Thursday 6 June 2019

اسلام میں مصافحۃ و معانقۃ اور گلے ملنا کی شرعی حیثیت

0 comments
اسلام میں مصافحۃ و معانقۃ اور گلے ملنا کی شرعی حیثیت

محترم قارئین کرام :بعض لوگ اسلام کے نام پر اسلامی تعلیمات کو ہی بدعت اور شرک کا نام دے کر مسلمانوں کو اصل اسلام سے دور لے جانے کی ناپاک کوشش کر رہے ہیں جبکہ یہ ان کی شیطانی سوچ ہے ۔ شاہد وہ چند لوگوں کو تو گمراہ کرنے میں کامیاب ہو جائیں لیکن اللہ تعالی اپنے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی سنتوں کو امت کے سواد اعظم کے ذریعے قیامت تک زندہ رکھے گا ۔

آئیے اب معانقہ (گلے ملنا) کے بارے میں جانتے ہیں کہ یہ بدعت ہے یا سنت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم ہے ؟

جب د و مسلمان بھائی آپس میں ملیں تو پہلے سلام کریں اور پھر دونوں ہاتھ ملائیں کہ بوقت ملاقات مصافحہ کرنا سنّتِ صحابہ علیہم الرضوان بلکہ سنّتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہے ۔ (مراٰۃالمناجیح،ج۶،ص۳۵۵)

حضرت ابوا لخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عرض کیا ، کہ مصافحہ (ہاتھ ملانا) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے صحا بہ کرام علیہم الرضوان میں مروج تھا ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ، ہاں ۔ (صحیح البخاری ،کتاب الاستیذان،باب المصافحہ،الحدیث۶۲۶۳،ج۴،ص۱۷۷)

جیسا کہ حضرت عطا ء خراسانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : ایک دوسرے کے ساتھ مصافحہ کرو، اس سے کینہ جاتا رہتا ہے اور ہدیہ بھیجو آپس میں محبت ہوگی اور دشمنی جاتی رہے گی ۔ (مشکوٰۃ المصابیح،کتاب الادب ،باب ماجآء فی المصافحہ ،الحدیث ۴۶۹۳،ج۲،ص۱۷۱،چشتی)

چنانچہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشادفرمایا : جب دو مسلمانوں نے ملاقات کی او رایک دو سرے کا ہاتھ پکڑلیا (یعنی مصافحہ کیا) تو اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے کہ ان کی دعا کوحاضر کردے (یعنی قبول فرمالے) اور ہاتھ جدا نہ ہونے پائیں گے کہ ان کی مغفرت ہوجائے گی ۔ اور جو لوگ جمع ہو کر اللہ تعالیٰ کا ذکرکرتے ہیں اور سوائے رضائے الٰہی عزوجل کے ان کا کوئی مقصد نہیں تو آسمان سے منادی ندا دیتاہے کہ کھڑے ہوجاؤ تمہاری مغفرت ہوگئی، تمہارے گناہوں کو نیکیوں سے بدل دیا گیا ۔ (المسند للامام احمد بن حنبل ،مسند انس بن مالک ،الحدیث ۱۲۴۵۴،ج۴،ص۲۸۶)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : مسلمان جب اپنے مسلمان بھائی سے ملے اور ہاتھ پکڑے (یعنی مصافحہ کرے ) تو ان دو نوں کے گناہ ایسے گرتے ہیں جیسے تیز آندھی کے دن میں خشک درخت کے پتے ۔ اور ان کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں اگر چہ سمند ر کی جھاگ کے برابر ہوں ۔ (شعب الایمان ،باب فی مقاربۃ وموادۃ اہل الدین ،فصل فی المصافحۃ والمعانقۃ،الحدیث ۸۹۵۰،ج۶،ص۴۷۳ )

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : جب دودو ست آپس میں ملتے ہیں اور مصافحہ کرتے ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پردرود پاک پڑھتے ہیں تو ان دونوں کے جدا ہونے سے پہلے پہلے دونوں کے اگلے پچھلے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں ۔ (شعب الایمان ،باب فی مقاربۃ وموادۃ اہل الدین ،فصل فی المصافحۃ والمعانقۃ ،الحدیث ۸۹۴۴،ج۶،ص۴۷۱ )

چنانچہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب اہل یمن نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خدمت بابرکت میں حاضر ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : تمہارے پاس اہل یمن آئے ہیں اور وہ پہلے آدمی ہیں، جنہوں نے آکر مصافحہ کیا ۔ (سنن ابی داؤد،کتاب الادب ،باب فی المصافحہ،الحدیث ۵۲۱۳، ج۴، ص۴۵۳،چشتی)

حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : مریض کی پوری عیادت یہ ہے کہ اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھ کر پوچھے کہ مزاج کیسا ہے ؟ اور پوری تحیت (سلام کرنا ) یہ ہے کہ مصافحہ بھی کیاجائے ۔ (جامع الترمذی ،کتاب الاستیذان والادب،باب ماجآء فی المصافحہ ،الحدیث ،۲۷۴۰،ج۴،ص۳۳۴ )

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فرماتے ہیں ، لوگوں کو تم اپنے اموال سے خوش نہیں کرسکتے لیکن تمہاری خندہ پیشانی اورخوش اخلاقی انہیں خوش کرسکتی ہيں ۔(شعب الایمان ، باب حسن الخلق ،فصل فی طلاقۃ الوجہ ،الحدیث ۸۰۵۴،ج۶، ص۲۵۳)

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں : زید بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ آئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّممیرے گھر میں تھے ، زیدرضی اللہ تعالیٰ عنہ وہاں آئے اوردروازہ کھٹکھٹا یا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اٹھ کر کپڑاکھینچتے ہوئے ان کی طر ف تشریف لے گئے ۔ ان سے معانقہ کیا اور ان کو بوسہ دیا ۔ (جامع الترمذی،کتاب الاستئذان ،باب ماجآء فی المعانقۃ والقبلۃ،الحدیث۲۷۴۱،ج۴،ص۳۳۵)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو طلب فرمایا ، جب وہ حاضر ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرط ِشفقت سے حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوگلے لگا لیا ۔ چنا نچہ حضرت ایوب بن بشیررضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا ، میں نے ابو ذررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا ، جس وقت تم نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے ملتے تھے کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم تمہارے ساتھ مصافحہ فرماتے تھے ؟ انہوں نے فرمایا : میں کبھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو نہیں ملا مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میرے ساتھ مصا فحہ کرتے (یعنی میں نے جب بھی ملاقات کا شرف حاصل کیا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے مصا فحہ ضرور فرمایا) ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے میری طر ف پیغام بھیجا ۔ میں اپنے گھر موجود نہیں تھا ۔ جب میں آیا مجھے خبر دی گئی ۔ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خدمت میں حاضر ہوگیا ۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم تخت پر رونق افرو ز تھے ۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے مجھے گلے لگالیا ۔ یہ بہت بہتر ہوا اور بہتر ۔(سنن ابی داؤد ،کتاب الادب ،باب فی المعانقہ ،الحدیث۵۲۱۴،ج۴،ص۴۵۳،چشتی)

حضرت سیدنا جعفررضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خدمت بابرکت میں حاضر ہوئے تو ان کو بھی گلے سے لگایا چنانچہ حضرت شعبی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّمجعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ملے تو گلے سے لگالیا او ران کی آنکھوں کے درمیان بو سہ دیا ۔ (سنن ابی داؤد ،کتاب الادب ،باب فی قبلہ مابین العینین ،الحدیث۵۲۲۰، ج۴، ص۴۵۵)

محترم قارئین کرام : خوش نصیب صحابہ کرام علیہم الرضوان نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے رحمت بھرے ہاتھوں کو چومنے کی سعادت بھی حاصل کرتے تھے ۔ حضرت ابن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہما سے ایک واقعہ مروی ہے جس میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا : ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے قریب ہوئے اور ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ہاتھوں کو بوسہ دیا ۔ (سنن ابی داؤد ،کتاب الادب ،باب فی قبلۃ الید،الحدیث۵۲۲۳،ج۴،ص۴۵۶)

حضرت زارع رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب قبیلہ عبد القیس کا وفد نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خدمت اقد س میں حاضر ہوا،یہ بھی اس وقت وفد میں شریک تھے ۔آپ فرماتے ہیں کہ جب ہم اپنی منزلوں سے مدینہ شریف پہنچے تو جلدی جلدی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے دست مبارک اور قدم شریف کو بو سہ دیا ۔ (سنن ابی داؤد ،کتاب الادب ،باب فی قبلۃ الرجل ،الحدیث۵۲۲۵،ج۴، ص۴۵۶،چشتی)

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ مدینہ آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میرے حجرہ میں تشریف فرما تھے ۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے آکر دروازہ کھٹکھٹایا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم برہنہ (قمیض کے بغیر) کپڑے کھنچتے ہوئے ان کی طرف بڑھے ۔ اللہ کی قسم میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس سے پہلے یا بعد کبھی برہنہ نہیں دیکھا ۔ فاعتنقه وقبله . پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں گلے لگایا اور ان کا بوسہ لیا ۔ (ترمذی، السنن، 5 : 72، باب : ما جاء فی المعانقه والقبله، رقم : 2732، دارالفکر، بيروت)

حضرت ایوب بن بشیر عنزہ قبیلہ کے ایک شخص نے ابو ذر رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا جب وہ ملک شام سے رخصت ہونے لگے کہ میں آپ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی حدیثوں میں سے ایک حدیث پوچھنا چاہتا ہوں ۔ فرمایا کہ اگر کوئی راز نہ ہوا تو میں تمہیں بتا دوں گا ۔ میں عرض گزار ہوا کہ وہ راز نہیں ہے ۔ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ملاقات کے وقت آپ حضرات سے مصافحہ کیا کرتے تھے ؟ فرمایا کہ میں جب بھی ملا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے مصافحہ فرمایا اور ایک روز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے بلوایا لیکن میں گھر میں نہیں تھا ۔ جب میں آیا تو مجھے بتایا گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے مجھے یاد فرمایا ہے ۔ پس میں حاضر بارگاہ ہوا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اپنے تخت پر جلوہ افروز تھے ۔ فالتز منی، فکانت تلک اجود واجود ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے گلے لگا لیا ۔ یہ منظر نہایت عمدہ تھا، نہایت عمدہ تھا ۔ (ابوداؤد، السنن، 4 : 395، باب فی المعانقة، رقم : 5214، دارالفکر بيروت،چشتی)

شعبی سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم : تلقی جعفر بن ابو طالب فالتزمه وقبل ما بين عينيه ۔ حضرت جعفر بن ابو طالب رضی اللہ عنہ سے ملے تو ان سے معانقہ فرمایا اور ان کی دونوں آنکھوں کے درمیاں بوسہ دیا ۔ (ابو داؤد، السنن، 4 : 397، باب فی قبلة ما بين العينين، رقم : 5220)

سلسلہ عالیہ چشتیہ کے عظیم پیشوا حضرت سیدنا با با فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں : مشائخ وبزرگان دین رحمہم اللہ کی دست بو سی یقینا دین ودنیا کی خیروبرکت کا باعث بنتی ہے ۔ ایک مرتبہ کسی نے ایک بزرگ کو انتقال کے بعد خواب میں دیکھا تو ان سے پوچھا ، 'مَا فَعَلَ اللہُ بِکَ ؟ یعنی اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کے ساتھ کیا سلوک کیا ؟ کہا ، دنیا کا ہرمعاملہ اچھا اور برا میرے آگے رکھ دیا اور بات یہاں تک پہنچ گئی کہ حکم ہوا ، اسے دو زخ میں لے جاؤ اس حکم پر عمل ہونے ہی والا تھا کہ فرمان ہوا ٹھہرو ایک دفعہ اس نے جامع دمشق میں خواجہ شریف رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے دستِ مبارک کو چوماتھا ۔ اس دست بوسی کی برکت سے ہم نے اسے معاف کیا ۔ (اسرار اولیاء مع ہشت بہشت،ص۱۱۳)

مزید شیخ المشائخ بابا فرید الدین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں : قیامت کے دن بہت سارے گناہگار ، بزرگان دین رحمہم اللہ تعالیٰ کی دست بو سی کی برکت سے بخشے جائیں گے اور دوزخ کے عذاب سے نجات حاصل کریں گے ۔ (اسرار اولیاء مع ہشت بہشت،ص۱۱۳)

دو نوں ہاتھوں سے مصافحہ کریں۔ (بہارشریعت ،حصہ ۱۶،ص۹۸)
جتنی بار ملاقات ہو ہر بار مصافحہ کرنا مستحب ہے۔ (بہارشریعت،حصہ ۱۶،ص۹۷)

رخصت ہوتے وقت بھی مصافحہ کریں ۔ صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : اس کے مسنون ہونے کی تصریح نظر فقیر سے نہیں گزری مگر اصل مصافحہ کا جواز حدیث سے ثابت ہے تو اس کو بھی جائز ہی سمجھا جائے گا ۔ (بہار شریعت،حصہ ۱۶،ص۹۸)

فقط انگلیوں کے چھونے کا نام مصافحہ نہیں ہے سنت یہ ہے کہ دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کیا جائے اور دونوں کے ہاتھوں کے مابین کپڑا وغیرہ کوئی چیز حائل نہ ہو ۔ (بہار شریعت،حصہ۱۶،ص۹۸،چشتی)

مصافحہ کرتے وقت سنت یہ ہے کہ ہاتھ میں رومال وغیرہ حائل نہ ہو، دونوں ہتھیلیاں خالی ہوں اور ہتھیلی سے ہتھیلی ملنی چاہے ۔ (بہار شریعت،سلام کا بیان،حصہ ۱۶،ص۹۸)

مسکراکرگرم جوشی سے مصافحہ کریں ۔ درود شریف پڑھیں اور ہوسکے تو یہ دعا بھی پڑھیں ' یَغْفِرُ اللہُ لَنَا وَلَکُمْ ' (یعنی اللہ عزوجل ہماری اور تمہاری مغفرت فرمائے)

ہر نماز کے بعدلوگ آپس میں مصافحہ کرتے ہیں یہ جائز ہے ۔ (ردالمحتار،کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی البیع ،ج۹،ص۶۸۲)

گلے ملنے کو معانقہ کہتے ہیں او ریہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے ثابت ہے ۔ (بہار شریعت،سلام کا بیان،حصہ ۱۶،ص۹۸)

صرف تہبند باندھ کر یا پاجامہ پہنے ہوں اس وقت معانقہ نہ کریں بلکہ کُرتا پہنا ہوا ہویاکم از کم چادر لپٹی ہوئی ہونی چاہے ۔ (بہار شریعت،سلام کا بیان،حصہ ۱۶،ص۹۸)

عیدین میں معانقہ کرنا جائز ہے ۔ (بہار شریعت،سلام کا بیان،حصہ ۱۶،ص۹۰)

عالمِ دین کے ہاتھ پاؤں چومنا جائز ہے ۔ (بہارشریعت ،حصہ ۱۶،ص۹۹)

مصافحہ کے بعد اپنا ہی ہاتھ چوم لینا مکروہ ہے ۔ (بہارشریعت ،حصہ ۱۶،ص۹۹)

ہاتھ پاؤں وغیرہ چومنے میں یہ احتیاط ضروری ہے کہ محل فتنہ نہ ہو ، اگر معاذ اللہ شہوت کے لئے کسی اسلامی بھائی سے مصافحہ یامعانقہ کیا ، ہاتھ پاؤں چومے یا نعوذباللہ پیشانی کابو سہ لیا تو یہ ناجائزہے ۔ (بہارشریعت ،حصہ ۱۶،ص۹۸)

والدین کے ہاتھ پاؤں بھی چوم سکتے ہیں ۔ عالم باعمل اور نیک مسلمان بھائی کی آمد پر تعظیم کیلئے کھڑا ہوجانا جائز بلکہ مستحب ہے مگر وہ عالم یا نیک شخص بذات خود اپنے آپ کو تعظیم کا اہل تصور نہ کرے اور یہ تمنا نہ کرے کہ لوگ میرے لئے کھڑے ہوجایا کریں ۔ اور اگر کوئی تعظیما کھڑا نہ ہو تو ہر گز ہرگز دل میں کدورت (میل) نہ لائیں ۔ (ماخوذازفتاویٰ رضویہ ،ج۲۳،ص۷۱۹)

محترم قارئین کرام : مذکورہ بالا احادیث و دلائل سے معلوم ہوا مصافحہ اور معانقہ یعنی گلے ملنا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی سنت مبارکہ ہے ۔ جو اس کو بدعت کہے وہ لوگوں کو سنت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دور کر رہا ہے ۔ اگر معانقہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے تو پھر عید کے دن یا عام دنوں میں اس کی کوئی ممانعت نہیں ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔