غیراللہ کی قسم کھانے اور قسم کے شرعی احکام ساجد خان نقشبندی دیوبندی کا جھوٹ بے نقاب
محترم قارئین کرام : ساجد خان نقشبندی دیوبندی نے مسلہ ختمِ نبوت پر میری طرف منسوب جھوٹی آڈیو بنا کر اپلوڈ کی اور پھیلائی میں نے اسی وقت اس کا رد کر دیا تھا اور اِس اُمید پر خاموش ہو گیا کہ خود کو مناظر اور عالم کہنے والا ساجد خان نقشبندی اور اُس کے چیلے اِس جھوٹ سے توبہ کر لیں گے مگر یہ باز نہ آئے جب مجھ سے سامنا ہوا تو اِس جھوٹ کو ثابت نہ کر سکا اور غیر اللہ کی قسم یعنی کلما یہ کلما اسی نے لکھا یعنی کلما طلاق کی قسم کھاتا ہوں ۔ کیا کلما طلاق غیر اللہ نہیں ہے ؟ کیا غیرُ اللہ کی قسم جائز ہے ؟ آیئے قسم کے متعلق تفصیل سے شرعی احکام پڑھتے ہیں ۔
قسم کو عربی لغت میں حلف یا یمین کہتے ہیں جس کی جمع احلاف اور ایمان ہے کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے پر تاکید اور پختگی کیلئے رب ذوالجلال کی قسم کھانا ( یمین کہلاتا ہے ) اور قسم صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے اسماء و صفات کی کھانا جائز ہے اللہ رب العزت کے اسماء و صفات کے علاوہ کسی بھی چیز کی قسم کھانا مطلقاً حرام ہے ۔
قسم کھانا جائز ہے مگر جہاں تک ہو سکے کمی بہتر ہے اور بات بات پر قسم نہیں کھانی چاہئے ۔ کچھ لوگ قسم کو تکیہ کلام بنالیتے ہیں اور بات بات پر قسم کھا تے رہتے ہیں اور یہ بھی خیال نہیں کرتے کہ بات سچی ہے یا جھوٹی یہ سخت معیوب ہے۔ اور غیر خدا کی قسم مکروہ ہے اور شریعت میں ایسی قسموں کا کوئی اعتبار بھی نہیں یعنی اس کے توڑنے سے کفارہ لازم نہیں ہوتا ۔ (بہار شریعت)
قسم کے اقسام اور ان کی تعریف
قسم کی تین قسمیں ہیں ۔1 : غموس ۔ 2 : لغو 3 : منعقدہ ۔
اگر کسی ایسی چیز کے متعلق قسم کھائی جو ہو چکی ہے یا اب ہے یا نہیں ہوئی یا نہیں ہے مگر وہ قسم جھوٹی ہے ۔ مثلاقسم کھایا کہ فلاں شخص آیا اور وہ اب تک نہیں آیا ۔ یا قسم کھائی کہ نہیں آیا اور وہ آگیا ہے ۔ یا قسم کھائی کہ فلاں شخص یہ کام کر رہاہے اور حقیقت میں وہ کام نہیں کر رہا ہے ۔ یا قسم کھائی کہ یہ پتھر ہے حالانکہ حقیقت میں وہ پتھر نہیں ہے غر ض یہ کہ اس طرح کی جھوٹی قسم کی دو صورتیں ہیں ۔جان بوجھ کر جھوٹی قسم کھائی مثلا جس کے آنے کے بارے میں قسم کھایا تھا وہ خود بھی جانتا تھا کہ نہیں آیا ہے تو ایسی قسم کو شریعت کی زبان میں ’ غموس ‘کہتے ہیں ۔ اور اگر اپنے خیال سے تو اس نے سچی قسم کھائی تھی مگر حقیقت میں وہ جھوٹی تھی مثلا جانتا تھا کہ فلاں نہیں آیا اور قسم بھی کھایا کہ نہیں آیا مگر حقیقت میں وہ آگیا تو ایسی قسم کو’ لغو ‘ کہا جاتا ہے ۔ اور آنے والے زمانے کے لئے قسم کھائی مثلا خدا کی قسم !میں یہ کام کروں گا،یا نہیں کروں گا ۔ تو اس کو منعقدہ ‘ کہتے ہیں ۔ (بہار شریعت)
قسموں کے احکام:قسم غموس کھانے والا سخت گنہگار ہے اس پر توبہ واستغفار ضروری ہے کیو نکہ اس نے جان بو جھ کر جھوٹ بولا جو کہ بڑا گناہ ہے ۔ مگر کفارہ لازم نہیں ۔لغو میں گناہ بھی نہیں اور منعقدہ میں اگر قسم توڑے گا تو اس پر کفارہ لازم ہوگا اور بعض صورتوں میں گنہگار بھی ہوگا ۔ (بہار شریعت)
کن قسموں کو پورا کرنا ضروری ہے اور کن کو نہیں ؟
بعض قسمیں ایسی ہیں کہ ان کو پورا کرنا ضروری ہے مثلا ایسے کام کے کرنے کی قسم کھائی جس کا بغیر قسم کھائے بھی کرنا ضروری تھا مثلا نماز پڑ ھنے کی قسم کھائی یا گناہوں سے بچنے کی قسم کھائی تو اس کا پورا کرنا ضروری ہے ۔ اور بعض قسموں کو توڑنا ضروری ہے مثلا کسی نے قسم کھائی کہ میں نماز نہیں پڑ ھوں گا یا اپنے ماں باپ سے بات نہیں کروں گا وغیرہ تو قسم توڑدے اور کفارہ ادا کرے۔تیسری یہ کہ اس کا توڑنا مستحب ہے مثلا کسی چیز کی قسم کھائی اور بعد میں معلوم ہوا کہ اس کے علاوہ میں بہتری ہے تو قسم توڑدے اور وہ کرے جو زیادہ بہتر ہے ۔ اور کفارہ دے دے ۔
حضرت ابو ہریرہ ر ضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فر مایا کہ : جس شخص نے کسی کام کی قسم کھائی پھر اس کے خلاف کو بہتر خیال کیا وہ اس بہتر کام کو کرے اور اپنی قسم کا کفارہ دے دے ۔ (بخاری ،حدیث :۶۶۲۲۔ صحیح مسلم،حدیث:۱۶۵۰،چشتی)
چوتھی جائز کام کی قسم کھائی یعنی ایسے کام کی جس کا کرنا اور نہ کرنا برابر ہے جیسے قسم کھائی کہ پان نہیں کھائوں گاتو ایسی قسموں کا پورا کرنا افضل ہے ۔ اللہ تعالی نے ارشاد فر مایا کہ : اپنی قسموں کی حفاظت کرو ۔ (القرآن)
قسم کب صحیح ہوتی ہے اور کب نہیں ؟
اللہ تعالی کے جتنے نام ہیں ان میں سے جس نام کے ساتھ بھی قسم کھائی جائے گی قسم ہو جائے گی ۔ اسی طر ح جن صفتوں کے ساتھ قسم کھائی جاتی ہے مثلا خدا کی عزت وجلا ل کی قسم ، اس کی کبر یائی کی قسم ، اس کی بزرگی کی قسم ، قرآن کی قسم ، کلام اللہ کی قسم وغیرہ ان الفاظ سے بھی قسم ہو جائے گی ۔ یعنی اگر توڑے گا تو کفارہ دینا پڑے گا ۔ اسی طر ح سے اگر کسی نے کہا کہ فلاں چیز مجھ پر حرام ہے ۔ تو اس کے کہہ دینے سے وہ حلال چیز حرام نہ ہو گی مگر اب اس چیز کا استعمال کرے گا تو کفارہ دینا پڑے گا یعنی کہ یہ بھی قسم ہے ۔
اللہ کے علاوہ کی قسم ، قسم نہیں ہے مثلا تمہاری جان کی قسم ، تمہارے سر کی قسم ، اللہ اور اس کے رسول کی قسم وغیرہ یعنی اس صورت میں کفارہ نہیں ۔ بی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اللہ کے علاوہ کی قسم کھانے سے منع فر مایا : حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ : بی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فر مایا کہ : جو شخص قسم کھانے کا ارادہ کرے وہ صرف اللہ کی قسم کھائے ۔ قریش کے لوگ اپنے باپ دادا کی قسم کھاتے تھے ۔ بی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فر مایا اپنے باپ دادا کی قسم مت کھاؤ ۔ (صحیح مسلم ، حدیث :۱۶۴۶)
حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : لا تحلفوا بآبائکم، ولا بأمہاتکم، ولا بالأنداد، ولا تحلفوا إلا باللہ، ولا تحلفوا باللہ إلا وأنتم صادقون .
ترجمہ : اپنے آباء واجداد کی قسم اٹھاؤ ،نہ اپنی ماؤں کی اور نہ ہی غیر اللہ کی ، صرف اللہ کی قسم اٹھائیں ، اور اللہ کی قسم بھی تب اٹھائیں جب آپ سچے ہوں ۔ (سنن أَبي داوٗد : 3248، سنن النّسائي : 380، السّنن الکبریٰ للبیہقي : 29/10، وسندہ، حسنٌ،چشتی)
حضرت سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے باپ کی قسم کھائی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّمنے فرمایا : ألا إن اللہ ینہاکم أن تحلفوا بآبائکم، من کان حالفا فلیحلف باللہ أو لیصمت .
ترجمہ : خبردار ! اللہ نے آپ کو آباء واجدادکی قسمیں اٹھانے سے منع کیا ہے، جسے قسم اٹھانی ہو اللہ کی قسم اٹھائے ۔ (صحیح البخاری : 6646، صحیح مسلم : 1646)
حضرت سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے فرمایا : إن اللہ ینہاکم أن تحلفوا بآبائکم قال عمر: فواللہ ما حلفت بہا منذ سمعت النبی صلی اللہ علیہ وسلم، ذاکرا ولا آثرا .
ترجمہ : اللہ نے آباء واجداد کی قسم اٹھانے سے منع کیا ہے ، عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا یہ فرمان سنا ہے ، تب سے میں نے ماں باپ کی قسم نہیں اٹھائی ، جان بوجھ کر ، نہ نقل کرتے ہوئے ۔ (صحیح البخاری : 6648،صحیح مسلم : 1642)
حضرت سیدنا عبد الرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : لَا تَحْلِفُوا بِالطَّوَاغِیت، وَلَا بِآبَائِکُمْ .
ترجمہ : طاغوت اور آباء واجداد کی قسم مت کھاؤ ۔ (صحیح مسلم : 1648)
امام ابن عبد البر رحمۃ اللہ علیہ (م :463ھ) فرماتے ہیں : لَا یَجُوزُ الْحَلِفُ بِغَیْرِ اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ فِی شَیْء ٍ مِنَ الْأَشْیَاء ِ وَلَا عَلَی حَالٍ مِنَ الْأَحْوَالِ وَہَذَا أَمْرٌ مُجْتَمَعٌ عَلَیْہِ ۔
ترجمہ : کسی بھی صورت یا کسی بھی حال میں غیر اللہ کی قسم اٹھانا جائز نہیں ، اس پر اجماع ہے ۔ (التّمہید لما فی المؤطّا من المعاني والأسانید :336/4،چشتی)
امام ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ (852ھ) فرماتے ہیں : قَالَ الْعُلَمَاء ُ السِّرُّ فِی النَّہْیِ عَنِ الْحَلِفِ بِغَیْرِ اللَّہِ أَنَّ الْحَلِفَ بِالشَّیْءِ یَقْتَضِی تَعْظِیمَہُ وَالْعَظَمَۃُ فِی الْحَقِیقَۃِ إِنَّمَا ہِیَ لِلَّہِ وَحْدَہُ .
ترجمہ : اہل علم کہتے ہیں کہ کسی چیز کی قسم اٹھانااس کی تعظیم اور عظمت کا اقرار ہے اور حقیقی عظمت صرف اللہ کے لئے ہے، اس لئے غیراللہ کی قسم کھانے سے منع کیا گیا ہے ۔ (فتح الباری :351/11)
اسی طر ح سے اگر کسی نے اللہ تعالی کی قسم کھائی مگر اس کے ساتھ ان شاء اللہ کہہ دیا مثلا کسی نے کہا کہ : اللہ کی قسم میں فلاں سے بات نہیں کروں گا ، ان شاء اللہ۔ پھر بات کر لیا تو اس پر بھی کفارہ نہیں ۔ بی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فر مایا کہ : جس نے قسم کھائی اور ان شاء اللہ کہہ دیا تو وہ حانث نہ ہوگا ۔ (ترمذی ، حدیث:۱۵۳۲)
قسم کے کفارے کیا ہیں ؟
ایسی قسم کھایا جس کو شریعت میں قسم مانا گیا ہے اور پھر توڑ دیا تو اب کفار ہ ادا کرنا لازم ہوتا ہے۔قسم کا کفارہ یہ ہے کہ دس مسکین کو کھانا کھلائے یا انہیں کپڑا پہنائے یا ایک غلام آزاد کر دے اور اگر ان میں سے کسی بھی کام کے کرنے کی طاقت نہ ہو تو تین روزے رکھے۔ارشاد باری تعالی ہے ۔
اللہ تمہاری غلط فہمی کی قسموں (یعنی قسم لغو)پر تم سے مواخذہ نہیں کرتا ہاں ان قسموں پر گرفت کرتا ہے جنہیں تم نے مظبوط کیا تو ایسی قسموں کا کفارہ دس مسکین کو کھانا دینا ہے اپنے گھر والوں کو جو کھلاتے ہو اس کے اوسط میں (یعنی نہ بہت اچھا نہ بہت خراب در میانی کھانا)یا انہیں کپڑا دینا ہے یا ایک غلام آزاد کرنا ہے ۔اور جو ان میں سے کسی بات کی طاقت نہ رکھے وہ تین دن روزے رکھے ۔یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب قسم کھائو ۔اور اپنی قسموں کی حفاظت کرو ۔اسی طرح اللہ اپنی نشانیاں تمہارے لئے بیان فر ماتا ہے تا کہ تم شکر کرو ۔ (سورہ،مائدہ ، آیت:۸۹)
احناف ، شوافع اور مالکیہ کے نزدیک غیراللہ کی قسم کھانا مکروہ ہے ، جبکہ حنابلہ اور بعض علمائے مالکیہ کے نزدیک غیراللہ کی قسم کھانا حرام ہے ۔ (کتاب الفقة علیٰ مذاهب الاربعة، 2: 75، المکتبة التجارية الکبریٰ، مصر)
جس اعتقاد کے ساتھ اللہ کی قسم کھائی جاتی ہے ، اسی اعتقاد کے ساتھ غیراللہ کی قسم کھانا حرام اور کفر ہے ، لیکن فقط مخلوق کے احترام کی بنا پر قسم کھائی جائے تو اس سے کفر لازم نہیں آئے گا ، تاہم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی قسم کھانا جائز نہیں ، اور ایسی قسم کے توڑنے کا کوئی کفارہ نہیں ، بلکہ اس سے توبہ کرنا لازم ہے ۔ قسم صرف اللہ رب العزت کی کھائی جائے غیر اللہ کی قسم کھانا حرام ہے ۔ قسم صرف اور صرف رب ذوالجلال کے اسماء و صفات کی کھانی چاہیے جیسے اللہ کی قسم ، رب کعبہ کی قسم ، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ و قدرت میں میری جان ہے ، مجھے پیدا کرنے والے یا رزق دینے والے رب کی قسم وغیرہ اور کسی مسلمان کیلئے جائز نہیں کہ وہ اللہ اور اس کے اسماء و صفات کے علاوہ کسی چیز کی قسم کھائے ، چاہے وہ چیز کتنی ہی باعث تعظیم و متبرک کیوں نہ ہو ، جیسے قرآن کی قسم (اگراس سے مراد کلام اللہ ہے تواس صورت میں قسم کھانےمیں کوئی حرج نہیں کیونکہ کلام اللہ تعالى کی صفت ہے اور اللہ کے صفت کی قسم کھانی جائز ہے ، کلمہ کی قسم ، کعبہ کی قسم ( البتہ رب کعبہ کی قسم تویہ جائز ہے) ، رسول کی قسم ، پیرو مرشد کی قسم ، والدین کی قسم ، (دهرتى (زمين) اوروطن كی قسم ,جبرئیل کی قسم , ایمان کی قسم یا سَر کی قسم یا جان کی قسم وغیرہ وغیرہ ، اس طرح کی تمام قسمیں حرام ہیں ۔ کیونکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و الہ وسلّم نے غیر اللہ کی قسم کھانے سے منع فرمایا ہے اور غیر اللہ کی قسم کھانا شرک ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment