مسلہ رویت ہلال چند مسلمہ شرعی اصول اور جدید علوم
محترم قارئین : رمضان المبارک و شوال المکرم کے چاند کیلئے رویت (انسانی آنکھ سے دیکھنا) لازمی شرط ہے ۔ واضح رہے کہ چاند کی پیدائش اور چاند کے نظرآنے میں زمین آسمان کا فرق ہے اوررویت ہلال کے لیے چاند کاپیدا ہونا کافی نہیں ہے بلکہ اس کا انسانی آنکھ سے دیکھنا شرط ہے ۔ اس موضوع پر جلد ہم تفصیل سے لکھیں گے ان شاء اللہ دعاؤں کی درخواست ہے ۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ھُوَ الَّذِیۡ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَآءً وَّ الْقَمَرَ نُوۡرًا وَّ قَدَّرَہٗ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوۡا عَدَدَ السِّنِیۡنَ وَالْحِسَابَ ۔
ترجمہ : وہی ہے جس نے سورج کو جگمگاتا بنا یا اور چاند چمکتا اور اس کے لیے منزلیں ٹھہرائیں کہ تم برسوں کی گنتی ۔
محترم قارئین : حکومت پاکستان کی قائم کردہ صوبائی اورمرکزی رویت ہلال کمیٹیوں میں ملک کے چاروں مکاتب فکر (اہلسنّت، دیوبند، اہلحدیث اور اہل تشیع) کے سرکردہ اورجید علماء کرام موجود ہوتے ہیں ۔ اس کے علاوہ محکمہ موسمیات ، پاکستان نیوی اور سپارکو کے نمائندے بھی فنی معاونت کے لیے ہراجلاس میں موجود ہوتے ہیں اور پھر سب کی متفقہ رائے کی روشنی میں اورتمام ممبران کی موجودگی میں چیئرمین مرکزی رویت ہلال کمیٹی پاکستان چاند کی رویت یا عدم رویت کا اعلان کرتے ہیں ۔ رویت ہلال سے متعلق جو فیصلہ اور اعلان کیا جاتا ہے وہ تمام ممبران کے اتفاق رائے سے ہوتا ہے اور اس فیصلے پر تمام ممبران کے دست خط بھی ہوتے ہیں اس کے باوجود چند مخصوص علاقوں اور افراد کی جانب سے اختلاف پیدا کیا جاتا ہے جس سے پوری دنیا میں نہ صرف مسلمانوں کو مذاق کا نشانہ بنایا جاتا ہے بلکہ نام نہاد روشن خیال اوراسلام دشمن عناصرکوبھی اسلام پر اعتراضات کرنے کا موقع مل جاتا ہے ۔
مرکزی کمیٹی کے مقابلے میں پرائیویٹ کمیٹیوں اور کلینڈر کی کوئی حیثیت نہیں ، یہ انتشار اور پریشانی کا باعث بنتی ہیں ۔ اور لوگوں کو انتشار سے بچانا شریعت کا تقاضا ہے ۔
اسی طرح مرکزی کمیٹی کے مقابلے میں پرائیویٹ کمیٹیوں کا اعلان کوئی حیثیت نہیں رکھتا ۔ مرکزی رویتِ ہلال کمیٹی کے اعلان پر عمل کیا جائے گا ۔
رویت ہلال سے متعلق ہم چند مسلمہ شرعی اصول اور سائنسی حقائق پیش خدمت کر رہے ہیں :
پانچ مہینو ں کے چاند دیکھنا
علمائے کرام فرماتے ہیں کہ پانچ مہینوں کاچاند دیکھنا واجب کفایہ ہے ، شعبان المعظم ، رمضان المبارک ، شوال المکرم ، ذیقعد اور ذوالحجہ…… شعبان کا چاند دیکھنا اس لیے ضروری ہے کہ رمضان کا چاند دیکھتے وقت اگرمطلع ابرآلود ہو تو شعبان کے تیس دن پورے کیے جائیں ۔ رمضان کا چاندروزے رکھنے کے لیے ، شوال کا چاندروزوں کے اختتام اورعیدالفطر منانے کے لیے ، ذیقعد کا چاند ذوالحجہ کے لیے اور ذوالحجہ کا چاندحج اور قربانی کے لیے دیکھا جاتا ہے ۔ واضح رہے کہ انتیس شعبان کا چاند نظرنہ آنے کی صورت میں تیس شعبان کویو م شک کاروزہ رکھنا مکروہ ہے ۔
چاند کی پیدایش اوراس کی رویت
رمضان وشوال کے چاند کیلئے رویت (انسانی آنکھ سے دیکھنا) لازمی شرط ہے ۔ واضح رہے کہ چاند کی پیدائش اور چاند کے نظرآنے میں زمین آسمان کا فرق ہے اوررویت ہلال کے لیے چاند کا پیداہونا کافی نہیں ہے بلکہ اس کا انسانی آنکھ سے دیکھنا شرط ہے ۔
چاند کی پیدایش سے مراد یہ ہے کہ چاندزمین کے گردتقریباً ساڑھے انتیس (29.5) دنوں میں ایک چکرمکمل کرتا ہے،اس چکر کے دوران جب چاند زمین اورسورج کے درمیان آجاتاہے توسائنسی اعتبارسے اس وقت کونیا چاند (Birth of Moon) کہتے ہیں ۔ ماہرین فلکیات کے مطابق 20 گھنٹے سے کم عمر کا چاند موجود ہونے کے باوجود نظرنہیں آسکتا ، جبکہ بعض ماہرین کہتے ہیں کہ جب تک چاند کی عمر 23سے30گھنٹے نہ ہوجائے ، وہ نظرنہیں آتا۔اس سے معلوم ہوا کہ چاند نظرآنے کے لیے اس کی عمرکم از کم23سے 30گھنٹے ہونا لازمی ہے یعنی چاند کی پیدائش اوراس کے نظرآنے میں کم از کم ایک دن کا فرق لازمی ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ھُوَ الَّذِیۡ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَآءً وَّ الْقَمَرَ نُوۡرًا وَّ قَدَّرَہٗ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوۡا عَدَدَ السِّنِیۡنَ وَالْحِسَابَ ۔
ترجمہ : وہی ہے جس نے سورج کو جگمگاتا بنا یا اور چاند چمکتا اور اس کے لیے منزلیں ٹھہرائیں کہ تم برسوں کی گنتی ۔
ھُوَ الَّذِیۡ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَآءً وَّ الْقَمَرَ نُوۡرًا : وہی ہے جس نے سورج کو روشنی اور چاند کونور بنایا ۔ ضیاء سے مراد ذاتی روشنی اور نور سے مراد دوسرے سے حاصل کی ہوئی روشنی ہے۔ جب اس روشنی کا تعلق سورج سے ہو تو اسے ضیاء اور چاند سے ہو تو اسے نور کہتے ہیں ۔ (تفسیر صاوی یونس تحت الآیۃ: ۵، ۳/۸۵۵،چشتی)
وَ قَدَّرَہٗ مَنَازِلَ : اور چاندکے لیے منزلیں مقرر کردیں ۔ چاند کی اٹھائیس منزلیں ہیں اور یہ بارہ بُرجو ں میں تقسیم ہیں ، ہر برج کے لئے2_1/3 منزلیں ہیں ، چاند ہر رات ایک منزل میں رہتا ہے اور مہینہ تیس دن کا ہو تو دو راتیں ورنہ ایک رات چھپتا ہے ۔ (تفاسیر بغوی، یونس، تحت الآیۃ: ۵، ۲/۲۹۰-۲۹۱)
ان منزلوں کو مقرر کرنے میں حکمت یہ ہے تاکہ تم سالوں کی گنتی اور مہینوں ، دنوں اور ساعتوں کا حساب جان لو ۔اللہ عَزَّوَجَلَّ نے یہ سارا نظام عَبَث اور بیکار نہیں بنایا بلکہ حق کے ساتھ پیدا فرمایا ہے تاکہ اس سے اُس کی قدرت اور اس کی وحدانیت کے دلائل ظاہر ہوں اور اللہ عَزَّوَجَلَّ علم والوں کے لئے تفصیل سے نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ وہ ان میں غور کرکے نفع اٹھائیں ۔ (تفسیر خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۵، ۲/۳۰۲)(تفسیر مدارک، یونس، تحت الآیۃ: ۵، ص۴۶۳،چشتی)
اس سے معلوم ہوا کہ علمِ ریاضی ، علمِ ہَیئت ، علمِ فلکیات وغیرہ بڑے مفید علم ہیں کہ ان سے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قدرت معلوم ہوتی ہے نیز حسنِ نیت کے ساتھ ان کا سیکھنا ثواب کا کام ہے ۔
رمضان المبارک اورعیدالفطرکے چاند کی رویت
رمضان المبارک اورعیدالفطرکے چاند کے حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے یہ صریح ارشادات اصول اوربنیادکی حیثیت رکھتے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : صُوْمُوْا لِرُوْيَتِه وَاَفْطِرُوْا لِرُوْيَتِه فَاِنَّ غمَّ عَلَيْکُمْ فعدة ثلاثين.
ترجمہ : چاند کی رؤیت کی بنیاد پر (یعنی چاند دیکھ کر) روزہ رکھو اور چاند کی رؤیت کی بنیاد پر (یعنی چاند دیکھ کر) افطار کرو اور جب چاند پوشیدہ ہوجائے تو مہینے کے 30 دن پورے کرلو ۔ (جامع ترمذی)
یہ حدیث ، دیگر کتب حدیث میں بھی الفاظ کے تھوڑے بہت فرق کے ساتھ روایت ہوئی ہے ۔ صحیح مسلم کے الفاظ ہیں : صُوْمُوْا لِروْيَتِه وَاَفْطِرُوْا لِرُوْيَتِه فَاِنَّ غمَّ عَلَيْکُمْ فَاَکْمِلُوْا الْعِدَّةِ ۔
ترجمہ : چاند کی رؤیت کی بنیاد پر (یعنی چاند دیکھ کر) روزہ رکھو اور چاند کی رؤیت کی بنیاد پر (یعنی چاند دیکھ کر) افطار کرو اور جب چاند پوشیدہ ہوجائے تو اپنی گنتی پوری کرلو ۔
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے ان الفاظ کے ساتھ یہ حدیث روایت کہ
فَاِنَّ غُمَّ عَلَيْکُمْ الشَّهْر فَاَکْمِلُوْا الْعِدَّةِ ثَلَاثِيْن ۔
ترجمہ : اگر ہلال پوشیدہ رہ جائے تو مہینے کے 30 دن پوری کرلو ۔
ان احادیث مبارکہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حکم دیا کہ روزہ رکھنا اور افطار کرنا رؤیت (یعنی چاند دیکھنے) کے ساتھ خاص ہیں ۔
عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے (اپنے دونوں ہاتھوں کی دس انگلیوں کو کشادہ کر کے تین مرتبہ اشارہ کرتے ہوئے) فرمایا (قمری مہینہ) اس طرح اور اس طرح ہوتا ہے ، یعنی پورے تیس دن کا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے (اسی طرح تین بار اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو کشادہ کر کے تین بار اشارہ کرتے ہوئے) فرمایا (قمری مہینہ) اس طرح ، اس طرح اور اس طرح ہوتا ہے ۔ (اور آخری بار آپ نے ایک ہاتھ کے انگوٹھے کو دبا لیا ۔ یعنی 29 دن کا ، یعنی کبھی مہینہ پورے 30 دن کا ہوتا ہے ۔ اور کبھی 29 دن کا ۔ (صحیح بخاری، رقم الحدیث 5302،چشتی)
امام ابو السعود رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دریافت کیا تھا کہ چاند کہ گھٹنے اور بڑھنے کی حکمت کیا ہے ؟
تو اللہ تعالی نے جواب دیا کہ ہلال کا گھٹنا اور بڑھنا اور چاند کی مختلف شکلیں لوگوں کے دینی و دنیاوی معاملات جیسے صوم ، افطار او ر قرض و غیرہ نیز موسم حج کے لئے اوقات جاننے کے ذرائع ہیں ۔ (حاشیہ :۶، تفسیر جلالین ص: ۲۸، طبع دہلی) ۔
یہ احادیث ِ مبارکہ رمضان المبارک اورشوال المکرم کے رویتِ ہلال کے بارے میں صریح نص اوراصول کا درجہ رکھتی ہیں لہٰذاہر قمری مہینے کاآغاز ’’رویتِ ہلال‘‘پر ہی مبنی ہوگا۔محض چاند کے پیداہوجانے یاماہرینِ فلکیات کی رائے پر فیصلہ نہیں ہوسکتا، تاہم’’شہادتِ رویت ‘‘کو قبول کرنے یاردّکرنے میں ماہرین فلکیات کی رائے سے استفادہ کیا جاسکتاہے۔
فقہاء کرام نے صراحت کے ساتھ لکھا ہے کہ اگرمطلع ابرآلودنہ ہوتو رمضان المبارک اور عیدین کے چاندکی رویت کے ثبوت کے لیے جمِّ غفیر (لوگوں کی کثیرتعداد)کا شہادت دینامعتبرہوگا۔چندافراد کی شہادت قبول نہیں کی جائے گی۔
جم غفیر کی تعدادکے بارے میں بعض فقہاء نے کہاکہ ۵۰۰ افرادہوں، بعض کے نزدیک ۱۰۰۰ افراد ہوں جبکہ بعض کہتے ہیں کہ کم ازکم پچاس (۵۰) افرادہونے چاہییں،لیکن اگر شہادت امکانِ رویت کے مسلمہ سائنسی اصولوں کے بالکل خلاف ہوتواسے ردبھی کیا جا سکتا ہے، شہادت کا قبول کرنایاردکرنا قاضی کاشرعی اورصوابدیدی اختیار ہے اور شہادتیں پرکھنے اور جرح کرنے کے بعدشرعی فیصلہ قاضی کی صوابدیدپرہے ۔
یہ احادیث ِ مبارکہ رمضان المبارک اورشوال المکرم کے رویتِ ہلال کے بارے میں صریح نص اوراصول کا درجہ رکھتی ہیں لہٰذاہر قمری مہینے کاآغاز ’’رویتِ ہلال‘‘پر ہی مبنی ہوگایعنی چاندکا انسانی آنکھ سے دیکھنا شرط ہے، چاند کا پیدا ہونا یا چاند کا مطلع پرموجود ہوناکافی نہیں ہے۔ اسی طرح محض ماہرینِ فلکیات کی رائے پر فیصلہ نہیں ہوسکتا، تاہم’’شہادتِ رویت ‘‘کو قبول کرنے یاردّکرنے میں ان کی رائے سے استفادہ کیا جاسکتاہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ چاند کی رویت (دیکھنے کی شہادت) اس وقت معتبراورقابل قبول ہوگی جب چاند کا نظرآنا ممکن ہو گا،اگرچاند کی رویت کی شہادت (گواہی) ایسے وقت میں دی جائے کہ جس وقت یاتوچاندکی پیدایش ہی نہ ہوئی ہویا پیدائش تو ہو چکی ہو لیکن چاند کی عمراتنی کم ہو کہ اس کا نظرآناممکن ہی نہ ہو تو پھر شہادت معتبر اورقابل قبول نہیں ہوگی۔
قرائن قطعیہ کے خلاف شہادتیں اورقاضی کا کردار
جب چاندکی پیدایش ہی نہ ہویا چاند کو انسانی آنکھ تو کیا سائنسی آلات سے بھی دیکھنا ممکن نہ ہووتوایسے وقت میں دی جانے والی من گھڑت شہادتیں ضرور محل نظر ہوتی ہیں اوردقتِ نظر سے انھیں پرکھنااوران پر بھرپورجرح کرناہر قاضی اور منصف کابنیادی فرض بنتاہے، اس لیے قاضی کوقرائن قطعیہ کے خلاف ’’شہادتِ کاذبہ‘‘ (جھوٹی اورمن گھڑت شہادتوں)کو شرعی اصولوں اورتقاضوں کے مطابق ردّ کر دینا چاہیے ۔ جغرافیہ اورفلکیات کے ماہرین کی رائے کے مطابق دنیا کے وہ خطے جو مغرب کی جانب واقع ہیں وہاں مشرقی علاقوں کی بہ نسبت سورج دیر سے غروب ہوتا ہے اور غروبِ شمس میں تاخیرکی وجہ سے چاند کی عمر میں اضافہ ہوجاتا ہے اور یہ بھی سائنسی حقیقت ہے کہ چاند کی عمرمیں جتنا اضافہ ہوگااس کا نظرآنااتنا ہی یقینی ہو جاتا ہے ، اب اگر محل وقوع کے اعتبار سے پاکستان اور سعودی عرب کو دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ پاکستان سعودی عرب کے مقابلے میں مشرق کی جانب واقع ہے، جس کی وجہ سے یہاں سعودیہ سے تقریباً دو گھنٹے پہلے سورج غروب ہوتاہے ، لہٰذا پاکستان کا سعودیہ کی بہ نسبت مشرقی جانب ہونے کی وجہ سے یہ توممکن ہے کہ پاکستان میں چاند نظر نہ آئے اورسعودی عرب جو کہ مغرب کی جانب ہے میں چاند نظرآجائے کیونکہ سعودی عرب میں چاند کی عمرمیں پاکستان کے مقابلے میں دو گھنٹے کا اضافہ ہو جاتا ہے اور اس کا نظرآنا کسی حد تک ممکن ہوجاتاہے (اگر دوسری شرائط پوری ہورہی ہوں) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment