Sunday 30 June 2019

اقامتِ نماز کے وقت کب کھڑے ہوں احادیثِ مبارکہ و کتبِ فقہ کی روشنی میں

0 comments
اقامتِ نماز کے وقت کب کھڑے ہوں احادیثِ مبارکہ و کتبِ فقہ کی روشنی میں




حضرت عبد اللہ بن ابی قتادۃ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے وہ اپنے والد گرامی حضرت ابو قتادۃ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : اذا اقیمت الصلاۃ فلا تقوموا حتی ترونی ۔
ترجمہ : جب اقامت کہی جائے تو اس وقت تک نہ اٹھو جب تک تم مجھے نہ دیکھ لو ۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر ۷۳۶، ۸۳۶، ۹۰۹، صحیح مسلم حدیث نمبر ۵۹۳۱، سنن ابی داود حدیث نمبر ۹۳۵، جامع ترمذی حدیث نمبر ۲۹۵، سنن النسائی حدیث نمبر ۷۸۶، مسند احمد بن حنبل حدیث نمبر ۰۴۶۲۲، ۹۴۶۲۲، ۶۶۶۲۲، ۵۷۶۲۲، ۲۰۷۲۲)

بخاری و مسلم کی یہ صحیح حدیث اعلان کر رہی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلّم نے اقامت شروع ہوتے ہی کھڑے ہونے سے منع فرمایا ہے ۔

عملِ مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلّم

حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں : کان اذا قال بلال: قد قامت الصلاۃ نھض رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فکبر ۔
ترجمہ : جب حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ ”قد قامت الصلاۃ“ کہتے تو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلّم اٹھتے، پھر”اللہ اکبر“کہتے ۔ (مسند البزار حدیث نمبر ۱۷۳۳، السنن الکبری للبیہقی حدیث نمبر ۰۹۳۲،چشتی)

خلیفہ راشد حضرت سیدنا عثمان ذو النورین رضی اللہ تعالی عنہ کا عمل

حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ان عثمان کان اذا سمع المؤذن قال قد قامت الصلاۃ، قال: مرحبا بالقائلین عدلا وبالصلاۃ مرحبا واھلا، ثم ینھض الی الصلاۃ ۔
ترجمہ : حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ جب مؤذن کو ”قد قامت الصلاۃ“ کہتے سنتے تو کہتے: حق کہنے والوں کو مرحبا، نماز کو مرحبا وخوش آمدید، پھرنماز کے لیے اٹھ کر کھڑے ہوتے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ حدیث نمبر ۱۸۳۲، ۲۹۳۰۲)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کا عمل

حضرت ابو یعلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : رأیت انس بن مالک اذا قیل: قد قامت الصلاۃ وثب فقام ۔
ترجمہ : میں نے حضرت انس بن مالک ص کو دیکھا کہ جب ”قد قامت الصلاۃ“ کہا جاتا تو فورا اٹھ کر کھڑے ہو جاتے ۔ (الاوسط لابن المنذر حدیث نمبر ۲۲۹۱)

امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف ، امام محمد رحمہم اللہ علیہم کا نظریہ

حضرت امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے شاگرد حضرت امام محمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اذا کان الامام معھم فی المسجد فانی احب لھم ان یقوموا فی الصف اذا قال المؤذن حی علی الفلاح ۔
ترجمہ : جب امام جماعت کے ساتھ مسجد میں موجود ہو تو میرے نزدیک محبوب یہ ہے کہ جب مؤذن ”حی علی الفلاح“ کہے تو سب لوگ صف میں کھڑے ہوجائیں ۔ (المبسوط للشیبانی ج۱ص۸۱،چشتی)

محیطِ برھانی اور اس کے علاوہ کئی ایک معتبر کتابوں میں امام ابو حنیفہ ، امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہم اللہ علیہم کا یہی نظریہ ذکر فرمایا اور اسی کو صحیح قرار دیا ۔

یہ مبارک احادیث اور پاکیزہ جملے ہمیں دعوت دیتے ہیں کہ ہم اقامت شروع ہوتے ہی اٹھ کر کھڑے نہ ہو جائیں ۔ بلکہ ”حی علی الفلاح“ پہ اٹھنے کی ابتداء کریں اور ”قد قامت الصلاۃ“ تک بالکل سیدھے کھڑے ہو جائیں ۔

امام قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ وہ مؤذن کے قول قدقامت الصلوۃ کے وقت کھڑے ہوتے تھے اور علمائے کوفہ اسی بات پر ہیں کہ وہ صف میں مئوذن کے قول’’حیّ علی الفلاح‘‘کے وقت کھڑے ہوتے تھے . (اکمال المعلم بفوائد مسلم شرح مسلم ج2 ص557)

امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ :“لوگوں کے لئے یہی مناسب ہےکہ جب مؤذن حی علی الفلاح کہے تو کھڑے ہوں اور اپنی صفیں سیدھی کریں اور اپنے کندھوں کو کندھوں سے ملائیں .(مؤطا امام محمد، مترجم ص 74)

لہٰذا جمہور اہلِ اِسلام کا اِقامتِ نماز کےوقت مسنون اور مستحب طریقہ کے مطابق حی علی الصلوۃ حیّ علی الفلاح اورقد قامت الصلوٰۃ پر کھڑے ہونے کا معمول ہے،

امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشادفرمایا : جب نماز کی تکبیر کہی جائے تو تم نہ کھڑے ہو حتی کہ مجھے نکلتے دیکھ لو ۔ (جامع الاحادیث الکبیر ،ج1،ص172، رقم الحدیث :1073،چشتی)

حکیم الا مت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے تحت رقم طراز ہیں کہ :“یعنی تکبیر کے وقت صف میں پہلے سے نہ کھڑے ہوجاؤ بلکہ جب مجھے حجرہ شریف سے نکلتے دیکھو تب کھڑے ہو تاکہ نماز کے قیام کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلّم کے لئے قیام تعظیمی بھی ہوجائے، نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلّم ’’ حی علی الفلاح ‘‘ پر حجرے سے باہر جلوہ گر ہوتے تھے.اب بھی سنت یہی ہے کہ مقتدی صف میں بیٹھ کر تکبیر سنے’’ حی علی الفلاح‘‘ پر کھڑے ہوں. (مرأۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح ج1 ص400)
ایک اور جگہ اسی حدیث پاک ’’لاتقوموا حتی ترونی‘‘ کے تحت لکھتے ہیں : اس زمانہ میں طریقہ یہ تھاکہ صحابہ کرام صف بنا کر بیٹھ جاتے ، نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلّم اپنے حجرے میں رونق افروز ہوتے، مکبرکھڑے ہو کر تکبیر شروع کرتا ،جب ’’حی علی الفلاح ‘‘ پر پہنچتا تو سرکار علیہ الصلوۃ والسلام حجرے سے باہر تشریف لاتے اور صحابہ کرام کو نظر آتے ، فقہاء فرماتے ہیں : کہ نمازی صف میں ’’حی علی الفلاح‘‘پر کھڑے ہوں ان کا ماخذ یہ حدیث ہے ۔ (مراٰۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح ،ج 1،ص،391 مطبوعہ قادری پبلشرز اردو بازار لاھور)

عن قتادة قال قال رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم اذا اقيمت الصلوة فلا تقوموا حتیٰ ترونی.(مسلم شريف، 1 : 240)
ترجمہ : حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب اقامت پڑھی جائے تو تم نماز کے لیے مت کھڑے ہو جب تک مجھے نہ دیکھو۔

عن عبدالرحمن بن عوف سمع ابا هريرة يقول اقيمت الصلوٰة فَقُمْنا فَعَدَّلنا الصفوف قيل ان يخرج الينا رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم.(مسلم شريف، 1 : 240)
ترجمہ : عبدالرحمن بن عوف فرماتے ہیں کہ میں نے ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا ہے کہ جب اقامت پڑھی جاتی تو ہم کھڑے ہو جاتے اور صفوں کو برابر کرتے اس سے پہلے کہ آپ تشریف لاتے۔

ان دونوں احادیث پاک پر امام نووی رحمۃ اللہ علیہ (شارح مسلم) فرماتے ہیں کہ علمائے کرام کا اس بات میں اختلاف ہے کہ اب ہمارے لیے کیا حکم ہے؟ یعنی ہمیں کس وقت نماز باجماعت کیلئے کھڑا ہونا چاہیے ؟

فرماتے ہیں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مستحب یہ ہے کہ جب مؤذن اقامت سے فارغ ہو تو تب امام اور مقتدی نماز کیلئے کھڑے ہوں۔

امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اقامت شروع ہونے کے وقت کھڑا ہونا مستحب ہے۔

امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک قد قامت الصلوۃ کے وقت کھڑا ہونا مستحب ہے۔

امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اور بعد علماء کے نزدیک حیَّ علی الصلوۃ کے وقت کھڑے ہونا مستحب ہے ۔

ہمارے احناف علماء نے نزدیک حیَّ علی الفلاح پر کھڑا ہونا مستحب ہے یہ مسئلہ فقط استحباب کا ہے فرض یا واجب کا نہیں ہے ۔ يقوم الامام والقوم اذا قال الموذن حی علی الفلاح عند علمائنا الثلاثه.امام اور قوم اس وقت کھڑے ہوں جب مؤذن حی علی الفلاح کہے۔ ہمارے تینوں اماموں کے نزدیک یعنی امام ابوحنیفہ، امام ابو یوسف اور امام محمد رضی اللہ عنہم یہ مستحب ہے ۔ (الدر المختار مع ردالمختار، 1 : 479)

امام قاضی عیاض بن موسی مالکی رحمۃ اللہ علیہ متوفّٰی544ھ) لکھتے ہیں : وروی عن انس انہ کان یقوم اذا قال المئوذن قدقامت الصلوۃ وذھب الکوفیون الی انھم یقومون فی الصف اذا قال حی علی الفلاح ۔
ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ وہ مئوذن کے قول قدقامت الصلوۃ کے وقت کھڑے ہوتے تھے اور علمائے کوفہ اسی بات پر ہیں کہ وہ صف میں مئوذن کے قول ’’ حَیَّ عَلَی الْفَلَاحْ ‘‘کے وقت کھڑے ہوتے تھے ۔(اکمال المعلم بفوائد مسلم شرح مسلم قاضی عیاض ، جلد2صفحہ557مطبوعہ دار الوفاء بیروت )

امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی911 ھ)لکھتے ہیں :قال النبی (ﷺ) وعن ابی قتادۃ قال قال رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا اقیمت الصلوۃ’’ فلا تقوموا حتی ترونی‘‘ ۔
ترجمہ : حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے : نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا: جب نماز کی تکبیر کہی جائے تو تم نہ کھڑے ہو حتی کہ مجھے نکلتے دیکھ لو ۔ (جامع الاحادیث الکبیر ،ج 1،ص172،رقم الحدیث :1073مطبوعہ دار الفکر بیروت،چشتی)

شروح اربعہ ترمذی میں ہے : حی علی الفلاح کے وقت سب نمازیوں کو جماعت کے لئے کھڑا ہونا چا ئیے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلّم اسی وقت حجرہ پاک سے باہر تشریف لاتے تھے اور فقہاء بھی یہی فرماتے ہیں اور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلّم کے ’’لاتقومو ا ‘‘ فرمانے کی وجہ بھی یہی ہے ۔ (شروح اربعہ ترمذی ، صفحہ221 بحوالہ فتاوی نعیمیہ)

حاشیہ ترمذی میں ہے : قولہ لا تقومو ا حتی ترونی خرجت قال الشیخ فی اللمعات قال الفقھا ء یقومون عند قولہ حی علی الصلاۃ ولعل ذالک عند حضور الامام ویحتمل انہ ﷺ کان یخر ج عند ھذ القول الخ ۔
ترجمہ : اس ’’ لا تقومو ‘‘ والی حدیث مبارکہ کے بارے میں شیخ عبدا لحق محدث دھلوی علیہ رحمۃ نے لمعات میں فرمایا :کہ فقہاء فرماتے ہیں : نماز کی جماعت کو شروع کرنے کے لئے حی علی الصلاۃ پر کھڑا ہونا چائیے اور شاید یہ حکم اما م کے حاضر ہونے کے وقت کا ہے یہ بھی احتما ل ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلّم حی علی الفلاح کے وقت حجر ہ مقدسہ سے باہر تشریف لاتے تھے ۔( حاشیہ 3جامع ترمذی جلد1 صفحہ76 مطبوعہ مکتبہ اکرمیہ پشاور)

علامہ شہاب الدین شبلی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : قا ل فی الوجیز والسنۃ ان یقوم الا مام والقوم اذا قال المئوذن حی علی الفلاح ۔۔۔۱ہ۔۔مثلہ فی المبتغی
ترجمہ : وجیز میں کہا کہ جب مکبر ’’حی علی الفلاح ‘‘ کہے اس وقت امام او رمقتدی کا کھڑا ہونا سنت ہے مبتغی میں بھی اسطرح ذکر کیا گیا ہے ۔ (حاشیہ تبیین الحقائق جلد 1 صفحہ283-284 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت )

محقق اسلام شیخ الحدیث علامہ محمد علی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلّم کے ارشادگر امی ’’لا تقومو احتی ترونی‘‘ کے پیش نظر پوری امت مسلمہ کا اس بات پر اجماع ہے کہ تکبیر(اقامت ) شروع ہونے سے پہلے ہی کھڑا ہونا خلاف سنت ہے اب کس وقت کھڑا ہونا چاہئے تو اس بارے میں امام مالک کی ایک روایت کو چھوڑ کر سبھی ’’حی علی الفلاح‘‘ پر کھڑے ہونے میں متفق ہیں ۔( شرح موء طا امام محمد ، جلد1 ، صفحہ 128 مطبوعہ فرید بک اسٹال اردو بازار لاہور )

علامہ شہاب الدین احمد شبلی علیہ رحمۃ اپنی دوسری کتا ب میں لکھتے ہیں : قال فی الوجیز والسنۃ ان یقوم الا مام والقوم اذا قال المئوذن حی علی الفلاح ۔
ترجمہ : وجیز میں کہا کہ جب مکبر’’حی علی الفلاح‘‘ کہے اس وقت امام اور مقتدی کا کھڑا ہونا سنت ہے ۔(شبلی حاشیہ زیلعی ،108 مطبوعہ مصر)

در مختار میں ہے : یقوم الا مام والقوم اذا قال المئوذن حی علی الفلاح عند علمائنا الثلاثۃ
ترجمہ : امام اور مقتدی حضرات جب مئوذن حی علی الفلاح کہے اس وقت کھڑے ہوں علمائے ثلاثہ (یعنی امام اعظم ابو حنیفہ ، امام ابو یوسف ، اور امام محمد رحمہم اللہ ) کے نزدیک ۔ (کشف الا ستار علی الدر مختار صفحہ 73مطبوعہ مجتبائی پاکستان ہسپتال روڈ لاہور،فتاوی عالمگیری مترجم ، جلد 1 ، صفحہ 89 مطبوعہ دار الاشاعت کراچی، مجمع الا نہر شرح ملتقی الا بحر جلد1 ، صفحہ 118، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت، ایضاح شرح اصلاح صفحہ،45 بحوالہ : افازۃ جد ا لکرامۃ بسنۃ جلوس موتم حین الا قامۃ ،چشتی)

امام محمد علیہ رحمۃ نے کہا : کہ لوگوں کے لئے یہی مناسب ہے کہ جب مئوذن حی علی الفلاح کہے تو کھڑے ہوں اور اپنی صفیں سیدھی کریں اور اپنے کندھوں کو کندھوں سے ملائیں ۔( مئوطا امام محمد ، مترجم : صفحہ 74مطبوعہ مکتبہ حسان کراچی)

علامہ شہاب الدین بزاز کردری )متوفّٰی867 ھ)لکھتے ہیں : ودخل المسجد وھو یقیم یقعد ولا یقف قائما ۔
ترجمہ : کوئی شخص مسجد میں آیا اس حال میں کہ مئوذن تکبیر کہہ رہا ہے تو بیٹھ جائے کھڑا نہ رہے ۔ (فتاوی بزازیہ برحاشیہ عالمگیری ،جلد 4، صفحہ 25مطبوعہ مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)

وعن ابی حنیفۃ یقومون اذا قال حی علی الفلاح ۔ ترجمہ : یعنی امام اعظم ابو حنیفہ( رضی اللہ تعالی عنہ) سے مروی ہے کہ سب لوگ حی علی الفلاح کہنے کے وقت کھڑے ہوں ۔(تحفۃ الا حوزی شرح جامع ترمذی جلد 3 ، صفحہ165مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)

اصلاح اور اس کی شرح ایضا ح میں ہے : یقو م الامام والقوم عند حی علی الفلاح قال فی الذخیرۃ یقوم الا مام والقوم اذا قال المئوذن حی علی الفلاح عند علمائناالثلاثۃ ۔
ترجمہ : امام اور قوم حی علی الفلاح کے وقت کھڑے ہوں ۔ ذخیرہ میں کہا گیا ہے کہ امام اور مقتدی اس وقت کھڑے ہوں جب مئوذن حی علی الفلاح کہے ۔ علمائے ثلاثہ (یعنی امام اعظم ،امام ابویوسف ، اور امام محمد رحمہم اللہ ) کے نزدیک ۔ (ایضاح شرح اصلاح ، صفحہ 45، بحوالہ افازہ جد الکرامۃ بسنۃ جلوس موتم حین الاقامۃ ،چشتی)

علامہ عبد الرحمن بن احمد ابن رجب الحنبلی علیہ الرّحمہ (متوفی795 ھ )لکھتے ہیں : اذا قال (حی علی الفلاح ) وحکی عن ابی حنیفہ ومحمد ،
ترجمہ : امام اعظم ابو حنیفہ و امام محمد قدس سرہما کے نزدیک جب مئوذن حی علی الفلاح کہے (تو لوگ کھڑے ہوجائیں ) (فتح الباری ابن رجب الحنبلی شرح صحیح بخاری جلد 3صفحہ327 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)

امام عبد الرشید ابن حنیفہ (متوفی540 ھ)لکھتے ہیں : رجل دخل المسجد والمئوذن یقیم ینبغی ان یقعد ولایمکث قائما لان ھذا لیس اوان الشروع فی الصلوۃ ۔
ترجمہ : جب کوئی شخص مسجد میں داخل ہوجائے اور مئوذن اقامت کہتا ہو تو اس کو چاہئے کہ بیٹھ جائے اور کھڑے ہو کر انتظا ر نہ کرے کیوں کہ یہ نماز شروع کرنے کا وقت نہیں ہے ۔ (فتاوی الواجیہ جلد1صفحہ 71، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت ،چشتی)

امام ابو الحسن علی بن خلف المالکی علیہ الرّحمہ متوفّٰی449 ھ )لکھتے ہیں : وقال ابو حنیفۃ ومحمد یقومون فی الصف اذا قال المئوذن حی علی الفلاح واذا قال قد قامت الصلوۃ کبر الامام وھو فعل اصحاب عبد اللہ والنخعی ۔
ترجمہ : امام اعظم ابو حنیفہ و امام محمد قدس سرھما فرماتے ہیں : کہ لوگ صف میں اس وقت کھڑے ہونگے جب مئوذن حی علی الفلاح کہے اور جب قد قامت الصلوۃ کہے امام تکبیر کہے اور یہ عبد اللہ اور امام نخعی کے ساتھیوں (شاگردوں ) کافعل ہے ۔ (شرح ابن ابطال شرح صحیح بخاری جلد 2، صفحہ 331 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت )

علامہ سراج الدین رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : اذا دخل المسجد رجل والمئوذن یقیم ینبغی ان یقعد ولا یمکث قائما ۔
ترجمہ : جب کوئی شخص مسجد میں داخل ہوجائے اور مئوذن اقامت کرتا ہو تو اس کو چاہئے کہ بیٹھ جائے اور کھڑے ہو کر انتظار نہ کرے۔(فتاوی سراجیہ ، صفحہ 9 مطبوعہ میرمحمد کتب خانہ کراچی)

امام شمس الدین بخاری علیہ الرّحمہ متوفّٰی 926ھ)لکھتے ہیں : وفی الکلام ایماء الی انہ لو دخل المسجد احد عند الا قامۃ یقعد لکراھۃ القیام وا لا نتظارکما فی المضمرات
ترجمہ : اور اس کلام میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اگر کوئی شخص تکبیر کے دوران مسجد میں داخل ہو ا تو وہ بیٹھ جائے اس لئے کہ کھڑا رہنا اور انتظار کرنا مکروہ ہے جیسا کہ مضمرات میں ہے ۔( جامع الرموز ، جلد1 صفحہ 127 مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی)

ا مام اہلسنت امام شاہ احمد رضاخان فاضل بریلوی علیہ رحمۃ لکھتے ہیں : اگر تکبیر ہورہی ہو اور (کوئی شخص) مسجد میں آیا تو بیٹھ جائے اور جب مکبر حی علی الفلاح پر پہنچے اس وقت سب کھڑے ہوجائیں ۔ (فتاوی رضویہ ، جلد 2 ، صفحہ 419مطبوعہ مکتبہ رضویہ کراچی)

صدر الشریعہ حضرت مفتی امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ لکھتے ہیں : جو لوگ مسجد میں موجود ہیں وہ بیٹھے رہیں اس وقت اٹھیںجب مکبر حی علی الفلاح پر پہنچے یہی حکم امام کے لئے ہے ۔ (بہار شریعت جلد1 حصہ سوم مطبوعہ مشتاق بک کارنر اردو بازار لاہور)

فقیہ عصر علامہ شریف الحق امجدی شرح صحیح بخاری میں لکھتے ہیں : جب امام و مقتدی مسجد ہی میں ہو ں تو اقامت کے وقت سب بیٹھیں رہیں جب مئوذن حی علی الفلاح تک پہنچے تو کھڑا ہونا شروع کرے حی علی الفلاح پر سیدھے کھڑے ہوجائیں کھڑے ہو کر اقامت سننا مکروہ ہے ، جیسا کہ مضمرات ، عالمگیر اور شامی میں ہے ۔ (نزھۃ القاری شرح صحیح بخاری جلد3 صفحہ 126، ناشر برکاتی پبلشرز کھارادر کراچی)۔(طالبِ دعا و دعا دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

ایک سازش کے تحت قدیم اہلسنت کو مخالفین نے بریلوی کہنا شروع کیا

0 comments

ایک سازش کے تحت قدیم اہلسنت کو مخالفین نے بریلوی کہنا شروع کیا

محترم قارئین : اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنّت امام احمد رضا خان قادری بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے افکار ونظریات کی بے پناہ مقبولیت سے متاثر ہوکر مخالفین نے ان کے ہم مسلک علماء ومشائخ کو بریلوی کا نام دے دیا ، مقصد یہ ظاہر کرنا تھا کہ دوسرے فرقوں کی طرح یہ بھی ایک نیا فرقہ ہے جو سرزمین ہند میں پیدا ہوا ہے۔

غیرمقلد وہابی ابو یحییٰ امام خاں نوشہروی لکھتے ہیں : یہ جماعت امام ابو حنیفہ رحمۃ ﷲ علیہ کی تقلید کی مدعی ہے ، مگر دیوبندی مقلدین (اور یہ بھی بجائے خود ایک جدید اصطلاح ہے) یعنی تعلیم یافتگانِ مدرسہ دیوبند اور ان کے اتباع انہیں'' بریلوی'' کہتے ہیں . (تراجم علمائے حدیث ہند صفحۃ نمبر 482 مطبوعہ مکتبہ اہلحدیث ٹرسٹ کورٹ روڈ کراچی)

مدعی لاکھ پہ بھاری گواہی تیری

مولوی ثناء ﷲ امرتسری غیرمقلد وہابی لکھتے ہیں : اسی (80) سال پہلے قریبا سب مسلمان اسی خیال کے تھے جن کو آج کل بریلوی حنفی کہا جاتا ہے ۔ (رسائل ثنائیہ ، شمع توحید صفحہ نمبر 163 مطبوعہ لاہور)

معلوم ہوا وہابیت اس کے بعد کی پیداوار ہے برِّ صغیر پاک و ہند میں اور بریلویوں کے عقائد و نظریات وہی ہیں جو قدیم سنی مسلمانوں کے تھے بطور پہچان آج کل انہیں بریلوی حنفی کہا جاتا ہے حق حق ہوتا ہے ۔

مدعی لاکھ پہ بھاری گواہی تیری

بریلوی فرقہ فرقہ کہنے والوں کو مہتمم دارالعلوم دیوبند کا جواب : مہتمم دیوبند جناب قاری محمد طیّب صاحب فرماتے ہیں ہم بریلویوں کو فرقہ نہیں سمجھتے ۔ (خُطباتِ حکیمُ الاسلام جلد نمبر 7 صفحہ نمبر 209 مطبوعہ بیت السّلام کراچی)

جب کہ حقیقت حال اس سے مختلف ہے ، بریلی کے رہنے والے یا اس سے سلسلہ شاگردی یا بیعت کا تعلق رکھنے والے اپنے آپ کو بریلوی کہیں تو یہ ایسا ہی ہوگا ، جیسے کوئی اپنے آپ کو قادری، چشتی، یا نقشبندی اور سہروردی کہلائے، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ خیر آبادی، بدایونی، رامپوری سلسلہ کا بھی وہی عقیدہ ہے جو علماء بریلی کا ہے، کیا ان سب حضرات کو بھی بریلوی کہا جائے گا ؟ ظاہر ہے کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے، اگرچہ مخالفین ان تمام حضرات کو بھی بریلوی ہی کہیں گے، اسی طرح اسلاف کے طریقے پر چلنے والے قادری، چشتی، نقشبندی، سہروردی اور رفاعی مخالفین کی نگاہ میں بریلوی ہی ہیں ۔ (ظہیر، البریلویہ، صفحہ نمبر ٧)

میں یہی کہوں گا کہ اہلسنت و جماعت کو بریلوی کہنا ہندوستانی دیوبندیوں کا طریقہ ہے ۔ (الحق المبین عربی صفحہ نمبر 3 از تاج الشریعہ حضرت علامہ محمد اختر رضا خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ)

مبلغ اسلام حضرت علامہ سیّد محمد مدنی کچھوچھوی فرماتے ہیں : غور فرمائیے کہ فاضل بریلوی کسی نئے مذہب کے بانی نہ تھے، از اوّل تا آخر مقلد رہے، ان کی ہر تحریر کتاب وسنت اور اجماع وقیاس کی صحیح ترجمان رہی، نیز سلف صالحین وائمّہ ومجتہدین کے ارشادات اور مسلکِ اسلاف کو واضح طور پر پیش کرتی رہی ، وہ زندگی کے کسی گوشے میں ایک پل کے لئے بھی ''سبیل مومنین صالحین'' سے نہیں ہٹے ۔ اب اگر ایسے کے ارشاداتِ حقانیہ اور توضیحات و تشریحات پر اعتماد کرنے والوں، انہیں سلفِ صالحین کی رَوش کے مطابق یقین کرنے والوں کو ''بریلوی'' کہہ دیا گیا تو کیا بریلویت وسنیت کو بالکل مترادف المعنی نہیں قرار دیا گیا؟ اور بریلویت کے وجود کا آغاز فاضل بریلوی کے وجود سے پہلے ہی تسلیم نہیں کرلیا گیا ؟ ۔ (سیّد محمد مدنی، شیخ الاسلام، تقدیم''دور حاضر میں بریلوی ، اہل سنت کا علامتی نشان''، مکتبہ حبیبیہ لاہورصفحہ نمبر ١٠۔١١،چشتی)

خود مخالفین بھی اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں : یہ جماعت اپنی پیدائش اور نام کے لحاظ سے نئی ہے، لیکن افکار اور عقائد کے اعتبار سے قدیم ہے ۔ (احسان الٰہی ظہیر، البریلویہ، صفحہ نمبر ٧)

اب اس کے سوا اور کیا کہا جائے کہ بریلویت کا نام لے کر مخالفت کرنے والے دراصل ان ہی عقائد وافکار کو نشانہ بنارہے ہیں جو زمانہ قدیم سے اہل سنت وجماعت کے چلے آہے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ ان میں اتنی اخلاقی جرأت نہیں ہے کہ کھلے بندوں اہل سنت کے عقائد کو مشرکانہ اور غیر اسلامی قرار دے سکیں، باب عقائد میں آپ دیکھیں گے کہ جن عقائد کو بریلوی عقائد کہہ کر مشرکانہ قرار دیا گیا ہے، وہ قرآن وحدیث اور متقدمین علمائے اہل سنت سے ثابت اور منقول ہیں، کوئی ایک ایسا عقیدہ بھی تو پیش نہیں کیا جاسکا جو بریلویوں کی ایجاد ہو، اور متقدمین ائمہ اہل سنت سے ثابت نہ ہو ۔

امام اہل سنت شاہ احمد رضا بریلوی کے القاب میں سے ایک لقب ہی عالم اہل السنۃ تھا ۔ اہل سنت وجماعت کی نمائندہ جماعت آل انڈیا سُنی کانفرنس کا رکن بننے کے لئے سُنی ہونا شرط تھا، اس کے فارم پر سُنی کی یہ تعریف درج تھی : سُنی وہ ہے جو ما انا علیہ واصحابی کا مصداق ہوسکتا ہو، یہ وہ لوگ ہیں، جو ائمہ دین، خلفاء اسلام اور مسلم مشائخ طریقت اور متاخرین علماء دین سے شیخ عبدالحق صاحب محدّث دہلوی، حضرت ملک العلماء بحر العلوم صاحب فرنگی محلی، حضرت مولانا فضل حق خیر آبادی، حضرت مولانا فضل رسول صاحب بدایونی، حضرت مولانا ارشاد حسین صاحب رامپوری، اعلیٰ حضرت مولانا مفتی احمد رضا خاں رحمہم اﷲ تعالیٰ کے مسلک پر ہو''۔ (مولانا محمد جلال الدین قادری، خطبات آل انڈیا سنی کانفرنس، مطبوعہ مکتبہ رضویہ لاہور، صفحہ نمبر ٨٥، ٨٦،چشتی)

خود مخالفین بھی اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ یہ لوگ قدیم طریقوں پر کار بند رہے، مشہور موّرخ سلیمان ندوی جن کا میلان طبع اہل حدیث کی طرف تھا، لکھتے ہیں : تیسرا فریق وہ تھا جو شدّت کے ساتھ اپنی روش پر قائم رہا اور اپنے آپ کو اہل السنۃ کہتا رہا، اس گروہ کے پیشوا زیادہ تر بریلی اور بدایوں کے علماء تھے ۔ (سلیمان ندوی، حیات شبلی، ص٤٦(بحوالہ تقریب تذکرہ اکابر اہل سنت، صفحہ نمبر ٢٢)

مشہور رائٹر شیخ محمد اکرام لکھتے ہیں : انہوں(امام احمد رضا بریلوی) نے نہایت شدت سے قدیم حنفی طریقوں کی حمایت کی ۔ (محمد اکرام شیخ، موج کوثر، طبع ہفتم١٩٦٦ئ، صفحہ نمبر٧٠)

اہل حدیث کے شیخ الاسلام مولوی ثناء اﷲ امرتسری لکھتے ہیں : امرتسر میں مسلم آبادی، غیر مسلم آبادی(ہندو سکھ وغیرہ) کے مساوی ہے، اسّی سال قبل پہلے سب مسلمان اسی خیال کے تھے، جن کو بریلوی حنفی خیال کیا جاتا ہے ۔ (ثناء اﷲ امرتسری، شمع توحید، مطبوعہ سرگودھا(پنجاب)، صفحہ نمبر٤٠)

یہ امر بھی سامنے رہے کہ غیر مقلدین براہ راست قرآن وحدیث سے استنباط کے قائل ہیں اور ائمّہ مجتہدین کو ا ستنادی درجہ دینے کے قائل نہیں ہیں، دیوبندی مکتب فکر رکھنے والے اپنے آپ کو حنفی کہتے ہیں، تاہم وہ بھی ہندوستان کی مسلم شخصیت یہاں تک کہ شاہ ولی اﷲ محدّث دہلوی اور شیخ عبدالحق محدّث دہلوی کو دیوبندیت کی ابتدا ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔

علامہ انور شاہ کشمیری کے صاحبزادے ، دارالعلوم دیوبند کے استاذ التفسیر مولوی انظر شاہ کشمیری لکھتے ہیں : میرے نزدیک دیوبندیت خالص ولی اللّہٰی فکر بھی نہیں اور نہ کسی خانوادہ کی لگی بندھی فکر دولت ومتاع ہے، میرا یقین ہے کہ اکابر دیوبند جن کی ابتداء میرے خیال میں سیدنا الامام مولانا قاسم صاحب رحمۃ اﷲ علیہ اور فقیہ اکبر حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی سے ہے۔۔۔۔۔۔ دیوبندیت کی ابتدا حضرت شاہ ولی اﷲ رحمۃ اﷲ علیہ سے کرنے کے بجائے مذکورہ بالا دو عظیم انسانوں سے کرتا ہوں ۔ (انظر شاہ کشمیری، استاذ دیوبند، ماہنامہ البلاغ ، کراچی، شمارہ مارچ ١٩٦٩ئ/١٣٨٨ھ، صفحہ نمبر ٤٨)

پھر شیخ عبدالحق محدّث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ سے دیوبند کا تعلق قائم نہ کرنے کا ان الفاظ میں اظہار کرتے ہیں : اوّل تو اس وجہ سے کہ شیخ مرحوم تک ہماری سند ہی نہیں پہنچتی ، نیز حضرت شیخ عبدالحق کا فکر کلیۃً دیوبندیت سے جوڑ بھی نہیں کھاتا ۔۔۔۔۔۔ سنا ہے حضرت مولانا انور شاہ کشمیری فرماتے تھے کہ''شامی اور شیخ عبدالحق پر بعض مسائل میں بدعت وسنت کا فرق واضح نہیں ہوسکا'' بس اسی اجمال میں ہزارہا تفصیلات ہیں، جنہیں شیخ کی تالیفات کا مطالعہ کرنے والے خوب سمجھیں گے''۔ (فٹ نوٹ ، انظر شاہ کشمیری، استاذدیوبند، ماہنامہ البلاغ ، کراچی، شمارہ مارچ ١٩٦٩ئ/١٣٨٨ھ، صفحہ نمبر ٤٩،چشتی)

تاج الشریعہ حضرت علامہ محمد اختر رضا خان صاحب ازہری سے ایک انٹرویو کے دوران جب سوال کیا گیا کہ پاکستان میں بعض لوگ اپنے آپ کو بریلوی کہتے ہیں اور بعض اپنے آپ کو دیوبندی، کیا یہ اچھی بات ہے۔ اس کے جواب میں حضور ازہری میاں نے ارشاد فرمایا کہ؛ بریلوی کوئی مسلک نہیں۔ ہم مسلمان ہیں، اہلسنت والجماعت ہیں ۔ ہمارا مسلک یہ ہے کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو آخری نبی مانتے ہیں ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اصحاب کا ادب کرتے ہیں ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اہلبیت سے محبت کرتے ہیں ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی امت کے اولیاء اللہ سے عقیدت رکھتے ہیں ، فقہ میں امامِ اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مقلد ہیں ۔ ہم اپنے آپ کو بریلوی نہیں کہتے ، ہمارے مخالف ہمیں بریلوی کہتے ہیں ۔ (ماہنامہ ضیائے حرم، لاہور، فروری 1988صفحہ نمبر 14)

ماہرِ رضویات پروفیسرڈاکٹرمسعود احمد رحمۃ اللہ علیہ اس بارے میں فرماتے ہیں کہ : امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ پر ایک الزام یہ ہے کہ وہ بریلوی فرقے کے بانی ہیں ۔ اگر تاریخ کی روشنی میں دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بریلوی کوئی فرقہ نہیں بلکہ سوادِ اعظم اہلسنت کے مسلکِ قدیم کو عرفِ عام میں بریلویت سے تعبیر کیا جاتا ہے اور یہ عرف بھی پاک و ہند میں محدود ہے ۔ اصل میں امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ اور اس مسلکِ قدیم کے مخالفین نے اس کے بریلویت کے نام سے یاد کیا ہے اور بقول ابو یحییٰ امام خان نوشروی "یہ نام علما دیوبند کا دیا ہوا ہے ۔ ڈاکٹر جمال الدین (جامعہ حنفیہ، دہلی) نے بھی اپنے ایک تحقیقی مقالے میں یہی تحریر فرمایا ہے کہ یہ نام مخالفین کا دیا ہوا ہے ۔ (آئینہ رضویات صفحہ نمبر 300)

صاحبزادہ سیّد محمد فاروق القادری اسے جاہلانہ اقدام قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں : اہلسنت و جماعت کو بریلوی کہنا کسی طرح درست نہیں ۔ اگر آج جماعتِ اسلامی کے افراد کو مودودی پارٹی کہیئے یا مودودئیے کہنا اور تبلیغی جماعت کو الیاسی جماعت کہنا درست نہیں تو آخر ملک کے سوادِ اعظم کو بریلوی کہنا کس منطق کی رو سے درست ہے ؟ تعجب ہے کہ خود اہلسنت کے بعض اصحاب کو بھی اس کا احساس نہیں اور وہ بڑے فخر سے اپنے آپ کو بریلوی کہہ کر متعارف کراتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام بریلی یا دیوبند کی سرزمین سے نہیں پھوٹا ۔ لہٰذا اس طرح کی تراکیب ونسبتیں اپنا عالمانہ نقطہ نظر سے فریقین کے لئے ایک جاہلانہ اقدام ہے ۔ (فاضلِ بریلی اور امورِ بدعت صفحہ نمبر 69) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Saturday 29 June 2019

خاتم النبیین کا معنیٰ اور تحذیر النّاس کا جواب

0 comments
خاتم النبیین کا معنیٰ اور تحذیر النّاس کا جواب

تحذیرالناس کے مصنف قاسم نانوتوی ہیں جن کو بانی دارالعلوم دیوبند بھی کہا جاتا ہے ان کی اس کتاب کا تعارف کروانا نہایت ضروری اس لئے بھی ہے کہ اس کتاب میں خاتم النبیین کے ایک نیا اور بالکل الگ تھلگ معنی پیش کیا گیا جس کا پوری تاریخ اسلام میں کہیں وجود ہی نہیں ملتا، اس کتاب کی وجہ سے کافی فتنہ بڑھا اور یہاں تک کہ اسی کتاب کے معانی کی آڑ میں قادیان سے مرزا غلام احمد قادیانی نے دعوی نبوت کردیا۔

قصہ مختصر اب جانیئے کہ آخر اس کتاب میں ہے کیا

اول تو میں قارئین کی معلومات کے لئے تحذیر الناس کی دو جھلکیاں پیش کر دوں

آغاز کتاب میں ہی یہ لکھا ہے

سو عوام کے خیال میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیا سابق کے زمانے کے بعد اور آپ سب میں آخر نبی ہیں مگر اہل فہم پر روشن ہو گا کہ تقدم یا تاخر زمانہ میں بالذات کچھ فضیلت نہیں پھر مقام مدح میں و لکن رسول اللہ و خاتم النبیین فرمانا اس صورت میں کیونکر صحیح ہوسکتا ہے۔

اس کے بعد صفحہ نمبر ۲۵ پر لکھتے ہیں

اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا

یہ تحذیرالناس کی وہ عبارات ہیں جن کے رد میں برصغیر کے علماء نے بکثرت کتب تحریر فرمائیں ان عبارات پر علماء عرب و عجم نے حکم صادر فرمایا ۔ جس کی تفصیل حسام الحرمین اور الصوارم الہندیہ میں دیکھی جا سکتی ہے۔

آئیے اس کتاب اور اس کے مصنف کا حال قاسم نانوتوی کے مکتب فکر ہی کے حکیم الامت اشرف علی تھانوی سے ملاحظہ فرمائیں

چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ جس وقت سے مولانا قاسم نانوتوی نے تحذیرالناس لکھی ہے کسی نے ہندوستان بھر میں مولانا کے ساتھ موافقت نہیں کی بجز مولانا عبدالحئی صاحب کے بحوالہ الاضافات الیومیہ جلد چہارم ص ۵۸۰ زیر ملفوظ ۹۲۷

یہاں یہ بھی ذکر کرتا چلوں کہ مولانا عبدالحئی لکھنوی بھی کتاب ابطال اغلاط قاسمیہ کی اشاعت کے بعد اس مسئلہ میں قاسم نانوتوی کے موافق نہ رہے اور تکفیر کے قائل ہو گئے۔ حوالہ کے لئے قاسم نانوتوی ہی کے مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر خالد محمود کی کتاب مطالعہ بریلویت ج ۳ ص ۳۰۰

تحذیرالناس کی اشاعت کے بعد قاسم نانوتوی کی حالت کیا تھی آئیے ان ہی کے ایک ہم مکتب کی تحریر کردو کتاب ارواح ثلاثہ کی حکایت نمبر ۲۶۵ کا یہ حصہ ملاحظہ کریں

اب مولانا نانوتوی گارڈ رکھتے چھپ کر رہتے سفر کرتے تو نام تک بتانے کا حوصلہ نہ رکھتے ، خورشید حسین بتاتے یہ کتاب مولانا نانوتوی کے لئے مصیبت بن گئی تھی۔

ایک اور حوالہ قاسم العلوم از نورالحسن راشد کاندھلوی ص ۵۵۰ سے ملاحظہ کریں چنانچہ تحریر ہے کہ
پر خدا جانے ان کو کیا سوجھی جو اس کو چھاپ ڈالا جو یہ باتیں سننا پڑیں۔

اگر تحذیرا لناس کی عبارات کفریہ نہیں تو پھر اس میں تحریف کیوں کی گئی لیجئے بطور نمونہ ایک حوالہ پیش ہے اصل قدیم تحذیرالناس مطبوعہ کتب خانہ رحیمیہ دیوبند ضلع سہارنپور کے صفحہ نمبر ۲۵ پر اصل عبارت یوں ہے۔

اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا۔

اب مکتبہ راشد کمپنی دیوبند یو پی کی شائع کردہ کتاب کی عبارت ملاحظہ فرمائیں۔

اگر بالفرض آپ کے زمانہ میں یا بالفرض آپ کے بعد بھی کوئی نبی فرض کیا جائے تو بھی خاتمیت محمدی میں فرق نہ آئے گا۔

یعنی عبارت میں نبی پیدا ہو کی جگہ نبی فرض کیا جائے کر دیا اس کارستانی سے یہ ثابت ہوا کہ ان کے ہم فکر علما ء کے نزدیک بھی یہ عبارت کفریہ تھی جبھی تو اس میں تحریف کر دی۔

اب آئیے ایک لرزہ خیز انکشاف کی طرف جو کہ انھی کہ حکیم الامت اشرف علی تھانوی نے کیا ، چنانچہ لکھتے ہیں کہ تحذیرالناس کی وجہ سے جب مولانا پر کفر کے فتوے لگے تو جواب نہیں دیا بلکہ یہ فرمایا کہ کافر سے مسلمان ہونے کا طریقہ بڑوں سے یہ سنا ہے کہ کلمہ پڑھنے سے کوئی مسلمان ہو جاتا ہے تو میں کلمہ پڑھتا ہوں۔ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
حوالہ کے لئے ملاحظہ کریں الاضافات الیومیہ جلد ۴ ص ۲۹۳ زیر ملفوظ ۴۵۷

احسن نانوتوی جن کا قاسم نانوتوی کے مکتب فکر میں بڑا مقام ہے انھوں نے بھی مفتی نقی علی خان قادری برکاتی کی طرف سے فتوی کفر صادر ہونے کے بعد مفتی نقی علی خان کے ایک ساتھی رحمت حسین کو یہ لکھا جناب مخدوم و مکرم بندہ دام مجدیم پس از سلام مسنون التماس ہے مگر مولوی صاحب نے براہ مسافر نوازی غلطی تو ثابت نہ کی اور نہ مجھ کو اس کی اطلاع دی بلکہ اول ہی کفر کا حکم شائع فرما دیا اور تما م بریلی میں لوگ اس طرح کہتے پھرے ۔ خیر میں نے خدا کے حوالے کیا اگر اس تحریر سے میں عنداللہ کافر ہوں تو توبہ کرتا ہوں خدا تعالیٰ قبول کرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عاصی محمد احسن
حوالہ کے لئے کتاب مولانا محمد احسن نانوتوی ص ۸۸ اور تنبیہ الجہال ص ۱۶

اب آئیے ذرا ذکر ان حضرات کا بھی ہو جائے جن پر یہ الزام دیا جاتا ہے کہ انھوں نے اس کتاب کی تائید کی تھی چنانچہ ان میں سے اول مولانا عبد الحئی کا ذکر اوپر گزر چکا اب کچھ دیگر حضرات کے بارے میں ملاحظہ فرمائیں۔

مولانا عبدالباری فرنگی محلی نے الطاری الداری کی اشاعت کے بعد اپنے سابقہ موقف سے توبہ کی اور امام احمد رضا کے فتوائے تکفیر سے اتفاق کر لیا ۔ بحوالہ اخبار ہمدم لکھنو ۲۰ مئی ۱۹۲۱

مولانا معین الدین اجمیری نے ۱۹۱۹ میں مفتی حامد رضا خان سے خط و کتابت میں فتویٰ کفر کی حمایت کی بحوالہ کتاب محدث اعظم ج ۱ ص ۱۱۱

اسی طرح پیر کرم شاہ صاحب نے غلط فہمی کا شکار ہو کر کتاب کی تعریف اولاً کردی بعد میں ماہنامہ ضیائے حرم شمارہ اکتوبر ۱۹۸۶ کے ص ۴۹ پر ندامت و افسوس کا اظہار کیا اور ص ۴۴ پر نانوتوی کی عبارت کو خاتم النبیین کے اجماعی مفہوم کے مخالف قرار دیا ۔ مزید ۱۹۷۷ میں سورۃ طلاق کی تفسیر کرتے ہوئے اثر ابن عباس کو موضوع اور من گھڑت قرار دیا بحوالہ تفسیر ضیاء القرآن ص ۳۰۸۲

پیر کرم شاہ صاحب کے موقف میں آنے والی تبدیلی کی تصدیق ڈاکٹر خالد محمود نے اپنی کتاب مطالعہ بریلویت ج ۱ ص ۴۱۳ پر بھی کی ہے چنانچہ انھوں نے لکھا کہ آخر کار پیر کرم شاہ صاحب نے سابقہ موقف چھوڑ کر دیوبندی حضرات کو تکفیر کا صدمہ پہنچایا ہے۔

حضرت خواجہ قمرالدین سیالوی کے حوالہ سے بھی یہ مغالطہ پیش کیا جاتا ہے کہ وہ بھی قاسم نانوتوی کی کتاب کے مؤید تھے حالانکہ اس کے حوالے سے آپ کے تکفیری فتویٰ موجود ہیں مزید کتاب دعوت فکر ص ۱۱۰ پر تحریر ہے کہ آپ کو تحذیرالناس پیش کی گئی تو آپ نے قاسم نانوتوی کی تکفیر کر دی۔

الحمد للہ اب اس موضوع پر دوسرا حصہ پیش خدمت ہے۔ ان شاء اللہ عزوجل اس مضمون کے مطالعہ سے آپ کو اصل وجہ تکفیر سمجھنے میں نہایت آسانی ہو گی۔ اس مضمون میں ایک سوال کا جواب پیش کیا جائے گا جو کہ قاسم نانوتوی کے معتقدین اور حامیان نظریہ تحذیرالناس بہت زور و شور سے اٹھاتے ہیں۔ وہ سوال یہ ہے : بانی دارالعلوم دیوبند مولوی قاسم نانوتوی کی کتاب'' تحذیر الناس''کی مندرجہ ذیل دونوں عبارتوں کے متعلق بالفرض کے لفظ کے ساتھ جو بات کہی گئی ہے اس پر اعتراض کیوں کر درست ہے؟۔ جب کہ محض کسی چیز کے فرض کر لینے پر حکم نہیں ہوتا۔ جیسا کہ قرآن میں ہے ! لو کان فیھما الھۃ الا اللّٰہ لفسدتا
عبارت تحذیر الناس یہ ہے!

١۔اگر بالفرض آپ کے زمانہ میں بھی کہیں اور کوئی نبی ہو جب بھی آپ کا خاتم ہونا بدستور باقی رہتا ہے۔
٢۔اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا۔''
(الجواب)

یہ عبارت کفر یوں ہے کہ اس عبارت میں اس بات کا انکار ہے کہ خاتم النبیین کے معنی آخر الانبیاء ہیں۔ خاتم النبیین کے معنی آخر الانبیاء ہونا ضروریات دین سے ہے۔ اس پر اجماع امت ہے۔ اور اس عبارت میں اس کا انکار ہے۔ نانوتوی یہ کہتے ہیں کہ! آپ سب سے آخری نبی نہیں اور خاتم النبیین کے معنی آخری نبی کے نہیں۔ بلکہ خاتم بالذات کے ہیں۔ یعنی نبوت آپ کو بلا واسطہ ملی۔ اس لیے اگر آپ کے زمانے میں یا آپ کے زمانے کے بعد کوئی نبی پیدا ہو تو خاتمیت محمدی میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔ حالانکہ جب حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم ؐ خاتم النبیین بمعنی آخر الانبیاء ہیں تو آپ کے زمانہ میں یا آپ کے زمانے کے بعد کوئی نبی پیدا ہو تو خاتمیت محمدی میں فرق آئے گا بلکہ آپ خاتم ہی نہ ہوں گے کہ جب خاتم بمعنی آخر لیا تو دوسرے کا سوال ہی نہیں۔

اس کو اور آسان الفاظ میں یوں سمجھیے ۔ ایمان یہ ہے کہ حضور ؐ خاتم النبیین ہیں اس معنی میں آپ کے زمانے میں یا آپ کے زمانے کے بعد کوئی نبی پیدا ہو تو یہ خاتمیت محمدی کے منافی ہے۔ اگر منافی نہ ہوتا تو کفر نہ ہوتا۔تو جو بات کفر ہے اسکو قرآن کے معنی بتا دیا ہے۔ اس لیے یہ کلمہ کفر ہوا۔اگر مطلقاً یہ شرط وجزا ایمان ہے تو اس معترض سے پوچھیے اگر کوئی اس سے سیکھ کے یہ کہے۔

''اگر بالفرض زمین و آسمان میں چند خدا ہیں تو بھی اللہ عزوجل کی توحید میں کوئی فرق نہیں آئے گا''۔یہ کلمہ کفر ہے یا ایمان ؟

اگر ایمان بتائے تو دیوبند بھیج کر اس کا دماغ درست کیجیے اور اگر کفر مانے تو اس سے پوچھیے یہاں بھی اگر ہے یہاں بھی بالفرض ہے۔ یہ کیوں کر کفر ہوا اور تحذیر الناس میں ''اگر ''اور ''بالفرض''ہونے کی وجہ سے وہ کیسے دیوبندیوں کا ایمان ہوا؟۔

معترض نے تحذیر الناس کی عبارت آیۃ کریمہ:لوکان فیھما الھۃ الا اللّٰہ لفسدتا۔کے مثل مان کر تحذیر الناس کی عبارت کے کفر کو قبول کیا۔اس لیے کہ حسب قاعدہ نحو ''لو'' اپنے مدخول کے مثبت کو منفی اور منفی کو مثبت بنا دیتا ہے۔اسی وجہ سے اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ زمین و آسمان میں نہ چند معبود ہیں اور نہ زمین و آسمان میں فساد۔اب اس قاعدے کی روح سے تحذیر الناس کی عبارت کا مطلب یہ ہوا۔کہ آپ کے زمانے میں کہیں کوئی نبی نہیں اور آپ کی خاتمیت باقی نہیں۔آپ کے بعد کوئی نبی نہیں اور خاتمیت محمدی میں فرق آگیا۔حضورصلی اللہ علیہ والہ وسلم ؐ کی خاتمیت کا باقی رہنا اور اس میں فرق ماننا کفر ہے۔

بات اصل یہ ہے کہ قاتل ایک قتل چھپانے کے لیے دس قتل کرتا ہے،چور پکڑے جانے کے اندیشے سے قتل کر ڈالتا ہے،ایک کفر پر پردہ ڈالنے کی ہر کوشش دوسرے کفر کی جانب کھینچ کر لے جاتی ہے۔ تحقیق یہ ہے کہ صدق شرطیہ کے لیے صدق مقدم و تالی لازم نہیں۔ یہ حق ہے۔ مگر وجود علاقہ لازم ہے۔ اور قضیہ شرطیہ میں علاقے ہی پر مدار حکم ہے۔ یہ کہنا سچ ہے ''انسان اگر گدھا ہوتا تو اس کے دم ہوتی''مگر یہ کہنا غلط ہے کہ'' انسان اگر گدھا ہوتا تو اس کے سینگ ہوتے''۔اس لیے کہ پہلے میں علاقہ درست دوسرے میں نہیں۔ اب اگر کوئی یہ کہے زید بالفرض اگر گدھا ہوتا تو خدا ہوتا کلمہ کفر ہے۔اس لیے کہ یہاں قائل نے جو علاقہ ثابت کیا ہے وہ کفر ہے۔

اسی طرح تحذیر الناس میں ''اگر ''اور''بالفرض'' ہوتے ہوئے بھی وہ عبارت اس لیے کفر ہے کہ اسمیں جو علاقہ بتایا گیا ہے وہ کفر ہے۔ یعنی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ؐ کے زمانے میں یا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ؐ کے زمانے کے بعد نبی ہونے کو خاتمیت محمدی کے منافی نہیں جانا۔ حالانکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ؐ کے زمانے میں یا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ؐ کے زمانے کے بعد کسی نبی کا پیدا ہونا خاتمیت محمدی کے منافی ہے۔ اور یہ اجلی بدیہیات اور ضروریات سے ہے۔ جسے ہر بے پڑھا لکھا سمجھدار مسلمان بھی جانتا ہے۔ کسی مسلمان سے پوچھیے کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ؐ کے زمانے میں یا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ؐ کے بعد کوئی نبی پیدا ہوجائے تو خاتمیت محمدی میں فرق آئے گا کہ نہیں؟تو وہ فوراً کہے گا ضرور فرق آئے گا۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ؐ خاتم النبیین کیسے ؟

'' اگر''اور بالفرض ''کی آڑ تو کسی عیار کی ایجاد ہے کہ عوام اس میں الجھ کر شک میں پڑ جائیں۔ ورنہ بات صاف ہے تحذیر الناس کی عبارت سے بالکل واضح ہے کہ اس کا قائل حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانے میں یا آپ کے بعد کسی نبی کے پیدا ہونے کو ممکن مانتا ہے اور یہ کفر ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ؐ کے زمانے میں یا بعد میں نبی پیدا ہونا محال شرعی ہے۔ یہ آیۃ کریمہ خاتم النبیین کے منافی ہے اس لیے صریح کفر ہے۔

بہت سی باتیں ایسی ہیں کہ ان کا ممکن ہونا ماننا بھی کفر ہے جیسے۔اللہ عزوجل کا شریک ممکن ماننا۔ قرآن کے بعد کسی آسمانی کتاب کا نزول ممکن ماننا اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانے میں یا آپ کے بعد کسی نبی کو ممکن ماننا کفر ہے۔اور تحذیر الناس کی عبارت کا یہی صریح مطلب ہے۔اس لیے یہ عبارت بلا شبہ کفر صریح ہے۔واللہ تعالیٰ اعلم

اس کالم کو نائب حضور مفتی ء اعظم ہند شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ کی تحریر جو کہ ماہنامہ اشرفیہ ۱۹۹۸ کے صفحہ نمبر ۹ اور ۱۰ پر شائع ہوئی، سے اخذ کیا گیا ہے۔

علمائے اہلسنت کی تصانیف سے ماخوذ یہ تیسرا مضمون قدرے تفصیل سے نذر قارئین ہے۔ اس مضمون میں مولوی قاسم نانوتوی کی کتاب تحذیر الناس کے متعلق انہی کے پیر بھائی مگر مسلک کے لحاظ سے جلیل القدر سنی بزرگ حضرت شیخ الاسلام علامہ انوار اللہ فاروقی کی شہرہء آفاق کتاب انوار احمدی سے اقتباس پیش کئے جائیں گے جو کہ تنبیہات کے عنوان کے تحت بیان کئے گئے ہیں۔

''مو لو ی محمد قا سم نانو تو ی د یو بند کے ا کا بر ین میں شا مل ہیں ،مو لو ی قا سم نا نو تو ی نے اپنی کتا ب تحذ یر النا س میں خاتم النبیین کے غلط معا نی پیش کر نے کی کو شش کر کے عقیدہ ختم نبوت میں ر خنہ اندا ز ی کی نا کا م کو شش کی ،جس کی علما ئے اہلسنت ہمیشہ مذمت فرما تے رہے ،ز یر نظر بحث میں بھی اس کے با طل عقید ہ کو د لا ئل کے سا تھ در کیا گیا ہے ''۔

عقید ہ خا تم النبیین پر حضرت مو لا نا محمد انوا ر اللہ رحمۃ اللہ علیہ مصنف کتا ب'' انوا ر احمد ی'' کے علمی د لا ئل ، ایمانی شوا ہد ،اور بصیرت افرو ز تنبیہا ت کی شا ندا ر بحث پڑھنے سے پہلے جا معہ نظا میہ حید ر آبا د کے محتر م مو لا نا عبدالحمید صا حب کا یہ حا شیہ پڑھیے تا کہ بحث کے بنیاد ی گو شو ں سے آپ پو ر ی طر ح با خبر ہو جا ئیں ۔شیخ الجا معہ تحریر فرماتے ہیں ! ''تحذ یر النا س نا می کتا ب میں خا تم النبیین کے مسئلے پر(مو لو ی محمد قا سم صا حب نانو تو ی بانی دار لعلو م دیوبند)نے ایک فلسفیانہ بحث فر ما ئی جس کا خلا صہ یہ ہے کہ خا تم النبیین ہو نا فضلیت کی با ت نہیں ۔کسی کا مقد م زمانے یا متا خر زمانے یعنی اگلے ز ما نے یا پچھلے ز ما نے میں پا یا جا نا فضلیت سے تعلق نہیں ر کھتا ۔ اور اگر با لفر ض آپ کے بعد کو ئی نبی آجا ئے تو آپ کی فضلیت پر اس کا کو ئی اثر مرتب نہیں ہو گا ۔کیو نکہ خا تم النبیین ہو نے میں امکا ن ذاتی کی نفی نہیں یعنی آپ کے بعد کسی نبی کا ہو نا ممکن ہے ۔

اس شبہ کا از الہ حضرت مو لا نا مر حو م نے اپنے اس مضمو ن میں نہا یت و ضا حت کے سا تھ کیا ہے کہ:
خا تم النبیین کا و صف آنحضور صلی اللہ علیہ و الہ وسلم ؐ کا خا صہ ہے جو آپ کی ذا ت گرا می کے سا تھ مختص ہے کسی اور میں پا یا نہیں جا سکتا۔ خا تم النبیین کا لقب از ل ہی سے آپ کے لیے مقر ر ہے اس کا اطلا ق آپ کے سوا کسی اور پر نہیں ہو سکتا کیو نکہ خاتم النبیین کا مفہو م جز ئی حقیقی ہے ۔ جز ئی حقیقی وہ ہے جس کا اطلا ق ایک سے زائد پر عقلاً ممتنع ہے لہٰذا ایسی صو رت میں کسی اور خا تم النبیین کا ذا تی امکا ن با قی نہ ر ہا ۔

اسی مضمون کو حضرت نے تحذ یر النا س کے جوا ب میں پھیلا کر تحر یر فر ما یا ہے اور اس کی و ضا حت فر ما ئی ہے کہ جب اللہ جل شانہ نے آنحضور صلی اللہ علیہ و الہ وسلم ؐ کو اپنے کلا م قد یم میں خا تم النبیین فر ما یا ہے تو حضور از ل ہی سے اس صفت خاص کے ساتھ متصف ہیں ۔ایسا کوئی ز ما نہ نہیں جو با ر ی تعا لیٰ کے علم اور کلا م پر مقد م ہو ۔اور اس میں کو ئی اور شخص اس و صف سے متصف ہو سکے ۔پس خا تم النبیین کی صفت مختصہ آنحضرت ؐ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی ذا ت گر امی میں منحصر ہے کسی دوسرے کا اس صفت کے سا تھ اتصا ف محا ل ہے ۔

مو لو ی محمد قا سم نانو تو ی کی فلسفیا نہ بحث بد عت ہے : اس کے بعد حضرت مو لا نا نے اس با ت پر تنبیہ فر ما ئی کہ جو لو گ کل بد عۃ ضلا لۃ پڑھ کر ہر نئی با ت کو خو اہ حسنہ ہو یا سیہ مستوجب دوزخ قر ار د یا کر تے ہیں وہ اس سوا ل کا جو اب د یں کہ کیا خا تم النبیین کی فلسفی بحث بد عت نہیں ہے ۔جو نہ قرآ ن میں ہے اور نہ اس کے با ر ے میں کو ئی حد یث وا رد ہے ،نہ قرو ن ثلا ثہ میں ،صحابہ ،تا بعین اور تبع تا بعین نے خا تم النبین پر ایسی کو ئی بحث کی ہے ؟

مو لو ی محمد قا سم نانو تو ی کی فلسفیا نہ بحث کا نتیجہ: مز ید برا ں اس بد عت قبیحہ کا نتیجہ یہ ہوا کہ قا د یا نی نے اس فلسفیا نہ استد لا ل سے اپنی نبو ت پر د لیل پیش کی ہے اور شہاد ت میں مصنف تحذ یر النا س کا نا م پیش کیا ہے ۔اب یہ مد عی اور گوا ہ کے سا تھ اسی با ر گا ہ میں پیش ہو گا جس نے امت کو تعلیم د ی ہے کہ اپنی آوازوں کو نبی کی آوا ز پر بلند مت کر و۔بلند کر و گے تو تمہا ر ے سا ر ے اعما ل ضبط کر دئیے جا ئیں گے ۔( محمدعبدا لحمید شیخ جا معہ نظا میہ، انوا ر احمد ی ،ص٤۴۲٢)

مو لو ی محمد قا سم نانو تو ی کے انکا ر ختم نبو ت پر تنبیہا ت: اس حا شیہ کے بعد حضرت مصنف کی وہ ز لزلہ فگن تنبیہا ت ملا حظہ فر ما ئیں جو لفظ خا تم النبیین کے سلسلے میں تحذیر النا س کے مصنف کے خلاف انہو ں نے صا در فر ما ئی ہیں۔

پہلی تنبیہ:بعض لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ ا گر چہ دو سر ے کا خا تم النبیین ہو نا محا ل و ممتنع ہے مگر یہ امتنا ع لغیرہ ہو گا نہ بالذات جس سے امکان ذا تی کی نفی نہیں ہو سکتی ۔سو اس کا جوا ب یہ ہے کہ و صف خا تم النبیین خا صہ آنحضر ت ؐ کا ہے جو دو سر ے پر صادق نہیں آسکتا۔ اور مو ضو علہ ،اس لقب کا ذات آنحضر ت صلی اللہ علیہ و الہ وسلم ؐہے کہ عند الاطلاق کو ئی دو سرا اس مفہو م میں شر یک نہیں ہو سکتا پس یہ مفہو م جز ئی حقیقی ہے۔(انوا ر احمد ی ،صفحہ٤۴۲٢)

دو سری تنبیہ:پھر جب عقل نے بہ تبعیت نقل خا تم النبیین کی صفت کے سا تھ ایک ذا ت کو متصف ما ن لیا تو اس کے نزدیک محا ل ہو گیا کہ کوئی دو سر ی ذا ت اس صفت کے سا تھ متصف ہو ۔اور بحسب منطوق لا ز م الو ثو ق ما یبد ل القول لدیابدالآبا د تک کے لیے یہ لقب مختص آنحضر ت صلی اللہ علیہ و الہ وسلم ؐہی کے لیے ٹھہرا تو جز ئیت اس مفہو م کی ابد الا ۤ با د تک کے لیے ہو گئی ۔کیو نکہ یہ لقب قرآن شر یف سے ثا بت ہے جو بلا شک قد یم ہے ۔(انوا ر احمد ی ،صفحہ۴۳٤٣)

تیسر ی تنبیہ:اب دیکھا جا ئے کہ مصدا ق اس صفت کا کب سے معین ہوا ۔سو ہما را د عو ی ٰہے کہ ابتد ائے عا لم امکا ں سے جس قسم کا بھی و جو د فر ض کیا جا ئے ہر و قت آنحضر ت صلی اللہ علیہ و الہ وسلم ؐاس صفت مختصہ کے سا تھ متصف ہیں ۔کیو نکہ حق تعا لیٰ اپنے کلا م قد یم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و الہ وسلم ؐکو خا تم النبیین فر ما چکا ۔ اب کو ن سا ایسا ز ما نہ نکل سکے گا ۔جو اللہ کے و صف علم و کلام پر مقد م ہو ؟(انوا ر احمد ی ،صفحہ٤۴۷٧)

چو تھی تنبیہ:غیر ت عشق محمد ی بڑ ی چیز ہے ۔جب ا سے جلا ل آتا ہے تو ایک ز لز لہ کی سی کیفیت پیدا ہو جا تی ہے۔ مسلمان سب کچھ برداشت کر سکتا ہے لیکن اسے اپنے محبو ب کی تنقیص ذرا بھی بر دا شت نہیں ۔مصنف کتا ب با و جو د یکہ بہت نر م طبیعت کے آد می ہیں لیکن اس مو قعہ پر ان کے قلم کا جلا ل د یکھنے کے قا بل ہے ۔کسی اور خا تم النبیین کے امکا ن کے سوا ل پر ان کے ایما ن کی غیر ت اس در جہ بے قابو ہو گئی ہے کہ سطر سطر سے لہو کی بو ند ٹپک ر ہی ہے ۔میدا ن و فا میں عشق کوسر بکف د یکھنا ہو تو یہ سطر یں پڑ ھیے۔مصنف کتا ب ،تحذ یر النا س کے مبا حث کا محا سبہ کر تے ہو ئے تحر یر فرما تے ہیں !''اب ہم ذ را ان صا حبو ں سے پو چھتے ہیں کہ اب وہ خیا لا ت کہا ں ہیں جو کل بد عۃ ضلا لۃ پڑھ پڑ ھ کر ایک عا لم کو دو ز خ میں لے جا ر ہے تھے ۔کیا اس قسم کی بحث فلسفی بھی کہیں قر آ ن و حد یث میں وا رد ہے؟ یا قر و ن ثلاثہ میں کسی نے کی تھی ۔پھر ایسی بد عت قبیحہ کے مر تکب ہو کر کیا استحقا ق پیدا کیا اور اس مسئلہ میں جب تک بحث ہو تی ر ہے گی اس کا گنا ہ کس کی گر د ن پرہو گا ـ''؟

د یکھئے حضرت جر یر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی رو ایت سے حد یث شر یف میں وا رد ہے کہ حضور انور ؐ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے ار شا د فر ما یا ہے کہ! جو شخص اسلام میں کوئی برا طر یقہ نکا لے تو اس پر جتنے لو گ عمل کر تے ر ہیں گے سب کا گنا ہ اس کے ذمے ہو گا اور عمل کر نے وا لو ں کے گنا ہ میں کچھ کمی نہ ہو گی۔(رواہ مسلم )

لکھتے لکھتے اس مقام پر عشق و ایما ن کی غیر ت نقطہ انتہا کو پہنچ گئی ہے ۔غیظ میں ڈوبے ہو ئے کلما ت کا ذ را تیو ر ملا حظہ فرمائیے! تحریر فر ما تے ہیں !''بھلا جس طر ح حق تعا لیٰ کے نز د یک صر ف آنحضر ت ؐ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم خا تم النبیین ہیں و یسا ہی اگر آپ کے نزدیک بھی رہتے ہیں تو اس میں آپ کا کیا نقصا ن تھا ۔کیا اس میں بھی کو ئی شر ک و بد عت ر کھی تھی جو طرح طر ح کے شا خسا نے نکا لے گئے'' یہ تو بتا ئیے کہ ہما ر ے حضرت نے آپ کے حق میں ایسی کو ن سی بد سلو کی کی تھی جو اس کا بد لہ اس طر ح لیا گیا کہ فضیلت خاصہ میں بھی مسلم ہو نا مطلقًا نا گوا ر ہے ۔یہا ں تک کے جب د یکھا کہ خود حق تعا لیٰ فر ما ر ہا ہے کہ آپ سب نبیو ں کے خاتم ہیں تو کما ل تشو یش ہو ئی کہ فضیلت خاصہ ثا بت ہو ئی جا تی ہے ۔جب اس کے ابطا ل کا کو ئی ذ ریعہ د ین اسلا م میں نہ ملا تو فلا سفہ معاند ین کی طر ف ر جو ع کیا اور امکا ن ذا تی کی شمشیر دودم(دودھار ی تلوا ر) ان سے لے کر میدا ن میں آکھڑ ے ہوئے ۔

پا نچو یںتنبیہ:افسو س ہے اس د ھن میں یہ بھی نہ سو چا کہ معتقد ین سا دہ لو ح کو اس خاتم فر ضی کا انتظا ر کتنے کنو ئیں جھنکائے گا ۔ معتقد ین سادہ لو ح کے دلو ں پر اس تقر یر نا معقو ل کا ا تنا ا ثر تو ضرور ہوا کہ آنحضرت ؐ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی خاتمیت میں کسی قدر شک پڑ گیا۔ چنا نچہ بعض اتبا ع نے اس بنا پر الف لا م خاتم النبیین سے یہ با ت بنا ئی کہ حضرت صرف ان نبیو ں کے خاتم ہیں جو گزر چکے ہیں جس کا مطلب یہ ہو ا کہ حضور کے بعد بھی انبیا ء پیدا ہو ں گے اور ان کا خا تم کو ئی اور ہو گا۔

معا ذاللہ اس تقر یر نے یہا ں تک پہنچا د یا کہ قر آن کا انکا ر ہو نے لگا ۔ذ را سو چئیے کہ حضو ر صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے خا تم النبیین ہو نے کے سلسلے میں یہ سا ر ے احتما لا ت حضور صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے رو برو نکا لے جا تے تو حضور صلی اللہ علیہ و الہ وسلم پر کس قد ر شا ق گز ر تا ۔

چھٹی تنبیہ:حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ و الہ وسلم ؐ کے سا منے تو را ت کے مطا لعے کا ار اد ہ کیا تھا تو اس پر حضور کی حالت کس قد ر متغیر ہو گئی تھی کہ چہر ہ مبا ر ک سے غضب کے آثا ر پیدا تھے ۔اور با و جو د اس خلق عظیم کے ایسے جلیل القد ر صحا بی پر کتنا عتا ب فر ما یا تھا جس کا بیا ن نہیں ۔جو لو گ تقر ب و اخلا ص کے مذ اق سے وا قف ہیں و ہی اس کیفیت کو سمجھ سکتے ہیں۔ پھر یہ فر ما یا کہ اگر خود حضرت مو سیٰ میر ی نبوت کا ز ما نہ پا تے تو سو ائے میر ی اتبا ع کے ان کے لیے کو ئی چا رہ نہ ہو تا ۔

اب ہر شخص با آسا نی سمجھ سکتا ہے کہ جب حضر ت عمر رضی اللہ عنہ جیسے صحابی با اخلا ص کی صر ف اتنی حر کت اس قد ر ناگوار طبع غیور ہو ئی تو کسی ز ید و عمرو کی اس تقر یر سے جو خود خا تمیت محمد ی میں شک ڈا ل د یتی ہے ، حضور کو کیسی اذ یت پہنچتی ہو گی۔ کیا یہ ایذا ر سا نی خالی جا ئے گی؟ہر گز نہیں حق تعا لیٰ ار شا د فر ماتا ہے !اِنَّ الَّذِ یْنَ یُوْ ذُوْ نَ اللّٰہَ وَ رَسُوْ لَہ، لَعَنَھُمُ اللّٰہُ فِیْ الدُّ نْیَا وَالْاٰخِرَ ۃِ وَاَعَدَّلَھُمْ عَذَابًامُھِیْنًا Oتر جمہ:جو لو گ ایذا د یتے ہیں اللہ کو اور اس کے اس کے ر سول کو ،لعنت کر ے گا اللہ ان پر د نیا میں بھی اور آخر ت میں بھی ۔اور تیا ر کر ر کھا ہے ان کے لیے ذلت کا عذاب ۔ (انوا ر احمد ی ،صفحہ٥۵۲٢)
الحمد للہ ہم نے تعصب سے ھٹ کر حقائق و دلائل کی روشنی میں علمی اور مہذب انداز میں تحذیر الناس میں خاتم النبیین کے کیئے گئے غلط معنیٰ کا رد پیش کیا ہے دعا اللہ تعالیٰ اسے ذریعہ نجات بنائے آمین ۔ طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی ۔