Monday, 27 February 2023

فضائل و مناقب حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ حصّہ نمبر 12

فضائل و مناقب حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ حصّہ نمبر 12

یزید کی بیعت نہ کرنے کے دُوررَس اَثرات : امامِ حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اللہ نے نہ صِرف خوفِ خدا ، تقویٰ و پرہیز گاری ، جرأت و بہادری اور حِلم و بُرْدباری جیسے عظیم اَوصاف سے نوازا تھا بلکہ فِراست ، تَدَبُّر اور دُور اندیشی جیسی اعلیٰ صلاحیتیں بھی عطا فرمائی تھیں ۔ آپ رضی اللہ عنہ کا یزید کی بیعت نہ کرنا آپ کی فِراست اوردور اندیشی پر دلالت کرتا ہے ، جس کے یہ  اَثرات ظاہر ہوئے : ⬇

حق وباطل میں فرق

امامِ حسین رضی اللہ عنہ نے یزید کی بیعت نہ کر کے تاقیامت حق و باطل میں فرق کردیا ۔

نااہل کو مَنْصَب دینے کی مُمانَعَت

آپ کے بیعت نہ کرنے  سے دنیا پر واضح ہو گیا کہ نااہل کو کبھی کوئی منصب نہ دیا جائے اور اگر بالفرض وہ زبردستی کسی عُہدے کو حاصل کرلے تو اہلِ عزیمت کو چاہیے کہ ہرگز اُس کی اِطاعت نہ کریں ۔ فسق و فجورکا دروازہ بند کر دیا : اگر آپ یزید کی بیعت کرلیتے تو اس کی ہربدکاری کے جواز کےلیے آپ کی بیعت سند (یعنی دلیل) ہو جاتی اور شریعتِ اِسلامیہ وملّتِ حنیفہ کا نقشہ مٹ جاتا ۔

نظامِ اِسلام کا تَحَفُّظ

اگرآپ یزید کی بیعت کرلیتے تو یزید آپ کی بہت قدر و منزلت کرتا ، خوب مال و دولت نچھاور کرتا لیکن اِسلام کا نظام درہم برہم ہو جاتا اور ایسا فساد برپا ہوتا جسے بعد میں دور کرنا دُشوار ترین ہوتا ۔

اَحکامِ شرعیَّہ میں برابری

آپ کا یزید کی بیعت نہ کرنا اس کے فِسق و فجور کو واضح کرتا اور اس بات کو پختہ کرتا ہے کہ اَحکامِ شرعیہ ایک عام آدمی و حاکم سب کےلیے برابر ہیں ، جس طرح عام شخص کا فِسق و فجور سے بچنا ضَروری ہے اسی طرح  حاکم کابھی ۔

اِسلامی ریاست کا تَحَفُّظ

امامِ حسین رضی اللہ عنہ نے اپنی فراست سے جان لیا تھا کہ یزید بیعت کے بعد اِسلامی ریاست کا کیا حال کرے گا اسی لیے آپ نے بیعت نہ کی ، آپ کی شہادت کے بعد یزیدی فوجوں نے مدینۂ منورہ پر لشکرکشی کی ، سینکڑوں صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان کو شہید کیا ، مسجدِ نبوی شریف کے ستون سے گھوڑے باندھے ، تین دن تک مسجد میں لوگ نماز سے مشرَّف نہ ہوسکے ، مدینہ میں خوب لوٹ مار کی گئی ۔ (وفاء الوفا جلد 1 صفحہ 134،چشتی)

مکّۂ مکرّمہ پر چڑھائی کی گئی ، پتھر برسائے گئے حتی کہ مسجدُ الحرام کا صحن پتھروں سے بھر گیا ، کعبۃُ اللہ کے غلاف اور چھت کو ان بےدینوں نے جلا دیا اور کعبۃُ اللہ کی بےحرمتی کی ۔ (تاریخ الخلفاء صفحہ 167)(سوانح کربلا، صفحہ 178)

قیامِ اَمْن اور رعایا کے حقوق

قیامِ اَمْن اور رعایا کے حقوق پورے کرنا حاکم کی ذمّہ داریوں میں سے اہم ترین ذمّہ داری ہوتی ہے لیکن یزید اور اس کے حواری (ساتھی) قیامِ اَمْن اور رعایا کے حقوق پورے کرنے کے مخالف تھے ، امام ِحسین رضی اللہ عنہ نے اس کی بیعت نہ کر کے پوری دنیا کو قیامِ امن اور رعایا کے حقوق پورے کرنے کا پیغام دیا ۔

قربانی کا درس

امامِ حسین رضی اللہ عنہ  نے اپنی اور اپنے احباب کی جانوں کا نذرانہ راہِ خدا میں پیش کر کے امّتِ مسلمہ کو حق پر قائم رہنے اور ظلم کے سامنے سر نہ جھکانے کا نہ صرف درس (Lesson) دیا بلکہ یہ بھی بتایا کہ دینِ اسلام کی خاطر اپنی جان تک قربان کرنے سے پیچھے نہ ہٹا جائے ۔ راہ ِخدا میں اپنا گھر بار بیوی بچے مال و دولت سب کچھ لُٹانے  کے سبب امامِ حسین رضی اللہ عنہ  اور آپ کے اصحاب کا نام اب تک عزّت و عَظَمت کے ساتھ لیا جاتا ہے اور آئندہ بھی لیا جاتا رہے گا جبکہ یزید اور یزیدیوں کی اب تک مذمت وملامت ہوتی آئی ہے اور تاقیامت اس کا نام تحقیر سے لیا جاتا رہے گا ۔

کرامات امام حسین رضی اللہ عنہ

اللہ عزوجل نے جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کثیر معجزات سے نوازا بلکہ معجزہ بنا کر بھیجا اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نواسے امام حسین رضی اللہ عنہ کو بھی بے شمار کرامات سے نوازا تھا جن کا ظہور میدانِ کربلا میں بھی ہوا ۔ جہاں آپ رضی اللہ عنہ 50 سال سے زائد عمر ہونے کے باوجود شجاعت و بہادری کے ساتھ میدانِ کربلا میں دشمنانِ اہلِ بیت سے جنگ کرتے رہے وہیں آپ رضی اللہ عنہ سے مختلف کرامات ظاہر ہوئیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں : ⬇

ولادتِ با کرامت

حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہم اجمعین سراپا کرامت تھے حتی کہ آپ کی ولاد با سعادت بھی با کرامت ہے۔ حضرت سیدی عارف باللہ نورُ الدّین جامی قدس سرہ السامی "شواہد النبوۃ" میں فرماتے ہیں سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی ولادت با سعادت چار شعبان المعظم ۴؁ ھ کو مدینۃ المنورۃ زادھا اللہ شرفا و تعظیما میں منگل کے دن ہوئی۔ منقول ہے کہ امامِ پاک رضی اللہ عنہ کی مدت حمل چھے ماہ ہے۔ حضرت سیدنا یحیٰ علی نبینا و علیہ الصلوۃ و السلام اور امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ عنہ کے علاوہ کوئی ایسا بچہ زندہ نہ رہا جس کی مدت حمل چھے ماہ ہوئی ہو ۔ (شواہد النبوۃ صفحہ ۲۲۸، مکتبۃ الحقیقۃ ترکی)​

رُخسار سے انوار کا اظہار

حضرت علامہ جامی قدس سرہ السامی مزید فرماتے ہیں حضرت امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ عنہ کی شان یہ تھی کہ جب اندھیرے میں تشریف فرما ہوتے تو اآپ رضی اللہ عنہ کی مبارک پیشانی اور دونوں مقدس رخسار سے انوار نکلتے اور قرب و جوار ضیا بار (یعنی روشن) ہو جاتے ۔ (شواہد النبوۃ صفحہ ۲۲۸)

کنویں کا پانی اُبل پڑا

حضرتِ سیدنا امامِ عالی مقام امامِ حُسین رضی اللہ عنہ جب مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ (زادھما اللہ شرفا و تعظیما) کی طرف روانہ ہوئے تو راستے میں حضرت سیدنا ابنِ مُطیع علیہ رحمۃ اللہ البدیع سے ملاقات ہوئی۔ اُنہوں نے عرض کی میرے کنویں میں پانی بہت ہی کم ہے، برائے کرم ! دُعائے بَرَکت سے نواز دیجیے ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اُس کنویں کا پانی طلب فرمایا ۔ جب پانی کا ڈول حاضر کیا گیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے منہ لگا کر اُس میں سے پانی نوش کیا اور کُلّی کی ۔ پھر ڈول کو واپَس کنویں میں ڈال دیا تو کنویں کا پانی کافی بڑھ بھی گیا اور پہلے سے زیادہ میٹھا اور لذیذ بھی ہو گیا ۔ (الطبقات الکبریٰ جلد نمبر ۵ صفحہ نمبر ۱۱۰ دار الکتب العلمیۃ بیروت،چشتی)

گھوڑے نے بد لگام کو آگ میں ڈال دیا

حضرتِ سیدُنا امامِ حُسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ یومِ عاشُورا یعنی بروز جُمُعَۃُ المبارَک ۱۰ مُحَرَّمُ الحرام ۶۱؁ھ کو یزیدیوں پر اِتمامِ حُجّت کرنے کےلیے جس وَقت میدانِ کربلا میں خطبہ ارشاد فرما رہے تھے اُس وقت آپ رضی اللہ عنہ کے مظلوم قافلے کے خیموں کی حفاظت کےلیے خندق میں روشن کردہ آگ کی طرف دیکھ کر ایک بد زبان یزیدی (مالک بن عُروہ) اِس طرح بکواس کرنے لگا ، ’’ اے حسین ! تم نے وہاں کی آگ سے پہلے یہیں آگ لگا دی ! ‘‘ حضرت سیدنا امامِ عالی مقام رضی اللہ عنہ نے فرمایا : کَذَبتَ یا عَدُوَّ اللہ یعنی اے دشمنِ خدا ! تو جھوٹا ہے ، کیا تجھے یہ گمان ہے کہ معاذ اللہ عزوجل میں دوزخ میں جاؤں گا ! ‘‘ امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کے قافلے کے ایک جاں نثار جوان حضرت سیدنا مسلم بن عوسجہ رضی اللہ عنہ نے حضرت امام عالی مقام رضی اللہ عنہ سے اُس منہ پھٹ بدلگام کے منہ پر تیر مارنے کی اجازت طلب کی ۔ حضرت امام علی مقام رضی اللہ عنہ نے یہ فرما کر اجازت دینے سے انکار کیا کہ ہماری طرف سے حملے کا آغاز نہیں ہونا چاہیے ۔ پھر امامِ تِشنہ کام رضی اللہ عنہ نے دستِ دُعا بلند کر کے عرض کی : اے ربِ قہار! عزوجل اس نابَکار کو عذابِ نار سے قبل بھی اس دنیائے ناپائیدار میں آگے کے عذاب میں مبتلا فرما ۔ فوراً دعا مستجاب (قبول) ہوئی اور اُس کے گھوڑے کا پاؤۢں زمین کے ایک سوراخ پر پڑا جس سے گھوڑے کو جھٹکا لگا اور بے ادب و گستاخ یزیدی گھوڑے سے گرا ، اُس کا پاؤۢں رَکاب میں اُلجھا ، گھوڑا اُسے گھسیٹتا ہوا دوڑا اور آگ کی خندق میں ڈال دیا ۔ اور بد نصیب آگ میں جل کر بھسم ہو گیا ۔ امامِ عالی مقام رضی اللہ عنہ نے سجدہ شکر ادا کیا ، حمد الٰہی بجا لائے اور عرض کی : یا اللہ عزوجل تیرا شکر ہے کہ تُو نے آلِ رسول کے گستاخ کو سزا دی ۔ (سوانحِ کربلا صفحہ ۸۸)

سیاہ بچھو نے ڈنک مارا

گستاخ و بدلگام یزیدی کا ہاتھوں ہاتھ بھیانک انجام دیکھ کر بھی بجائے عبرت حاصل کرنے کے اِس کو ایک اتفاقی امر سمجھتے ہوئے ایک بے باک یزیدی نے بکا: آپ کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کیا نسبت ؟ یہ سن کر قلبِ امام کو سخت ایذا پہنچی اور تڑپ کر دُعاء مانگی : "اے ربِ جبار عزوجل اِس بدگفتار کو اپنے عذاب میں گرفتار فرما ۔" دعا کا اثر ہاتھوں ہاتھ ظاہر ہوا اُس بکواسی کو ایک دم قضائے حاجت کی ضرورت پیش آئی فوراً گھوڑے س اُتر کو ایک طرف کو بھاگا اور برہنہ ہو کر بیٹھا ، ناگاہ ایک سیاہ بچھو نے ڈنک مارا نجاست آلودہ تڑپتا پھرتا تھا ، نہایت ہی ذلت کے ساتھ اپنے لشکریوں کے سامنے اِس بدزبان کی جان نکلی ۔ مگر ان سنگ دلوں اور بے شرموں کو عبرت نہ ہوئی اِس واقِعہ کو بھی ان لوگوںنے اتفاقی امر سمجھ کر نظر انداز کر دیا ۔ (سوانحِ کربلا صفحہ ۸۹)

گستاخِ حُسین پیاسا مرا

یزیدی فوج کا ایک سخت دل مُزنی شخص امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کے سامنے آ کر یوں بکنے لگا : دیکھو تو سہی دریائے فُرات کیسا موجیں مار رہا ہے ، خدا کی قسم تمہیں اس کا ایک قطرہ بھی نہ ملے گا اور تم یوں ہی پیاسے ہلاک ہو جاؤ گے ۔ امامِ تشنہ کام رضی اللہ عنہ نے بارگاہِ رب الانام عزوجل میں عرض کی ، اللہم امتہ عطشانا ۔ یعنی یا اللہ عزوجل اس کو پیاسا مار ۔ امام عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دعا مانگتے ہی اس بے حیا مزنی کا گھوڑا بدک کر دوڑا مزنی پکڑنے کےلیے اس کے پیچھے بھاگا ، پیاس کا غلبہ ہوا اس شدت کی پیاس لگی کہ العطش ! العطش ! یعنی ہائے پیاس ہائے پیاس ! پکارتا تھا مگر جب پانی اس کے منہ سے لگاتے تھے تو ایک قطرہ بھی نہ پی سکتا تھا یہاں تک کہ اسی شدت پیاس میں تڑپ تڑپ کر مر گیا ۔ (سوانح کربلا صفحہ ۹۰،چشتی)

معلوم ہوا کہ اللہ عزوجل کو امامِ پاک رضی اللہ عنہ کی بے ادبی قطعاً نامنظور ہے ۔ اور آپ رضی اللہ عنہ کا بدگو دونوں جہاں میں مردود و مطرود ہے ۔ گستاخانِ حُسین کو دنیامیں بھی دردناک سزاؤں کا سامنا ہوا اور اس میں یقیناً بڑی عبرت ہے ۔

صدرُ الافاضل حضرت علامہ مولىٰنا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الھادی بعض گستاخانِ حسین کے ہاتھوں ہاتھ ہونےوالے عبرت ناک بد انجام کے واقعات نقل کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں : فرزندِ رسول کو یہ بات بھی دکھا دینی تھی کہ اس کی مقبولیتِ بارگاہِ حق عزوجل پر اور ان کے قرب و منزلت پر جیسی کہ نصوصِ کثیرہ و احادیثِ شہیرہ شاہد ہیں ایسے ہی ان کے خوارق و کرامات بھی گواہ ہیں ۔ اپنے اس فضل کا عملی اظہار بھی اتمامِ حجت کے سلسلے کی ایک کڑی تھی کہ اگر تم آنکھ رکھتے ہو تو دیکھ لو کہ جو ایسا مستجاب الدعوات ہے اس کے مقابلہ میں آنا خدا عزوجل سے جنگ کرنا ہے ۔ اس کا انجام سوچ لو اور باز رہو مگر شرارت کے مجسمے اس سے بھی سبق نہ لے سکے اور دنیائے ناپائیدار کی حرص کا بھوت جو ان کے سروں پر سوار تھا اُس نے اِنھیں اندھا بنا دیا ۔ (سوانحِ کربلا)

نور کا ستون اور سفید پرندے
امامِ عالی مقام رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد آپ کے سرِ منورسے متعدد کرامات کا ظہور ہوا ۔ اہلِ بیت علیہم الرضوان کے قافلے کے بقیہ افراد 11 محرم الحرام کو کوفہ پہنچے جب کہ شہدائے کربلا علیہم الرضوان کے مبارک سر اُن سے ہپلے ہی وہاں پہنچ چکے تھے ۔ امامِ عالی مقام رضی اللہ عنہ کا سرِ انور رُسوائے زمانہ یزیدی بدبخت خولی بن یزید کے پاس تھا یہ مردود رات کے وقت کوفہ پہنچا ۔ قصرِ امارت (یعنی گورنر ہاؤس) کا دروازہ بند ہو چکا تھا ۔ یہ سرِ انور کو لے کر اپنے گھر آ گیا ۔ ظالم نے سرِ انور کو بے ادبی کے ساتھ زمین پر رکھ کر ایک بڑا برتن اس پر اُلٹ کر اس کو ڈھانپ دیا اور اپنی بیوی نوار کے پاس جا کر کہا میں تمہارے لیے زمانے بھر کی دولت لایا ہوں وہ دیکھ حسین بن علی کا سر تیرے گھر پڑا ہے ۔ وہ بگڑ کر بولی : تجھ پر خدا کی مار ! لوگ تو سیم و زر لائیں اور تو فرزندِ رسول کا مبارک سر لایا ہے ۔ خدا کی قسم ! اب میں تیرے ساتھ کبھی نہ رہوں گی ۔ نوار یہ کہ کر اپنے بچھونے سے اُٹھی اور جدھر سرِ انور تشریف فرما تھا اُدھر آ کر بیٹھ گئی ۔ اُس کا بیان ہے : خدا کی قسم ! میں نے دیکھا کہ ایک نور برابر آسمان سے اس برتن تک مثل ستون چمک رہا تھا ۔ اور سفید پرندے اس کے ارد گرد منڈلا رہے تھے ۔ جب صبح ہوئی تو خولی بن یزید سرِ انورکو ابنِ زیاد بدنہاد کےپاس لے گیا ۔ (الکامل فی التاریخ جلد ۳ صفحہ ۴۳۴)

خولی بن یزید کا دردناک انجام

دنیا کی محبت اور مال و زر کی وہس انسان کو اندھا اور انجام سے بے خبر کر دیتی ہے بد بخت خولی بن یزید نےدنیا ہی کی محبت کی وجہ سے مظلومِ کربلا کا سرِ انور تنسے جدا کیا تھا ۔ مگر چند ہی برس کے بعد اس دنیا ہی میں اس کا ایسا خوفناک انجام ہوا کہ کلیجہ کانپ جاتا ہے چنانچہ چند ہی برس کے بعد مختار ثقفی نے قاتلینِ امامِ حسین کے خلاف جو انتقامی کاروائی کی اس ضمن میں صدر الافاضل حضرت علامہ مولیٰنا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : مختار نے ایک حکم دیا کہ کربلا میں جو شخص لشکرِ یزید کے سپہ سالار عمرو بن سعد کا شریک تھا وہ جہاں پایا جائے مار ڈالا جائے ۔ یہ حکم سن کر کوفہ کے جفا شعار سورما بصرہ بھاگنا شروع ہوئے ۔ مختار کے لشکر نے ان کا تعاقب کیا جس کو جہاں پایا ختم کر دیا ۔ لاشیں جلا ڈالیں ، گھر لوٹ لیے ۔ خولی بن یزید وہ خبیث ہے جس نے حضرت امامِ عالی مقام سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک تنِ اقدس سے جدا کیا تھا ۔ یہ رُوسیاہ بھی گرفتار کر کے مختار کےپاس لایا گیا، مختار نے پہلےاس کے چاروں ہاتھ پیر کٹوائے پھر سُولی چڑھایا ، آخر آگ میں جھونک دیا ۔ اس طرح لشکر ابنِ سعد کے تمام اشرار کو طرح طرحکے عذابوں کے ساتھ ہلاک کیا ۔ چھے ہزار کوفی جو حضرت امامِ عالی مقام رضی اللہ عنہ کے قتل میں شریک تھے ان کو مختار نے طرح طرح کے عذابوں کےساتھ ہلاک کردیا ۔ (سوانحِ کربلا صفحہ نمبر ۱۲۲،چشتی)

نیزہ پر سرِ اقدس کی تِلاوت

حضرتِ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کا بیان ہے : جب یزیدیوں نے حضرت امامِ حسین رضی اللہ عنہ کےسرِ انور کو نیزے پر چڑھا کر کُوفہ کی گلیوں میں گشت کیا اُس وقت میں اپنے مکان کے بالا خانہ پر تھا ۔ جب سرِ مبارک میرے سامنے سے گزرا تو میں نے سنا کہ سرِ پاک نے (پارہ ۱۵ سورۃ الکہف کی آیت نمبر ۹) تلاوت فرمائی :
اَم حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحٰبَ الْکَھْفِ وَ الرَّقِیمِ کَانُوْا مِن اٰیٰتِنَا عَجَباً ۔ (پ۱۵ الکہف ۹)
ترجمہ : کیا تمہیں معلوم ہوا کہ پہاڑ کی کھوہ (غار) اور جنگل کے کنارے والے ہماری ایک عجیب نشانی تھے ۔ (شواہد النبوۃ)

اِسی طرح ایک دوسرے بُزُرگ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ جب یزیدیوں نے سرِ مبارک کو نیزہ سے اُتار کر ابنِ زیادِ بد نہاد کے محل میں داخل کیا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقدس ہونٹ ہل رہے تھے اور زبانِ اقدس پر پارہ ۱۳ سورۂ ابراہیم کی آیت نمبر ۴۲ کی تلاوت جاری تھی : وَلَا تَحْسَبَنَّ اللّٰہَ غَافِلاً عَمَّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ ۔ (پ۱۳ ابراھیم۴۲)
ترجمہ : اور ہر گز اللہ کو ب خبر نہ جاننا ظالموں کے کام سے ۔ (روضۃ الشہدا مترجم جلد ۲ صفحہ ۳۸۵)

منہال بن عمرو کہتے ہیں : واللہ میں نے بجشمِ خود دیکھا کہ جب امام حسین رضی اللہ عنہ کے سرِ انور کو لوگ نیزے پر لیے جاتے تھے اُس وقت میں دِمِشق میں تھا ۔ سرِ مبارک کے سامنے ایک شخص سورۃُ الکہف پڑھ رہا تھا جب وہ آیت نمبر ۱۵ پر پہنچا : اَنَّ اَصْحٰبَ الْکَھْفِ وَ الرَّقِیمِ کَانُوْا مِن اٰیٰتِنَا عَجَباً ۔ (پ۱۵ الکہف ۹)
ترجمہ : پہاڑ کی کھوہ (غار) اور جنگل کےکنارے والے ہماری ایک عجیب نشانی تھے ۔
اُس وقت اللہ تعالیٰ نے قوتِ گویائی بخشی تو سرِ انور نے بزبانِ فصیح فرمایا : اعجبُ من اصحابِ الکہفِ قتلی و حملی "اصحابِ کہف کے واقعہ سے میرا قتل اور میرے سر کو لیے پھرنا عجیب تر ہے"۔ (شرح الصدور صفحہ ۲۱۲)

صدر الافاضل حضرتِ علامہ مولیٰنا سید محمد نعیم الدین مراداؔٓبادی علیہ رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب سوانح کربلا میں یہ حکایت نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں : درحقیقت بات یہی ہے کہ کیونکہ اصحابِ کہف پر کافروں نے ظلم کیا تھا اور حضرتِ امامِ عالی مقام رضی اللہ عنہ کو ان کے نانا جان صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امت نے مہمان بنا کر بلایا ، پھر بیوفائی سے پانی تک بند کر دیا ! ال و اصحاب علیہم الرضوان کو حضرتِ امامِ پاک رضی اللہ عنہ کے سامنے شہید کیا ۔ پھر خود حضرتِ امامِ عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کیا ، اہلبیت کرام علیہم الرضوان کو اسیر بنایا ، سرِ مبارک کو شہر شہر پھرایا ۔ اصحابِ کہف سالہا سال کی طویل نیند کے بعد بولے یہ ضرور عجیب ہے مگر سرِ انور کا تنِ مبارک سے جدا ہونے کے بعد کلام فرمانا عجیب تر ہے ۔ (سوانحِ کربلا صفحہ ۱۱۸)

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے نوک نیزہ سے قرآن پاک کی تلاوت کرکے شاید یزیدیوں کو یہ بتانے کی کوشش کی ہوگی کہ تم ہمارا سر ہمارے بدن سے جدا تو کر سکتے ہو پر قران سے جو ہمارا رشتہ ہے وہ جدا نہیں کرسکتے اور قران کے اصل وارث ہم ہی ہیں دوسری وجہ جو علماء ارشاد فرماتے ہیں وہ یہ ہے کہ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نواسیاں بے پردہ تھیں تو لوگوں کی توجہ ان پر سے ہٹانے کےلیےآپ کے کٹے ہوئے سر نے تلاوت شروع کردی جس سے لوگ آپ کے سر کی طرف متوجہ ہو گئے ۔

خون سے لکھا ہوا شعر

یزید پلید کے ناپاک لشکری شہدائے کربلا علیہم الرضوان کے پاکیزہ سروں کے لے کر جا رہے تھے دریں اثنا ایک منزل پر ٹھہرے ۔ حضرت سیدنا شاہ عبد العزیز محدث دہلوی علیہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : وہ نبیذ یعنی کھجور کا شیرہ پینے لگے ۔ ایک اور روایت میں ہے ، و ھم یشربون الخمر یعنی وہ شراب پینے لگے ۔ اتنے میں ایک لوہے کا قلم نمودار ہوا اور اس نے خون سے یہ شعر لکھا :

اترجو امۃ قتلت حسینا
شفاعۃ جدہ یوم الحساب

ترجمہ : کیا حسین رضی اللہ عنہ کے قاتل یہ بھی امید رکھتے ہیں کہ روز قیامت ان کے نانا جان صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شفاعت پائیں گے ؟

بعض روایات میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بِعثتِ شریفہ سےتین سو برس پیش تر یہ شعر ایک پتھر پر لکھا ہوا ملا ۔ (الصواعق المحرقہ ۱۹۴)

سرِانور کی کرامت سے راھِب کا قبول اسلام

ایک راہب نصرانی نے دَیر (یعنی گرجا گھر) سے سرِ انور دیکھا تو پوچھا، بتایا ، کہا : "تم بُرے لوگ ہو ، کیا دس ہزار اشرفیاں لے کر اس پر راضی ہو سکتے ہو کہ ایک رات یہ سر میرے پاس رہے ۔" ان لالچیوں نے قبول کر لیا ۔ راہب نے سرِ مبارک دھویا ، خوشبو لگائی ، رات بھر اپنی ران پر رکھے دیکھتا رہا ایک نور بلند ہوتا پایا ، راہب نے وہ رات رو کر کاٹی ، صبح اسلام لایا اور گرجا گھر ، اس کا مال ومتاع چھوڑ کر اپنی زندگی اہلِ بیت کی خدمت میں گزار دی ۔ (الصواعق المحرقہ ۱۹۹،چشتی)

درہم و دینار ٹھیکریاں بن گئے

یزیدیوں نے لشکرِ امام عالی مقام رضی اللہ عنہ اور ان کے خیموں سے جو درہم و دینار لوٹے تھے اور جو راہب سے لیے تھے اُن کو تقسیم کرنے کیلئے جب تھیلیوں کے منہ کھولے تو کیا دیکھا کہ وہ سب درہم و دینار ٹھیکریاں بنے ہوئے تھے اور اُن کے ایک طرف پارہ ۱۳ سورۂ ابراہیم کی آیت (نمبر ۴۲) وَلَا تَحْسَبَنَّ اللّٰہَ غَافِلاً عَمَّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ ۔
ترجمہ : اور ہر گز اللہ کو بے خبر نہ جاننا ظالموں کے کام سے ۔
اور دوسری طرف پارہ ۱۹ سورۃ الشعراء کی آیت (نمبر ۲۲۷) تحریر تھی : وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْآ اَیَّ مُنْقَلَبٍ یَّنْقَلِبُوْنَ ۔
ترجَمہ : اور اب جانا چاہتے ہیں ظالم کہ کس کروٹ پر پلٹا کھائیں گے ۔ (الصواعق المحرقہ صفحہ نمبر ۱۹۹،چشتی)

سرِ انور کہاں مدفون ہوا ؟

امامِ عالی مقام حضرتِ سیدنا امامِ حسین رضی اللہ عنہ کے سرِ انور کے مدفن کے بارے میں اختلاف ہے۔علامہ قرطبِی اور حضرتِ سیدنا شاہ عبد العزیز محدث دہلوی علیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ : یزید نے اسیرانِ کربلا اور سرِ انور کو مدینہ منورہ زادھا اللہ شرفا و تعظیما روانہ کر دیا اور مدینہ منورہ زادھا اللہ شرفا و تعظیما میں سرِ انور کو تجہیز و تکفین کے بعد جنتُ البقیع شریف میں حضرتِ سیدتنا فاطمہ زہرا یا حضرتِ سیدنا امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہما کے پہلو میں دَفْن کر دیا گیا ۔ بعض کہتے ہیں کہ اسیرانِ کربلا نے چالیس روز کے بعد کربلا میں آکر سرِ انور کو جَسدِ مبارَک سے ملا کر دفن کیا ۔ بعض کا کہنا ہے ، یزید نے حکم دیا تھا کہ امامِ حسین رضی اللہ عنہ کے سرِ انور کو شہروں میں پھراؤ ۔ پھِرانے والے جب عسقلان پہنچے تو وہاں کے امیرنے اُن سے لے کر دفن کر دیا ۔ جب عسقلان پر فرنگیوں کا غلبہ ہوا تو طلائع بن رزّیک جس کو صالح کہتے ہیں نے تیس ہزار دینار دے کر فرنگیوں سے سرِ انور لینے کیی اجازت حاصل کی اور مع فوج و خُدام ننگے پاؤں وہاں سے ۸ جمادی الآخر ۵۴۸؁ھ بروز اتوار مصر میں لایا۔ اُس وقت بھی سرِ انور کا خون تازہ تھا اور اُس سے مُشک کی سی خوشبو آتی تھی۔ پھر اس نے سبز حَریر (ریشم) کی تھیلی میں آبنوسی کُرسی پر رکھ کر اس کے ہم وزن مُشک و عنبر اور خوشبو اس کے نیچے اور اردگرد رکھوا کر اس پر مشہدِ حُسینی بنوایا چنانچہ قریبِ خان خلیلی کے مشہدِ حُسینی مشہور ہے ۔ (شامِ کربلا صفحہ ۲۴۶،چشتی)

تُربتِ سرِ انور کی زیارت

حضرتِ سیدنا شیخ عبدُ الفَتّاح بن ابی بکر بن احمد شافِعی خلوتی رحمۃ اللہ علیہ اپنے رسالہ "نور العین" میں نقل فرماتے ہیں : شیخ الاسلام شمس الدین لقانی قدس سرہ جو کہ اپنے وقت کے شیخ الشیوخِ مالکیہ تھے ہمیشہ مشہد مبارک میں سر انور کی زیارت کو حاضر ہوتے اور فرماتے کہ حضرت امامِ عالی مقام رضی اللہ عنہ کا سرِ انور اِسی مقام پر ہے۔ حضرت سیدنا شیخ شہابُ الدین حنفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : میں نے مشہدِ حسینی کی زیارت کی مگر مجھے شبہ ہر رہا تھا کہ سرِ مبارک اِس مقام پر ہے یا نہیں ؟ اچانک مجھ کو نیند آ گئی، میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص بہ صورتِ نقیب سرِ مبارَک کے پاس سے نکلا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حجرۂ مبارَکہ میں حاضر ہوا اور عرض کی، "یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم احمد بن حلبی اور عبد الوہاب نے آپ کے شہزادے امامِ حسین رضی اللہ عنہ کے سرِ مبارَک کے مدفن کی زیارت کی ہے " آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : اللہم تقبل منھما و اغفرلھما ۔ اے اللہ ان دونوں کی زیارت کو قبول فرما اور دونوں کو بخش دے ۔ حضرت سیدنا شیخ شہاب الدین حنفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اُس دن سے مجھے یقین ہو گیا کہ حضرتِ سیدنا امامِ عالی مقام رضی اللہ عنہ کا سرِ انور یہیں تشریف فرما ہے پھر میں نے مرنے تک سرِ مُکرَّم کی زیارت نہیں چھوڑی ۔ (شامِ کربلا ص۲۴۷)

سرِ انور سے سلام کا جواب

حضرتِ سیدنا شیخ خلیل ابی الحسن تمارسی رحمۃ اللہ علیہ سرِ انور کی زیارت کےلیے جب مشہد مبارَک کے پاس حاضر ہوتے تو عرض کرتے: السلام علیکم یا ابنَ رسول اللہ اور فوراً جواب سنتے: و علیک السلام یا ابا الحسن۔ ایک دن سلام کا جواب نہ پایا، حیران ہوئے اور زیارت کر کے واپس آ گئے دوسرے روز پھر حاضر ہو کر سلام کیا تو جواب پایا۔ عرض کی، یا سیدی! کل جواب سے مشرف نہ ہوا کیا وجہ تھی؟ فرمایا: اے ابو الحسن! کل اِس وقت میں اپنے نانا جان صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر تھا اور باتوں میں مشغول تھا ۔ (شامِ کربلا صفحہ ۲۴۷،چشتی)

حضرت سیدنا امام عبد الوہاب شعرانی قدس سرہ الربانی فرماتے ہیں اہلِ کشف صوفیا اِسی کے قائل ہیں کہ حضرتِ سیدنا امامِ حسین رضی اللہ عنہ کا سرِ انور اِسی مقام پر ہے۔ شیخ کریم الدین خلوتی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اجازت سے اس مقام کی زیارت کی ہے۔ (شامِ کربلا صفحہ ۲۴۸)

سرِ انور کی عجیب بَرَکت

منقول ہے ، مصر کے سلطان ملک ناصر کو ایک شخص کے متعلق اطلاع دی گئی کہ یہ شخص جانتا ہے کہ اس محل میں خزانہ کہاں دفن ہے مگر بتاتا نہیں ۔ سلطان نے اُگلوانے کےلیے اس کی تعذیب کی یعنی اذیت دینے کا حکم دیا ۔متولیِ تعذیب نے اس کو پکڑا اور اس کے سر پر خنافس (گبریلے) لگائے اور اس پر قرمز (یعنی ایک قسم کے کیڑے) ڈال کر کپڑا باندھ دیا ۔ یہ وہ خوفناک اذیت و عقوبت ہے کہ اس کو ایک منٹ بھی انسان برداشت نہیں کر سکتا اس کا دماغ پھٹنے لگتا ہے اور وہ فوراً راز اُگل دیتا ہے ۔ اگر نہ بتائے تو کچھ ہی دیر کے بعد تڑپ تڑپ کر مر جاتا ہے ۔ یہ سزا اُس شخص کو کئی مرتبہ دی گئی مگر اس کو کچھ بھی اثر نہ ہوا بلکہ ہر مرتبہ خنافس مر جاتے تھے۔ لوگوں نے اِس کا سبب پوچھا تو اس شخص نے بتایا کہ جب حضرتِ امام عالی مقام سیدنا امامِ حسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک یہاں مصر میں تشریف لایا تھا الحمدللہ میں نے اس کو عقیدت سے اپنے سر پر اُٹھایا تھا یہ اُسی کی برکت اور کرامت ہے ۔ (شامِ کربلا صفحہ نمبر ۲۴۸،چشتی)

سرِ مبارک کی چمک

ایک رِوایت یہ بھی ہے کہ سرِ انور یزید پلید کے خزانہ ہی میں رہا ۔ جب بنو اُمیہ کے بادشاہ سلیمان بن عبد الملک کا دورِ حکومت (۹۶ تا ۹۹ ھ) آیا اور ان کو معلوم ہوا تو انہوں نے سرِ انور کی زیارت کی سعادت حاصل کی اس وقت سرِ انور کی مبارک ہڈیاں سفید چاندی کی طرح چمک رہی تھیں ، انہوں نے خوشبو لگائی اور کفن دے کر مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کروا دیا ۔ (تھذیب التھذیب جلد ۲ صفحہ ۳۲۶ دارالفکر بیروت)

رضائے مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا راز

حضرتِ علامہ ابنِ حَجَر ھَیتمی مَکِّی علیہ رحمۃ اللہ علیہ رِوایت فرماتے ہیں کہ : سُلیمان بن عبدُالملِک جنابِ رسالتِ مَآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت سے خواب میں مشرف ہوئے دیکھا کہ شہنشاہِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کے ساتھ مُلاطَفَت (یعنی لُطف و کرم) فرما رہے ہیں ۔ صبح انہوں نے حضرت سیدنا حسن بصری رضی اللہ عنہ سے اِس خواب کی تعبیر پوچھی ، اُنہوں نے فرمایا : شاید تُو نے آلِ رسول کے ساتھ کوئی بھلائی کی ہے ۔ عرض کی ، جی ہاں ! میں نے حضرتِ سیدنا امامِ حسین رضی اللہ عنہ کے مبارک سر کو خزانۂ یزید میں پایا تو اُس کو پانچ کپڑوں کا کفن دے کر اپنے رُفقا کے ساتھ اس پر نماز پڑھ کر اس کو دفن کیا ہے حضرت سیدنا حسن بصری رضی اللہ عنہ نے فرمایا : آپ کا یہی عمل رِضائے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا سبب ہوا ہے ۔ (الصواعق المحرقہ صفحہ ۱۹۹،چشتی)

مغرور شخص پیاسا واصلِ جہنم ہوا

امام حسین رضی اللہ عنہ کی کرامات اور آپ کا مستجاب الدعوات (جس کی دعائیں قبول ہوتی ہوں) ہونے کو دیکھ کر بھی اُن بے باک اور سخت دلوں کو غیرت نہ آئی اور ایک مغرور شخص نے امام حسین رضی اللہ عنہ کے سامنے آکر کہنے لگا کہ : اے حسین ! دیکھو تو دریائے فرات کیسے موجیں مار رہا ہے مگر خدا کی قسم تم اس کا ایک قطرہ بھی نہ پی سکو گے حتیٰ کہ تم پیاسے ہلاک ہو جاؤ گے ۔ امام حسین رضی اللہ عنہ اُس مغرور شخص کی باتیں سن کر رونے لگے اور اپنے پاک پروردگار سے عرض کرنے لگے : اللّٰہُمَّ اَمِتْہ عَطْشَانًا یا رب عزوجل اس کو پیاسا مار ۔امام حسین رضی اللہ عنہ کا دعا مانگنا تھا کہ اُس مغرور شخص کا گھوڑا اسے گرا کر بھاگنے لگا جس کو پکڑنے کےلیے اُس شخص نے دوڑ لگائی جس کے سبب اس پر پیاس کا غلبہ ہوا اور وہ العطش العطش کہنے لگا ، اُس کے ساتھیوں نے اسے پانی پلانا چاہا لیکن ایک قطرہ بھی اُس کے حلق سے نیچے نہیں اترا اور وہ مغرور شخص اسی شدتِ پیاس میں واصلِ جہنم ہو گیا ۔ (روضۃ الشہداء، باب نہم جلد 2 صفحہ 186 تا 188)

امام حسین رضی اللہ عنہ کی کرامات آپ کی شان و عظمت پر گواہ ہیں ۔ امام حسین رضی اللہ عنہ سے کرامات کا ظاہر ہونا اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کی کرامات آپ کی شان و عظمت پر گواہ ہیں نیز دشمنانِ اہلِ بیت کو یہ بتانا تھا کہ دیکھ لو کہ جو ایسامستجاب الدعوات ہو اس کے مقابلے میں آنا اللہ پاک سے جنگ کرنا ہے لہٰذا اس معاملے میں اللہ عزوجل سے ڈرو مگر اُن بے باک لوگوں نے دنیاوی منصب پانے کےلیے حسین ابنِ علی رضی اللہ عنہما کو شہید کر ڈالا جس کی سزا انہیں دنیا میں بھی ملی جن کا ذکر ہم کر چکے ہیں ۔ ان واقعات سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آلِ رسول کی اللہ پاک کی بارگاہ میں کیسی قدر و منزلت ہے ، صرف دعا مانگنے کی دیر تھی اور دشمنانِ آلِ رسول چند ہی لمحوں میں موت کے گھاٹ اتر گئے ۔ اللہ پاک ہمیں بھی آلِ رسول کا ادب و احترام کرنےاور اُن کی طرح دینِ اسلام کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کرنے کا جذبہ عطا فرمائے آمین ۔ (مزید حصّہ نمبر 13 میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...