ہر مخلوق بڑا ہو یا چھوٹا ﷲ کی شان کے آگے چمار سے بھی ذلیل ہے تحقیقی جائزہ
محترم قارئین کرام : دیابنہ اور وہابیہ تقویۃ الایمان کی ایک عبارت کا دفاع کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں ۔ اس مضمون میں ہم مختصرا اس عبارت کا تحقیقی جائزہ پیش کر رہے ہیں پڑھیئے اور فیصلہ خود کیجیئے :
امامُ الوہابیہ و دیابنہ چمار سے بھی زیادہ ذلیل اسماعیل دہلوی لکھتا ہے : ہر مخلوق بڑاہو یا چھوٹا ﷲ کی شان کے آگے چمار سے بھی ذلیل ہے ۔ (بحوالہ تقویۃ الایمان صفحہ نمبر 41 مطبوعہ مکتبہ خلیل اردو بازار لاہور پاکستان)،(تقویتہ الایمان مع تذکر الاخوان صفحہ نمبر ۲۰)
محترم قارئین کرام : اس عبارت میں انبیائے کرام علیہم السّلام و اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ کو چمار سے بھی ذلیل کہا گیا ہے یعنی چمار اتنا ذلیل نہیں جس قدر اللہ عزّ و جل کے نزدیک انبیاء علیہم السّلام و اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ ذلیل ہیں ۔ (عبارات اکابر کا تنقیدی جائزہ)،(الحق و مبین)،(ظفر السلام )،(تعارف علمائے دیوبند)
اس کے جواب میں دیابنہ اور وہابیہ کے کچھ مضامین اور کمنٹس میری نظر سے گذرے جن میں یہ کہا گیا کہ : یہ عبارت عمومی ہے اور (علمائے اہلسنتّ و جماعت) بریلویوں کو یہ بات مسلّم ہے کہ عمومی طور پر کہنا اور بات ہے اور خصوصی طور پر کہنا اور بات ۔
اس کا جواب : یہ دیابنہ اور وہابیہ کی غلط فہمی اور فریب ہے کہ یہ عبارت عمومی ہے امامُ الوہابیہ و دیابنہ چمار سے بھی زیادہ ذلیل اسماعیل دہلوی کی عبارت میں عموم نہیں بلکہ تخصیص ہے ۔ تقویۃ الایمان کی عبارت میں موجود چھوٹی بڑی مخلوق کا تعین خود اسماعیل دہلوی اور علمائے وہابیہ دیابنہ کی کتب سے ثابت ہے ۔اور انہوں نے خود چھوٹی مخلوق سے مراد عام لوگوں کو لیا اور بڑی مخلوق سے مراد انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام اور اولیاء عظام رحمۃ اللہ علیہم اجمین کو لیا ۔
امامُ الوہابیہ و دیابنہ چمار سے بھی زیادہ ذلیل اسماعیل دہلوی لکھتا ہے کہ : اور یقین جان لینا چاہیے کہ ہر مخلوق بڑا ہو یا چھوٹا وہ اللہ کی شان کے آگے چمار سے بھی ذلیل ہے ۔ (تقویۃ الایمان مع تذکیر الاخوان صفحہ ۲۵)
اور مزید آگئے جا کر بلکل دو ٹوک لفظوں میں انبیاء و اولیاء کا نام لیکر ان کا تقابل ذرہ نا چیز سے کرتے ہوئے انہیں ذرہ نا چیز سے بھی کم تر قرار دیا چنانچہ لکھتا ہے کہ : اللہ کی شان بہت بڑی ہے کہ سب انبیاء و اولیاء اس کے رو برو ایک ذرہ نا چیز سے بھی کم تر ہیں ۔ (تقویۃ الایمان مع تذکیر الاخوان۵۳،چشتی)
معاذ اللہ عزوجل ۔ لہٰذا اس سے واضح ہو گیا کہ امامُ الوہابیہ و دیابنہ چمار سے بھی زیادہ ذلیل اسماعیل دہلوی نے انبیاء کرام کرام علہیم الصلوۃ السلام و اولیاء عظام رحمۃ اللہ علیہم اجمین ہی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں ایسی عبارات میں شامل رکھا ۔
تقویۃ الایمان میں چھوٹی بڑی مخلوقات کی تقسیم
پھر آپ مزید اس بات کی خوب تحقیق کر سکتے ہیں کہ شاہ اسماعیل دہلوی نے اپنی کتاب تقویۃ الایمان میں مخلوقات کو صرف اور صرف دو اقسام ہی میں تقسیم کیا ہے
(1) ایک چھوٹی مخلوق (2) اور دوسری بڑی مخلوق ۔
چھوٹی مخلوقات سے تو اسماعیل دہلوی نے عام لوگوں کو مراد لیا لیکن بڑی مخلوق سے مراد انبیاء کرام علہیم الصلوۃ السلام و اولیاء عظام رحمۃ اللہ علیہم اجمین کو لیا ۔
امامُ الوہابیہ و دیابنہ چمار سے بھی زیادہ ذلیل اسماعیل دہلوی لکھتا ہے کہ : انبیاء و اولیاء کو جو اللہ نے سب لوگوں سے بڑا بنایا ہے ۔ (تقویۃ الایمان مع تذکیر الاخوان صفحہ ۳۲)
اس سے روز روشن کی طرح واضح ہو گیا کہ انبیاء کرام علہیم الصلوۃ السلام و اولیاء عظام رحمۃ اللہ علیہم اجمین کو اسماعیل دہلوی بڑے لوگ یعنی بڑی مخلوق مانتا ہے ۔
امامُ الوہابیہ و دیابنہ چمار سے بھی زیادہ ذلیل اسماعیل دہلوی لکھتا ہے کہ : جیسا ہر قوم کا چودھری اور گاؤں کا زمیندار سوا ن معنوں کر ہر پیغمبر اپنی امت کا سردار ہے۔۔۔یہ بڑے لوگ اول اللہ کے حکم پر آپ قائم ہوتے ہیں اور پیچھے اپنے چھوٹوں کو سیکھاتے ہیں ۔ (تقویتہ الایمان مع تذکیر الاخوان صفحہ ۵۹،چشتی)
پتہ چلا کہ دہلوی نے تقویۃ الایمان میں مخلوقات کی صرف دو ہی اقسام کیں ۔ بڑی اور چھوٹی ۔ بڑی مخلوق سے مراد انبیاء کرام علہیم الصلوۃ السلام و اولیاء رحمۃ اللہ علیہم اجمین ہیں اور چھوٹی سے مراد عام لوگ ہیں ۔
مدعی لاکھ پہ بھاری ہے گواہی تیری
تقویۃ الایمان مع تذکیر الاخوان اور چھوٹی بڑی مخلوق سے مراد
دیوبندی وہابی علماء نے ’ تقویتہ الایمان مع تذکر الاخوان‘‘ میں ایک سوال کے جواب میں لکھا ہے کہ : تو اس سبب سے صاحب تقویۃ الایمان علیہ الرحمۃ والغفران نے ایسے عوام لوگوں کے گمان باطل کرنے کو جو بزرگان دین اور اولیاء اﷲ کو سمجھتے ہیں کہ جوچاہیں سو کریں لکھا کہ ہر مخلوق بڑاہو یا چھوٹا اﷲ کی شان کے آگے چمار سے بھی ذلیل ہے ۔ (تقویۃ الایمان مع تذکر الاخوان‘صفحہ ۲۳۹)
تو اس عبارت سے بالکل واضح ہو گیا کہ خود اسماعیل وہلوی کے پیرو کاروں کو بھی تسلیم ہے کہ ہر مخلوق بڑا ہو یا چھوٹا اس میں انبیاء کرام علہیم الصلوۃ السلام اور اولیاء رحمۃ اللہ علیہم اجمین سب ہی شامل ہیں ۔ لہٰذا عموم نہیں خود ان کے بھی تخصیص ہے ۔
ثناء اللہ امرتسری اور چھوٹی بڑی مخلوق
علماء اہلحدیث وہابیہ کے ثناء ﷲ امرتسری سے کسی نے پوچھا کہ ’’ کیا اس ہرمخلوق کے لفظ میں انبیاء کرام و اصحاب عظام و اولیاء ذی شان داخل ہیں یا نہیں ؟ اگر داخل ہیں تو اس سے اہانت انبیاء السلام و صالحین کرام ثابت ہوتی ہے یا نہیں ؟ ‘‘ تو ثناء اﷲ اہلحدیث نے جواب دیتے ہوئے لکھاکہ ’’ یعنی چمار بادشاہ کے سامنے بہت کم حییثت رکھتے ہیں تاہم انسان ہونے کی حیثیت سے بادشاہ کے برابر ہے لیکن انسان چھوٹے اور بڑے خدا کے ساتھ ہم کفوی کی حیثیت نہیں رکھتے کیونکہ لم یکن کفو ااحد،اس کلام ہدایت التیام ، سے حضرات انبیاء کرام اور اولیاء عظام کی توہین یا منقصت منظور نہیں بلکہ شان خدا ارفع بتانی مقصود ہے ۔ (فتاوی ثنائیہ جلد اول صفحہ۲۹۲،چشتی)
نذیر حسین دہلوی اور چھوٹی بڑی مخلوق
علمائے وہابیہ کے شیخ الکل مولوی نذیر حسین صاحب لکھتے ہیں : شریعت سے واقف لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ مولانا کا اصل مقصود ان عوام کالانعام کے عقیدے کی اصلاح ہے جن کا عقیدہ ہے کہ اولیا اللہ جناب باری تعالی کے مختار کل ہیں ، جو چاہیں کرسکتے ہیں ، کسی کو ذلیل کریں،کسی کو عزت بخشیں ،۔۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ان کے نام کی نذرو نیاز دیتے ہیں ، ان کے نام کا وظیفہ کرتے مثلا یا شیخ جیلانی شیئا للہ ، یا علی ، یا حسین ۔ (فتاوی نذیریہ ج ۱ ص۶۹)
بہرحال ان عبارات سے واضح ہو گیا کہ امامُ الوہابیہ و دیابنہ چمار سے بھی زیادہ ذلیل اسماعیل دہلوی کی عبارت میں انبیاء علیہم السّلام و اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ کی تخصیص ہے اور خود دیوبندی لکھتے ہیں کہ : یہ بات مسلم ہے کہ اگر انبیاء علیہم السّلام کا نام لے کر ذلت کو ان طرف منسوب کیا جائے تو یہ گستاخی ہے ۔ (ماہنامہ ضرب حق صفحہ نمبر ۱۹ دسمبر ۲۰۱۱،چشتی)
لہٰذا یہ ثابت ہوگیا کہ دہلوی کی عبارت گستاخانہ ہے ۔
اس کے دفاع میں دیابنہ اور وہابیہ نے جو آیت اور عبارتیں پیش کی ہیں ان سب کا سادہ سا مجموعی جواب یہ ہے کہ ان عبارات میں عموم ہے اور خود دیوبندیوں نے یہ تسلیم کیا کہ عموم میں انبیاء علیہم السّلام کو استثنا حاصل ہے ۔ بہرحال ان کا جواب حاضر ہے ۔
(1) بے شک تم اور جنکو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو جہنم کا ایندھن ہو ۔ (انبیا،۹۸) اس آیت کو اکثر مفسرین نے بتوں سے خاص کیا ہے ملاحظہ ہو فتح القدیر ۔
(2) لوگ اللہ کے سواجن کو پوجتے ہیں وہ سب جھوٹے ہیں ۔ (الملفوظ) یہاں معبودیت کو جھوٹا کہا گیا ہے ہم حضرت عیسی علیہ السّلام کو اللہ عزّ و جل سچا نبی مانتے ہیں معبود نہیں ۔
(3) اونچے اونچوں کے سروں سے قدم اعلیٰ تیرا
اورقد می ھذ اعلٰی رقبۃ کل ولی ﷲ
یہاں پر دیابنہ اور وہابیہ نے تفضیلہ والی جہالت کا مظاہرہ کیا ۔ ان کو اتنا بھی نہیں پتہ کہ : شریعت کا عرف مقام فضلیت اور تفاوت مراتب کی جاری گفتگو میں ایسے الفاظ کو امت کے ساتھ خاص کر دیتا ہے ۔ (تفسیر فتح العزیز تحت الآےۃ ۹۲/۱۷ پ عم ص ۳۰۴،چشتی) ۔ لہٰذا یہاں انبیاء علیہم السّلام کا ذکر نہیں ۔
نوٹ : اس اعتراض کا تفصیلی جواب جلد ہم لکھیں گے ان شاء اللہ ۔
(4) فوائد الفواد کی پیش کی جانی والی عبارت میں عموم ہے جبکہ اسماعیل دہلوی کی عبارت میں انبیاء علیہم السّلام کی تخصیص ہے ۔
الزامی جوابات کا رد
پہلا اعتراض اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے مندرجہ ذیل شعر پر کیا گیا
کثرت بعد قلت پہ اکثر درود
عزت بعد ذلت پہ لاکھوں سلام
(حدائق بخشش حصہ دوم صفحہ 36 مطبوعہ اکبر بک سیلرز لاہور)
دیوبندیوں اور وہابیوں نے اس شعر کو انتہائی باطل معنی پر محمول کیا ہے ۔ دراصل اس شعر میں لفظ "بعد " زبر کے ساتھ نہیں بلکہ پیش کے ساتھ ہےجس کا مطلب دوری ہوتا ہے ۔ تو مطلب ہو گا ذلت سے دور ۔
بالفرض اگر اس لفظ "بعد " کو زبر کے ساتھ پڑھا جائے تو ہرگز خطاب معاذ اللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے نہیں ہے ۔ کیونکہ اس سے پچھلے مصرعہ میں "قلت و کثرت " کا ذکر ہے جس سے مراد اہل عرب ہیں ۔ تو اس شعر کا مطلب ہے کہ پہلے مسلمانوں کا گروہ کم تھا پھر کثیر ہو گیا ۔ اور اسلام سے پہلے اہل عرب ذلت و گمراہی میں تھے ۔ اللّہ عزّ و جل نے ان کو اسلام کی نعمت سے مالا مال کر کے عزت و بلندی اور کثرت عطا فرمائی ۔
یہ شعر بخاری شریف کی اس حدیث پاک کی شرح ہے : اے گروہ عرب تم ذلت اور گمراہی کی جس حالت میں تھے وہ تمہیں معلوم ہے ۔ اللّہ تعالیٰ نے اسلام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ذریعے نجات دلائی ۔ (صحیح بخاری۔ کتاب الفتن۔ جلد 9۔ صفحہ 57۔ مطبوعہ دار طوق النجات،چشتی)
یہاں اعتراض یہ کیا گیا کہ اعلی حضرت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی طرف ذلت منسوب کی ہے ۔ تو جوابا گزارش ہے یہ کام وہابی حضرات کو ہی مبارک ہو اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی طرف ذلت منسوب نہیں کی ۔ بلکہ یہاں بُعدہے جس کا مطلب ہے دور ۔ یعنی ایسی عزت جو ذلت سے دور ہے اور ایسی کثرت جو قلت سے دور ہے ۔ باقی پیر ںسیر الدین نصیر رحمۃ اللہ علیہ جمہور اہلسنت کے نزدیک معتبر نہیں ۔ اور شرح کلام رضا میں بھی بُعد ہے ۔ (اس کا ہم تفصیلی جواب پوسٹ کر چکے ہیں)
بعض دیوبندیوں اور وہابیوں نے ہماری پوسٹوں کے کمنٹس میں صوفیائے کرام علیہم الرّحمہ کی عبارات پیش کیں جو شطحیات کے زمرے میں آئیں گئیں اور نہ تو ان پر عقیدے کی بنیاد ہے اور نہ ہی ان پر فتوی لگے گا پڑھیئے وابیہ کے امام ابنِ تیمیہ کا فتوی ۔ (فتاوی ابن تیمیہ ج ۶ ۳۸)
باقی رہ گیا اوراقِ غم کا حوالہ تو وہاں مزلت ہے جو کاتب کی غلطی کی وجہ سے مذلت ہوگیا مصنف علیہ الرّحمہ اس سے بری ہیں ۔ اور یہ (فازلھماالشیطن) سے اقتباس ہے لہٰذا اس عبارت کو تقویۃالایمان کی صفائی میں پیش کرنا لغو و باطل ہے امید ہے تشفی ہوگی ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment