Thursday, 16 February 2023

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نام سن کر انگوٹھے چومنا مستحب ہے حصّہ اوّل

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نام سن کر انگوٹھے چومنا مستحب ہے حصّہ اوّل
محترم قارئینِ کرام : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اسمِ گرامی بوقتِ اذان و اقامت سن کر انگوٹھے چوم کر آنکھوں پر رکھنا مستحب ہے ۔ یہی ہمارا مذہب ہے اسی پر ہمارے دلائل قائم ہوتے ہیں ۔ بہتان تراشی کا جواب ہمارے پاس نہیں کہ بڑی دلیری سے کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ اہلسنت انگوٹھے چومنا فرض یا واجب مانتے ہیں ۔ یہ نِرا جھوٹ اور افتراء سے زیادہ کچھ نہیں ، ہم چونکہ اس عمل مبارک کو (مستحب) مانتے ہیں اس پر احادیث واقوال ،فقہاء وصلحاء علیہم الرّحمہ موجود ہیں جو کہ درج کیئے جارہے ہیں ۔ قال الطاؤس انہ سمع من الشمس محمد بن ابی نصر البخاری حدیث من قبل عند سماعہ من المؤذن کلمۃ الشھادۃ ظفری ابھامیہ ومسھا علیٰ عینیہ وقال عند المس ۔ اللھم احفظ حدقتی ونورھما ببرکۃ حدقتی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ونورھما لم یعم ۔ (المقاصد الحسنہ صفحہ 285)
ترجمہ : طاؤس فرماتے ہیں انہوں نے خواجہ شمس الدین ابی نصر البخاری سے یہ حدیث سنی کہ جو شخص مؤذن سے کلمہ شہادت سن کر انگوٹھوں کے ناخن چومے اور آنکھوں سے لگائے اور یہ دعا پڑھے (اللھم احفظ حدقتی الخ) تو وہ اندھا نہ ہوگا ۔

حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے مؤذن کے قول اشھد ان محمد رسول اللہ کو سن کر انگوٹھوں کو چوما اور آنکھوں سے لگایا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : من فعل فعل خلیلی فقد حلت لہ شفاعتی ۔
ترجمہ : یعنی جس طرح میرے خلیل صدیق نے کیا جو بھی ایسے ہی کرے گا اس کے لیئے میری شفاعت واجب ہوگئی ۔ (کشف الخفاء، باب الجز ۲ الصفحۀ ۲۰۶،چشتی)(المقاصد الحسنه صفحہ ۳۸۴)

عن الفقیہ ابی الحسن علی بن محمد من قال حین یسمع المؤزن یقول اشھد ان محمدا رسول اللہ مرحبا بحبیبی وقرۃ عینی محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم ویقبل ابھامیہ ویجھلھما علی عینیہ لم یعم ولم یرمد ۔
ترجمہ : یعنی حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا جو شخص اشھد ان محمداً الخ سن کر مرحبا الخ کہتا ہے اور انگوٹھے چوم کر آنکھوں پر پھیرتا ہے تو وہ ہمیشہ نہ تو نابینا ہوگا اور نہ ہی اس کی آنکھیں دکھیں گی ۔ (کشف الخفاء الباب الجز ۲، الجز ۲ صفحہ ۲۰۷)(المقاصد الحسنه صفحہ ۳۸۴)

فتاویٰ شامی میں ہے : جان لو کہ بے شک اذان کی پہلی شہادت کے سننے پر صلی اللہ علیک یارسول اللہ اور دوسری شہادت کے سننے پر قرۃ عینی بک یارسول اللہ کہنا مستحب ہے ۔ پھر اپنے انگوٹھوں کے ناخن (چوم کر) اپنی آنکھوں پر رکھے اور کہے اللھم متعنی بالسمع والبصر ، تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایسا کرنے والے کو اپنے پیچھے پیچھے جنت میں لے جائیں گے ۔ (ردالمختار، کتاب الصلوٰۃ باب فائدۃ التسلیم بعد الاذان)

فتاویٰ شامی میں ہے : یستحب ان یقال عند سماع الاولی من الشھادۃ ؛ صلی اللہ علیک یارسول اللہ، وعند الثانیۃ منھا؛ قرت عینی بک یارسول اللہ ، ثم یقول؛ اللھم متعنی بالسمع والبصر بدع وضع ظفری ابابھامین لی العینین فانہ علیہ السلام یکون قائدًا لہ الی الجنۃ ۔ (ردالمختار کتاب الصلوٰۃ باب فائدۃ التسلیم بعد الاذان)
ترجمہ : جان لو کہ بے شک اذان کی پہلی شہادت کے سننے پر صلی اللہ علیک یارسول اللہ اور دوسری شہادت کے سننے پر قرۃ عینی بک یارسول اللہ کہنا مستحب ہے۔پھر اپنے انگوٹھوں کے ناخن (چوم کر) اپنی آنکھوں پر رکھے اور کہے اللھم متعنی بالسمع والبصر ، تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایسا کرنے والے کو اپنے پیچھے پیچھے جنت میں لے جائیں گے ۔

قھستانی ونحوہ فی الفتاوی الصوفیۃ وفی کتاب الفردوس (من قبل ظفری ابھامہ عند سماع اشھد ان محمدًا رسول اللہ فی الآذان انا فائدہ مدخلہ فی صفوف الجنۃ ۔ (وتمامہ فی حواشی البحر للرملی ۔ حاشیہ رد المحتار ص ۳۹۸ ج ۱ دارالفکر بيروت،چشتی)
ترجمہ : ایسا ہی کنز العباد امام قہستانی میں اور اسی کی مثل فتاویٰ صوفیہ میں ہے اور کتاب الفردوس میں ہے کہ جو شخص اذان میں اشھدان محمدرسول اللہ سن کر اپنے انگوٹھوں کے ناخنوں کو چومے (اس کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمان ہے) کہ میں اس کا قائد بنوں گا اور اس کو جنت کی صفوں میں داخل کروں گا اور اس کی پوری بحث بحرالرقائق کے حواشی رملی میں ہے ۔

رئیس الفقہاء الحنفیہ علامہ طحطاوی رحمة اللہ علیہ شرح مراقی الفلاح میں یہی عبارت اور دیلمی کی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ والی مرفوع حدیث نقل کرکے فرماتے ہیں : وکذاروی عن الخضر علیہ السلام وبمثلہ یعمل فی الفضائل ۔ ( حاشیہ الطحطاوی علیٰ مراقی الفلاح ص ۲۰۶ کتاب الصلوٰۃ ، باب الاذان، دارالکتب العلمیہ بیروت،چشتی)
ترجمہ : : اور اسی طرح حضرت خضر علیہ السلام سے بھی روایت کیا گیا ہے اور فضائلِ اعمال میں ان احادیث پر عمل کیا جاتا ہے ۔

علامہ امام قہستانی شرح الکبیر میں کنزالعباد سے نقل کرکے فرماتے ہیں : جان لوبلاشبہ اذان کی پہلی شہادت کے وقت سننے پر صلی اللہ تعالیٰ علیک یارسول اللہ اور دوسری شہادت کے وقت قرۃ عینی بک یارسول اللہ کہنا مستحب ہے ۔ پھر اپنے انگوٹھوں کے ناخن چوم کر اپنی آنکھوں پر رکھے اور کہے (اللھم متعنی بالسمع والبصر) تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایسا کرنے والے کو اپنے پیچھے پیچھے جنت میں لے جائیں گے ۔

علامہ الفاضل الکامل الشیخ اسماعیل حقی رحمة اللہ علیہ اپنی شہرہ آفاق تفسیر روح البیان جلد 4 ص 649 پر لکھتے ہیں : وقصص الانبیاء وغیرھا ان ادم علیہ السلام اشتاق الیٰ لقاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم حین کان فی الجنۃ فاوحی اللہ تعالیٰ الیہ ھو من صلبک ویظھر فی اٰخر الزمان فسال بقاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم حین کان فی الجنۃ فاوحی اللہ الیہ فجعل اللہ النور المحمدی فی اصبعہ المسبحۃ من یدہ الیمنی فسبح ذلک النور فلذالک سمیت تلک الاسبع مسبحۃ کما فی الروض الفائق او اظھر اللہ تعالی جمال حبیبہ فی صفاء ظفری ابھامیہ مثل المراۃ فقیل ادم ظفری ابھامیہ ومسح علیٰ عینیہ فصار اصلاً لذریتہ فلما اخبر جبریل النبی صلی اللہ علیہ وسلم بھذہ القصۃ قال علیہ السلام من سمع اسمی فی الاذان فقبل ظفری ابھامیہ ومسح علی عینیہ لم یعم ابدا ۔
ترجمہ : قصص الانبیاء وغیرہ کتب میں ہے کہ جب حضرت آدم علیہ السلام کو جنت میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ملاقات کا اشتیاق ہوا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ وہ تمہارے صلب سے آخر زمانہ میں ظہور فرمائیں گے تو حضرت آدم نے آپ کی ملاقات کا سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کے داہنے ہاتھے کے کلمے کی انگلی میں نورِ محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم چمکایا تو اس نور نے اللہ کی تسبیح پڑھی اسی واسطے اس انگلی کا نام کلمے کی انگلی ہوا۔ جیسا کہ روض الفائق میں ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کے جمال کو حضرت آدم علیہ السلام کے دونوں انگوٹھوں کے ناخنوں میں مثل آئینہ کے ظاہر فرمایا تو حضرت آدم نے اپنے انگوٹھوں کو چوم کر آنکھوں پر پھیرا۔ پس یہ سنت ان کی اولاد میں جاری ہوئی پھر جبرئیل علیہ السلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دی تو آپ نے فرمایا ، جو شخص آذان میں میرا نام سن کر اور اپنے انگوٹھوں کو چوم کر آنکھوں سے لگائے تو وہ کبھی اندھا نہ ہوگا ۔

تفسیر روح البیان میں لکھا ہے کہ : در محیط آوردہ کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بمسجد درآمد ونزدیک ستون بنشت وصدیق رضی اللہ عنہ در برابر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نشستہ بود بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ برخاست باذان اشتغال فرمود چوں گفت اشھد ان محمد رسول اللہ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ھردو ناخن ابھامین خود را بر ھر دو چشم خود نھادہ گفت قرۃ عینی بک یارسول اللہ چوں بلال رضی اللہ عنہ فارغ شد حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرمودہ کہ یا ابابکر ھر کہ بکند ایں چنیں کہ تو کر دی خدائے بیامرزد گناھاں جدید اورا قدیم ۔ اگر بعمد بودہ باشد اگر بخطا ۔
ترجمہ : محیط میں آیا ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مسجد میں تشریف لائے اور ایک ستون کے قریب بیٹھ گئے ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی آپ کے برابر بیٹھے تھے ۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اٹھ کر آذان دینا شروع کی جب انہوں نے اشھد ان محمد رسول اللہ کہا تو حضرت ابوبکر نے اپنے دونوں انگوٹھوں کے ناخنوں کو اپنی دونوں آنکھوں پر رکھا اور کہا (قرۃ عینی بک یارسول اللہ) ۔ جب حضرت بلال رضی اللہ عنہ اذان دے چکے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا اے ابوبکر!جو شخص ایسا کرے جیسا کہ تم نے کیا ہے خدا تعالیٰ اس کے گناہوں کو بخش دے گا ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اسم مبارک کے ذکر پر انگوٹھے چوم کر آنکھوں پر رکھنا نہ صرف جائز بلکہ مستحب عمل ہے ۔ یہ عمل خلیفہ رسول سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی سنت ہے ۔ امام سخاوی رحمۃ اللہ علیہ ’المقاصد الحسنۃ جلد1 صفحہ 384 رقم الحدیث 1021)‘ میں فرماتے ہیں : مؤذن سے اذان میں اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہ سن کر انگشتانِ شہادت کے پورے جانبِ باطن سے چوم کر آنکھوں پر ملنا اور یہ پڑھنا چاہیے : اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُه وَرَسُوْلُه ، رَضِيْتُ بِاﷲِ رَبًّا وَبِالاِسْلَامِ دِيْنًا وَ بِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں، اور میں اللہ کے رب ہونے پر، اِسلام کے دین ہونے پر اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نبی ہونے پر راضی ہوں ۔

دیلمی نے اس حدیث کو الفردوس بماثور الخطاب میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ جب انہوں نے مؤذن کو اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہ کہتے ہوئے سنا تو یہ دعا پڑھی ، اور دونوں انگشتانِ شہادت کے پوروں کو چوم کر آنکھوں سے ملا۔ یہ دیکھ کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : جس نے میرے پیارے دوست کی طرح عمل کیا، اس پر میری شفاعت حلال ہوگئی ۔

امام ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : اگر یہ عمل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے تو اس پر عمل کرنا کافی ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمان ہے : ’’تم پر میرے بعد میری سنت اور سنتِ خلفائے راشدین لازم ہے ۔ (کشف الخفاء جلد 2 صفحہ 270 رقم الحدیث 2296)

ائمہ فقہاء بھی اذان میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اسم مبارک سن کر انگوٹھے چومنے کو مستحب قرار دیتے ہیں ۔

علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ اپنے مشہور و معروف فتاویٰ رد المحتار علی الدر المختار میں فرماتے ہیں : مستحب ہے کہ اذان کی پہلی شہادت سننے پر صَلَّی ﷲُ عَلَيْکَ يَارَسُوْلَ ﷲِ اور دوسری شہادت سننے پر قُرَّةُ عَيْنِی بِکَ يَارَسُوْلَ ﷲِ کہا جائے ، اور پھر اپنے دونوں انگوٹھوں کے ناخن چوم کر اپنی آنکھوں پر رکھ کر کہو : اَللّٰهُمَّ مَتِّعْنِیْ بِالسَّمْعِ وَالْبَصَرِ کیونکہ بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایسا کرنے والے کو اپنے پیچھے جنت میں لے جائیں گے ۔ (رد المحتار جلد 1 صفحہ 398)

امام طحطاوی حنفی رحمۃ اللہ علیہ رقم طراز ہیں : قہستانی نے کنز العباد سے نقل کیا ہے کہ بے شک جب اذان میں پہلی بار اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ ﷲِ سنے تو اس کے جواب میں صَلَّی ﷲُ عَلَيْکَ يَارَسُوْلَ ﷲِ کہے اور دوسری بار سنے تو دونوں انگوٹھوں کے ناخن چومتے ہوئے یہ کہے : قُرَّهُ عَيْنِی بِکَ يَارَسُوْلَ ﷲِ ، اَللّٰهُمَّ مَتِّعْنِی بِالسَّمْعِ وَالْبَصَرِ ۔ ایسا کرنا مستحب ہے اور بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایسا کرنے والے کو جنت میں اپنے ساتھ لے جائیں گے ۔ (طحطاوی حاشيه علی مراقی الفلاح شرح نور الايضاح جلد 1 صفحہ 138)

علامہ عبد الحئی لکھنوی لکھتے ہیں : جاننا چاہیے کہ اذان میں پہلی شہادت سن کر صَلَّی ﷲُ عَلَيْکَ يَارَسُوْلَ ﷲِ اور دوسری شہادت سن کر قُرَّةُ عَيْنِیْ بِکَ يَارَسُولَ ﷲِ اور پھر دونوں انگوٹھوں کے ناخن آنکھوں پر رکھ کر اَللّٰهُمَّ مَتِّعْنِیْ بِالسَّمْعِ وَالْبَصَرِ کہنا مستحب ہے ۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس شخض کو جنت میں لے جائیں گے۔ ایسا ہی کنز العباد میں ہے ۔ (مجموعه فتاوی جلد 1 صفحہ 189)

اللہ تعالیٰ ہمیں نبی کریم ، صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سچی محبت و ادب عطاء فرمائے بے ادبوں کی شر سے بچائے آمین ۔

غلطی کا ازالہ : اس سے بعض جاہلوں کی جہالت بھی ظاہر ہو گئی جنہوں نے یہ لکھا اور کہا کہ (علماء مبتدعین انگوٹھے چومنے کی اصل روایت جو بڑے کروفر سے بیان کرتے ہیں صرف دو عدد ہیں) یہ ان کی جہالت کا بین ثبوت ہے کہ انہوں نے مطالعہ کیے بنا صرف دوحدیثیں مانیں حالانکہ اس موضوع پر بہت سی حدیثیں ہیں جنہیں ہم پیش کر چکے ہیں ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...