محترم قارئین : تحریک انصاف کی حکومت خیبر پختونخواہ اور مفتی پوپلزئی نے مل کر اسلام اور شریعتِ اسلام کا مذاق اڑایا اسلامی شریعت سے بغاوت کرتے ہوئے اسلامی مہینہ کو خود ساختہ قانون کے تحت 28 دن کا کر کے عید منائی اس جرم میں مفتی پوپلزئی اور تحریک انصاف حکومت دونوں شامل ہیں میں حیرت میں ہوں اب تک مسلمان اس بغاوتِ اسلام کے خلاف اب تک خاموش کیوں ہیں ؟ فقیر کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ہے مگر جب بات آئے اسلام اور شریعت اسلامیہ کی تو ہم خاموش تمشائی بن کر نہیں بیٹھ سکتے مختصر وقت میں یہ ادنیٰ سی کوشش کی ہے اہلِ علم سے گذارش کہیں غلطی پائیں تو فقیر کی اصلاح فرما دیں اور اس مسلہ پر شرعی حکم کے مطابق فتویٰ جاری فرمائیں اس مسلہ پر فرقہ پرستی سے دور رہیں صرف اور صرف اسلام اور شریعتِ اسلامیہ کی بات کریں آیئے مضمون پڑھتے ہیں :
ہجری یا اسلامی سال ، سال ہجری 1440ء ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے پہلے طائف اور بعد میں مدینۃ المنورہ کی طرف مستقل ہجرت کی ۔ یہی ہجرت مدنی کا وقت جہاں سن ہجری کا آغاز ہوتا ہے ۔ سن ہجرت مسلمانوں کا مذہبی سال ہے ۔ یہ سال قمری حساب سے ہوتا ہے اور شمسی سال سے بقدر 11 دن چھوٹا ہوتا ہے ۔ اس کے مہینے بھی چاند کے گھٹنے بڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ قمری مہینہ کے ایام میں تبدیلی ناممکن ہے۔ یہ مہینہ یا تو 29 دن کا ہوتا ہے یا 30 دن کا۔ گویا مہینہ کے ایام میں کم سے کم تفاوت ہے۔ 29 دن کے مہینہ کو کسی بھی وضعی یا اختراعی طریقہ سے 30 دن کا نہیں بنایاجاسکتا۔ نہ 30 دن والےمہینہ کو 29 دن کےمہینہ میں تبدیل کیا جاسکتا ہے ۔ چونکہ موسموں کا آغاز اور انجام سورج کے باعث ہے اس لیے شمسی سال میں ہر سال انہی مہینوں میں موسم واقع ہوتے ہیں لیکن قمری سالوں میں یہ بات نہیں ہوتی ۔ مہینے ہیر پھیر کرتے رہتے ہیں ۔ کبھی گرمی اور کبھی سردی میں آتے ہیں ۔ اس کا آغاز ہجرت مذکور یعنی 622 عیسوی سے ہوا ۔ اس کو اسلام کے آغاز کا سال سمجھا جاتا ہے ۔ اسلامی ہجری اسی سال سے شروع ہوتا ہے ۔ محرم مسلمانوں کا ہجری سال کا پہلا مہینہ ہے ۔ اسلامی مہینوں کے نام بالترتیب اس طرح ہیں : محرم ، صفر ، ربیع الاول ، ربیع الثانی ، جمادی الاول ، جمادی الثانی ، رجب ، شعبان ، رمضان ، شوال ، ذوالقعدہ ، ذوالحجہ ۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے : اِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُوۡرِ عِنۡدَ اللہِ اثْنَا عَشَرَ شَہۡرًا فِیۡ کِتٰبِ اللہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرْضَ ۔
ترجمہ : بیشک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک بارہ مہینے ہیں اللہ کی کتاب میں جب سے اس نے آسمان و زمین بنائے ۔ (سورة التوبة آیت نمبر 36)
اِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُوۡرِ عِنۡدَ اللہِ اثْنَا عَشَرَ شَہۡرًا فِیۡ کِتٰبِ اللہِ : بیشک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک اللہ کی کتاب میں بارہ مہینے ہیں ۔ یہاں یہ بیان فرمایاگیا کہ بکثرت احکامِ شرع کی بنا قَمری مہینوں پر ہے جن کا حساب چاند سے ہے۔ اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی کتاب سے یا لوحِ محفوظ مراد ہے یا قرآن یا وہ حکم جو اس نے اپنے بندوں پر لازم کیا ۔ (تفسیر مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۶، ص۴۳۴، خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۳۶، ۲/۲۳۶)
امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : یہ آیت واضح ثبوت ہے کہ تمام احکام خواہ عبادات ہوں یا غیر عبادات ان کی ادائیگی میں عربی اور اسلامی تقویم کا ہی اعتبار ہوگا نہ کہ اس کیلنڈر کا جس پر عجم رومی اور مسیحی لوگ عمل کرتے ہیں اگرچہ اس کے مہینے کی تعداد بارہ سے زائد نہیں ہے کیونکہ ان کی گنتی میں فرق ہے ، کوئی مہینہ 30 دن کا ہوتا ہے اور کوئی زیادہ اور کوئی کم جبکہ اسلامی تقویم کا معاملہ اس سے مختلف ہے کیونکہ مہینہ یا تو 30 دن کا ہوتا ہے یا 29 دن کا اور جو ماہ 29 دن کا ہوتا ہے وہ کوئی متعین نہیں ہے کہ کب ہوگا ۔ اس 30 دن یا 29 دن کا دار ومدار چاند کے منازل کے اعتبار سے ہوتا ہے ۔ اور عربی ماہ چاند دیکھ کر شروع ہوتا ہے یا گذشتہ ماہ 30 دن پورا کرکے شروع ہوتا ہے ۔ (تفسیر قرطبی،چشتی)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : صوموا لرؤيته وأفطروا لرؤيته ، فإن غبي عليكم فأكملوا عدة شعبان ثلاثين ۔
ترجمہ : چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر عید کی نماز پڑھو ، اگر چاند نہ دیکھ سکو تو شعبان کے ۳۰ دن پورے کرلو (پھر روزہ رکھو) ۔ (صحیح بخاری)
لاتصوموا حتّی تروہُ ولاتفطروا حتّی تروہ فإن غمَّ علیکم فاقدروا لہ ۔ (بخاری ج۱/۲۵۶)
ترجمہ : روزہ اس وقت تک نہ رکھو جب تک چاند نہ دیکھ لو اور عید کے لیے افطار اس وقت تک نہ کرو جب تک چاند نہ دیکھ لو اور اگر چاند تم پر مستور ہوجائے تو حساب لگا لو (یعنی حساب سے تیس دن پورے کرلو ) ۔
اسی کی ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں : الشہر تسعٌ وعشرون لیلة، فلا تصوموا حتّٰی تروہ فان غُمَّ علیکم فاکملوا العدَّةّ ثلاثین․ (صحیح بخاری ج:۱/۲۵۶،چشتی)
ترجمہ : مہینہ (یقینی) انتیس راتوں کا ہے ، اس لیے روزہ اس وقت تک نہ رکھو جب تک (رمضان کا ) چاند نہ دیکھ لو ۔ پھر اگر تم پر چاند مستور ہوجائے تو (شعبان) کی تعداد تیس دن پورے کرکے رمضان سمجھو ۔
قمری تقوِیم میں چاند کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ سورج سے وقت کی پیمائش کے لئے اِنسان کو اپنے علمی سفر کی اِبتدا میں سخت دُشواریوں سے گزرنا پڑا اور ابھی تک یہ سلسلہ تھم نہیں سکا۔ کبھی مہینے کم و بیش ہوتے آئے اور کبھی اُن کے دن، یہی حالت سال کے دِنوں کی بھی ہے۔ شمسی تقوِیم میں جا بجا ترمیمات ہوتی آئی ہیں مگر اُس کے باوُجود ماہرین اُس کی موجودہ صورت سے بھی مطمئن نہیں ہیں ۔ موجودہ عیسوی کیلنڈر بار بار کی اُکھاڑ پچھاڑ کے بعد 1582ء میں موجودہ حالت میں تشکیل پایا، جب 4 اکتوبر سے اگلا دِن 15 اکتوبر شمار کرتے ہوئے دس دن غائب کر دیئے گئے۔ پوپ گریگوری کے حکم پر ہونے والی اِس تشکیلِ نو کے بعد اُسے ’گریگورین کیلنڈر‘ کہا جانے لگا ۔
دُوسری طرف قمری تقوِیم میں خود ساختہ لیپ کا تصوّر ہی موجود نہیں ۔ سارا کیلنڈر فطری طریقوں پر منحصر ہے ۔ قدرتی طور پر کبھی چاند 29 دِن بعد اور کبھی 30 دِن بعد نظر آتا ہے ، جس سے خود بخود مہینہ 29 اور 30 دِن کا بن جاتا ہے ۔ اِسی طرح سال میں بھی کبھی دِنوں کو بڑھانے یا کم کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی ۔
چاند زمین کے گرد مدار میں اپنا 360 درجے کا ایک چکر 27 دن، 7 گھنٹے، 43 منٹ اور 11.6 / 11.5 سیکنڈ کی مدّت میں مکمل کرتا ہے اور واپس اُسی جگہ پر آ جاتا ہے۔ مگر یہاں ایک بڑی اہم بات قابلِ توجہ ہے کہ زمین بھی چونکہ اُسی سمت میں سورج کے گرد محوِ گردِش ہے اور وہ مذکورہ وقت میں سورج کے گرد اپنے مدار کا 27 درجے فاصلہ طے کر جاتی ہے لہٰذا اَب چاند کو ہر ماہ 27 درجے کا اِضافی فاصلہ بھی طے کرنا پڑتا ہے۔ گویا ستاروں کی پوزیشن کے حوالے سے تو چاند کا ایک چکر 360 درجے ہی کا ہوتا ہے مگر زمین کے سورج کے گرد گردش کرنے کی وجہ سے اُس میں 27 درجے کا اضافہ ہو جاتا ہے اور اُسے زمین کے گرد اپنے ایک چکر کو پورا کرنے کے لئے 387 درجے کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔ 27 درجے کی اِضافی مسافت طے کرنے میں اُسے مزید وقت درکار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قمری ماہ کی مدّت 27 دن، 7 گھنٹے، 43 منٹ اور 11.6 / 11.5 سیکنڈ کی بجائے 29 دن، 12 گھنٹے، 44 منٹ اور 2.8 سیکنڈ قرار پاتی ہے۔ 29 دن اور 12 گھنٹے کی وجہ سے چاند 29 یا 30 دنوں میں ایک مہینہ بناتا ہے اور باقی 44 منٹ اور 2.8 سیکنڈ کی وجہ سے سالوں میں کبھی دو ماہ مسلسل 30 دنوں کے بن جاتے ہیں اور یہ فرق بھی خود بخود فطری طریقے سے پورا ہو جاتا ہے اور ہمیں اپنی طرف سے اُس میں کوئی ردّوبدل نہیں کرنا پڑتا ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment