حدیث اے اللہ کے بندو میری مدد کرو
محترم قارئین کرام : یہ ایک مشہور حدیث ہے اور سند کے حساب سے متعدد طرق سے بیان ہوئی ہے اور حسن کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس حدیث کے بارے میں ابن وھاب نجدی کے پیروکار کہتے ہیں کہ یہ حدیث ضعیف ہے اور یوں ان کی مذہبی دکانداری چل رہی ہے ۔ یہاں پر اس کا مفصل رد پیش کیا جارہا ہے ۔ یہ حدیث اور اس نوع کی دیگر احادیث مکمل طور پر صحیح ہیں ۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي ﷲ عنهما قَالَ : إِنَّ ِﷲِ عزوجل مَـلَائِکَةً فِي الْأَرْضِ سِوَی الْحَفَظَةِ يَکْتُبُوْنَ مَا يَسْقُطُ مِنْ وَرَقِ الشَّجَرِ، فَإِذَا أَصَابَ أَحَدَکُمْ عُرْجَةٌ فِي الْأَرْضِ، لَا يَقْدِرُ فِيْهَا عَلَی الْأَعْوَانِ فَلْيَصِحْ فَلْيَقُلْ : عِبَادَ ﷲِ، أَغِيْثُوْنَا أَوْ أَعِيْنُوْنَا رَحِمَکُمُ ﷲُ فَإِنَّهُ سَيُعَانُ. وَفِي رِوَايَةِ رَوْحٍ : إِنَّ ِﷲِ مَـلَائِکَةً فِي الْأَرْضِ يُسَمَّوْنَ الْحَفَظَةَ يَکْتُبُوْنَ مَا يَقَعُ فِي الْأَرْضِ مِنْ وَرَقِ الشَّجَرِ، فَمَا أَصَابَ أَحَدًا مِنْکُمْ عُرْجَةٌ أَوِ احْتَاجَ إِلَی عَوْنٍ بِفَـلَاةٍ مِنَ الْأَرْضِ فَلْيَقُلْ : أَعِيْنُوْنَا، عِبَادَ ﷲِ، رَحِمَکُمُ ﷲُ فَإِنَّهُ يُعَانُ إِنْ شَاءَ ﷲُ.رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَالْبَيْهَقِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : رِجَالُهُ ثِقَاتٌ ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عباس رضی ﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ بے شک اللہ تعالیٰ کے بعض فرشتے، انسان کے اعمال لکھنے والے فرشتوں کے علاوہ، ایسے بھی ہیں جو درختوں کے پتوں کے گرنے تک کو لکھتے ہیں، پس تم میں سے جب کوئی کسی جگہ (کسی بھی مشکل میں) جائے، جہاں بظاہر اس کا کوئی مددگار بھی نہ ہو، تو اسے چاہیے کہ وہ پکار کر کہے : اے اللہ کے بندو، اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے، ہماری مدد کرو، تو پس اس کی مدد کی جائے گی۔ اور حضرت روح کی روایت میں ہے کہ بے شک زمین پر اللہ تعالیٰ کے بعض فرشتے ایسے ہیں جنہیں حَفَظَۃ (حفاظت کرنے والے) کا نام دیا جاتا ہے، اور جو زمین پر گرنے والے درختوں کے پتوں تک کو لکھتے ہیں، پس جب تم میں سے کوئی کسی جگہ محبوس ہو جائے یا کسی ویران جگہ پر اسے کسی مدد کی ضرورت ہو، تو اسے چاہیے کہ وہ یوں کہے : اے اللہ کے بندو! اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے، ہماری مدد کرو، پس اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو اس شخص کی (فوراً) مدد کی جائے گی ۔ اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ اور بیہقی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا کہ اس حدیث کے رجال ثقہ ہیں ۔ (أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 91، الرقم : 29721، والبيهقي في شعب الإيمان، 6 / 128، الرقم : 7697، 1 / 183، الرقم : 167، والمناوي في فيض القدير، 1 / 307، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 132)
عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِذَا انْفَلَتَتْ دَابَّةُ أَحَدِکُمْ بِأَرْضِ فَـلَاةٍ، فَلْيُنَادِ : يَا عِبَادَ ﷲِ، احْبِسُوْا عَلَيَّ، يَا عِبَادَ ﷲِ، احْبِسُوْا عَلَيَّ، فَإِنَّ ِﷲِ فِي الْأَرْضِ حَاضِرًا، سَيَحْبِسُهُ عَلَيْکُمْ. رَوَاهُ أَبُوْ يَعْلَی وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَالطَّبََرَانِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ ۔
ترجمہ : حضرت عبد ﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کی سواری جنگل بیاباں میں گم ہو جائے تو اس (شخص) کو (یہ) پکارنا چاہیے : اے ﷲ تعالیٰ کے بندو! میری سواری پکڑا دو، اے ﷲ تعالیٰ کے بندو! میری سواری پکڑا دو. بے شک ﷲ تعالیٰ کے بہت سے (ایسے) بندے اس زمین میں ہوتے ہیں، وہ تمہیں تمہاری سواری پکڑا دیں گے ۔ اس حدیث کو امام ابویعلی، ابن ابی شیبہ اور طبرانی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے ۔ (أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 103، الرقم : 29818، وأبو يعلی في المسند، 9 / 177، الرقم : 5269، والطبراني في المعجم الکبير، 10 / 217، الرقم : 10518، 17 / 117، الرقم : 290، وابن السني في عمل اليوم والليلة، 1 / 455، والديلمي في مسند الفردوس، 1 / 330، الرقم : 1311، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 132،چشتی)
عَنْ عَتَبَةَ بْنِ غَزْوَانَ رضی الله عنه عَنْ نَبِيِّ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : إِذَا أَضَلَّ أَحَدُکُمْ شَيْئًا أَوْ أَرَادَ أَحَدُکُمْ عَوْنًا، وَهُوَ بِأَرْضٍ لَيْسَ بِهَا أَنِيْسٌ فَلْيَقُلْ : يَا عِبَادَ ﷲِ، أَغِيْثُوْنِي، يَا عِبَادَ ﷲِ، أَغِيْثُوْنِي، فَإِنَّ ِﷲِ عِبَادًا لَا نَرَاهُمْ. وَقَدْ جُرِّبَ ذَلِکَ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ، وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : وَرِجَالُهُ وُثِّقُوْا ۔
ترجمہ : حضرت عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کی کوئی شے گم ہو جائے، یا تم میں سے کوئی مدد چاہے اور وہ ایسی جگہ ہو کہ جہاں اس کا کوئی مدد گار بھی نہ ہو، تو اسے چاہیے کہ یوں پکارے : اے ﷲ تعالیٰ کے بندو! میری مدد کرو، اے ﷲ تعالیٰ کے بندو! میری مدد کرو، یقینا ﷲ تعالیٰ کے ایسے بھی بندے ہیں جنہیں ہم دیکھ نہیں سکتے (لیکن وہ لوگوں کی مدد کرنے پر مامور ہیں) ۔ اور (راوی بیان کرتے ہیں کہ) یہ آزمودہ بات ہے ۔ اسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا کہ اس کے رجال ثقہ ہیں ۔ (أخرجه الطبرانی في المعجم الکبير، 17 / 117، الرقم : 290، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 132، والمناوي في فيض القدير، 1 / 307)
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے : جب تم میں سے کسی کی سواری بے آباد زمین میں چھوٹ بھاگے تو اسے چاہیئے کہ نداء کرے (یعنی صدا لگائے): اے اللہ کے بندو! اسے روکو۔ اے اللہ کے بندو! اسے روکو۔ کیونکہ اللہ عزوجل کے حکم سے ہرزمین میں بندہ موجود ہے جو جلد ہی اسے تم پر روک دیگا ۔
اسے ابوالقاسم سلیمان بن احمد لخمی شامی طبری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی معجم کبیر میں روایت کیا ہے اور امام ذھبی نے آپ کو سیر اعلام النبلاء میں امام حافظ ثقہ رحال جوال محدثِ اسلام صاحب المعاجم کے القابات سے یاد کیا ہے ۔
ابوشجاع الدیلمی الھمذانی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے انہی الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے۔ (حوالہ مسند الفردوس بماثور الخطاب: ج ۱، ص ۳۳۰،چشتی)
شھاب الدین احمد بن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو یوں نقل کیا ہے : باب ما یقول اذا الفلتت دابتہ: یعنی جب سواری بھاگے تو اسکا مالک کیا کہے؛ پھر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایتِ ابویعلیٰ کو نقل فرمایا۔ (المطالب المنیفہ: ج ۱۴،نمبر ۴۴)۔
امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے یہی روایت ابن السنی اور طبرانی کے حوالے سے عن ابن مسعود رضی اللہ عنہ نقل فرمائی ہے۔ (الفتح الکبیر: ۱،۸۴)۔
اسی حدیث کو علی بن ابی بکر الھیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے عن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ابویعلیٰ اور طبرانی کے حوالہ سے نقل کرنے کے بعد لکھا ہے۔ وفیہ معروف بن حسان وھو ضعیف: اس حدیث کی سند میں معروف بن حسان ضعیف ہے)
امام محی الدین یحییٰ بن شرف نووی رحمۃ اللہ علیہ محدث فرماتے ہیں؛ کہ اس باب میں کہ جب سواری کا جانور چھوٹ جائے تو مالک کیا کہے: بہت سی مشہور احادیث ہیں، ان میں سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ والی روایت ابن السنی کے حوالہ سے نقل فرمانے کے بعد فرماتے ہیں؛ ہمارے شیوخ میں سے بعض نے مجھ سے بیان کیا جن کا شمار کبار علماٗ میں ہوتا ہے کہ ان کی سواری بدک بھاگی شاید وہ خچر تھی اور وہ اس حدیث کو جانتے تھے تو انہوں نے اس حدیث کے مطابق (یاعباداللہ احبسوا) کہا تو اللہ تعالیٰ نے اس سواری کو فوراً ان کے لیئے ٹھہرا دیا اور ایک مرتبہ میں بھی ایک جماعت کے ساتھ تھا کہ سواری کا جانور بدک بھاگا اور وہ لوگ اس کے پکڑنے سے عاجز ہوئے تو میں نے یہی یاعباداللہ احبسوا کہا تو وہ سواری کا جانور بغیر کسی اور سبب، صرف اس کلام کے کہنے سے فورا رک گیا۔ (کتاب الاذکار ج ۱، ص ۱۷۷،چشتی)
یعنی یہ وہ حدیث ہے جس سے صاف صاف غیراللہ کی مدد ثابت ہورہی ہے اور یہ نامور صحابہ کی تعلیم ہے اور خود سلف کا عمل ہے لیکن موجودہ دور کا خارجی دیوبندی وہابی فتنہ اس کو ضعیف قرار دے کر اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنا کر لوگوں کو مذہبی دکانداری سے گمراہ کرنے پر تلا ہوا ہے ۔ کیونکہ اس حدیث میں توسل مدد استمداد حاصل کرنا وہ بھی غیراللہ سے اور اس پر اللہ کا عطا فرمانا اس کی صداقت کی دلیل ہے۔ اگر ہم نے اسکی دیگر طرق بیان کرنی شروع کردیں تو پوری کتاب لکھنی پڑ جائے گی ۔ القصہ مختصر کسی محدث کسی صحابی کسی تابعی نے اس کو (کفر شرک بدعت یا غیراللہ سے مدد کا نام) نہیں دیا۔ بلکہ ان کے عمل کے مطابق یہ عین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی پاسداری کرنا اور تجربہ کرکے اس کو صحیح ثابت ہونے پرلکھنا بنتا ہے ۔ ایک مثال اور دے کر اسکو ختم کرتے ہیں کہ ایسی ہی حدیث جو کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بیان ہوئی ہے اس حدیث کو امام ابوبکر احمد بن عمرو بن عبدالخالق العتکی البزار رحمۃ اللہ علیہ نے یوں روایت کیا ہے:حدثنا موسیٰ بن اسحق قال نا منجاب بن الحارث قال نا حاتم بن اسماعیل عن اسامۃ بن زید عن ابان بن صالح عن مجاھد عن ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنھما ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال ان للہ ملائکۃ فی الارض سوی الحفظۃ یکتبون ما سقط من ورق الشجرۃ فاذا اصاب احدکم عرجۃ بارض فلاۃ فلیناد اعینوا عباد اللہ ۔
ترجمہ : ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ بے شک آقائے دوجہاں علیہ التحیہ والثناء نے فرمایا : اللہ کے کچھ ملائکہ زمین میں محافظوں کے علاوہ ہیں جن کا کام درختوں سے گرنے والے پتوں کو لکھنا ہے چنانچہ جب تم میں سے کسی کو دورانِ سفر بیابان میں کوئی مصیبت آپڑے تو اسے چاہیئے کہ ندا کرے: اے اللہ کے بندو! میری مدد کرو ۔
پھر امام بزار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قسم کے الفاظ کے ساتھ نہیں جانا مگر اسی طریق اور اسی اسناد کے ساتھ۔ (مسند البزار ج ۱۱، ۱۸۱)۔
امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو موقوفا بھی روایت فرمایا ہے بحوالہ شعب الایمان ج ۱، ۱۸۳۔ ایسے ہی مصنف ابن ابی شیبہ کی ج ۶ ، ص ۱۰۳ پر اور التفسیر الکبیر امام رازی نے استناداً بیان فرمایا ج ۲، ص ۱۵۰ پر ۔ اور اسناد کے اعتبار سے یہ حدیثِ حسن ہے ۔
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی حدیث جسے ابویعلیٰ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مسند میں اور ابن السنی رحمۃ اللہ علیہ نے عمل الیوم واللیلۃ میں اور طبرانی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے اپنی معجم الکبیر میں ذکر کیا ہے اس کی سند میں معروف بن حسان ضعیف ہے اور ابن سنی کی اسناد کے علاوہ میں انقطاع بھی ہے کیونکہ عبد اللہ بن بریدہ اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے درمیان انقطاع ہے جو کہ ابن السنی کے اسناد میں اتصال کے ساتھ ہے ۔ یعنی عن ابن بریدۃ عن ابیہ (بریدۃ بن الحصیب) عن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ؛ رہا معروف بن حسان کا ضعیف ہونا جیسا کہ امام ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے مجمع الزوائد میں کہا ہے اور راوی کے ضعیف ہونے سے حدیث پر ضعیف ہونے کا حکم تب ہوگا جب کہ اس کےلیئے دیگر شواہد موجود نہ ہوں ۔ لیکن اس حدیث کے لیئے دیگر شواھد روایات موجود ہیں جو کہ دیگر صحیح اور حسن اسناد کے ساتھ موجود ہیں ۔ یعنی طبرانی کی وہ روایت جوکہ عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ سے ہے اگرچہ اس مین انقطاع ہے کیونکہ زید بن علی رضی اللہ عنہ نے عتبہ بن غزوان کو نہیں پایا جیسا کہ امام ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے مجمع الزوائد میں ذکر کیا لیکن یہ روایت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کے لیئے تقویت کا باعث ہے اور وہ روایت جو کہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے جسے طبرانی نے روایت کیا اس کے رجال ثقہ ہیں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
قال الهيثمي عن الحديث : " رواه الطبراني ورجاله وُثِّقوا على ضعف في بعضهم ، إلا أن زيد بن علي لم يدرك عتبة ". انتهى من " مجمع الزوائد " (10/93) .
ReplyDeleteوللحديث شاهدٌ من حديث ابن مسعود مرفوعاً بلفظ : (إذا انْفَلَتَتْ دَابَّةُ أَحَدِكُمْ بِأَرْضِ فَلاةٍ ، فَلْيُنَادِ : يَا عِبَادَ اللَّهِ ، احْبِسُوا عَلَيَّ ، يَا عِبَادَ اللَّهِ احْبِسُوا عَلَيَّ ، فَإِنَّ لِلَّهِ فِي الأَرْضِ حَاضِرًا سَيَحْبِسُهُ عَلَيْكُمْ) .
ReplyDeleteرواه الطبراني في المعجم الكبير (10/217) ، وأبو يعلى في " مسنده " (9/177) ، وهو ضعيف أيضاً ، قد ضعفه الهيثمي في " مجمع الزوائد" (10/132) ، والحافظ ابن حجر في "شرح الأذكار" (5/150) ، والحافظ السخاوي في "الابتهاج بأذكار المسافر والحاج" ص 39 .