Saturday 21 December 2019

جو ہوچکا جو ہوگا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم اللہ کی عطاء سے جانتے ہیں

0 comments

جو ہوچکا جو ہوگا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم اللہ کی عطاء سے جانتے ہیں

محترم قارئینِ کرام : بعض لوگ اس عقیدے کو جو کہ قران و حدیث سے ماخوذ ہے مشرکانہ عقیدہ بتاتے ہیں حالانکہ ایسا کہنا ازلی شقاوت کے اظہار کے علاوہ کچھ حیثیت نہیں رکھتا جب کہ اس کے برعکس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کیلئے علم ماکان ومایکون کا عقیدہ دراصل اکابرین و سلف صالحین علیہم الرّحمہ کا عقیدہ ہے ۔

ﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا !"خلق الانسان علمہ البیان" اسی نے انسان کو پیدا کیا اور اسے بولنا سکھایا ۔ (ترجمہ جونا گڑھی غیر مقلد)

ان آیات کی تفسیر میں مفسرین نے بہت کچھ لکھا ہے ان میں سے چند اکابرین مفسرین علیہم الرّحمہ کی تفاسیر پیش خدمت ہیں : مشہور مفسّر امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:خلق الانسان یعنی محمداً صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم علمہ البیان یعنی بیان ماکان ومایکون ۔
ترجمہ : یعنی اس آیت میں انسان سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم ہیں اور بیان سے مراد ماکان ومایکون کا بیان ہے ۔ (تفسیر البغوی معالم التنزیل صفحہ ١٢٥٧ ابی محمد حسین بن مسعود البغوی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٥١٦ھ)

اسی طرح قدیم مفسّر امام قرطبی رحمتہ ﷲعلیہ یوں فرماتے ہیں : الانسان ھاھنا یراد بہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم والبیان وقیل ماکان ومایکون ۔
ترجمہ : یعنی اس آیت میں انسان سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم ہیں اور بیان سے مراد (بعض کہتے ہیں) ماکان ومایکون کا بیان ہے ۔ (الجامع الاحکام القرآن والمبین لما تضمنہ من السنتہ وآی الفرقان الجزءالعشرون صفحہ١١٣ ، ابی عبدﷲ محمد بن احمد بن ابی بکر القرطبی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٦٧١ھ)

ایک اور مفسّر امام ابن عادل حنبلی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : المراد بالانسان ھنا محمد علیہ السلام علمہ البیان وقیل ماکان ومایکون ۔
ترجم ہ: یعنی اس آیت میں انسان سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم ہیں اور بیان سے مراد (بعض کہتے ہیں) ماکان ومایکون کا بیان ہے ۔ (اللباب فی علوم الکتاب المشہور تفسیر ابن عادل الجزء الثامن عشر صفحہ٢٩٣-٢٩٤ ، ابی حفص عمر بن علی ابن عادل الدمشقی الحنبلی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٨٨٠ھ)

اسی طرح امام ثعلبی رحمۃ اللہ علیہ کی تفسیر میں موجود ہے : خلق الانسان یعنی محمداً صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم علمہ البیان یعنی بیان ماکان ومایکون ۔
ترجمہ : یعنی اس آیت میں انسان سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم ہیں اور بیان سے مراد ماکان ومایکون کا بیان ہے ۔ ( الکشف والبیان فی تفسیر القران المشہور تفسیر الثعلبی الجزء السادس صفحہ٤٨، للعلامہ ابی اسحٰق احمد بن محمد بن ابراھیم الثعلبی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٤٢٧ھ)

الحمد للہ اہلسنت و جماعت کا عقیدہ علم غیب متقدمین مفسرین اکابرین علیہم الرّحمہ کی تفاسیر اور عقائد و نظریات کے مطابق ہے ۔

لفظ نبی کا ترجمہ

چھٹی صدی ہجری کی مشہور اور علمی شخصیّت قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ لفظ نبی کا معنی و مفہوم یوں بیان فرماتے ہیں : والمعنیٰ ان ﷲ تعالیٰ اطلعہ علیٰ غیبہ ۔ ترجمہ : اس کا معنی یہ ہے کہ ﷲ تعالیٰ نے اسے غیب پر مطلع فرمایا ہے ۔
(الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم الجزء الاول صفحہ ١٥٧ القاضی ابی الفضل عیاض مالکی الیحصُبی اندلسی ثم مراکشی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٥٤٤ھ) مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان)۔(النسختہ الثانیہ صفحہ ١٦٩ مطبوعہ دارالحدیث القاہرہ مصر،چشتی)(کتاب الشفاء اردو جلد اول صفحہ 388 مطبوعہ مکتبہ نبویہ لاہور پاکستان)۔(دوسرا نسخہ حصہ اول صفحہ 178 مطبوعہ شبیر برادرز لاہور پاکستان)

شفاء شریف کی اس عبارت کی شرح کرتے ہوئے علامہ شہاب الدین خفاجی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : (والمعنیٰ) ای معنیٰ النبی المفھوم من الکلام علیٰ ھذا القول (ان ﷲ اطلعہ علیٰ غیبہ) ای اعلمہ واخبرہ بمغیباتہ ۔
ترجمہ : علامہ خفاجی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے لفظ نبی کا جو معنی بتایا ہے کہ : ﷲ نے اسے غیب پر مطلع کیا ہے ۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ نبی وہ ہوتا ہے جسے مغیبات کا علم اور مغیبات کی خبریں دی جاتی ہیں ۔ (نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض الجزء الثالث صفحہ ٣٤١ شہاب الدین احمد بن محمد بن عمر الخفاجی المصری رحمۃ اللہ علیہ متوفی ١٠٦٩ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان)

معلوم ہوا کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے جو لفظ نبی کا ترجمہ : غیب کی خبریں بتانے والا ۔ کیا ہے یہ ترجمہ اکابرین و سلف صالحین کی تعلیمات اور ان کے عقائد کے عین مطابق ہے ۔

عقیدۂ علم غیب اور امام قرطبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

ﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : " عَالِمُ الغَیبِ فَلَا یُظہِرُ عَلیٰ غَیبِہ اَحَداً اِلَّا مَنِ الرتَضیٰ مِن الرَسُول " ۔ (سورہ جنّ آیت ٢٦ ٢٧)
ترجمہ : وہ غیب کا جاننے والا ہے اور اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا
سوائے اس پیغمبر کے جسے وہ پسند کرلے ۔ (مولوی محمد جوناگڑھی غیتر مقلد)

اس آیت کی تفسیر میں معروف مفسّر "امام قُرطبی" رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : کان فیہ دلیل علیٰ انّہ لا یعلم الغیب احد سواہ , ثم استثنیٰ من ارتضاہ من الرسل ۔
ترجمہ : اس میں اس بات پر دلیل ہے کہ ﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا پھر ان رسولوں (علیہم السّلام) کو اس سے مستثنیٰ کردیا جن پر وہ راضی ہے ۔ (الجامع الاحکام القران صفحہ ٣٠٨الجزء الحادی والعشرون مؤلف ابی عبدﷲ محمد بن احمد بن ابی بکر القرطبی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٦٧١ مطبوعہ بیروت لبنان )۔(تفسیر قرطبی (اردو) جلد دہم صفحہ ٣٩ مطبوعہ ضیاء القران لاہور)

معلوم ہوا کہ ﷲ پاک اپنے پسندیدہ رسولوں کو "علمِ غیب" عطا فرماتا ہے اور بحمد ﷲ قرآن پاک کی مذکورہ آیت اور اس کی تفسیر اسی بات پر دلالت کرتی ہے ! یہ امر بھی واضح ہوگیا کہ "اہلسنت و جماعت" نے قران کو اسی طرح سمجھا ہے جیسے اکابرین و سلف صالحین رحمھم ﷲ علیہم اجمعین نے سمجھا تھا ۔

صحیح بخاری شریف میں ہے : أن النبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم خرج حين زاغت الشمس فصلَّى الظهر ، فلما سلم قام على المنبر ، فذكر الساعة ، وذكر أن بين يديها أمورا عظاما ، ثم قال : ( من أحب أن يسأل عن شيء فليسأل عنه ، فوالله لا تسألوني عن شيء إلا أخبرتكم به ما دمت في مقامي هذا ) . قال أنس : فأكثر الناس البكاء ، وأكثر رسول الله صلَّى اللهُ عليه وسلَّم أن يقول : ( سلوني ) . فقال أنس : فقام إليه رجلٌ فقال : أين مدخلي يا رسولَ اللهِ ؟ قال : ( النار ) . فقام عبد الله بن حذافة فقال : من أبي يا رسولَ اللهِ ؟ قال : ( أبوك حذافة ) . قال : ثم أكثر أن يقول : ( سلوني ، سلوني ) . فبرك عمر على ركبتيه فقال : رضينا بالله ربا ، وبالإسلام دينا ، وبمحمد صلَّى اللهُ عليه وسلَّم ورسولا . قال : فسكت رسول الله صلَّى اللهُ عليه وسلَّم حين قال عمر ذلك ، ثم قال رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم : ( أولى ، والذي نفسي بيده ، لقد عرضت علي الجنة والنار آنفا في عرض هذا الحائط ، وأنا أصلي ، فلم أر كاليومَ في الخير والشر) . (الراوي : أنس بن مالك المحدث : البخاري المصدر : صحيح البخاري الصفحة أو الرقم: 7294 خلاصة حكم المحدث : صحيح)
ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب آفتاب ڈھلا تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم تشریف لائے اور ظہر کی نماز پڑھائی پھر سلام پھیرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور قیامت کا ذکر کیا اور پھر فرمایا : اس سے پہلے بڑے بڑے واقعات و حادثات ہیں، پھر فرمایا : جو شخص کسی بھی نوعیت کی کوئی بات پوچھنا چاہتا ہے تو وہ پوچھے، خدا کی قسم! میں جب تک یہاں کھڑا ہوں تم جو بھی پوچھو گے اس کا جواب دوں گا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگوں نے زاروقطار رونا شروع کر دیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جلال کے سبب بار بار یہ اعلان فرما رہے تھے کہ کوئی سوال کرو، مجھ سے (جو چاہو) پوچھ لو۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا : یا رسول اللہ! میرا ٹھکانہ کہاں ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : دوزخ میں۔ پھر حضرت عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ! میرا باپ کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تیرا باپ حذافہ ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بار بار فرماتے رہے مجھ سے سوال کرو مجھ سے سوال کرو، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ گھٹنوں کے بل بیٹھ کر عرض گذار ہوئے۔ ہم اﷲ تعالیٰ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر اور محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رسول ہونے پر راضی ہیں (اور ہمیں کچھ نہیں پوچھنا) ۔ راوی کہتے ہیں کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ گذارش کی تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش ہو گئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! ابھی ابھی اس دیوار کے سامنے مجھ پر جنت اور دوزخ پیش کی گئیں جبکہ میں نماز پڑھ رہا تھا تو آج کی طرح میں نے خیر اور شر کو کبھی نہیں دیکھا ۔

حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، ” أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ حِينَ زَاغَتِ الشَّمْسُ فَصَلَّى الظُّهْرَ ، فَقَامَ عَلَى الْمِنْبَرِ فَذَكَرَ السَّاعَةَ ، فَذَكَرَ أَنَّ فِيهَا أُمُورًا عِظَامًا ، ثُمَّ قَالَ : مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَسْأَلَ عَنْ شَيْءٍ فَلْيَسْأَلْ ، فَلَا تَسْأَلُونِي عَنْ شَيْءٍ إِلَّا أَخْبَرْتُكُمْ مَا دُمْتُ فِي مَقَامِي هَذَا ، فَأَكْثَرَ النَّاسُ فِي الْبُكَاءِ ، وَأَكْثَرَ أَنْ يَقُولَ : سَلُونِي ، فَقَامَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حُذَافَةَ السَّهْمِيُّ ، فَقَالَ : مَنْ أَبِي ؟ قَالَ : أَبُوكَ حُذَافَةُ ، ثُمَّ أَكْثَرَ أَنْ يَقُولَ : سَلُونِي ، فَبَرَكَ عُمَرُ عَلَى رُكْبَتَيْهِ ، فَقَالَ : رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا ، فَسَكَتَ ثُمَّ قَالَ : عُرِضَتْ عَلَيَّ الْجَنَّةُ وَالنَّارُ آنِفًا فِي عُرْضِ هَذَا الْحَائِطِ ، فَلَمْ أَرَ كَالْخَيْرِ وَالشَّرِّ ” ۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سورج ڈھلنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم تشریف لائے اور انہیں نمازِ ظہر پڑھائی جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے سلام پھیرا تو منبر پر کھڑے ہوکر قیامت کا ذکر فرمایا ۔ یہ بتلایا کہ اس سے قبل بڑے بڑے امور ظاہر ہوں گے پھر فرمایا : من اجب ان یسالنی عن شیءِِ فلیسئالنی عنہ فواللہ لا تسئالوننی عن شیی ءِِ اِلا اَخبرتکم بہٖ مادمت فی مقامی ھٰذا ۔ جو شخص ان کے متعلق مجھ سے پوچھنا چاہتا ہو وہ سوال کرے ۔ اللہ کی قسم ! میں جب تک اس جگہ کھڑا ہوں تم جس چیز کے متعلق بھی پوچھو گے میں تم کو اس کی خبردوں گا ۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب لوگوں نے یہ سنا تو انہوں نے بہت رونا شروع کردیا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بار بار یہ فرماتے تھے ۔ سَلُونِی ۔ مجھ سے پوچھو ۔ حضرت عبداللہ بن حذافہ سہمی رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہوکر عرض کیا ۔ مَن ابی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ؟ ، یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میرے والد کون ہیں ؟ فرمایا : ابوک حذافۃ ، تمہارا باپ حذافہ ہے ۔ پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ بار بار فرماتے رہے کہ مجھ سے پوچھ لو۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ گھٹنوں کے بل ہو کر عرض گزار ہوئے : ہم اللہ تعالیٰ کے رب ہونے ، اسلام کے دین ہونے اور محمد مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے نبی ہونے پر راضی ہیں ۔ حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ خاموش ہو گئے ، پھر فرمایا ابھی مجھ پر جنت اور جہنم ا س دیوار کے گوشے میں پیش کی گئیں ، میں نے ایسی بھلی اور بری چیز نہیں دیکھی ۔ (بخاری، کتاب مواقیت الصلاۃ، باب وقت الظہر عند الزوال، ۱/۲۰۰، الحدیث: ۵۴۰،چشتی)،(صحیح مسلم شریف جلد ۷ صفحہ ۹۳ باب کراھۃ اکثار السوال۔ طباعت نسخہ معتمدہ قدیمہ از مخطوطہ ترکی)

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ بُرَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي مُوسَى، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَشْيَاءَ كَرِهَهَا، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا أُكْثِرَ عَلَيْهِ غَضِبَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ لِلنَّاسِ:‏‏‏‏ “سَلُونِي عَمَّا شِئْتُمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ رَجُلٌ:‏‏‏‏ مَنْ أَبِي؟ قَالَ:‏‏‏‏ أَبُوكَ حُذَافَةُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَامَ آخَرُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَنْ أَبِي يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ أَبُوكَ سَالِمٌ مَوْلَى شَيْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا رَأَى عُمَرُ مَا فِي وَجْهِهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّا نَتُوبُ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ” ۔
ترجمہ : حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ سے ایسے سوالات کئے گئے جو ناپسند تھے جب زیادہ کئے گئے تو آپ ناراض ہو گئے ، پھر لوگوں سے فرمایا کہ جو چاہو مجھ سے پوچھ لو ۔ ایک شخص عرض گزار ہوا : میرا باپ کون ہے ؟ ارشاد فرمایا تمہارا باپ حُذافہ ہے ۔ پھر دوسرا آدمی کھڑا ہو کر عرض گزار ہوا : یا رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ ، میرا باپ کون ہے ؟ ارشاد فرمایا سالم مولی شیبہ ہے ۔ جب حضرت عمر فاروق رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے چہرۂ انور کی حالت دیکھی تو عرض کی یا رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ ، ہم اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف توبہ کرتے ہیں ۔ (بخاری، کتاب العلم، باب الغضب فی الموعظۃ والتعلیم۔۔۔ الخ، ۱/۵۱، الحدیث: ۹۲،چشتی)
بے عشق نبی جو پڑھتے ہیں بخاری
آتا ہے بخار اُن کو بخاری نہیں آتی

نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ : میری امت کی پیدائش سے پہلے جب میری امت مٹی کی شکل میں تھی اس وقت وہ میرے سامنے اپنی صورتوں میں پیش کی گئی جیسا کہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر پیش کی گئی اور مجھے علم دیا گیا کہ کون مجھ پر ایمان لائے گا اور کون کفر کرے گا۔ یہ خبر جب منافقین کو پہنچی تو انہوں نے اِستِہزاء کے طور پر کہا کہ محمد مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کا گمان ہے کہ وہ یہ جانتے ہیں کہ جو لوگ ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے ان میں سے کون ان پر ایمان لائے گا اورکون کفر کرے گا ، جبکہ ہم ان کے ساتھ رہتے ہیں اور وہ ہمیں پہچانتے نہیں ۔ اس پر حضور سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ منبر پر کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا ’’ان لوگوں کا کیا حال ہے جو میرے علم میں طعن (اعتراض) کرتے ہیں ، آج سے قیامت تک جو کچھ ہونے والا ہے اس میں سے کوئی چیز ایسی نہیں ہے جس کا تم مجھ سے سوال کرو اور میں تمہیں اس کی خبر نہ دے دوں۔ حضرت عبداللہ بن حذافہ سہمی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کھڑے ہو کر کہا : یا رسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ ، میرا باپ کون ہے ؟ ارشاد فرمایا : حذافہ ، پھر حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کھڑے ہوکر عرض کی : یا رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ ، ہم اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ربوبیت پر راضی ہوئے ، اسلام کے دین ہونے پر راضی ہوئے، قرآن کے امام و پیشواہونے پر راضی ہوئے ، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے نبی ہونے پر راضی ہوئے ، ہم آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ سے معافی چاہتے ہیں ۔ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے فرمایا : کیا تم باز آؤ گے؟ کیا تم باز آؤ گے ؟ پھر منبر سے اتر آئے اس پراللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ۔ (تفسیر خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۷۹، ۱/۳۲۸،چشتی)

معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا بار بار ارشاد فرمانا کہ سلونی مجھ سے سوال کرو ۔ مجھ سے جو پوچھنا چاہو پوچھو ۔ اس سے عیاں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو ہرچیز کا علم عطا فرمایا ہے پھر حضرت حذافہ رضی اللہ عنہ کو لوگ کسی اور آدمی کی طرف منسوب کرتے تھے ۔ تو آپ نے سمجھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے سوال کرکے اس الزام کی بھی وضاحت کرالوں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ تیرا باپ حذافہ ہے اس سے پہلے بھی وہ اسی کی طرف منسوب تھا ۔ جو لوگ کہتے تھے وہ ایک الزام اور بہتان تھا ۔ اور ساتھ میں امام مسلم کی تفصیل میں بھی لکھا ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو مغیبات (یعنی غیب سے) آگاہ فرما رکھا ہے ۔

جو ہوچکا جو ہوگا حضور جانتے ہیں
تیری عطاء سے خدایا حضور جانتے ہیں
(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم)

امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں : حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے چند چیزوں کے متعلق سوال کیا گیا جن کو آپ نے ناپسند کیا جب آپ سے زیادہ سوالات کیے گئے تو آپ غضبناک ہوئے اور آپ نے لوگوں سے فرمایا تم جو چاہو مجھ سے سوال کرو ‘ ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ! میرا باپ کون ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا تمہارا باپ حذافہ ہے ‘ دوسرے شخص نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ! میرا باپ کون ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا تمہارا باپ شیبہ کا آزادہ کردہ غلام سالم ہے ‘ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے چہرے میں غضب کے آثار دیکھے تو عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہم اللہ عزوجل سے توبہ کرتے ہیں ۔ (صحیح بخاری ج ١ ص ٢٠۔ ١٩‘ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٨١ ھ)

اس حدیث سے یہ وجہ استدلال یہ ہے کہ آپ کا یہ فرمانا مجھ سے جو چاہو سوال کرو یہ اسی وقت درست ہوسکتا ہے جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہر سوال کے جواب کا علم عطا فرمایا ہو خواہ احکام شرعیہ سے متعلق سوال کیا جائے یا ماضی اور مستقبل کی خبروں کے متعلق سوال کیا جائے یا اسرار تکوینیہ کے متعلق سوال کیا جائے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس کو عموم پر ہی محمول کیا تھا اس لیے دو اصحاب نے آپ سے اپنے نسب کے متعلق سوال کیا ۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہمارے درمیان ایک مجلس میں کھڑے ہوئے پھر آپ نے ابتداء خلق سے خبریں بیان کرنا شروع کیں حتی کہ جنتیوں کے اپنے ٹھکانوں تک جانے اور جہنمیوں کے اپنے ٹھکانوں تک جانے کی خبریں بیان کیں جس شخص نے ان کو یاد رکھا اس نے یاد رکھا اور جس نے ان کو بھلا دیا اس نے ان کو بھلا دیا ۔ (صحیح بخاری ج ١ ص ‘ ٤٥٣ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٨١ ھ،چشتی)

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ہم میں ایک تقریر فرمائی اور اس میں قیامت تک ہونے والے تمام امور بیان فرمادیے جس شخص نے اسے جان لیا اس نے جان لیا اور جس نے نہ جانا اس نے نہ جانا ۔ (صحیح بخاری ج ٢ ص ‘ ٩٧٧ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٨١ ھ)

امام مسلم بن حجاج قشیری ٢٦١ ھ رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں : حضرت ابوزید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ہمیں صبح کی نماز پڑھائی اور منبر پر رونق افروز ہوئے اور ہمیں خطبہ دیا حتی کہ ظہر کا وقت آگیا پھر منبر سے اترے اور ظہر کی نماز پڑھائی اور پھر منبر پر رونق افروز ہوئے اور ہمیں خطبہ دیا حتی کہ عصر کا وقت آگیا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم منبر سے اترے اور عصر کی نماز پڑھائی پھر آپ نے منبر پر چڑھ کر خطبہ دیا حتی کہ سورج غروب ہوگیا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ہمیں تمام ماکان وما یکون کی خبریں دی سو جو ہم میں زیادہ حافظہ والا تھا اس کو ان کا زیادہ علم تھا ۔ (صحیح مسلم ج ٤ ص ‘ ٢٢١٧‘ رقم الحدیث ٢٨٩٢‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت،چشتی)

امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں : حضرت معاذبن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے صبح کی نماز کے لیے آنے میں دیر کی حتی کہ عنقریب ہم سورج کو دیکھ لیتے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جلدی سے آئے اور نماز کی اقامت کہی گئی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے مختصر نماز پڑھائی ‘ پھر آپ نے سلام پھیر کر ہم سے بہ آواز بلند فرمایا جس طرح اپنی صفوں میں بیٹھے ہو بیٹھے رہو ‘ پھر ہماری طرف مڑے اور فرمایا میں اب تم سے یہ بیان کروں گا کہ مجھے صبح کی نماز کے لیے آنے میں کیوں دیر ہوگئی ‘ میں رات کو اٹھا اور وضو کر کے میں اتنی نماز پڑھی جتنی میرے لیے مقدر کی گئی تھی پھر مجھے نماز میں اونگھ آگئی پھر مجھے گہری نیند آئی اچانک میں نے اچھی صورت میں اپنے رب تبارک وتعالیٰ کو دیکھا رب تعالیٰ نے فرمایا : اے محمد ! میں نے کہا اے میرے رب میں حاضر ہوں ‘ فرمایا ملاء اعلی کس چیز میں بحث کر رہے ہیں ؟ میں نے کہا میں نہیں جانتا ‘ آپ نے کہا میں نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا ہاتھ میرے دو کندھوں کے درمیان رکھا اور اس کے پوروں کی ٹھنڈک میں نے اپنے سینے میں محسوس کی پھر ہر چیز مجھ پر منکشف ہوگئی اور میں نے اس کو جان لیا ۔ الحدیث الی قولہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔ میں نے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ سے اس حدیث کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا یہ حدیث صحیح ہے ۔ (الجامع الصحیح ج ٥ ص ٣٦٩۔ ٣٦٨‘ رقم الحدیث ٣٢٣٥‘ مطبوعہ بیروت ‘ ج ٢ ص ١٥٥‘ فاروقی کتب خانہ ملتان ‘ ومطبع مجتبائی پاکستان وکتب خانہ رحیمیہ دیوبند انڈیا ‘ مسند احمد ج ١ ص ٣٦٨‘ ج ٤ ص ٦٦‘ العلل المتناصیہ ج ١ ص ٢١۔ ٢٠)

سنن ترمذی میں ہی حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی روایت میں ہے کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : میں نے (خواب میں) اپنے رب کو حسین صورت میں دیکھا ‘ میرے رب نے فرمایا : اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ! میں نے کہا حاضر ہوں یارب ! فرمایا ملاء اعلی کس چیز میں بحث کر رہے ہیں ؟ میں نے کہا اے رب میں نہیں جانتا پھر اللہ تعالیٰ نے اپنا ہاتھ میرے دو کندھوں کے درمیان رکھا جس کی ٹھنڈک میں نے اپنے سینے میں محسوس کی ‘ پھر میں نے جان لیا جو کچھ مشرق اور مغرب کے درمیان ہے ۔ (الجامع الصحیح ج ٥ ص ٣٦٧‘ رقم الحدیث ٣٢٣٤‘ مطبوعہ بیروت ‘ ج ٢ ص ١٥٦‘ فاروقی کتب خانہ ملتان ‘ ومطبع مجتبائی پاکستان وکتب خانہ رحیمیہ دیوبند انڈیا ‘ تحفۃ الاحوذی ج ٢ ص ١٧٥۔ ١٧٣‘ نشرالسنۃ ملتان)
یہ حدیث حضرت عبدالرحمن بن عائش رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے دیکھئے سنن دارمی ج ٢ ص ٥١‘ کتاب الاسماء والصفات للبیہقی ص ٣٧٨‘ جامع البیان للطبری ج ٧ ص ١٦٢‘ الدرالمنثور ج ٣ ص ٢٤‘ حافظ ابن حجر عسقلانی نے اس کو امام ابن خزیمہ اور امام ابو نعیم کے حوالے سے بھی ذکر کیا ہے۔ الاصابہ ج ٢ ص ٣٩٩۔ ٣٩٧‘ الطبقات الکبری ج ٧ ص ١٥٠‘ زاد المسیر ج ١ ص ١٥٥‘ اتحاف السادۃ المتقین ج ١ ص ٢٢٥ میں بھی یہ حدیث مذکور ہے ۔ (ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ ص، ۵/۱۵۸، الحدیث: ۳۲۴۴)

حضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ : نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : میں نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کو دیکھا ، اس نے اپنا دستِ قدرت میرے کندھوں کے درمیان رکھا ، میرے سینے میں اس کی ٹھنڈک محسوس ہوئی ، اسی وقت ہر چیز مجھ پر روشن ہوگئی اور میں نے سب کچھ پہچان لیا ۔ (سنن ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ ص ، ۵/۱۶۰، الحدیث : ۳۲۴۶)

نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے فرمایا : اللہ عزوجل نے میرے لیے دُنیا کو اٹھا کر اسطرح میرے سامنے پیش فرما دیا کہ میں تمام دنیا کو اور اس میں قیامت تک جو کچھ بھی ہونے والا ہے ان سب کو اس طرح دیکھ رہا ہوں جس طرح میں اپنی ہتھیلی کو دیکھ رہا ہوں ۔ (شرح الزرقانی علی المواہب، المقصد الثامن، الفصل الثالث، ج۱۰، ص۱۲۳، وحلیۃ الاولیاء، حدیر بن کریب، الحدیث۷۹۷۹، ج۶،ص۱۰۷)،(زرقانی علی المواہب،جلد۷،ص۲۳۴)

جس طرح حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ ’’اَفضل الْخَلق ‘‘ہیں اسی طرح آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ ’’اَعلم ُالْخَلق ‘‘ بھی ہیں کہ تمام جن و انس اور ملائکہ کے علوم سے بڑھ کر آپکا علم ہے یہاں تک کہ حضرت علامہ بوصیری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے قصیدۂ بُردَہ میں فرمایا کہ :

فَاِنَّ مِنْ جُوْدِکَ الدُّنْیَا وَضَرَّتَھَا وَمِنْ عُلُوْمِکَ عِلْمَ اللَّوْحِ وَالْقَلَمٖ
(القصیدۃ البردۃ، الفصل العاشر فی المناجات وعرض الحال)

ترجمہ : یارسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ دنیا اور اس کی سوکن (یعنی آخرت) یہ دونوں آپ کی سخاوت کے ثمرات میں سے ہیں اور ’’لوح و قلم کا علم ‘‘آپ کے علوم کا ایک جزو ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)






0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔