیا تو اسلام میرے دل میں گھر کر چکا تھا میں نے اس بات کا ذکر اپنی والدہ ہند سے کیا تو آپ نے فرمایا کہ خبردار اگر تو نے اپنے باپ کے مذہب کی مخالفت کی ورنہ ہم تیرا خرچہ پانی بند کردیں گے ۔ مگر بہرحال میں اسلام لاچکا تھا اور خدا کی قسم نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس حال میں حدیبیہ سے لوٹ رہے تھے کہ میں آپ کی تصدیق کرنے والا تھا اور خدا کی قسم جب آپ عمرۃ القضاء کےلیے تشریف لائے تو میں اس وقت بھی مسلمان تھا مگر والد کے خوف سے اپنے اسلام کو چھپائے رکھا اور فتح مکہ کے دن کھل کر اس کا اظہار کیا : اسلمت یوم القضیۃ و لکن کتمت اسلامی من ابی ۔ (البدایۃ والنہایۃ جلد 8 صفحہ 171 دارابن کثیر ،بیروت)(تاریخ دمشق لامام ابی القاسم بن ہبۃ اللہ بن عبد اللہ الشافعی المعروف بابن عساکر جلد 59 صفحہ 55 دارلفکر بیروت،چشتی)(اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد 4 صفحہ 433)(الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب صفحہ 668 دارالاعلام اردن)

اس کے علاوہ ان آٸمہ و علما علیہم الرحمہ نے بھی اپنی اپنی تصنیفات میں آپ کا فتح مکہ سے قبل اسلام لانے کا ذکر کیا ہے ۔ (معرفۃ الصحابہ لابن ابی نعیم صفحہ 2496)(تاریخ الاسلام للذہبی جلد 4 صفحہ 308)(تقریب التہذیب صفحہ 537 دارالقلم دمشق)(سیر اعلام النبلاء جلد 2 صفحہ 119))(الاصابۃ جلد 6 صفحہ 120)

جن حضرات نے فتح مکہ کا قول نقل کیا ہے وہ بھی اس قول کے معارض نہیں کیونکہ خود آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے اسلام کو چھپائے رکھا تھا اور فتح مکہ کے دن اظہار کیا تھا ۔ پس فتح مکہ کے دن اسلام لانے کا مطلب یہ ہوا کہ اس وقت اپنے والد کے ساتھ ایمان کا اظہار کیا ۔ اسی سے ان خیالاتِ فاسدہ کی تردید ہو گئی کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ طلقاء و مؤلفۃالقلوب میں سے تھے ۔ رافضی و نیم رافضی کہتے ہیں کہ ’’ سیرت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تمام مفصل کتابوں میں مذکور ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ان کے بھائی یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما اور والد رضی اللہ عنہ طلقاء اور مؤلفۃ القلوب میں سے تھے ، غزوۂ حنین کے مال غنیمت میں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان میں سے ہر ایک کو سو سو اونٹ اور چالیس چالیس چھٹانک چاندی (درہم) دی تھی ، دیگر مؤلفۃالقلوب سرداروں کی طرح تاکہ وہ اسلام پر قائم رہیں ‘‘ دراصل رافضیوں اور نیم رافضیوں کو اتنا بھی ادراک نہ ہو سکا ہے کہ تاریخی روایت کی بنیاد پر قرآن و حدیث کی تردید نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی تاریخ کی کوئی شرعی و فقہی حیثیت ہے اور نہ ہی کسی عقیدہ و نظریہ کی بنیاد تاریخ پر رکھی جا سکتی ہے مگر جانے کیوں رافضی و نیم رافضی بنو امیہ بالخصوص حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے والد و بھائی کے پیچھے ہاتھ دھو کر تاریخ اٹھاکر پڑ گئے ہیں ۔ سیرت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تمام مفصل کتب بھی تاریخ کی ہی کتابیں ہیں ۔ اس لیے ہم تاریخ کے مقابلہ پر حدیث کو ترجیح دیتے ہوئے جب مسلم شریف میں غزوۂ حنین کے غنائم کی تقسیم کا تذکرہ پڑھتے ہیں تو صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ کو تو سو اونٹ دیے گئے مگر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق ایسا کوئی اشارہ کنایہ بھی نہیں پایا جاتا کہ جس کی بنیاد پر رافضیوں و نیم رافضیوں کی تاریخی بات کی تصدیق ہوتی ہو ۔اور نہ صرف مسلم شریف میں بلکہ کسی اور حدیث میں غنائم حنین میں سے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو حصہ دینے کی کوئی روایت نہیں پائی جاتی ۔ معترضین کی بیان کی گئی اس تاریخی تراشیدہ کہانی کی تکذیب مسلم شریف سمیت کئی اور کتب حدیث میں مذکور اس واقعہ سے بھی ہوتی ہے کہ جس میں فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عرض کرتی ہیں کہ مجھے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہما اور ابو جہم رضی اللہ عنہ نے پیغام نکاح بھیجا ہے ۔ جواباً نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ ابو جہم تو اپنے کندھے سے لاٹھی نہیں ہٹاتے یعنی سخت ہیں اور معاویہ مفلس ہیں، تم اسامہ بن زیدرضی اللہ عنہما سے نکاح کر لو ۔ (صحیح مسلم کتاب الطلاق باب المطلقہ ثلاثا لا نفقۃ لہا)

غور فرمائیے کہ اگر غنائم حنین میں سے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو مال دیاگیا تھا تو فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہما کے نکاح کے مشورہ میں جواباً نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی مفلسی کا تذکرہ کیوں فرمایا ؟ وہ حنین کا مال کہاں گیا تھا ؟ جب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اگر فتح مکہ کے موقع پر اسلام قبول کیا ہوتا تو وہ چونکہ ایک رئیس کے صاحبزادے تھے تو وہ اپنا مال و متاع لے کر مدینہ آباد ہو سکتے تھے ۔ ایسی صورت میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو واقعی امیر ہونا چاہیے تھا ۔ مگر یہاں صورت حال برعکس ہے جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ فتح مکہ سے قبل مشرف بہ اسلام ہو کر اپنا سب کچھ مکہ میں ہی چھوڑ کر مدینہ تشریف لے آئے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ مفلس تھے کیوں کہ غنائم حنین میں سے مہاجرین و انصار رضی اللہ عنہم کو کوئی مال نہیں دیا گیا تھا ۔ یعنی ثابت ہوا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ایک تو فتح مکہ سے قبل کے مسلمان تھے دوسرے یہ کہ مؤلفۃالقلوب میں بھی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ شامل نہ تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ قاضی ابوبکر ابن العربی علیہ الرحمہ نے احکام القرآن کی پہلی جلد میں مؤلفۃ القلوب کے عنوان کے تحت لکھا ہے کہ ،،اما معاویۃ فبعید ان یکون منہم فکیف یکون منہم ؟ ،، یعنی کہ یہ بات بعید ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ مؤلفۃ القلوب میں سے ہوں ۔ ایک شخص 6 ہجری میں مشرف بہ اسلام ہوا اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بال مبارک بھی تراشے اور پھر فتح مکہ 8 ہجری کے بعد اس مخلص و معتمد صحابی رضی اللہ عنہ کو اسلام پر قائم رکھنے کےلیے تالیف قلب کی کیا ضرورت آن پڑی ؟

امام ابن عساکر علیہ الرحمہ کے مطابق حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کاتبِ وحی صحابی پابندِ اسلام نیک بادشاہ ہیں تو امام ابن عساکر علیہ الرحمہ ان کو کیسے غیر صحابی فاسق فاجر فرعونی قسم کا بادشاہ ثابت کریں گے ؟
معاوية بن صخر أبي سفيان بن حرب بن أمية بن عبد شمس بن عبد مناف أبو عبد الرحمن الأموي خال المؤمنين وكاتب وحي رب العالمين أسلم يوم الفتح وروى عنه أنه قال أسلمت يوم القضية وكتمت إسلامي خوفا من أبي وصحب النبي (صلى الله عليه وسلم) وروى عنه أحاديث....فملك الناس كلهم عشرين سنة  بالملك ففتح الله به الفتوح ويغزو الروم ويقسم الفئ والغنيمة ويقيم الحدود والله لا يضيع أجر من أحسن عملا ۔
ترجمہ : امام ابن عساکر علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اموی ہیں ، مومنوں کے ماموں کاتب وحی صحابی ہیں ، فتح مکہ کے دن اسلام ظاہر کیا اور مروی ہے کہ فتح مکہ سے پہلے اسلام لائے تھے ۔ تقریباً 20 سال بادشاہ رہے اللہ تعالیٰ نے آپ کی وجہ سے بے بہت فتوحات عطا فرمائیں اور غزوہ روم بھی آپ نے کیا ، آپ پابند اسلام تھے اسلام کی حدود کی سخت پاسداری فرماتے تھے اور اللہ ان جیسے نیکوں کا صلہ ضائع نہیں کرتا ۔ (تاریخ دمشق ابن عساکر جلد 61 صفحہ 59/55)

عبد الله وسئل عن رجل انتقص معاوية وعمرو بن العاص أيقال له رافضي قال إنه لم يجترئ عليهما إلا وله خبيئة سوء ما يبغض أحد أحدا من أصحاب رسول الله (صلى الله عليه وسلم) إلا وله داخلة سوء ۔
ترجمہ : امام ابن عساکر علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ سے سوال کیا گیا کہ اُس شخص کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں کہ جو سیدنا معاویہ اور سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کی توہین و گستاخی کرے کیا وہ رافضی کہلائے گا ؟ سیدنا امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ سیدنا معاویہ اور سیدنا عمر بن عاص رضی اللہ عنہما کے متعلق کوئی بھی جرت نہیں کر سکتا لیکن وہ شخص کہ جس کے دل میں خباثت ہو کہ کسی صحابی کے متعلق وہی گستاخی کرے گا کہ جس کے دل میں کوئی برائی و خباثت ہوگی ۔ (تاریخ دمشق ابن عساکر59/210)

 ثابت ہوا کہ امام ابن عساکر اور امام احمد بن حنبل علیہما الرحمہ کے مطابق بھی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ صحابی ہیں ان کے متعلق اچھا عقیدہ ہی رکھنا لازم ہے ۔

امام ابوداود طیالسی علیہ الرحمہ نے اپنی ایک کتاب مسند ابی داؤد الطیالسی میں کم و بیش پندرہ (15) احادیث حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہیں ، اگر نعوذ باللہ امام طیالسی علیہ الرحمہ کے مطابق حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ فاجر غیر معتبر ظالم ہوتے تو بھلا ایسے شخص سے حدیث کون لیتا ہے ؟ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے احادیث لینا بھی اس بات کی گواہی ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ فاجر و غیر صحابی نہ تھے بلکہ نیک مجتہد صحابی تھے ۔

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ صحابی ہیں

دَعَوْنَا مِنْ مُعَاوِيَةَ فَإِنَّهُ قَدْ صَحِبَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ۔
حضرت ابن عباس فرماتے ہیں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہم کے متعلق نازیبا بات نہ کرو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابی ہیں ۔ (المعجم الكبير للطبراني11/124،چشتی)(الشريعة للآجري5/2459نحوه)(مشكاة المصابيح1/399نحوہ)

قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ: أَيُّهُمَا أَفْضَلُ: مُعَاوِيَةُ أَوْ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ؟ فَقَالَ: مُعَاوِيَةُ أَفْضَلُ، لَسْنَا نَقِيسُ بِأَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدًا» . قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِيَ الَّذِينَ بُعِثْتُ فِيهِمْ ۔
ترجمہ : امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ سے سوال کیا گیا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ افضل ہیں یا عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ ، امام احمد بن حنبل نے فرمایا ہے کہ سیدنا معاویہ افضل ہیں ۔ ہم کسی غیر صحابی (حتی کہ عظیم الشان تابعی وغیرہ جیسے عمر بن عبدالعزیز) کو (سیدنا معاویہ وغیرہ) کسی صحابی کے برابر نہیں کر سکتے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ سب سے افضل ترین وہ لوگ(صحابہ) ہیں کہ جن میں میں ظاہری حیات رہا ۔ (السنة لأبي بكر بن الخلال2/434)

ثابت ہوا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ فضیلت والے صحابی ہیں ، غیر صحابی بڑے بڑے متقی پرہیزگار صوفیاء اولیاء علماء سیدنا معاویہ کے برابر نہیں ہو سکتے ۔

سَأَلْتُ أَبَا أُسَامَةَ أَيُّمَا كَانَ أَفْضَلَ مُعَاوِيَةُ أَوْ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ؟ فَقَالَ: لَا نَعْدِلُ بِأَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدًا ۔
ترجمہ : ابو اسامہ سے سوال کیا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ افضل ہیں یا حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ ، آپ نے فرمایا کہ ہم کسی غیر صحابی (حتی کہ عظیم الشان تابعی وغیرہ جیسے عمر بن عبدالعزیز)کو (سیدنا معاویہ وغیرہ) کسی صحابی کے برابر نہیں کر سکتے ۔ (جامع بيان العلم وفضله2/1173)

ثابت ہوا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ فضیلت والے صحابی ہیں ، غیر صحابی بڑے بڑے متقی پرہیزگار صوفیاء اولیاء علماء حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے برابر نہیں ہو سکتے ۔

وَقَالَ رَجُلٌ لِلْمُعَافَى بْنِ عِمْرَانَ: أَيْنَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ مِنْ مُعَاوِيَةَ ؟ فَغَضِبَ وَقَالَ: لَا يُقَاسُ بِأَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدٌ ۔
ترجمہ : ایک شخص نے المعافی سے پوچھا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کا مرتبہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہما کے معاملے میں کتنا ہے ؟ آپ غضبناک ہو گئے اور فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کسی بھی صحابی (حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ وغیرہ) کے برابر کوئی نہیں ہو سکتا ۔ (الشفا بتعريف حقوق المصطفى2/123)

معاوية بن أبى سفيان الصحابى ابن الصحابى ۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ صحابی ہیں اور آپ کے والد بھی صحابی ہیں ۔ (تهذيب الأسماء واللغات2/101)

معاوية بن أبى سفيان صخر بن حرب بن أمية الأموى: أبو عبد الرحمن الخليفة، صحابى ۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اموی خلیفہ اور صحابی ہیں ۔ (مغاني الأخيار في شرح أسامي رجال معاني الآثار3/555)

مُعَاوِيَةَ وَيَقُولُ : كَانَ مِنَ الْعُلَمَاءِ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ عَلَيْهِ السَّلَامُ ۔
حضرت فضیل فرماتے ہیں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اصحابِ محمد کے علماء صحابیوں میں سے ہیں ۔ (السنة لأبي بكر بن الخلال2/438)

مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ) : وَهُمَا صَحَابِيَّانِ ۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ صحابی ہیں اور سیدنا ابو سفیان بھی صحابی ہیں ۔ (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح1/364)

قال ابن الصّلاح : ثم إن الأمة مجمعة على تعديل جميع الصّحابة ومن لابس الفتن منهم، فكذلك بإجماع العلماء الذين يعتدّ بهم في الإجماع قال الخطيب البغداديّ في الكفاية» مبوبا على عدالتهم: عدالة الصحابة ثابتة معلومة بتعديل اللَّه لهم، وإخباره عن طهارتهم واختياره لهم في نص القرآن ۔
ترجمہ : علامہ ابن صلاح فرماتے ہیں تمام صحابہ کرام عادل و دیندار ہیں( فاسق و فاجر دنیادار ظالم منافق نہیں) وہ صحابہ کرام بھی عادل و دیندار ہیں جو جنگوں فتنوں میں پڑے (جیسے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہم وغیرہ) اس پر معتدبہ علماء کا اجماع ہے ۔ خطیب بغدادی فرماتے ہیں تمام صحابہ کرام عادل و دیندار ہیں (فاسق و فاجر ظالم دنیادار منافق نہیں) صحابہ کرام کی تعدیل اللہ نے فرمائی ہے اور اللہ نے ان کی پاکیزگی کی خبر دی ہے ۔ (امام ابن حجر عسقلانی.. الإصابة في تمييز الصحابة، 1/22)

ثابت ہوا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ وغیرہ جو جنگوں میں پڑے وہ سب کے سب نیک عادل صحابی ہیں اس پر تمام معتبر علماء کا اجماع ہے اور یہ نظریہ  قرآن و حدیث سے ثابت ہے ۔

وَأَمَّا مُعَاوِيَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَهُوَ مِنَ الْعُدُولِ الْفُضَلَاءِ وَالصَّحَابَةِ النُّجَبَاءِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَأَمَّا الْحُرُوبُ الَّتِي جَرَتْ فَكَانَتْ لِكُلِّ طَائِفَةٍ شُبْهَةٌ اعْتَقَدَتْ تَصْوِيبَ أَنْفُسِهَا بِسَبَبِهَا وَكُلُّهُمْ عُدُولٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَمُتَأَوِّلُونَ فِي حُرُوبِهِمْ وَغَيْرِهَا وَلَمْ يُخْرِجْ شئ مِنْ ذَلِكَ أَحَدًا مِنْهُمْ عَنِ الْعَدَالَةِ لِأَنَّهُمْ مُجْتَهِدُونَ اخْتَلَفُوا فِي مَسَائِلَ مِنْ مَحَلِّ الِاجْتِهَادِ كَمَا يَخْتَلِفُ الْمُجْتَهِدُونَ بَعْدَهُمْ فِي مَسَائِلَ مِنَ الدِّمَاءِ وَغَيْرِهَا وَلَا يَلْزَمُ مِنْ ذَلِكَ نَقْصُ أَحَدٍ مِنْهُمْ ۔
ترجمہ : حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ عادل و دیندار فضیلت والے نجباء صحابہ میں سے ہیں باقی جو ان میں جنگ ہوئی تو ان میں سے ہر ایک کے پاس شبہات تھے اجتہاد جس کی وجہ سے ان میں سے کوئی بھی عادل ہونے کی صفت سے باہر نہیں نکلتا اور ان میں کوئی نقص و عیب نہیں بنتا ۔ (امام نووي ,شرح النووي على مسلم ,15/149،چشتی)

طلقاء کہنے سے صحابیت کی نفی نہیں ہوتی جیسے مہاجر و انصار کہنے سے صحابیت کی نفی نہیں ہوتی ۔

أنه صحابي من الطلقاء ۔ بے شک وہ صحابی ہیں طلقاء میں سے ہیں ۔ (التنوير شرح الجامع الصغير5/194)

الصَّحَابِيُّ، مِنَ الطُّلَقَاءِ ۔ وہ صحابی ہیں طلقاء میں سے ہیں ۔ (سير أعلام النبلاء - ط الرسالة2/543)

ذكره ابن سعد، والطّبريّ: وابن شاهين في الصحابة، وكان من الطلقاء ۔ امام ابن سعد اور امام طبری اور امام ابن شاہین نے انہیں صحابہ میں شمار کیا اور وہ طلقاء میں سے تھے ۔ (الإصابة في تمييز الصحابة4/301)

أَبُوْهُ مِنَ الطُّلَقَاءِ، وَمِمَّنْ حَسُنَ إِسْلاَمُهُ ۔ ان کے والد طلقاء میں سے تھے اور ان کا اسلام لانا اچھا ہو گیا تھا ۔ (سير أعلام النبلاء - ط الرسالة3/484)

معاوية) بنُ أبي سفيانَ خالُ المؤمنين وأميرُهم، الأمويُّ ۔ بضم الهمزة ۔ الصّحابيُّ بنُ الصحابيِّ، كان من مُسلمة الفتح، ومن المؤلَّفة قلوبهم، ثمَّ حَسُنَ إسلامه كأبيه وأمه هند بنت عتبة ۔ یعنی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ماموں ہیں مومنین کے اور مومنوں کے امیر ہیں ، صحابی ہیں ، صحابی کے بیٹے ہیں ، فتح مکہ کے دن ایمان ظاہر کیا،پہلے پہل مولفۃ القلوب میں سے تھے پھر اسلام لانا ان کا اچھا ہو گیا ، اسلام پر اچھائی و پابندی کے ساتھ رہے جیسے کہ ان کا والد ابوسفیان اور ان کی والدہ ھندہ رضی اللہ عنہم (کا اسلام اچھا ہوگیا تھا،اسلام پر اچھائی کے ساتھ رہے) ۔ (كشف اللثام شرح عمدة الأحكام3/472)
.
أبو سفيان بن حرب» ، و «معاوية» ابنه، ثم حسن إسلامهما. و «حكيم ابن حزام» ، ثم حسن إسلامه. و «الحارث بن هشام» ، أخو «أبى جهل بن هشام» ، ثم حسن إسلامه. [و «صفوان بن أميّة» ، ثم حسن إسلامه [٢] . و «سهيل ابن عمرو» ، ثم حسن إسلامه. [و «حويطب بن عبد العزى» ، ثم حسن إسلامه] . و «العلاء بن حارثة الثّقفيّ» ، و «عيينة بن حصن بن حذيفة ابن بدر» ، و «الأقرع بن حابس» ، و «مالك بن عوف النّصرى» ، و «العباس ابن مرداس السّلمى» ثم حسن إسلامه. و «قيس بن مخرمة» ، ثم حسن إسلامه. و «جبير بن مطعم» ، ثم حسن إسلامه ۔
حضرت ابو سفیان سیدنا معاویہ سیدنا حکیم سیدنا حارث سیدنا صفوان سیدنا سہیل سیدنا حویطب سیدنا علاء سیدنا عیینہ سیدنا اقرع سیدنا مالک بن عوف سیدنا عباس بن مرداس سیدنا قیس سیدنا جبیر رضی اللہ عنہم یہ سب پہلے پہل مولفۃ القلوب میں سے تھے پھر اسلام لانا ان کا اچھا ہو گیا ، اسلام پر اچھائی پابندی کے ساتھ رہے ۔ (كتاب المعارف1/342)

ابْنُ عَمِّ النَّبِيِّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الطُّلَقَاءِ الَّذِيْنَ حَسُنَ إِسْلاَمُهُم ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا کے بیٹے طلقاء میں سے تھے پھر ان کا اسلام اچھا ہوگیا ، اسلام پر اچھائی پابندی کے ساتھ رہے ۔ (سير أعلام النبلاء - ط الرسالة3/95،چشتی)

أسلم هو وأبوه يوم فتح مكة، وشهد حُنينًا وكان من المؤلفة قلوبهم، ثم حسن إسلامه ۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے والد سیدنا ابو سفیان فتح مکہ کے دن ایمان لائے جہاد حنین (وغیرہ) میں شریک ہوئے ، پہلے پہل مولفۃ القلوب تھے پھر اسلام پر اچھائی کے ساتھ رہے ۔ (تاريخ الخلفاء سيوطي صفحہ 148)

ومعاوية بن أبي سفيان ثمّ حسن إسلامه ۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پہلے پہل مولفۃ القلوب تھے پھر اسلام پر اچھائی کے ساتھ رہے ۔ (درج الدرر في تفسير الآي والسور ط الفكر1/777)

وكان هو وأبوه من المؤلَّفة قلوبهم، ثم حَسُنَ إسلامُهما ۔ حضرت امیر معاویہ اور ان کے والد ابو سفیان رضی اللہ عنہما پہلے پہل مولفۃ القلوب تھے پھر اسلام پر اچھائی کے ساتھ رہے ۔ (التاريخ المعتبر في أنباء من غبر1/286)

العلماء متفقون على حسن إسلامه ۔ علماء متفق ہیں کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا اسلام لانا اچھا ہوگیا تھا،اسلام پر اچھائی سے رہے ۔ (الإصابة في الذب عن الصحابة صفحہ 220)

أبو سفيان بن حرب» ، و «معاوية» ابنه، ثم حسن إسلامهما ۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے والد حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ فتح مکہ کے دن ایمان لائے (پہلے پہل مولفۃ القلوب میں سے تھے) پھر اسلام پر اچھائی کے ساتھ رہے ۔ (المعارف ابن قتيبة 1/342)

ام المونین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا فرمان کہ معاویہ اچھے ہیں ، کچھ معاملات کی وجہ سے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق اگر حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کچھ نازیبا اگر فرمایا بھی تو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے عذر سنایا وضاحت دی اور حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عذر قبول کر لیا لھذا معاذ اللہ فاجر فرعونی ظالم حاکم کہنے والی روایت باطل ہے ۔

كَيْفَ أَنَا فِي حَاجَاتِكِ وَرُسُلِكِ وَأَمْرِكِ؟، قَالَتْ: صَالِحٌ ۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ (اجتہاد کی بنیاد پے جنگ و قتل کو چھوڑیے) آپ کے معاملے میں اے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا میں کیسا ہوں ؟ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا آپ اچھے ہیں ۔ (المعجم الكبير للطبراني 19/319)

يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ.كَيْفَ أَنَا فِيمَنْ سِوَى ذَلِكَ مِنْ حَاجَاتِكِ وَأَمْرِكِ؟ قَالَتْ: صَالِحٌ ۔ (اجتہاد کی بنیاد پے جنگ و قتل کو چھوڑییے) اے ام المومنین اس کے علاوہ میں کیسا ہوں تو سیدہ عائشہ نے فرمایا آپ اچھے ہیں ۔ (دلائل النبوة للبيهقي6/457)
.
يَا أمَّ الْمُؤْمِنِينَ كَيْفَ أَنَا فِيمَا سِوَى ذَلِكَ مِنْ حَاجَاتِكَ وَأَمْرِكَ؟ قَالَتْ: صَالِحٌ...فَلَمْ يَزَلْ يَتَلَطَّفُ حَتَّى دَخَلَ فَلَامَتْهُ فِي قَتْلِهِ حُجْرًا، فَلَمْ يَزَلْ يَعْتَذِرُ حَتَّى عَذَرَتْهُ ۔ (اجتہاد کی بنیاد پے جنگ و قتل کو چھوڑییے) اے ام المومنین اس کے علاوہ میں کیسا ہوں تو سیدہ عائشہ نے فرمایا اچھے ہیں ۔ سیدنا حجر کے قتل کے معاملے میں سیدہ عائشہ نے سیدنا معاویہ کی ملامت فرمائی تو سیدنا معاویہ نے عذر پیش کیا یہاں تک کہ سیدہ عائشہ نے عذر قبول کر لیا ۔ (البداية والنهاية ت شيري8/60)

یہ بھی ممکن ہے کہ اصل بات اتنی ہو مگر بڑھا چڑھا کر پیش کی گئ ہو ۔
الْأَسْوَدِ قَالَ : قُلْتُ لِعَائِشَةَ: إِنَّ رَجُلًا مِنَ الطُّلَقَاءِ يُبَايِعُ لَهُ - يَعْنِي مُعَاوِيَةَ -، قَالَتْ: «يَا بُنَيَّ، لَا تَعْجَبْ هُوَ مُلْكُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ» ۔ سیدنا اسود فرماتے ہیں کہ میں نے سیدہ عائشہ سے عرض کی کے ایک شخص جو طلقاء صحابیوں میں سے ہے یعنی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہم کی بیعت کی جا رہی ہے (حالانکہ طلقاء سے پہلے والے صحابہ جو طلقاء سے افضل ہیں وہ موجود ہیں) کیا یہ عجیب بات نہیں ؟ سیدہ عائشہ نے فرمایا کہ تعجب میں مت پڑیے یہ اللہ تعالی کی بادشاہت ہے جسے چاہے عطا فرمائے ۔ (المصنف - ابن أبي شيبة - ت الحوت6/186)

 شیعہ روافضیوں نیم روافضیوں کی پیش جانے والی روایت جس میں کہا گیا ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ صحابی نہیں ہیں اس روایت کا ایک راوی عبد الرحمن بن محمد بن یاسر جوبری ہے ۔ تو اس کا یہ مطلب بنا کے جوبری کے مطابق حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ صحابی نہیں ہیں حالانکہ جوبری سے ثابت ہے کہ وہ کہا کرتے تھے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ صحابی ہیں ۔ حَتَّى أَدْرِي مَذْهَبَكَ فِي مُعَاوِيَة. فَقُلْتُ: صَاحِبِ رَسُوْلِ اللهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-، وَتَرَحَّمْتُ عَلَيْهِ ۔ عبد الرحمن بن محمد بن یاسر جوبری سے کہا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق اپنا نظریہ عقیدہ بتاؤ ۔ عبد الرحمن بن محمد بن یاسر جوبری نے کہا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابی ہیں اور ان پر اللہ تعالی کی خصوصی رحمت ہو ۔ (سیر اعلام النبلاء 13/134)

شیعہ روافضیوں نیم روافضیوں کی پیش کردہ روایت کے راوی ضعیف و مجھول ہیں ، بات فضیلیت کی نہیں کہ ضعیف بھی مقبول ہوتی ، بات حکم شرع فاسق و فاجر فرعونی بادشاہ کہنے تک کی بات ہے اور ایسے معاملات (حکم شرعی لگانے ثابت کرنے) میں ضعیف روایت قابل قبول نہیں ۔

يتْرك)أَي الْعَمَل بِهِ فِي الضَّعِيف إِلَّا فِي الْفَضَائِل ۔ (شرعی حکم میں)حدیث ضیف پر عمل نہ کیا جائے گا مگر فضائل میں ضعیف حدیث پر عمل کرنا جائز ہے ۔ (شرح نخبة الفكر للقاري ص185)

شیعہ روافضیوں اور نیم روافضیوں کی پیش کردہ روایت کا ایک راوی ایوب بن جابر کے متعلق علماء کے اقوال ملاحظہ کیجیے : سَأَلْتُ يَحْيَى بْنَ مَعِينٍ عَنْ أَيُّوبَ بْنِ جَابِرٍ فَقَالَ: ذَهَبْتُ إِلَى أَيُّوبَ بْنِ جَابِرٍ وَقَدْ كَتَبْتُ عَنْهُ وَكَانَ أَيُّوبُ بْنُ جَابِرٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ جَابِرٍ لَيْسَا بِشَيْءٍ ۔ امام یحییٰ بن معین فرماتے ہیں کہ ایوب بن جابر اور محمد بن جابر کوئی حیثیت نہیں رکھتے ، معتبر نہیں ۔ (الضعفاء الكبير للعقيلي1/114،چشتی)

وَقَالَ النَّسَائِيُّ أَيُّوبُ بْنُ جَابِرٍ ضَعِيفٌ ۔  امام نسائی فرماتے ہیں کہ ایوب بن جابر ضعیف ہے ۔ (الكامل في ضعفاء الرجال2/17)

 عيسى بن يونس، أنه كان يرميه بالكذب ۔ عیسی بن یونس ایوب بن جابر کے متعلق کہا کرتے تھے کہ وہ جھوٹا ہے ۔ (موسوعة أقوال الإمام أحمد بن حنبل في رجال الحديث وعلله1/138)

أيوب بن جابر بن سيار؛ ضعيف واهٍ، ضعَّفه الأئمة ۔ ایوب بن جابر واہی ہے ، ضعیف ہے ، اس کو کئی اماموں نے ضعیف قرار دیا ہے ۔ (ديوان السنة - قسم الطهارة3/100)

كان علي بن المديني يضعف حديث أيوب بن جابر.سمعت أبي يقول: أيوب بن جابر ضعيف الحديث قال وسئل أبو زرعة (١٦٧ ك) عن أيوب بن جابر فقال واهي الحديث ضعيف ۔ امام علی بن مدینی فرماتے تھے کہ ایوب بن جابر ضعیف الحدیث ہے اور امام ابو حاتم کے بیٹے فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے پوچھا ایوب بن جابر کے متعلق تو فرمایا واہی الحدیث اور ضعیف ہے ۔ (الجرح والتعديل لابن أبي حاتم2/243)

أَيُّوبُ بْنُ جَابِرٍ مِنْ أَهْلِ الْيَمَامَةِ ضَعِيفٌ لَا يُحْتَجُّ بِهِ ۔ ایوب بن جابر اہل یمامہ میں سے ہے ضعیف ہے اس کی روایت سے(بلا متابع معتبر) دلیل نہیں پکڑ سکتے ۔ (علل الدارقطني = العلل الواردة في الأحاديث النبوية5/159)

 کچھ کتب میں اس کی تعدیل بھی آئی ہے لیکن جرح مفسر ہے تو جرح مفسر مقدم ہے ۔ وَالْجرْح) بِفَتْح الْجِيم بِمَعْنى التجريح. (مُقَدم على التَّعْدِيل) أَي عِنْد التَّعَارُض ۔ جب ایک طرف توثیق و تعدیل ہو اور دوسری طرف جرح مفسر ہو تو جرح مقدم کہلائے گی ۔ (الملا على القاري ,شرح نخبة الفكر للقاري صفحہ 741)

طلقاء کا شیعہ روافضیوں اور نیم روافضیوں نے غلط معنیٰ بیان کیا کہ طلقاء زبردستی مسلمان ہوتے ہیں ۔ طلقاء سے مراد کیا ہے ، چند عبارات پیش ہیں ، انصاف سے پڑھیے : ⬇

(الطلقاء) جمع طليق : وهم أهل مكة الذين عفا عنهم رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم فتح مكة، فقال لهم : اذهبوا فأنتم الطلقاء ۔ طلقاء ان اہل مکہ کو کہتے ہیں کہ جن کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فتح مکہ کے دن معاف کر دیا تھا اور فرمایا تھا کہ تم آزاد ہو (چاہو تو ایمان لاؤ ، چاہو تو دنیا و آخرت کی بربادی پے ڈٹے رہو، کہ ہمارا کام سمجھانا ہے، زبردستی مسلمان کرنا نہیں) ۔ (جامع الأصول2/319)

(الطلقاء) أهل مكة؛ لأنه -صلى الله عليه وسلم- منَّ عليهم، وأطلقهم يوم فتح مكة ۔ طلقاء وہ اہل مکہ ہیں کہ جن پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احسان کرتے ہوئے انہیں فتح مکہ کے دن آزاد کر دیا تھا(کہ چاہو تو ایمان لاؤ ، چاہو تو دنیا و آخرت کی بربادی پے ڈٹے رہو، کہ ہمارا کام سمجھانا ہے، زبردستی مسلمان کرنا نہیں) ۔ (المفهم لما أشكل من تلخيص كتاب مسلم 3/684)

اذْهَبُوا، فَأَنْتُمُ الطُّلَقَاءُ. فَعَفَا عَنْهُمْ، وَكَانَ اللَّهُ قَدْ أَمْكَنَهُ مِنْهُمْ، وَكَانُوا لَهُ فَيْئًا، فَلِذَلِكَ سُمِّيَ أَهْلُ مَكَّةَ الطُّلَقَاءَ ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جاؤ تم آزاد ہو(چاہو تو ایمان لاؤ ، چاہو تو دنیا و آخرت کی بربادی پے ڈٹے رہو کہ ہمارا کام سمجھانا ہے، زبردستی مسلمان کرنا نہیں) رسول کریم نے انہیں معاف کر دیا، لہذا ان اہل مکہ کو طلقاء کہتے ہیں ۔ (الكامل في التاريخ - ت تدمري2/125،چشتی)

الطُلَقاءُ وهُم الَّذين خلّى عَنْهُم يومَ فتْحِ مكّة، وأطلقھم ۔ طلقاء انکو کہتے ہیں کہ جن کو فتح مکہ کے دن رسول کریم نے آزاد کر دیا تھا اور ان کا راستہ چھوڑ دیا تھا(کہ چاہیں تو ایمان لائیں ، چاہیں تو دنیا و آخرت کی بربادی پے ڈٹے رہیں کہ ہمارا کام سمجھانا ہے زبردستی مسلمان کرنا نہیں) ۔ (تاج العروس26/120)

الطلقاء، يعنی : الذين خلى عنهم يوم فتح مكة وأطلقهم ۔ طلقاء انکو کہتے ہیں کہ جن کو فتح مکہ کے دن رسول کریم نے آزاد کر دیا تھا اور ان کا راستہ چھوڑ دیا تھا (کہ چاہیں تو ایمان لائیں ، چاہیں تو دنیا و آخرت کی بربادی پے ڈٹے رہیں کہ ہمارا کام سمجھانا ہے زبردستی مسلمان کرنا نہیں) ۔ (شرح الزرقاني على المواهب اللدنية3/498)

الطُّلَقَاءُ) هُوَ بِضَمِّ الطَّاءِ وَفَتْحِ اللَّامِ وَبِالْمَدِّ وَهُمُ الَّذِينَ أَسْلَمُوا يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ وَهُوَ جَمْعُ طَلِيقٍ يُقَالُ ذَاكَ لِمَنْ أُطْلِقَ مِنْ إِسَارٍ أَوْ وَثَاقٍ قَالَ الْقَاضِي فِي الْمَشَارِقِ قِيلَ لِمُسْلِمِي الْفَتْحِ الطُّلَقَاءُ لِمَنِّ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ ۔ طلقاء وہ کہ جو فتح مکہ کے دن ایمان لے آئے ، ان کو اس لئے طلقاء کہا جاتا ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر خصوصی احسان کیا ۔ (شرح النووي على مسلم7/153)

اور بالفرض طلقاء زبردستی مسلمان کو کہا جائے تو بھی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر اعتراض نہیں اٹھتا کہ ان سمیت کئی طلقاء حسن الاسلام ، اچھے اسلام والے ، پابند اسلام بن گئے تھے جیسے کہ اوپر بات نمبر تین اور چار میں ثابت کیا گیا ہے ۔

ایک اور اعتراض شیعہ رافضی اور نیم رافضی کرتے ہیں کہ : امیر المومنین علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے جنگ صفین میں اپنے رفقا سے خطاب میں جو بیان کیا آئمہ اہلسنت اسے طلقاء کا حقیقی تعارف شمار کرتے ہیں جناب علی ابن ابی طالب نے اپنے لشکر سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ؛
وَتَحَرَّوْا لِحَرْبِ عَدُوِّکُمْ، فَانْتَبِهُوا إِنَّمَا تُقَاتِلُونَ الطلقاء وَأَبْنَاءَ الطلقاء وَ أَهْلَ الْجَفَاءِ، وَ مَنْ أَسْلَمَ کَرْهاً... وَلِلْإِسْلَامِ کُلِّهِ حَرْباً، أَعْدَاءَ السُّنَّةِ وَالْقُرْآنِ، وَ أَهْلَ الْبِدَعِ وَالْأَحْدَاثِ، وَ أَکَلَةَ الرِّشَا، وَ عَبِیدَ الدُّنْیا : اپنے دشمنوں سے جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ اور جان لو کہ تم طلقاء اور ان کے بیٹوں اہل جفا سے نبرد آزما ہو جو دباؤ کے تحت ڈر کے مارے اسلام لائے یہ وہ لوگ ہیں جو ہمیشہ اسلام سے جنگ کرتے رہے یہ لوگ قرآن و سنت کے دشمن ہیں یہی لوگ اہل بدعت ہیں یہی لوگ راشی اور دنیا کے رسیا بندے ہیں۔(دینوری، ابن‌قتیبه؛ الامامه والسیاسه، بیروت، دارالاضواء، 1410 ق، طبع اول، ص178.)

جواب : الامامۃ و السیاسۃ معتبر اہلسنت کی کتاب نہیں بلکہ متنازعہ کتاب ہے حتیٰ کہ بعض نے اسے ابن قتیبہ کی تصنیف ہی قرار نہ دیا بعض نے لکھا کہ ابن قتیبہ دو تھے ایک سنی ایک شیعہ،شیعہ نے کتاب لکھی اور شیعہ اسے سنی مصنف کہہ کر دھوکہ دیتے ہیں ۔ (دیکھیے میزان الکتب صفحہ 275 لسان المیزان ر 4460)

حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی اتنی بڑی بات اور اتنا بڑا فتوی... یقینا ایسی بات کےلیے سند کا ہونا بہت ضروری ہے ، حالانکہ اس کی کوئی بھی سند موجود نہیں ہے اور جب سند موجود نہ ہو تو ایسی بات معتبر نہیں کہلاتی بلکہ جھوٹ کہلاتی ہے کہ جو حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کی گئی ہے ۔ الإِسْنَادُ مِنَ الدِّينِ. وَلَوْلَا الإِسْنَادُ لَقَالَ مَنْ شَاءَ مَا شَاءَ ۔ سند دین کے اصولوں میں سے ہے اگر سند (لانے لکھنے کی سختی) نہ ہوتی تو جو شخص جو منہ میں آتا کہہ دیتا ۔ (صحيح مسلم - ت عبد الباقي1/15،چشتی)(شرح صحيح البخاري للحويني4/1)(العلل الواقع بآخر جامع الترمذي - ت بشار ص232نحوہ)(الكافي في علوم الحديث ص403)
(مقدمة ابن الصلاح ومحاسن الاصطلاح ص437،چشتی)(الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع للخطيب البغدادي2/213) ۔ اور بھی بہت ساری کتب میں ایسا لکھا ہے ۔

مذکورہ روایت میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ وغیرہ کو اسلام دشمن منافق قران و سنت کا دشمن کہا گیا ہے جبکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مطابق سیدنا معاویہ ایسے نہ تھے ۔ نہج البلاغۃ میں سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حکم موجود ہے کہ : ومن كلام له عليه السلام وقد سمع قوما من أصحابه يسبون أهل الشام أيام حربهم بصفين إني أكره لكم أن  تكونوا سبابين، ولكنكم لو وصفتم أعمالهم وذكرتم حالهم كان أصوب في القول ۔
ترجمہ : جنگ صفین کے موقعے پر اصحابِ علی میں سے ایک قوم اہل الشام (سیدنا معاویہ سیدہ عائشہ وغیرھما رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین) کو برا کہہ رہے تھے، لعن طعن کر رہے تھے تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا : تمہارا (اہل شام، معاویہ ، عائشہ صحابہ وغیرہ کو) برا کہنا لعن طعن کرنا مجھے سخت ناپسند ہے ، درست یہ ہے تم ان کے اعمال کی صفت بیان کرو ۔ (شیعہ کتاب نہج البلاغۃ صفحہ 437)

ثابت ہوا حضرت امیر معاویہ ، سیدہ عائشہ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعریف و توصیف کی جائے ، شان بیان کی جائے ۔ یہی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پسند ہے ۔ ثابت ہوا کہ سیدنا معاویہ سیدہ عائشہ وغیرہما صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر لعن طعن گالی و مذمت کرنے والے شیعہ ذاکرین ماکرین شیعہ رافضی اور نیم رافضی محبانِ اہلِ بیت رضی اللہ عنہم نہیں بلکہ نافرمان و مردود ہیں،انکےکردار کرتوت حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ناپسند ہی نہیں بلکہ سخت ناپسند ہے ۔

ان عليا لم يكن ينسب أحدا من أهل حربه إلى الشرك ولا إلى النفاق ولكنه كان يقول: هم إخواننا بغوا علينا ۔
ترجمہ : بےشک حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنےاہل حرب (سیدنا معاویہ،سیدہ عائشہ اور ان کے گروہ رضی اللہ عنہم) کو نہ تو مشرک کہتےتھے نہ منافق ۔ بلکہ فرمایا کرتے تھے کہ وہ سب ہمارے (دینی) بھائی ہیں مگر (مجتہد) باغی ہیں ۔ (شیعہ کتاب بحارالانوار32/324)(شیعہ کتاب وسائل الشیعۃ15/83)(شیعہ کتاب قرب الاسناد صفحہ 94)

سیدنا ابوبکر و عمر ، سیدنا معاویہ و دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو کھلےعام یا ڈھکے چھپے الفاظ میں منافق بلکہ کافر تک بکنے والے ، توہین و گستاخی کرنے والےرافضی اور نیم رافضی اپنےایمان کی فکر کریں ۔ یہ محبانِ علی و اہلبیت نہیں بلکہ نافرمانِ علی ہیں ، نافرمانِ اہلبیت رضی اللہ عنہم ہیں ۔

فنعى الوليد إليه معاوية فاسترجع الحسين ۔ سیدنا امام حسین کو جب سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہما کی وفات کی خبر دی گئ تو آپ نےاِنَّا لِلّٰہِ وَ  اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ پڑھا ۔ (شیعہ کتاب اعلام الوری طبرسی1/434) ۔ مسلمان کو کوئی مصیبت ، دکھ ملےتو کہتے ہیں اِنَّا لِلّٰہِ وَ  اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ ۔ (سورہ بقرہ156) ۔ ثابت ہوا حضرت امیر معاویہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہما کے مطابق کافر ظالم منافق دشمن برے ہرگز نہ تھے جو کہ مکار فسادی نافرمان دشمنانِ اسلام گستاخانِ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے منہ پر طمانچہ ہے ۔  اللہ عزوجل جملہ فتنہ پروروں کے شر اور فتنوں سے بچاۓ آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔