ضروریاتِ دین و مذھبِ اہلِ سنت
محترم قارئینِ کرام : ارباب علم و دانش اور اصحاب فضل و کمال کے سامنے یہ حقیقت آفتاب عالم تاب کی طرح روشن ہے کہ احکام شرعیہ و مسائل فرعیہ کےمراتب و درجات مختلف ہیں ، کیوں کہ ان میں بعض کا ثبوت آیات و احادیث وغیرہ کے ذریعہ اتنا واضح اور صریح ہوتا ہے کہ اس میں کسی شبہ اور تاویل کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی اور ان میں علماء کرام و فقہاء عظام کے درمیان کوئی اختلاف بھی نہیں ہوتا ۔ اس لیے ایسے احکام و مسائل کے منکر کو کافر کہا جاتا ہے ، اور بعض احکام ومسائل ایسے دلائل سے ثابت ہوتے ہیں جن میں تاویل کا احتمال باقی رہتاہے ۔ اس لیے ان کے منکر کو کافر نہیں ، بلکہ گمراہ یا بد دین کہا جاتا ہے ، اور بعض احکام و مسائل ایسے ہیں جن کا ثبوت ان سے بھی کم درجے کے دلائل سے ہوتا ہے ۔ اس لیے ان کے منکر کو گمراہ اور بدمذہب بھی نہیں کہا جاتا ، بلکہ گنہگار یا صرف قصور وار کہا جاتا ہے ۔ اس تناظر میں ہمارے فقہاے کرام علیہم الرحمہ کی کتابوں میں ضروریاتِ دین اور ضروریاتِ مذہبِ اہل سنت وجماعت کے الفاظ کثرت سے استعمال ہوتے ہیں ۔ اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ سردست ”ضروریاتِ دین“ اور ”ضروریاتِ مذہبِ اہل سنت وجماعت“ کی تھوڑی وضاحت کردی جائے اوراس کے ساتھ ہی بعض دیگر مسائل کا بھی اجمالی تذکرہ ہوجائے ۔
ضروریات ِ دین کی تعریف
ضروریاتِ دین وہ احکام و مسائل ہیں جو قرآنِ کریم یا حدیث متواتر یا اجماع سے اس طرح ثابت ہوں کہ ان میں نہ کسی شبہے کی گنجائش ہو ، نہ تاویل کی کوئی راہ ہو ، اور ان احکام ومسائل کا دین سے ہونا خواص و عوام سبھی جانتے ہوں ۔ جیسے اللہ جل شانہ کی وحدانیت ، انبیا ومرسلین علیہم الصلاۃ والتسلیم کی نبوت ورسالت اور ان کی عظمتِ شان کا اعتقاد ، یوں ہی حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا آخری نبی ہونا ۔ یہاں خواص سے مراد علماء کرام ہیں اور عوام سے مراد وہ مسلمان ہیں جو علماء کرام کی صحبت میں رہتے ہیں اور مسائل علمیہ دینیہ کا ذوق رکھتے ہیں ، نہ کہ وہ دیہات ، جنگل اور پہاڑوں کے رہنے والے انسان جو کلمہ بھی صحیح سے نہیں پڑھ سکتے ، کہ ایسے لوگوں کا ضروریاتِ دین سےناواقف ہونا اس ضروری کو غیر ضروری نہ کرےگا ۔ ہاں ان کے مسلمان ہونے کےلیے یہ بات ضروری ہے کہ وہ ضروریاتِ دین کے منکر نہ ہوں اور یہ اعتقاد رکھتے ہوں کہ اسلام میں جو کچھ ہے حق ہے اوران سب پر ہمارا ایمان ہے ۔
بہار شریعت میں ہے : ضروریاتِ دین وہ مسائلِ دین ہیں جن کو ہر خاص و عام جانتے ہوں ، جیسے ﷲ عزوجل کی وحدانیت ، انبیا کی نبوت ، جنت و نار ، حشر و نشر وغیرہا ۔ مثلاً یہ اعتقاد کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم خاتم النبیین ہیں ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد کوئی نیا نبی نہیں ہوسکتا ۔ (بہارِ شریعت حصہ اول ،ص ۱۷۲،ایمان وکفر کا بیان ،مکتبۃ المدینہ)
فتاویٰ امجدیہ میں ہے : ضروریات دین میں ائمہ وعلماکا اختلاف نہیں ہو سکتا ، یہ وہ مسائل ہیں کہ ان کے علم میں اہل علم اور غیر برابر ہیں ، ہر ایک کو ان کا دین سے ہونا معلوم ہے ، اور غیر اہل علم سے مراد یہاں کے وہ لوگ ہیں جو علماء کی صحبت پائے ہوئے ہیں ۔ (فتاویٰ امجدیہ ، ج ۴، ص ۳۸۵)
ضروریاتِ دین کے احکام
ضروریاتِ دین کا منکر، یا ان میں ادنیٰ شک کرنے والا، یاان میں باطل تاویلات کا مرتکب کافر ہوتا ہے ۔ اور ایسا کافر ہوتا ہے کہ جو اسے مسلمان جانے یا اس کے کفر میں شک کرے وہ بھی کافر ہو جائے ۔
فتاویٰ رضویہ میں ہے : مسلمانو ! مسائل تین قسم کے ہوتے ہیں : ایک ضروریاتِ دین ، اُن کا منکر ، بلکہ اُن میں ادنیٰ شک کرنے والا بالیقین کافر ہوتا ہے ، ایسا کہ جو اس کے کفر میں شک کرے وہ بھی کافر ۔ (فتاویٰ رضویہ مترجم ، ج۲۹،ص۶۶،)
اسی میں دوسری جگہ ہے : ضروریاتِ دین کا جس طرح انکار کفر ہے ، یوں ہی ان میں شک و شبہہ اور احتمالِ خلاف ماننا بھی کفر ہے ، یوں ہی ان کے منکر یا ان میں شاک کو مسلمان کہنا ، اسے کافر نہ جاننا بھی کفر ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ مترجم ،ج۱۴،ص۶۱،چشتی)
ضروریاتِ مذہبِ اہلسنّت و جماعت
ضروریاتِ مذہبِ اہلِ سنت و جما عت وہ مسائل ہیں جودلیل قطعی سے ثابت ہوں ، لیکن ان میں تاویل کا احتمال ہو ۔ جیسے اللہ جل شانہ کا جسم و جسمانیات سے پاک و منزہ ہونا اعتقاد الاحباب فی الجمیل والمصطفیٰ والآل والاصحاب میں ہے : دوم ضروریاتِ مذہبِ اہلِ سنت وجماعت ،ان کا ثبوت بھی دلیل قطعی سے ہوتاہے ، مگر ان کے قطعی الثبوت ہونے میں ایک نوعِ شبہہ اور تاویل کا احتمال ہوتا ہے ۔ (اعتقاد الاحباب فی الجمیل والمصطفیٰ والآل والاصحاب ، مشمولہ فتاویٰ رضویہ مترجم ، ج۲۹،ص ۶۲)
ضروریاتِ مذہبِ اہلِ سنت و جماعت کا منکر کافر نہیں ہوتا ، بلکہ وہ گمراہ ، بذمذہب اوربددین کہلاتا ہے ۔ فتاویٰ رضویہ میں ہے : دوم ضروریاتِ عقائد اہلِ سنت ، ان کا منکر بدمذہب ، گمراہ ہوتا ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ مترجم، ج۲۹، ص۶۶)
اسی میں دوسری جگہ ہے : ان (ضروریاتِ مذہبِ اہل سنت) کا منکر کافر نہیں ، بلکہ گمراہ ، بذمذہب ، بددین کہلاتا ہے ۔ (اعتقاد الاحباب فی الجمیل والمصطفیٰ والآل والاصحاب ، مشمولہ فتاویٰ رضویہ مترجم جلد ۲۹ صفحہ ۶۲)
بعض دیگر مسائل اور ان کے احکام
ان دونوں (ضروریاتِ دین اور ضروریاتِ مذہبِ اہلِ سنت) کے علاوہ بعض مسائل وہ ہیں جن میں علماء اہل سنت کے درمیان اختلاف ہے ، ان میں کسی کی تکفیر یا تضلیل ممکن نہیں ، چنانچہ فتاویٰ رضویہ میں ہے : سوم وہ مسائل کہ علماء اہل سنت میں مختلف فیہ ہوں اُن میں کسی طرف تکفیر و تضلیل ممکن نہیں ۔ جیسے : رسول ﷲ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو تعیینِ وقتِ قیامت کا بھی علم ملا ۔ اور حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو بلا استثناء جمیع جزئیات خمس کا علم ہے ۔ اور جملہ مکنونات قلم و مکتوبات لوح بالجملہ روزِ اول سے روزِ آخر تک تمام ماکان ومایکون مندرجہ لوحِ محفوظ اور اس سے بہت زائد کا علم ہے جس میں ماوراء قیامت تو جملہ افراد خمس داخل اور دربارۂ قیامت اگر ثابت ہو کہ اس کی تعیین وقت بھی درج لوح ہے تو اسے بھی شامل، ورنہ دونوں احتمال حاصل ۔ اور حضور پُرنور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو حقیقتِ روح کا بھی علم ہے ۔ اور جملہ متشابہات قرآنیہ کا بھی علم ہے ، یہ پانچوں مسائل قسم سوم سے ہیں کہ ان میں خود علما و آئمہ اہل سنت مختلف رہے ہیں ۔ ان میں مثبت و نافی کسی پر معاذ ﷲ کفر کیا ،معنی ضلال یا فسق کا بھی حکم نہیں ہو سکتا ۔ (فتاویٰ رضویہ مترجم جلد ۲۹ صفحہ ۶۶،چشتی)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ ان تمام صورتوں کی قدرے تفصیل اس طرح بیان فرماتے ہیں : نصوصِ قرآنیہ و احادیثِ مشہورہ متواترہ و اجماعِ امت مرحومہ مبارکہ سے جو کچھ دربارۂ الوہیت ورسالت و ماکان و مایکون ثابت ، سب حق ہیں اور ہم سب پر ایمان لائے ، جنت اور اس کے جانفزا احوال ، دوزخ اور اس کے جاں گزاحالات ، قبر کے نعیم و عذاب، منکر نکیر سے سوال و جواب روزِ قیامت حساب و کتاب ووزنِ اعمال و کوثر وصراط و شفاعۃ عصاۃ اہلِ کبائر اور اس کے سبب اہل کبائر کی نجات الیٰ غیر ذالک من الواردات سب حق ،جبر و قدر باطل ولٰکن أمر بین اَمَرَین جو بات ہماری عقل میں نہیں آتی اس کو موکول بخدا کرتے اور اپنا نصیبہ اٰمَنّا بِہٖ کُلّ مِنۡ عِنۡدِ رَبِّنَا بناتے ہیں ۔
مانی ہوئی باتیں چارقسم کی ہوتی ہیں
(1) ضروریاتِ دین : ان کا ثبوت قرآن عظیم یا حدیث متواتر یا اجماع قطعیات الدلالات واضحۃ الافادات سے ہوتا ہے ، جن میں نہ شبہے کی گنجائش ، نہ تاویل کو راہ ۔ اور ان کا منکر یا ان میں باطل تاویلات کا مرتکب کافر ہوتا ہے ۔
(2) ضروریاتِ مذہبِ اہل سنت و جماعت : ان کا ثبوت بھی دلیل قطعی سے ہوتا ہے۔ مگر ان کے قطعی الثبوت ہونے میں ایک نوعِ شبہہ اور تاویل کا احتمال ہوتا ہے ۔ اسی لیے ان کا منکر کافر نہیں ، بلکہ گمراہ ، بذمذہب ، بددین کہلاتا ہے ۔
(3) ثابتات محکمہ
ان کے ثبوت کو دلیل ظنی کافی جب کہ اس کا مفاد ، اکبر رائے ہو کہ جانبِ خلاف کو مطروح و مُضْمَحِل اور التفاتِ خاص کے ناقابل بنادے، اس کے ثبوت کے لیے حدیثِ اَحاد، صحیح یا حسن کافی، اور قول سوادِ اعظم و جمہور علماء کا سندِ وافی (بڑے بڑے علمائے حقہ کی سب سے بڑی جماعت کی بات دلیل کے لیے کافی) (فَاِنَّ یَدَ اللّٰہِ عَلَی الْجَمَاعَۃِ) (اللّٰہ تعالیٰ کا دستِ قدرت جماعت پر ہوتا ہے ۔ (سنن نسائی کتاب تحریم الدم،باب قتل من فارق الجماعۃ۔۔۔الخ،ص۶۵۶،حدیث:۴۰۲۷) ۔ ان کا منکر وضوحِ امر کے بعد (حکم کے ظاہر ہونے کے بعد) خاطی و آثم خطا کارو گناہگار قرار پاتا ہے ، نہ بددین و گمراہ، نہ کافر و خارج اَز اسلام ۔ (اسلام سے باہر)
(4) ظنّیاتِ محتملہ
ان کے ثبوت کے لیے ایسی دلیلِ ظنی بھی کافی جس نے جانبِ خلاف کے لیے (اختلاف کی جانب) بھی گنجائش رکھی ہو، ان کے منکر کو صرف مُخطی (غلطی سے خطا کرنے والا) و قصور وار کہا جائے گا نہ کہ گنہگار ، چہ جائیکہ گمراہ ، چہ جائیکہ کافر ۔ (پھر کافر وگمراہ کیسے کہہ سکتے ہیں)
ان میں سے ہر بات اپنے ہی مرتبے کی دلیل چاہتی ہے، جو فَرقِ مَراتِب نہ کرے اور ایک مرتبے کی بات کو اس سے اعلیٰ درجے کی دلیل مانگے وہ جاہل بے وقوف ہے یا مکّار فَیْلْسُوف ۔
فتاویٰ رضویہ جلد اول صفحہ ۱۸۱ پر ضروریاتِ دین کی یہ تعریف کی گئی ہے کہ : فُسِّرَتِ الضَّرُوْرِیَّاتُ بِمَا یُشْتَرَکُ فِیْ عِلْمِہِ الْخَوَاصّ وَالْعَوَام۔ ضروریاتِ دین کی تفسیر یہ کی گئی کہ وہ دینی مسائل جن کو خواص وعوام سب جانتے ہوں ۔
مزید اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحمٰن اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں : میں کہتا ہوں کہ عوام سے وہ لوگ مراد ہیں جن کا دین کے ساتھ تعلق اور علماۓ دین کے ساتھ میل جول ہے ، ورنہ بہت سے جاہل دیہاتی خصوصاً ہندوستان اور مشرق میں ایسے ہیں جو کئی ضروریاتِ دین کو نہیں جانتے ، یہ نہیں کہ وہ ان اُمور کے مُنکِر ہیں بلکہ ان سے غافل ہیں ، نہ پہچاننا اور کسی چیز کے عدم کا پہچاننا اور ہے اگرچہ جہل مرکب ہی ہو ۔ ( فتاویٰ رضویہ،۱/ ۱۸۱-۱۸۲،چشتی)
ضروریاتِ دین کی چندمثالیں
جیسے خداکو ایک ماننا ۔۔۔۔۔ اور اس کے تمام رسولوں پر ایمان لانا ۔۔۔۔۔ اور فرشتوں کے وجود پر ایمان لانا ۔
فتاویٰ رضویہ میں ہے : خدا کی توحید اوراس کے رسولوں پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ فرشتوں کے وجود پر بھی ایمان لانا ضروریاتِ دین میں سے ہے ۔ [فتاویٰ رضویہ مترجم، ج۲۹،ص۳۸۴]
اور جنت کے وجود پر ایمان لانا ۔۔۔۔۔۔۔ اور دوزخ کے وجود پر ایمان لانا ۔۔۔۔۔ اسی طرح حشر ونشر کو حق جاننا ۔
مصنف ’’بہارِ شریعت‘‘ حضرت صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ بھی ضروریاتِ دین کی تعریف کچھ اس طرح کرتے ہیں : ضروریاتِ دین وہ مسائلِ دین ہیں جن کو ہر خاص و عام جانتے ہوں ، جیسے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی وحدانیت، انبیا کی نبوت، جنت و نار ، حشر و نشر وغیرہا ، مثلاً یہ اِعتقاد کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم خاتم النبیین ہیں ، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بعد کوئی نیا نبی نہیں ہو سکتا ۔ عوام سے مراد وہ مسلمان ہیں جو طبقۂ علماء میں نہ شمار کیے جاتے ہوں ، مگر علما کی صحبت سے شرفیاب ہوں اور مسائلِ علمیہ سے ذوق رکھتے ہوں ، نہ وہ کہ کوردہ اور جنگل اور پہاڑوں کے رہنے والے ہوں جو کلمہ بھی صحیح نہیں پڑھ سکتے ، کہ ایسے لوگوں کا ضروریاتِ دین سے ناواقف ہونا اُس ضروری کو غیر ضروری نہ کر دے گا ، البتہ ان کے مسلمان ہونے کے لیے یہ بات ضروری ہے کہ ضروریاتِ دین کے مُنکِر نہ ہوں اور یہ اِعتقاد رکھتے ہوں کہ اسلام میں جو کچھ ہے حق ہے ، ان سب پر اِجمالاً ایما ن لائے ہوں ۔ (بہارِ شریعت ، ۱/۱۷۲-۱۷۳،چشتی)
جیسے عالَم کو حادث ماننا ۔ اور حشر اجسام پر ایمان رکھنا ۔ اور اللہ جل شانہ کو عالم کلیات وجزئیات ماننا ۔ مواقف میں ہے : اِعْلَمْ اَنَّ الْمُرَادَ بِاَھْلِ الْقِبْلَۃِ الَّذِیْنَ اتَّفَقُوْاعَلیٰ مَاھُوَ مِنْ ضَرُوْرِیَاتِ الدِّیْنِ کَحُدُوْثِ الْعَالَمِ وَحَشْرِالْاَ جْسَادِ وَعِلْمِ اﷲِ تعالٰی بِا لْکُلِّیَّاتِ وَالْجُزْ ئِیَّاتِ وَمَا اَشْبَہَ ذٰلِکَ مِنَ الْمَسَائِل الْمُھِمَاتِ ۔ (ایمان کی پہچان مع حاشیہ تمہید ایمان ۔ از امام اہل سنت امام احمد رضا خان قادری،ص۱۰۵،۱۰۶)
جیسے تمام آسمانی کتابوں کو منزل من اللہ جاننا ۔ اور اس پر یقین رکھنا کہ جن و ملائکہ ۔ اور قیامت و بعث ۔ اور حشر ونشر ۔ اور حساب و کتاب ۔ اور ثواب و عذاب ۔ اور جنت و دوزخ کے وہی معنی ہیں جو مسلمانوں میں مشہور ہیں ۔
فتاویٰ رضویہ میں ہے : یاد رکھنا چاہیے کہ وحی الٰہی کا نزول ، کتبِ آسمانی کی تنزیل ، جن و ملائکہ ، قیامت و بعث ، حشر و نشر ، حساب و کتاب ، ثواب و عذاب اور جنت و دوزخ کے وہی معنی ہیں جو مسلمانوں میں مشہور ہیں اور جن پر صدر اسلام سے اب تک چودہ سو سال کے کافۂ مسلمین و مومنین دوسرے ضروریاتِ دین کی طرح ایمان رکھتے چلے آرہے ہیں ، مسلمانوں میں مشہور ہیں ۔ جو شخص ان چیزوں کو تو حق کہے اور ان لفظوں کا تو اقرار کرے ،مگر ان کے نئے معنٰی گھڑے مثلاً یوں کہے کہ جنت و دوزخ و حشر ونشر و ثواب و عذاب سے ایسے معنی مراد ہیں جو ان کے ظاہر الفاظ سے سمجھ میں نہیں آتے ۔ یعنی ثواب کے معنی اپنے حسنات کو دیکھ کر خوش ہونا ۔ اور عذاب ، اپنے برے اعمال کو دیکھ کر غمگین ہونا ہیں ۔ یا یہ کہ وہ روحانی لذتیں اور باطنی معنی ہیں ، وہ کافر ہے ۔ کیوں کہ ان امور پر قرآن پاک اور حدیث شریف میں کھلے ہوئے روشن ارشادات موجود ہیں ۔ یوں ہی یہ کہنا بھی یقیناً کفر ہے کہ پیغمبروں نے اپنی اپنی اُمتوں کے سامنے جو کلام ، کلامِ الٰہی بتا کر پیش کیا وہ ہر گز کلامِ الٰہی نہ تھا ، بلکہ وہ سب انھیں پیغمبروں کے دلوں کے خیالات تھے جو فوارے کے پانی کی طرح انھیں کے قلوب سے جوش مار کر نکلے اور پھر انھیں کے دِلوں پر نازل ہو گئے ۔ یوں ہی یہ کہنا کہ نہ دوزخ میں سانپ ، بچھو اور زنجیریں ہیں اور نہ وہ عذاب جن کا ذکر مسلمانوں میں رائج ہے ، نہ دوزخ کا کوئی وجود خارجی ہے ، بلکہ دنیا میں ﷲ تعالیٰ کی نافرمانی سے جو کلفت روح کو ہوئی تھی ، بس اسی روحانی اذیت کا اعلیٰ درجہ پر محسوس ہونا ، اسی کا نام دوزخ اور جہنم ہے ، یہ سب کفر قطعی ہے ۔ یوں ہی یہ سمجھنا کہ جنت میں میوے ہیں نہ باغ ، نہ محل ہیں نہ نہریں ہیں ، نہ حوریں ہیں، نہ غلمان ہیں ، نہ جنت کا کوئی وجود خارجی ہے ، بلکہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی فرماں برداری کی جو راحت روح کو ہوئی تھی ، بس اسی روحانیت کا اعلیٰ درجہ پر حاصل ہونا ، اسی کا نام جنت ہے ، یہ بھی قطعاً یقینا کفر ہے ۔ یوں ہی یہ کہنا کہ ﷲ عزوجل نے قرآن عظیم میں جن فرشتوں کا ذکر فرمایا ہے نہ ان کا کوئی اصل وجود ہے ، نہ ان کا موجود ہونا ممکن ہے ، بلکہ ﷲ تعالیٰ نے اپنی ہر ہر مخلوق میں جو مختلف قسم کی قوتیں رکھی ہیں جیسے پہاڑوں کی سختی ، پانی کی روانی ، نباتات کی فزونی ، بس انھیں قوتوں کا نام فرشتہ ہے ، یہ بھی بالقطع والیقین کفر ہے ۔ یوں ہی جن و شیاطین کے وجود کا انکار اور بدی کی قوت کا نام جن یا شیطان رکھنا کفر ہے ۔ اور ایسے اقوال کے قائل یقیناً کافر اور اسلامی برادری سے خارج ہیں ۔ (اعتقاد الاحباب فی الجمیل والمصطفیٰ والآل والاصحاب ، مشمولہ فتاویٰ رضویہ مترجم ،ج۲۹،ص ۶۲،چشتی)
جیسے اللہ جل شانہ کا انسانوں کے مثل ہاتھ اور آنکھ سے پاک ہونا ۔
فتاویٰ رضویہ میں ہے : ید ہاتھ کو کہتے ہیں ، عین آنکھ کو ۔ اب جو یہ کہے کہ جیسے ہمارے ہاتھ ، آنکھ ہیں ، ایسے ہی جسم کے ٹکڑے ﷲ عزوجل کے لیے ہیں ، وہ قطعاً کافر ہے ۔ ﷲ عزوجل کا ایسے ید و عین سے پاک ہونا ضروریاتِ دین سے ہے ۔ [اعتقاد الاحباب فی الجمیل والمصطفیٰ والآل والاصحاب ، مشمولہ فتاویٰ رضویہ مترجم ،ج۲۹ ، ص۶۶]
اور اس پر ایمان رکھنا کہ اللہ جل شانہ کا علم ذاتی ہے ۔ اور اس نے حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور دیگر انبیاے کرام علیہم الصلاۃ والسلام کو بعض غیوب کا علم عطا فرمایا ہے ۔ اور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا علم دوسروں سے زائد ہے ۔ اور ابلیس کا علم معاذاللہ سرکار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے ہرگز وسیع نہیں ۔ اور جو علم اللہ جل شانہ کی صفتِ خاصہ ہے ، وہ ہرگز ابلیس لعین کے لیے نہیں ہوسکتا ۔ اور سرکار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے علم کو بچے ، پاگل کے علم سے تشبیہ دینا سرکار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی توہین ہے ۔
فتاویٰ رضویہ میں ہے : ﷲعزوجل ہی عالم بالذات ہے ، اُس کے بے بتائے ایک حرف کوئی نہیں جان سکتا ۔ رسول ﷲ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور دیگر انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کو ﷲ عزوجل نے اپنے بعض غیوب کا علم دیا ۔ رسول ﷲ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا علم اوروں سے زائد ہے ۔ ابلیس کا علم معاذ ﷲ علمِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے ہر گز وسیع تر نہیں ۔
جو علم ﷲ عزوجل کی صفت خاصہ ہے جس میں اُس کے حبیب محمد رسول ﷲ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو شریک کرنا بھی شرک ہو ، وہ ہرگز ابلیس کے لیے نہیں ہوسکتا ۔ جو ایسا مانے قطعاً مشرک ، کافر ، ملعون ، بندۂ ابلیس ہے ۔ زید و عمرو ، ہر بچے ، پاگل ، چوپاے کو علمِ غیب میں محمد رسول ﷲ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے مماثل کہنا حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی صریح توہین اور کھلا کفر ہے ، یہ سب مسائل ضروریاتِ دین سے ہیں اور اُن کا منکر ، ان میں ادنیٰ شک لانے والا قطعاً کافر ۔ [اعتقاد الاحباب فی الجمیل والمصطفیٰ والآل والاصحاب ، مشمولہ فتاویٰ رضویہ مترجم ،ج۲۹ ، ص۶۶]
اور حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کوخاتم النبیین جاننا ۔
فتاویٰ رضویہ میں ہے : حضور پر نور خاتم النبیین سید المرسلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم وعلیہم اجمعین کا خاتم یعنی بعثت میں آخر جمیع انبیا و مرسلین بلا تاویل و بلا تخصیص ہونا ضروریاتِ دین سے ہے جو اس کا منکر ہو یا اس میں ادنیٰ شک و شبہہ کو بھی راہ دے کافر، مرتد ، ملعون ہے ۔ [فتاویٰ رضویہ مترجم ج۱۴، ص۶۱،چشتی]
اور قرآن کریم کو کلام الٰہی جاننا ۔ اور قرآن کریم کو کامل ماننا ، یعنی جس طرح نازل ہوا تھا اسی طرح محفوظ ہے ، اس میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوئی ہے ۔ اور انبیاء کرام علیہم السّلام کو دوسرے تمام انسانوں سے افضل ماننا ۔
فتاویٰ رضویہ میں ہے : روافض میں جو ضروریاتِ دین سے کسی امر کا منکر ہو ، مثلا قرآن عظیم کو بیاض عثمانی کہے ، اس کے ایک لفظ ، ایک حرف ، ایک نقطے کی نسبت گمان کرے کہ معاذاللہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم یا ہم اہل سنت خواہ کسی شخص نے گھٹادیا ، بڑھا دیا ، بدل دیا ، یاحضرت جناب امیر المومنین مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ الکریم خواہ دیگر ائمہ اطہار رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے کسی کو انبیاء سابقین علیہم الصلوٰۃ والتسلیم کل یا بعض سے افضل بتائے ، قطعاً کافر ہے اور اس کا حکم مثل مرتدین کے ہے ۔ [فتاویٰ رضویہ مترجم، ج۱۱،ص ۲۱۰]
اور نبی کو ولی سے افصل جاننا ۔ فتاویٰ رضویہ میں ارشاد الساری کے حوالہ سے ہے : النبی افضل من الولی وھو امر مقطوع بہ والقائل بخلا فہ کافر ؛ لا نہ معلوم من الشرع بالضرورۃ ، یعنی نبی ولی سے افضل ہے اور یہ امر یقینی ہے اور اس کے خلاف کہنے والا کافر ہے ۔ کہ یہ ضروریات دین سے ہے ۔ [فتاویٰ رضویہ مترجم ،ج۱۴، ص۴۶]
اور مسلمان کو مسلمان جاننا ۔ اور کافر کو کافر جاننا ۔
بہار شریعت میں ہے : مسلمان کو مسلمان ، کافر کو کافر جاننا ضروریاتِ دین سے ہے ، اگرچہ کسی خاص شخص کی نسبت یہ یقین نہیں کیا جاسکتا کہ اس کا خاتمہ ایمان یا معاذ ﷲ کفر پر ہوا ، تا وقتیکہ اس کے خاتمہ کا حال دلیلِ شرعی سے ثابت نہ ہو ، مگر اس سے یہ نہ ہوگا کہ جس شخص نے قطعاً کفر کیا ہو اس کے کُفر میں شک کیا جائے ، کہ قطعی کافر کے کفر میں شک بھی آدمی کو کافر بنا دیتا ہے ۔ [بہار شریعت ،حصہ اول ،ص ۱۸۵،چشتی]
اور اجماع کا حجت قطعیہ ہونا
فتاویٰ رضویہ میں ہے : اور ائمہ کرام وعلماء اعلام حجیت اجماع کو ضروریاتِ دین سے بتاتے اور مخالفت اجماع قطعی کو کفر ٹھہراتے ہیں ، مواقف عضدالدین وشرح مواقف علامہ سید شریف مطبوعہ استنبول جلد اول میں ہے : کون الاجماع حجۃ قطعیۃ معلوم بالضرورۃ من الدین ۔ (فتاویٰ رضویہ مترجم ،ج۱۴،صص۵)
اور قیاس و فقہ کا حجت ہونا
فتاویٰ رضویہ میں ہے : علماء کرام فرماتے ہیں قیاس و فقہ کی حجیت بھی ضروریاتِ دین سے ہے ، تو اس کا انکار ضرور کفر ہونا لازم ،
کشف البزدوی میں ہے : قدثبت بالتواترأن الصحابۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہم عملوا بالقیاس وشاع وذاع ذلک فیما بینھم من غیر رد وانکار ۔ (فتاویٰ رضویہ مترجم ،ج۱۴،ص۵)
اور احکام میں نسخ واقع ہونا
فتاویٰ رضویہ میں ہے : وقوع نسخ بلاشبہہ قطعیات سے ثابت ،بلکہ باعتبار شرائع سابقہ ضروریاتِ دین سے ہے اور اس کا منکر کافر ہے ۔ [فتاویٰ رضویہ مترجم ، ج۱۴،ص۵۸ ]
اور مسّ و تقبیلِ اجنبیہ کو معصیت جاننا
ملفوظات ِاعلیٰ حضرت میں ہے : بہت سے صغائر ایسے ہیں جن کا معصیت ہونا ضروریاتِ دین سے ہے مثلاً اجنبیہ سے مسّ و تقبیل ، صغیرہ ہے ”الا اللّمم“ میں داخل ہے ، اگر حلال جانے کافر ہے ۔ (ملفوظات اعلیٰ حضرت صفحہ نمبر ۴۷۲)
اور گائے کی قربانی کا حلال ہونا ۔۔۔۔ اور غیر مسلموں کی مجالس اعیاد میں شرکت کا حرام ہونا ۔
فتاویٰ رضویہ میں ہے : قربانی گاؤ کی حلت اور مجالس اعیاد ہنود میں شرکت کی حرمت دونوں ضروریات دین میں سے ہیں ، جو اسے حرام یا حلال کہے وہ اللہ ورسول پر افترا کرتا ہے اور بحکم قرآن اس کا ٹھکانا جہنم ہے اورحکم کفر اس پر لازم و الزم ۔ [فتاویٰ رضویہ مترجم، ج۱۴،ص۱۲۳،چشتی]
اور غصب کو حرام جاننا ۔ اور جھوٹ کو حرام جاننا ۔ اور چوری کو حرام جاننا ۔
فتاویٰ رضویہ میں ہے : اسی طرح غصب وکذب وسرقہ کی حرمتیں ضروریاتِ دین سے ہیں ، ایسے شخص کے پیچھے نماز سخت مکروہ ہے ، مکروہ تحریمی قریب بحرام اور واجب الاعادہ ہے کہ نا دانستہ پڑھ لی ہو توپھیرناواجب ہے ۔ ([فتاویٰ رضویہ مترجم،، ج۲۴،ص۸۲)
اور خمر (شراب )کو حرام ماننا
فتاویٰ رضویہ میں ہے : خمر کی حرمت ، قطعیہ ، بلکہ ضروریاتِ دین سے ہے ، اس کے ایک قطرہ کی حرمت کامنکر قطعاً کافر ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ مترجم ،ج۲۵، ص۳۱)
اور درود خوانی کی خوبیاں ۔۔۔۔۔ اور تلاوت قرآن مجیدکی خوبیاں ۔۔۔۔۔ اور کھانا کھلانے کی خوبیاں ۔۔۔۔۔۔۔ اور صدقات وخیرات کی خوبیاں ۔
فتاویٰ رضویہ میں ہے : درود خوانی و تلاوت قرآن مجید واطعام طعام وصدقات و مبرات کی خوبیاں ضروریات ِدین سے ہیں ، محتاج بیان نہیں ۔ (فتاویٰ رضویہ مترجم ، ج۲۳، صفحہ نمبر ۱۸)
اور بیوی کی وراثت کا حکم
فتاویٰ رضویہ میں ہے : وراثتِ زوجہ بلاشبہہ ضروریاتِ دین سے ہے جس پر تمام فرقِ اسلام کا اجماع اور ہر خاص وعام کو اس کی اطلاع، تو مطلقاً اس کا انکار یعنی یہ کہنا کہ زوجیت شرع میں ذریعۂ وراثت ہی نہیں صریح کلمہ کفر ہے ۔ [فتاویٰ رضویہ مترجم ،ج۱۲،ص ۱۰۳]
ضروریاتِ مذہبِ اہل سنت کی چندمثالیں : جیسے اللہ جل شانہ کو جسم وجسمانیات سے پاک جاننا ۔
فتاویٰ رضویہ میں ہے : جو کہے کہ اس کے ید و عین بھی ہیں تو جسم ہی ، مگر نہ مثل اجسام، بلکہ مشابہت اجسام سے پاک و منزہ ہیں ، وہ گمراہ ، بددین ؛ کہ ﷲ عزوجل کا جسم و جسمانیات سے مطلقاً پاک ومنزہ ہونا ضروریات ِعقائدِ اہل سنت و جماعت سے ہے ۔ [فتاویٰ رضویہ مترجم ج۲۹،ص۶۶،چشتی]
اور اس پر ایمان رکھنا کہ اولیاء کرام کو انبیا و رسل علیہم السّلام کی وساطت سے کچھ علوم غیب حاصل ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ اور یہ کہ اللہ جل شانہ نے اپنے محبوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو غیوبِ خمسہ میں سے بعض جزئیات کا علم بخشاہے ۔
فتاویٰ رضویہ میں ہے : اولیاے کرام نفعنا اللہ تعالیٰ ببرکاتھم فی الدارین کو بھی کچھ علومِ غیب ملتے ہیں ، مگر بوساطت رسل علیہم الصلاۃ والسلام ۔ معتزلہ خذلھم اللہ تعالیٰ کہ صرف رسولوں کے لیے اطلاع غیب مانتے اور اولیاء کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا علومِ غیب کا اصلاً حصہ نہیں مانتے ، گمراہ و مبتدع ہیں ۔
ﷲ عزوجل نے اپنے محبوبوں خصوصاً سید المحبوبین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ و علیہم وَسَلَّم کو غیوبِ خمسہ سے بہت جزئیات کا علم بخشا جو یہ کہے کہ خمس میں سے کسی فرد کا علم کسی کو نہ دیا گیا ، ہزار ہا احادیث متواترۃ المعنٰی کا منکر اور بدمذہب خاسر ہے ۔ ۔ [فتاویٰ رضویہ مترجم ج۲۹،ص۶۶]
اور یزید کو فاسق وفاجر جاننا اور اور حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بے قصور ومظلوم سمجھنا ۔
فتاویٰ رضویہ میں ہے : مگر اس (یزید پلید علیہ ما یستحقہ من العزیز المجید) کے فسق وفجور سے انکار کرنا اور امام مظلوم (حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ) پر الزام رکھنا ضروریاتِ مذہب اہل سنت کے خلاف ہے ۔ اور ضلالت و بدمذہبی صاف ہے ، بلکہ انصافاً یہ اس قلب سے متصور نہیں جس میں محبت سیدعالم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا شمّہ ہو ۔ [فتاویٰ رضویہ مترجم ،ج۱۴، ص۱۲۵]
اور انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کی موت صرف آنی ( ایک پل کے لیے) ہے ۔
فتاویٰ رضویہ میں ہے : اگر عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات مان بھی لی جائے تو ان کی موت بلکہ تمام انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے لیے صرف آنی ہے ، ایک آن کو موت طاری ہوتی ہے ۔۔۔۔۔ یہ مسئلۂ قطعیہ ، یقینیہ ، ضروریاتِ مذہبِ اہلسنّت سے ہے ، اس کا مُنکِر نہ ہوگا مگر بدمذہب گمراہ ۔۔۔۔ تو پھر عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام زندہ ہی ہیں ان کا نزول مُمْتَنِع کیوں کر ہوگیا ۔ (ملفوظات اعلیٰ حضرت ، ۵۰۴ ، ۵۰۵،)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment