اہل بیت کے لفظی معنٰی ہیں گھر والے
محترم قارئین کرام : اہل بیت کے لفظی معنٰی ہیں گھر والے ۔ اہل بیت سے مراد اہل بیتِ رسول علیہم السّلام ہیں ۔
(1) بنی ہاشم جن پر زکوٰۃ لینا حرام ہے یعنی حضرات عباس‘ علی‘ جعفر‘ عقیل اور حارث رضی اللہ عنہم کی اولاد اہلبیت ہے جو اہل بیتِ نسب کہلاتے ہیں ۔
)2) قرآن میں آیت تطہیر (سورہ احزاب آیت نمبر 33) کے نزول کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم خوبصورت چادر مبارک اوڑھے ہوئے دولت کدہ سے باہر تشریف لائے اور حضرت بی بی فاطمۃُ الزہرا رضی اللہ عنہا ‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ ‘ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو اپنی اُس خوبصورت چادر مبارک میں داخل فرمالیا اور بارگاہ رب العالمین میں دعا فرمائی یعنی رب العالمین ! یہ میرے اہل بیت اور میرے مخصوصین ہیں تُو اِن سے ناپاکی دور کردے اور انہیں خوب پاک و پاکیزہ بنا ۔ یہ دعاء سن کر ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا نے عرض کی ’’و انا منھم‘‘ یعنی میں بھی ان میں سے ہوں تو ارشاد نبوی ہوا ’’انک علی خیر‘‘ یعنی بے شک تم بہتری پر ہو بلکہ دوسری روایت میں آپ نے ’’بلٰی‘‘ فرمایا یعنی کیوں نہیں ۔ اس طرح ام المومنین حضرت ام سلمہ و نیز تمام ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن اہل بیتِ سکونت ہیں ۔
(3) جب نجران کے عیسائی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے نبوت کے بارے میں جھگڑنے لگے تو آیت مباہلہ (سورہ العمران) نازل ہوئی جس میں اپنی عورتوں اور بیٹیوں کے ساتھ نکل کر مباہلہ کرنے کا حکم دیا گیا ۔ اس موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم حضرات علی‘ فاطمہ‘ حسن اور حسین رضی اللہ عنہم کو اپنے ساتھ لیکر نکلے اور فرمایا : اللھم ھٰؤلآء اھل بیتی یعنی الٰہی یہ میرے گھر والے ہیں ۔
امام اللغۃ حسین بن محمد راغب اصفہانی اور محمد مرتضیٰ الزبیدی علیہما الرّحمہ فرماتے ہیں : اهل الرجل من يجمعه و اياهم نسب او دين او مايجري مجراهما من صناعة و بيت و بلد فاهل الرجل في الاصل من يجمعه و اياهم مسکن واحد ثم تجوز به فقيل اهل بيت الرجل لمن يجمعه اياهم نسب و تعورف في اسرة النبي صلیٰ الله عليه وآله وسلم مطلقا اذا قيل اهل البيت لقوله عزوجل : إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ ،(سورہ احزاب، 33: 33) وغير باهل الرجل عن امراته و اهل الاسلام الذين يجمعهم ولما کانت الشريعة حکمت برفع حکم النسب في کثير من الاحکام بين المسلم و الکافر قال تعالیٰ : إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ ۔ (سورہ هود آیت نمبر 46)
ترجمہ : کسی شخص کے اہل وہ لوگ ہیں جو اس کے نسب یا دین یا پیشہ یا گھر یا شہر میں شریک اور شامل ہوں ۔ لغت میں کسی شخص کے اہل وہ لوگ ہیں جو کسی کے گھر میں رہتے ہوں پھر مجازاً جو لوگ اس کے نسب میں شریک ہوں ان کو بھی اس کے اہل کہا جاتا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے خاندان کے لوگوں کو بھی مطلق اہل بیت کہا جاتا ہے ۔ جیسا کہ قرآنِ مجید کی اس آیت میں ہے بس اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) اہلِ بیت ! تم سے ہر قسم کے گناہ کا میل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے کسی شخص کی بیوی کو اس کے اہل سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اہل اسلام ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو سب انسانوں کے ماننے والے ہوں۔ چونکہ اسلام نے مسلم اور کافر کے درمیان نسب کا رشتہ منقطع کر دیا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام سے فرمایا : بیشک وہ تیرے گھر والوں میں شامل نہیں کیونکہ اس کے عمل اچھے نہ تھے ۔ (المفردات فی غريب القرآن، 1: 29، بيروت، لبنان: دارالمعرفة)(تاج العروس، 28: 41، دارالهداية،چشتی)
قرآنِ مجید میں اہلِ بیت سے مراد ازواج اور اولاد ہے : قَالُواْ أَتَعْجَبِينَ مِنْ أَمْرِ اللّهِ رَحْمَتُ اللّهِ وَبَرَكَاتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ ۔
ترجمہ : فرشتوں نے کہا : کیا تم ﷲ کے حکم پر تعجب کر رہی ہو ؟ اے گھر والو ! تم پر ﷲ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہیں ۔ (هُوْد، 11: 73)
مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں اہل بیت کا لفظ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زوجہ محترمہ سیدہ سارہ سلام اللہ علیہا کے لیے استعمال ہوا ہے ۔
اسی طرح سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی روزجہ محترمہ کے لیے قرآن مجید میں اہل بیت کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : إِذْ رَأَى نَارًا فَقَالَ لِأَهْلِهِ امْكُثُوا إِنِّي آنَسْتُ نَارًا ۔
ترجمہ : جب موسٰی (علیہ السلام) نے (مدین سے واپس مصر آتے ہوئے) ایک آگ دیکھی تو انہوں نے اپنے گھر والوں سے کہا: تم یہاں ٹھہرے رہو میں نے ایک آگ دیکھی ہے (یا میں نے ایک آگ میں انس و محبت کا شعلہ پایا ہے ۔ (طهٰ، 20: 10)
عزیز مصر کی بیوی کے لیے بھی اہل کا لفظ استعمال ہوا ہے : قَالَتْ مَا جَزَاءُ مَنْ أَرَادَ بِأَهْلِكَ سُوءًا إِلاَّ أَن يُسْجَنَ أَوْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ۔
ترجمہ : وہ (فورًا) بول اٹھی کہ اس شخص کی سزا جو تمہاری بیوی کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے اور کیا ہو سکتی ہے سوائے اس کے کہ وہ قید کر دیا جائے یا (اسے) درد ناک عذاب دیا جائے ۔ ( سورہ يُوْسُف، 12: 25)
حضرت ایوب علیہ السلام کے زوجہ اور بچوں کے لیے بھی اہل کا لفظ استعمال ہوا ہے : فَاسْتَجَبْنَا لَهُ فَكَشَفْنَا مَا بِهِ مِن ضُرٍّ وَآتَيْنَاهُ أَهْلَهُ وَمِثْلَهُم مَّعَهُمْ ۔
ترجمہ : تو ہم نے ان کی دعا قبول فرما لی اور انہیں جو تکلیف (پہنچ رہی) تھی سو ہم نے اسے دور کر دیا اور ہم نے انہیں ان کے اہل و عیال (بھی) عطا فرمائے اور ان کے ساتھ اتنے ہی اور (عطا فرما دیئے) ۔ (سورۃُ الْأَنْبِيَآء، 21: 84)
محترم قاسرئین : اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اہل بیت میں ازواج اور اولاد دونوں شامل ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ازواجِ مطہرات اور آپ کی اولاد تو اہلِ بیت ہیں ہی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم اور سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کی اولاد کو بھی اپنی اہلِ بیت میں شامل فرمایا ہے۔ حدیثِ مبارکہ ہے : سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ رضی الله عنه قَالَ: وَلَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: {فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَائَنَا وَأَبْنَائَکُمْ}، [آل عمران، 3: 61]، دَعَا رَسُولُ اﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم عَلِيًّا وَفَاطِمَةَ وَحَسَنًا وَحُسَيْنًا فَقَالَ اللَّهُمَّ هَؤُلَاءِ أَهْلِی.
ترجمہ : حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب آیت مباہلہ نازل ہوئی : ’’آپ فرما دیں کہ آ جاؤ ہم (مل کر) اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو (ایک جگہ پر) بلا لیتے ہیں ۔‘‘(سورہ آل عمران، 3: 61) ، تو رسولنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے حضرت علی ، حضرت فاطمہ ، حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہم کو بلایا ، پھر فرمایا:یا اللہ! یہ میرے اہل ہیں ۔ (مسلم، الصحيح، 4: 1871، رقم: 2404، بيروت، لبنان: دار احياء التراث العربي،چشتی)(أحمد بن حنبل، المسند، 1: 185، رقم: 1608، مؤسسة قرطبة مصر)
عَنْْ عَائِشَةَ رضی الله عنها قَالَتْ: خَرَجَ النَّبِيُّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم غَدَةً وَعَلَيْهِ مِرْطٌ مُرَحَّلٌ مِنْ شَعْرٍ أَسْوَدَ فَجَاءَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ رضی الله عنه فَأَدْخَلَهَ، ثُمَّ جَاءَ الْحُسَيْنُ رضی الله عنه فَدَخَلَ مَعَهُ ثُمَّ جَاءَ تْ فَاطِمَةُ فَأَدْخَلَهَا ثُمَّ جَاءَ عَلِیٌّ فَأَدْخَلَهُ ثُمَّ قَالَ: {إِنَّمَا يُرِيدُ اﷲُ لِيُذْهِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِرَکُمْ تَطْهِيرًا} [سورۃُ الآحزاب، 33: 33]
ترجمہ : ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم صبح کے وقت ایک اونی منقش چادر اوڑھے ہوئے باہر تشریف لائے تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ آئے تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں اُس چادر میں داخل کر لیا پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ آئے اور وہ بھی ان کے ہمراہ اس چادر میں داخل ہوگئے، پھر حضرت سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا آئیں اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی اس چادر میں داخل کرلیا، پھر حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم آئے تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں بھی اس چادر میں لے لیا پھر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ آیت مبارکہ پڑھی: بس ﷲ یہی چاہتا ہے کہ اے (رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) اہل بیت تم سے ہر قسم کے گناہ کا میل (اور شک ونقص کی گرد تک) دور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے ۔ (مسلم، الصحيح، 4: 1883، رقم: 2424)(حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 3: 15۹، رقم: 4707، دار الکتب العلمية بيروت)
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما قَالَ: وَلَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: {قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی}[الشوری، 42: 23]، قَالُوْا: يَارَسُوْلَ اﷲِ، مَنْ قَرَابَتُکَ هَؤُلاَءِ الَّذِيْنَ وَجَبَتْ عَلَيْنَا مَوَدَّتُهُمْ؟ قَالَ: عَلِیُّ وَفَاطِمَةُ وَابْنَهُمَا.
ترجمہ : حضرت عبد ﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب یہ آیت : ’’فرما دیجیے : میں اِس (تبلیغ رسالت) پر تم سے کوئی اُجرت نہیں مانگتا مگر (میری) قرابت (اور ﷲ کی قربت) سے محبت (چاہتا ہوں)‘‘ [الشوری، 42: 23] نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول ﷲ! آپ کے قرابت دار کون ہیں جن کی محبت ہم پر واجب ہے ؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّمنے فرمایا : علی، فاطمہ اور ان کے دو بیٹے (حسن وحسین رضی اللہ عنہم )‘‘ ۔ (طبراني، المعجم الکبير، 3: 47، رقم: 2641، الموصل: مکتبة الزهراء)
معلوم ہوا اہلِ بیت سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ازواج مطہرات، آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد ، سیدنا علی اور سیدنا حسنین رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین ہیں ۔ ان کے علاوہ تمام سادات آلِ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں ۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی آل قیامت تک موجود رہے گی ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment