Thursday 16 February 2023

ماہِ رجب اور شبِ معراج کے اعمال و عبادات حصّہ اوّل

0 comments
ماہِ رجب اور شبِ معراج کے اعمال و عبادات حصّہ اوّل
محترم قارئینِ کرام : مُکاشَفَۃُ الْقُلُوب میں  ہے ، بزرگانِ دین علیہم الرحمہ فرماتے ہیں : رجب میں  تین حروف ہیں : ر ، ج ، ب ، ’’ ر ‘‘ سے مراد رَحمتِ الٰہی عزوجل ، ’’ ج ‘‘ سے مُراد بندے کا جرم ، ’’ ب ‘‘ سے مُراد بِرّ یعنی اِحسان ۔ گویا اللہ عزوجل فرماتا ہے : میرے بندے کے  جرم کو میری رَحمت اور احسان کے درمیان کر دو ۔ (مُکاشَفۃُ الْقُلوب صفحہ ۳۰۱)

حضرت علامہ صفوری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :  رَجَبُ الْمُرَجَّب بیج بونے کا ،  شَعْبانُ الْمُعَظَّم آبپاشی (یعنی پانی دینے)  کا اور رَمَضانُ الْمُبارَک فصل کاٹنے کا مہینا ہے ، لہٰذا جو رَجَبُ الْمُرَجَّب میں  عبادت کا بیج نہ بوئے اور شَعْبانُ الْمُعَظَّم میں اُسے آنسوؤں سے سیراب نہ کرے وہ رَمَضانُ الْمُبارَک میں  فصلِ رَحمت کیوں کر کاٹ سکے  گا ؟ مزید فرماتے ہیں : رَجَبُ الْمُرَجَّب جسم کو ، شَعْبانُ الْمُعَظَّم دل کو اور رَمَضانُ الْمُبارَک رُوح کو پاک کرتا ہے ۔ (نُزْہَۃُ الْمَجا لِس جلد ۱ صفحہ ۲۰۹)

حضرت ابو اُمامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمانِ عظیم ہے : پانچ راتیں ایسی ہیں جس میں  دُعا رَد نہیں کی جا تی {۱} رجب کی پہلی (یعنی چاند ) رات {۲} شعبان کی پندَرَھویں رات(یعنی شبِ براء ت )   {۳}  شبِ جمعہ(یعنی جمعرات اور جمعہ کی درمیانی رات)  {۴}  عیدالفطرکی (چاند ) رات {۵}  عیدُالْاَضْحٰی کی (یعنی ذُوالْحِجّہ کی دسویں )  رات ۔ (ابنِ عَساکِر جلد ۱۰ صفحہ  ۴۰۸)

حضرت خالد بن معدان علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :  سال میں  پانچ راتیں ایسی ہیں جو ان کی تصدیق کرتے ہوئے بہ نیت ثواب ان کو عبادت میں  گزارے گا ، اللہ تَعَالٰی اُسے داخلِ جنت فرمائے گا {۱} رجب کی پہلی رات کہ اس رات میں  عبادت کرے اور اس کے دن میں  روزہ رکھے {۲} شعبان کی پندرَھویں رات (یعنی شبِ برائَ ت) کہ اس رات میں عبادت کرے اور دن میں روزہ رکھے {۳، ۴} عیدین کی راتیں (یعنی عید الفطر کی (چاند) رات اورشبِ عیدُ الْاَضْحٰی یعنی 9 اور 10 ذُو الْحِجّہ کی درمیانی رات کہ ان راتوں میں عبادت کرے اور دن میں روزہ نہ رکھے (عیدین میں  روزہ رکھنا ،  ناجا ئز ہے) اور  {۵}  شبِ عاشورا (یعنی محرمُ الحرام کی دَسویں شب) کہ اس رات میں عبادت کرے اور دن میں  روزہ رکھے ۔ (فَضائِلُ شَہْرِ رَجَب لِلخَلّال صفحہ۱۰، چشتی)(غُنْیَۃُ الطّا لِبِیْن جلد ۱ صفحہ ۳۲۷)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : رجب کے  پہلے دن کا روزہ تین سال کا کفارہ ہے ، اور  دوسرے دن کا روزہ دو سال کا اور تیسرے دن کا ایک سال کا کفارہ ہے ، پھر ہر دن کا روزہ ایک ماہ کا کفارہ ہے ۔ (اَلْجامِعُ الصَّغِیر صفحہ ۳۱۱ حدیث نمبر ۵۰۵۱)(فَضائِلُ شَہْرِ رَجَب لِلخَلّال صفحہ ۷)

یہاں ’’ گناہ کا کفارہ‘‘ سے مراد یہ ہے کہ یہ روزے ، گناہِ صغیرہ کی معافی کا ذَرِیعہ بن جا تے ہیں ۔

شب معراج کے اعمال و عبادات

اس متبرک رات امت محمدیہ علی صاحبھا الصلوۃ والسلام کو نماز کا تحفہ دیا گیا ‘ لہذا یہ عمل نہایت موزوں ہے کہ اہل اسلام اس رات قضاء عمری ‘صلوٰۃ التسبیح اور دیگر نوافل کا اہتمام کریں ، قرآن کریم کی تلاوت کریں اور کثرت سے درود شریف پڑھیں ۔ اللہ رب العزت نے سال کے بارہ (12) مہینوں میں مختلف دنوں اور راتوں کی خاص اہمیت و فضیلت بیان کر کے ان کی خاص برکات و خصوصیات بیان فرمائی ہیں جیسا کہ قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ : إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ۔ (سورہ التوبہ:۳۶)
ترجمہ : بے شک مہینوں کی گنتی اللہ کےنزدیک بارہ مہینے ہیں اللہ کی کتاب میں جب سے اس نے آسمان اور زمین بنائے ان میں سے چار حرمت والے ہیں ۔

ان چار حرمت والے مہینوں میں سے ایک مہینہ رجب ہے جس کے بارے میں امام محمد غزالی رحمة اللہ علیہ ’’مکاشفۃ القلوب‘‘میں فرماتے ہیں  کہ ’’رجب‘‘ دراصل ترجیب سے نکلا ہے جس کے معنیٰ ہے تعظیم کرنا ۔ اسے ’’الاحسب‘‘ بھی کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں  تیز بہاؤ ، اس لیے کہ اس ماہ مبارک میں توبہ کرنے والوں پر رحمت کا بہاؤتیز ہو جاتا ہے اور عبادت گزاروں  پرانوار  قبولیت کا   فیضان ہوتا ہے ۔ اس بنا پر  اسے  ’’اصم ‘‘ بھی کہتے ہیں چونکہ اس  مہینہ میں جنگ وقتال   کی آواز  نہیں  سنی جاتی ۔ اس لیے اس مہینہ کو ’’اصب‘‘ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رحمت و مغفرت اُنڈیلتا ہے اس میں عبادتیں مقبول اور دعائیں مستجاب ہوتیں ہیں اسے رجب کہتے ہیں ۔ رجب جنت میں ایک نہر کا نام ہے جس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید،شہد سے زیادہ میٹھا اور برف سے زیادہ ٹھنڈا ، اس کا پانی اُس کا مقدر ہوگا جو رجب میں روزے رکھے گا ۔ اسی مہینہ کی یکم تاریخ کو سیدنا حضرت نوح علیہ السلام کشتی پر سوار ہوئے ، اسی ماہ کی چار (۴) تاریخ کو جنگِ صفین کا واقعہ پیش آیا ، اسی ماہ کی ستائیسویں (۲۷) کی رات کو محبوب کبریا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے معراج شریف کی ہے جس میں آسمانی سیر اور جنت و دوزخ کا ملاحظہ کرنا اور دیدار الٰہی سے مشرف ہونا تھا ۔ صوفیائے کرام علیہم الرحمہ کا فرمان ہے کہ رجب میں تین (۳) حروف ہیں : ’’ر‘‘،’’ج‘‘ اور ’’ب‘‘ ۔
’’ر‘‘ سے مراد اللہ کی رحمت ہے ۔ ’’ج‘‘ سے مراد بندے کا جرم ہے ۔ ’’ب‘‘ سے مراد اللہ کی بَر یعنی بھلائی مراد ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے کے جرم کو میری رحمت اور بھلائی یعنی بخشش کے درمیان کردو ۔ (مکاشفۃ القلوب صفحہ نمبر ۶۰۲)

اس لیے کہ اس ماہ کی نسبت بھی  اللہ پاک کی طرف ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : رجب شھر اللہ وشعبان شھری و رمضان شھر امتی ۔
ترجمہ : رجب اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے اور شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے ۔ (جامع الاحادیث جلد ۴ صفحہ ۴۰۹،چشتی)
 
ایک اور حدیث پاک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : فضل شهر رجب على الشهور كفضل القرآن على سائر الكلام ۔
ترجمہ : رجب کی فضیلت باقی مہینوں پر ایسی ہے جیسی قرآن پاک کی فضیلت باقی تمام کلاموں(صحیفوں) پر ہے ۔ (مقاصد الحسنہ صفحہ نمبر ۳۰۶،چشتی)

حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ نے الغنیۃ لطالبی طریق الحق میں اپنی سند کے ساتھ احادیث شریفہ روایت کی ہیں : عن ابي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلي الله عليه و آلہ وسلم قال من صام يوم السابع و العشرين من رجب کتب له ثواب صيام ستين شهرا ۔
ترجمہ : سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں  آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس شخص نے ستائیسویں  رجب کا روزہ رکھا اس کے لئے ساٹھ(60) مہینے روزہ رکھنے کا ثواب ہے ۔ (الغنیۃ لطالبی طریق الحق جلد 1 صفحہ 182)

عن ابي هريرة و سلمان  رضي الله عنهما قالا قال رسول الله صلي الله عليه و آلہ وسلم إن في رجب يوما و ليلة من صام ذلک اليوم و قام تلک الليلة کان له من الأجر کمن صام مائة سنة و قام لياليها ۔
ترجمہ : سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ و سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ رجب میں ایک ایسا دن اور ایسی رات ہے جو شخص اس دن روزہ رکھتا ہے اور اس رات قیام (نماز کا اہتمام) کرتا ہے اس کےلیے اس شخص کے برابر ثواب ہے جس نے سو سال روزہ رکھا اور سو سال کی راتیں  عبادت میں گزاری ۔ پھر آپ نے اس حدیث پاک کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا : وهي لثلاثة يبقين من رجب ۔ ترجمہ : وہ رجب کی ستائیسویں تاریخ ہے ۔ (الغنیۃ لطالبی طریق الحق جلد 1 صفحہ 182,183،چشتی)

رجب المرجب کے مہینے میں روزے رکھنا بہت بڑا ثواب ہے ، جیسا کہ اس بارے میں فرمانِ مصطفےٰ  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہے کہ : رجب اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے جس نے رجب کا ایک روزہ رکھا اس نے اپنے لیے اللہ تعالیٰ کی رضا کو واجب کر لیا ۔ (مکاشفۃ القلوب صفحہ ۶۰۳)

اِسی طرح ایک اور مقام پہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : رجب شهرعظيم يضاعف الله فيه الحسنات فمن صام يوما من رجب فكانما صام سنة ومن صام منه سبعة أيام غلقت عنه سبعة أبواب جهنم ومن صام منه ثمانية أيام فتحت له ثمانية أبواب الجنة ومن صام منه عشرة أيام لم يسال الله شيئا إلا أعطاه إياه ومن صام منه خمسة عشريوما نادى مناد في السماء قد غفر لك ما مضى فاستانف العمل ومن زاد زاده الله عزوجل ۔
ترجمہ : رجب ایک عظیم الشان مہینہ ہے اس میں اللہ تعالیٰ نیکیوں کو دگنا کرتا ہے جو آدمی رجب کے ایک دن کا روزہ رکھتا ہے گویا اس نے سال بھر کے روزے رکھے اور جو شخص رجب کے سات (۷) دن کے روزے رکھے تو اس پر دوزخ کے سات دروازے بند کیے جائیں گے جو اس کے آٹھ (۸) دن کے روزے رکھے تو اس کے لیے جنت کےآٹھ (۸) دروازے کھل جائیں گے اور جو آدمی رجب کے دس دن کے روزے رکھے تواللہ تبارک و تعالیٰ سے جس چیز کا سوال کرے گا وہ اسے دے گا اور جو رجب کے پندرہ دن روزے رکھےتو آسمان سے ایک منادی پکارے گا کہ تیرے گزشتہ گناہ معاف ہو گئے پس نئے سرے سے عمل کر   اور جو آدمی زیادہ روزے رکھے گا اسے اللہ تبارک و تعالیٰ زیادہ دے گا ۔ (جامع الاحادیث جلد ۴ صفحہ ۴۰۹)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتےہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : من صام يوم سبع وعشرين من رجب كتب الله له صيام ستين شهرا ۔
ترجمہ : جو شخص رجب کی ستائیسویں (۲۷) تاریخ کو روزہ رکھے گا اللہ تعالیٰ اسے ساٹھ (۶۰)مہینوں کے روزوں کا ثواب عطا فرمائےگا ۔ (احیاء علوم الدین جلد ۱ صفحہ ۵۰۹،چشتی)

رجب المرجب شریف کی ستائیسویں (۲۷) شب کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم علِم بیداری میں اور جسم انور کے ساتھ مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک اور پھر وہاں سے آسمانوں پرآسمانوں سے بھی اوپر سدرۃ المنتہی تک اور پھر سدرۃ المنتہی سے بھی آگے وہاں تشریف لے گئے جہاں کسی کا وہم و گمان بھی نہیں جا سکتا توایسی رات جس کو یہ شرف حاصل ہو کہ اس میں سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو معراج ہوئی ہو اس میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے محبوبِ پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خصائص نعم (نعمتوں) سے نوازا ہو اوراپنے دیدار کی نعمت کبرٰی سے سرفراز کیا ہو وہ رات کتنی افضل و بزرگ ہوگی ! تو اسی شب کے بارے میں حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : للعامل في هذه الليلة حسنات مائة سنة ‘‘فمن صلى في هذه الليلة اثنتي عشرة ركعة يقرأ في كل ركعة فاتحة الكتاب وسورة من القرآن ويتشهد في كل ركعتين ويسلم في آخرهن ثم يقول ’’سبحان الله والحمد لله ولا إله إلا الله والله أكبر مائة مرة ثم يستغفر الله مائة مرة ويصلي على النبي صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مائة مرة ويدعو لنفسه بما شاء من أمر دنياه وآخرته ويصبح صائماً فإن الله يستجيب دعاءه كله إلا أن يدعو في معصية ۔
ترجمہ : رجب کی ستائیسویں (۲۷) رات میں عبادت کرنے والوں کو سو (۱۰۰) سال کی عبادت کا ثواب ملتا ہے جواس رات میں بارہ (۱۲) رکعت نماز اس طرح پڑھے کہ ہر رکعت میں سورۃ فاتح پڑھ کر قرآن کریم کی کوئی سورۃ پڑھے اور دو رکعت پر تشہد (التحیات للہ آخر تک) پڑھ کر (بعد درود) سلام پھیرے اوربارہ (۱۲) رکعتیں پڑھنے کے بعد سو (۱۰۰) مرتبہ یہ تسبیح پڑھے ’’سبحان اللہ والحمد اللہ ولاالہ الااللہ واللہ اکبر‘‘ ۔ پھر سو (۱۰۰) مرتبہ استغفراللہ اور سو (۱۰۰) مرتبہ درود شریف پڑھے تو دنیا و آخرت کے امور کے متعلق جو چاہے دعا کرے اور صبح میں روزہ رکھے تو یقیناً اللہ تعالیٰ اس کی تمام دعاؤں کو قبول فرمائے گا مگر یہ کہ وہ کوئی ایسی دعا نہ کرے جو گناہ میں شمار ہوتی ہو کیونکہ ایسی دعا قبول نہ ہوگی ۔ (احیاءعلوم الدین جلد ۱ صفحہ ۵۰۸،چشتی)

شعب الایمان للبیہقی‘ فضائل الاوقات للبیہقی‘ جامع الأحادیث للسیوطی‘ تفسیر در منثور‘ کنز العمال اور ماثبت بالسنۃ میں حدیث مبارک ہے : عن أنس ، عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، أنہ قال فی رجب لیلۃ یکتب للعامل فیہا حسنات مائۃ سنۃ وذلک لثلاث بقین من رجب فمن صلی فیہا اثنتی عشرۃ رکعۃ یقرأ فی کل رکعۃ فاتحۃ الکتاب وسورۃ من القرآن یتشہد فی کل رکعتین ، ویسلم فی آخرہن ، ثم یقول سبحان اللہ والحمد للہ ولا إلہ إلا اللہ واللہ أکبر مائۃ مرۃ ویستغفر اللہ مائۃ مرۃ ، ویصلی علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم مائۃ مرۃ ، ویدعو لنفسہ ما شاء من أمر دنیاہ وآخرتہ ، ویصبح صائما فإن اللہ یستجیب دعاء ہ کلہ إلا أن یدعو فی معصیۃ- ترجمہ : سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ماہ رجب میں ایک ایسی رات ہے جس میں عمل کرنے والے کے حق میں سو 100 سال کی نیکیاں لکھی جاتی ہیں ،اور وہ رجب کی ستائیسویں شب(شب معراج) ہے ،تو جو شخص اس رات بارہ رکعات پڑھتا ہے ، اس طرح کہ ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ اور قرآن کریم کی کسی سورت کی تلاوت کرے،ہردورکعت کے بعدقعدہ کرے‘اخیرمیں سلام پھیرے۔ پھر نمازسے فارغ ہونے کے بعدسو100 مرتبہ " سُبْحَانَ اللَّہِ ، وَالْحَمْدُ لِلَّہِ ،وَلاَ إِلَہَ إِلاَّ اللّٰہُ ، وَاللّٰہُ أَکْبَر"، سو100 مرتبہ " استغفار " ، سو100 مرتبہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر درود شریف بھیجے، اور اپنے حق میں دنیا اور آخرت کی بھلائی سے متعلق جو چاہے دعا کرے اور صبح روزہ رکھے تو یقینا اللہ تعالی اس کی تمام دعائیں قبول فرمائے گا البتہ کسی نافرمانی والے کام میں دعاء کرے(تو یہ دعاء مقبول نہ ہوگی)۔(فضائل الاوقات للبیہقی،باب فی فضل شہر رجب،حدیث نمبر:12)(شعب الایمان للبیہقی،باب فی الصیام،تخصیص شہر رجب بالذکر،حدیث نمبر:3651)(کنز العمال ، فضائل الازمنۃ والشہور ،حدیث نمبر:35170،چشتی)(ماثبت بالسنۃ ،ص 70)(جامع الأحادیث للسیوطی، حرف الفاء ، حدیث نمبر: 14812)(الجامع الکبیر للسیوطی، حرف الفاء ، حدیث نمبر :171)(تفسیر در منثور،زیر آیت سورۂ توبہ ،36)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ : وَمَا تَقَرَّبَ إِلَىَّ عَبْدِى بِشَىْءٍ أَحَبَّ إِلَىَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَيْهِ، وَمَا يَزَالُ عَبْدِى يَتَقَرَّبُ إِلَىَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ ، فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِى يَسْمَعُ بِهِ ، وَبَصَرَهُ الَّذِى يُبْصِرُ بِهِ ، وَيَدَهُ الَّتِى يَبْطُشُ بِهَا وَرِجْلَهُ الَّتِى يَمْشِى بِهَا ، وَإِنْ سَأَلَنِى لأُعْطِيَنَّهُ ۔
ترجمہ :  اور میرا بندہ کسی ایسی عبادت سے میرا قر ب حاصل نہیں کرتا جو مجھے ان عبادات سے زیادہ پسندیدہ ہو جو مَیں نے اس پر فرض کی اور میرا بندہ نوافل کے ساتھ مسلسل میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے ۔ حتیٰ کہ میں اس سے محبت کرتا ہوں ، پس جب میں اس سے محبت کرتا ہوں ، تو میں اس کے وہ کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سُنتاہے ، میں اس کی وہ آنکھ ہو جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے ، مَیں اس کے وہ ہاتھ ہو جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے ، مَیں اس کے وہ پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے ، اور جب وہ مجھ سے سوال کرتا ہے تو مَیں ضرور اسے عطا کرتا ہوں ۔ (صحیح بخاری صفحہ ۱۵۹۷،چشتی)

حضرت حمید بن عبد الرحمٰن رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ : قال صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم افضل الصلاۃ بعد الفریضۃ قیام اللیل ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ فرائض کے بعد افضل ترین نماز رات کی نماز ہے ۔ (سنن النسائی جلد ۳ صفحہ ۱۴۵)

مزید  نوافل کی اہمیت  کے بارے میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ان اول ما یحاسب بہ العبد یوم القیامۃ صلاتہ فان و جدت تامۃ کتبت تامۃو ان کان انتقص منھا شیئی قال انظر و اھل تجدون لہ من تطوع یکمل لہ ما ضیع من فریضۃ من تطوعۃ ثم سائر الاعمال تجری علی حسب ذلک ۔
ترجمہ : قیامت کے دن سب سے پہلے بندے سے اس کی نمازوں کا حساب لیا جائے گا اگر وہ پوری پائی گئیں تو پوری لکھ لی جائیں گی اور اگر ان میں کچھ کمی پائی گئی تو اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا دیکھو کیا اس کے پاس کچھ نوافل بھی ہیں؟چنانچہ فرض نمازوں کی کمی نوافل سے پوری کی جائیگی، اسی طرح سارے اعمال  کے بارے میں ہوگا ۔ (سنن نسائی صفحہ نمبر ۳۴۶،چشتی)

ابن المنکدر رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ دنیاکی صرف تین (۳)  لذتیں باقی رہنے والی ہیں : 1 ۔ رات کو جاگنے والے کی لذت ۔ 2 ۔ بھائیوں سے ملاقات کی لذت ۔ 3 باجماعت نماز ادا کرنے کی لذت ۔

بعض عارف باللہ فرماتے ہیں کہ سحر کے وقت اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے قلوب کی طرف توجہ فرماتا ہے جنہوں نے تمام رات عبادت کی اور انہیں نور سے بھر دیتا ہے ۔ پھر ان پاک باز بندوں کا نور غافلوں کے دلوں پر منتقل ہوجاتا ہے ۔ بعض پہلے  علماء میں کسی عالم نے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشادنقل کیا ہے کہ میرے کچھ بندے ایسے ہیں جنہیں مَیں محبوب رکھتا ہوں اور وہ مجھ سے محبت کرتے ہیں وہ میرے مشتاق ہیں مَیں ان کا مشتاق ہوں، وہ میرا ذکر کرتے ہیں اور مَیں ان کا ذکر کرتا ہوں،وہ میری طرف دیکھتے ہیں اور مَیں ان کی طرف دیکھتا ہوں ، اگر تو ان کے طریقے کے مطابق عمل کرے گا تو مَیں تجھ کو دوست رکھوں گا اور اگر تو ان سے انحراف کرے گا تو مَیں تجھ سے ناراض رہوں گا، ان بندوں کی علامت یہ ہے کہ وہ دن کو اس طرح سایہ پر نظر رکھتے ہیں جس طرح چرواہا اپنی بکریوں پر نظر رکھتا ہے اور غروبِ آفتاب کے بعداس طرح رات کے دامن میں پناہ لیتے ہیں جس طرح پرندے اپنے گھونسلوں میں چھپ جاتے ہیں ۔ پھر جب رات کا اندھیرا چھا جاتا ہے تو حبیب اپنے محبوب کے ساتھ خلوت میں چلے جاتے ہیں تو وہ میرے لیے کھڑے ہوجاتے ہیں اور میری خاطر اپنے چہرے زمین پر رکھتے ہیں مجھ سے مناجات کرتے ہیں ، میرے انعامات کا تذکرہ کرتے ہیں ، اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں ، کوئی روتا ہے ، کوئی چیختا ہے ، کوئی آہ بھرتا ہے وہ لوگ جس قدر مشقت برداشت کرتے ہیں وہ میری نگاہوں کے سامنے ہیں ۔ میری محبت میں وہ جو  کچھ شکوے شکایت کرتے ہیں مَیں ان سے واقف ہوں ، میرا ان لوگوں پر سب سے بڑا انعام یہ ہے کہ مَیں اپنا کچھ نور ان کے دلوں میں ڈال دیتا ہوں ۔ دوسرا انعام یہ کہ اگر ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں، ان نیک بندوں کے مقابلے میں لائی جائیں تو مَیں انہیں (یعنی اپنے بندوں کو ) ترجیح دوں ۔ تیسرا انعام یہ ہے کہ مَیں اپنے چہرے سے ان کی طرف متوجہ ہوتا ہوں کہ جن لوگوں کی طرف مَیں اس طرح متوجہ ہوتا ہوں انہیں کیا دینا چاہتا ہوں ؟ مالک ابن دینار رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب بندہ رات کو اُٹھ کر تہجد پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے قریب آجاتے ہیں ۔ ان قدسی صفت انسانوں کے دلوں میں سوز و گداز اور رقت کی یہ کیفیت اس لیے پیدا ہوتی تھی کہ انہیں باری تعالیٰ کا قرب میسر تھا ۔ (احیاء علوم الدین جلد ۱ صفحہ ۵۰۵)

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : إن من الليل ساعة لا يوافقها عبد مسلم يسأل الله خيرا إلا أعطاه إياه ۔
ترجمہ : رات میں ایک گھڑی ایسی ہوتی ہے کہ اگر کوئی مسلمان بندہ اسے پاتا ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ سے خیر کی درخواست کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے عطا فرماتا ہے ۔ (مسلم شریف صفحہ نمبر ۳۵۰)

یعنی تمام رات کی عبادت کا مقصد صرف اور صرف اس گھڑی کا پانا ہے کہ جس میں اللہ تعالیٰ تمام دعاؤں کو قبول  فرماتا ہے ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کی پاک بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو رات کی اُس گھڑی میں عبادت کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔

شب معراج منانا اور اس میں ذکر معراج کا اہتمام کرنا بدعت ہے کا جواب

منکرین کا اعتراض اور اس کا جواب : علماء نے لکھا ہے کہ لیلۃ الاسراء میں کسی عمل کی ارجحیت کے بارے میں کوئی حدیث وارد نہیں ہوئی۔ اسی واسطے نہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے صحابہ کےلیے اسی رات کو مقرر فرمایا ۔ نہ صحابہ کرام نے اسے کسی عبادت کےلیے معین کیا ۔ لہٰذا شب معراج منانا اور اس میں ذکر معراج کا اہتمام کرنا بدعت ہے ۔ اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یا ان کے بعد کسی زمانہ میں اس رات میں ذکر معراج کے اہتمام کا رواج ہوتا تو اس مہینہ اور تاریخ میں اتنا شدید اختلاف نہ ہوتا ۔ اختلافِ اقوال اس امر کی روشن دلیل ہے کہ بزرگان سلف کے نزدیک شب معراج کی کوئی اہمیت نہ تھی ۔

اس کے جواب میں عرض ہے کہ اگر معترض کی مراد یہ ہے کہ شب معراج میں خصوصیت کے ساتھ نیکی اور عبادت کا مشروع ہونا کسی حدیث میں مشروع نہیں ہوا تو ہمیں اس سے اختلاف نہیں لیکن اس سے یہ کہاں ثابت ہوا کہ شب معراج میں معراج کا اہتمام بھی ناجائز اور بدعت ہے ۔ ارشادِ خداوندی ’’وَذَکِّرْہُمْ بِاَیَّامِ اللّٰہِ‘‘ اور ’’وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّث‘‘ اس امر کی روشن دلیل ہے کہ جن دنوں میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے خاص اور اہم واقعات رونما ہوئے ہیں ۔ ان کو یاد دلانا عین منشاء قرآن کے مطابق ہے ۔

نیز اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا ذکر ارشادِ خداوندی کی تکمیل ہے۔ واقعہ معراج سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی شان قدرت کے ظہور کا اور کون سا واقعہ ہو گا ؟ اور شب معراج اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وسیلہ سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی امت کو عطا فرمائیں ان کا انکار کون کر سکتا ہے ؟ پھر اس رات کی یاد دہانی ، اس کا ذکر اور بیان ہماری پیش کردہ آیاتِ قرآنیہ کی روشنی میں کیونکر بدعت قرار پا سکتا ہے ؟ رہا یہ امر کہ سلف میں اس کا رواج نہ تھا تو اس کا جواب یہ ہے کہ عدم نقل عدم وجود کو مستلزم نہیں ۔ اس لیے محض منقول نہ ہونے سے اس کا عدم ثابت نہیں ہوتا اور ہمارے لیے اتنا کافی ہے کہ اس کی ممانعت کسی دلیل شرعی سے ثابت نہیں اور اس میں ایسا کوئی کام شامل نہیں جس پر شرع مطہرہ میں نہی وارد ہوئی ہو ۔ اس کی دلیل خلافت صدیقی میں قرآن مجید کا جمع کیا جانا ہے جس کے متعلق حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا تھا ’’کیف تفعل شیئا لم یفعلہ‘‘ رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پھر حضرت زید بن ثابت نے صدیق و فاروق رضی اللہ عنہما دونوں سے عرض کیا ’’کیف تفعلون شیئا لم یفعلہُ رسول اللّٰہ ‘‘ (آپ وہ کام کیسے کریں گے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے نہیں کیا ؟) فاروقِ اعظم نے صدیق اکبر کو پھر صدیق اکبر نے زید بن ثابت انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو یہی جواب دیا ’’ہو واللّٰہ خیر‘‘ (بے شک حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے نہیں کیا لیکن) خدا کی قسم وہ خیر ہے ۔ (بخاری شریف جلد ۲ صفحہ ۷۴۵،چشتی)

معلوم ہوا کہ جس کام سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے منع نہ فرمایا ہو اور اس میں خیر کا پہلو پایا جائے تو وہ بظاہر بدعت معلوم ہوتا ہے لیکن بباطن حسن اور خیر ہے۔ لہٰذا اگر بفرض محال یہ ثابت بھی ہو جائے کہ سلف صالحین میں شب معراج کے اہتمام کا رواج نہ تھا تب بھی اس اہتمام اور ذکر معراج کو بدعت اور ناجائز نہیں کہہ سکتے تاوقتیکہ اس اہتمام میں کوئی ایسا عمل نہ کیا جائے جو شرعاً ممنوع ہو۔ اور ہم آیاتِ قرآنیہ کی روشنی میں واضح کر چکے ہیں کہ ایام اللہ کا یاد دلانا اور نعمائے الٰہیہ کا بیان منشاء قرآن کے عین مطابق ہے ۔ لہٰذا شب معراج منانا اور اس میں واقعاتِ معراج بیان کرنا جائز، مستحب اور باعث رحمت و برکت ہے ۔ اس کا انکار وہی شخص کر سکتا ہے جس کے دل میں صاحب معراج صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی دشمنی اور عداوت ہو ۔ نعوذ باللّٰہ من ذٰلک ۔
رہا یہ امر کہ شب معراج کے بارے میں اختلافِ اقوال اس امر کی دلیل ہے کہ سلف کے نزدیک اس کی کوئی اہمیت نہ تھی ورنہ اختلاف نہ ہوتا ۔

تو اس کے متعلق عرض کروں گا کہ اگر دن، تاریخ اور مہینہ کے اختلاف کو اس بات کی دلیل مان لیا جائے کہ سلف کے نزدیک اس رات کی کوئی اہمیت نہ تھی، نہ ان کے زمانے میں اس کے منانے کا کوئی رواج تھا تو سنہ معراج کا اختلاف اس بات کی دلیل بن جائے گا کہ معراج سرے سے واقع ہی نہیں ہوئی۔ اگر ہوتی تو اس کے سنہ میں اختلاف نہ ہوتا۔ ہمارے نزدیک سنہ معراج کا اختلاف اس بات کی روشن دلیل ہے کہ معراج کے دن، تاریخ اور مہینہ کے بارے میں اختلافِ اقوال محض اختلافِ روایات پر مبنی ہے۔ بیانِ معراج کے اہتمام اور شب معراج کی اہمیت سے اس کو متعلق کرنا درست نہیں۔ کیونکہ دن، تاریخ اور مہینہ کو شب معراج منانے اور بیانِ معراج کے اہتمام میں دخل ہو سکتا ہے لیکن سنہ معراج اس اہتمام سے بالکل غیر متعلق ہے لیکن اس کے باوجود بھی اس میں اختلافِ شدید موجود ہے۔ معلوم ہوا کہ اختلافِ اقوال کو شب معراج منانے اور اس کے اہتمام سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر بقول معترض ہم اس بات کو تسلیم کر لیں کہ اختلافِ اقوال اسی وجہ سے ہے کہ سلف کے زمانے میں شب معراج منانے کا کوئی رواج نہ تھا اور ان کے نزدیک شب معراج کی کوئی اہمیت نہیں تھی تو میں دریافت کروں گا کہ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ و دیگر عبادات و اکثر و بیشتر معاملات میں سلف کے درمیان شدید اختلافات واقع ہوئے۔ مثلاً نماز میں رفع یدین، اٰمین بالجہر، قرأت خلف الامام، رکعت وتر، تعداد تراویح، تعین یوم عاشورہ، تکبیراتِ عیدین وغیرہ بے شمار مسائل میں صحابہ کرام، تابعین مجتہدین کے درمیان اختلاف اقوال کسی سے مخفی نہیں تو کیا اس اختلاف اقوال کی بنا پر یہ کہنا صحیح ہو گا کہ سلف صالحین کے زمانہ میں روزہ نماز وغیرہ کا کوئی رواج نہ تھا اور ان کے نزدیک ان فرائض و واجبات اور امورِ مسنونہ و اعمال حسنہ کی کوئی اہمیت نہ تھی۔ کوئی ذی ہوش ایسی بات کی جرأت نہ کر سکے گا۔ معلوم ہوا کہ اختلافِ اقوال عدم رواج یا عدم اہتمام کی وجہ سے نہیں بلکہ اختلافِ روایات کی وجہ سے ہے ۔

دیارِ عرب میں رجبی شریف

روح البیان اور ماثبت بالسنۃ کی عبارت سے واضح ہے کہ لوگوں میں شب معراج منانے کا دستور تھا۔ بالخصوص دیارِ عرب کے باشندے اس مبارک رات کی عظمت و اہمیت کے قائل تھے۔ دیکھئے روح البیان میں ہے : وہی لیلۃ سبع وعشرین من رجب لیلۃ الاثنین وعلیہ عمل الناس ۔ (تفسیر روح البیان جلد ۵ صفحہ  ۱۰۳)
ترجمہ : شب معراج رجب کی ۲۷ تاریخ ہے اور اسی پر لوگوں کا عمل ہے ۔

معلوم ہوا کہ لوگ اس رات کچھ نہ کچھ کرتے تھے اور ماثبت بالسنۃ میں ہے : ’’اعلم انہٗ قد اشتہر بدیار العرب فیما بین الناس ان معراجہٗ ا بسبع وعشرین من رجب وموسم الرجبیۃ فیہ متعارف بینہم ۔ الخ
ترجمہ : جاننا چاہئے کہ دیارِ عرب میں لوگوں کے درمیان مشہور ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی معراج شریف ۲۷؍ رجب کو ہوئی اور رجبی کا موسم عرب میں اہل عرب کے درمیان مشہور و متعارف ہے ۔ (ماثبت بالسنۃ صفحہ ۱۹۱)

الحمد للّٰہ : رجبی شریف کے منانے کو بدعت کہنے والوں کا قول باطل ہو گیا اور حق کی وضاحت ہو گئی الحَمْدُ ِلله ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔