Monday 23 December 2019

علمائے کرام کے احترام اور توہین کے شرعی احکام

0 comments
علمائے کرام کے احترام اور توہین کے شرعی احکام
محترم قارئینِ کرام : علماء داعیان حق و صداقت ، ہادیان راہ ہدایت ، پاسبان مذہب و شریعت ، مہمانانِ نبی رحمت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ، خیابان علم و حکمت ، رہبرانِ انسانیت ، پیشوایان امت ، مربیان علم و معرفت ، حاملین علوم و نبوت ، معلمین کتاب و حکمت ، مصلحین قوم و ملت ہیں ۔ اسی بناء پر رب العزت نے ان کا درجہ و مرتبہ بلند فرمایا ہے : قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ ۔(سورة الزمر آیات نمبر9) ۔ ترجمہ : آپ فرما دیجیئے کیا علم والے اور بے علم برابر ہیں ؟

اس آیت سے علم اورعلماءِ کرام کی فضیلت معلوم ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے علم والوں کو بے علموں سے ممتاز فرمایا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے بہت ہی محکم انداز میں اس کائنات کو رچایا اور بسایا ۔ اس کائنات میں جن و انس کی خلقت فرمائی اور ان کی ہدایت و رہنمائی کے لئے نبیوں اور رسولوں علیہم السّلام کا سلسلہ جاری فرمایا ۔ رسولوں علیہم السّلام کی آمد کا یہ سلسلہ آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ منقطع ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام علیہم السّلام کے مشن کی انجام دہی کے لئے علمائے کرام کی جماعت تیار فرمائی ۔ علمائے کرام حقیقی معنوں میں سماج و معاشرہ کی اصلاح کے اولین ذمہ دار اور انسانیت کے حقیقی بہی خواہ ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے کاندھوں پر عوام کو سیدھی راہ دکھانے کی ذمہ داری رکھی ہے اور کتاب و سنت کی توضیح و تفسیر اور دعوت و ارشاد کا فریضہ عائد کیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی زبانی یہ لوگ اللہ تعالیٰ سے حقیقی معنوں میں خوف کھاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء ، بلکہ رب تعالیٰ نے ببانگ دہل قرآن مجید میں یہ وضاحت فرمادی ہے کہ عالم اور جاہل بہرصورت برابر نہیں ہوسکتے ۔ فرمایا : قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ ۔ (سورة الزمر آیات نمبر9)
ترجمہ : آپ فرما دیجیئے کیا علم والے اور بے علم برابر ہیں ؟

احادیث مبارکہ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ علمائے کرام کا مقام و مرتبہ انتہائی بلند و بالا ہے ۔ اللہ تعالیٰ جسے علم شرعی کے حصول کی توفیق بخشتا ہے گویا اس کے حق میں خیر کا ارادہ فرماتا ہے ۔ (صحیح بخاری ؍71، صحیح مسلم؍1037،چشتی)

یہی نہیں ، احادیث مبارکہ میں وارد ہے کہ ایک عالم جتنے انسانوں کو علم سکھاتا ہے ، وفات کے بعد بھی اس کا ثواب اسے ملتا رہتا ہے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب انسان مرجاتا ہے تواس کے لئے نیکیوں کا سلسلہ بند ہوجاتا ہے ، سوائے تین اعمال کے ۔ ان میں سے ایک عمل یہ ہے کہ انسان نے اپنے پیچھے ایسا علم چھوڑا ہو جس سے لوگ فائدہ اٹھارہے ہوں ۔ (صحیح مسلم؍1631)

غرضیکہ علمائے کرام کی قدر و منزلت ، رفعت شانی اور بلند مکانی کے بیان سے کتاب و سنت کے نصوص بھرے ہوئے ہیں ۔ آج ہم اس مختصر مضمون میں علمائے کرام کے ایسے ہی چند فضائل کو ذکر کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں کیونکہ موجودہ دور میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہر طرف لوگ علمائے کرام کی شان میں گستاخی کے مرتکب ہو رہے ہیں اور ان کی تنقیص کر رہے ہیں ۔ یقینی طور پر اس کے ذمہ دار بہت حد تک علمائے کرام کی جماعت بھی ہے کیونکہ انہوں نے بھی اپنے وقار کو مجروح کیا ہے ، نیز لوگوں کا رشتہ بھی اپنے دین سے انتہائی کمزور ہوا ہے ، اس کی وجہ سے بھی ان کے دلوں میں علماء کی عزت کم ہوئی ہے ۔ اللہ کرے یہ چند سطور علماء کرام کی عزت و وقار کی بحالی کے سلسلے میں معاون ثابت ہوں ۔ بلاشبہ علماء کا گوشت زہر آلود ہے اور اپنے حریف کی پردہ دری سنت الہی ہے اورجو شخص علماء پر زبان طعن دراز کرے گا اللہ اس کو اس کی موت سے قبل اس کے دل کو مردہ کرکے گرفتار مصیبت کردے گا ـ اس لئے علماء پر لعن و طعن کبھی اور کسی حال میں جائز و حلال نہیں ۔

اَحادیث مبارکہ میں بھی علماء کے فضائل بیان کئے گئے ہیں

حضرت حذیفہ بن یمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ’’علم کی فضیلت عبادت کی فضیلت سے زیادہ ہے اور تمہارے دین کی بھلائی تقویٰ و پرہیز گاری (میں ) ہے ۔ ( معجم الاوسط، باب العین، من اسمہ: علی، ۳/۹۲، الحدیث: ۳۹۶۰)

حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’عالم کی عابد پر فضیلت ایسی ہے جیسے چودھویں رات کے چاند کی تمام ستاروں پر فضیلت ہے ۔ ( ابو داؤد، کتاب العلم، باب الحث علی طلب العلم، ۳/۴۴۴، الحدیث: ۳۶۴۱،چشتی)

حضرت ابو امامہ باہلی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں دو آدمیوں کا ذکر کیا گیا ، ان میں سے ایک عالِم تھا اور دوسرا عبادت گزار ، تو نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : عالم کی فضیلت عبادت گزار پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تمہارے ادنیٰ پر ہے ، پھر نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ ، اس کے فرشتے ، آسمانوں اور زمین کی مخلوق حتّٰی کہ چیونٹیاں اپنے سوراخوں میں اور مچھلیاں لوگوں کو (دین کا) علم سکھانے والے پر درود بھیجتے ہیں ۔ ( ترمذی، کتاب العلم، باب ما جاء فی فضل الفقہ علی العبادۃ، ۴/۳۱۳، الحدیث: ۲۶۹۴)

حضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : (قیامت کے دن) عالم اور عبادت گزار کو لایا جائے گا اور عبادت گزار سے کہا جائے گا ’’ تم جنت میں داخل ہو جاؤ جبکہ عالم سے کہا جائے گا کہ تم ٹھہرو اور لوگوں کی شفاعت کرو کیونکہ تم نے ان کے اَخلاق کو سنوارا ہے ۔ ( شعب الایمان، السابع عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی فضل العلم وشرفہ، ۲/۲۶۸، الحدیث: ۱۷۱۷،چشتی)

ایک ساعت علم حاصل کرنا ساری رات قیام کرنے سے بہتر ہے ۔ ( مسند الفردوس، باب الطائ، ۲/۴۴۱، الحدیث: ۳۹۱۷)

علم عبادت سے افضل ہے۔ (کنز العمال، حرف العین، کتاب العلم، قسم الاقوال، الباب الاول، ۵/۵۸، الجزء العاشر، الحدیث: ۲۸۶۵۳)

علم اسلام کی حیات اور دین کا ستون ہے۔ (کنز العمال، حرف العین، کتاب العلم، قسم الاقوال، الباب الاول، ۵/۵۸، الجزء العاشر، الحدیث: ۲۸۶۵۷)

علماء زمین کے چراغ اور انبیاء ِکرام عَلَیْہِ مُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے وارث ہیں ۔ (کنز العمال، حرف العین، کتاب العلم، قسم الاقوال، الباب الاول، ۵/۵۹، الجزء العاشر، الحدیث: ۲۸۶۷۳)

مرنے کے بعد بھی بندے کو علم سے نفع پہنچتا رہتا ہے ۔ ( مسلم، ص۸۸۶، الحدیث : ۱۴(۱۶۳۱))

ایک فقیہ شیطان پر ہزار عابدوں سے زیادہ بھاری ہے ۔ ( ترمذی، کتاب العلم، باب ما جاء فی فضل الفقہ علی العبادۃ، ۴/۳۱۱، الحدیث: ۲۶۹۰،چشتی)

علم کی مجالس جنت کے باغات ہیں ۔ ( معجم الکبیر، مجاہد عن ابن عباس، ۱۱/۷۸، الحدیث: ۱۱۱۵۸)

علم کی طلب میں کسی راستے پر چلنے والے کے لئے اللّٰہ تعالیٰ جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے ۔ ( ترمذی، کتاب العلم، باب فضل طلب العلم، ۴/۲۹۴، الحدیث: ۲۶۵۵)

قیامت کے دن علماء کی سیاہی اور شہداء کے خون کا وز ن کیا جائے گا تو ان کی سیاہی شہداء کے خون پر غالب آجائے گی ۔ ( کنز العمال، حرف العین، کتاب العلم، قسم الاقوال، الباب الاول، ۵/۶۱، الجزء العاشر، الحدیث: ۲۸۷۱۱)

عالِم کے لئے ہر چیز مغفرت طلب کرتی ہے حتّٰی کہ سمندر میں مچھلیاں بھی مغفرت کی دعا کرتی ہیں ۔ ( کنز العمال، حرف العین، کتاب العلم، قسم الاقوال، الباب الاول، ۵/۶۳، الجزء العاشر، الحدیث: ۲۸۷۳۵،چشتی)

علماء کی صحبت میں بیٹھنا عبادت ہے۔( مسند الفردوس، باب المیم، ۴/۱۵۶، الحدیث: ۶۴۸۶)

علماء کی تعظیم کرو کیونکہ وہ انبیاء ِکرام عَلَیْہِ مُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے وارث ہیں ۔ ( ابن عساکر، عبد الملک بن محمد بن یونس بن الفتح ابو قعیل السمرقندی، ۳۷/۱۰۴)

اہلِ جنت،جنت میں علماء کے محتاج ہوں گے ۔ ( ابن عساکر، محمد بن احمد بن سہل بن عقیل ابوبکر البغدادی الاصباغی، ۵۱/۵۰)

علماء آسمان میں ستاروں کی مثل ہیں جن کے ذریعے خشکی اور تری کے اندھیروں میں راہ پائی جاتی ہے ۔ ( کنز العمال، حرف العین، کتاب العلم، قسم الاقوال، الباب الاول، ۵/۶۵، الجزء العاشر، الحدیث: ۲۸۷۶۵)

قیامت کے دن انبیاء ِکرام عَلَیْہِ مُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد علماء شفاعت کریں گے۔( کنز العمال، حرف العین، کتاب العلم، قسم الاقوال، الباب الاول، ۵/۶۵، الجزء العاشر، الحدیث: ۲۸۷۶۶)
کیا علماء کا قوم کے لئے ہونا ضروری ہے یا نہیں ؟ اگر نہیں ہے تو اس کا قائل ہونا پڑے گا کہ پھر اسلام کی بھی ضرورت نہیں کیونکہ بدوں علماء کے اسلام قائم نہیں رہ سکتا کیونکہ کوئی پیشہ بدون اس کے ماہرین کے چل نہیں سکتا ۔ یہ اور بات کہ تھوڑی بہت دینی معلومات سب کو ہوجائیں اور اس سے وہ محدود وقت تک کچھ ضرورت رفع کریں مگر اس سے اس مقدار ضرورت کا بقا نہیں ہوسکتا ۔

بقاء کسی شے کا ہمیشہ اس کے ماہرین سے ہوتا ہے تو ماہرین علماء کی ضرورت ٹھہری ۔ پھر یہ ماہرین کیسے پیدا ہوں ؟ سو تجربہ سے اس کی صرف یہی صورت ہے کہ ساری قوم پر واجب ہے کہ چندہ سے کچھ سرمایہ جمع کرکے علماء کی خدمت کرکے آئندہ نسل کو علوم دینیہ پڑھائیں اور برابر یہی سلسلہ جاری رکھیں ۔

سو عقلا تو یہ بات واجب تھی کہ ساری قوم اس کی کفیل ہوتی مگر ایک طالب علم بیچارہ آپ ہی ہر مصیبت جھیل کے تحصیل علوم دینیہ میں مشغول ہوا تو چاہئے تو یہ تھا کہ آپ اس کی قدر کرتے بجائے اس کے رہزنی کرتے ہیں کہ عربی پڑھوگے تو کھاؤ گے کیا ؟ کیا مسجد کے مینڈھے بنو گے ؟ ہاں صاحب دنیا کا کتا بننے سے اچھا ہے ۔ تاریخ اس امر کی شہادت دے رہی ہے کہ مسلمانوں کی دنیا دین کے ساتھ درست ہوتی ہے ۔ یعنی جب ان کے دین میں ترقی ہوتی ہے تو دنیا میں بھی ترقی ہوتی اور جب دین میں کوتاہی ہوتی ہے تو دنیا بھی خراب ہوجاتی ہے تو جب ہم دین سکھلاتے ہیں معاملات معاشرت اخلاق کو درست کرتے ہیں تو گویا ہم دنیا کی ترقی کی تدابیر بھی کرتے ہیں ۔

علماء کرام کی قدر و منزلت کا اندازہ لگانا ہے تو آپ سیر و مغازی اور تاریخ کی کتابیں پڑھیں ۔ آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ ہر دور میں علماء کو کس قدر عزت و تکریم حاصل ہوئی، نیز امراء و خلفاء نے عالموں کو دیگر افراد پر فوقیت بخشی ۔چنانچہ عبدالرحمن بن ابزی کو دیکھیں کہ حضرت فاروق اعظم عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے انہیں اہل وادی کا گورنر متعین کیا تھا حالانکہ وہ ایک غلام تھے اور جب اس بارے میں ان سے سوال ہوا تو انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ اس مقدس کتاب کے ذریعہ بہت سارے لوگوں کو سربلندی عطا کرتا ہے ۔ (صحیح مسلم؍817)

ایک بار کا واقعہ ہے کہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے جنازے میں شرکت کی اور اس کے بعد اپنے خچر پر سوار ہونا چاہا تو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے ان کی سواری کا رکاب تھام لیا جسے دیکھ کر زید بن ثابت رضی اللہ عنہ گویا ہوئے : رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بھتیجے ! یہ کیا کررہے ہو؟ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے عرض کیا : ہمیں علماء کے ساتھ ایسے ہی پیش آنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ اس کے بعد زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے ہاتھ کا بوسہ لیا اور کہا کہ ہمیں بھی اہل بیت کے ساتھ اسی عزت کا حکم دیا گیا ہے ۔ (مدارج السالکین لابن قیم الجوزیۃ2؍330،چشتی)

علماء کا مقام امت میں نائبین انبیاء علیہم السّلام کا ہے ۔ علماء انبیاء علیہم السّلام کے وارث ہیں یہ وراثت علمی ہ ے۔ ہمارے معاشرے کا ایک بہت بڑا طبقہ علماء کی شان میں گستاخی کرنا اپنا مقصد سمجھتا ہے ۔ کچھ طبقات جان بوجھ کر اور سمجھ رکھتے ہوئے یہ لعن و طعن کرتے ہیں ۔ جبکہ کچھ لوگ انجانے میں اور نا سمجھی کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں۔ علماء اور صلحاء کی شان میں گستاخی کرنا ، ان کی اہانت کرنا ، ان کا مذاق اڑانا اور تحقیر کرنا یہ سب انتہائی نقصان کا باعث ہے ان باتوں سے ایمان جانے کا خطرہ ہے ۔ غیر سیاسی علماء کے تو اکثر لوگ معتقد ہوتے ہیں ان کی تعریفیں کرتے ہیں لیکن سیاسی علماء جو سیاست میں حصہ لیتے ہیں ان کے بارے میں بیباک لہجہ اپنانا ہمارا شیوہ بن چکا ہے کیونکہ ان کی رائے ہماری رائے سے مختلف ہوتی ہے یا کچھ جماعتوں کی یہ خصلت و جبلت ہے کہ ان جماعتوں میں کام کرنے والوں کا ذہن ہی بغض علماء پر بنایا جاتا ہے ان کی مجلسوں اور محفلوں میں سوائے علماء کی غیبت کے باقی کچھ نہیں ملتا ۔

ایک مسلمان کےلیے یہ باتیں تعجب خیز ہیں اور ہلاکت کا سبب ہیں ۔ سوشل میڈیا پر یہ وبا عام ہے اپنے سوچ اور نظریہ سے متصادم اگر کوئی عالم ہو تو عوام اس کی عزت افزائی اس انداز میں کرتی ہے کہ سر شرم سے جھک جاتا ہے ۔ بلکہ بعض تو اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ سنت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ( داڑھی) کا مذاق اڑانے سے بھی گریز نہیں کرتے ۔ علماء کی توہین اور بدنامی کے لیے مختلف بے دین دانشوروں کے اقوال اور شاعروں کے اشعاربڑے فخر سے پیش کیے جاتے ہیں ۔

ان سب باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اور لوگوں کی رہنمائی کے لیے فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی نے اس مضمون میں چند احادیث جمع کی ہیں جو اوپر آپ نے پڑھی ہیں ۔ ان کی روشنی میں ہم اپنی اصلاح کر سکتے ہیں ۔ بھٹکے ہوؤں کو راستہ مل سکتا ہے ، پھسلے ہوئے سنبھل سکتے ہیں ، راہ سے ہٹے ہوئے راہ پا سکتے ہیں ۔ ایک مسلمان کے لیے قرآن و احادیث سے بڑی رہنمائی کسی اور کتاب میں نہیں ۔ لہذا ہمیں ان احادیث کی روشنی میں اپنی سمت بدلنی چاہیے اور گزشتہ گناہوں پر توبہ کر کے آئیندہ احتیاط سے چلنا چاہیے ۔ اختلاف ضرور رکھیں لیکن تحقیر نہ کریں ، کم نظر سے نہ دیکھیں ، اور علماء سے محبت کرنے والے بن جائیں ۔

عالم کی توہین کی تین صورتیں اور ان کے بارے میں شرعی حکم بیان کرتے ہوئے

سیدی اعلیٰ حضرت ، امام اہلسنت ، مولانا شاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :

(1) اگر عالمِ (دین) کو اس لئے بُرا کہتا ہے کہ وہ عالم ہے جب تو صریح کافر ہے

(2) اور بوجہِ علم اس کی تعظیم فرض جانتا ہے مگر اپنی کسی دُنْیَوی خُصومت (دشمنی) کے باعث برا کہتا ہے گالی دیتا (ہے اور) تحقیر کرتا ہے تو سخت فاجر ہے

(3) اور اگر بے سبب (بلا وجہ ) رنج (بغض) رکھتا ہے تو مَرِیْضُ الْقَلْب وَخَبِیْثُ الْبَاطِن (دل کا مریض اور ناپاک باطن والا ہے) اور اس (خواہ مخواہ بغض رکھنے والے ) کے کفر کا اندیشہ ہے۔ خلاصہ (کتاب) میں ہے : مَنْ اَبْغَضَ عَالِماً مِنْ غَیْرِ سَبَبٍ ظَاھِرٍخِیْفَ عَلَیْهِ الْکُفْر ۔
ترجمہ : جو بلا کسی ظاہری وجہ کے عالمِ دین سے بغض رکھے اس پر کفر کا خوف ہے ۔ (خلاصۃ الفتاویٰ، جلد 4، صفحہ 388، مطبوعہ مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ )( فتاویٰ رضویہ، جلد 21، صفحہ 129، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاھور،چشتی)

یہاں پر بین الطرفین اھلسنت عوام کو عبرت حاصل کرنی چاہیئے کہ کوئی کسی سنی عالمِ دین پر اعتراضات و بکواسات کر رہا ہے تو کوئی کسی کے خلاف باتیں کر رہا ہے بہر کیف ان لوگوں کو سوچ لینا چاہیئے کہ :

اگر علمِ دین کی توھین کہ نیت سے کچھ کہا تو کافر ہو جائے گا ۔

اگر علمِ دین کی توھین تو مقصود نہیں مگر تحریکی اختلاف کی بنا پر برا کہتا ہے گالی دیتا ہے تحقیر کرتا ہے تو بھی فاسق و فاجر ہے ۔

اگر بلا وجہ بُغض رکھتا ہے تو ایمان کی خیر منائے کہ فقھاء نے لکھا کہ صحیح العقیدہ عالمِ دین سے بغض رکھنے والے کا کفر پر خاتمے کا اندیشہ ہے ۔

سیدی اعلیٰ حضرت، علیہ الرحمہ عُلَمائے دین کی توہین کرنے سے متعلق مزید فرماتے ہیں کہ علماء کی توھی : سخت حرام، سخت گُناہ، اَشَدّ کبیرہ۔ عالمِ دین سُنّی صحیح العقیدہ کہ لوگوں کو حق کی طرف بلائے اور حق بات بتائے محمّد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نائِب ہے۔ اس کی تحقیر(توہین) مَعَاذَ اللہ محمّد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی توہین ہے اور محمّد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جناب میں گستاخی مُوجِبِ لعنتِ الٰہی و عذابِ الیم ہے۔(فتاویٰ رضویہ، جلد 23، صفحہ 649، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاھور)

اللہ ان لوگوں کو ہدایت دے جو علمائے کے بارے بکواسات کر رہے ہیں ..... غور سے پڑھیں کہ سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ صحیح العقیدہ سنی عالم رسول اللہ علیہ السلام کا نائب ہے اور اسکی توھین رسول اللہ علیہ السلام کی توہین و گستاخی ہے اور رسول اللہ کی توہین کرنے والا لعنتی ہے ۔

تو خدارا : باھم صحیح العقیدہ سنی علماء کے متعلق پوسٹس کرنے سے گریز کیجئے ۔ بالفرض آپ علمِ دین کی توہین کی نیت سے کچھ نہیں کہتے بلکہ تنظیمی و تحریکی اختلافات کی بنا پر تحقیقر کرتے ہیں تو بھی ناجائز و گناہ ہے ۔

صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ : عوام کو علماء سے بدظن کرنا بہت سخت گناہ ہے کہ جب بدظن ہونگے (تو) اُن (یعنی علما) سے بیزار ہونگے اور ہلاکت میں پڑیں گے ۔ (فتاویٰ امجدیہ، جلد 4، صفحہ 515، مطبوعہ مکتبہ رضویہ کراچی شریف)

اگر آپ کی وجہ سے کوئی صحیح العقیدہ سنی عالم سے بد ظن ہو گیا تو دنیا و آخرت میں ہلاکت ہی ہلاکت ہو گی ۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ایمان کی حفاظت فرمائے اور ہمیں صدا بے ادبی سے محفوظ رکھے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔