فضائل و مناقب حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ حصّہ نمبر 1
محترم قارئینِ کرام : اللہ تعالی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذریعہ ہمیں دولت ایمان ونعمت اسلام سے مالا مال و سرفراز فرمایا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہمیں اسلام کے احکام بتلائے قرآنی آیات سنائیں دین کی تمام تر تفصیلات بتلا دیں لیکن آپ نے احکام کی تبلیغ پر کوئی بدلہ وعوض نہ چاہا البتہ اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم سے محبت کا حکم فرمایا جیسا کہ ارشاد الہی ہے : قُلْ لَا أَسْأَلُکُمْ عَلَیْہِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبَی ۔
ترجمہ : تم فرماؤ : میں اس پر تم سے کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتا مگر قرابت کی محبت ۔ (سورہ شوریٰ آیت نمبر 23)
یعنی اے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، آپ فرما دیں کہ اے لوگو ، میں رسالت کی تبلیغ پر تم سے کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتا ، (جیسے دوسرے کسی نبی نے تبلیغِ دین پر کوئی معاوضہ نہیں مانگا) اس کے بعد جداگانہ طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کفار کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ظلم و ستم کرنے سے باز رکھنے کےلیے فرمایا کہ تمہیں کم از کم میرے ساتھ اپنی قرابَتداری یعنی رشتے داری کا خیال کرنا چاہیے ، یعنی چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قبیلہ قریش سے تعلق رکھتے ہیں اور کفارِ مکہ بھی اپنی مختلف شاخوں کے اعتبار سے قریش سے تعلق رکھتے تھے تو انہیں کہا گیا کہ اگر تم ایمان قبول نہیں بھی کرتے تو کم از کم رشتے داری کا لحاظ کرتے ہوئے ایذاء رسانی سے تو باز رہو ۔
جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت بابرکت میں عرض کیا کہ وہ قرابت دار کون ہیں جن سے محبت کرنا ہم پر ضروری ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : عَنِ ابْنٍ عَبَّاسِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا ، قَالَ : لَمَّا نَزَلَتْ : "قُلْ لا أَسْأَلُکُمْ عَلَیْہِ أَجْرًا إِلا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبَی" قَالُوا : یَا رَسُولَ اللَّہِ ، وَمَنْ قَرَابَتُکَ ہَؤُلاءِ الَّذِینَ وَجَبَتْ عَلَیْنَا مَوَدَّتُہُمْ ؟ قَالَ : عَلِیٌّ وَفَاطِمَۃُ وَابْنَاہُمَا ۔ علی فاطمہ اور ان کے دونوں شہزادے (رضی اللہ عنہم) ۔ (معجم کبیر طبرانی،حدیث نمبر2575)
اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم سے محبت کرنے کا مطالبہ بظاہر تبلیغ اسلام کا بدلہ معلوم ہوتا ہے لیکن بات ایسی نہیں ہے بلکہ ایمان کے حصول کے بعد اس کی حفاظت کا انتظام انتہائی ضروری ہوتا ہے شیطان ہروقت ایمان کو تاراج کرنے کے مواقع ڈھونڈتاہے حفاظت ایمان کی خاطر اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کی محبت ومودت کا حکم دیاگیا ،ان پاکباز ہستیوں سے تعلق ووابستگی باعث نجات اور ایمان کی حفاظت کا ذریعہ ہے ۔
جنتی جوانوں کے سردار ، جگر گوشۂ بتول ، نواسۂ رسول ، سید الشہداء ، امام عالی مقام سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ فضائل و کمالات متعدد احادیث شریفہ سے ظاہر ہیں ، آپ نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے محبوب نواسہ و لخت جگر اور نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی چہیتی صاحبزادی ، سیدۃ نساء اہل الجنۃ سیدہ بتول زہراء رضی اللہ عنہا کے پارہ دل ہیں ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کی دائمی نسبت اور کمال قربت کو ظاہر کرتے ہوئے بیان فرمایا : حُسَیْنٌ مِنِّی وَأَنَا مِنْ حُسَیْنٍ ۔
ترجمہ : حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں ۔ (جامع ترمذی ابواب المناقب باب مناقب الحسن والحسین رضی اللہ عنہما جلد 2 صفحہ 218 حدیث نمبر 4144)
ولادت باسعادت کی بشارت
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی چچی جان صاحبہ نے ایک فکر انگیز خواب دیکھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر عرض کیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کی فرحت آفریں تعبیر بیان فرمائی اور امام عالی مقام کی ولادت کی بشارت دی جیسا کہ امام بیہقی کی دلائل النبوۃ میں مذکور ہے : عَنْ أُمِّ الْفَضْلِ بِنْتِ الْحَارِثِ ، أَنَّہَا دَخَلَتْ عَلَی رَسُوْلِ اللہِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فَقَاَلَتْ : یَا رَسُوْلَ اللہِ ، إِنِّیْ رَأَیْتُ حُلْمًا مُنْکَرًا اَللَّیْلَۃَ . قَالَ : وَمَا ہُوَ ؟ قَالَتْ : إِنَّہُ شَدِیْدٌ . قَالَ : وَمَا ہُوَ ؟ قَالَتْ : رَأَیْتُ کَأَنَّ قِطْعَۃً مِنْ جَسَدِکَ قُطِعَتْ وَوُضِعَتْ فِیْ حِجْرِیْ . فَقَالَ رَسُوْلُ اللہِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم : رَأَیْتِ خَیْرًا ، تَلِدُ فَاطِمَۃُ إِنْ شَاءَ اللہُ غُلَامًا فَیَکُوْنُ فِیْ حِجْرِکِ . فَوَلَدَتْ فَاطِمَۃُ الْحُسَیْنَ فَکَانَ فِیْ حِجْرِیْ کَمَا قَالَ رَسُوْلَ اللہِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، فَدَخَلْتُ یَوْمًا عَلَی رَسُوْلِ اللہِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فَوَضَعْتُہَ فِیْ حِجْرِہِ ، ثُمَّ حَانَتْ مِنِّیْ اِلْتِفَاتَۃٌ ، فَإِذَا عَیْنَا رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہَ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تُہْرِیْقَانِ الدُّمُوْعَ . قَالَتْ : فَقُلْتُ : یَا نَبِیَّ اللہِ ، بِأَبِیْ أَنْتَ وَأُمِّیْ ، مَا لَکَ ؟ قَالَ : أَتَانِیْ جِبْرِیْلُ عَلَیْہِ السَّلَامُ فَأَخْبَرَنِیْ أَنَّ أُمَّتِیْ سَتَقْتُلُ اِبْنِیْ ہَذَا ، فَقُلْتُ : ہَذَا ؟ قَالَ : نَعَمْ ، وَأَتَانِیْ بِتُرْبَۃٍ مِنْ تُرْبَتِہِ حَمْرَاء - رواہ البیہقی فی دلائل النبوۃ ۔
ترجمہ : حضرت ام الفضل بنت حارث رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوکر عرض کیں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں نے آج رات ایک خوف ناک خواب دیکھا ہے ، سرکار نے ارشاد فرمایا آپ نے کیا خواب دیکھا ؟ عرض کرنے لگیں وہ بہت ہی فکر کا باعث ہے ، آپ نے ارشاد فرمایا وہ کیا ہے ؟ عرض کرنے لگیں : میں نے دیکھا گویا آپ کے جسد اطہر سے ایک ٹکڑا کاٹ دیا گیا اور میری گود میں رکھ دیا گیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تم نے بہت اچھا خواب دیکھا ہے ، ان شاء اللہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو صاحبزادے تولد ہونگے اور وہ آپ کی گود میں آئیں گے چنانچہ ایساہی ہوا ، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو حضرت اما م حسین رضی اللہ عنہ تولد ہوئے اور وہ میری گود میں آئے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بشارت دی تھی ، پھر ایک روز میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت بابرکت میں حاضر ہوئی اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو آپ کی خدمت بابرکت میں پیش کیا پھر اسکے بعد کیا دیکھتی ہوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چشمان اقدس اشکبار ہیں ، یہ دیکھ کر میں نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میرے ماں باپ آپ پر قربان اشکباری کا سبب کیا ہے ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جبرئیل علیہ السلام نے میری خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا : عنقریب میری امت کے کچھ لوگ میرے اس بیٹے کو شہید کرینگے ۔ میں نے عرض کیا سرکار کیا وہ اس شہزادے کو شہید کرینگے ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہاں ! او رجبرئیل امین علیہ السلام نے اس مقام کی سرخ مٹی میری خدمت میں پیش کی ۔ (دلائل النبوۃللبیہقی، حدیث نمبر:2805،چشتی)(مشکوۃ المصابیح ،ج1 ص 572، زجاجۃ المصابیح ج 5ص227/228: باب مناقب اہل بیت النبی رضی اللہ عنہم)
حضرت ام الفضل رضی اللہ عنہا کی حدیث پاک میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی ولادت مبارک کی بھی بشارت ہے اس کے ساتھ ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی غیب دانی کی شان بھی آشکار ہے کہ آپ اللہ کی عطا سے ماؤں کے پیٹ میں کیا ہے جانتے ہیں ، سورۂ لقمان کی اخیر آیت ’’وَیَعْلَمُ مَا فِی الْأَرْحَامِ ‘‘ ۔ (سورۃ لقمان:34) میں جو ذکر ہے اس سے مراد ذاتی علم ہے وہ صرف اللہ علیم و خبیر کی صفت ہے چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے عطائے خداوندی سے نہ صر ف ولادت مبارک کی بشارت دی بلکہ جنس کا تعین بھی فرما دیا ارشاد فرمایا غلاماً لڑکا تولد ہوگا و نیز یہ بھی فرما دیا کہ وہ حضرت ام الفضل رضی اللہ عنہا کی گود میں آئیں گے ۔
ولادت مبارک
حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی ولادت باسعادت کے پچاس دن بعد حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ شکم مادر مہربان میں جلوہ گر ہوئے آپ کی ولادت باسعادت روز سہ شنبہ 5 شعبان المعظم 4 ھجری مدینہ طیبہ میں ہوئی ۔ ولد لخمس لیال خلون من شعبان سنۃاربع من الہجرۃ ۔ (معرفۃ الصحابۃلابی نعیم الاصبھانی باب الحاء من اسمہ حسن)
القاباتِ مبارکہ
امام عالی مقام سید الشہداء حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو عبداللہ ہے اور القاب مبارکہ ، ریحانۂ رسول صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، سیدَ شباب اہل الجنۃ ، الرشید ، الطیب ، الزکی ، السید ، المبارک ، ہیں ۔
جب آپ کی ولادت ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کے کان میں اذان کہی جیسا کہ روایت ہے : عَنْ أَبِی رَافِعٍ ، أَنّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم : " أَذَّنَ فِی أُذُنِ الْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ حِینَ وُلِدَا ۔ (معجم کبیر طبرانی حدیث نمبر 2515،چشتی)
معجم کبیر طبرانی میں روایت ہے : عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ , أَنَّہُ سَمَّی ابْنَہُ الأَکْبَرَ حَمْزَۃَ ، وَسَمَّی حُسَیْنًا جَعْفَرًا بِاسْمِ عَمِّہِ ، فَسَمَّاہُمَا رَسُولُ اللَّہِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حَسَنًا وَحُسَیْنًا ۔
ترجمہ : حضرت سیدنا علی مرتضی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے اپنے بڑے شہزادے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کا نام مبارک حمزہ اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا نام مبارک ان کے چچا حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے نام پر رکھا ، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کا نام حسن اور حسین رضی اللہ عنہما رکھا ۔ (معجم کبیر طبرانی حد یث نمبر2713)
حسن و حسین رضی اللہ عنہما جنتی نام
حسن اور حسین یہ دونوں نام اہل جنت کے اسماء سے ہیں اور قبل اسلام عرب نے یہ دونوں نام نہ رکھے ۔ علامہ ابن حجر مکی ہیتمی رحمۃ اللہ علیہ نے الصواعق المحرقۃ صفحہ 115 میں روایت درج کی ہے : أَخْرَجَ ابْنُ سَعْدٍ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ سُلَیْمَانَ قَالَ : " اَلْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ " اِسْمَانِ مِنْ أَسْمَاءِ أَہْلِ الْجَنَّۃِ ، مَا سَمَّتِ الْعَرَبُ بِہِمَا فِیْ الْجَاہِلِیَّۃِ ۔ (الصواعق المحرقہ صفحہ 115،چشتی)(تاریخ الخلفاء جلد 1 صفحہ 149)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا عقیقہ فرمایا : عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عَقَّ عَنِ الْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ کَبْشًا کَبْشًا ۔
ترجمہ : سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرات حسن و حسین رضی اللہ عنہما کے عقیقہ میں ایک ایک دنبہ ذبح فرمایا ۔ (سنن ابوداؤد کتاب الضحایا باب فی العقیقۃ صفحہ 392 حدیث نمبر2843،چشتی)(سنن نسائی کتاب العقیقۃ حدیث نمبر 4230)(سنن بیہقی حدیث نمبر1900)
امام طبرانی کی معجم اوسط اور کنزالعمال میں روایت ہے : لَمَّا اِسْتَقَرَّ أَہْلَ الْجَنَّۃِ قَالَتْ الْجَنَّۃُ : یَا رَبِّ أَلَیْسَ وَعَدتَّنِیْ أَنْ تُزَیِّنَنِیْ بِرُکْنَیْنِ مِنْ أَرْکَانِکَ ؟ قَالَ : أَلَمْ أُزَیِّنْکِ بِالْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ ؟ فَمَاسَتِ الْجَنَّۃُ مَیْسًا کَمَا یَمِیْسَ الْعَرُوْسُ ۔
ترجمہ : جب جنتی حضرات جنت میں سکونت پذیر ہونگے تو جنت معروضہ کرے گی پروردگار ! ازراہ کرم کیا تو نے وعدہ نہیں فرمایا کہ تو ، دو ارکان سے مجھے آراستہ فرمائے گا ؟ تو رب العزت ارشاد فرمائے گا : کیا میں نے تجھے حسن و حسین رضی اللہ عنہما سے مزین نہیں کیا ؟ یہ سن کر جنت دلہن کی طرح فخر و ناز کرنے لگے گی ۔ ( معجم اوسط طبرانی حدیث نمبر343)(جامع الاحادیث للسیوطی، حدیث نمبر-1331،چشتی)(الجامع الکبیر للسیوطی، حدیث نمبر-1342)(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، حدیث نمبر-15096کنزالعمال، ج13ص106، حدیث نمبر34290)
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث شریف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حسنین کریمین رضی اللہ عنہما سے متعلق ارشاد فرمایا : فَقَالَ ہَذَانِ ابْنَایَ وَابْنَا ابْنَتِی اللَّہُمَّ إِنِّی أُحِبُّہُمَا فَأَحِبَّہُمَا وَأَحِبَّ مَنْ یُحِبُّہُمَا ۔
ترجمہ : یہ دونوں میرے بیٹے ہیں اور میری بیٹی کے بیٹے ہیں اے اللہ ! تو ان دونوں سے محبت فرما اور جو ان سے محبت رکھے اس کو اپنا محبوب بنالے ۔ (جامع ترمذی، باب مناقب الحسن والحسین علیہما السلام،حدیث نمبر 4138)
حدیث شریف میں ہے : أَحَبَّ اللَّہُ مَنْ أَحَبَّ حُسَیْنًا ۔
ترجمہ : اللہ تعالیٰ اس کو اپنا محبوب بنالے جس نے حسین رضی اللہ عنہ سے محبت رکھی ۔ (جامع ترمذی،ابواب المناقب، باب مناقب الحسن والحسین علیہما السلام جلد 2 صفحہ 218 حدیث نمبر 4144)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امام حسین رضی اللہ عنہ کو اپنی گود مبارک میں بٹھا یا اور آپ کے لبوں کو بوسہ دے کر دعاء فرمائی : اللَّہُمَّ إِنِّی أُحِبُّہُمَا فَأَحِبَّہُمَا وَأَحِبَّ مَنْ یُحِبُّہُمَا ۔
ترجمہ : الہی میں ان سے محبت رکھتا ہوں تو بھی ان سے محبت رکھ اورجو ان سے محبت رکھے اس کو اپنا محبوب بنا لے ۔ (جامع ترمذی ابواب المناقب باب مناقب الحسن والحسین علیہما السلام جلد 2 صفحہ 218 حدیث نمبر 4138)
سنن ابن ماجہ شریف میں حدیث مبارک ہے : عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم : مَنْ أَحَبَّ الْحَسَنَ وَالْحُسَیْنَ فَقَدْ أَحَبَّنِی وَمَنْ أَبْغَضَہُمَا فَقَدْ أَبْغَضَنِی ۔
ترجمہ : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے حسن اور حسین رضی اللہ عنہما سے محبت کی ، اس نے درحقیقت مجھ ہی سے محبت کی اور جس نے حسن اور حسین رضی اللہ تعالی عنہما سے بغض رکھا اس نے مجھ ہی سے بغض رکھا ۔ ( سنن ابن ماجہ شریف، باب فضل الحسن و الحسین ابنی علی رضی اللہ عنہم حدیث نمبر148،چشتی)
امام حسین رضی اللہ عنہ کی خاطر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سجدہ کو دراز فرما دیا : سنن نسائی ، مسند امام أحمد ، مصنف ابن أبی شیبۃ ، مستدرک علی الصحیحین ، معجم کبیرطبرانی ، مجمع الزوائد ، سنن الکبری للبیہقی ، سنن کبری للنسائی ، المطالب العالیۃ ، مسند أبی یعلی اور کنز العمال وغیرہ میں حدیث مبارک ہے : عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ شَدَّادٍ عَنْ أَبِیہِ قَالَ خَرَجَ عَلَیْنَا رَسُولُ اللَّہِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فِی إِحْدَی صَلَاتَیْ الْعِشَاءِ وَہُوَ حَامِلٌ حَسَنًا أَوْ حُسَیْنًا فَتَقَدَّمَ رَسُولُ اللَّہِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فَوَضَعَہُ ثُمَّ کَبَّرَ لِلصَّلَاۃِ فَصَلَّی فَسَجَدَ بَیْنَ ظَہْرَانَیْ صَلَاتِہِ سَجْدَۃً أَطَالَہَا قَالَ أَبِی فَرَفَعْتُ رَأْسِی وَإِذَا الصَّبِیُّ عَلَی ظَہْرِ رَسُولِ اللَّہِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم وَہُوَ سَاجِدٌ فَرَجَعْتُ إِلَی سُجُودِی فَلَمَّا قَضَی رَسُولُ اللَّہِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم الصَّلَاۃَ قَالَ النَّاسُ یَا رَسُولَ اللَّہِ إِنَّکَ سَجَدْتَ بَیْنَ ظَہْرَانَیْ صَلَاتِکَ سَجْدَۃً أَطَلْتَہَا حَتَّی ظَنَنَّا أَنَّہُ قَدْ حَدَثَ أَمْرٌ أَوْ أَنَّہُ یُوحَی إِلَیْکَ قَالَ کُلُّ ذَلِکَ لَمْ یَکُنْ وَلَکِنَّ ابْنِی ارْتَحَلَنِی فَکَرِہْتُ أَنْ أُعَجِّلَہُ حَتَّی یَقْضِیَ حَاجَتَہ ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن شداد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں ، انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عشاء کی نماز کےلیے ہمارے پاس تشریف لائے ، اس حال میں کہ آپ حضرت حسن یا حضرت حسین رضی اللہ عنہما کو اٹھائے ہوئے تھے ، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آگے تشریف لے گئے اور انہیں بٹھا دیا ، پھرآپ نے نماز کےلیے تکبیر فرمائی اور نماز ادا فرمانے لگے ، اثناء نماز آپ نے طویل سجدہ فرمایا ، میرے والد کہتے ہیں : میں نے سر اٹھا کر دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سجدہ میں ہیں اور شہزادے رضی اللہ عنہ آپ کی پشت انور پر ہیں ، تو میں پھر سجدہ میں چلا گیا ، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ! آپ نے نماز میں سجدہ اتنا دراز فرمایا کہ ہمیں اندیشہ ہوا کہ کہیں کوئی واقعہ پیش تو نہیں آیا، یا آپ پروحی الہی کا نزول ہو رہا ہے ، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اس طرح کی کوئی بات نہیں ہوئی سوائے یہ کہ میرا بیٹا مجھ پر سوار ہو گیا تھا ، اور جب تک وہ اپنی خواہش سے نہ اترتے مجھے عجلت کرنا نا پسند ہوا ۔ (سنن نسائی ،حدیث نمبر-1129)(مسند امام أحمد، حدیث نمبر-15456،چشتی)(مصنف ابن أبی شیبۃ جلد 7 صفحہ 514،چشتی)(مستدرک علی الصحیحین ، حدیث نمبر-4759 /6707)(معجم کبیرطبرانی، حدیث نمبر-6963)(مجمع الزوائد ، جلد 9، صفحہ181)(سنن الکبری للبیہقی،حدیث نمبر-3558)(سنن کبری للنسائی ، ج1،ص243، حدیث نمبر-727)(المطالب العالیۃ ، حدیث نمبر-4069((مسند أبی یعلی، حدیث نمبر-3334)(کنز العمال، حدیث نمبر (34380 / 37705 / 37706)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کی خاطر خطبہ کو موقوف فرما دیا جیسا کہ جامع ترمذی شریف سنن ابوداؤدشریف ، سنن نسائی شریف میں حدیث مبارک ہے : حَدَّثَنِی عَبْدُ اللَّہِ بْنُ بُرَیْدَۃَ قَالَ سَمِعْتُ أَبِی: بُرَیْدَۃَ یَقُولُ کَانَ رَسُولُ اللَّہِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یَخْطُبُنَا إِذْ جَاءَ الْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ عَلَیْہِمَا السَّلاَمُ عَلَیْہِمَا قَمِیصَانِ أَحْمَرَانِ یَمْشِیَانِ وَیَعْثُرَانِ فَنَزَلَ رَسُولُ اللَّہِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مِنَ الْمِنْبَرِ فَحَمَلَہُمَا وَوَضَعَہُمَا بَیْنَ یَدَیْہِ ثُمَّ قَالَ صَدَقَ اللَّہُ (إِنَّمَا أَمْوَالُکُمْ وَأَوْلاَدُکُمْ فِتْنَۃٌ) فَنَظَرْتُ إِلَی ہَذَیْنِ الصَّبِیَّیْنِ یَمْشِیَانِ وَیَعْثُرَانِ فَلَمْ أَصْبِرْ حَتَّی قَطَعْتُ حَدِیثِی وَرَفَعْتُہُمَا ۔
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے حضرت ابوبریدہ رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہمیں خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ حسنین کریمین رضی اللہ عنہما سرخ دھاری دار قمیص مبارک زیب تن کئے لڑکھڑاتے ہوئے آ رہے تھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم منبر شریف سے نیچے تشریف لائے امام حسن و امام حسین رضی ا للہ عنہما کو گود میں اٹھا لیا پھر (منبر مقدس پر رونق افروز ہوکر) ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ، تمہارے مال اور تمہاری اولاد ایک امتحان ہے میں نے ان دونوں بچوں کو دیکھا سنبھل سنبھل کر چلتے ہوئے آرہے تھے لڑکھڑا رہے تھے مجھ سے صبر نہ ہو سکا یہاں تک کہ میں نے اپنے خطبہ کو موقوف کر کے انہیں اٹھا لیا ہے ۔ (جا مع ترمذی شریف جلد 2 ابواب المناقب صفحہ 218حدیث نمبر 3707،چشتی)(سنن ابوداؤد کتاب الصلوۃ حدیث نمبر935)(سنن نسائی کتاب الجمعۃحدیث نمبر:1396 زجاجۃ المصابیح جلد 5 صفحہ 333)
اس حدیث مبارک سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے شہزادوں کی قدر و منزلت اور ان سے اپنے کامل قلبی تعلق کو واشگاف کر دیا کہ بچپن میں شہزادوں کے زمین پر گِر جانے کا محض احتمال بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کےلیے ناگوار خاطر مبارک ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کرم نوازی کی انتہاء فرما دی کہ شہزادوں کی خاطر خطبہ کو موقوف فرما دیا منبر شریف سے نیچے تشریف لاکر انہیں اٹھالیا ، اپنے اس عمل مبارک کے ذریعہ روزِ روشن کی طرح آشکار کر دیا کہ ان کا وجود باجود سراسر دین و شریعت ہے ، کیونکہ دنیوی امر کےلیے خطبہ موقوف نہیں کیا جا سکتا ، پھر منبر شریف پر قیام فرما ہو کر ان کے چلنے کی حسین اداؤں کا ذکر مبارک کرتے ہوئے یہ امر بھی واضح فرما دیا کہ ان کی ہر ہراداء دین و شریعت ہے ۔
امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کمال قربت کی یہ شان کہ گہوارہ میں آپ کے رونے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تکلیف ہوتی : عَنْ زَیْدِ بْنِ اَبِیْ زِیَادَۃَ قَالَ خَرَجَ رَسُوْلُ اللہِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مِنْ بَیْتِ عَائِشَۃَ فَمَرَّعَلَی بَیْتِ فَاطِمَۃَ فَسَمِعَ حُسَیْنًا یَبْکِیْ فَقَالَ اَلَمْ تَعْلَمِیْ اَنَّ بُکَائَہُ یُؤْذِیْنِیْ ۔
ترجمہ : سیدنا زید بن ابی زیادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ مبارکہ سے باہر تشریف لائے اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے دولت خانہ سے گزر ہوا امام حسین رضی اللہ عنہ کی رونے کی آواز سنی تو ارشاد فرمایا : بیٹی کیا آپ کو معلوم نہیں ان کا رونا مجھے تکلیف دیتا ہے ۔(نورالابصار فی مناقب ال بیت النبی المختار صفحہ 139،چشتی)
بچپن میں حضرت امام حسین رضی للہ عنہ کا رونا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اذیت کا باعث ہے تو غور کرنا چاہیے کہ جن ظالموں نے معرکۂ کربلا میں امام عالی مقام رضی اللہ عنہ پر مظالم کی انتہا کر دی ، دیگر اہل بیت کرام و جانثاران امام رضی اللہ عنہم کو بے پناہ تکالیف پہنچا کر انہیں شہید کیا ان بدبختوں کے ظالمانہ و بہیمانہ حرکات اور اندوہناک واقعات سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کس قدر تکلیف ہوئی ہوگی ، کیا یہ ایذاء رسانی خالی جائے گی ؟ ہرگز نہیں ! اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : إِنَّ الَّذِینَ یُؤْذُونَ اللَّہَ وَرَسُولَہُ لَعَنَہُمُ اللَّہُ فِی الدُّنْیَا وَالْآَخِرَۃِ وَأَعَدَّ لَہُمْ عَذَابًا مُہِینًا ۔
ترجمہ : بیشک جو لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تکلیف دیتے ہیں ان پر دنیا و آخرت میں اللہ نے لعنت کی ہے اور ان کےلیے ذلت آمیز عذاب تیار کر رکھا ہے ۔ (سورۃ الاحزاب:57)
کچھ لو گ یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ حضرت سید الشہداء امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ عنہ کا کربلا تشریف لے جانا اور آپ کی شہادت عظمی نعوذ باللہ سیاسی اور حصول اقتدار کےلیے لڑی جانے والی جنگ ہے ۔ جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امت کے افراد کو معرکۂ کربلا کے وقت امام حسین رضی اللہ عنہ کی تائید و نصرت کرنے کےلیے حکم فرمایا ، کیا کوئی صاحب ایمان یہ کہنے کی جرات کر سکتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حب منصب اور دنیا طلبی میں کسی کی مدد کرنے کےلیے فرمایا ہو ؟ العیاذباللہ ۔
کنزالعمال شریف میں حدیث پاک ہے : إِنَّ اِبْنِیْ ہَذَا یَعْنِی الْحُسَیْنَ یُقْتَلُ بِأَرْضٍ مِنْ أَرْضِ الْعِرَاقِ یُقَالُ لَہَا کَرْبَلَاء ، فَمَنْ شَہِدَ ذَلِکَ مِنْہُمْ فَلْیَنْصُرْہُ ۔ (البغوی وابن السکن والباوردی وابن مندہ وابن عساکر عن أنس بن الحارث بن منبہ ۔
ترجمہ : یقینا میرا یہ بیٹا یعنی حسین رضی اللہ عنہ عراق کے ایک علاقہ میں شہید کیا جائے گا ، جسے کربلا کہا جائے گا ، تو افرادِ امت میں سے جو اس وقت موجود ہو اسے چاہیے کہ ان کی نصرت و حمایت میں کھڑا ہو جائے ۔ (کنز العمال حدیث نمبر 34314،چشتی)
امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کو کس طرح دنیا کے ناپائیدار اقتدار کی طلب ہو سکتی ہے ، جبکہ آپ ہی کے گھرانہ سے ساری خلقت کو زہد و ورع ، تقوی و پرہیزگاری اور قناعت کی دولت ملی ہے ۔ سید الشہداء امام حسین رضی اللہ عنہ کو اس دنیائے فانی کی کس طرح حرص و طمع ہو سکتی ہے جبکہ آپ کے سامنے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے : قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم مَوْضِعُ سَوْطٍ فِی الْجَنَّۃِ خَیْرٌ مِنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیہَا ۔
ترجمہ : ایک کوڑا برابر جنت کی جگہ دینا اور اس کی ساری چیزوں سے بہترہے ۔ (صحیح بخاری شریف باب ماجاء فی صفۃ الجنۃحدیث نمبر 3250)
جس جنت میں ایک چابک برابر جگہ دنیا و مافیہا سے بہتر ہے ، آپ رضی اللہ عنہ تو اسی جنت میں رہنے والے جوانوں کے سردار ہیں جیسا کہ جامع ترمذی شریف کی روایت ہے : الْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ سَیِّدَا شَبَابِ أَہْلِ الْجَنَّۃِ ۔
ترجمہ : حسن اور حسین جنتی جوانوں کے سردار ہیں ۔ (جامع ترمذی،ابواب المناقب، باب مناقب الحسن والحسین علیہما السلام حدیث نمبر 4136)
معجم کبیر طبرانی ، جامع الاحادیث اور کنز العمال میں حدیث مبارک ہے : عَنْ فَاطِمَۃَ بنتِ رَسُولِ اللَّہِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم : أَنَّہَا أَتَتْ بِالْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فِی شَکْوَاہُ الَّذِی تُوُفِّیَ فِیہِ ، فَقَالَتْ : یَا رَسُولَ اللَّہِ ! ہَذَانِ ابْنَاکَ فَوَرِّثْہُمَا شَیْئًا، فَقَالَ: أَمَّا الْحَسَنُ فَلَہُ ہَیْبَتِی وَسُؤْدُدِی ، وَأَمَّا حُسَیْنٌ فَلَہُ جُرْأَتِی وَجُودِی ۔
ترجمہ : حضرت خاتون جنت سیدہ فاطمہ زہراء رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مرضِ وصال کے دوران حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں لائیں اور عرض کیا : یا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ! یہ آپ کے شہزادے ہیں ، انہیں اپنی وراثت میں سے کچھ عطا فرمائیں ! تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : حسن' میرے جاہ و جلال اور سرداری کا وارث ہے اور حسین میری جرات و سخاوت کا ۔ (معجم کبیر طبرانی، حدیث نمبر-18474(جامع الاحادیث للسیوطی مسانید النساء ، مسند فاطمۃ رضی اللہ تعالی عنہا حدیث نمبر: -43493)(کنز العمال،باب فضل الحسنین رضی اللہ عنہما، حدیث نمبر 37712)
آپ رضی اللہ عنہ کی شہادت عظمی ، بروز عاشورہ ، دس (10) محرم الحرام سنہ اکسٹھ (61) ہجری میں ہوئی ، جیسا کہ علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے الاصابۃ فی معرفۃ الصحابۃ میں نقل فرمایاہے : قال الزبیر بن بکار : قتل الحسین یوم عاشوراء سنۃ إحدی وستین وکذا قال الجمہور ۔
اولاد امجاد
آپ کو جملہ نو اولاد امجاد ہوئیں چھ شہزاد ے اور تین شہزادیاں
(1) حضرت علی اکبر رضی اللہ عنہ (2) حضرت علی اوسط (امام زین العابدین رضی اللہ عنہ) (3) حضرت علی اصغر رضی اللہ عنہ (4) حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ (5) حضرت محمد رضی اللہ عنہ (6) حضرت جعفررضی اللہ عنہ (1) حضرت سیدہ زینب رضی اللہ عنہا (2) حضرت سیدہ سکینہ رضی اللہ عنہا (3) حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ہیں ۔ (نورالابصارفی مناقب اٰل بیت النبی المختار صفحہ 52) ۔ (مزید حصہ نمبر 2 میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment