Tuesday 11 June 2019

تفسیر آیت : اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیۡنُ

0 comments
تفسیر آیت : اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیۡنُ

اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیۡنُ . تر جمہ : ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد چاہتے ہیں ۔

غلط تفسیر : اِس آیت سے معلوم ہوا کہ غیر اللہ ،یعنی اللہ کے علاوہ کسی اور سے مدد مانگنا شرک ہے،جس طرح اللہ کے علاوہ کسی اور کی عبادت کر نا شرک ہے۔اسی لئے ہم دوسرے بابا اور ولیوں کی بات تو دور ، اللہ کے رسول سے بھی مدد نہیں مانگ سکتے۔کیونکہ اِس آیت میں ہمیں یہیں سیکھا یا گیا ہے کہ ہم صرف اللہ کی عبادت کریں اور صرف اسی سے مدد مانگیں ۔

شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں مطلق غیر اللہ سے مدد مانگنا ناجائز و حرام نہیں ہے اگر ما نگنے والا اُس غیر کو مظہر عون ِالٰہی کا جان کر مانگے تو یہ جائز و ثابت ہے۔(تفسیر عزیزی جلد 1 صفحہ 29 مترجم دیوبندی عالم)

علامہ ابن کثیر ، حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے اِس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ : اِس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو یہ حکم دیا کہ وہ خالص اللہ کے لئے عبادت کریں (نہ کسی کو دکھانے کے لئے اور نہیں کسی اور مقصد کے لئے) اور اپنے معاملات میں اس سے مدد مانگیں ۔ رہی بات کہ” اِیَّاکَ نَعْبُدُ” کو ” اِیَّاکَ نَسْتَعِیۡنُ” سے پہلے کیوں بیان کیا گیا ؟ یعنی عبادت کا بیان مدد کے بیان سے پہلے کیوں ہوا ؟ تو اُس کی وجہ یہ ہے کہ عبادت تو صرف اسی کے لئے ہوتی ہے اور اِس میں کسی بھی دوسری چیزوں کے وسیلے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ لیکن اللہ کی مدد ، تو اللہ نے اس کے لئے بہت سارے ذریعے بھی بنائے ہیں جن ذریعوں سے بندہ اللہ کی مدد پاتا ہے ۔ یعنی عبادت صرف ڈائرکٹ ہوتی ہے اور مدد ڈائرکٹ بھی اور اِن ڈائراکٹ بھی ۔ اِس لئے عبادت کو پہلے اور مدد کو بعد میں بیان کیا گیا ۔ (تفسیر ابن کثیر جلد اوّل مترجم صفحہ نمبر 63 ، 64 مطبوعہ ضیاء القرآن)

حکیم الامتِ دیوبند علامہ اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں : زندہ اور وفات یافتہ بزرگوں سے فیض حاصل ہوتا ہے اور مستعان حقیقی اللہ کو سمجھتے ہوئے مخلوق سے مدد مانگنے میں کوئی حرج نہیں اور نفع کا اعتقاد جائز ہے۔ ( اشرف التفاسیر جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 48 مطبوعہ ادارہ تالیفات اشرفیہ ملتان،چشتی)

حکیم الامت دیوبند اشرف تھانوی بھی شجرہ چشتیہ صابریہ امدادیہ میں کہتے ہیں

کھولدے دل میں درِ علم حقیقت میرے اب
ہادئ عالم علی مشکل کشا کے واسطے

یہی تھانوی صاحب لاہور میں حضور داتا علی ہجویری رضی اللہ عنہ کے مزار پر حاضری دینے کے بعد کہتے ہیں؛بہت بڑے شخص ہیں۔ عجیب رعب ہے، وفات کے بعد بھی سلطنت کررہے ہیں ۔ (سفرنامہ لاہور و لکھنؤ، ص 50)

یہی ہم اہلسنت کہتے ہیں مکتبہ فکر دیوبند کے احباب سے گذارش ہے آؤ اپنے حکیم الامت کی ہی بات مان لو اور فتوے لگا کر امت مسلمہ تفرقہ و اتنشار پھیلانا اور آپس میں لڑانا چھوڑ دو ۔

شیخ الاسلام دیوبند جناب علامہ شبیر احمد عثمانی صاحب لکھتے ہیں : اللہ کے مقبول بندوں کو واسطہ سمجھ کر اگر مدد مانگیں تو جائز ہے ۔ ( تفسیر عثمانی پہلا ایڈیشن صفحہ نمبر 72 دوسرا ایڈیشن صفحہ نمبر 49 مطبوعہ دارالاشاعت کراچی مکتبہ دیوبند،چشتی)

یہی عقیدہ ہم اہلسنت و جماعت کا ہے کہ حقیقی مستعان اللہ رب العزت کی ذات ہے اللہ کے مقبول بندے واسطہ و وسیلہ ہیں ان سے مدد مانگنا در حقیقت اللہ سے مدد مانگنا ہے جیسا کہ علامہ شبیر احمد عثمانی صاحب نے لکھا ۔

مکتبہ فکر دیوبند کے لوگوں سے سوال یہی عقیدہ ہم اہلسنت و جماعت رکھیں تو مشرک و گمراہ کے فتوے لگاتے ہیں آپ لوگوں سوال یہ ہے کہ شیخ الاسلام دیوبند علامہ شبیر احمد عثمانی صاحب یہی عقیدہ لکھ کر مشرک و گمراہ ہوئے کہ نہیں ؟

اگر مشرک و گمراہ ہوئے تو کس کس دیوبندی عالم نے ان پر فتویٰ لگایا ہے ؟

اگر فتویٰ نہیں لگایا تو خدا را امت مسلمہ پر رحم کیجیئے اور شرک شرک کے فتوے کے کھیل کھیل کر امت میں انتشار و فساد مت پھیلایئے ۔

مولوی اسماعیل دہلوی جو کہ دیوبندیوں اور غیرمقلدین میں یکساں معتبر ہے اپنی کتاب صراط مستقیم میں لکھتا ہے : حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے لئے شیخین رضی اللہ عنہما پر بھی ایک گونہ فضیلت ثابت ہے اور وہ فضیلت آپ کے فرمانبرداروں کا زیادہ ہونا اور مقامِ ولایت بلکہ قطبیت اور غوثیت اور ابدالیت اور ان ہی جیسے باقی خدمات آپ کے زمانے سے لیکر دنیا کے ختم ہونے تک آپ ہی کی وساطت سے ہونا ہے ۔ اور بادشاہوں کی بادشاہت اور امیروں کی امارت میں آپ کو وہ دخل ہے جو عالمِ ملکوت کی سیر کرنے والوں پر مخفی نہیں ۔ (صراط مستقیم ، صفحہ نمبر 98)

یہی اسماعیل دہلوی اپنے پیر سید احمد بریلوی کے بارے میں لکھتا ہے : جناب حضرت غوث الثقلین اور جناب حضرت خواجہ بہاؤالدین نقشبند کی روحِ مقدس آپ کے حال پر متوجہ حال ہوئیں ۔ (صراط مستقیم، ص 242،چشتی)

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : آج اگر کسی شخص کو کسی خاص روح سے مناسبت پیدا ہوجائے اور وہ اکثر اوقات اس سے فیضان حاصل کرے تو در حقیقت وہ فیضان حاصل کرتا ہے اس بزرگ کے ذریعے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے یا حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے یا حضرت غوث اعظم جیلانی رضی اللہ عنہ سے ۔ بس یہی مناسبت تمام ارواح میں ہے ۔ (حیات الموات، صفحہ نمبر 55)

یہی حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں؛اس فقیر نے شیخ ابو طاہرکردی سے خرقہ ولایت پہنا اور انہوں نے جواہرِ خمسہ کے اعمال کی اجازت دی۔ اسی جواہرِ خمسہ میں ہے کہ یہ دعا پانچ سوبار پڑھے، حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پکار کہ وہ عجائبات کے مظہر ہیں، تو انہیں مصیبتوں میں اپنا مددگار پائے گا۔ ہر پریشانی اور غم ، یا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے کی نبوت ، اور یا علی رضی اللہ عنہ آپ کی ولایت کے صدقے میں فوراً دور ہوجاتا ہے ۔ یاعلی یاعلی یاعلی ۔ (الانتباہ فی سلاسل اولیا، ص 157)

کیوں جی مسلمانوں کو مشرک کہنے والو شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ مشرک ہوئے کہ نہیں ؟

کیا شاہ ولی توحید کو نہیں جانتے تھے اور شرک کی تعلیم دیتے تھے ؟

بستان المحدثین میں شاہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ ، شیخ ابو العباس احمد زردنی رحمۃ اللہ علیہ کے یہ اشعار نقل کرتے ہیں :

انا لمریدی جامع لشتاتہ
اذا مامطی جور الزمان بنکبتہ
وان کنت فی ضیق وکرب وحشتہ
فناد بیاز زوق ات بسرعتہ

میں اپنے مرید کی پراگندگیوں کو جمع کرنے والا ہوں
جبکہ زمانہ کی مصیبتیں اس کو تکلیف دیں
اگر تو تنگی یا مصیبت یا وحشت میں ہو
تو پکار کہ اے زروق ! میں فوراً آؤں گا

اوپر جو آیت کر یمہ کی غلط تفسیر بیان کی گئی ہے اُس کے غلط ہو نے کی بہت ساری وجہیں ہیں ۔

پہلی وجہ تو یہی ہے کہ اس آیت کی ایسی تفسیر ، نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے بیان کیا ، نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اور نہ کسی بھی مفسر نے ۔ یعنی کہ یہ تفسیر صرف اپنی خاص سمجھ اور عقل کی روشنی میں کی گئی ، نہ کہ احادیث یا اقوال صحابہ رضی اللہ عنہم کی روشنی میں ۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فر مایا کہ : جس نے قرآن میں اپنی رائے سے کچھ کہا تو اس کا ٹھکانہ جہنم ہے ۔ اور بالفرض اگر اس نے صحیح بھی کہا تب بھی غلط ہے ۔ (ترمذی،تفسیر القرآن)

دوسری وجہ یہ ہے کہ اس تفسیر میں جو یہ کہا گیا کہ ”غیر اللہ سے مدد مانگنا شرک ہے ایسے جیسے غیر اللہ کی عبادت کر نا شرک ہے ”بالکل ہی درست نہیں کیو نکہ یہ قرآن اور احادیث رسول کے خلاف ہے ۔ قرآن شر یف میں اللہ تعالیٰ نے فر مایا کہ : یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیۡنُوۡا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ ؕ اِنَّ اللہَ مَعَ الصّٰبِرِیۡنَ ۔ اے ایمان والو ! صبر اور نماز سے مدد چاہو ،بیشک اللّٰہ صابروں کے ساتھ ہے ۔ (سورہ بقرہ،آیت:۱۵۳) ۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ہمیں ہمارے رب نے جس “صبر اور نماز” سے مدد چاہنے کا حکم دیا وہ اللہ نہیں ہے بلکہ اللہ کے علاوہ کوئی اور چیز ہے ۔جس میں اللہ نے بندوں کی مدد کر نے کی طاقت رکھی ہے ۔

دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فر مایا کہ : فَاِنَّ اللہَ ہُوَ مَوْلاہُ وَ جِبْرِیۡلُ وَ صَالِحُ الْمُؤْمِنِیۡنَ ۚ وَ الْمَلٰٓئِکَۃُ بَعْدَ ذٰلِکَ ظَہِیۡرٌ ۔ بے شک اللہ اُن کا مدد گار ہے اور جبرئیل اور نیک مومن اور اس کے بعد فر شتے مدد پر ہیں ۔ (سورہ تحریم،آیت:۴)
اِس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فر مایا کہ : اللہ مدد کر نے والا ہے اور جبر ئیل اورنیک مومن یعنی اللہ کے اولیا اور فر شتے ۔ یہ سب مدد کر نے والے ہیں ۔ جبکہ جبر ئیل اور اللہ کے نیک بندے اور فر شتے ۔ یہ سب غیر اللہ ہیں ، اور اللہ ہی نے ان سب حضرات کو مدد کر نے کی طاقت عطا فر مائی ہے ۔ اب سوال ہوتا ہے اگر اللہ کے علاوہ کسی اور سے مدد مانگنا شرک ہے جیسا کہ غلط تفسیر بیان کر نے والے کہتے ہیں ۔ تو پھر خود اللہ تعالیٰ ہی نے ایمان والوں کو کیوں اپنے علاوہ ”صبر اور نماز” سے مدد مانگنے کا حکم دیا ؟ اور یہ کیوں بیان فر مایا کہ ”جبرئیل اور نیک مومن اور فر شتے بھی مدد کر نے والے ہیں” تو کیا اب غلط تفسیر بیان کر نے والے لوگ اِن آیتوں کا انکار کر یں گے یا پھر یہ کہہ کر اللہ کے نازل کئے ہوئے اسلام کو چھوڑ دیں گے کہ اِس میں شر ک کی تعلیم ہے۔اور ہمیں شرک بالکل پسند نہیں اس لئے ہم اپنے بنائے ہوئےاسلام کو مانیں گے،اللہ کے اُتارے ہوئے اسلام کو نہیں۔نعوذ باللہ من ذالک ۔

حضرت ربیعہ بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھ رات گزاراتو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وضو وغیرہ کے لیے پانی لے کر حاضر ہوا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے مجھ سے سے ارشاد فرمایا : مانگ ۔ تو میں نے عرض کی کہ : میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے یہ مانگتا ہوں کہ میں جنت میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھ رہوں ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نےفرمایا کہ : اور کچھ ؟ میں نے عرض کی : میری مراد توبس یہی ہے ۔ تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نےفرمایا کہ : تب توکثرت سجود سے میری اعانت یعنی مدد کر ۔(الصحیح المسلم رقم الحدیث :۴۸۹،سنن ابی داود،رقم الحدیث:۱۳۲۰،چشتی)

اِس حدیث میں آیا کہ خود حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنے سے مانگنے کے لئے فرمایا اور جب مانگنے والے نے ایک بہت ہی پیاری چیز مانگی تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے انکار نہیں فر مایا بلکہ فر مایا کہ اِس کے علاوہ اور بھی کچھ چاہئے ؟ جب انہوں نے کہا کہ نہیں ، تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اُن سے فر مایا کہ تب تم زیادہ سے زیادہ سجدہ کر کے میری مدد کرو ۔ اگر اللہ کے علاوہ سے مانگنا شر ک ہوتا تو ۔ پہلی بات حضور جو دنیا سے شرک مٹانے کے لئے تشریف لائے کبھی اپنے سے مانگنے کے لئے نہیں کہتے ۔ دوسری بات خود حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اُن سے اپنی مدد کے لئے نہیں فرماتے ۔ مگر جو ہوا وہ حدیث میں پوری امانت داری کے ساتھ محدثین نے بیان کر دیا ۔ اِس سے معلوم ہوا کہ غیر اللہ سے مدد مانگنا شر ک نہیں ہے اور جو لوگ اِسے شر ک قرار دیتے ہیں وہ بالکل غلط نظر یہ ہے کیو نکہ اُس کو صحیح ماننے سے یہ بات لازم آتی ہے کہ نعوذ باللہ خود ہمارے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے شرک کیا جبکہ اِسے کوئی بھی مسلمان مان ہی نہیں سکتا ہے ، بلکہ ایسا سوچ بھی نہیں سکتا ۔

غلط تفسیر بیان کر نے والے لوگ کہتے ہیں کہ : اس حدیث میں جو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے خود سے مانگنے کے لئے کہا یا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے جو خود اپنی مدد کے لئے کہا یہ سب زندوں سے مدد مانگنے کا واقعہ تھا ۔اور ہم لوگ بھی زندوں سے مدد مانگنے کو شرک نہیں کہتے بلکہ مُردوں سے مدد مانگنے کو شر ک کہتے ہیں ۔
یاد رکھیں ! شر یعت بنانے کا حق اللہ عزّ و جل اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو ہے ۔ اِن غلط تفسیر بیان کر نے والے لوگوں کو نہیں کہ یہ جس کو شرک کہہ دے وہ شرک اور یہ جس کو ایمان کہہ دے وہ ایمان ہو جائے گا ۔ اور اللہ عزّ و جل و رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شر یعت میں جو چیز شرک ہوتی ہے وہ ہمیشہ اور ہر وقت شر ک ہوتی ہے ۔ ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی چیز دن میں شرک ہو اور رات میں ایمان بن جائے ۔ جیسے اللہ کے علاوہ کسی اور کی عبادت کرنا شرک ہے ۔ تو اب اگر کوئی اللہ کے علاوہ کسی زندہ شخص کی عبادت کرے تو بھی شرک ہوگا اور اُس کے مر نے کے بعد اُس کی عبادت کرے تب بھی شرک ہوگا ، رات میں کرے گا تب بھی شرک ہوگا اور دن میں کرے تب بھی شرک ہوگا ۔ یہ قاعدہ کہ زندوں سے مدد مانگنا شرک نہیں اور وفات کے بعد مانگنا شرک ہے ۔

ایسا کس آیت یا کس حدیث میں ہے ؟ لوگوں کو اُن سے پو چھنا چاہئے ۔

اِس میں کوئی شک نہیں کہ غیر اللہ سے مدد مانگنا شر ک نہیں ہے بلکہ جائز ہے جیسا کہ اوپر کےبیان سے ظاہر ہے ۔ مگر اِس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اللہ کو چھوڑ کر صرف “غیر اللہ” سے مدد مانگتے رہیں ۔ بلکہ ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے تمام معاملات میں اپنے رب سے مدد مانگیں کیو نکہ اللہ تعالیٰ کو یہ پسند ہے کہ اُس کا بندہ اُس سے مانگے ۔ اور یہ بھی ذہن میں رکھے کہ “دعا” صرف اللہ سے ہوتی ہے ۔ جبکہ مدد کی فر یاد اللہ کے علاوہ سے بھی ہوتی ہے ۔ تو ایسا نہیں کہ ہم صرف غیر اللہ کے سامنے فر یاد کرتے رہیں اور اللہ کی بارگاہ میں فر یاد کر نا چھوڑ دیں ۔ اور ہاں ! کسی بھی غیر اللہ سے مدد مانگنے کے وقت یہ بات بھی ہمیشہ ذہن میں ہونی چاہئے کہ یہ صرف ایک ذریعہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے مدد کی طاقت رکھی ہے اور حقیقت میں ہر چیز کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ اور یہ بھی یاد رکھیں کہ ہر غیر اللہ سے ہم مدد نہیں مانگ سکتے بلکہ صرف انہیں سے مدد مانگ سکتے ہیں جن کے بارے میں قرآن واحادیث سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اِن کے اندر مدد کر نے کی طاقت رکھی ہے ۔ جیسے انبیاء ، فر شتے علیہم السّلام ، شہدا اور اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)




0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔