صحیح اور غلط تفسیروں کی پہچان
محترم قارئین کرام : قرآن حکیم کی آیتوں کی تفسیر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے خود اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو سیکھایا ، پھر صحابہ رضی اللہ عنہم نے تابعین رضی اللہ عنہم کو پھر تا بعین نے اپنے بعد والے لوگوں کو ۔ پھر امت کے اکابر علمائے ربانیین نے اِن تفسیری روایات کی حفاظت اور اشاعت کی غر ض سے با ضابطہ تفسیر قرآن پر کتا بیں تصنیف فر مائیں ۔
اس طر ح سلسلہ در سلسلہ یہ تفسیریں تحر یری شکل میں ہم تک پہنچیں ۔ اور آج ہم آسانی کے ساتھ جس آیت کی بھی تفسیر اور مطلب معلوم کر نا چاہیں اُن کتا بوں کے ذریعے معلوم کر سکتے ہیں ۔ مگراسلام اور مسلمان کے ازلی دشمن یہود ونصاریٰ کی شروع سے یہ کوشش ر ہی کہ مسلمان قرآنی آیات کو اُن صحیح تفسیروں کی روشنی میں سمجھنے کے بجائے خود اپنی عقل سے سمجھے اور اپنی رائے سے اُس کا مفہوم متعین کرے ۔ کیونکہ وہ خوب جانتے ہیں کہ یہ گمراہی اور بے دینی کا بڑا عظیم راستہ ہے ۔ اس لئے کہ قرآن شر یف میں بہت ساری ایسی آیات ہیں کہ اگر ہم اس کو سمجھنے کے لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بیان کردہ تفسیروں کو چھوڑ کر محض اپنی عقل سے کام لیں تو یقینا ہم گمراہ ہو جائیں گے ۔ جیساکہ فرقہ اہل قرآن جو صرف قرآن کواپنی عقل کی روشنی میں ماننے کا دعویٰ کرتا ہے ، وہ کہتے ہیں کہ آج مسلمان جس طرح سے پنجگانہ نمازیں ادا کر تے ہیں یہ سب غلط ہے کیو نکہ قرآن میں کسی بھی جگہ پانچ نمازوں اور اُن کو ادا کر نے کا طر یقہ نہیں بتا یا گیا ہے ۔قرآن میں صرف اتنا آیا ہے کہ “اقیمواالصلوٰۃ”اور “اقیموا” کا معنی ہوتا ہے کسی بھی چیز کو قائم کر نا یعنی اُس پر پابندی برتنا ، اور عربی زبان میں “الصلوٰۃ” کا معنی ہوتا ہے “دعا کرنا”تو اب آیت کا مطلب ہوا کہ پابندی سے دعا کرو ۔ اُن کی اِس کھلی گمراہی اور بے دینی کی وجہ ، قرآن کو صحیح تفسیروں کی روشنی میں سمجھنے کے بجائے قرآن کو صرف اپنی عقل سے سمجھنے کا نتیجہ ہے ۔
اسی لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنی امت کو قرآن کے کسی بھی آیت کے بارے میں بغیر علم کے محض اپنی رائے سے بولنے کو سختی کے ساتھ منع فر مایا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فر مایا کہ:جس نے قرآن کے بارے میں بغیر علم کے کچھ کہا تو اُس کا ٹھکانہ جہنم ہے ۔ (جامع تر مذی،تفسیر القرآن،باب الذی یفسر القرآن برائہ،حدیث:۲۹۵۰،چشتی)
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فر مایا کہ جس نے قرآنی آیتوں کے بارے میں اپنی رائے سے کچھ کہا تو اُس کا ٹھکانہ جہنم ہے ۔ (جامع تر مذی،تفسیر القرآن،باب الذی یفسر القرآن برائہ،حدیث:۲۹۵۱)
یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فر مایا : جس نے قرآن کے بارے اپنی رائے سے کہا اور اُس نے صحیح بھی کہا تو اُس نے غلط کیا ۔ (جامع تر مذی،تفسیر القرآن،باب الذی یفسر القرآن برائہ،حدیث:۲۹۵۲)
مگر افسوس ! آج بہت سارے لوگوں کو حنبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اِن فرامین کے معلوم نہ ہونے کی وجہ سے یہ نعرہ اُن کے دل کو لبھا رہا ہے کہ قرآن آسان ہے ، اِسے خود اللہ عزّ و جل نے ہمارے لئے آسان بنایا ہے ۔ ہمیں خود پڑ ھنا اور سمجھنا چاہئے ، ہم خود عقل والے ہیں ، ہمیں کسی کی بیان کی ہوئی تفسیر کو دیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے وغیرہ ۔ اِن خوشنما نعروں کے پیچھے یہود ونصاریٰ نے ہمارے لئے گمراہی کے کس قدر خوفناک اور بھیانک جال بچھا رکھا ہے ، کاش کہ لوگ پردے کے پیچھے دیکھ پاتے ۔ یاد رکھیں ! ہر عالم دین عوام الناس کو قرآن کو پڑ ھنے کی دعوت دیتے ہیں ، اس سلسلے میں باضابطہ تقریریں کرتے ہیں اور اِس پر اُبھارنے کے لئے تر غیبی احادیث بھی سناتے ہیں اور اسلام کے یہ دشمن بھی بھیس بدل کرمسلمانوں کو یہ دعوت دیتے ہیں مگر دونوں کی دعوت میں فرق یہ ہے کہ عالم دین قرآن پڑ ھنے کے ساتھ اس کی آیات کے مطالب سمجھنے کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے منقول تفسیروں کو پڑ ھنے کی دعوت دیتا ہے جبکہ یہ دشمنان اسلام ہمیں محض اپنی عقل سے قرآن سمجھنے کی دعوت دیتا ہے جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے سختی سے منع فر مایا ۔ مگر افسوس نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اِن فرا مین کو بہت سارے لوگوں نے پسِ پشت ڈال دیا اور قرآن کی آیتوں کی تفسیر یں اپنی رائے سے کر نے لگے جس کی وجہ سےآج بہت ساری آیتوں کی غلط تفسیریں لوگوں کے درمیان مشہور ہوگئی ہیں اور جس کی وجہ سے بہت سارے لوگ گمراہی کے شکار ہور ہے ہیں ۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment