حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ حصّہ ہشتم
اللہ تعالی نے امتِ محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حضرت نعمان بن ثابت رضی اللہ عنہ جن کو تمام امت امام اعظم ابو حنیفہ رضی الله عنہ کہتی ہے کی صورت میں تحفہ عطا فرمایا ۔ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی الله عنہ کا نام مبارک نعمان ، والد کا نام ثابت اور آپ کی کنیت ابو حنیفہ ہے ، لقب امام اعظم اور سراج الامہ ہے ، امام اعظم رضی الله عنہ نے مرکزِ علم کوفہ میں آنکھ کھولی اس شہر کی علمی فضا کو معلم امت حضرت عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ اور مدینۃ العلم حضرت علی اور دیگر صحابہ و تابعین رضی الله عنہم کی سر پرستی کا شرف حاصل تھا ، آپ نے ائمہ حدیث و فقہ سے خوب خوب استفادہ حاصل کیا چنانچہ خود بیان فرماتے ہیں : میں حضرت عمر ، حضرت علی ، حضرت عبداللہ بن مسعود حضرت عبداللہ بن عباس رضی الله عنہم اور ان کے اصحاب و تلامذہ کی فقہ حاصل کر چکا ہوں ۔ (سیرت امام ابو حنیفہ صفحہ 30)(حیات امام ابو حنیفہ صفحہ 67)
امام اعظم رضی الله عنہ کی محدثانہ حیثیت پر کلام کرتے ہوئے مخالفین نے طرح طرح کی باتیں کی ہیں ، بعض ائمہ حدیث نے حضرت امام اعظم صفحہ 30 پر حدیث میں ضعف کا طعن کیا ہے ، خطیب نے امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول اپنی کتاب میں نقل کیا ہے کہ ابو حنیفہ حدیث میں قوی نہیں ہیں ۔ (فتح الباری جلد 1 صفحہ 112)
علامہ ابن خلدون رقمطراز میں : امام اعظم رضی الله عنہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان سے صرف 17 احادیث مروی ہیں یا اس کے قریب قریب یہ بعض حاسدوں کی خام خیالی ہے کہ جس اِمام سے روایت کم مروی ہوں ، وہ حدیث نہیں قلیل النضاعت ہوتا ہے ، حالانکہ ایسا لغو تخیل کیا ائمہ کے بارے میں سخت گستاخی وبے عقلی نہیں ہے ؟ ۔ (سیرت امام اعظم صفحہ 236،چشتی)(مقدمہ ابن خلدون صفحہ 447)
حقیقت یہ ہے کہ امام اعظم ابو حنیفہ رضی الله عنہ نے چار ہزار مشائخ ائمہ تابعین علیہم الرحمہ سے حدیث اخذ کی ہیں ، آپ وہ پہلے امام تھے ، جنہوں نے ادلہ شرعیہ سے مخصوص اصول و ضوابط کے تحت استنباط و اجتہاد کا کام کیا اور خلاصہ یہ ہے کہ یہ کام بغیر فن حدیث کی مہارت ہو نہیں سکتا ۔
یحییٰ بن معین فرماتے ہیں " امام ابو حنیفہ رضی الله عنہ حدیث میں شقہ تھے ، ان میں اصول جرح و تعدیل کی رُو سے کوئی عیب نہیں تھا ۔ ان اقوال کی روشنی میں امام اعظم رضی الله عنہ پر قلت حدیث کا طعن بے بنیاد ہو کر رہ جاتا ہے ۔ امام اعظم رضی الله عنہ جب دنیا سے کنارہ کش ہو کر عبادت و ریاضت میں مشغول ہو گئے تو ایک رات خواب میں دیکھا کہ نبی کریم صلّی اللہُ علیہ و آلہ وسلم کی ہڈیوں کو مزار اقدس سے نکال کر علیحدہ علیحدہ کر رہا ہوں اور جب پریشان ہوکر اُٹھے تو امام بن سیرین رضی الله عنہ سے تعبیر معلوم کی تو انہوں نے کہا کہ بہت مبارک خواب ہے اور آپ کو سنت نبوی کے پرکھنے میں وہ مرتبہ عطا کیا جائے گا کہ احادیث صحیحہ کو موضوع حدیث سے جُدا کرنے کی شناخت ہو جائے گی ، اس کے بعد دوبارہ پیارے آقا کی زیارت سے خواب میں مشرف ہوئے، تو آپ نے فرمایا اے ابو حنیفہ اللہ پاک نے تیری تخلیق میری سنت کے اظہار کےلیے فرمائی ہے ، لہذا دنیا سے کنارہ کش مت ہو ۔ (تذکرہ الاولیاء صفحہ 122)
یہ خواب امام اعظم رضی الله عنہ کی علم حدیث میں بلند مرتبہ کا ٹھوس ثبوت ہے ، علم حدیث میں امام اعظم رضی الله عنہ کا سب سے اہم کارنامہ قبول روایت اور وہ معیار و اصول ہیں جنہیں آپ نے وضع کیا جن سے بعد کے علمائے حدیث نے فائیدہ اٹھایا ۔ (سیرت امام اعظم صفحہ 240)
امام اعظم رضی الله عنہ حدیث کے ظاہری الفاظ اور ان کی روایات پر زور نہیں دیتے تھے ، بلکہ وہ احادیث کے مفہوم اور سائل فقیہہ کی تخریج و انسباط پر زور دیتے تھے ، امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : میرے نزدیک حدیث کی تفسیر اور حدیث میں فقہی نکتوں کے مقامات کا جاننے والا امام اعظم رضی الله عنہ سے بڑھ کر کوئی نہیں ، مزید فرماتے ہیں : مجھ سے زیادہ امام صاحب کے متبع سفیان ثوری ہیں ، سفیان ثوری نے ایک دن ابن مبارک سے امام اعظم کی تعریف بیان کی فرمایا کہ وہ ایسے علم پر سوار ہوتے ہیں ، جو برچھی کی انی سے زیادہ تیز ہے، خدا کی قسم وہ غایت درجہ علم کو لینے والے محارم سے بہت رکھنے والے ، اپنے شہر والوں کی بہت اتباع کرنے والے ہیں ، صحیح حدیث کے سوا دوسری قسم کی حدیث لینا مبتول حلال نہ جانتے ۔ (سیرت امام اعظم صفحہ 243-242)(الخیرات الحسان صفحہ 61،چشتی)
ان تمام اقوال سے امام اعظم ابو حنیفہ رضی الله عنہ کا حدیث میں مقام معلوم ہوتا ہے ، آپ علم حدیث کے اعلیٰ مرتبہ پر فائز تھے ۔
آپ رضی الله عنہ کے حلقہ درس میں کثیر تعداد میں علم حدیث سیکھنے والے موجود ہوتے ، علامہ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ نے ذکر کیا ہے کہ امام اعظم رضی الله عنہ سے حدیث کا سماع کرنے والے مشہور حضرات میں حماد بن لغمان اور ابراہیم بن طہمان، حمزہ بن حبیب، قاضی ابو یوسف، اسد بن عمرو ابو نعیم، ابو عاصم شامل تھے، وکیع بن جراح کو امام اعظم کی سب حدیثیں یاد تھیں، امام مکی بن ابراہیم آپ کے شاگرد تھے اور امام بخاری کے استاد تھے، امام اعظم کوفہ جیسے عظیم شہر میں جو فقہ و حدیث کا بڑا مرکز تھا پرورش پائی، آپ کا حدیث میں مقام بہت بلند تھا، بڑے بڑے اساتذہ سے آپ نے علم حدیث حاصل کیا، ان کے علاؤہ جلیل القدر تابعین سے بھی استفادہ حاصل کیا، بعض اہل علم نے آپ کے مشائخ کی تعداد چار ہزار بتائی ہے، ان میں اکثریت محدثین کی ہے، آپ کے تلامذہ کی بڑی تعداد محدثین کی ہے ۔
امام اعظم رضی الله عنہ پر طعن کرنے والے کہتے ہیں کہ آپ حدیث کے ہوتے ہوئے قیاس و رائے کو ترجیح دیتے ہیں، لیکن اس مقام میں کوئی آپ کے برابر نہیں، سفیان فرماتے ہیں : میں نے امام ابو حنیفہ رضی الله عنہ سے فرماتے سُنا کہ میں قرآن پاک سے حکم کرتا ہوں تو جو اِس میں نہیں پاتا، اس کا حکم رسول اللہ کی حدیث سے لیتا ہوں اور جو قرآن اور حدیث میں نہیں پاتا، اس میں صحابہ کرام کے اقوال سے حکم کرتا ہوں اور جس صحابی کے قول سے چاہتا ہوں سند پکڑتا ہوں اور جس کا قول چاہتا ہوں نہیں لیتا ہوں اور صحابہ کرام کے قول سے باہر نہیں جاتا لیکن جب حکم ابراہیم اور شعبی اور ابن سیرین اور حسن اور عطا اور سعید بن مسیب وغیرہ تک پہنچتا ہے تو ان لوگوں نے اجتہاد کیا، میں بھی اجتہاد کرتا ہوں، جیسے انہوں نے اجتہاد کیا ۔ (تبہییض الصحیفہ 23،چشتی)(سیرت امام اعظم صفحہ 250)
یہ اعتراض کہ آپ رضی الله عنہ حدیث پر قیاس کو مقدم کرتے ہیں بالکل غلط کے، یہ آپ پر صریح بہتان ہے، آپ کی شخصیت علمی دینی اور روحانی شخصیت ہے، سفیان فرماتے ہیں : علم میں لوگ ابوحنیفہ سے حسد کرتے ہیں ۔ امام اعظم رضی الله عنہ میں وہ تمام خصوصیات موجود تھیں، جو ایک بلند پایہ عالم دین میں ہونی چاہئیں، علم حدیث میں کوئی آپ کا ثانی نہیں، مال و دولت کی فراوانی کے باوجود بڑی سادہ زندگی بسر کرتے تھے، اکثر ارباب تاریخ کا بیان ہے کہ امام اعظم رضی الله عنہ کی وفات 150ھ میں ہوئی ، آپ نے رجب میں انتقال فرمایا ، علی بن ہاشم کا قول ہے ۔ (بحوالہ مناقب موفق ۔ 1/120)
حضرت امامِ اعظم ابو حنیفہ رضی الله عنہ علم کا خزانہ تھے جو مسائل بہت بڑے عالم پر مشکل ہوتے تھے ، آپ پر آسان ہوتے تھے ۔ (سیرت امام اعظم صفحہ 263)
امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ بلحاظ طبقہ دیگر مشہور ہمعصر مجتہد اماموں سے بڑے ہیں ۔ آپ رضی الله عنہ کا سن ولادت 80ھ ہے ، جو کہ خیر القرون علی الاطلاق یعنی قرنِ اول کا زمانہ ہے اور آپ کا شمار تابعین میں ہوتا ہے ۔جبکہ آپ کے ہمعصر آئمہ مجتہدین مثلاً امام مالک، امام اوزاعی وغیرھما ، نیز آپ کے بعد کے آئمہ مثلاً امام شافعی و امام احمد بن حنبل وغیرھما رضی اللہ عنہم اجمعین میں سے کسی ایک کو بھی طبقہ تابعین میں سے ہونے کا شرف حاصل نہیں ہے ۔ اس لیے آپ کو ” امام اعظم“ کہتے ہیں ۔چنانچہ امام شہاب الدین احمد بن حجر المکی ،شیخ الاسلام حافظ ابو الفضل شہاب الدین احمد بن علی المعروف ”ابن حجر“ العسقلانی شارح صحیح البخاری کے فتاویٰ سے نقل فرماتے ہیں۔ترجمہ”شیخ الاسلام حافظ ابن حجر (عسقلانی) کے فتاویٰ میں ہے کہ امام ابو حنیفہ نے صحابہ کرام رضی الله عنہم کی ایک جماعت کو پایا جو 80ھ میں آپ کی پیدائش کے بعد وہاں موجود تھے ۔ لہٰذا آپ طبقہ تابعین میں شامل ہیں ۔جبکہ یہ فضیلت آپ کے معاصر مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے آئمہ میں سے کسی کے لئے مثلاً اوزاعی کے لئے جو شام میں تھے ۔اور حماد بن سلمہ و حماد بن زید کےلیے جو بصرہ میں تھے ، اور کوفہ میں سفیان ثوری اور مدینہ شریف میں مالک اور مصر میں لیث بن سعد کےلیے ثابت نہیں ہو سکی ۔
امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ ہی وہ مجتہد امام ہیں جنہوں نے سب سے پہلے مجموعہ قرآن و سنت کی روشنی میں شرعی اجتہاد کے ہمہ گیر اصول و قواعد وضع کئے ہر باب سے متعلق دشوار و پیچیدہ مسائل کو حل اور غیر منصوص مسائل کا استخراج و استنباط فرمایا ،نیز علم شریعت کے بکھرے ہوئے مسائل کو ”کتاب الطہارة“ سے لے کر ”کتاب المیراث“ تک فقہی ابواب کی موجودہ ترتیب کے مطابق کتب اور ابواب پر باقاعدہ تحریری طور پر مرتب و مدون کر کے ان کو آسان اور ہمیشہ کے لئے محفوظ کر دیا ۔پھر بعد کے تمام آئمہ مجتہدین و فقہا مصنفین امام مالک ،سفیان ثوری ،امام شافعی ،امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہم و دیگر علماءنے انہی اصول و قواعد سے استفادہ کیا اور اپنی تصنیفات میں اسی ترتیب کو اپنایا ۔چنانچہ امام احمد بن حجر المکی الشافعی ،شافعی المذہب ہونے کے باوجود امام اعظم رضی الله عنہ کی اس اولیت کے بارے میں اعترافِ حق کرتے ہوئے رقمطراز ہیں : امام ابو حنیفہ رضی الله عنہ ہی پہلے وہ شخص ہیں جنہوںنے علم فقہ کو مدون کیا اور اسے ابواب و کتب (فقہ ) کی موجودہ ترتیب پر مرتب کیا اور آپ ہی کی ترتیب کی امام مالک رضی اللہ عنہ نے اپنے موطا میں پیروی کی ، ورنہ آپ سے پہلے تو علماءمحض اپنے حفظ پر اعتماد کرتے تھے ۔ (الخیرات الحسان صفحہ 28مطبوعہ مصر،چشتی)
خطیب بغدادی اپنی سند کے ساتھ حضرت عبد اللہ بن داود سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : یَجِبُ عَلٰی اَہلِ الاِسلَاِم اَن یَّدعُوا اللّٰہَ لِاَ بِی حَنِیفَةَ فِی صَلٰوتِھِم قَالَ وَذَکَرَ حِفظَہ عَلَیھِمُ السُّنَنَ وَالفِقہَ ۔ اہل اسلام پر لازم ہے کہ اپنی نماز میں اما م ابو حنیفہ کے حق میں دعا کیا کریں ۔کیونکہ انہوںنے مسلمانوں کےلیے سنن (نبویہ ) اور فقہ کو محفوظ کر دیا ۔
یہی مضمون مشہور اہلحدیث غیر مقلد عالم علامہ محمد داﺅد غزنوی نے حافظ ابن کثیر کی کتاب ”البدایة والنہایة“ کے حوالے سے نقل کیا اور نہ صرف اس کی تائید کی بلکہ اسے امام احب کا بلند مرتبہ تسلیم کرتے ہوئے دلیل کے طور پر ذکر کیا ۔ (مقالات مولانا محمد داﺅد غزنوی مطبوعہ مکتبہ نذیریہ لاہور صفحہ 56)
اور امام محدث و فقیہ قاضی ابو عبد اللہ حسین بن علی الصیمری اپنی سند کے ساتھ امام شافعی کا مندرجہ ذیل قول نقل فرماتے ہیں : مَن لَّم یَنظُر فِی کُتُبِ اَبِی حَنِیفَةَ لَم یَتَبَحَّرفِی الفِقہِ“ ”جو شخص امام ابو حنیفہ کی کتابوں کا مطالعہ نہ کرے وہ علم فقہ اور شرائع میں متبحر نہیں ہو سکتا “ (اخبار ابی حنیفہ و اصحابہ صفحہ81 طبع بیروت،چشتی)
علامہ خطیب بغدادی اپنی سندِ متصل کے ساتھ امام شافعی کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ ”جو شخص فقہ و شرائع میں مہارت حاصل کرنا چاہے تو اسے چاہیے کہ امام ابو حنیفہ اور ان کے شاگردوں کو لازم پکڑے ۔کیونکہ لوگ سب کے سب فقہ میں ان کے محتاج ہیں ۔ (تاریخ بغداد جلد13صفحہ111)
امام محدث محمد شمس الدین الذہبی اپنی سند متصل کے ساتھ امام ابو یوسف رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا : ہم امام ابو حنیفہ رضی الله عنہ کے چند شاگرد جن میں داﺅ د ،قاسم بن معن (ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پڑ پوتے)،عافیہ بن یزید ،حفظ بن غیاث ،وکیع ابن الجراح (امام شافعی کے استاد) ، مالک بن مغول اور زفررضی اللہ عنہم تھے ،ایک بارشد والے دن میں امام ابو حنیفہ کے پاس جمع تھے ۔امام صاحب نے اپنا چہرہ ہماری طرف متوجہ کیا اور فرمایا کہ تم لوگ میرے دل کے سرور اور رازدان اور میرے غم کو غلط کرنے والے ہو ،میں نے فقہ کو تمہارے لئے ہموار و آسان کر کے ان کی باگ ڈور تمہارے ہاتھ میں دے دی ہے ،اب سارے لوگ تمہارے نقشِ پاک اتباع اور تمہاری باتوں کی جستجو کیا کریں گے ۔ (مناقب الامام ابی حنیفہ صفحہ 170طبع مصر)
کمالِ عقل و ذہانت ،فقہی بصیرت ، اجتہادی قوت اور علمی و عملی فضیلت کے اعتبار سے امامِ ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کا پایہ اپنے تمام ہم عصروں اور بعد کے آئمہ سے نہایت بلند تھا ۔بلکہ سچ تو یہ ہے کہ آپ اپنی ان خداداد صلاحیتوں اور علمی و عملی خوبیوں کی وجہ سے علوم شریعہ میں پوری امت کے مقتدیٰ و پیشوا ہیں ۔ لہٰذا اس وجہ سے بھی آپ کو ”امام اعظم“ کہا جاتا ہے ۔ چنانچہ امام ابو عبد اللہ حسین بن علی الصیمری اپنی سندِ متصل کے ساتھ حضرت عبد اللہ بن مبارک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:”میں امام مالک بن انس رضی اللہ عنہ کے پاس تھا کہ اتنے میں ان کے پاس ایک شخص آیا آپ اسے ادب و احترام سے پیش آئے ۔پھر جب وہ شخص چلا گیا تو شاگردوں سے پوچھا کہ کیا تم جانتے ہو یہ کون تشریف لائے تھے ؟انہوں نے کہا کہ نہیں ۔ مگر ہم (عبد اللہ بن المبارک) نے ان کو پہچان لیا ۔چنانچہ امام مالک نے فرمایا کہ یہ عراق کے ابو حنیفہ تھے ،(ان کے علمی پایہ اور زور استدلال کا یہ عالم ہے کہ ) اگر کہہ دیں کہ یہ ستون سونے کا ہے تو وہ ویسا ہی نکل آئے جیسا کہ انہوں نے کہا ہو ۔ان کو مہارتِ فقہ کی وہ توفیق دی گئی ہے کہ اب ان پر اس کے مسائل کو حل کرنا کوئی زیادہ دشوار نہیں ہے ۔عبد اللہ بن مبارک کہتے ہیں کہ پھر حضرت سفیان ثوری آپ کے پاس آئے تو ان کو امام ابو حنیفہ سے کمتر مرتبہ کی جگہ پہ بیٹھایا۔( اخبار ابی حنیفہ و اصحابہ صفحہ 74مطبوعہ بیروت)
خطیب بغدادی علامہ احمد بن علی بن ثابت اپنی سند متصل کے ساتھ ربیع بن یونس سے روایت کرتے ہیں کہ انہوںنے فرمایا:”ایک روز امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ خلیفہ ابو جعفر منصور کے پاس تشریف لائے ۔اس وقت حضرت عیسی بن موسیٰ بھی وہاں موجود تھے ۔وہ منصور سے کہنے لگے یہ (ابو حنیفہ) آج دنیا کے بڑے عالم ہیں ۔تو منصور نے امام صاحب سے کہا : اے نعمان! آپ نے کس سے علم حاصل کیا؟ آپ نے فرمایا کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کے شاگردوں سے حضرت عمررضی اللہ عنہ کا ،حضرت علی رضی اللہ عنہ کے شاگردوں سے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگردوں سے ان کا علم حاصل کیا ہے اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے زمانے میں روئے زمین پر ان سے بڑا عالم کوئی نہیں تھا ۔منصور نے کہا کہ آپ نے اپنے لئے مضبوط علم حاصل کیا ہے ۔ (تاریخ بغداد جلد 13 صفحہ 99)
امام شافعی رضی اللہ عنہ کا قول ”تمام لوگ فقہ میں امام ابو حنیفہ کے عیال (محتاج و پروردہ ہیں) اور امام محمد شمس الدین الذہبی ،امام ابو بکر المروزی سے روایت کرتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں : میں نے ابو عبد اللہ امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ سے سنا ،وہ فرماتے تھے کہ ہمارے نزدیک یہ ثابت نہیں کہ ابو حنیفہ نے قرآن کو مخلوق کہا ہے ۔یہ سن کر میں نے کہا الحمد للہ اے ابو عبد اللہ ان کا تو علم میں بڑا مقام ہے ۔تو آپ فرمانے لگے ۔سبحان اللہ ! وہ (ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ) تو علم و تقویٰ ،زہد اور دارِ آخرت کے اختیار کرنے میں اس مقام پر فائز ہیں کہ جہاں کسی اور کی رسائی نہیں ہو سکتی ۔ (مناقب الامام ابی حنیفہ صفحہ 27 طبع مصر)
حافظ ابو بکر احمد بن علی خطیب بغدادی اپنی سند کے ساتھ حضرت محمد بن بشر سے روایت کرتے ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ میں امام سفیان ثوری رضی اللہ عنہ کے پاس آیا کرتا تھا تو وہ مجھ سے پوچھتے کہ کہاں سے آئے ہو؟ میں کہتا کہ امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے یہاں سے ۔یہ سن کر وہ فرماتے ۔’تم ایسے شخص کے پاس سے آئے ہو جو روئے زمین پر سب سے زیادہ فقیہ ہے ۔ (تاریخ بغداد جلد 133صفحہ 3433 مطبوعہ مصر)
یہی حافظ ابو بکر خطیب بغدادی ،نیز امام محدث حافظ شمس الدین محمد الذہبی ،امام محدث و فقیہ سفیان بن عینیہ رضی اللہ عنہم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ فرماتے تھے کہ : میری آنکھ نے (علم و فضل میں) ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کا مثل نہیں دیکھا ۔ (تاریخ بغداد جلد 13 صفحہ 342،چشتی)(مناقب ابی حنیفہ للذہبی صفحہ 19مطبوعہ مصر)
امام محدث و فقیہ ابو عبد اللہ حسین بن علی الصیمری ،ان کے شاگرد حافظ ابو بکر خطیب بغدادی اور امام محدث حافظ شمس الدین الذہبی نے امام محدث و فقیہ حضرت عبد اللہ بن مبارک کا یہ قول نقل کیا :” اگر حدیث معلوم ہو اور اجتہاد ی رائے کی ضرورت ہو تو یہ رائے امام مالک،سفیان ثوری اور امام ابوحنیفہ کی لینی چاہےے۔ اور امام ابو حنیفہ کی نظر عقل و ذہانت پر گہری جاتی ہے اور ان تینوں میں زیادہ فقیہ ہیں ۔ (اخبار ابی حنیفہ و اصحابہ صفحہ 77 طبع بیروت و تاریخ بغداد)
امام محدث و فقیہ ابو عبد اللہ حسین بن علی الصیمری اپنی سند کے ساتھ نصر بن علی سے روایت کرتے ہیں کہ امام المحدثین ”شعبیٰ“ کو جب امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبر ملی تو افسوس سے انا للہ ۔۔۔الخ پڑھی اور پھر فرمانے لگے ۔”بے شک اہل کوفہ سے نور علم کی روشنی بجھ گئی ،سن لو! اب لوگ ابو حنیفہ کی مثل کبھی نہیں دیکھیں گے ۔ (اخبارا بی حنیفہ صفحہ 72 طبع بیروت)
امام محدث حافظ شمس الدین الذہبی ،امام بخاری کے استاد گرامی امام فقیہ و محدث امام مکی بن ابرا ہیم کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ کَانَ اَبُو حَنِیفَةَ اَعلَمُ اَہلِ زَمَانَہ ۔ اما م ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ اپنے زمانے کے سب سے بڑے عالم ہوئے ۔ (مناقب الامام ابی حنیفہ )
اما م الجرح و التعدیل یحی بن معین جو امام بخاری کے شیوخ میں سے ہیں فرماتے ہیں : قرات میرے نزدیک حمزہ کی قرات اور فقہ امام ابو حنیفہ کی فقہ ہے ۔ (اخبار ابی حنیفہ و اصحابہ)
یہی امام یحی بن معین اپنے استاد گرامی امام المحدثین امام یحی بن سعید القطان سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا :”ہم خد ا کا نام لے کر جھوٹ نہ بولیں گے ،ہم نے امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ سے زیادہ بہتر اجتہادی رائے کسی کی نہیں سنی اور ہم نے ان کے اکثر فقہی اقوا ل اختیار کر لے ہیں ۔ (تاریخ بغداد جلد 13 صفحہ 345)
امام شافعی رضی اللہ عنہ کے استاد گرامی امام وکیع فرماتے تھے : میں نے امام ابو حنیفہ رضی الله عنہ سے زیادہ فقیہ کسی کو نہ پایا ۔ (تاریخ بغداد جلد 12 صفحہ 345)
نیز امام محمد بن حسن جو کہ امام شافعی کے شیوخ میں سے ہیں فرماتے ہیں : امام ابو حنیفہ یکتائے روزگار تھے ۔ (اخبار ابی حنیفہ طبع بیروت)
امام محدث ،شیخ الاسلام یزید بن ہارون جو کہ امام احمد بن حنبل کے شیوخ میں سے ہیں فرماتے ہیں:”امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ اپنے زمانہ کے سب سے بڑے حدیث کے حافظ تھے ۔آپ کے معاصر علماءمیں جس جس کو میں نے پایا اسے یہی کہتے سنا کہ اس نے آپ سے بڑا کوئی فقیہ نہ دیکھا ۔ (اخبار ابی حنیفہ و اصحابہ طبع بیروت)
امام شافعی اور احمد بن حنبل کے استاد گرامی حضرت امام ابو یوسف یعقوب بن ابراہیم القاضی فرماتے ہیں : ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ اسلافِ کرام کے صحیح جانشین تھے اور قسم بخدا انہوں نے اپنے بعد روئے زمین پر اپنی مثل کوئی نہ چھوڑا ۔ (اخبار ابی حنیفہ للصمیری صفحہ 32)
امام محدث علی بن عاصم کہتے ہیں : اگر روئے زمین کے آدھے لوگوں کی عقل سے امام ابو حنیفہ کی عقل تولی جائے تو آپ کی عقل کا پلہ بھاری رہے گا ۔ (اخبار ابی حنیفہ و اصحابہ)(تاریخ بغداد)(مناقب الامام ابی حنیفہ )
نیز یہی امام علی بن عاصم فرماتے ہیں : اگر امام ابو حنیفہ رضی الله عنہ کا علم ان کے تمام اہل زمانہ کے مجموعی علم سے تولا جائے تو یقینا آپ کا علم ان سب کے علم سے بڑھا ہوا ہو گا ۔ (اخبار ابی حنیفہ و مناقب الامام ابی حنیفہ)
اور امام محدث نضر بن شمیل فرماتے ہیں : لوگ علم فقہ (کی باریکیوں)سے غافل تھے ۔یہاں تک کہ ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی فقہی موشگافیوں ، عقدہ کشائیوں اور ان کی فقہی مسائل کی تشریح و تلخیص نے لوگوں کو چونکا دیا ۔ (تاریخ بغداد جلد 133)
امام فقیہ و محدث حافظ محمد بن میمون فرماتے ہیں ” امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ان سے بڑا عالم ،متقی ،زاہد ،عارف اور فقیہ کوئی نہ تھا ۔ان کا درس فقہ و حدیث سننے کی بجائے مجھے ایک لاکھ سونے کی اشرفیاں بھی ملتیں تو میں راضی نہ ہوتا ۔ (الخیرات الحسان صفحہ 32 مطبوعہ مصر،چشتی)
الغرض امام مالک ،امام شعبیٰ ،امام ابو یوسف القاضی، امام سفیان ثوری ،امام سفیان بن عیینہ ،امام عبد اللہ بن المبارک، امام شافعی ،امام احمد بن حنبل، امام وکیع ،عیسیٰ بن موسیٰ ،امام یحییٰ بن سعید القطان ،امام یحی بن معین ،امام مکی بن ابراہیم ،امام محمد بن حسن ،امام علی بن عاصم ،امام نضر بن شمیل اور حافظ محمد بن میمون رضی اللہ عنہم اجمعین یہ پورے سترہ (17) آئمہ کرام ہیں جو سب کے سب اسلام کے صدر اول ، اتباع تابعین اور سلف صالحین میں سے ہیں ۔سب اساطینِ علم و فضل اور علمی دنیا کے آفتاب و ماہتاب ہیں ۔ان کی جلالتِ شان اور علمی مقام کا یہ عالم ہے کہ ان کا نام آتے ہی بڑے بڑے اولیاء،عرفا ،عباد و زھاد، مفسرین ،محدثین ،فقہا اور متکلمین کے سر ادب و احترام سے جھک جاتے ہیں ۔یہ سب یک زبان ہو کر تمام ہمعصر اور بعد کے علماءو اعلام وآئمہ کرام پر امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی علمی و عملی ،عقلی و فکری ، فقہی اور اجتہادی برتری کا ڈنکے کی چوٹ پر اعلان فرمارہے ہیں ۔ کیا ان جبالِ علم کی روشن شہادتوں کے بعد بھی کسی مسلمان کو امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے ” امام اعظم ہونے میں شک رہ سکتا ہے ؟
غیر مقلدین کی شہادتیں : اب ہم اس مسئلے پر بحث کو ختم کرتے ہوئے آخر میں غیر مقلد کے دو بڑے مقتدر عالموں کی مزید گواہیاں پیش کرتے ہیں ۔تاکہ اگر کوئی مندرجہ بالا آئمہ سلف کے ارشادات سے بھی مطمئن نہ ہوا ہو تو کم از کم اپنے بزرگوں کی شہادتِ حق سن کر تو ضرور ہی اس کا دل نورِ یقین سے منور ہو جانا چاہیے ۔
علامہ نواب صدیق حسن خاں کی گواہی : غیر مقلدوں کے مقتدر پیشوائے علامہ نواب صدیق حسن خان بھوپالوی اپنی مشہور تصنیف” الحطة فی ذکر الصحاح الستة “ کے صفحہ 42پر رقمطراز ہیں : ”ان (طبقہ ثالثہ کے آئمہ کبار)میں سے امام جعفر صادق ،امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت ،امام مالک ،امام اوزاعی ،امام ثوری ،ابن جریح اور امام محمد بن ادریس شافعی وغیرھم ہیں (رضی اللہ عنہم) ۔ اور ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زبان مبارک کی گواہی کے مطابق یہی تین طبقے خیر و برکت کے ہیں ۔نیز یہی اسلام کے صدر اول اور سلف صالح ہیں جو ہر باب میں سند اور حجت کا درجہ رکھتے ہیں ۔ (مقالات داﺅد غزنوی صفحہ 56 مطبوعہ مکتبہ نذیریہ لاہور)
علامہ ابراہیم میر سیالکوٹی کی گواہی : علامہ محمد داﺅد غزنوی جو کہ غیر مقلدین کی جماعت میں بڑے احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے ،لکھتے ہیں کہ : علامہ محمد ابراہیم سیالکوٹ ہماری جماعت کے مشہو ر و مقتدر علماءمیں سے تھے ۔ انہوں نے اپنی کتاب ’تاریخ اہلحدیث“ میں امام ابو حنیفہ کی مدح و توصیف اور ان کے خلاف ارجاء (فرقہ مرجیئہ سے ہونا) وغیرہ الزامات کے دفیعہ میں 29x23/8 سائز کے 8 صفحات وقف کیے ..... پھر کسی جگہ ان کا ذکر امام اعظم رضی الله عنہ کے نام سے کرتے ہیں ،کسی جگہ سیدنا امام ابو حنیفہ کہہ کر ادب و احترام سے ذکر کرتے ہیں ..... اور اس سار ی بحث کو آخر میں علامہ محمد ابراہیم میر اس فقرہ کے ساتھ ختم کرتے ہیں ”خلاصة الکلام یہ کہ نعیم کی شخصیت ایسی نہیں ہے کہ اس کی روایت کی بنا ءحضرت امام ابو حنیفہ جیسے بزرگ امام کے حق میں بدگوئی کریں ۔جن کو حافظ ذہبی جیسے ناقد الرجال ”امام اعظم“ کے معزز لقب سے یاد کرتے ہیں ۔۔۔۔الخ ۔ (مقالات داﺅد غزنوی صفحہ 55)
علامہ داﺅد غزنوی کی گواہی : غیر مقلد ین کے نہایت ہی مقتدر اور محترم عالم علامہ محمد داﺅد غزنوی خود تحریر فرماتے ہیں : حضرت الامام الاعظم ۔ (مقالات مولانا محمد داﺅد غزنوی صفحہ 55 شائع کردہ مکتبہ نذیریہ لاہور)
غیر مقلدین کے مسلمہ بزرگوں کی یہ تین شہادتیں ہیں جو کہ فقیر نے امامِ اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے معزز لقب ”امام اعظم“ کے ثبوت میں پیش کی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے علمی سمندر سے چندہ قطرے عطا فرما کر قرآن و سنت کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment