Thursday 6 June 2019

معاویہ نام کی مسجد سے جلنے والوں کے نام

0 comments
معاویہ نام کی مسجد سے جلنے والوں کے نام

محترم قارئین کرام : مسجد اجابہ (مسجد بنو معاویہ) ( مدینہ منورہ) اسے مسجد بنی معاویہ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ انصار کے ایک قبیلہ بنو معاویہ بن مالک بن عوف کے محلہ میں واقع ہے۔ اس کو " مسجد اجابہ" کہنے کی وجہ یہ ہے کہ نبی کریم صلى الله علیہ و آلہ وسلّم نے اس میں تین دعائیں فرمائی تھیں ۔ جو الله تعالٰی نے قبول فرمائیں ۔ اب یہ مسجد بقیع کی شمالی جانب 385 میٹر کے فاصلے پر شاہ فیصل روڈ (جسے "شارع ستین" بھی کہا جاتا ہے) کے مشرقی کنارے پر واقع ہے۔ مسجد نبوی کی دوسری توسیع سے اس کا فاصلہ 580 میٹر ہے ۔

امام مسلم رحمۃ الله علیہ نے وَعَنْ سَعْدٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِمَسْجِدِ بَنِي مُعَاوِيَةَ دَخَلَ فَرَكَعَ فِيهِ رَكْعَتَيْنِ وَصَلَّيْنَا مَعَهُ وَدَعَا رَبَّهُ طَوِيلًا ثُمَّ انْصَرَفَ فَقَالَ: «سَأَلْتُ رَبِّي ثَلَاثًا فَأَعْطَانِي ثِنْتَيْنِ وَمَنَعَنِي وَاحِدَةً سَأَلْتُ رَبِّي أَنْ لَا يُهْلِكَ أُمَّتِي بِالسَّنَةِ فَأَعْطَانِيهَا وَسَأَلْتُهُ أَنْ لَا يُهْلِكَ أُمَّتِي بِالْغَرَقِ فَأَعْطَانِيهَا وَسَأَلْتُهُ أَنْ لَا يَجْعَلَ بأسهم بَينهم فَمَنَعَنِيهَا ۔
ترجمہ : حضرت سعد رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم مسجدِ بنی معاویہ پر گزرے اس میں تشریف لے گئے وہاں دو رکعتیں پڑھیں اور ہم نے حضور کے ساتھ نماز پڑھی حضور نے اپنے رب سے لمبی دعا مانگی پھر فارغ ہوئے تو فرمایا کہ میں نے اپنے رب سے تین چیزیں مانگیں اس نے مجھے دو عطا فرما دیں اور ایک سے منع فرمادیا میں نے اپنے رب سے یہ سوال کیا کہ میری امت کو قحط سے ہلاک نہ کرےاس نے مجھے یہ عطا فرمادیا ، میں نے سوال کیا کہ میری امت کو ڈبو کر ہلاک نہ کرے اس نے مجھے یہ بھی عطا فرمادیا ،میں نے اس سے یہ سوال کیا کہ ان کی آپس میں جنگ نہ ہو مجھے اس سوال سے منع فرمادیا ۔ (صحیح مسلم، کتاب الفتن واشراط الساعة، حدیث نمبر:2890، صفحہ 332، مطبوعہ دار الفکر بیروت)(صحیح مسلم مترجم جلد نمبر صفحہ نمبر 392 ، 393،چشتی)(شرح صحیح مسلم علاّمہ غلام رسول سعیدی رحمۃ اللہ علیہ ، ٧/٧٥٩)

دوسری روایت : عَامِرُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ أَقْبَلَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي طَائِفَةٍ مِنْ أَصْحَابِهِ فَمَرَّ بِمَسْجِدِ بَنِي مُعَاوِيَةَ ۔
ترجمہ : عامر بن سعد نے اپنے والد (سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) سے خبر دی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کے ہمراہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی ایک جماعت کے ساتھ آئے اور آپ مسجدِ بنی معاویہ کے قریب سے گزرے ۔ (صحیح مسلم، کتاب الفتن واشراط الساعة، حدیث نمبر:2890، صفحہ 332، مطبوعہ دار الفکر بیروت)

حضرت سیدنا امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے نام سے مساجد سے جلنے والے سنیوں کے لبادے میں چھپے رافضی کہتے ہیں سیدنا امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے نام سے مسجدیں بنانا کہاں جائز ہے ۔ ان سے صرف اتنا کہونگا تمہارے والد ، تمہارے پیر کے نام پر مسجد بنائی جائے جس کے بارےمیں کوئی یقین کےساتھ یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ جنت میں ہے یا خمینی کےساتھ ۔ اگر ہے کوئی سنیوں کے لبادہ میں چھپا رافضی تو وہ میدان میں آئے اورقسم اٹھائے کہ وہ جنت میں ہے لیکن شرط یہ ہےکہ قسم ایسےاٹھائے جیسےمیں کہوں کیونکہ نبی کریم صلى الله علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ قسم کھلانےوالے کی نیت کے لحاظ سے قسم ہوگی ۔ (شرح صحیح مسلم علاّمہ غلام رسول سعیدی رحمۃ اللہ علیہ ۔٤/٥٨٣،چشتی)
اور امید ہے کہ ایسا کوئی غالی قسم کا رافضی ی بھی آپ کونہیں ملے گا جو ایسی قسم اٹھائے لیکن الحمدللہ ہم مسلمانوں کےنزدیک حجرت سیدنا امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ جنت الفردوس میں ہیں اورہمارا ایمان ہے کیونکہ وہ صحابی رسول ہیں ۔ جہاں تک نیم رافضیوں کا یہ کہنا ہے کہ مسجدوں کے نام سیدنا امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ رکھنا کہاں جائز ہے تو ان سنیوں کے لبادے میں چھپے رافضیوں کو کوئی بتائے کہ صحیح مسلم میں حدیثِ پاک موجود ہے ۔

شائداس میں کسی کو اشکال ہو کہ جی بنومعاویہ کےنام سے کوئی مسجد نہیں تھی ۔تو گزاش ہے کہ امام ابن العربی (متوفی۔٥٤٣) رحمۃ اللہ علیہ اپنا آنکھوں دیکھا حال بیان فرماتےہیں کہ : یہ مدینة السلام ہے جو کہ خلافت بنی عباس کا دارالخلافہ ہے ۔بنوعباس اوربنوامیہ کے دمیان جو دشمنی رہی ہے وہ لوگوں پر قطعا مخفی نہیں ۔ مگر اس کے باوجود بنی عباس بغداد کی مساجد کے دروازوں پر واضح الفاظ میں لکھا ہوا ہے ۔ خیرالناس بعدرسول اللہ صلی اللہ علیه و آلہ وسلم ۔ ابوبکر ۔ ثم عمر ۔ ثم عثمان ۔ ثم علی ۔ ثم معاویة خال المومنین رضی اللہ عنھم اجمعین ۔ نبی کریم صلى الله علیہ و آلہ وسلّم کے ظاہری وصال مبارک بعد دنیا جہاں کےتمام لوگوں میں افضل اور بہترسیدنا ابوبکر پھر سیدنا عمر پھر سیدنا عثمان پھر سیدنا مولی علی اور پھر تمام اہل ایمان مسلمانوں کےماموں سیدنا امیرمعاویہ رضی اللہ عنھم اجمعین ہیں ۔(العواصم من القواصم۔٢١٣طبع المکتبة السلفیة القاہرہ)

یہ سنیوں کے لبادے میں چھپے رافضی کہتے ہیں : جی ان کی (سیدنا امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ) شانوں پر ترانے اورقصیدے پڑھے خدا کےلیے ہمیں بتادو تیرہ سوسال میں ہم نے یہ عقیدہ اپنی زندگی میں نہیں دیکھا ۔

جواب : امام الاجری رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی٣٦٠) نے الشریعة۔٣/٥٥٨. میں
امام ابن عساکر رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی٥٧١) نےتاریخ دمشق ٥٩/٥٥ پر ۔
امام جوزقانی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی٥٤٣) نےالاباطیل والمناکیر .١٧٩.پرفضائل بیان کیے ہیں تو کیا یہ محدثین سنیوں کے لبادے میں چھپے رافضیوں کے کلاس فیلو تھے جو ان اندھوں کونظر نہیں آئے ان کی کتب میں سیدنا امیرمعاویه رضی اللہ عنه کے فضائل ۔

اے سنیوں کے لبادے میں چھپے رافضیو تم مسجدِ معاویہ بنانے کی بات کرتے ہو ؟؟؟ ارے میرے نبی کریم صلى الله علیہ و آلہ وسلّم نے تو مسجدِ معاویہ میں نماز بھی ادا فرمائی ہے ۔

شارح بخاری امام ابنِ حجر عسقلانی علیہ الرحمہ روایت نقل کرتے ہیں : عن ابن عمر رضي الله عنه اَنّ النّبي صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم: صلّي في مسجد بنی معاویة“
ترجمہ : حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلى الله علیہ و آلہ وسلّمنے مسجدِ بنو معاویہ میں نماز ادا فرمائی ۔ (فتح الباری شرح صحیح بخاری، کتاب الصلٰوۃ، باب نمبر:89، جلد 4، صفحہ 403، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت لبنان،چشتی)

کیا فتویٰ لگاؤ گے سنیوں کے لبادے میں چھپے رافضیو ان صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم پر جنہوں نے مسجدِ بنو معاویہ بنائی ؟ اور پھر حضرت عبد اللہ ابنِ عمر رضی اللہ عنہما نے خود اپنی زبان سے مسجد کا نام بنو معاویہ بتایا - اور کیا فتویٰ لگاؤ گے نبی کریم صلى الله علیہ و آلہ وسلّم پر کہ جنہوں نے مسجدِ بنو معاویہ میں نماز ادا فرمائی اور دعا کی ؟

اور نیم رافضی کہتے ہیں کہ 1400 کی تاریخ میں کس "ولی بزرگ" نے مسجدِ معاویہ بنائی ؟ ارے جاھلو بتاؤ کیا صحابہ کرام علیھم الرضوان سے بھی بڑا کوئی "ولی بزرگ" ہو سکتا ہے ؟ تو دیکھ لو وہ ولی بزرگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہی تھے جنہوں نے مسجد بنو معاویہ بنائی .... کوئی "عبد اللہ ابنِ سبا " یا " ابولؤلؤ فیروز" تو بنانے سے رہے ۔ اگر کوئی رافضی چمچا اعتراض کرے کہ یہ مسجد "معاویہ بن ابو سفیان" کے نام پر نہیں تھی بلکہ یہ تو قبیلے کے نام پر تھی ....؟

تو جناب چلو بنو معاویہ قبیلے کے نام پر تھی ۔ مگر مسجدِ معاویہ میں "عالِمِ ماکان ومایکون" (جو ہو چکا ہے اور جو قیامت تک ہوگا) کی خبر رکھنے والے ہمارے نبی کریم صلى الله علیہ و آلہ وسلّم نے نماز ادا فرمائی تو کیا وہ نہیں جانتے تھے کہ میرے وصالِ ظاھری کے بعد امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کے مولا علی شیرِ خدا مشکل کُشا خیبر شکن رضی اللہ عنہ کے ساتھ معاملات ہونگے ؟ لہذا مسجد کا نام بدل دیا جائے تاکہ کوئی "اس مسجدِ معاویہ" کو دلیل بنا کر "مسجدِ معاویہ" بنانا ہی شروع نہ کر دے ۔ لیکن نبی کریم صلى الله علیہ و آلہ وسلّم کا مسجدِ معاویہ میں نماز ادا فرمانا اس بات کی دلیل ہے کہ غیب داں نبی صلى الله علیہ و آلہ وسلّم کو تو مسجدِ معاویہ کے نام سے کوئی اعتراض نہیں تھا ۔ لیکن آج کا امتی اُٹھ کر ماتم شروع کر دے کہ ہائے ہائے "امیرِ معاویہ" کے نام پر مسجد کیوں بناتے ہو ۔ اس سے ان جاھلوں کا اعتراض بھی رفع ہو گیا جو "معاویہ" نام کا معنٰی بگاڑتے ہیں ۔ نبی کریم صلى الله علیہ و آلہ وسلّم کے نزدیک اگر معاویہ نام کا معنی غلط ہوتا تو ضرور نام بدلتے کیونکہ جب کسی صحابی یا صحابیہ کے نام کا معنی درست نہ ہوتا تو نبی کریم صلى الله علیہ و آلہ وسلّم فوراً بدل دیتے اور یہ روایات سے ثابت شدہ امر ہے ۔
معاویہ رات کے آخری پہر میں آسمان پر چمکنے والے ستارے کا نام ہے جس کے طلوع ہونے پر کتے بھوکنا شروع کردیتے ہیں ۔ (لسان العرب،جلد15، صفحہ10، مطبوعہ بیروت)

اب سنیوں کے لبادے میں چھپے رافضیوں کا ان صحابہ رضی اللہ عنہم پر بھی فتویٰ لگے گا جنہوں نے مسجدِ بنو معاویہ بنائی ۔ اور اس میں نمازیں پڑھیں ۔ حضرت عبد اللہ ابنِ عمر رضی اللہ عنہما بھی اعتراض کی زد میں آئیں گے جو "مسجدِ بنو معاویہ" کا نام لیکر حدیث بیان کر رہے ہیں ۔ اور نبی کریم صلى الله علیہ و آلہ وسلّم پر بھی حرف آئے گا کیونکہ انہوں نے مسجدِ بنو معاویہ میں نماز ادا کی اور اور لمبی دعائیں مانگیں ۔ ارے سنیوں کے لبادے میں چھپے خمینی کے پیروکار رافضیو جب صاحبِ شریعت نبی صلى الله علیہ و آلہ وسلّم کو مسجدِ بنو معاویہ کے نام سے اعتراض نہیں تو دو ٹکے کے نیم رافضی کون ہوتے ہیں اعتراض کرنے والے ؟ ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)


0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔