حضرت علی رضی اللہ کی تاریخِ ولادت و کعبہ میں پیدا ہونا ۔ حصّہ اوّل
محترم قارئینِ کرام : اس موضوع پر فقیر نے چار الگ الگ مضامین لکھے تھے جن میں دونوں مٶقف تفصیل سے پیش کیے تھے ۔ بعض دوست مکمل مضامین پڑھ کر رائے قائم فرمانے کی بجائے ایک حصّہ یا ایک پیرا گراف لے فیصلہ صادر فرمانے لگتے ہیں فقیر دونوں مٶقف ساتھ ملا کر پیش کر رہا ہے تاکہ اہلِ پڑھ کر فیصلہ فرمائیں ۔
پہلا مٶقف کعبة اللہ میں ولادت ہوئی کے پر دلائل درج ذیل ہیں : ⬇
شیخ محقق حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں کہ : محدثین اور سیرت نگاروں نے بیان کیا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پیدائش خانہ کعبہ کے اندر ہوئی ہے ۔ (مدارج النبوت جلد 2 صفحہ 531 طبع لاہور پاکستان مترجم علامہ مفتی غلام معین الدین نعیمی رحمۃ اللہ علیہ)
برصغیر پاک وہند کے عظیم محدث و فقیہ حضرت امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب ازالۃ الخفاء میں لکھتے ہیں : حضرت مولا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت کے وقت آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جو مناقب ظاھر ہوئے ان میں سے ایک یہ ہے کہ بلا شبہ یہ اخبار متواترہ سے ثابت ہے کہ کعبہ معظمہ کے اندر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت ہوئی ۔ (ازالۃ الخفاء جلد نمبر 4 صفحہ نمبر 299 طبع بیروت،چشتی)،(ازالۃ الخفاء جلد نمبر 4 صفحہ نمبر 406 مترجم اردو مطبوعہ قدیمی کتب خانہ آرام باغ کراچی) ۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ اپنی ایک اور کتاب قرۃ العینین میں بھی ولادت حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر اس طرح کرتے ہیں : حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فضائل و مناقب بے شمار ہیں آپ پہلے ہاشمی ہیں جن کی والدہ ماجدہ بھی ہاشمیہ ہیں . آپ کی پیدائش خانہ کعبہ میں ہوئی اور یہ ایک ایسی فضیلت ہے جو آپ رضی اللہ عنہ سے پہلے کسی حصے میں نہیں آئی ۔ (قرۃ العنین بتفضیل الشخین صفحہ 138 طبع دہلی،چشتی)
امام المحدثین امام حاکم نیشاپوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں : آخری بات میں معصب نے وہم کیا ہے حالانکہ متواتر اخبار سے ثابت ہے کہ فاطمہ بنت اسد رضی اللہ تعالیٰ عنہانے علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عین کعبہ کے اندر جنم دیا ہے ۔ ( المستدرک حاکم جلد نمبر 4 صفحہ نمبر 197)
امام حاکم مصعب کے اس قول کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس بات میں معصب سے غلطی ہوئی ہے کہ وہ حکیم بن حزام کے علاوہ کسی کی ولادت خانہ کعبہ میں نہیں مانتے حالانکہ متواتر روایات سے خانہ کعبہ میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت ثابت ہوتی ہے ۔ امام حاکم نے چونکہ مصعب کے قول کا رد کرنا تھا اس لئے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت کا یہاں ذکر کیا اور فضائل والے باب میں ذکر نہیں کیا ۔ قول مصعب کا رد کرنے کے لئے اصل موقع یہی تھا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت کا ذکر کر دیا جائے ۔
امام ذہبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے تلخیص مستدرک میں امام حاکم کا قول نقل کیا ہے کہ ولادت حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کعبہ میں ہوئی ہے ۔ چنانچہ امام ذھبی ذہبی کے نزدیک بھی ولادت حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کعبہ میں ہونا تواتر سے ثابت ہے ۔ (تلخیص المستدرک ذہبی جلد نمبر 4 صفحہ نمبر 197 حاشیہ 5)
امام المحدثین ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنی تصنیف " شرح الشفاء" میں لکھتے ہیں : مستدرک حاکم میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے ۔ ( شرح شفاء ملا علی قاری حنفی جلد 1 صفحہ نمبر 327)
امام ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ جیسے محقق و محدث نے امام حاکم کے قول پر اعتراض نہیں کیا بلکہ اس کو قول متواتر کو قبول کرتے ہوئے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت کعبہ میں قبول کیا ہے ۔
محدث جلیل امام ابن اصباغ مالکی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنی کتاب الفصوص المھمہ میں لکھتے ہیں کہ : حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ماہ رجب 13 تاریخ کو مکہ شریف میں خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے ، آپ کے علاوہ کوئی کعبہ میں پیدا نہیں ہوا . یہ آپ کی فضیلت ہے ۔ ( الفصول المھمہ ابن صباغ مالکی صفحہ 29 طبع بیروت،چشتی)
علامہ حسن بن مومن شبلنجی حنفی رحمۃ اللہ علیہ اپنی مشہور تصنیف نورالابصار میں لکھتے ہیں : حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کے چچا زاد بھائی اور تلوار بے نیام ہیں . آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ عام الفیل کے تیسویں سال جمتہ المبارک کے دن 13 رجب کو خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے اور اس سے پہلے آپ کے علاوہ کعبہ میں کسی ولادت نہیں ہوئی ۔ ( نورالابصار شبلنجی صفحہ 183 طبع بیروت )
مشہور غیر مقلد اھل حدیث عالم جناب نواب صدیق حس خان بھوپالوی لکھتے ہیں : ذکر سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ابن عم رسول و سیف اللہ المسلول ، مظہر العجائب و الغرائب اسد اللہ الغالب ، ولادت ان کی مکہ مکرمہ میں اندر بیت اللہ کے ہوئی ، ان سے پہلے کوئی بیت اللہ کے اندر مولود نہیں ہوا ۔ (شمامۃ العنبریہ مع تکریم المومنین بتویم مناقب الخلفاء الراشدین نواب صدیق حسن صفحہ نمبر 99 طبع لاہور،چشتی) نواب صدیق حسن خان بھوپالوی نے اپنی دوسری تصنیف " تقصار جنود الاحرار صفحہ نمبر 9 طبع بھوپال میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت کعبہ میں کا ذکر کیا ہے ۔
علامہ عبد الرحمان جامی سنی حنفی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنی کتاب شواھد النبوة میں لکھتے ہیں : حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت مکہ معظمہ میں ہوئی اور بقول بعض آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت خانہ کعبہ میں ہوئی ( شواھد النبوۃ صفحہ 280 طبع مکتبہ نبویہ لاہور پاکستان )
علامہ مسعودی اپنی تصنیف مروج الذہب میں لکھتے ہیں کہ : حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کعبے کے اندر پیدا ہوئے ۔ (مروج الذہب جلد 2 صفحہ 311 طبع بیروت)
علامہ عبدالرحمان صفوری الشافعی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ : حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ شکم مادر سے کعبہ کے اندر پیدا ہوئے اور یہ فضیلت خاص طور پر آپ رضی اللہ عنہ کےلیے اللہ تعالیٰٰ نے مخصوص فر ما رکھی تھی ۔ (نزہتہ المجالس جلد 2 صفحہ 404 طبع ایچ ایم سعید کراچی پاکستان)
علامہ گنجی شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب کفایتہ الطالب میں بھی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پیدائش کو خانہ کعبہ میں تسلیم کیا ہے ۔ (کفایتہ الطالب صفحہ 407 )
امام سبط ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب تذکرۃ الخواص میں لکھتے ہیں : روایت میں ہے کہ فاطمہ بنت اسد خانہ کعبہ کا طواف کر رہی تھیں جبکہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے شکم میں تھے . انھیں درد زہ شروع ہوا تو ان کے لئے دیوار کعبہ شق ہوئی پس وہ اندر داخل ہوئیں اور وہیں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیدا ہوئے ۔ (تذکرۃ الخواصفحہ صفحہ 30 عربی )
ابن مغازلی شافعی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : جس وقت فاطمہ بنت اسد پر وضع حمل کے آثار ظاہر ہوئے اور درد شدت اختیار کرگیا ، تو جناب ابو طالب بہت زیادہ پریشان ہوگئے اسی اثناءمیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم وہاں پہنچ گئے اور پوچھا چچا جان آپ کیوں پریشان ہیں ! جناب ابو طالب نے جناب فاطمہ بنت اسد کا قضیہ بیان کیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فاطمہ بنت اسد کے پاس تشریف لے گئے ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلّم نے جناب ابو طالب کا ہاتھ پکڑکر خانہ کعبہ کی طرف روانہ ہوگئے ،فاطمہ بنت اسد بھی ساتھ ساتھ تھیں ۔ وہاں پہنچ کر آپ نے فاطمہ بنت اسد کو خانہ کعبہ کے اندر بھیج کر فرمایا : ”اجلسی علیٰ اسم اللّٰہ “ اللہ کا نام لے کر آپ اس جگہ بیٹھ جائیے ۔ پس کچھ دیر کے بعد ایک بہت ہی خوبصورت وپاکیزہ بچہ پیدا ہوا ۔ اتنا خوبصورت بچہ ہم نے کبھی نہیں دیکھا تھا ۔جناب ابوطالب نے اس بچہ کا نام ” علی “رکھا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس بچہ کو ایک سفید کپڑے میں لپیٹ کر فاطمہ بنت اسد کے ہمراہ ان کے گھر تشریف لے گئے ۔ (مناقب ابن مغازلی صفحہ ۶ جلد ۳)(الفصول المہمۃ صفحہ ۳۰)
علامہ سکتواری بسنوی لکھتے ہیں : اسلام میں وہ سب سے پہلا بچہ ہے جس کا تمام صحابہ کے درمیان ”حیدر “ یعنی شیر نام رکھاگیاہے۔ وہ ہمارے مولا اور سید و سردار حضرت علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہ ہیں ۔ جس وقت حضرت علی کرم اللہ وجہ خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے اس وقت حضرت ابو طالب سفر پرگئے ہوئے تھے ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہ کی مادر گرامی نے ان کانام تفاول کرنے کے بعد”اسد“ رکھا ۔ کیوں کہ” اسد“ ان کے والد محترم کا نام تھا ۔ (محاضرۃ الاوائل صفحہ ۷۹)
علامہ محمد مبین انصاری حنفی لکھنوی (فرنگی محلی) لکھتے ہیں : حضرت علی کرم اللہ وجہ خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہ کے علاوہ کوئی بھی اس پاک و پاکیزہ اور مقدس جگہ پر پیدا نہ ہوا ۔ خدا وند عالم نے اس فضیلت کو فقط حضرت علی (کرم اللہ وجہ ) ہی سے مخصوص کیا ہے اور خانہ کعبہ کو بھی اس شرف سے مشرف فرمایا ہے ۔ (وسیلۃ النجاۃ صفحہ ۶۰ مطبوعہ گلشن فیض لکھنوی)
علامہ صفی الدین حضرمی شافعی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہ کی ولادت خانہ کعبہ کے اندر ہوئی ۔ آپ (کرم اللہ وجہ) وہ پہلے اور آخری شخص ہیں جو ایسی پاک اور مقدس جگہ پیدا ہوے ۔ (وسیلۃ المآل ،حضرمی شافعی صفحہ ۲۸۲،چشتی)
امام حافظ شمس الدین ذہبی رحمۃ اللہ علیہ” تلخیص مستدرک “ میں تحریر فرماتے ہیں : یہ خبر تواتر کی حد تک ہے کہ حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہ خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے ۔ (تلخیص مستدرک جلد ۲ صفحہ ۴۸۳)
علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہ ۱۳ رجب ، ۳۰ عام الفیل ، ۲۳ سال قبل از ہجرت مکہ معظمہ میں خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے ۔ (ریاض الجنان جلد ۱ صفحہ ۱۱۱)
علّامہ سعید حنفی گجراتی ” الاعلام با علام مسجد الحرام “ میں اس روایت کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ ” حضرت علی (کرم اللہ وجہ ) ابو قبیس نامی پہاڑ کے دامن میں پیدا ہوئے “ جس کو دشمنان اہلبیت نے لکھا ہے ۔ ” خدا یا ! تو بہتر جانتا ہے کہ یہ بہتان دشمنانِ اہلبیت کی طرف سے ہے ۔ دشمنان علی (کرم اللہ وجہ) نے اس واقعہ کو گڑھا ہے ۔ جب کہ متواتر روایتیں دلالت کرتی ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہ خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے ۔ خدایا ! تو مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کی سنت پر باقی رکھ اور ان کے اہلبیت رضی اللہ عنہم کی دشمنی سے دور رکھ ۔ (الاعلام باعلام مسجد الحرام خطی بہ نقل علی و کعبہ صفحہ ۷۶)
دوسرا مٶقف کعبة اللہ میں ولادت نہیں ہوئی کے دلائل درج ذیل ہیں : ⬇
ہم نے کچھ عرص قبل حضرت مولا رضی اللہ عنہ کے متعلق بعض اہلِ سنت کی کتابوں کے حوالے سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے خانہ کعبہ میں پیدا ہونے پر ایک مضمون لکھا تھا جس میں مکمل دیانتداری کے ساتھ تمام حوالہ جات بمعہ اسکینز پیش کیے تھے (اِس مضمون میں اُن حوالہ جات پر بھی تحقیق پیش کی جاۓ گی ان شاء اللہ) ساتھ ہی وعدہ کیا تھا کہ وقت ملتے ہی دوسرا موقف جو اہلسنت کا ہے وہ پیش کرینگے مصروفیات و مشکلات نے یوں گھیرا کہ جمع شدہ مواد مختلف اوراق میں بھکرا رہا یوں دو سے تین سال کا عرصہ گذر گیا ۔ اب احباب کے بار بار اسرار پر اِن مشکلات و پریشانیوں میں گھرے ہونے کے باوجود ان حوالہ جات و موقف کو پیش کیا جا رہا ہے اہلِ علم سے گذارش ہے اختلاف آپ کا حق ہے کیجیے مگر دلاٸل کے ساتھ اور جہاں کہیں غلطی پاٸیں تو فقیر کو آگاہ فرماٸیں جزکم اللہ خیرا آمین ۔
پہلی بات یہ ہے کہ جن کتابوں میں اس کو ذکر کیا گیا تو وہاں صیغہ تمریض جیسے قِیْل ، رُوِیَ وغیرہ کے ساتھ ذکر کیا گیا لہٰذا یہ بات معتبر نہیں ۔
دوسری بات یہ ہے کہ صرف شہرت کی وجہ سے سند اور معتبر مآخذ کے ذکر کے بغیر لکھ دیا گیا لہٰذا جب تک معتبر ماخذ نہیں مل جاتا تب تک یہ بات قابلِ قبول نہیں ہے ۔
تیسری بات یہ ہے کہ جنہوں نے ماخذ بیان کیا ہے,وہ یا تو شیعوں کی کتب ہیں یا ایسے شیعوں کی طرف مائل حضرات کی کتب ہیں جنہوں نے بہت ساری شیعی روایات کو بغیر تحقیق و تنقیح کے نقل کر دیا جیسے امام ذہبی , ملا علی قاری اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہم الرّحمہ نے مستدرک للحاکم کے حوالے سے اور بعض نے مروج الذہب اور فضول المھمہ کے حوالے سے نقل کیا ہے ۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو مولودِ کعبہ سمجھنا ایسا کمزور گمان ہے جس کے ثبوت پر کوئی صحیح دلیل نہیں کیونکہ آپ کرم اللہ وجہہ الکریم اپنے والد حضرت ابوطالب کے مکان شعبِ بنی ہاشم کے اندر پیدا ہوئے جس مکان کو لوگ مولدِ علی رضی اللہ عنہ کے نام سے یاد کیا کرتے تھے اور اس مکان کے دروازے پر یہ عبارت لکھی ہوئی تھی : ھذا مولد امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب ، یعنی یہ حضرت امیر المومنین علی بن ابوطالب کرم اللہ وجہہ الکریم کی ولادت گاہ ہے ۔ اور اہلِ مکہ بھی اس پر بغیر اختلاف کے متفق تھے ۔ نیز آپ کرم اللہ وجہہ الکریم کی ولادت گاہ پر ایک قبہ بنا ہوا تھا جس کو نجدیوں نے دیگر مقامات مقدسہ کے ساتھ گرادیا ۔
امام مسلم بن حجاج قشیری رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں : ولد حکیم ابن حزام فی جوف الکعبہ ۔
ترجمہ : حضرت حکیم بن حزام رضی اللہُ عنہ خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے ۔ (صحیح مسلم کتاب البیوع باب الصدق فی البیع والبیان)
امام بدر الدین عینی حنفی رحمۃ اللہ تعالی علیہ تحریر فرماتے ہیں : حکیم بن حزام ولد فی بطن الکعبۃ ۔
ترجمہ : حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ تعالی عنہ خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے ۔ (عمدۃالقاری شرح صحیح بخاری جلد 13 صفحہ 142 دارالکتب العلمیہ بیروت،چشتی)
امام ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ تعالی تحریر فرماتے ہیں : وحکی الزبیر بن بکار ان حکیما ولد فی جوف الکعبہ ۔
ترجمہ : حضرت زبیر بن بکار رضی اللہ عنہ نے حکایۃً بیان کیا کہ حضرت حکیم بن حزام رضی اللہُ عنہ کی ولادت خانہ کعبہ کے اندر ہوئی ۔ (الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 2 صفحہ 98 دار الکتب العلمیہ بیروت)
امام جلال الدین سیوطی شافعی رحمۃاللہ تعالی علیہ تحریر فرماتے ہیں : حکیم بن حزام بن خویلد بن اسد وکان مولدہ فی جوف الکعبہ۔
ترجمہ : حضرت حکیم بن حزام رضی اللہُ عنہ بن خویلد بن اسد. اور آپ کی ولادت گاہ خانہ کعبہ کے اندر تھی ۔ (تدریب الراوی فی شرح تقریب النواوی صفحہ 355 دارالکتاب العربی بیروت،چشتی)
امام جلال الدین سیوطی شافعی رحمۃاللہ تعالی علیہ مزید اسی کتاب کے اگلے صفحہ پر تحریر فرماتے ہیں : قال الزبیر بن بکار کان مولد حکیم بن حزام فی جوف الکعبہ قال شیخ الاسلام ولایعرف ذلک لغیرہ ۔
ترجمہ : حضرت زبیر بن بکار رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضرت حکیم بن حزام رضی اللہُ عنہ کی ولادت خانہ کعبہ کے اندر ہوئی , شیخ الاسلام فرماتے ہیں کہ وہ اس بات کو (خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہونے کو) حضرت حکیم بن حزام رضی اللہُ عنہ کے علاوہ کیلیے نہیں جانتے ۔ (تدریب الراوی فی شرح تقریب النواوی صفحہ 356 دارالکتاب العربی بیروت)
امام ابو ذکریا محی الدین یحی بن شرف نووی رحمۃ اللہ تعالی علیہ تحریر فرماتے ہیں : ولد حکیم بن حزام فی جوف الکعبۃ ولایعرف احد ولد فیھا غیرہ ۔
ترجمہ : حضرت حکیم بن حزام رضی اللہُ عنہ کی ولادت خانہ کعبہ کے اندر ہوئی اور ان کے علاوہ کوئی ایسا شخص معلوم نہیں ہے جس کی ولادت خانہ کعبہ کے اندر ہوئی ہو ۔ (تہذیب الاسماءواللغات حرف الحاء جلد اول صفحہ 409 دار فیحاءالبیروت)
ایک شیعہ عالم نے بھی لکھا ہے کہ : محدثین صرف حکیم بن حزام (رضی اللہ عنہ) کو ہی مولودِ کعبہ سمجھتے ہیں ۔ (شرح نہج البلاغہ جلد اول صفحہ 14 دارالجبل بیروت)
البتہ خانہ کعبہ کے اندر صرف حضرت حکیم بن حزام رضی اللہُ عنہ کی ولادت ہوئی ہے , آپ رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی کی بھی ولادت خانہ کعبہ کے اندر نہیں ہوئی ۔
امام حافظ ابو عمر خلیفہ بن خیاط رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں : ولد علی بمکۃ فی شعب بنی ھاشم ۔
ترجمہ : حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی ولادت مکہ میں شعب بنی ہاشم میں ہوئی ۔ (تاریخ خلیفہ بن خیاط صفحہ 199 دار حلبیۃ الریاض،چشتی)
امام حافظ ابوالقاسم علی بن حسن رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں : ولد علی بمکۃ فی شعب بنی ھاشم ۔
ترجمہ : حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی ولادت مکہ میں شعب بنی ہاشم میں ہوئی ۔ (تاریخ دمشق الکبیر جلد 45 صفحہ 448 دار احیاء التراث العربی بیروت)
حضرت سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں جو یہ بات بیان کی جاتی ہے کہ آپ کی ولادت کعبہ شریف میں ہوئی یہ قول اہل علم کے نزدیک ضعیف ہے البتہ ام المؤمنین، حضرت سیدہ خدیجتہ الکبریٰ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے بھتیجے سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کی ولادت کعبہ میں ہوئی ۔ آپ کے علاوہ کوئی بھی کعبہ میں پیدا نہیں ہوا ۔
امام ابو زکریا محی الدین یحیٰ بن شرف النووی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں : ولد حکیم بن حزام فی جوف الکعبتہ ولا یعرف احد ولد فیھا غیرہ واما ما روی ان علی بن ابی طالب ولد فیھا فضعیف عند العلماء ۔
ترجمہ : صرف حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کی ولادت جوف کعبہ میں ہوئی آپ کے علاوہ کوئی بھی کعبہ میں پیدا نہیں ہوا اور جو یہ کہا جاتا ہے کہ حضرت سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بھی کعبہ میں پیدا ہوئے یہ بات علماء کے نزدیک ضعیف ہے ۔ (تهذیب الاسماء واللغات، حرف الحاء،ج 1.ص 409.رقم 127۔دارالفیحاء بیروت)
امام سیوطی رحمة الله عليه کا بھی قول ہے : قال الزبیر بن بکار کان مولد حکیم فی جوف الکعبتہ ‛‛ قال الشیخ الاسلام ولا یعرف ذٰلک لغیرہ طما وقع فی مستدرک الحاکم من ان علیًا ولد فیھ ضعیف ۔
ترجمہ : زبیر بن بکار کہتے ہیں حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کعبہ میں پیدا ہوئے اور شیخ الاسلام امام نووی رحمة الله عليه فرماتے ہیں آپ کے علاوہ کوئی بھی کعبہ میں پیدا نہیں ہوا جو مستدرک حاکم میں حضرت علی رضی الله عنه کو مولود کعبہ لکھا ہے یہ ضعیف ہے ۔ (تدریب الراوی فی شرح تقریب النوٰوی ، النوع الستون ، التواریخ والوفیات، ص 356 ،دارالکتاب العربی بیروت،چشتی)
امام ابن عبدالبر نے لکھا ہے کہ حکیم رضی اللہ عنہ کی ولادت کعبہ کے اندر ہوئی تھی۔ ان کے علاوہ کوئی دوسرا شخص کعبہ کے اندر پیدا نہیں ہوا۔ سیدنا علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ کے متعلق جو ایسا دعویٰ کیا جاتا ہے وہ اہل علم کے نزدیک ضعیف ہے۔ (الاستیعاب بمعرفة الاصحاب 363/1)
مصطفیٰ بن محمد بن عبدالعلوی رقم طراز ہیں کہ حکیم رضی اللہ عنہ کی ولادت کعبہ کے اندر ہوئی، کوئی دوسرا شخص اس خصوصیت میں ان کا شریک نہیں ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے متعلق ایسا دعویٰ اہل علم کے نزدیک ضعیف ہے ۔ (عنوان النجابة فی معرفة الصحابة من مات بالمدینة من الصحابة، ص: 63)
صدرالشریعہ حضرت علاّمہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ تحریر فرماتے ہیں : مکانِ ولادت اقدس حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم و مکان حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہُ عنہا و مکان ولادتِ علی رضی اللہ عنہ و جبلِ ثور و غارِ حرا و مسجد الجن و مسجد جبل ابی قبیس وغیرہا مکانِ متبرکہ کی زیارت سے بھی مشرف ہو ۔ (بہار شریعت جلد اول حصہ 6 صفحہ 1150مکتبۃ المدینہ کراچی،چشتی)
سیدنا ابوبکر صدیق و سیدنا علی اور لاکھوں صحابہ کرام اہل بیت سادات کرام رضی اللہ عنہم میں سے اکثر کی متعین تاریخ ولادت مستند باسند کتابوں میں نہیں آئی اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی ولادت کعبہ کے اندر ہونے کا واقعے کی اگرچہ صحیح متصل سند نہ ملی ۔ مگر مجموعی طور یہ کہہ سکتے ہیں کہ شیعہ کے مرچ مسالے جھوٹ بے بنیاد نظریات نکال کر فقط اتنا کہہ سکتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی ولادت اندازاً تیرہ رجب کعبہ میں ہوئی اور یہ خصوصیت صرف سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی نہیں بلکہ صحابی سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ بھی کعبہ کے اندر پیدا ہوےتھے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تاریخ پر لکھی ہر کتاب بلکہ اس کے علاوہ بہت کتابوں میں سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کے متعلق یہی لکھا ہے ۔ مثلا صحیح مسلم کتاب البیوع باب الصدق فی البیع والبیان میں امام مسلم فرماتے ہیں : ولد حکیم بن حزام فی جوف الکعبۃ ۔ سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ عین کعبہ کے اندر پیدا ہوئے ۔ (صحیح مسلم تحت الحدیث،1532,3850)
ایسے الفاظ کی وضاحت بھی ضروربیان کی جائے کہ جس سے غلط بے بنیاد نظریات کی تردید ہو ۔ مثلا وحی یا تقابل ولادت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام وغیرہ کا رد کیا جائے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ولادت کعبہ میں ہونے کو بیان کیا جائے تو ساتھ میں یہ بھی بیان کیا جائے کہ صحابی سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کی ولادت بھی کعبہ کے اندر ہوئی ۔ اس طرح غلط بے بنیاد نظریات خودبخود ختم ہوجائیں گے ۔
حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی ولادت کب ہوئی اور کہاں ہوئی ؟ اس بارے میں اہل سنت اہلِ تشیع اور دیگر مسالک کی کافی کتب کا بغور مطالعہ کیا اور راقم اس نتیجے پر پہنچا کہ : پہلے کے زمانے میں متعین تاریخ ولادت کا اہتمام نہ تھا ، سیدنا ابو بکر صدیق اور سیدنا علی اور بہت سارے صحابہ اہلِ بیت رضی اللہ عنہم کی تاریخِ ولادت مستند کتابوں میں نہیں آئی ۔ حتیٰ کہ جو 13 رجب مشہور ہے اس کی تحقیق و تفصیل دیکھی جائے تو 13 رجب اندازہ کرکے بتائی گئ ہے ۔ تیرہ رجب کی ولادت کی تاریخ کا جس واقعہ سے اندازہ کیا گیا وہ آگے عرض کیا جائے گا ۔ پھر اس اندازے کو بعد کی دو چار کتابوں مین اندازے کا تذکرہ کیے بغیر اتنا لکھ دیا گیا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ تیرہ رجب میں پیدا ہوئے ۔
جس واقعے سے 13رجب ولادت کا دن ہونے کا اندازہ لگایا گیا اسی واقعے سے یہ ثابت کیا گیا کہ آپ کی ولادت کعبے کے اندر ہوئی ۔
ولادت والا واقعہ : شیعہ کتب میں واقعہ درج ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی والدہ کو وحی ہوئی ، کچھ کتابوں میں ہے کہ الھام ہوا کہ کعبے میں جائے ، کیونکہ ولادتِ علی رضی اللہ عنہ کا وقت قریب ہے ۔ وہ کعبے میں گئیں دردِ زہ ہوا اور کعبے کے اندر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی ولادت ہوئی ۔
کچھ کتب میں اس کی مزید تفصیل یوں ہے کہ کعبہ کے اندر کا دروازہ کبھی کبھار ہی کھلتا تھا ۔15 رجب حضرت موسی علیہ السلام کی ولادت کے دن کے موقعے پر چار پانچ دن کےلیے کعبے کا اندر کا دروازہ بھی کھلتا تھا ۔ باپردہ خواتین 15 رجب سے دو تین دن پہلے ہی زیارت کر آتی تھیں ۔ اس طرح اندازہ لگایا گیا کہ 13 رجب کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی والدہ کعبہ گئی ہوں گی ۔ پھر اہل تشیع نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام سے بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو افضل کہہ دیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کے وقت بی بی مریم رضی اللہ عنہا کو بیت المقدس سے باہر بھیجا گیا اور یہاں کعبہ کے اندر ولادتِ علی رضی اللہ عنہ کا حکم دیا گیا ۔
شاہ عبد العزیز دہلوی علیہ الرحمہ کا تبصرہ : تحفہ اثنا عشریہ صفحہ 164,165،166 میں شاہ صاحب علیہ الحمہ نے مذکورہ روایت اور مذکورہ واقعہ کو جھوٹ دھوکہ قرار دیا ۔ فرمایا کہ کسی معتبر کتاب میں ، حدیث میں کہیں یہ نہیں آیا کہ بی بی مریم کو بیت المقدس سے نکل جانے کا حکم ہوا ہو ۔ ہرگز نہیں ۔ اور فرمایا کہ کسی معتبر کتاب میں یہ نہیں کہ ولادتِ علی رضی اللہ عنہ کےلیے کعبہ جانے کا حکم ہوا ہو ۔ ہرگز نہیں۔ وہ ایک اتفاق تھا ۔ وحی کا کہنا تو کفر ہے ۔ شاہ صاحب علیہ الرحمہ نے 13 رجب پر گفتگو نہ فرمائی ۔ البتہ ان کے کلام سے واضح ہوتا ہے کہ شیعہ کے مرچ مسالے جھوٹ بے بنیاد غلط نظریات نکال کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ اتفاقاً عورتوں کے ساتھ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی والدہ رضی اللہ عنہ بھی کعبہ کی زیارت کوگئی ہوں اور وہاں اتفاقاً دردِ زہ زیادہ ہوگیا ہو اور اس طرح سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی ولادت کعبہ میں ہوئی ہو مگر شاہ صاحب علیہ الرحمہ نے ساتھ میں دو ٹوک ارشاد فرمایا کہ اس سے افضلیت وغیرہ شیعہ کے دعوے ثابت نہیں ہوتے کیونکہ صحابی سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ بھی کعبہ کے اندر پیدا ہوئے ۔
کئی کتب میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے کعبہ میں پیدا نہ ہونے کا لکھا ہوا ہے ۔ چند اہلسنت کتابوں میں بغیر سند و ثبوت کے آپ کی ولادت کعبہ میں ہونے کا لکھا ہے ۔ عقائد افضلیت ، حلال و حرام وغیرہ بنیادی معاملات میں صحیح مستند روایات ضروری ہیں جیسا کہ نیچے دو اصول بیان کیے جائیں گے جبکہ تاریخ ، فضائل ، پیدائش وغیرہ چھوٹے چھوٹے معاملات میں اتنی سختی نہیں ۔ مسلک المقتسط اورفتاوی شامی اور فتاوی رضویہ سے دو قیمتی اصول پیشِ خدمت ہیں : ⬇
پہلا اصول : مسلک المتقسط وغیرہ کتب میں ہے کہ : الاصل ھوالنفی حتی یتحقق الثبوت ۔
ترجمہ : اصل کسی چیز کی نفی ہے جب تک کہ ثبوت متحقق نہ ہو جائے ۔ (المسلک المتقسط صفحہ 110)(فتاوی رضویہ جلد نمبر 6 صفحہ نمبر 198،چشتی)
دوسرا اصول : امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ فتاوی شامی کی عبارت کو دلیل بناتے ہوے فرماتے ہیں : اگر تسلیم بھی کیا جائے کہ بہت سی جگہوں میں مذکور ہے تو بھی کثرت نقول مستلزم صحت کو نہیں پہلے ایک شخص کو غلطی ہو جاتی ہے اور بعد کے لوگ اس کی غلطی بظنِ صحت نقل کرتے چلے جاتے ہیں ۔
شامی جلد نمبر 4 صفحہ نمبر 351 میں ہے : قد یقع کثیراان مؤلفایذکر شیئاخطاً فینقلونہ بلا تنبیہ فلیکثرالناقلون واصلہ لواحد مخطئ ۔ اکثر ایسا واقع ہوا ہے کہ مؤلف سے کوئی غلطی ہوگئی تو لوگ اسے بلا تنبیہ نقل کرتے رہتے ہیں حتی کہ اس کے ناقلین کثیر ہو جاتے ہیں حالانکہ اصل کے اعتبار سے ایک مخطی ہوتا ہے ۔ (فتاوی رضویہ جلد نمبر 6 صفحہ نمبر 199,198) ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment