Saturday 29 June 2019

خاتم النبیین کا معنیٰ اور تحذیر النّاس کا جواب

0 comments
خاتم النبیین کا معنیٰ اور تحذیر النّاس کا جواب

تحذیرالناس کے مصنف قاسم نانوتوی ہیں جن کو بانی دارالعلوم دیوبند بھی کہا جاتا ہے ان کی اس کتاب کا تعارف کروانا نہایت ضروری اس لئے بھی ہے کہ اس کتاب میں خاتم النبیین کے ایک نیا اور بالکل الگ تھلگ معنی پیش کیا گیا جس کا پوری تاریخ اسلام میں کہیں وجود ہی نہیں ملتا، اس کتاب کی وجہ سے کافی فتنہ بڑھا اور یہاں تک کہ اسی کتاب کے معانی کی آڑ میں قادیان سے مرزا غلام احمد قادیانی نے دعوی نبوت کردیا۔

قصہ مختصر اب جانیئے کہ آخر اس کتاب میں ہے کیا

اول تو میں قارئین کی معلومات کے لئے تحذیر الناس کی دو جھلکیاں پیش کر دوں

آغاز کتاب میں ہی یہ لکھا ہے

سو عوام کے خیال میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیا سابق کے زمانے کے بعد اور آپ سب میں آخر نبی ہیں مگر اہل فہم پر روشن ہو گا کہ تقدم یا تاخر زمانہ میں بالذات کچھ فضیلت نہیں پھر مقام مدح میں و لکن رسول اللہ و خاتم النبیین فرمانا اس صورت میں کیونکر صحیح ہوسکتا ہے۔

اس کے بعد صفحہ نمبر ۲۵ پر لکھتے ہیں

اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا

یہ تحذیرالناس کی وہ عبارات ہیں جن کے رد میں برصغیر کے علماء نے بکثرت کتب تحریر فرمائیں ان عبارات پر علماء عرب و عجم نے حکم صادر فرمایا ۔ جس کی تفصیل حسام الحرمین اور الصوارم الہندیہ میں دیکھی جا سکتی ہے۔

آئیے اس کتاب اور اس کے مصنف کا حال قاسم نانوتوی کے مکتب فکر ہی کے حکیم الامت اشرف علی تھانوی سے ملاحظہ فرمائیں

چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ جس وقت سے مولانا قاسم نانوتوی نے تحذیرالناس لکھی ہے کسی نے ہندوستان بھر میں مولانا کے ساتھ موافقت نہیں کی بجز مولانا عبدالحئی صاحب کے بحوالہ الاضافات الیومیہ جلد چہارم ص ۵۸۰ زیر ملفوظ ۹۲۷

یہاں یہ بھی ذکر کرتا چلوں کہ مولانا عبدالحئی لکھنوی بھی کتاب ابطال اغلاط قاسمیہ کی اشاعت کے بعد اس مسئلہ میں قاسم نانوتوی کے موافق نہ رہے اور تکفیر کے قائل ہو گئے۔ حوالہ کے لئے قاسم نانوتوی ہی کے مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر خالد محمود کی کتاب مطالعہ بریلویت ج ۳ ص ۳۰۰

تحذیرالناس کی اشاعت کے بعد قاسم نانوتوی کی حالت کیا تھی آئیے ان ہی کے ایک ہم مکتب کی تحریر کردو کتاب ارواح ثلاثہ کی حکایت نمبر ۲۶۵ کا یہ حصہ ملاحظہ کریں

اب مولانا نانوتوی گارڈ رکھتے چھپ کر رہتے سفر کرتے تو نام تک بتانے کا حوصلہ نہ رکھتے ، خورشید حسین بتاتے یہ کتاب مولانا نانوتوی کے لئے مصیبت بن گئی تھی۔

ایک اور حوالہ قاسم العلوم از نورالحسن راشد کاندھلوی ص ۵۵۰ سے ملاحظہ کریں چنانچہ تحریر ہے کہ
پر خدا جانے ان کو کیا سوجھی جو اس کو چھاپ ڈالا جو یہ باتیں سننا پڑیں۔

اگر تحذیرا لناس کی عبارات کفریہ نہیں تو پھر اس میں تحریف کیوں کی گئی لیجئے بطور نمونہ ایک حوالہ پیش ہے اصل قدیم تحذیرالناس مطبوعہ کتب خانہ رحیمیہ دیوبند ضلع سہارنپور کے صفحہ نمبر ۲۵ پر اصل عبارت یوں ہے۔

اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا۔

اب مکتبہ راشد کمپنی دیوبند یو پی کی شائع کردہ کتاب کی عبارت ملاحظہ فرمائیں۔

اگر بالفرض آپ کے زمانہ میں یا بالفرض آپ کے بعد بھی کوئی نبی فرض کیا جائے تو بھی خاتمیت محمدی میں فرق نہ آئے گا۔

یعنی عبارت میں نبی پیدا ہو کی جگہ نبی فرض کیا جائے کر دیا اس کارستانی سے یہ ثابت ہوا کہ ان کے ہم فکر علما ء کے نزدیک بھی یہ عبارت کفریہ تھی جبھی تو اس میں تحریف کر دی۔

اب آئیے ایک لرزہ خیز انکشاف کی طرف جو کہ انھی کہ حکیم الامت اشرف علی تھانوی نے کیا ، چنانچہ لکھتے ہیں کہ تحذیرالناس کی وجہ سے جب مولانا پر کفر کے فتوے لگے تو جواب نہیں دیا بلکہ یہ فرمایا کہ کافر سے مسلمان ہونے کا طریقہ بڑوں سے یہ سنا ہے کہ کلمہ پڑھنے سے کوئی مسلمان ہو جاتا ہے تو میں کلمہ پڑھتا ہوں۔ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
حوالہ کے لئے ملاحظہ کریں الاضافات الیومیہ جلد ۴ ص ۲۹۳ زیر ملفوظ ۴۵۷

احسن نانوتوی جن کا قاسم نانوتوی کے مکتب فکر میں بڑا مقام ہے انھوں نے بھی مفتی نقی علی خان قادری برکاتی کی طرف سے فتوی کفر صادر ہونے کے بعد مفتی نقی علی خان کے ایک ساتھی رحمت حسین کو یہ لکھا جناب مخدوم و مکرم بندہ دام مجدیم پس از سلام مسنون التماس ہے مگر مولوی صاحب نے براہ مسافر نوازی غلطی تو ثابت نہ کی اور نہ مجھ کو اس کی اطلاع دی بلکہ اول ہی کفر کا حکم شائع فرما دیا اور تما م بریلی میں لوگ اس طرح کہتے پھرے ۔ خیر میں نے خدا کے حوالے کیا اگر اس تحریر سے میں عنداللہ کافر ہوں تو توبہ کرتا ہوں خدا تعالیٰ قبول کرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عاصی محمد احسن
حوالہ کے لئے کتاب مولانا محمد احسن نانوتوی ص ۸۸ اور تنبیہ الجہال ص ۱۶

اب آئیے ذرا ذکر ان حضرات کا بھی ہو جائے جن پر یہ الزام دیا جاتا ہے کہ انھوں نے اس کتاب کی تائید کی تھی چنانچہ ان میں سے اول مولانا عبد الحئی کا ذکر اوپر گزر چکا اب کچھ دیگر حضرات کے بارے میں ملاحظہ فرمائیں۔

مولانا عبدالباری فرنگی محلی نے الطاری الداری کی اشاعت کے بعد اپنے سابقہ موقف سے توبہ کی اور امام احمد رضا کے فتوائے تکفیر سے اتفاق کر لیا ۔ بحوالہ اخبار ہمدم لکھنو ۲۰ مئی ۱۹۲۱

مولانا معین الدین اجمیری نے ۱۹۱۹ میں مفتی حامد رضا خان سے خط و کتابت میں فتویٰ کفر کی حمایت کی بحوالہ کتاب محدث اعظم ج ۱ ص ۱۱۱

اسی طرح پیر کرم شاہ صاحب نے غلط فہمی کا شکار ہو کر کتاب کی تعریف اولاً کردی بعد میں ماہنامہ ضیائے حرم شمارہ اکتوبر ۱۹۸۶ کے ص ۴۹ پر ندامت و افسوس کا اظہار کیا اور ص ۴۴ پر نانوتوی کی عبارت کو خاتم النبیین کے اجماعی مفہوم کے مخالف قرار دیا ۔ مزید ۱۹۷۷ میں سورۃ طلاق کی تفسیر کرتے ہوئے اثر ابن عباس کو موضوع اور من گھڑت قرار دیا بحوالہ تفسیر ضیاء القرآن ص ۳۰۸۲

پیر کرم شاہ صاحب کے موقف میں آنے والی تبدیلی کی تصدیق ڈاکٹر خالد محمود نے اپنی کتاب مطالعہ بریلویت ج ۱ ص ۴۱۳ پر بھی کی ہے چنانچہ انھوں نے لکھا کہ آخر کار پیر کرم شاہ صاحب نے سابقہ موقف چھوڑ کر دیوبندی حضرات کو تکفیر کا صدمہ پہنچایا ہے۔

حضرت خواجہ قمرالدین سیالوی کے حوالہ سے بھی یہ مغالطہ پیش کیا جاتا ہے کہ وہ بھی قاسم نانوتوی کی کتاب کے مؤید تھے حالانکہ اس کے حوالے سے آپ کے تکفیری فتویٰ موجود ہیں مزید کتاب دعوت فکر ص ۱۱۰ پر تحریر ہے کہ آپ کو تحذیرالناس پیش کی گئی تو آپ نے قاسم نانوتوی کی تکفیر کر دی۔

الحمد للہ اب اس موضوع پر دوسرا حصہ پیش خدمت ہے۔ ان شاء اللہ عزوجل اس مضمون کے مطالعہ سے آپ کو اصل وجہ تکفیر سمجھنے میں نہایت آسانی ہو گی۔ اس مضمون میں ایک سوال کا جواب پیش کیا جائے گا جو کہ قاسم نانوتوی کے معتقدین اور حامیان نظریہ تحذیرالناس بہت زور و شور سے اٹھاتے ہیں۔ وہ سوال یہ ہے : بانی دارالعلوم دیوبند مولوی قاسم نانوتوی کی کتاب'' تحذیر الناس''کی مندرجہ ذیل دونوں عبارتوں کے متعلق بالفرض کے لفظ کے ساتھ جو بات کہی گئی ہے اس پر اعتراض کیوں کر درست ہے؟۔ جب کہ محض کسی چیز کے فرض کر لینے پر حکم نہیں ہوتا۔ جیسا کہ قرآن میں ہے ! لو کان فیھما الھۃ الا اللّٰہ لفسدتا
عبارت تحذیر الناس یہ ہے!

١۔اگر بالفرض آپ کے زمانہ میں بھی کہیں اور کوئی نبی ہو جب بھی آپ کا خاتم ہونا بدستور باقی رہتا ہے۔
٢۔اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا۔''
(الجواب)

یہ عبارت کفر یوں ہے کہ اس عبارت میں اس بات کا انکار ہے کہ خاتم النبیین کے معنی آخر الانبیاء ہیں۔ خاتم النبیین کے معنی آخر الانبیاء ہونا ضروریات دین سے ہے۔ اس پر اجماع امت ہے۔ اور اس عبارت میں اس کا انکار ہے۔ نانوتوی یہ کہتے ہیں کہ! آپ سب سے آخری نبی نہیں اور خاتم النبیین کے معنی آخری نبی کے نہیں۔ بلکہ خاتم بالذات کے ہیں۔ یعنی نبوت آپ کو بلا واسطہ ملی۔ اس لیے اگر آپ کے زمانے میں یا آپ کے زمانے کے بعد کوئی نبی پیدا ہو تو خاتمیت محمدی میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔ حالانکہ جب حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم ؐ خاتم النبیین بمعنی آخر الانبیاء ہیں تو آپ کے زمانہ میں یا آپ کے زمانے کے بعد کوئی نبی پیدا ہو تو خاتمیت محمدی میں فرق آئے گا بلکہ آپ خاتم ہی نہ ہوں گے کہ جب خاتم بمعنی آخر لیا تو دوسرے کا سوال ہی نہیں۔

اس کو اور آسان الفاظ میں یوں سمجھیے ۔ ایمان یہ ہے کہ حضور ؐ خاتم النبیین ہیں اس معنی میں آپ کے زمانے میں یا آپ کے زمانے کے بعد کوئی نبی پیدا ہو تو یہ خاتمیت محمدی کے منافی ہے۔ اگر منافی نہ ہوتا تو کفر نہ ہوتا۔تو جو بات کفر ہے اسکو قرآن کے معنی بتا دیا ہے۔ اس لیے یہ کلمہ کفر ہوا۔اگر مطلقاً یہ شرط وجزا ایمان ہے تو اس معترض سے پوچھیے اگر کوئی اس سے سیکھ کے یہ کہے۔

''اگر بالفرض زمین و آسمان میں چند خدا ہیں تو بھی اللہ عزوجل کی توحید میں کوئی فرق نہیں آئے گا''۔یہ کلمہ کفر ہے یا ایمان ؟

اگر ایمان بتائے تو دیوبند بھیج کر اس کا دماغ درست کیجیے اور اگر کفر مانے تو اس سے پوچھیے یہاں بھی اگر ہے یہاں بھی بالفرض ہے۔ یہ کیوں کر کفر ہوا اور تحذیر الناس میں ''اگر ''اور ''بالفرض''ہونے کی وجہ سے وہ کیسے دیوبندیوں کا ایمان ہوا؟۔

معترض نے تحذیر الناس کی عبارت آیۃ کریمہ:لوکان فیھما الھۃ الا اللّٰہ لفسدتا۔کے مثل مان کر تحذیر الناس کی عبارت کے کفر کو قبول کیا۔اس لیے کہ حسب قاعدہ نحو ''لو'' اپنے مدخول کے مثبت کو منفی اور منفی کو مثبت بنا دیتا ہے۔اسی وجہ سے اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ زمین و آسمان میں نہ چند معبود ہیں اور نہ زمین و آسمان میں فساد۔اب اس قاعدے کی روح سے تحذیر الناس کی عبارت کا مطلب یہ ہوا۔کہ آپ کے زمانے میں کہیں کوئی نبی نہیں اور آپ کی خاتمیت باقی نہیں۔آپ کے بعد کوئی نبی نہیں اور خاتمیت محمدی میں فرق آگیا۔حضورصلی اللہ علیہ والہ وسلم ؐ کی خاتمیت کا باقی رہنا اور اس میں فرق ماننا کفر ہے۔

بات اصل یہ ہے کہ قاتل ایک قتل چھپانے کے لیے دس قتل کرتا ہے،چور پکڑے جانے کے اندیشے سے قتل کر ڈالتا ہے،ایک کفر پر پردہ ڈالنے کی ہر کوشش دوسرے کفر کی جانب کھینچ کر لے جاتی ہے۔ تحقیق یہ ہے کہ صدق شرطیہ کے لیے صدق مقدم و تالی لازم نہیں۔ یہ حق ہے۔ مگر وجود علاقہ لازم ہے۔ اور قضیہ شرطیہ میں علاقے ہی پر مدار حکم ہے۔ یہ کہنا سچ ہے ''انسان اگر گدھا ہوتا تو اس کے دم ہوتی''مگر یہ کہنا غلط ہے کہ'' انسان اگر گدھا ہوتا تو اس کے سینگ ہوتے''۔اس لیے کہ پہلے میں علاقہ درست دوسرے میں نہیں۔ اب اگر کوئی یہ کہے زید بالفرض اگر گدھا ہوتا تو خدا ہوتا کلمہ کفر ہے۔اس لیے کہ یہاں قائل نے جو علاقہ ثابت کیا ہے وہ کفر ہے۔

اسی طرح تحذیر الناس میں ''اگر ''اور''بالفرض'' ہوتے ہوئے بھی وہ عبارت اس لیے کفر ہے کہ اسمیں جو علاقہ بتایا گیا ہے وہ کفر ہے۔ یعنی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ؐ کے زمانے میں یا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ؐ کے زمانے کے بعد نبی ہونے کو خاتمیت محمدی کے منافی نہیں جانا۔ حالانکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ؐ کے زمانے میں یا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ؐ کے زمانے کے بعد کسی نبی کا پیدا ہونا خاتمیت محمدی کے منافی ہے۔ اور یہ اجلی بدیہیات اور ضروریات سے ہے۔ جسے ہر بے پڑھا لکھا سمجھدار مسلمان بھی جانتا ہے۔ کسی مسلمان سے پوچھیے کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ؐ کے زمانے میں یا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ؐ کے بعد کوئی نبی پیدا ہوجائے تو خاتمیت محمدی میں فرق آئے گا کہ نہیں؟تو وہ فوراً کہے گا ضرور فرق آئے گا۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ؐ خاتم النبیین کیسے ؟

'' اگر''اور بالفرض ''کی آڑ تو کسی عیار کی ایجاد ہے کہ عوام اس میں الجھ کر شک میں پڑ جائیں۔ ورنہ بات صاف ہے تحذیر الناس کی عبارت سے بالکل واضح ہے کہ اس کا قائل حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانے میں یا آپ کے بعد کسی نبی کے پیدا ہونے کو ممکن مانتا ہے اور یہ کفر ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ؐ کے زمانے میں یا بعد میں نبی پیدا ہونا محال شرعی ہے۔ یہ آیۃ کریمہ خاتم النبیین کے منافی ہے اس لیے صریح کفر ہے۔

بہت سی باتیں ایسی ہیں کہ ان کا ممکن ہونا ماننا بھی کفر ہے جیسے۔اللہ عزوجل کا شریک ممکن ماننا۔ قرآن کے بعد کسی آسمانی کتاب کا نزول ممکن ماننا اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانے میں یا آپ کے بعد کسی نبی کو ممکن ماننا کفر ہے۔اور تحذیر الناس کی عبارت کا یہی صریح مطلب ہے۔اس لیے یہ عبارت بلا شبہ کفر صریح ہے۔واللہ تعالیٰ اعلم

اس کالم کو نائب حضور مفتی ء اعظم ہند شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ کی تحریر جو کہ ماہنامہ اشرفیہ ۱۹۹۸ کے صفحہ نمبر ۹ اور ۱۰ پر شائع ہوئی، سے اخذ کیا گیا ہے۔

علمائے اہلسنت کی تصانیف سے ماخوذ یہ تیسرا مضمون قدرے تفصیل سے نذر قارئین ہے۔ اس مضمون میں مولوی قاسم نانوتوی کی کتاب تحذیر الناس کے متعلق انہی کے پیر بھائی مگر مسلک کے لحاظ سے جلیل القدر سنی بزرگ حضرت شیخ الاسلام علامہ انوار اللہ فاروقی کی شہرہء آفاق کتاب انوار احمدی سے اقتباس پیش کئے جائیں گے جو کہ تنبیہات کے عنوان کے تحت بیان کئے گئے ہیں۔

''مو لو ی محمد قا سم نانو تو ی د یو بند کے ا کا بر ین میں شا مل ہیں ،مو لو ی قا سم نا نو تو ی نے اپنی کتا ب تحذ یر النا س میں خاتم النبیین کے غلط معا نی پیش کر نے کی کو شش کر کے عقیدہ ختم نبوت میں ر خنہ اندا ز ی کی نا کا م کو شش کی ،جس کی علما ئے اہلسنت ہمیشہ مذمت فرما تے رہے ،ز یر نظر بحث میں بھی اس کے با طل عقید ہ کو د لا ئل کے سا تھ در کیا گیا ہے ''۔

عقید ہ خا تم النبیین پر حضرت مو لا نا محمد انوا ر اللہ رحمۃ اللہ علیہ مصنف کتا ب'' انوا ر احمد ی'' کے علمی د لا ئل ، ایمانی شوا ہد ،اور بصیرت افرو ز تنبیہا ت کی شا ندا ر بحث پڑھنے سے پہلے جا معہ نظا میہ حید ر آبا د کے محتر م مو لا نا عبدالحمید صا حب کا یہ حا شیہ پڑھیے تا کہ بحث کے بنیاد ی گو شو ں سے آپ پو ر ی طر ح با خبر ہو جا ئیں ۔شیخ الجا معہ تحریر فرماتے ہیں ! ''تحذ یر النا س نا می کتا ب میں خا تم النبیین کے مسئلے پر(مو لو ی محمد قا سم صا حب نانو تو ی بانی دار لعلو م دیوبند)نے ایک فلسفیانہ بحث فر ما ئی جس کا خلا صہ یہ ہے کہ خا تم النبیین ہو نا فضلیت کی با ت نہیں ۔کسی کا مقد م زمانے یا متا خر زمانے یعنی اگلے ز ما نے یا پچھلے ز ما نے میں پا یا جا نا فضلیت سے تعلق نہیں ر کھتا ۔ اور اگر با لفر ض آپ کے بعد کو ئی نبی آجا ئے تو آپ کی فضلیت پر اس کا کو ئی اثر مرتب نہیں ہو گا ۔کیو نکہ خا تم النبیین ہو نے میں امکا ن ذاتی کی نفی نہیں یعنی آپ کے بعد کسی نبی کا ہو نا ممکن ہے ۔

اس شبہ کا از الہ حضرت مو لا نا مر حو م نے اپنے اس مضمو ن میں نہا یت و ضا حت کے سا تھ کیا ہے کہ:
خا تم النبیین کا و صف آنحضور صلی اللہ علیہ و الہ وسلم ؐ کا خا صہ ہے جو آپ کی ذا ت گرا می کے سا تھ مختص ہے کسی اور میں پا یا نہیں جا سکتا۔ خا تم النبیین کا لقب از ل ہی سے آپ کے لیے مقر ر ہے اس کا اطلا ق آپ کے سوا کسی اور پر نہیں ہو سکتا کیو نکہ خاتم النبیین کا مفہو م جز ئی حقیقی ہے ۔ جز ئی حقیقی وہ ہے جس کا اطلا ق ایک سے زائد پر عقلاً ممتنع ہے لہٰذا ایسی صو رت میں کسی اور خا تم النبیین کا ذا تی امکا ن با قی نہ ر ہا ۔

اسی مضمون کو حضرت نے تحذ یر النا س کے جوا ب میں پھیلا کر تحر یر فر ما یا ہے اور اس کی و ضا حت فر ما ئی ہے کہ جب اللہ جل شانہ نے آنحضور صلی اللہ علیہ و الہ وسلم ؐ کو اپنے کلا م قد یم میں خا تم النبیین فر ما یا ہے تو حضور از ل ہی سے اس صفت خاص کے ساتھ متصف ہیں ۔ایسا کوئی ز ما نہ نہیں جو با ر ی تعا لیٰ کے علم اور کلا م پر مقد م ہو ۔اور اس میں کو ئی اور شخص اس و صف سے متصف ہو سکے ۔پس خا تم النبیین کی صفت مختصہ آنحضرت ؐ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی ذا ت گر امی میں منحصر ہے کسی دوسرے کا اس صفت کے سا تھ اتصا ف محا ل ہے ۔

مو لو ی محمد قا سم نانو تو ی کی فلسفیا نہ بحث بد عت ہے : اس کے بعد حضرت مو لا نا نے اس با ت پر تنبیہ فر ما ئی کہ جو لو گ کل بد عۃ ضلا لۃ پڑھ کر ہر نئی با ت کو خو اہ حسنہ ہو یا سیہ مستوجب دوزخ قر ار د یا کر تے ہیں وہ اس سوا ل کا جو اب د یں کہ کیا خا تم النبیین کی فلسفی بحث بد عت نہیں ہے ۔جو نہ قرآ ن میں ہے اور نہ اس کے با ر ے میں کو ئی حد یث وا رد ہے ،نہ قرو ن ثلا ثہ میں ،صحابہ ،تا بعین اور تبع تا بعین نے خا تم النبین پر ایسی کو ئی بحث کی ہے ؟

مو لو ی محمد قا سم نانو تو ی کی فلسفیا نہ بحث کا نتیجہ: مز ید برا ں اس بد عت قبیحہ کا نتیجہ یہ ہوا کہ قا د یا نی نے اس فلسفیا نہ استد لا ل سے اپنی نبو ت پر د لیل پیش کی ہے اور شہاد ت میں مصنف تحذ یر النا س کا نا م پیش کیا ہے ۔اب یہ مد عی اور گوا ہ کے سا تھ اسی با ر گا ہ میں پیش ہو گا جس نے امت کو تعلیم د ی ہے کہ اپنی آوازوں کو نبی کی آوا ز پر بلند مت کر و۔بلند کر و گے تو تمہا ر ے سا ر ے اعما ل ضبط کر دئیے جا ئیں گے ۔( محمدعبدا لحمید شیخ جا معہ نظا میہ، انوا ر احمد ی ،ص٤۴۲٢)

مو لو ی محمد قا سم نانو تو ی کے انکا ر ختم نبو ت پر تنبیہا ت: اس حا شیہ کے بعد حضرت مصنف کی وہ ز لزلہ فگن تنبیہا ت ملا حظہ فر ما ئیں جو لفظ خا تم النبیین کے سلسلے میں تحذیر النا س کے مصنف کے خلاف انہو ں نے صا در فر ما ئی ہیں۔

پہلی تنبیہ:بعض لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ ا گر چہ دو سر ے کا خا تم النبیین ہو نا محا ل و ممتنع ہے مگر یہ امتنا ع لغیرہ ہو گا نہ بالذات جس سے امکان ذا تی کی نفی نہیں ہو سکتی ۔سو اس کا جوا ب یہ ہے کہ و صف خا تم النبیین خا صہ آنحضر ت ؐ کا ہے جو دو سر ے پر صادق نہیں آسکتا۔ اور مو ضو علہ ،اس لقب کا ذات آنحضر ت صلی اللہ علیہ و الہ وسلم ؐہے کہ عند الاطلاق کو ئی دو سرا اس مفہو م میں شر یک نہیں ہو سکتا پس یہ مفہو م جز ئی حقیقی ہے۔(انوا ر احمد ی ،صفحہ٤۴۲٢)

دو سری تنبیہ:پھر جب عقل نے بہ تبعیت نقل خا تم النبیین کی صفت کے سا تھ ایک ذا ت کو متصف ما ن لیا تو اس کے نزدیک محا ل ہو گیا کہ کوئی دو سر ی ذا ت اس صفت کے سا تھ متصف ہو ۔اور بحسب منطوق لا ز م الو ثو ق ما یبد ل القول لدیابدالآبا د تک کے لیے یہ لقب مختص آنحضر ت صلی اللہ علیہ و الہ وسلم ؐہی کے لیے ٹھہرا تو جز ئیت اس مفہو م کی ابد الا ۤ با د تک کے لیے ہو گئی ۔کیو نکہ یہ لقب قرآن شر یف سے ثا بت ہے جو بلا شک قد یم ہے ۔(انوا ر احمد ی ،صفحہ۴۳٤٣)

تیسر ی تنبیہ:اب دیکھا جا ئے کہ مصدا ق اس صفت کا کب سے معین ہوا ۔سو ہما را د عو ی ٰہے کہ ابتد ائے عا لم امکا ں سے جس قسم کا بھی و جو د فر ض کیا جا ئے ہر و قت آنحضر ت صلی اللہ علیہ و الہ وسلم ؐاس صفت مختصہ کے سا تھ متصف ہیں ۔کیو نکہ حق تعا لیٰ اپنے کلا م قد یم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و الہ وسلم ؐکو خا تم النبیین فر ما چکا ۔ اب کو ن سا ایسا ز ما نہ نکل سکے گا ۔جو اللہ کے و صف علم و کلام پر مقد م ہو ؟(انوا ر احمد ی ،صفحہ٤۴۷٧)

چو تھی تنبیہ:غیر ت عشق محمد ی بڑ ی چیز ہے ۔جب ا سے جلا ل آتا ہے تو ایک ز لز لہ کی سی کیفیت پیدا ہو جا تی ہے۔ مسلمان سب کچھ برداشت کر سکتا ہے لیکن اسے اپنے محبو ب کی تنقیص ذرا بھی بر دا شت نہیں ۔مصنف کتا ب با و جو د یکہ بہت نر م طبیعت کے آد می ہیں لیکن اس مو قعہ پر ان کے قلم کا جلا ل د یکھنے کے قا بل ہے ۔کسی اور خا تم النبیین کے امکا ن کے سوا ل پر ان کے ایما ن کی غیر ت اس در جہ بے قابو ہو گئی ہے کہ سطر سطر سے لہو کی بو ند ٹپک ر ہی ہے ۔میدا ن و فا میں عشق کوسر بکف د یکھنا ہو تو یہ سطر یں پڑ ھیے۔مصنف کتا ب ،تحذ یر النا س کے مبا حث کا محا سبہ کر تے ہو ئے تحر یر فرما تے ہیں !''اب ہم ذ را ان صا حبو ں سے پو چھتے ہیں کہ اب وہ خیا لا ت کہا ں ہیں جو کل بد عۃ ضلا لۃ پڑھ پڑ ھ کر ایک عا لم کو دو ز خ میں لے جا ر ہے تھے ۔کیا اس قسم کی بحث فلسفی بھی کہیں قر آ ن و حد یث میں وا رد ہے؟ یا قر و ن ثلاثہ میں کسی نے کی تھی ۔پھر ایسی بد عت قبیحہ کے مر تکب ہو کر کیا استحقا ق پیدا کیا اور اس مسئلہ میں جب تک بحث ہو تی ر ہے گی اس کا گنا ہ کس کی گر د ن پرہو گا ـ''؟

د یکھئے حضرت جر یر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی رو ایت سے حد یث شر یف میں وا رد ہے کہ حضور انور ؐ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے ار شا د فر ما یا ہے کہ! جو شخص اسلام میں کوئی برا طر یقہ نکا لے تو اس پر جتنے لو گ عمل کر تے ر ہیں گے سب کا گنا ہ اس کے ذمے ہو گا اور عمل کر نے وا لو ں کے گنا ہ میں کچھ کمی نہ ہو گی۔(رواہ مسلم )

لکھتے لکھتے اس مقام پر عشق و ایما ن کی غیر ت نقطہ انتہا کو پہنچ گئی ہے ۔غیظ میں ڈوبے ہو ئے کلما ت کا ذ را تیو ر ملا حظہ فرمائیے! تحریر فر ما تے ہیں !''بھلا جس طر ح حق تعا لیٰ کے نز د یک صر ف آنحضر ت ؐ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم خا تم النبیین ہیں و یسا ہی اگر آپ کے نزدیک بھی رہتے ہیں تو اس میں آپ کا کیا نقصا ن تھا ۔کیا اس میں بھی کو ئی شر ک و بد عت ر کھی تھی جو طرح طر ح کے شا خسا نے نکا لے گئے'' یہ تو بتا ئیے کہ ہما ر ے حضرت نے آپ کے حق میں ایسی کو ن سی بد سلو کی کی تھی جو اس کا بد لہ اس طر ح لیا گیا کہ فضیلت خاصہ میں بھی مسلم ہو نا مطلقًا نا گوا ر ہے ۔یہا ں تک کے جب د یکھا کہ خود حق تعا لیٰ فر ما ر ہا ہے کہ آپ سب نبیو ں کے خاتم ہیں تو کما ل تشو یش ہو ئی کہ فضیلت خاصہ ثا بت ہو ئی جا تی ہے ۔جب اس کے ابطا ل کا کو ئی ذ ریعہ د ین اسلا م میں نہ ملا تو فلا سفہ معاند ین کی طر ف ر جو ع کیا اور امکا ن ذا تی کی شمشیر دودم(دودھار ی تلوا ر) ان سے لے کر میدا ن میں آکھڑ ے ہوئے ۔

پا نچو یںتنبیہ:افسو س ہے اس د ھن میں یہ بھی نہ سو چا کہ معتقد ین سا دہ لو ح کو اس خاتم فر ضی کا انتظا ر کتنے کنو ئیں جھنکائے گا ۔ معتقد ین سادہ لو ح کے دلو ں پر اس تقر یر نا معقو ل کا ا تنا ا ثر تو ضرور ہوا کہ آنحضرت ؐ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی خاتمیت میں کسی قدر شک پڑ گیا۔ چنا نچہ بعض اتبا ع نے اس بنا پر الف لا م خاتم النبیین سے یہ با ت بنا ئی کہ حضرت صرف ان نبیو ں کے خاتم ہیں جو گزر چکے ہیں جس کا مطلب یہ ہو ا کہ حضور کے بعد بھی انبیا ء پیدا ہو ں گے اور ان کا خا تم کو ئی اور ہو گا۔

معا ذاللہ اس تقر یر نے یہا ں تک پہنچا د یا کہ قر آن کا انکا ر ہو نے لگا ۔ذ را سو چئیے کہ حضو ر صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے خا تم النبیین ہو نے کے سلسلے میں یہ سا ر ے احتما لا ت حضور صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے رو برو نکا لے جا تے تو حضور صلی اللہ علیہ و الہ وسلم پر کس قد ر شا ق گز ر تا ۔

چھٹی تنبیہ:حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ و الہ وسلم ؐ کے سا منے تو را ت کے مطا لعے کا ار اد ہ کیا تھا تو اس پر حضور کی حالت کس قد ر متغیر ہو گئی تھی کہ چہر ہ مبا ر ک سے غضب کے آثا ر پیدا تھے ۔اور با و جو د اس خلق عظیم کے ایسے جلیل القد ر صحا بی پر کتنا عتا ب فر ما یا تھا جس کا بیا ن نہیں ۔جو لو گ تقر ب و اخلا ص کے مذ اق سے وا قف ہیں و ہی اس کیفیت کو سمجھ سکتے ہیں۔ پھر یہ فر ما یا کہ اگر خود حضرت مو سیٰ میر ی نبوت کا ز ما نہ پا تے تو سو ائے میر ی اتبا ع کے ان کے لیے کو ئی چا رہ نہ ہو تا ۔

اب ہر شخص با آسا نی سمجھ سکتا ہے کہ جب حضر ت عمر رضی اللہ عنہ جیسے صحابی با اخلا ص کی صر ف اتنی حر کت اس قد ر ناگوار طبع غیور ہو ئی تو کسی ز ید و عمرو کی اس تقر یر سے جو خود خا تمیت محمد ی میں شک ڈا ل د یتی ہے ، حضور کو کیسی اذ یت پہنچتی ہو گی۔ کیا یہ ایذا ر سا نی خالی جا ئے گی؟ہر گز نہیں حق تعا لیٰ ار شا د فر ماتا ہے !اِنَّ الَّذِ یْنَ یُوْ ذُوْ نَ اللّٰہَ وَ رَسُوْ لَہ، لَعَنَھُمُ اللّٰہُ فِیْ الدُّ نْیَا وَالْاٰخِرَ ۃِ وَاَعَدَّلَھُمْ عَذَابًامُھِیْنًا Oتر جمہ:جو لو گ ایذا د یتے ہیں اللہ کو اور اس کے اس کے ر سول کو ،لعنت کر ے گا اللہ ان پر د نیا میں بھی اور آخر ت میں بھی ۔اور تیا ر کر ر کھا ہے ان کے لیے ذلت کا عذاب ۔ (انوا ر احمد ی ،صفحہ٥۵۲٢)
الحمد للہ ہم نے تعصب سے ھٹ کر حقائق و دلائل کی روشنی میں علمی اور مہذب انداز میں تحذیر الناس میں خاتم النبیین کے کیئے گئے غلط معنیٰ کا رد پیش کیا ہے دعا اللہ تعالیٰ اسے ذریعہ نجات بنائے آمین ۔ طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی ۔



















0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔