درسِ قرآن موضوع آیت : وَعِنْدَهٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُهَاۤ اِلَّا هُوَ
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں ارشاد فرمایا : وَعِنْدَهٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُهَاۤ اِلَّا هُوَ ۔(سورہ انعام آیت نمبر 59)
ترجمہ : اور اسی کے پاس ہیں کنجیاں غیب کی انہیں وہی جانتا ہے ۔
وَ عِنْدَهٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ : اور غیب کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں ۔
مفسرین کرام علیہم الرّحمہ نے فرمایا ہے کہ “ مفاتیح الغیب“ ( غیب کی کنجیوں ) سے مراد یا تو غیب کے خزانے ہیں ۔ یعنی سارے معلمات الہیہ کا جاننا یا اس سے مراد ہے کہ غیب کو حاضر کرنے یعنی چیزوں کے پیدا کرنے پر قادر ہونا ۔ کیونکہ کجنی کا کام یہ ہی ہوتا ہے کہ اس سے قفل کھولا جائے اور اندر کی چیز باہر اور باہر کی چیز اندر کر دی جائے اسی طرح حاضر کو غائب اور غائب کو حاضر کرنا یعنی پیدا کرنے اور موت دینے کی قدرے پروردگار ہی کو ہے ۔
تفسیر عنایۃ القاضی میں ہے : وجہ اختصا صھا بہ تعالٰی انہ لا یعلمھا کما ھی ابتداء الا ھو ۔
ترجمہ : یہ جو آیت میں فرمایا کہ ’’ غیب کی کنجیاں اللہ ہی کے پاس ہیں اُس کے سوا انہیں کوئی نہیں جانتا ‘‘ اس خصوصیت کے یہ معنی ہیں کہ ابتداء ً بغیر بتائے ان کی حقیقت دوسرے پر نہیں کھلتی ۔ (عنایۃ القاضی الانعام، تحت الآیۃ : ۵۹، ۴،۷۳)
تفسیر صاوی میں ہے : یہ آیتِ کریمہ اس بات کے منافی نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بعض انبیاء علیہم السّلام اور اولیاء علیہم الرّحمہ کو بعض چیزوں کا علمِ غیب عطا فرمایا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْهِرُ عَلٰى غَیْبِهٖۤ اَحَدًاۙ(۲۶) اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ‘‘ ۔
ترجمہ : غیب کا جاننے والا تو اپنے غیب پر کسی کو مسلط نہیں کرتاسوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے ۔ (تفسیر صاوی، الانعام، تحت الآیۃ: ۵۹، ۲ / ۵۸۶،چشتی)
تفسیر کبیر میں ہے : فکذلک ھھنا لما کان عالما بجمیع المعلومات عبر ھذا المعنی بالعبارۃ المذکورۃ وعلی التقدیر الثانی المراد منہ القدرۃ علی کل الممکنات ۔
ترجمہ : جبکہ پروردگار تمام معلومات کا جاننے والا ہے تو اس مطلب کو اس عبارت سے بیان کیا اور دوسری صورت پر مراد اس سے سارے ممکنات پر قادر ہونا ہے ۔
تفسیر روح البیان میں ہے : وقلم تصویر ھا الذی ھو مفتاح یفتح بہ باب علم تکوینھا علی صورتھا و کونھا ھو الملکوت فبقلم ملکوت کل شئی یکون کل شئی و قلم الملکوت بیداللہ لان الغیب ھو علم التکوین ۔
ترجمہ : ان چیزوں کے نقش باندھنے کا قلم جو ایسی کجنی ہے جس سے ان چیزوں کا پیدائش کا دروازہ کھولا جاتا ہے ( ان کی مناسب صورتوں پر) وہ ہی ملکوت ہے ، پس ہر چیز کے ملکوت کے قلم سے ہر چیز کی ہستی ہوتی ہے اور ملکوت کا قلم اللہ کے ہاتھ میں ہے اسلئے کہ غیب سے مراد پیدا کرنیکا جاننا ہے ۔
تفسیر خازن میں ہے : لان اللہ تعالٰی لما کان عالما بجمیع المعلومات عبر ھذا المعنٰی بھذا العبادۃ و علی التفسیر الثانی یکون المعنٰی وعندہ خزائن الغیب و المراد منہ القدرۃ الکاملۃ علٰی کل الممکنات ۔
ترجمہ : کیونکہ رب تعالٰی جب تمام معلومات کا جاننے والا تو اس کے معنٰی کو اس عبارت سے بیان کیا اور دوسراتفسیر پر اسکے معنٰے یہ ہونگے کہ اس کے نزدیک غیب کے خزانے ہیں اور اس سے مراد ہے ہر ممکن چیز پر قدرت کاملہ ۔
تفسیر عرائس البیان میں ہے : قال الحریری لا یعلمھا الا ھو و من یطلعہ علیھا من خلیل و حییب ای لا یعلمھا الاولون و الاکرون قبل اظھارہ تعالٰی ذلک لھم ۔
ترجمہ : حریری نے فرمایا کہ ان کنجیوں کو سوائے اللہ تعالٰی کے اور سوائے ان محبوبوب کے جب کو اللہ خبردار کرے کوئی نہیں جانتا یعنی ان کو اگلے پچھلے اللہ کے ظاہر فرمانے سے پہلے نہیں جانتے ۔
اس آیت کے اگر وہ مطالب نہ بیان کئے جائیں جو مندرجہ بالا مفسّرین علیہم الرّحمہ نے بیان فرمائے ہیں تو یہ مخالفین کے بھی خلاف ہے کیونکہ بعض علم غیب وہ بھی مانتے ہیں ۔ اور اس میں علم غیب کی بالکل نفی ہے ۔
لا یعلمھا الا ھو ، میں اس طرف اشارہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جیسے ہیں ویسا کوئی نہیں جانتا ۔ حقیقت محمد یہ کو رب ہی جانے “ مفاتح“ جمع اس لئے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ہر ادا رحمتِ الہٰی کی کنجی ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا نور عالم کی کنجی “ کل الخلق من نوری “ قیامت میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا سجدہ شفاعت کی کنجی ہے جنت میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا نام ہر نعمت کی کنجی اور جنت میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا جانا سب کے لئے جنت کے کھلنے کی کنجی ہے ۔
اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ اللہ عزّ و جل کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں اب یہ سوال ہے کہ کنجی سے کسی کے لئے دروازہ غیب کھولا بھی گیا یا نہیں ؟ یا کسی کو کوئی کجنی دی گئی نہیں ؟ اس جواب قرآن و حدیث سے پوچھو قرآن فرماتا ہے ۔ انافتحنا لک فتحا مبینا“ ہم نے آپ کے لئے ظاہر پر کھول دیا ۔ کیا کھول دیا ؟ قفل اور کجنی میں وہ ہی چیز رکھی جاتی ہے ۔ جو کھول کر نکالنی ہو اور جسے نکالنا ہو ۔ وہ زمین میں دفن کر دی جاتی ہے ۔ پتہ لگا کہ غیب کسی کو دینا تھا اس لئے کجنی بھی بھیجی ۔
اہلسنت کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو علم غیب سے نوازا اور ماکان و مایکون کا بتدریج علم عطا فرمایا ۔ اس عقیدہ پر قرآن و حدیث کی کثیر نصوص موجود ہیں ۔ اور یہی عقیدہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے لیکر آج تک مسلمانوں کا رہا ہے اس عقیدہ پر دلائل میں سے بعض یہ ہیں ۔
آیت نمبر 1 : عٰلم الغیب فلا یظھر علی غیبہ احدًا الا من ارتضی من رسول ( سورہ جن آیت ٢٧، ٦ب٢)
ترجمہ : غیب کا جاننے والا تو اپنے غیب پر کسی کو مسلّط نہیں کرتا سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے ۔
آیت نمبر 2 : وماکان لیطلعکم علی الغیب ولکن اﷲ یجتبی من رسلہ من یشاء ۔ (سورہ آل عمران آیت نمبر١٧٩)
ترجمہ : اور اللہ کی شان یہ نہیں ہے کہ اے عام لوگوں تمہیں غیب کا علم دے ہاں اللہ چن لیتا ہے اپنے رسولوں سے جسے چاہے ۔
آیت نمبر3 : وعلمک مالم تکن تعلم وکان فضل اﷲ علیک عظیما ۔(سورۃ نساء آیت ١١٣)
ترجمہ : اور تمہیں سکھادیا جو کچھ تم نہ جانتے تھے اور اللہ کا تم پر بڑا فضل ہے ۔
آیت نمبر 4 : وما ھو علی الغیب بضنین ۔ (سورۃ تکویر آیت ٢٤)
ترجمہ : اور یہ نبی غیب بتانے میں بخیل نہیں ۔
آیت نمبر5 : ذلک من انباء الغیب نوحیہ الیک ۔ (سورہ یوسف آیت ١٠٢)
ترجمہ : یہ کچھ غیب کی خبریں ہیں جو ہم تمہاری طرف وحی کرتے ہیں ۔
صحیح بخاری اورصحیح مسلم کی صاف روایتیں موجود ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فر مایا کہ : مجھے تمام خزانوں کی کنجیاں عطا کی گئیں ۔ (صحیح بخاری،حدیث:۲۹۷۷۔صحیح مسلم،حدیث:۵۲۳،چشتی)
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فر مایا کہ:میرے لئے پوری روئے زمین کو سمیٹ دیا گیا یہاں تک کہ میں نے اس کے مشرقوں اور مغربوں (یعنی پورب اور پچھم کے آخری کناروں) کو دیکھ لیا ۔ پھر مجھ سے کہا گیا کہ ’’ آپ کی ملکیت وہاں تک ہے جہاں تک کے زمین کو آپ کے لئے سمیٹا گیا ۔ (ابن ماجہ،کتاب الفتن،حدیث:۳۹۵۲)
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی فرمایا ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہم لوگوں میں کھڑے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ہمیں مخلوق کی پیدائش سے بتانا شروع کیا حتی کہ جنتی اپنے منازل پر جنت میں داخل ہوگئے اور جہنمی اپنے ٹھکانے پر جھنم میں پہنچ گئے ۔ جس نے اس بیان کو یادر رکھا اس نے یادرکھا جو بھول گیا سو بھول گیا۔( بخاری جلد ١ صفحہ ٤٥٣)
حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے میرے لئے زمین سمیٹ دی تو میں نے مشرق سے مغرب تک زمین کا تمام حصہ دیکھ لیا اور عنقریب میری امت کی حکومت وہاں تک پہنچے گی جہاں تک کہ زمین میرے لئے سمیٹی گئی ۔ ( مسلم شریف جلد اول صفحہ ٣٩٠ ،چشتی)
حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے نماز کسوف ادا فرمائی فراغت کے بعد اللہ کی حمد وثنا کی پھر فرمایا '' مامن شیئ کنت لم ارہ الا و قد رایتہ، فی مقامی ھذا حتی الجنۃ والنار '' یعنی ہر وہ شے جسکو میں نے پہلے نہیں دیکھا تھا اسے میں نے اس مقام پر دیکھ لیا حتی کہ جنت و دوزخ کو بھی دیکھ لیا ۔ (بخاری جلد اول صفحہ ١٤٤ )
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے نماز کسوف ادا فرمائی جب نمازسے فارغ ہوئے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی رائیناک تناولت شیأاً فی مقامک ثم رایناک تکعکعت فقال انی رایت الجنۃ وتناولت عنقوداً ولو اصبتہ، لاکلتم منہ مابقیت الدنیا واریت النار فلم ار منظرا کالیوم قط افظع ورایت اکثر اھلھا النساء ، یعنی ہم نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو کسی چیز کے پکڑنے کا ارادہ کرتے دیکھا پھر ہم نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پیچھے ہٹ گئے ( یہ سن کر ) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا میں نے جنت دیکھی اور انگور کا خوشہ اٹھانے کا ارادہ فرمایا اور اگر میں اسے اٹھا لیتا تو جب تک دنیا قائم رہتی تم اسے کھاتے رہتے اور مجھے دوزخ دکھائی گئی پس میں نے اس سے زیادہ ہولناک منظر آج تک نہ دیکھا تھا اور میں نے دیکھا کہ اسمیں اکثر عورتیں ہیں ۔ (بخاری جلد اول صفحہ ١٤٤،چشتی)
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے مرالنبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بقبرین یعذبان فقال انھما لیعذبان یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم دو قبروں کے قریب سے گذرے ۔ جنہیں عذاب ہورہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ انہیں عذاب ہورہا ہے اور ان کو عذاب کسی ایسی شے کی وجہ سے نہیں دیا جارہا جس سے بچنا بہت مشکل ہو بہر حال ایک تو پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغلی کیا کرتا تھا ۔ (بخاری جلد اول صفحہ١٨٢)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم احد پہاڑ پر تشریف لے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھ ابو بکر وعمر و عثمان رضی اللہ عنہم بھی تھے تو پہاڑ لرزنے لگا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا اثبت احد فانما علیک نبی وصدیق و شھیدان یعنی اے احد ٹھہر جا کہ تجھ پر ایک نبی اور ایک صدیق اور دو شہید ہیں ۔ (بخاری جلد اول صفحہ٥١٩)
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بعض ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن نے عرض کی کہ ہم میں سے کون سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے ملے گا ( یعنی موت کے بعد ) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا تم میں سے جسکا ہاتھ سب سے لمبا ہو تو انہوں نے ایک زکل (لکڑی کو ) لیا اور اسکے ساتھ اپنے ہاتھوں کی پیمائش کی تو حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ہاتھ سب سے لمبا تھا تو بعد میں ہمیں پتا چلا کہ لمبے ہاتھ سے مراد صدقہ کرنا ہے اور حضرت زینب رضی ا للہ تعالیٰ عنہا سب سے پہلے ملنے والی تھیں اور انہیں صدقہ کرنے سے بڑی محبت تھی ۔ (بخاری جلد اول صفحہ١٩١،چشتی)
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اپنے اسی مرض میں بلا یا جس میں آپ ؐ کا وصال مبارک ہوا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ کچھ سرگوشی فرمائی تو وہ رونے لگیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے پھر بلایا پھر سرگوشی فرمائی تو وہ ہنس پڑیں ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں میں نے ان سے سرگوشی کے متعلق پوچھا تو انھوں نے جواب دیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے مجھے بتایا تھا کہ آپ کا اس مرض میں وصال ہوجائیگا میں یہ سنکر روپڑی پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے مجھے خبر دی کہ اہل بیت میںسب سے پہلے میں ہی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پیچھے آؤں گی پس میں ہنس پڑی ۔ (بخاری جلد اول صفحہ٥٣٢)
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ اللہ نے مجھ سے ایک سوال کیا میں نے عرض کی اے میرے رب مجھے معلوم نہیں فوضع یدہ بین کتفی حتی وجدت بردھا بین ثدی فعلمت مابین المشرق والمغرب یعنی اللہ عزوجل نے اپنا دست قدرت میرے کاندھوں کے درمیان رکھا حتی کہ میں نے اسکی ٹھنڈک اپنے سینے میں محسوس کی پھر میں نے جان لیا جو کچھ مشرق ومغرب کے درمیان ہے ۔ ( ترمذی جز٢ صفحہ ١٥٦ )
ان آیات واحادیث مبارکہ سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم غیب جانتے ہیں نیز آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ابتدائے آفرینش سے لیکر دخول جنت و نار تک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو خبریں بھی دیں ۔ بعداز وصال کی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے خبریں دیں کون کب مرے گا ؟ کل کیا ہوگا مشرق و مغرب کا علم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو عطا کیا گیا ۔ ان آیات و احادیث کے ہوتے ہوئے کیسے کہا جاسکتا ہے کہ نبی کریم کو غیب کا علم نہیںدیا گیا ۔ جب علم غیب کی نفی کرنے والی اور اثبات کرنے والی دونوں قسم کی آیات موجود ہیں تو دونوں کا علیحدہ علیحدہ محمل بیان کیا جائے تاکہ دونوں قسم کی آیتوں پر ایمان لایا جائے ۔ یہ نہیں کہ نفی کی آیتیں تو مان لی جائیں اور اثبات کی آیتوں کا انکار کردیا جائے ۔ کیونکہ قرآن مجید کی ایک آیت کا انکار بھی کفر ہے ۔ اسی وجہ سے علمائے کرام اور ائمہ دین نے دونوں آیتوں کے جدا جدا محمل بیان فرمائے ۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جن آیتوں میں علم غیب کا اِثبات ہے وہاں مراد ہے اللہ عزّ و جل کی عطا سے غیب جاننا اور جہاں علم غیب کی نفی ہے وہاں مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بتائے بغیر کوئی غیب نہیں جانتا ۔ جیسے قرآن مجید میں ایسی بہت سی صفات ہیں کہ جن کا اطلاق اللہ تعالیٰ پر بھی ہے اور بندوں پر بھی مثلاً فرمایا :
(1) : وﷲ غفور رحیم '' اور اللہ بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے '' وﷲ رؤوف بالعباد '' اور اللہ بندوں پر بڑھ مہربان ہے '' اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے لئے فرمایا بالمومنین رؤوف رحیم '' مومنوں پر مہربان رحم والے ۔
(2) : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : انہ ھو السمیع البصیر '' بے شک اللہ ہی سننے والا دیکھنے والا ہے '' اور عام انسانوں کے بارے میں فرمایا فجعلناہ سمیعا بصیرا ، (سورۃ الدھر آیت ٢) '' پس ہم نے انسان کوسننے والابنایا '' ۔
(3) : اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﷲ یتوفی الانفس '' اللہ جانوں کو فوت کرتا ہے '' اور حضرت عزرائیل علیہ السلام کے بارے میں فرمایا قل یتوفکم ملک الموت الذی وکل بکم '' اے محبوب تم فرمادو تمہیں موت کا فرشتہ فوت کرتاہے جو تم پر مقرر کیا گیا ہے ۔
ان آیات مبارکہ میں واضح طور پر مخلوق کے لئے وہی صفات بتائی گئی ہیں جو خالق کے لئے بتائی گئیں لیکن خالق و مخلوق کےلئے ایک صفت ماننا کفر و شرک ہرگز نہیں جبکہ درمیان میں مختلف قسم کے فرق ہوں مثلاً اللہ تعالیٰ رووف رحیم اور سمیع و بصیر ہے ذاتی طور پر اور مخلوق کے لئے یہ صفت ہے اللہ تعالیٰ کی عطا سے ۔ اللہ تعالیٰ فوت کرتا ہے ذاتی طورپراور عزرائیل علیہ السلام فوت کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کی عطا سے ۔ یونہی اللہ تعالیٰ غیب جانتا ہے ذاتی طور پر اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم غیب جانتے ہیں اللہ تعالیٰ کی عطاء سے ۔ جب دوسرے اوصاف میں یہ فرق درست ہے اور علم غیب میں آکر یہ فرق کیونکر غلط ہوجاتا ہے اور جہاں تک آیات میں اس بات کا تذکرہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں یا اسی کے پاس چیزوں کا علم ہے توا س کا یہ مطلب کہاں سے نکل آیا کہ اللہ تعالیٰ کسی کودیتا بھی نہیں مثلاً قرآن مجید میں ہے انہ ھو السمیع البصیر (سورۃ بنی اسرائیل آیت نمبر ١) بیشک اللہ تعالیٰ ہی سنتا دیکھتا ہے '' تو کیا اس کا یہ مطلب ہے ساری دنیا اندھوں بہروں سے بھری پڑی ہے اور اللہ تعالیٰ نے سننے دیکھنے کی طاقت کسی کو نہیں دی ؟ ہرگز نہیں بلکہ مراد یہی ہے کہ ذاتی طور پر سنتا او ردیکھتا اللہ ہی ہے باقی سب کی اس کی عطا سے سنتے دیکھتے ہیں ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا ان العزۃ ﷲ جمیعا '' سب عزتوں کا مالک اللہ تعالیٰ ہے '' کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ باقی سب ذلیل اور کمینے ہیں ؟ ہرگز نہیں بلکہ ذاتی طورپر عزت والا اللہ تعالیٰ ہے اور اس کی عطا سے انبیاء علیہم السّلام و اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ اور مومنین عزت والے ہیں ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا وﷲ عندہ حسن الثواب '' اور اللہ ہی کے پاس ہے اچھا ثواب '' کیا اس کا یہ مطلب لیں گے کہ اللہ تعالیٰ کسی کو ثواب دیتا بھی نہیں ؟ ہرگز نہیں یقینا اللہ تعالیٰ نیک کاموں پر ثواب عطا فرماتا ہے اسی طرح علم غیب اللہ ہی کے پاس ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی کو علم غیب دیتا بھی نہیں بلکہ دیتا ہے جیسا کہ مذکورۃ الصدر آیات و احادیث سے ثابت ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment