Wednesday 15 February 2023

معراجُ النّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سورۂ والنجم کی روشنی میں حصّہ دوم

0 comments

معراجُ النّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سورۂ والنجم کی روشنی میں حصّہ دوم

مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَ مَا غَوٰى ۔ ترجمہ : تمہارے صاحب نہ بہکے نہ بے راہ چلے ۔

اس آیت میں  ’’صَاحِبْ‘‘ سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں  اور ’’نہ بہکنے‘‘ کے معنی یہ ہیں  کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کبھی حق اور ہدایت کے راستے سے عدول نہیں  کیا اور ہمیشہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی توحید پر اور عبادت کرنے میں  رہے ، آپ کے دامنِ عِصْمَت پر کبھی کسی مکروہ کام کی گَرد نہ آئی اور ’’ٹیڑھا راستہ نہ چلنے‘‘ سے مرادیہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہمیشہ رُشد و ہدایت کی اعلیٰ منزل پرفائز رہے ، فاسد عقائد کا شائبہ بھی کبھی آپ کی مبارک زندگی تک نہ پہنچ سکا ۔ (تفسیر ابو سعود، النجم، الآیۃ: ۲، ۵ / ۶۴۱)

”صاحبکم “ کا لفظ ہے ، صاحب اس کو کہتے ہیں جو کسی کے ساتھ لازم رہے خواہ وہ انسان ہو یا یا حیوان ہو، مکان ہو یا زمان ہو اور اس کے مصاحبت خواہ بدن کے ساتھ ہو یا تو یہ اور التفات کے ساتھ ہو، عرف میں صاحب کا اطلاق اسی پر ہوتا ہے جو کسی کے ساتھ بہ کثرت لازم رہے ، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بہ کثرت لازم رہتے تھے ، اس لیے ان پر آپ کے صاحب کا اطلاق ہے : اذیقول لصاحبہ لا تخرن ۔ (سورہ التوبہ : ٤٠) ۔ جب نبی اپنے صاحب سے کہہ رہے تھے : تم غم نہ کرو ۔ صاحب اس شخص کو بھی کہتے ہیں جو کسی کا مالک اور آقا ہو اور اس پر تصرف کرنے کا مالک ہو ، اس معنی کے لحاظ سے اس آیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صاحب کا اطلاق ہے ، تمہارے آقا (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہ کبھی سیدھا راستہ گم کیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مسلمانوں کا صاحب فرمایا ہے ، اس پر تنبیہ کرتے ہوئے تم ان کو مصاحب اور مجلس میں رہے ہو اور تم نے ان کا تجربہ کیا ہے اور ان کے ظاہر اور باطن کو پرکھا ہے اور اس میں کوئی خلل نہیں پایا ، اس لیے فرمایا : وما صاحبکم یمجنون ۔ (سورہ التکویر : ٢٢) اور تمہارے صاحب اور آقا مجنون نہیں ہیں ۔ کسی شخص کے متبعین کو بھی اس کے اصحاب کہا جاتا ہے ، اسی اعتبار سے زندگی میں آپ کے متبعین کو آپ کے اصحاب کہا جاتا ہے ۔ (المفردات جلد ٢ صفحہ ٣٦١، مکتبہ نزار مصطفی ، مکہ مکرمہ ، ١٤١٨ ھ،چشتی)

اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا تھا : عصی ادم ربہ فغوی۔ ( طہٰ : ١٢١) آدم نے اپنے رب کی ( بہ ظاہر) معصیت کی اور ( بہ ظاہر) راہ راست کے بغیر چلے ۔ اور آپ کے متعلق فرمایا : ما ضل صاحبکم وما غوی۔ (النجم : ٢) تمہارے آقا (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہ کبھی سیدھا راستہ گم کیا نہ کبھی راہ راست کے بغیر چلے ۔ یہاں ایک نکتہ قابلِ ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے صَفی حضرت آدم علیہ السّلام کے بارے میں  قرآنِ پاک میں  ارشاد فرمایا : وَ عَصٰۤى اٰدَمُ رَبَّهٗ فَغَوٰى ۔ (سورہ طہ:۱۲۱)
ترجمہ : اور آدم سے اپنے رب کے حکم میں  لغزش واقع ہوئی تو جو مقصد چاہا تھا وہ نہ پایا ۔ اور اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں  ارشاد فرمایا : مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَ مَا غَوٰى ۔
ترجمہ : تمہارے صاحب نہ بہکے اورنہ ٹیڑھا راستہ چلے ۔

اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا مقام حضرت آدم علیہ السّلام سے بلند ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نامِ اَقدس کے ساتھ لفظ ’’صاحب‘‘ ملانے کا شرعی حکم : یہاں  ایک شرعی مسئلہ یاد رہے کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان قادری علیہ الرّحمہ فرماتے ہیں  : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اطلاقِ صاحب خود قرآنِ عظیم میں  وارد ’’وَ النَّجْمِ اِذَا هَوٰىۙ ۔ مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَ مَا غَوٰى ‘‘ مگر نامِ اقدس کے ساتھ اس طورپر لفظِ ’’صاحب‘‘ کا ملانا (جیسے محمد صاحب کہنا) یہ آریوں  اور پادریوں  کا شِعار ہے ، وہ اسے معروف تعظیم میں لاتے ہیں جو زید و عمر کےلیے رائج ہے کہ شیخ صاحب ، مرزاصاحب ، پادری صاحب ، پنڈت صاحب ، لہٰذا اس سے احتراز چاہیے ، ہاں یوں کہا جائے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہمارے صاحب ہیں ، آقا ہیں ، مالک ہیں ، مولیٰ ہیں ۔ (فتاوی رضویہ کتاب السیر جلد ۱۴ صفحہ ۶۱۴،چشتی)

عَلَّمَهٗ شَدِیْدُ الْقُوٰى ۔ ذُوْ مِرَّةٍؕ-فَاسْتَوٰى ۔
ترجمہ : انہیں سکھایا سخت قوتوں والے طاقتور نے پھر اس جلوہ نے قصد فرمایا ۔

یعنی جو کچھ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف وحی فرمائی وہ انہیں  سخت قوتوں  والے ، طاقت والے نے سکھایا ۔ بعض مفسرین نے یہ فرمایا ہے کہ سخت قوتوں  والے ، طاقتور سے مراد حضرت جبریل علیہ السّلام ہیں  اور سکھا نے سے مراد اللہ تعالیٰ کی تعلیم سے سکھانا یعنی اللہ تعالیٰ کی وحی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مبارک قلب تک پہنچانا ہے ۔

حضرت جبریل علیہ السّلام کی شدت اور قوت کا یہ عالَم تھا کہ انہوں  نے حضرت لوط علیہ السّلام کی قوم کی بستیوں  کو زمین کی جڑ سے اکھاڑ کر اپنے پروں  پر رکھ لیا اور آسمان کی طرف اتنا بلند کر دیا کہ ان لوگوں  کے مرغوں  کی بانگ اور کتوں  کے بھونکنے کی آواز فرشتوں  نے سنی،پھر ان بستیوں  کو پلٹ کر پھینک دیا ۔ ان کی طاقت کا یہ حال تھا کہ ارضِ مقدَّسہ کی گھاٹی میں ابلیس کو حضرت عیسیٰ علیہ السّلام سے کلام کرتے دیکھا تو انہوں  نے اپنے پر سے پھونک مار کر ابلیس کو ہند کی سرزمین کے دور دراز پہاڑ پر پھینک دیا ۔ ان کی شدّت کی یہ کیفِیَّت تھی کہ قومِ ثمود اپنی کثیر تعداد اور بھرپور قوت کا مالک ہونے کے باوجود حضرت جبریل علیہ السّلام کی ایک ہی چیخ سے ہلاک ہو گئی ۔ ان کی طاقت کا یہ حال تھا کہ پلک جھکنے میں  آسمان سے زمین پر نازل ہوتے اور انبیاء ِکرام علیہم السّلام تک وحی پہنچا کر دوبارہ آسمان پر پہنچ جاتے ۔

حضرت امام حسن بصری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ’’شَدِیْدُ الْقُوٰى‘‘ سے مراد اللہ تعالیٰ ہے اور اُس نے اپنی قدرت کے اظہار کےلیے اپنی ذات کو اس وصف کے ساتھ ذکر فرمایا ۔ اس صورت میں  آیت کے معنی یہ ہیں  کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے کسی واسطہ کے بغیر تعلیم فرمائی ۔ (تفسیر روح البیان سورہ النجم الآیۃ: ۵، ۱۲، ۹ / ۲۱۴، ۲۱۸)(تفسیر قرطبی النجم الآیۃ: ۶، ۹ / ۶۴ الجزء السابع عشر،چشتی)

عام مفسرین نے ’’ فَاسْتَوٰى‘‘ کا فاعل بھی حضرت جبریل علیہ السّلام کو قرار دیا ہے اوراس کے یہ معنی مراد لیے ہیں  کہ حضرت جبریل امین علیہ السّلام اپنی اصلی صورت پر قائم ہوئے ، اوراصلی صورت پر قائم ہونے کا سبب یہ ہے کہ نبی کرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت جبریل علیہ السّلام کو اُن کی اصلی صورت میں  ملاحظہ فرمانے کی خواہش ظاہر فرمائی تو حضرت جبریل علیہ السّلام مشرق کی جانب میں  نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے نمودار ہوئے اور ان کے وجود سے مشرق سے مغرب تک کاعلاقہ بھر گیا ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سوا کسی اِنسان نے حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کو اُن کی اصلی صورت میں  نہیں  دیکھا ۔ (تفسیر ابو سعود النجم الآیۃ: ۶، ۵ / ۶۴۲)

امام فخر الدین رازی علیہ الرّحمہ فرماتے ہیں  کہ حضرت جبریل علیہ السّلام کو دیکھنا تو صحیح ہے اور حدیث سے ثابت ہے لیکن یہ حدیث میں  نہیں  ہے کہ اس آیت میں  حضرت جبریل علیہ السّلام کو دیکھنا مراد ہے بلکہ ظاہری طور پر تفسیر یہ ہے کہ ’’فَاسْتَوٰى‘‘ سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا بلند جگہ اوراعلیٰ مقام میں اِسْتَویٰ فرمانا ہے ۔ (تفسیر کبیر النجم الآیۃ: ۷، ۱۰ / ۲۳۸-۲۳۹)

تفسیر روح البیان میں  ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اُفُق ِاعلیٰ یعنی آسمانوں  کے اوپر اِسْتَویٰ فرمایا اور حضرت جبریل علیہ السّلام سِدْرَۃ ُالْمُنتہَیٰ پر رک گئے اس سے آگے نہ بڑھ سکے اور عرض کی کہ اگر میں  ذرا بھی آگے بڑھوں  گا تو اللہ تعالیٰ کی تَجَلّیات مجھے جلا ڈالیں گی ، پھر نبی کرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آگے بڑھ گئے اور عرش کے اوپرسے بھی گزر گئے ۔ (تفسیر روح البیان النجم الآیۃ: ۶، ۹ / ۲۱۷)

حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کا قول یہ ہے کہ ا س آیت میں  اِسْتَویٰ فرمانے کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہے ۔ (تفسیر قرطبی النجم الآیۃ: ۶، ۹ / ۶۵، الجزء السابع عشر)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ کے ترجمے سے بھی اسی طرف اشارہ ہوتا ہے کہ یہاں  اِسْتَویٰ کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہے ۔

وَ هُوَ بِالْاُفُقِ الْاَعْلٰى ۔
ترجمہ : اور وہ آسمانِ بریں کے سب سے بلند کنارہ پر تھا ۔

یہاں  بھی عام مفسرین اسی طرف گئے ہیں  کہ یہ حال جبریلِ امین علیہ السّلام کا ہے لیکن امام رازی علیہ الرّحمہ فرماتے ہیں  کہ ظاہر یہ ہے کہ یہ حال نبی کرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ہے کہ آپ اُفُقِ اعلیٰ یعنی آسمانوں  کے اوپر تھے ، اور (اس کی دلیل یہ ہے کہ) جس طرح کہنے والا کہتا ہے کہ میں نے چھت پر چاند دیکھا یاپہاڑ پر چاند دیکھا ، تواس بات کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ چاند چھت پر یا پہاڑ پر تھا بلکہ یہی معنی ہوتے ہیں  کہ دیکھنے والا چھت یا پہاڑ پر تھا ، اسی طرح یہاں بھی مراد یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آسمانوں  کے اوپر پہنچے تو اللہ تعالیٰ کی تجلی آپ کی طرف متوجہ ہوئی ۔ (تفسیر کبیر النجم الآیۃ: ۷، ۱۰ / ۲۳۸)

ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰى ۔ فَكَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰى ۔
ترجمہ : پھر وہ جلوہ نزدیک ہوا پھر خوب اتر آیا۔ تو اس جلوے اور اس محبوب میں دو ہاتھ کا فاصلہ رہا بلکہ اس سے بھی کم ۔

کون کس کے قریب ہوا اس کے بارے میں مفسرین کے اقوال : ⬇

(1) اس سے حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کا نبی کرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے قریب ہونا مراد ہے۔اس صورت میں  آیت کا معنی یہ ہے کہ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام اپنی اصلی صورت دکھادینے کے بعد نبی کرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قرب میں  حاضر ہوئے پھر اور زیادہ قریب ہوئے ۔

(2) اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اللہ تعالیٰ کے قرب سے مُشَرَّف ہونا مراد ہے اور آیت میں قریب ہونے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اوپر چڑھنا اور ملاقات کرنا مراد ہے اور اتر آنے سے نازل ہونا ، لوٹ آنا مراد ہے ۔ اس قول کے مطابق آیت کا حاصلِ معنی یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے قرب میں باریاب ہوئے پھر وصال کی نعمتوں سے فیض یاب ہو کر مخلوق کی طرف متوجہ ہوئے ۔

(3) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں  کہ ا س سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنے قرب کی نعمت سے نوازا ۔ اس صورت میں  آیت کا معنی یہ ہے کہ اللہ رَبُّ اْلعِزَّت  اپنے لطف و رحمت کے ساتھ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے قریب ہو ااور اس قرب میں  زیادتی فرمائی ۔

یہ تیسرا قول صحیح تر ہے اس کی تائید صحیح بخاری کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اور جَبَّارْ رَبُّ الْعِزَّتْ قریب ہوا ۔ (بخاری، کتاب التوحید، باب قولہ تعالی: وکلّم اللّٰہ موسی تکیلماً، ۴ / ۵۸۰، الحدیث: ۷۵۱۷،چشتی)

(4) اس آیت کا معنی یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بارگاہِ رَبُوبِیَّت میں مُقَرَّب ہو کر سجدۂ طاعت ادا کیا ۔ (تفسیر کبیر النجم الآیۃ: ۸، ۱۰ / ۲۳۹،چشتی)(قرطبی النجم الآیۃ: ۸، ۹ / ۶۶ الجزء السابع عشر)(روح البیان النجم الآیۃ: ۱۲، ۹ / ۲۱۸-۲۱۹)

اعلیٰ حضرت علیہ الرّحمہ اپنے مشہور کلام ’’قصیدۂ معراجیہ ‘‘میں  اسی آیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کیا خوب فرماتے ہیں  :

پر اِن کا بڑھنا تو نام کو تھا حقیقۃً فعل تھا اُدھر کا
تنزّلوں  میں  ترقی افزا دَنٰی تَدَلّٰے کے سلسلے تھے

ہوا یہ آخر کہ ایک بجرا تَمَوُّجِ بحرِ ہو میں  اُبھرا
دَنیٰ کی گودی میں  ان کو لے کر فنا کے لنگراٹھا دیے تھے

اٹھے جو قصرِدنیٰ کے پردے کوئی خبر دے تو کیا خبر دے
وہاں  تو جاہی نہیں  دوئی کی نہ کہہ کہ وہ بھی نہ تھے ارے تھے

فَكَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰى: اس آیت میں  مذکور لفظِ ’’قَوْسَیْنِ‘‘ کا ایک معنی ہے دو ہاتھ (یعنی دو شرعی گز) اور ایک معنی ہے دو کمانیں ۔ اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ حضرت جبریل اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے درمیان اتنا قرب ہوا کہ دو ہاتھ یا دو کمانوں  کے برابر بلکہ اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا ۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے جلوے اور اللہ تعالیٰ کے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے درمیان اتنی نزدیکی ہوئی کہ دو ہاتھ یا دو کمانوں  کے برابر بلکہ اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا ۔ (تفسیر قرطبی النجم الآیۃ: ۹، ۹ / ۶۶، ۶۸، الجزء السابع عشر)

علامہ اسماعیل حقی علیہ الرّحمہ فرماتے ہیں : فاصلے کی یہ مقدار بتانے میں  انتہائی قرب کی طرف اشارہ ہے کہ قرب اپنے کمال کو پہنچا اور باادب اَحباب میں  جو نزدیکی تصوُّر کی جاسکتی ہے وہ اپنی انتہاء کو پہنچی ۔ مزید فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اس قدر قُربت سے معلوم ہوا کہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہ میں مقبول ہے وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بھی مقبول ہے اور جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہ سے مَردُود ہے وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے بھی مردود ہے ۔ (تفسیر روح البیان النجم الآیۃ: ۱۲، ۹ / ۲۱۹)

اعلیٰ حضرت علیہ الرّحمہ اسی نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کیا خوب فرماتے ہیں : ⬇

وہ کہ اُس در کا ہوا خلقِ خدا اُس کی ہوئی
وہ کہ  اس  دَر  سے پھرا اللہ اس  سے  پھر  گیا

فَاَوْحٰۤى اِلٰى عَبْدِهٖ مَاۤ اَوْحٰى ۔
ترجمہ : اب وحی فرمائی اپنے بندے کو جو وحی فرمائی۔

بعض مفسرین نے اس آیت کامعنی یہ بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کی طرف وہ وحی فرمائی جو حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تک پہنچائی اور اکثر مفسرین کے نزدیک اس آیت کے معنی یہ ہیں  کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص بندے حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو وحی فرمائی جو اس نے وحی فرمائی ۔ یہاں  جو وحی فرمائی گئی اس کی عظمت و شان کی وجہ سے یہ بیان نہیں  کیا گیا کہ وہ وحی کیا تھی ۔ (تفسیر جلالین مع جمل النجم الآیۃ: ۱۰، ۷ / ۳۱۶)

حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کو وحی فرمائی جو وحی فرمائی ، یہ وحی بے واسطہ تھی کہ اللہ تعالیٰ اوراس کے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے درمیا ن کو ئی واسطہ نہ تھا اور یہ خدا اور رسول کے درمیان کے اَسرار ہیں  جن پر اُن کے سوا کسی کو اطلاع نہیں ۔

بقلی نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اس راز کو تمام مخلوق سے مخفی رکھا اوریہ نہ بیان فرمایا کہ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کیا وحی فرمائی اور محب و محبوب کے درمیان ایسے راز ہوتے ہیں  جن کو ان کے سوا کوئی نہیں  جانتا ۔

علماء نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ اس رات میں جو آپ کو وحی فرمائی گئی وہ کئی قسم کے علوم تھے ، ان میں  سے چند علوم یہ ہیں : ⬇

(1) شرعی مسائل اور اَحکام کا علم جن کی سب کو تبلیغ کی جاتی ہے ۔

(2) اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنے کے ذرائع جو خواص کو بتائے جاتے ہیں  ۔

(3) علومِ ذَوْقِیّہ کے حقائق اور نتائج جو صرف اَخَصُّ الخواص کو تلقین کیے جاتے ہیں ۔

(4) اور ان علوم کی ایک قسم وہ اَسرار ہیں  جو اللہ تعالیٰ اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ خاص ہیں  کوئی انہیں  برداشت نہیں  کرسکتا ۔ (تفسیر روح البیان النجم الآیۃ: ۱۲، ۹ / ۲۲۱-۲۲۲)

مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى ۔
ترجمہ : دل نے جھوٹ نہ کہا جو دیکھا ۔

یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قلب مبارک نے اس کی تصدیق کی جو چشمِ مبارک نے دیکھا ۔ مراد یہ ہے کہ آنکھ سے دیکھا ، دِل سے پہچانا اور اس دیکھنے اور پہچاننے میں شک اور تَرَدُّد نے راہ نہ پائی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے معراج کی رات اللہ تعالیٰ کا دیدار کیا : اب رہی یہ بات کہ کیا دیکھا ، اس بارے میں بعض مفسرین کا قول یہ ہے کہ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کو دیکھا ، لیکن صحیح مذہب یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے رب تعالیٰ کو دیکھا ۔ اور یہ دیکھنا کیا سر کی آنکھوں سے تھا یا دل کی آنکھوں سے ، اس بارے میں مفسرین کے دونوں  قول پائے جاتے ہیں  ایک یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے رب عَزَّوَجَلَّ کو اپنے قلب مبارک سے دیکھا ۔ اور مفسرین کی ایک جماعت کی رائے یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے رب عَزَّوَجَلَّ کو حقیقتاً چشمِ مبارک سے دیکھا ۔ یہ قول حضرت انس بن مالک ، حضرت حسن اور حضرت عکرمہ رَضِیَ اللہ عَنْہُمْ کا ہے اور حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کو خُلَّت اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کو کلام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنے دیدار سے اِمتیاز بخشا ۔ حضرت کعب رَضِیَ اللہ عَنْہُ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام سے دوبار کلام فرمایا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو دو مرتبہ دیکھا ۔ (ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ والنجم، ۵ / ۱۸۴، الحدیث: ۳۲۸۹)لیکن حضرت عائشہ رَضِیَ اللہ عَنْہَا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دیدارِ الہٰی کا انکار کیا اوراس آیت کو حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کے دیدار پر محمول کیا اور فرمایا کہ جو کوئی کہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کو دیکھا اس نے جھوٹ کہا اور اس بات کی دلیل کے طور پر یہ آیت ’’ لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ‘‘ تلاوت فرمائی ۔ اس مسئلے کو سمجھنے کےلیے یہاں چند باتوں  کا لحاظ رکھنا ضروری ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا قول نفی میں  ہے اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا اِثبات میں  اور جب نفی اور اثبات میں  ٹکراؤ ہو تو مُثْبَت ہی مُقَدّم ہوتا ہے کیونکہ نفی کرنے والا کسی چیز کی نفی اس لیے کرتا ہے کہ اُس نے نہیں  سنا اور کسی چیز کو ثابت کرنے والا اِثبات اس لئے کرتا ہے کہ اس نے سنا اور جانا تو علم ثابت کرنے والے کے پاس ہے۔اور ا س کے ساتھ یہ بھی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ کلام نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل نہیں  کیا بلکہ آیت سے جو آپ نے مسئلہ اَخذ کیا اس پر اعتماد فرمایا اوریہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی اپنی رائے ہے جبکہ درحقیقت آیت میں  اِدراک یعنی اِحاطہ کی نفی ہے دیکھ سکنے کی نفی نہیں  ہے ۔ اس پر ہم تفصیل سے سابقہ مضامین میں لکھ چکے ہیں ۔

صحیح مسئلہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دیدارِ الہٰی سے مُشَرَّف فرمائے گئے ، مسلم شریف کی حدیث ِمرفوع سے بھی یہی ثابت ہے ، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما جو کہ حِبْرُ الْاُمَّت ہیں  وہ بھی اسی پر ہیں ۔ حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ قسم کھاتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے شبِ معراج اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کو دیکھا ۔ امام احمد رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کو دیکھا اُس کو دیکھا اُس کو دیکھا ۔ امام صاحب یہ فرماتے ہی رہے یہاں  تک کہ سانس ختم ہوگیا (پھر آپ نے دوسرا سانس لیا) ۔ (تفسیر خازن، النجم الآیۃ: ۱۱، ۱۸، ۴ / ۱۹۲، ۱۹۴)(تفسیر روح البیان، النجم الآیۃ: ۱۲، ۹ / ۲۲۲، ۲۲۳)

قرآن کریم کی جس آیت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدارِ الہٰی کا انکار کیا جاتا ہے وہ بعض لوگوں کی زبردستی ہے ۔ یہی حال حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت کا ہے ۔ دونوں پر مختصر غور کیا جاتا ہے۔ قرآن و سنت سے جو چیز ثابت ہے ، وہ ہے دیدار خداوندی اور نفی میں پیش کی جانے والی آیت میں ہے ۔ ’’آنکھوں کے ادراک کی نفی‘‘ حالانکہ دیکھنے اور ادراک میں فرق ہے ۔ ارشادِ خداوندی ہے : لاَّ تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ ۔
ترجمہ : نگاہیں اس کا احاطہ نہیں کر سکتیں اور وہ سب نگاہوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے، اور وہ بڑا باریک بین بڑا باخبرہے ۔ (سورہ الانعام، 6: 103)

امام رازی رحمة اللہ علیہ اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں : معناه أنه لا تدرکه جميع الأبصار فوجب أن يفيد أنه تدرکه بعض الابصار ۔
ترجمہ : آیت کا مطلب ہے کہ تمام آنکھیں اس کا ادراک نہیں کرتیں۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ بعض آنکھیں دیکھ سکتی ہیں ۔ (التفسير الکبير، 13: 103 ، دار الکتب العلمية بيروت،چشتی)

المرئي اِذا کان له حد ونهاية و أدرکه البصر بجميع حدوده و جوانبه ونهاياته صار کأن ذلک الابصار أحاط به فتسمی هذه الرؤية اِدراکاً أما اِذا لم يحط البصر بجوانب المرئي لم تسم تلک الرؤية اِدراکاً فالحاصل أن الرؤية جنس تحتها نوعان رؤية مع الاحاطة و رؤية لا مع الاحاطة و الرؤية مع الاحاطه هي المسماة بالادراک فنفي الادراک يفيد نوع واحد من نوعي الرؤية و نفی النوع لا يوجب نفی الجنس فلم يلزم من نفی الادراک عن اللہ تعالی نفی الرؤية عن اللہ تعالی ۔
ترجمہ : دیکھے جانے والی چیز کی جب حد اور انتہاء ہو اور دیکھنے والی نظر تمام حدود ، اطراف اور انتہاؤں کو گھیر لے تو گویا اس نظر نے اس چیز کو گھیر لیا ۔ اس دیکھنے کو ادراک کہا جاتا ہے ، لیکن جب نظر دیکھی جانے والی چیز کے اطراف کا احاطہ نہ کرے تو اس دیکھنے کا نام ادراک نہیں ہوتا۔ خلاصہ یہ ہے کہ دیکھنا ، ایک جنس ، جس کے نیچے دو انواع ہیں ، ایک دیکھنا احاطے کے ساتھ اور دوسرا دیکھنا بلا احاطہ کئے صرف احاطے والے دیکھنے کو ادراک کہا جاتا ہے ۔ پس ادراک کی نفی سے دیکھنے کی ایک قسم کی نفی ثابت ہوئی اور ایک نوع کی نفی سے جنس کی نفی نہیں ہوتی۔ پس اللہ کے ادراک کی نفی سے اللہ کے دیکھنے کی نفی لازم نہیں آتی ۔ (التفسير الکبير جلد 13 صفحہ 104،چشتی)

امام قرطبی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : الادراک بمعنی الاحاطة والتحديد کما تدرک سائر المخلوقات والرؤية ثابتة
ترجمہ : ادراک کا مطلب ہے گھیر لینا اور حد کھینچنا جیسے مخلوق دیکھی جاسکتی ہے۔ اللہ کا دیکھنا ثابت ہے ۔ (الجامع لأحکام القران جلد 7 صفحہ 54 ، دار الشعيب القاهره)

خلاصہ یہ کہ قرآن کی آیت سے اور اسے اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے قول سے ، دیدار الٰہی کی نفی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت نہیں ہوتی ۔ آیت کا مطلب ہے کہ تمام آنکھیں اس کو نہیں دیکھ سکتیں یا یہ کہ آنکھیں اللہ کا احاطہ نہیں کر سکتیں اور ظاہر ہے کہ دیکھنا اور ہے ، احاطہ کرنا اور ہے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ بعض آنکھیں دنیا میں بھی اللہ کو دیکھ سکتی ہیں اور یقینا وہ بعض آنکھیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کی ہیں ۔

علامہ قرطبی رحمة اللہ علیہ مزید لکھتے ہیں : عبد اللہ بن الحارث اجتمع ابن عباس و أبی ابن کعب فقال ابن عباس أما نحن بنو هاشم فنقول اِن محمدا رأی ربه مرتين ثم قال ابن عباس أتعجبون أن الخُلّة تکون لابراهيم والکلام لموسی والرؤية لمحمد صلی الله عليه وآله وسلم وعليهم أجمعين قال فکبر کعب حتی جاوبته الجبال ۔
ترجمہ : عبد اللہ بن حارث کی حضرت ابن عباس اور ابن کعب رضی اللہ عنہم سے ملاقات ہوئی تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : ہم بنی ہاشم تو کہتے ہیں کہ بے شک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو دوبار دیکھا ہے ، پھر ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیا تمہیں اس پر تعجب ہے کہ دوستی (خلت) ابراہیم علیہ السلام کےلیے کلام موسیٰ علیہ السلام کےلیے اور دیدارِ الٰہی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےلیے ثابت ہے ۔ اس پر حضرت کعب نے اللہ اکبر کہا یہاں تک کہ پہاڑ گونج اٹھے ۔ (الجامع لأحکام القرآن جلد 7 صفحہ 56،چشتی)

امام عبدالرزاق رحمة اللہ علیہ نے بیان کیا : أن الحسن کان يحلف باﷲ لقد رأی محمد ربه ۔
ترجمہ حضرتحسن بصری رحمة اللہ علیہ کی قسم اٹھا کر کہتے بے شک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے ۔

مروان نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا : هل رأی محمد ربه؟ فقال نعم ۔
ترجمہ : کیا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا؟ انہوں نے فرمایا ہاں ۔

حضرت امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ نے فرمایا : بعينه رآه رآه حتی انقطع نفسه ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آنکھوں سے اللہ کو دیکھا ۔ دیکھا ، یہاں تک کہ ان کا سانس بند ہو گیا ۔

یہی امام ابو الحسن اشعری اور ان کے اصحاب کا مسلک ہے ۔ یہی حضرت انس ، ابن عباس ، عکرمہ ، ربیع اور حسن رضی اللہ عنہم کا مذہب ہے ۔ (الجامع لأحکام القرآن ، 7: 56)

نیز ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر ہجرت کے بعد آئیں جبکہ واقعہ معراج ، ہجرت سے پہلے کا ہے ۔ اس لیے انہوں نے صرف قرآن کی آیت سے استدلال فرمایا جس کی تفسیر ہم نے باحوالہ بیان کر دی ۔

قرآن نے اللہ عزوجل کے دیدار کی نفی نہیں فرمائی ، یہ فرمایا ہے کہ آنکھیں اللہ کا احاطہ نہیں کرتیں ۔ ظاہر ہے کہ مخلوق محدود ، اس کی نظر محدود ، اللہ عزوجل غیر محدود پھر اس کا احاطہ مخلوق کیونکر کر سکتی ہے ۔ رہا دیکھنا سو اس کی نفی قرآن میں نہیں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔