نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نام سن کر انگوٹھے چومنا مستحب ہے حصّہ دوم
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اسم شریف سن کر اہل ایمان و محبت اپنے انگوٹھے یا کلمے کی انگلیاں چوم کر آنکھوں سے لگاتے ہیں خصوصاً اذان میں ’’اشہد ان محمد رسول اللہ‘‘ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا مقدس جملہ سن کر ہر عام و خاص بتقاضائے محبت و تعظیمِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے انگوٹھے چوم کر آنکھوں سے لگاتا ہے ۔ محبتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے تقاضا کے تحت کیے جانے والے اس مستحسن فعل سے دور حاضر کے منافقین چِڑھتے ہیں اور مسلمانوں کو اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نامِ اقدس کی تعظیم کرنے سے روکتے ہیں اور اس مبارک فعل کو بھی ’’بدعت‘‘ کہتے ہیں ۔ تقبیلِ ابہامین یعنی انگوٹھے چومنے کا مسئلہ آج کل عوام میں بہت زیادہ زیر بحث بلکہ متنازعہ ہے ۔ نامِ اقدس سن کر انگوٹھے چومنے کی ممانعت کرنے والے فرقہ ٔ باطلہ کے متبعین ممانعت کی کوئی دلیل پیش نہیں کرتے بلکہ ’’بدعت ہے‘‘ ۔ ’’بدعت ہے ‘‘ کی رٹ لگاتے ہیں ۔ علاوہ ازیں عوام سے اس بات کا اصرار کرتے ہیں کہ اس فعل کے جوازکی دلیل پیش کرو ۔ عوام بے چارے بے علمی کی وجہ سے دلائل پیش نہیں کر سکتے بلکہ یہ کہتے ہیں کہ اس فعل کو ہم بزرگوں اور آباء و اجداد سے سنتے اور ان کو ایسا کرتے دیکھتے آئے ہیں ۔ بلکہ ابتدائے اسلام سے یہ فعل ملتِ اسلامیہ میں رائج ہے لیکن عظمتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے منکرین عوام کی ایک نہیں سنتے اور ممانعت پر مصر رہتے ہیں بلکہ تشدد کی حد تک ممانعت کرتے ہیں ۔ اذان میں نامِ اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سن کر انگوٹھے یا انگشتانِ شہادت چوم کر آنکھوں سے لگانا قطعاً جائز بلکہ مستحب ہے ۔ اس کے جواز اور استحباب پر سابقہ مضمون میں ہم عرض کرچکے ہیں الحَمْدُ ِلله ۔
محترم قارئینِ کرام : ملت اسلامیہ کے جلیل القدر ائمہ کرام نے حضورِ اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کا نام پاک اذان میں سن کر انگوٹھے یا انگشتانِ شہادت کو چوم کرآنکھوں پر رکھنے کے فعل کو جائز بلکہ مستحب فرمایا ہے ۔ فقہ کی مستند اور معتبر کتابوں میں اس کے استحباب کی تفصیل مرقوم ہے ۔ مثلاً : (۱) امام اجل ، علامہ محقق امین الدین محمد بن عابدین شامی کی مشہور و معروف کتاب ’’ردالمحتار حاشیہ درمختار المعروف بہ ’’ فتاوٰی شامی ‘‘ (۲)امام جلیل، خاتم المحققین ، علامہ شمس الدین قہستانی کی کتاب ’’ جامع الرموز ‘‘ّ (۳) امام اجل علامہ عبدالعلی برجندی کی کتاب ’’ شرح نقایہ ‘‘ (۴) امام فقیہ عارف باللہ سیدی فضل اللہ بن محمدبن ایوب سہرورد ی کے فتاوٰی کامجموعہ ’’فتاوٰی صوفیہ ‘‘ (۵) امام ابوالبرکات عبداللہ بن احمد سعدی کی ’’ کنزالعباد ‘‘ (۶) علامہ زین تلمیذ امام ابن حجر مکی شافعی کی ’’ قرۃ العین ‘‘ علیہم الرحمہ ۔ کتب معتمدہ میں اس فعل کے جواز کی صاف تصریح موجود ہے اور بالفرض جواز کی کوئی دلیل نہ بھی ہو پھر بھی منع ہونے کی شریعت میں دلیل نہ ہونا ہی جوازکے لیے کافی ہے ۔ جو لوگ نامِ اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سن کر انگوٹھے چوم کر آنکھوں سے لگانے کے فعل کی ممانعت کرتے ہیں ان پر لازم ہے کہ ممانعت کی صریح دلیل پیش کریں ۔
نامِ اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سن کر بتقاضائے محبت و تعظیم انگوٹھے یا انگشتان شہادت کو بوسہ لے کر آنکھوں سے مس کرنے کی ممانعت کرنے والا کوئی شخص آپ کے پاس بغرض ممانعت آئے تو اس سے پوچھو کہ جناب آپ ہمیں کیوں منع کرتے ہیں ؟ تو وہ یہی جواب دے گا کہ جناب اس فعل کا ثبوت نہیں ۔ اس کا یہ جواب سراسر غلط ہے کیونکہ اوراق سابقہ میں اس فعل کے جواز اور استحباب میںکل دس دلیلیں پیش کی گئی ہیں ۔ بالفرض مان لو کہ آپ کو وہ دلیلیں یاد نہیں تو اس سے کہو کہ جب آپ منع کررہے ہیں تو آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ شریعت سے کوئی ایسی دلیل پیش کرو کہ جس میں صاف تصریح ہو کہ نامِ اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سن کر انگوٹھے چومنا اور آنکھوں سے لگانا منع ہے ۔ آپ کا جواب سن کر وہ منع کرنے والا بوکھلا جائے گا ۔ اگر نِرا جاہل ہے تو یہی کہے گاکہ منع ہونے کی دلیل کی کیا ضرورت ہے یہ فعل بدعت ہے ۔ تب اس سے سوال کرو کہ اگر بدعت ہے تو کون سی بدعت ہے ؟ بدعت اعتقادی ہے ؟ بدعتِ عملی ہے ؟ بدعتِ حسنہ ہے ؟ بدعتِ سیئہ ہے ؟ بدعتِ محرمہ ہے ؟ بدعتِ مکروہہ ہے ؟ بدعتِ واجبہ ہے ؟ بدعتِ جائزہ ہے ؟ یا بدعتِ مستحبہ ہے ؟ ان اقسام میں سے کون سی قسم کی بدعت ہے ؟ تب وہ ممانعت کرنے والا فوراً نو ،، دو ،، گیارہ ہوجائے گا ۔ اگر وہ منع کرنے والا تھوڑا بہت پڑھا لکھا ہے تو آپ کی دلیلیں سن کر یہ جواب دیگا کہ آپ نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ والی جو حدیث اور دیگر دلائل پیش کیے ہیں وہ تمام دلیلیں ضعیف ہیں (اس پر تفصیل سے جواب آ رہا ہے ان شاء اللہ) ۔ لو ہوئی نا بات ؟ جب ممانعت کی دلیل نہ دے سکے تو جواز کی دلیلوں کو ضعیف کہہ دیا ۔ خیر ! اس منع کرنے والے سے کہوکہ جواز میں پیش کردہ ہماری دلیلیں جب آپ کے نزدیک ضعیف ہیں تو آپ پر لازم ہے کہ ممانعت کی ایسی دلیلیں پیش کرو جو ہماری دلیلوں کے مقابلہ میں زیادہ قوی اور مضبوط ہوں ۔ آپ کا یہ جواب سن کر بھی منع کرنے والا اپنی بغلیں جھانکتا ہوا راہِ فرار اختیار کرے گا ان شاء اللہ ۔
تبلیغ جماعت کا جاہل بلکہ اجہل مبلغ تبلیغی ٹولی کے ساتھ ایک آدھ چلہ یا گشت کر کے آتا ہے تو نہ جانے وہ کون سی شراب تکبر پی کر آتا ہے کہ نشہ انانیت ، کیفِ غرور اور خمارِ خود بینی میں مبتلا ہوکر اپنے آپ کو مولانا ، مولوی ، مفتی ، محدث یامجتہد سے کم نہیں سمجھتا ۔ جس کو طہارت اور نماز کے ضروری مسائل تک کی قطعاً معلومات نہیں وہ ایمان و عقائد کے اصولی مسائل میں اپنی بے تکی بقراطی چھانٹتا ہوا گھومتا ہے ۔ حبِ رسول اور عظمتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جائز اور مستحب کاموں کو عناداً اور دلیری سے ناجائز اور بدعت کے فتوے دیتا ہے ۔ حیرت تو اس بات پر ہوتی ہے کہ بدعت کا فتویٰ دینے والے کو بدعت کا صحیح تلفظ تک معلوم نہیں ہوتا اور بدعت کو ’’ بِدّت‘‘ بولتا ہے ۔
محترم قارٸینِ کرام بنظر عمیق غور فرمائیں کہ ایک طرف بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گستاخ کی عدم جواز کی بکواس ہے اور دوسری طرف ملتِ اسلامیہ کے جلیل القدر اماموں علیہم الرّحمہ کے ایمانی و عرفانی اقوال زرین ہیں جو جواز اور استحباب کی تائید فرماتے ہیں ۔ مثلاً امام دیلمی مسند الفردوس میں ۔ امام اجل علامہ علی بن سلطان ہروی قاری مکی ’’ موضوعات کبیر‘‘میں ۔ امام اجل ، شمس الدین سخاوی ’’ مقاصد حسنہ‘‘ میں ۔ امام جلیل حضرت ابوالعباس ، احمد بن ابی بکر رواد یمنی صوفی ’’ موجبات الرحمۃ وعزائم المغفرۃ ‘‘میں ۔ امام و خطیب مدینہ منورہ حضرت شمس الدین محمد بن صالح مدنی اپنی ’’ تاریخ‘‘ میں ۔ امام فقیہ عارف باللہ سیدی فضل اللہ بن محمد بن ایوب سہروردی ’’ فتاوٰی صوفیہ‘‘ میں ۔ شیخ المشائخ ، خاتم المحققین ، سیدالعلماء الحنفیہ بمکۃ المکرمہ علامہ شاہ جمال بن عبداللہ عمر مکی اپنے مجموعہ فتاوٰی میں ۔ خاتم المحققین ، امام اجل، علامہ محقق امین الدین محمد بن عابدین شامی ’’ ردالمحتارحاشیہ درمختار‘‘ المعروف بہ ’’ فتاوٰی شامی‘‘ میں ۔ امام جلیل علامہ ، عبدالعلی برجندی ’’ شرح نقایہ‘‘ میں علیہم الرّحمہ ۔ علاوہ ازیں فقہ کی معتبر و مستند کتب مثلاً مختصر الوقایہ ، کنز العباد وغیرہا میں نام اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سن کر انگوٹھے یا انگشتانِ شہادت کو بوسہ دے کر آنکھوں سے مس کرنے کے فعل کو جائز بلکہ مستحب فرمایا ہے ۔ تو ! اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ : اگر یہ فعل بقولِ منافقِ زمانہ ناجائز یا بدعت ہے تو کیا مندرجہ بالا جلیل القدر ائمہ دین علیہم الرّحمہ کو اس کے بدعت یا ناجائز ہونے کا علم نہیں تھا ؟ کیا کسی نے بھی اس مسئلہ کو صحیح طور پر نہیں سمجھا ؟ جو کام ابتدائے اسلام سے آج تک اولیاء ، صوفیاء اور سلف صالحین میں رائج اور معمول تھا ، علماء و فقہاء نے جس پر عمل کیا بلکہ اس پر عمل کرنے کی تلقین و ترغیب فرمائی وہ کام اب چودہ (۱۴۰۰) سو سال کے بعد ناجائز اور بدعت ہو گیا ؟ جس کا صاف مطلب یہی ہوا کہ چودہ سو سال تک ہوجانے والے اولیاء ، علماء ، فقہاء ، صوفیاء صلحاء وغیرہ کسی نے اسلام کو صحیح معنی میں سمجھا ہی نہیں تھا ؟ کیا اسلام کو صحیح معنی میں سمجھنے والے اب چودھویں صدی میں ہی پیدا ہوئے ہیں ؟ کیا ماضی کے تمام اسلامی افراد بے علم اور گمراہ تھے ؟
نامِ اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سن کر انگوٹھے چوم کر آنکھوں سے لگانا قطعاً جائز ہے ۔ ہمارے لیے صرف یہی اس کے جواز و استحباب کی دلیل کافی ہے کہ ملتِ اسلامیہ کے جلیل القدراماموں اور عظیم المرتبت اولیاء نے اس فعل کو کیا ہے ۔ ہم اس فعل کے جواز کے متمسک باصل ہیں اور شرعاً متمسک باصل محتاج دلیل نہیں البتہ جو ناجائز بتائے اس پر لازمی ہے کہ منع ہونے کا صریح ثبوت دے ۔ ایک اہم بات خوب یاد رکھیں کہ ایک مومن کے ایمان میں تعظیمِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عین ایمان بلکہ ایمان کی جان ہے ۔ لہٰذا جو کچھ بھی ، جس طرح بھی ، جس وقت بھی ، جس جگہ بھی ، جو کوئی بھی کام نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعظیم کےلیے کیا جائے ، خواہ وہ کام بعینیہ منقول ہو یا نہ ہو ، سب جائز و مندوب و مستحب و مرغوب ومطلوب و پسندیدہ و خوب ہے ، جب تک اس خاص کام سے کسی قسم کی شرعی ممانعت نہ آئی ہو اور جب تک اس خاص کام کے کرنے سے کوئی شرعی حرج نہ ہو ۔ تعظیمِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کےلیے کیے جانے والے کام اللہ عزوجل کے اس ارشادِ عالی میں داخل ہیں کہ ’’ لتؤمنوا باللہ ورسولہ و تعزروہ و توقروہ ‘‘ (پارہ ۲۶ ، سورہ الفتح ، آیت ۹)
ترجمہ : تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیر کرو ۔ لہٰذا جو مومن تعظیم رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی غرض سے اذان یا اقامت یا کہیں بھی نام اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سن کر انگوٹھے چوم کر آنکھوں سے لگاتا ہے وہ حکمِ الٰہی کی بجا آوری کرتا ہے اور فضل جلیل اسے شامل ہے ۔ ایک حوالہ پیشِ خدمت ہے : فتح القدیر ، منسک متوسط اور فتاوٰی عالمگیریہ میں ہے کہ : کل ما کان ادخل من الادب والاجلال کان حسناً ‘‘یعنی’’ جو کام ادب اورعظمت میں داخل ہے وہ کام پسندیدہ ہے ۔ (مزید حصّہ سوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment