معراج النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حصّہ ہفتم
ارباب فکر نے سفر معراج کی کچھ حکمتیں بیان فرمائی ہیں مگر حقیقت حال اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں ۔ ان حکمتوں سے دلجوئی محبوب سے لے کر عظمتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک منشائے ایزدی کے کئی پہلو انسانی زندگی پر واہ ہوتے ہیں ۔ مشہور مُحاوَرہ ہے کہ “ فِعْلُ الْحَکِیْمِ لَایَخْلُو عَنِ الْحِکْمَۃِ “ یعنی حکیم کا کوئی بھی کام حِکمت سے خالی نہیں ہوتا ، اللہ پاک کا ایک صِفاتی نام حکیم بھی ہے ، اس کے ہر کام میں بےشُمار حکمتیں پوشیدہ ہوتی ہیں جنہیں سمجھنے سے ہماری عقلیں قاصِر (بے بس) ہوتی ہیں ۔ اللہ پاک نے اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اعلانِ نَبُوّت کے گیارھویں سال یعنی ہجرت سے دو سال پہلے حضرت سیِّدَتُنا اُمِّ ہانی رضی اللہ عنہا کے گھر سے ستائیسویں رجب پیر کی شب میں معراج کروائی۔ اس معراج میں کئی حکمتیں ہیں جن کا ہمیں مکمل علم نہیں ۔
معراج کی پہلی حکمت یہ ہے کہ اعلان نبوت کے بعد کفار مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دیئے۔ معاشرتی سطح پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان کا بائیکاٹ کردیا جس کی بناء پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو انتہائی کرب سے گزرنا پڑا ۔ بائیکاٹ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبوب بیوی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا خالق حقیقی سے جا ملیں چنانچہ ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ اپنے پاس بلاکر سارے غم ، دکھ اور پریشانیاں دور کردی جائیں اور اپنا دیدار کروایا جائے۔ جب محبوب حقیقی کا چہرہ سامنے ہوگا تو سارے غم و تکالیف اور مصیبتیں کافور ہو جائیں گی ۔ گویا اللہ رب العزت معراج پر بلاکر اپنے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دلجوئی کرنا چاہتا ہے کہ اگرچہ دنیا میں یہ کافر تمہیں تنگ کرتے ہیں اور مصائب و آلام اور آزمائشیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر آتی ہیں مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھبرایا نہ کریں کیونکہ ہماری پیار بھری آنکھیں آپ کو تکتی رہتی ہیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ فَاِنَّکَ بِاَعْيُنِنَا ۔ (الطور، 52: 48) ۔ ترجمہ : اور (اے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) اِن کی باتوں سے غمزدہ نہ ہوں) آپ اپنے رب کے حکم کی خاطر صبر جاری رکھیے۔ بے شک آپ (ہر وقت) ہماری آنکھوں کے سامنے (رہتے) ہیں ۔
عرش پر بلاکر اللہ رب العزت نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا دیدار کرایا اور امت کی بخشش کی نوید سنائی اور 50 نمازوں کا تحفہ بھی شب معراج کو عطا کیا اور فرمایا : محبوب تیری امت دن میں پانچ نمازیں ادا کرے گی مگر اس کو ثواب پچاس نمازوں کا عطا کروں گا ۔
معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روز بہت سے واقعات پیش آئے جس کی بشارت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ عیسائی پیشواؤں نے بھی دی جن کا تذکرہ درج ذیل ہے : ⬇
عیسائی پیشوا جو مسجد اقصیٰ کا بہت بڑا پادری تھا اس نے کہا میری عادت تھی کہ میں ہر روز رات کو سونے سے پہلے مسجد کے تمام دروازے بند کردیا کرتا تھا ۔ اس رات میں نے تمام دروازے بند کردیے لیکن انتہائی کوشش کے باوجود ایک دروازہ بند نہ ہوسکا ۔ میں نے اپنے کارندوں اور تمام حاضرین سے مدد لی۔ سب نے پورا زور لگایا مگر دروازہ نہ ہلا ۔ بالآخر میں نے ترکھانوں کو بلایا تو انہوں نے اسے دیکھ کر کہا کہ اوپر کی عمارت نیچے آگئی ہے۔ اب رات میں کچھ نہیں ہوسکتا۔ صبح دیکھیں گے ۔ لہذا ہم دروازے کے دونوں کواڑ کھلے چھوڑ کر واپس چلے گئے ۔ صبح ہوتے ہی میں وہاں آیا تو دیکھا کہ دروازہ بالکل ٹھیک ہے ۔ مسجد کے پتھر پر سوراخ ہے اور سواری کے جانور باندھنے کا نشان اس میں نظر آرہا ہے ۔ یہ منظر دیکھ کر میں سمجھا کہ آج رات انتہائی کوشش کے باوجود دروازہ کا بند نہ ہونا اور پتھر میں سوراخ کا پایا جانا اس سوراخ میں جانور باندھنے کا نشان موجود ہونا حکمت سے خالی نہیں۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ آج رات اس دروازے کا کھلا رہنا صرف نبی معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےلیے تھا یقیناً اس نبی معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہماری اس مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھی ۔ (تفسیر ابن کثیر، جلد 3 صفحہ 64،چشتی)
سارے مراتب طے کروائےحکیمُ الْاُمَّت مُفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : وہ تمام مُعْجِزَات اور دَرَجات جو انبیائے کرام عَلیہمُ الصّلٰوۃ والسَّلام کو علیحدہ علیحدہ عطا فرمائے گئے ، وہ تمام بلکہ اُن سے بڑھ کر (کئی مُعْجِزَات) حُضُورِ پُرنور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو عطا ہوئے۔ اس کی بہت سی مِثالیں ہیں : حضرتِ مُوسیٰ علیہ السَّلام کو یہ دَرجہ مِلا کہ وہ کوہِ طُور پر جا کر رَبّ (کریم) سے کَلام کرتے تھے ، حضرتِ عیسیٰ علیہ السَّلام چوتھے آسمان پر بُلائے گئے اور حضرتِ اِدْرِیس علیہ السَّلام جنَّت میں بُلائے گئے توحُضُورِانور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو مِعْراج کرائی گئی ، جس میں اللہ پاک سےکلام بھی ہوا ، آسمان کی سیر بھی ہوئی ، جنَّت و دوزخ کا مُعَاینہ بھی ہوا ، غرضیکہ وہ سارے مَرَاتِب ایک ہی مِعْرَاج میں طے کرادئیے گئے۔ (شانِ حبیب الرّحمٰن ، صفحہ 107،چشتی)
ایمان بِالغیب کا مُشاہدہ کیا معراجِ مصطفےٰ کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ تمام پیغمبروں نے اللہ (کریم) کی اور جنّت و دوزخ کی گواہی دی اور اپنی اپنی اُمَّتوں سے اَشْہَدُ اَنْ لَّا ۤاِلٰہَ اِلَّا اللہ پڑھوایا ، مگر اُن حضرات (انبیائے کرام) میں سے کسی کی گواہی نہ تو دیکھی ہوئی تھی اور نہ ہی سُنی ہوئی اور گواہی کی انتہا دیکھنے پر ہوتی ہے ، تو ضرورت تھی کہ ان انبیائے کرام ( عَلیہمُ الصّلٰوۃ والسَّلام ) کی جماعَتِ پاک میں سے کوئی ایسی ہستی بھی ہو کہ جو ان تمام چیزوں کو دیکھ کر گواہی دے ، اُس کی گواہی پر شہادت کی تکمیل ہوجائے۔ یہ شہادت کی تکمیل حُضُور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ذات پر ہوئی۔ (کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تمام چیزوں کو اپنی مُبارک آنکھوں سے مُلاحظہ فرمایا) ۔ (شانِ حبیب الرّحمٰن ، صفحہ 107)
مالکِ کونین نے اپنی سلطنت دیکھی اللہ پاک نے اپنے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو تمام خزانوں کا مالک بنایا ہے ، اللہ پاک پارہ نمبر 30 سُوْرَۃُ الْکَوثَر کی آیت نمبر 1 میں اِرشاد فرماتا ہے : (اِنَّاۤ اَعْطَیْنٰكَ الْكَوْثَرَؕ ۔ تَرْجَمَہ : اے محبوب بے شک ہم نے تمہیں بے شمار خوبیاں عطا فرمائیں ۔ حضور مالکِ کونین ، شبِ اسریٰ کے دولہا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں : میں سورہا تھا کہ زمین کے تمام خزانوں کی کنجیاں لائی گئیں اور میرے دونوں ہاتھوں میں رکھ دی گئیں ۔ (بخاری ، 2 / 303 ، حدیث : 2977) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرشاد فرمایا : میں (اللہ پاک کے خزانوں کا) خازِن ہوں ۔ (مسلم ، ص512 ، حدیث : 1037) حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اللہ پاک کی عطا سے اس کی تمام سلطنت کے مالِک ہیں ، اسی لیے جنَّت کے پتّے پتّے پر ، حُوروں کی آنکھوں میں غرضیکہ ہر جگہ لَاۤاِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌرَّسُوْلُ اللہ لکھا ہوا ہے : یعنی یہ چیزیں اللہ (کریم) کی بنائی ہوئی ہیں اور مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ کو دی ہوئی ہیں۔ (تو معراج کروانے میں) اللہپاک کی مرضی یہ تھی کہ (دوجہانوں کے خزانوں کے) مالِک کو اس کی ملکیت دِکھا دی جائے ۔ (شانِ حبیب الرّحمٰن ، صفحہ 107) ۔ اس لیے معراج کی رات یہ سیر کروائی گئی ۔
سلسلۂ شفاعت میں آسانی کل بروزِ قِیامت نبیِّ رحمت ، شفیعِ اُمّت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے شفاعت فرمانی ہے ، بلکہ شفاعت کا دروازہ آپ سے کھلنا ہے ، اللہ پاک نے اپنے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو کائنات کے عجائبات ، جنّت کے درجات اور جہنّم کا مُشاہدہ کرادیا ، اس کے علاوہ اور بھی بڑی بڑی نشانیاں دکھائیں تاکہ قِیامت کے ہولناک دن کی ہیبت آپ پر طاری نہ ہوسکے ، پورے عزم و اِستقلال کے ساتھ شفاعت کر سکیں۔ (معارج النبوۃ صفحہ 80،چشتی)
وحی کی تمام اقسام کا شرف وحی کی ایک قسم یہ ہے کہ اللہ پاک بِلاواسطہ کلام فرمائے اور یہ وحی کی سب سے اعلیٰ قسم ہے ، معراج کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ سرورِ کائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تمام اقسامِ وحی سے شرف پائیں ، کُتبِ تفاسیر میں لکھا ہے کہ “ اٰمَنَ الرَّسُوْلُ “ والی آیات جو کہ سُوْرَۃُ الْبَقَرہ کی آخری 2 آیات ہیں ، نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے معراج کی رات اللہ پاک سے بِلاواسطہ سُنی ، اسی طرح کچھ سُورَۃُ الضُّحیٰ اور کچھ سُورَۂ اَلَم نَشْرَح معراج کی رات سُنی۔(روح البیان ، پ25 ، الشوریٰ الآیۃ : 51 ، 8 / 345)
معراج النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو ہمارے ہاں بالعموم ایک مذہبی نوعیت کا واقعہ سمجھا جاتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ واقعہ عروج آدم خاکی کا شاندار مظہر ہے،تسخیر کائنات کے سفر کا ایک اہم سنگ میل ہے ،جدید سائنسی انکشافات اور اکتشافات کا نقطہ اوّل ہے،اور حضرت انسان کے ذہنی و فکری ارتقاء کی روشن دلیل ہے۔تاریخ اسلام میں واقعہ معراج کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے ،جن دنوں میں یہ واقعہ پیش آیا وہ ایام اہل اسلام کےلیے سخت ابتلاء اور آزمائش کے تھے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے تیرہ برس سرزمین مکہ پر پیغام توحید پہنچانے میں صر ف کئے، طائف سے بھی ہو آئے اگرچہ آپ کا حلقہ اثر پہلے کے مقابلے میں بہت بڑھ چکا تھامگر اسی حساب سے کفار کے رد عمل میں بھی سختی آتی جا رہی تھی،نظر انداز کر دینے والی پالیسی سے کفار کا رد عمل شروع ہوا تھااب وہ باقاعدہ جسمانی تعذیب تک پہنچ چکا تھا، اس دوران میں طنزو استہزا، کٹ حجتی،الزام تراشی ،غلام اور نادار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر تشدد، سماجی مقاطعہ ایسی مشکلات سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور آپ کے رفقاء دوچار رہے اب کھلم کھلا پیغمبر کے قتل کے منصوبے بن اور چرچے ہو رہے تھے ، اس ماحول میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا سفر معراج اپنے اندر بہت سی حکمتوں کا حاصل معلوم ہوتا ہے ۔
ایک طرف اپنے رفقاء کےلیے حوصلہ افزائی تھی کہ اہل دنیا چا ہے لاکھ مخالفت کریں لیکن اللہ تعالی کی مدد او ر قرب بہرحال ہمیں حاصل ہے دنیا خواہ ہمیں نظر انداز اور فراموش کر دے خداوند عالم کبھی ہمیں نظر انداز اور فراموش نہیں کرے گا،دوسری طرف کفار کے لئے یہ تنبیہہ موجود تھی کہ تم جس قدر چاہو ہم پر اپنی سر زمین تنگ کر دواللہ تعالی نے اس کے مقابلے میں ہمارے لیے آسمانوں کے دروازے کھول دیئے ہیں اور یہ ایک طرح کا استعارہ تھاکہ جو خدا اپنے نبی کےلیے خلاف عادت آسمانوں پر جانے کے لئے راستہ کھول سکتا ہے وہ دنیا کی توقع کے برعکس فروغ اسلام کےلیے بھی نئی راہیں ہموار کر سکتا ہے ،چنانچہ یہی ہواکہ سفر معراج سے واپس آتے ہی متصل زمانے میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اذن ہجرت ملا،اور سفر ہجرت اسلامی انقلاب کے قیام اور اسلام کی وسعت کا ذریعہ ثابت ہوا ، قیام مکہ کے تیرہ برس میں جو چھوٹی سی جماعت تیار ہوئی تھی وہ مدینہ منورہ پہنچتے ہی ایک ملت اور امت کی تشکیل کا باعث بن گئی،ہجرت کے بعد یہ پیغام دس برس کے اندر اندر دس لاکھ مربع میل تک پھیل گیااور فتح مکہ جیسا عظیم واقعہ بھی ہوا ۔سفر معراج اپنے اندر یہ معجزانہ شان بھی رکھتا ہے کہ اللہ تعالی جب چاہے دنیا کے اندازے اور قاعدے ضابطے پلٹ کر رکھ دے ، معراج کے حوالے سے کفار کو یہ حیرت تھی کہ رات کے ایک حصے میں اتنا بڑا سفر کیسے کیا جا سکتا ہے ؟ وہ لوگ اللہ کی قدرت کو بھلا بیٹھے تھے اس طرح دنیا بھر کو یہ حیرت لاحق رہی کہ مدینے میں قدم رکھتے ہی چند برسوں کے اندر اتنا عظیم الشان انقلاب کیسے برپا ہو گیا ؟واقعہ معراج میںایک حکمت یہ بھی پو شیدہ تھی کہ اس سے منصب نبوت اور اس کا مزاج واضح ہوا ہے، منصب نبوت یہ ہے کہ وہ بندوں اور خدا کے درمیان رابطے کا کام دیتا ہے ، اسوہ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے بندے جان جاتے ہیں کہ اخلاق الہی کیا ہے ؟
واقعہ معراج سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سائنس دان ہو یا فلسفی ،اس کے سارے دعوے اور فلسفے کی بنیاد ظن اور گمان پر ہوتی ہے وہ عمر کے آخری حصے میں بھی اپنی بات کو حرف آخر قرار دینے کی پو زیشن میں نہیں ہوتا لیکن پیغمبرجو بات بھی کہتا ہے سرا سر مشاہدے کی بنیاد پر کہتا ہے اس لیے سائنس دان کی آخری بات بھی تشنہ ہوتی ہے اور فلسفی کی ہر کلی اور جزئی محتاج صداقت ہوتی ہے جبکہ پیغمبر کی پہلی بات ہی حتمی اور قطعی ہوتی ہے اس لئے کہ اس کا ذریعہ علم قیاسی اور سماعی نہیں ہوتا بلکہ ایقانی اور مشاہداتی ہوتا ہے ۔
سفر معراج کا ایک مقصد یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سر زمین مکہ پرجو کشمکش برپا تھی اس کی بنیاد یہ تھی کہ ڈھیر سارے خدائوں کے مقابلے میں ایک خدا کو کیسے مان لیا جائے؟ اور فی الواقع ایک خدا ہے تو وہ کس نے دیکھا ہے؟پہلے نبی سے لے کر عیسی ؑ تک ہر ایک نے توحید کی بات کی مگر کسی نے خدا کو دیکھنے کا دعوی نہیں کیا ،حضرت موسی ؑ نے کلام خدا وندی براہ راست سنا لیکن دیکھنے کی خواہش پرانہیں لن ترانی کا جواب ملا،اب چونکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم آخری نبی تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد اللہ تعالی نے براہ راست کسی سے مخاطب نہیں ہونا تھا اس لیے ضروری تھاکہ لوگوں کو اس سوال کا حتمی جواب آنا چاہیے کہ کسی نے خدا کو بھی دیکھا ہے یا نہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے سر کی آنکھوں سے مشاہدہ کر کے (جیسا کہ سابقہ حصّوں میں ہم دلاٸل کے ساتھ عرض کرچکے ہیں چشتی) دنیا کو بتایا کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کے ذمے سوال کا جواب میں مہیا کرتا ہوں کہ ہاں اس خدائے واحد کو میں نے دیکھا ہے، اور سر کی آنکھوں سے دیکھا ہے اس طرح عقیدہ توحید قیاسی نہیں مشاہداتی بن گیا ، سفر معراج نے وہ آخری دلیل بھی مہیا کردی اور اس عقدے کی گرہ کشائی کر دی جو مشہود خدا کا تصور رکھنے والے ذہنوں میں صدیوں سے موجود چلا آرہا تھا ۔ آج تسخیر آفاق ایک سائنسی مشاہدہ بن گیا ہے مگر اس مشاہدے کو بنیاد سفر معراج نے فراہم کی ، یہ امر ہر ایک جانتا ہے کہ معلوم انسانی تاریخ میں صدیوں تک ستارے ،چاند ،سورج اور آسمان کی پوجا ہوتی رہی اس لئے کہ یہ چیزیں انسانی دسترس سے باہر تھیں ، ان تک انسان پہنچ نہیں پاتا تھا، ستاروں کا جھرمٹ بہت دلفریب لگتا تھا، چاند بہت نظر معلوم ہوتا تھا ، سورج کی تمازت میں ایک طرح کی ہیبت تھی، آسمان کی بلندی کے سامنے انسان خود کو بہت پست تصور کرتا تھا سفر معراج نے انسان کو اس کے حقیقی مقام سے روشناس کرایا ، انسان کو یہ ادراک پہلی بار حاصل ہوا کہ کارخانہ قدرت میں جو کچھ بھی ہے خواہ وہ نظر فریب ہو یا دلنواز ، وسیع ہو یا بسیط ، جلال آمیز ہو یا دہشت انگیز ، کچھ بھی ہو مقام و مرتبے میں بندہ خاکی سے فروتر ہے اور اپنی تمام تر گہرائیوں ، رعنائیوں ، پہنائیوں اور وسعتوں کے باوجود اس کی گرفت میں ہے ۔ (مزید حصّہ ہشتم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment