Friday 13 December 2019

جن کے بڑے بےحیاء ہوں سوچیئے اُن کے چھوٹے کتنے بڑے بےحیاء ہونگے

1 comments

جن کے بڑے بےحیاء ہوں سوچیئے اُن کے چھوٹے کتنے بڑے بےحیاء ہونگے

محترم قارئینِ کرام : بانی دیوبند کہتے ہیں وعظ کہنا دو شخصوں کا کام ہے ایک محقق کااور ایک بے حیاء کا اور اپنی نسبت فرماتے تھے کہ میں بے حیاء ہوں اِس لیئے وعظ کہہ لیتا ہوں ۔ (قصصُ الاکابر صفحہ نمبر 162 مطبوعہ ادارہ تالیفات اشرفیہ ملتان)

اسماعیل دہلوی دیوبندی کہتا ہے : ابلیس بے حیاء تھا ، نوح علیہ السّلام کی قوم بے حیاء تھی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دشمن بے حیاء تھے اس پر تقریر ختم کر دی ۔ (ارواح ثلاثہ صفحہ نمبر 60 مطبوعہ مکتبہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کراچی)

نوٹ : یہ حوالہ ہم صرف آئینہ دیکھانے کےلیئے پیش کر رہے ہیں اُن بے حیاء و بے شرم لوگوں کو جو اکابرینِ اہلسنّت کے بطور عاجزی استعمال کیئے گئے بعض الفاظ کو لے کر بیہودہ پوسٹیں بناتے ہیں ایسے لوگ کیا کہیں گے اب بانی دیوبند جناب قاسم نانوتوی صاحب کے بارے میں اور مکتبہ فکر دیوبند کے بارے میں کہ بانی دیوبند اور دیوبندی مذھب والے بے حیاء اور بے حیاء مذھب والے ہیں ؟ اور بقول اسماعیل دہلوی نانوتوی صاحب کیا ہوئے ؟ جواب سوچ سمجھ کر دیجیئے گا ۔

اکابرین ِدیوبند کی بےحیا و بے شرم تعلیمات یہ ہے دیوبندیوں کی اصلیت

دیوبندیوں کے مستند اور سچے واقعات کو پڑھیں جو کہ دیوبندیوں کے لئے قابل اتباع ہیں اور دیوبندی فرقے کے بارے میں خود فیصلہ کریں کہ یہ کس طر ح دین کے نام پر بے حیائی اور بے غیرتی کو مسلمان معاشرے میں فروغ دے رہے ہیں ۔ یہ نوٹنکی دیوبندی فرقہ جو اپنے ماتھے پر اہل حق کا اسٹیکر لگا کر اپنے اکابرین کے سیاہ کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش کر رہا ہے ۔ جبکہ ان کے اکابرین کی تمام زندگی لڑکوں سے منہ کالا کرواتے ہوئے گزری ہے ۔ کیا اہل حق کا اسٹیکر لگا لینے سے ان کے اکابرین کے چہروں کی سیا ہی دھل جائے گی ؟ ۔ نجاست اور بے غیرتی کی جس گہرائی میں دیوبندی فرقہ اتر چکا ہے ۔ یہ بے حیائی کی انتہاء دیوبندیوں کو مبارک ہو ۔ پڑھنے والے خود فیصلہ کر لیں کہ یہ وہ لوگ ہیں جو آج دین کے ٹھیکیدار بنے بیٹھے ہیں اور اندر سے کتنے گندے اور خبیث ہیں ۔ اللہ ان کے شر سے ہر مسلمان کو محفوظ رکھے آمین ۔

دیوبندیوں کے حکیم الامت اشرف علی تھانوی اپنے ایک حیدرآبادی ماموں کا قصہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اس حفاظت شریعت کا ایک واقعہ ان ہی ماموں صاحب کا اور یاد آیا۔۔۔۔ماموں صاحب بولے کہ میں بالکل ننگا ہو کر بازار میں ہو کر نکلوں اس طرح کہ ایک شخص تو آگے سے میرے عضو تناسل کو پکڑ کر کھینچے اور دوسرا پیچھے سے انگلی کرے ساتھ میں لڑکوں کی فوج ہو اور وہ یہ شور مچاتے جائیں بھڑوا ہے رے بھڑوا بھڑوا ہے رے بھڑوا ۔ (ملفوظاتِ حکیم الامت:جلد نمبر ۹ صفحہ نمبر ۲۱۲)

تھانوی صاحب نے ایک حافظ جی کا قصہ سناتے ہوئے فرمایا:شاگردوں نے کہا حافظ جی نکاح میں بڑا مزہ ہے۔ حافظ جی نے کوشش کر کے ایک عورت سے نکاح کر لیا شب کو حافظ جی پہنچے اور روٹی لگا لگا کر کھاتے رہے بھلا کیا خاک مزا آتا صبح کو خفا ہوتے ہوئے آئے کہ سُسرے کہتے تھے کہ نکاح میں بڑا مزا ہے ہمیں تو کچھ بھی مزا نہ آیا ۔ لڑکے بڑے شریر ہوتے ہیں کہنے لگے اجی حافظ جی یوں مزا نہیں آیا کرتا مارا کرتے ہیں تب مزا آتا ہے ۔۔۔۔ مارنے کے یہ معنی ہیں اس کے موافق عمل کیا تب حافظ جی کو معلوم ہوا کہ واقعی مزہ ہے ۔ (ملفوظات حکیم الامت جلد ۱ صفحہ نمبر۲۸۶،چشتی)

عاشق الٰہی میرٹھی دیوبندی اپنے امامِ ربانی رشید احمد گنگوہی صاحب کی نادر تعلیم و تربیت کا نمونہ ر وایت کرتے ہیں : ایکبار بھرے مجمع میں حضرت (رشید احمد گنگوہی) کی کسی تقریر پر ایک نو عمر دیہاتی بے تکلف پوچھ بیٹھا کہ حضرت جی عورت کی شرمگاہ کیسی ہوتی ہے؟ اﷲ ری تعلیم سب حاضرین نے گردنیں نیچے جھکا لیں مگر آپ مطلق چیں بہ جبیں نہ ہوئے بلکہ بیساختہ فرمایا جیسے گیہوں(گندم) کا دانہ ۔ (تزکرۃ الرشید:جلد نمبر ۲ صفحہ نمبر ۱۰۰)

خواجہ عزیز الحسن صاحب نے ایک دفعہ نہایت شرماتے ہوئے اپنے پیر و مرشد اشرف علی تھانوی صاحب سے فرمایا:میرے دل میں بار بار یہ خیال آتا ہے کہ کاش میں عورت ہوتا حضور کے نکاح میں ۔ اس اظہارِ محبت پر حضرت والا(تھانوی صاحب) غایت درجہ مسرور ہو کر بے اختیار ہنسنے لگے اور یہ فرماتے ہوئے مسجد کے اندر تشریف لے گئے (کہ) ’’یہ آپ کی محبت ہے ثواب ملے گا ۔ ثواب ملے گا ۔ ان شاء اﷲ تعالیٰ ۔ (اشرف السوانح :ج۲ ص۶۴)

یہی دیوبندی حکیم الامت ایک اور جگہ اپنے حضرت مولانا محمد یعقوب کے حوالے سے گوبر فشانی کرتے ہوئے فرماتے ہیں:عوام کے عقیدہ کی بالکل ایسی حالت ہے کہ جیسے گدہے کا عضو مخصوص بڑھے تو بڑھتا ہی چلا جائے اور جب غائب ہو تو بالکل پتا ہی نہیں ۔ (ملفوظاتِ حکیم الامت:ج۳ص۲۹۲،چشتی)

قطب العالم دیوبند گنگوہی دلہا اور داڑھی والی دلہن نانوتوی بانی دیوبند

علامہ عاشق الٰہی بلند شہری دیوبندی لکھتے ہیں : حضرت گنگوہی کا حضرت نانوتوی سے خواب میں نکاح ہوا دونوں نے ایک دوسرے کو وہی فائدہ پہنچایا جو میاں بیوی ایک دوسرے کو پہنچاتے ہیں ۔ (تذکرۃُ الرّشید جلد دوم صفحہ 363 مطبوعہ دارالکتاب دیوبند)

قطب العالم دیوبند گنگوہی صاحب کہتے ہیں خواب میں بانی دیوبند قاسم نانوتوی سے میرا نکاح ہوا وہ دلہن کی صورت میں تھے میاں بیوی والا لطف اٹھایا جس طرح میاں بیوی کو ایک دوسرے سے فائدہ پہنچتا ہے اسی طرح مجھے انھوں نے اور میں نے ان کو پہنچایا ۔ ( تذکرۃُالرشید جلد 2 صفحہ 289 مطبوعہ ادارہ اسلامیات انار کلی لاہور،چشتی)

قطب العالم دیوبند گنگوہی صاحب کہتے ہیں خواب میں بانی دیوبند قاسم نانوتوی سے میرا نکاح ہوا وہ دلہن کی صورت میں تھے میاں بیوی والا لطف اٹھایا جس طرح میاں بیوی کو ایک دوسرے سے فائدہ پہنچتا ہے اسی طرح مجھے انھوں نے اور میں نے ان کو پہنچایا ۔ ( ارشادات گنگوہی صفحہ 123 مطبوعہ ادارہ تالیفات اشرفیہ ملتان)

آخر یہ سرخی قائم کر کے کہ حضرت گنگوہی کا حضرت نانوتوی سے خواب میں نکاح اور یہ لکھنا کہ دونوں نے ایک دوسرے کو وہی (سمجھ گئے نا وہی) فائدہ پہنچایا جو میاں بیوی ایک دوسرے کو پہنچاتے لکھنے کی کیا ضرورت تھی یہ کون سے شرم و حیاء اور کون سے دین کی تعلیم پھیلائی جا رہی ہے اور کتابیں مسلسل چھاپی جا رہی ہیں مجھے تو ایک بات سمجھ اس طرح کی باتیں لکھ کر سادہ لوح نوجوان نسل کو گمراہی نے حیائی کے راستے پر ڈالا جا رہا ہے ۔

ہو سکتا ہے کوئی یہ اعتراض کر ے کہ یہ تو خواب کا واقعہ ہے ۔ حالانکہ گنگوہی صاحب کا اس خواب کواستدلالی صورت میں بر سرِ عام بیان کرنا ہمیں بھی اتنی اجازت تو دیتا ہے کہ ہم بھی اس نیک خواب کو دوسروں کے سامنے پیش کر سکیں۔نیزضروری ہے کہ ہم اس خواب کی کچھ عملی تعبیراور نمونہ بھی آپ کے سامنے رکھ دیںتاکہ آلِ دیوبند کے لیئے سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آئے ۔

دیوبندیوں کی مرتب شدہ کتاب ’’ارواحِ ثلاثہ ‘‘ میں لکھا ہے : ایک دفعہ گنگوہ کی خانقاہ میں مجمع تھا ۔ حضرت گنگوہی اور حضرت نانوتوی کے مرید و شاگرد سب جمع تھے ۔ اور یہ دونوں حضرات بھی وہیں مجمع میں تشریف فرما تھے ۔ کہ حضرت گنگوہی نے حضرت نانوتوی سے محبت آمیز لہجہ میں فرمایا کہ یہاں ذرا لیٹ جاؤ ۔ حضرت نانوتوی کچھ شرما گئے۔ مگر حضرت (گنگوہی) نے پھر فرمایا تو مولانا (نانوتوی) بہت ادب کے ساتھ چت لیٹ گئے ۔ حضرت (گنگوہی) بھی اسی چارپائی پر لیٹ گئے اور مولانا (نانوتوی) کی طرف کروٹ لے کر اپنا ہاتھ ان کے سینے پر رکھ دیاجیسے کوئی عاشق صادق اپنے قلب کی تسکین کرتا ہے۔ مولانا (نانوتوی) ہر چند فرماتے کہ میاں کیا کر رہے ہو یہ لوگ کیا کہیں گے۔ حضرت (گنگوہی) نے فرمایا کہ لوگ کہیں گے کہنے دو ۔ (ارواحِ ثلاثہ: ص ۲۳۳۔ ۲۳۲)

عشق معشوقی کا یہ کھیل بھرے مجمع کے سامنے کھیلا گیا تھا ، جس پر نانوتوی صاحب بار بار شرما جاتے تھے اور لوگوں کی موجودگی کا احساس بھی گنگوہی صاحب کو دلاتے تھے ۔ مگر عشق تو اندھا ہوتا ہے اور گنگوہی صاحب نے اس مقولے کو صحیح ثابت کرنے کی ٹھان لی تھی ۔ یہ سب چونکہ لوگوں کے سامنے کی کاروائی ہے اس لیئے ہم نے بھی بیان کر دی ہے ۔ اب خلوت و تنہائی میں کیا کیا ہوتا تھا ؟ اس کے متعلق ہم کچھ نہیں کہہ سکتے ۔

لہٰذا ہم نے صرف اسی بات کو بیان کیا ہے جو سب کے سامنے ہوئی اور جس کے بیان کی اجازت خود گنگوہی صاحب نے دے رکھی ہے کہ لوگ کہیں گے تو کہنے دو ۔

حکیم الامت دیوبند اسلامی تعلیمات کا مذاق اڑاتے ہوے بیت الخلاء کی دعا بتاتے ہیں کہ : یایھاالنفرک ، لوٹا دھرک فی مقام الجھرک الٹرک ۔ (قصصُ الاکابر صفحہ نمبر ۳۱)

کیا یہ اسلامی دعاؤں کا مذاق اڑانا نہیں ہے ؟

کوی دیوبندی بتا سکتا ہے یہ دعا کہاں لکھی ؟ ۔

دیوبندی عورتوں کی تعلیم کےلیے لکھی گی حکیم الامت دیوبند کی کتاب

دیوبندی عورتوں کےلیئے حکیم الامت دیوبند کا مردوں کا عضو خاص بڑھانے والا نسخہ اور تحفہ خاص دیوبندی عورتیں تجربہ کریں ۔ (بہشتی زیور صفحہ 736 قدیم حکیم الامت دیوبند علامہ اشرف علی تھانوی)

دیوبندی عورتوں کےلیئے حکیم الامت دیوبند کا تحفہ خاص :عضو خاص موٹا ،کرنے ،مردوں کی قوت باہ بڑھانے کے سیکسی نسخے ۔ (بہشتی زیور صفحات 620 ، 621 تھانوی )

یہ کتاب دیوبندی عورتوں کےلیئے لکھی گئی عظیم کتاب ہے جناب جسے ہر دیوبندی گھر میں ہونا لازمی ہے ؟؟؟ ۔

شرم کی مثال اور حکیمُ الاُمّتِ دیوبند کی بے شرمی والی مثال : لکھتا ہے ایک تیلن سے کسی نے پوچھا تیرا شوہر کہاں گیا ہے تو اُس نے لہنگا اٹھایا پیشاب کیا اُوپر سے پھلانگ گئی ۔ ( حضرت تھانوی کے پسندیدہ واقعات صفحہ نمبر 138،چشتی)

بلا تبصرہ : صرف اتنا سوچیئے یہ ہیں حکیم الامت دیوبند اور اُن کی سوچ تو عام پیروکاروں کی سوچ کیسی ہوگی ۔

حکیمُ الاُمّتِ دیوبند اعلیٰ اخلاقی اور حیاء سے بھر پور تعلیم دیتے ہوئے ایک فقیر کی بیہودہ بات لکھ رہے ہیں کہ وہ اپنے عضو تناسل کو تانے ہوئے کہہ رہا ہے ۔ (مزید خود پڑھیئے) ۔ (ارواحِ ثلاثہ صفحہ نمبر 30 حکیمُ الاُمّتِ دیوبند جناب اشرف علی تھانوی)

نہ تم صدمے ہمیں دیتے نہ ہم فریاد یوں کرتے
نہ کھلتے راز سربستہ نہ یوں رسوائیاں ہوتیں

حکیمُ الاُمّتِ دیوبند شرمگاہ کی صفائی کا طریقہ بتاتے ہیں : ایک صاحب کہتے ہیں بیوی سے صفائی کرالیا کرو اور حکیم الاُ متِ دیوبند کہتے ہیں ہڑتال اور چونا لگا کر صاف کر لیا کرو ۔ (ملفوظاتِ حکیمُ الاُمّت جلد نمبر 17 صفحہ نمبر 267)

حیران کُن بات ہے ایسی باتیں لکھتے ہیں چھاپتے ہیں اور جب ہم آئینہ دیکھاتے ہیں تو تفرقہ بازی کا طعنہ دیتے ہیں خود نہیں سوچتے کہ ایسے حیاء سوز ملفوظات چھاپتے کیوں ہیں آخر وجہ کیا ہے کوئی تو بتائے ؟

رنڈیوں کے شوقین حکیمُ الاُمّتِ دیوبند ایک فحش مثال دیتے ہوئے دین سمجھا رہے ہیں کہ رنڈی بڑی اخلاق والی ہوتی ہے ۔ (ملفوظاتِ حکیمُ الاُمّت جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 129)

کچھ سمجھ آیا جناب : حکیمُ الاُمّتِ دیوبند رنڈی کی مثال کیسے دے رہے ہیں لگتا ہے حکیمُ الاُمّتِ دیوبند کو رنڈیوں کے اخلاق کا بڑا علم تھا گھرسے بد اخلاقی ملتی تھی اُس کا بھی اظہار فرما رہے ہیں حکیمُ الاُمّتِ دیوبند ، ذرا سوچیئے جن کے حکیمُ الاُمّت کے سمجھانے کا انداز فحش ہو وہ لوگ کیسے ہونگے اُن کی سوچ کیسی ہوگی خود سوچیئے پڑھیئے اصل کتاب کا اسکن اور حکیمُ الاُمّتِ دیوبند کی اعلیٰ سوچ و تعلیمات کو جانیئے ۔

حکیمُ الاُمّتِ دیوبند کا ملفوظ اور تھانوی کے ماموں کی یہ حرکت شادی شُدہ حضرات پڑھیں اور سمجھیں : تھانوی صاحب کہتے میرے ماموں جی نے دیوبند کے ایک طالب علم کو بلایا کبھی اِدھر تو کبھی اُدھر اپنے پیچھے بلاتے بالآخر کہا آج اَبر ہو رہا ہے طالب علم نے کہا لا حول والا قوّۃ ۔ (حکیمُ الاُمّتِ دیوبند جلد نمبر 18 صفحہ نمبر 97،چشتی)

بلا تبصرہ ہم اصل صفحہ کا اسکن پیش کر رہے ہیں شادی شُدہ حضرات پڑھیں اور سمجھیں آخر طالب علم نے لا حول والا قوّۃ کیوں کہا سوچیئے بار بار سوچیئے ۔

دین کی آڑ میں فحاشی و سیکسیات پھیلانے والے حکیمُ الاُمّتِ دیوبند صحبت شیخ کی مثال میاں بیوی کی محبّت سے دیتے ہوئے فرماتے ہیں جب تک ملیں نہ اولاد ہو چکی یہی مثال شیخ کی دی ۔ (ملفوظات حکیم الامت جلد نمبر 16 صفحہ 35)

آخر حکیمُ الاُمّتِ دیوبند کو کبھی رنڈیاں ، کبھی لونڈے ، کبھی نانوتوی گنگوہی کا سیکسی سین اور کبھی صحبت شیخ کی مثال میاں بیوی جب تک ملیں نہ اولاد ہوچکی کہہ کر دیتے ہیں ایسا کیوں ہے ؟ جناب سوچیئے بار بار سوچیئے ۔

حکیمُ الاُمّتِ دیوبندی اور پھر رنڈی ۔ آخر رنڈیاں ہی اسے پسند کیوں ہیں ؟

رنڈیوں کے شوقین اسلام کے نام پر فحاشی پھیلانے والے حکیمُ الاُمّتِ دیوبند کہتے ہیں مثال تو فحش ہے میری اور دوسروں کی مثال ایسی جیسے رنڈی پھنسانے کےلیئے روپ بدلتی ہے ۔ (ملفوظاتِ حکیم الامت جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 68)

جس کی سوچ ہو گندی اُسے کہتے تھانہ بھون کا دیوبندی

حکیمُ الاُمّتِ دیوبند کا مرید عرض کرتا آپ کےلیئے شریفہ پھل لائیں تو حکیمُ الاُمّتِ دیوبند جواب دیتے ہیں کسی شریف کو لانا شریفہ کو نہیں دو منکوحہ کافی ہیں کوئی فوج تھوڑی جمع کرنی ہے ۔ (ملفوظات حکیم الامت جلد نمبر 1 صفحہ نمبر72)

رنڈیوں کے شوقین حکیمُ الاُمّتِ دیوبند سے پوچھا گیا آپ کی پاس رنڈیاں آتی ہیں تو فرمایا رنڈے تو آتے ہیں وہ تو ایک ہی ہیں چاہے رنڈے ہوں یا رنڈیاں ۔ (ملفُوظاتِ حکیمُ الاُمّت جلد نمبر 16 صفحہ نمبر 161،چشتی)

حکیمُ الاُمّتِ دیوبند جناب اشرف علی تھانوی صاحب کے فرمانِ عالی شان سے معلوم ہوا رنڈیاں اور دیوبندی ایک ہی ہیں کیونکہ تھانوی صاحب کے پاس رنڈے دیوبندی ہی جاتے تھے ۔

آئینہ سچ کا دکھایا تو بُرا مان گئے​
جھوٹ سے پردہ اٹھایا تو بُرا مان گئے

ذکر کی لذّت امامُ السیکسیات حکیمُ الاُمّتِ دیوبند جناب اشرف علی تھانوی فرماتے ہیں بیوی کو بغل میں میں لو ایک ضرب اِدھر اور ایک ضرب اُدھر بہت لذّت آئے گی ۔ (ملفوظاتِ حکیمُ الامّت جلد نمبر 17 صفحہ نمبر 118)

سوال یہ ہے کہ دین کی آڑ میں فحاشی پھیلانے والے حکیمُ الاُمّتِ دیوبند جناب اشرف علی تھانوی صاحب کو مثالوں کےلیئے کبھی رنڈیاں تو کبھی بیوی سے لذّت ہی کیوں نظر آتے ہیں یہ کون سے دین کی تبلیغ ہوتی رہی ہے ؟

دیوبندیو اپنے حکیم الاُمّت کی تعلیمات کی روشنی میں خوب لذّتیں لیا کرو ۔ اور اب ہمارے قارئین کو بھی سمجھ آجائے گی یہ بات کہ دیوبندی اتنے فحش زُبان کیوں ہوتے ہیں جن کے حکیم الامت ایسے ہوں تو پیروکار تو واہ وا ۔

اکابرین دیوبند کی ہم جنس پرستی

اس عنوان کے تحت میں نے جس دیوبندی کتاب کو ثبوت کے طور پر پیش کیا ہے پہلے اس کا مختصر تعارف پیش خدمت ہے ۔

تعارف کتاب ارواح ثلاثہ

ارواح ثلاثہ دیوبندیوں کی مشہور مذہبی کتاب ہے ۔ یہ دراصل تین کتابچے ہیں جنہیں ایک کتاب میں جمع کردیا گیا ہے ۔ اس کتاب کو دو نام دئے گئے ہیں ایک حکایات اولیاء اور دوسرا ارواح ثلاثہ ۔ چونکہ اس کتاب میں اکابرین دیوبند کے واقعات اور حکایات ہیں اس لئے اسے حکایات اولیاء کا نام دیا گیا ہے ۔ اور ارواح ثلاثہ کا نام دینے کی وجہ میرے نزدیک یہ ہے کہ اس کتاب میں موجود حکایات جمع کرنے والے تینوں اشخاص یعنی امیر شاہ خان ، قاری محمد طیب اور اشرف علی تھانوی تینوں وفات پاچکے ہیں ۔

کتاب کی خصوصیت اس کا اسناد سے مزین ہونا ہے اور کتاب میں پیش کئے گئے تمام واقعات مستند اور سچے ہیں : اس کتاب میں جابجا یہ بات موجود ہے اکابرین دیوبند کی یہ حکایات صرف مستند لوگوں سے جمع کی گئی ہیں اور ان حکایات اور واقعات کی اسناد کا خصوصی خیال رکھا گیا ہے۔یعنی یہ تمام واقعات جو اس کتاب میں درج کئے گئے ہیں اشرف علی تھانوی اور دیگر دیوبندیوں کے نزدیک مستند اور سچے ہیں ۔

کتاب کا مقصد بزرگوں کے واقعات سے فیض اٹھانا ہے : ارواح ثلاثہ کے مقدمہ میں ظہور الحسن دیوبندی کتاب کا مقصد یہ بتاتے ہیں کہ بہت سے لوگ جو دنیاوی زندگی میں بہت مصروف ہوتے ہیں اور بزرگوں کے پاس نہیں بیٹھ سکتے اور فیض صحبت نہیں اٹھا سکتے خصوصاً ان لوگوں کے لئے اکابرین دیوبند کی ان حکایات اور واقعات کو جمع کیا گیا ہے تاکہ وہ بھی ان واقعات کو پڑھکر بزرگوں کی صحبت کا فیض اٹھا سکیں کیونکہ ان کے لئے کتابوں کا مطالعہ ہی صحبت نیک کا قائم مقام ہے ۔

ارواح ثلاثہ حکایت نمبر۳۰۵ : حضرت والد ماجدمولانا حافظ محمد احمد صاحب رحمتہ اللہ علیہ اور عم محترم مولانا حبیب الرحمن صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے بیان فرمایا کہ ایک دفعہ گنگوہ کی خانقاہ میں مجمع تھا۔ اور حضرت گنگوہی اور حضرت ناناتوی کے مردید و شاگرد سب جمع تھے اور یہ دونوں حضرات بھی وہیں مجمع میں تشریف فرما تھے کہ حضرت گنگوہی نے حضرت ناناتوی سے محبت آمیز لہجے میں فرمایاکہ یہاں زرا لیٹ جاؤ۔حضرت ناناتوی رحمتہ اللہ علیہ کچھ شرما سے گئے۔مگر حضرت نے پھر فرمایا تو مولانا بہت ادب کے ساتھ چت لیٹ گئے۔حضرت بھی اسی چارپائی پر لیٹ گئے اور مولانا کی طرف کو کروٹ لے کراپنا ہاتھ ان کے سینے پر رکھ دیا جیسے کوئی عاشق صادق اپنے قلب کو تسکین دیا کرتا ہے۔ مولانا ہرچند فرماتے ہیں کہ میاں کیا کررہے ہویہ لوگ کیا کہیں گے ۔حضرت نے فرمایا لوگ کہیں گے کہنے دو۔

ارواح ثلاثہ حکایت نمبر۲۲۶ : خان صاحب نے فرمایاکہ جب منشی ممتاز علی کا مطبع میرٹھ میں تھا۔اس زمانہ میں ان کے مطبع میں مولانا ناناتوی بھی ملازم تھے اور ایک حافظ صاحب بھی نوکر تھے۔یہ حافظ جی بالکل آزاد تھے۔رندانہ وضع تھی چوڑی دار پاجامہ پہنتے تھے۔داڑھی چڑھاتے تھے۔ نماز کبھی نہ پڑھتے تھے مگر مولانا ناناتوی سے ان کو اور مولانا ناناتوی کی ان سے نہایت گہری دوستی تھی ۔وہ مولانا کو نہلاتے اور کمر ملتے تھے۔اور مولانا ان کو نہلاتے اور کمر ملتے تھے۔مولانا ان کو کنگھا کرتے تھے اور وہ مولانا کو کنگھا کرتے تھے۔اگر کبھی مٹھائی وغیرہ مولانا کے پاس آتی تو ان کا حصہ ضرور رکھتے تھے۔غرض بہت گہرے تعلقات تھے ۔مولانا کے معتقد دوست مولانا کی ایک ایسے آزاد شخص کے ساتھ اس قسم کی دوستی سے ناخوش تھے مگر وہ اس کی پرواہ نہ کرتے تھے۔ایک مرتبہ جمعہ کا دن تھا۔مولانا نے حسب معمول حافظ جی کو نہلایا ۔او ر حافظ جی مولانا کو جب نہلا چکے تو مولانا نے فرمایا حافظ جی تم میں اور مجھ میں دوستی ہے.....الخ

ارواح ثلاثہ حکایت۲۴۴ : والد صاحب نے فرمایا کہ ایک دفعہ چھتے کی مسجد میں مولانا فیض الحسن صاحب استنجے کے لئے لوٹا تلاش کر رہے تھے اور اتفاق سے سب لوٹوں کی ٹونٹیاں ٹوٹی ہوئی تھیں۔ فرمانے لگے کہ یہ تو سارے ہی لوٹے مختون ہیں ۔حضرت نے ہنس کر فرمایا پھر آپ کو تو بڑا استنجا نہیں کرنا ہے ۔ (گویا مختون سے کیا ڈرہے) ۔

ارواح ثلاثہ حکایت ۲۵۱ : حضرت والد صاحب مرحوم نے فرمایا کہ مولانا منصور علی خان صاحب مرحوم مراد آبادی حضرت ناناتوی رحمتہ اللہ علیہ کے تلامذہ میں سے تھے۔طبیعت کے بہت پختہ تھے اس لئے جدھر طبیعت مائل ہوتی تھی پختگی اور انہماک کے ساتھ ادھر جھکتے تھے۔انہوں نے اپنا واقعہ خود بھی مجھ سے نقل فرمایا کہ مجھے ایک لڑکے سے عشق ہوگیا اور اس قدر اس کی محبت نے طبیعت پر غلبہ پایا کہ رات دن اسی کے تصور میں گزرنے لگے میری عجیب حالت ہوگئی تمام کاموں میں اختلال ہوگیا۔حضرت کی فراست نے بھانپ لیا لیکن سبحان اللہ تربیت و نگرانی اسے کہتے ہیں کہ نہایت بے تکلفی کے ساتھ حضرت نے میرے ساتھ دوستانہ برتاؤ شروع کیا اور اسے اس قدر بڑھا یا کہ جیسے دو یار آپس میں بے تکلف دل لگی کیا کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ خود ہی اس محبت کا ذکر چھیڑا ۔ فرمایا کہ ہاں بھئی وہ (لڑکا) تمہارے پاس کبھی آتے بھی ہیں یا نہیں؟ میں شرم و حجاب سے چپ رہ گیا تو فرمایا کہ نہیں بھائی یہ حالات تو انسان ہی پر آتے ہیں۔اس میں چھپانے کی کیا بات ہے غرض اس طریق سے مجھ سے گفتگو کی کہ میری ہی زبان سے اس کی محبت کا اقرار کرالیا۔اور کوئی خفگی اور ناراضگی نہیں ظاہر کی۔بلکہ دل جوئی فرمائی.....الخ

ارواح ثلاثہ حکایت ۲۱۰ : حضرت حافظ صاحب کے مزاج اور خوش مزاجی کے بہت قصے بیان فرمایا کرتے تھے۔ایک بار فرمایا ۔حافظ صاحب کو مچھلی کے شکار کا بہت شوق تھا۔ایک بار ندی پر شکار کھیل رہے تھے۔کسی نے کہا’’ حضرت ہمیں‘‘ آپ نے فرمایا’’اب کے ماروں تیری‘‘ ۔

ارواح ثلاثہ حکایت ۱۱۴ : میں سید صاحب کے دونوں پاؤں کے درمیان بیٹھا تھاتو چونکہ میں چھوٹا بچہ تھا اس لئے سید صاحب کے پاؤں چھیڑ رہا تھا۔کبھی اس پاؤں کو چھیڑتا تھا کبھی دوسرے پاؤں کو۔اور چھیڑتا اس طرح تھا کہ قدم پر ہاتھ رکھ کر گدگداتا ہوا اوپر کو لے جاتا تھا۔لیکن جب میرا ہاتھ نصف ساق سے اوپر جاتا تو فوراً سید صاحب اسے نیچے اتار دیتے تھے بہت سی دفعہ میں نے ایسا ہی کیا اور سید صاحب نے ہمیشہ میرے ہاتھ کو نیچے اتار دیا۔

ارواح ثلاثہ حکایت ۱۰۰ : خاں صاحب نے فرمایا کہ میاں جی محمدی صاحب حکیم خادم علی صاحب شیخ فیاض علی صاحب شیخ قاسم علی صاحب یہ چاروں ماموں ’پھوپھی‘ خالہ زاد بھائی تھے۔ ان میں سے شیخ قاسم علی صاحب شاہ عبدالعزیز صاحب کے کچھ شاگرد تھے ان پر نہایت فریفتہ تھے ۔ میاں جی محمدی صاحب سید صاحب کے مرید اور ان پر عاشق تھے ۔حکیم خادم علی صاحب مولوی محمد اسمٰعیل صاحب پر دیوانہ تھے۔شیخ فیاض علی صاحب شاہ اسحاق صاحب پر فریفتہ تھے ۔

ارواح ثلاثہ حکایت ۲۷۱ : فرمایا کہ امیر شاہ خاں صاحب رحمتہ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ بزرگوں کی شانیں مختلف ہوتی ہیں ۔ بعضوں کے خدام تو اپنے شیخ کے عاشق ہوتے ہیں اور بعضوں کے نہیں ہوتے ۔ چناچہ مولانا محمد قاسم صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے خدام آپ کے عاشق تھے ۔

ارواح ثلاثہ حکایت ۲۱۵ : اب سنو کہ لکھنو کے اطراف میں ایک مقام پر ایک عالم رہتے تھے۔وہ ایک لڑکے پر عاشق تھے اور اس کو بہت محبت سے پڑھاتے تھے ۔ جب والد صاحب کو اس کے حسن کا قصہ معلوم ہوا تو وہ حسب عادت اسے دیکھنے چل دئیے۔ جس مسجد میں وہ رہتے تھے اس کے جنوب میں ایک سہ دری تھی اور اس سہ دری کے اند رجانب غروب ایک کوٹھری تھی اور اس کوٹھری کے آگے شمالاً اور جنوباً ایک چارپائی بچھی ہوئی تھی ۔ جس وقت والد صاحب پہنچے ہیں تو اس وقت لڑکا کوٹھری کے اندر تھا ۔اور وہ عالم اس چارپائی سے کمر لگائے ہوئے اور کوٹھری کی طرف پشت کیے ہوئے بیٹھے تھے۔والد صاحب اسباب رکھ کر ان عالم سے مصافحہ کرنے لگے جب یہ سہ دری میں پہنچے ہیں تو وہ لڑکا ان کودیکھ کر کوٹھڑی میں سے نکلا ۔ والد صاحب نے مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھائے تھے کہ ان کی نظر لڑکے پر پڑ گئی جس سے مصافحہ تو رہ گیا اور وہ والد صاحب اس لڑکے کو دیکھنے میں مستغرق ہوگئے ان عالم نے جب یہ دیکھا کہ یہ مصافحہ کرنا چاہتے تھے ’ مگر مصافحہ نہیں کرسکے تو انہوں نے منہ پھیر کر اپنے پیچھے دیکھا تو ان کو معلوم ہوا کہ لڑکا کھڑا ہے ۔اور یہ اس کے دیکھنے میں مصروف ہیں جب ان کو معلوم ہوا کہ یہ حضرت بھی ہمارے ہم رنگ معلوم ہوتے ہیں تو انہوں نے اس لڑکے کو آواز دی اور کہا کہ ان صاحب سے مصافحہ کرو۔وہ لڑکا آیا اور اس نے مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھا یا ۔اس وقت ان عالم صاحب نے یہ شعر پڑھا ۔
ایں ست کہ خوں خوردہ و دل بردہ بسے را
بسم اللہ اگر تاب نظر ہست کسے را

ارواح ثلاثہ حکایت ۲۷۵ : فرمایا کہ ایک مرتبہ نبو پہلوان نے جو دیوبند کا رہنے والا تھاباہر کے کسی پہلوان کو پچھاڑ دیا تو مولانا محمد قاسم صاحب رحمتہ اللہ علیہ کو بڑی خوشی ہوئی اور فرمایا ہم بھی نبو کو اور اس کے کرتب کو دیکھیں گے۔حافظ انوار الحق کی بیٹھک میں اسے بلایا اور سب کرتب بھی دیکھے۔مولانا بچوں سے ہنستے بولتے بھی تھے اور جلال الدین صاحبزادہ مولانا محمد یعقوب صاحب سے جو اس وقت بالکل بچے تھے‘ بڑی ہنسی کیا کرتے تھے کبھی ٹوپی اتارتے کبھی کمر بند کھول دیتے تھے۔

جب حیا نہ رہے ۔۔۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جب تم میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کرو۔ مطلب یہ کہ جب انسان میں سے حیا رخصت ہوجاتی ہے تو وہ بے شرم ہو جاتا ہے پھر اسے کوئی بھی قابل اعتراض بات قابل اعتراض نہیں لگتی ۔ اعتراض کی صورت میں وہ الٹا لوگوں سے پوچھ رہا ہوتا ہے کہ آخر اس میں کونسی بات بری ہے ؟ ۔

ہر سلیم الفطرت شخص ان واقعات کو پڑھنے کے بعد کانوں کو ہاتھ لگائے گا ۔ لیکن دیوبندیوں کو ان واقعات میں کوئی بری بات نظر نہیں آرہی !!! اس سے ثابت ہوا کہ دیوبندی سلیم الفطرت نہیں ہیں بلکہ خبث باطن رکھنے والے گندے لوگ ہیں ۔

ایک بات ضرور ہے کہ اگر یہ واقعات کسی بریلوی عالم یا ان کے کسی اور مخالف سے منسوب ہوتے تو یہ دیوبندی شرم و حیا کا پیکر بن کر خوب ان واقعات پر تھو تھو کرتے اور اپنے مخالفین پر لعن طعن میں بھی کوئی کمی نہ کرتے ۔ دیوبندی علماء مخالفین کی مذمت میں صفحات کے صفحات سیاہ کرتے اور اپنی تقاریر کے ذریعے پروپیگنڈہ کرکے دن رات ایک کردیتے ۔ الیاس گھمن ، ساجد خان نقشبندی ، ایوب قادری دیوبندی اینڈ پارٹی ویسے بھی اس کام میں ماہر ہے ۔

لیکن ! حسرت ان غنچوں پر جو بن کھلے مرجھا گئے

بعض دیوبندیوں کا یہ اعتراف بھی خوب ہے کہ انسانوں کی زندگی میں اس طرح کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں ۔ میں اس بات سے سوفیصد متفق ہوں لیکن صرف ان انسانوں کی زندگی میں یہ واقعات پیش آتے ہیں جو اس قماش کے ہوتے ہیں جیسے دیوبندی اکابرین اغلام باز تھے اسی لئے ان کی زندگی میں بارہا لڑکوں سے منہ کالا کروانے کے واقعات پیش آئے اور اب بھی آتے رہتے ہیں ۔ یہ تو صرف وہ واقعات ہیں جو تحریر میں آسکے ہیں ورنہ معلوم ہوتا ہے کہ دیوبندی اکابرین کی ساری زندگی لونڈے بازی میں ہی گزری ہے ۔

دیوبندی حضرات سے میری عرض ہے کہ یہ وہ واقعات نہیں ہیں کہ جنہیں آپ سرسری طور پر پڑھ کر آگے بڑھ جائیں بلکہ آپ کے علماء نے حکایات اولیاء کے نام سے یہ واقعات صرف اس لئے ذکر کئے ہیں تاکہ عام دیوبندی جو اولیاء الشیاطین کی صحبت سے مصروفیت کی وجہ سے محروم رہتے ہیں ان واقعات کو پڑھ کر اور ان پر عمل پیرا ہوکر اپنے بزرگوں سے فیض حاصل کریں ۔ شرم کے مارے شاید آپ اقرار نہ کریں لیکن مجھے یقین ہے کہ آپ بھی اپنے بزرگوں کے فیض سے خوب فیضیاب ہوئے ہونگے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

1 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔