Thursday, 19 December 2019

درسِ قرآن موضوع آیت : اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ۔ حصّہ سوم

درسِ قرآن موضوع آیت : اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ۔ حصّہ سوم

محترم قارئینِ کرام : اس سے قبل حصّہ اوّل و دوم میں اس آیتِ کریمہ کے متعلق آپ پڑھ چکے ہیں آیئے اب اس کا تیسرا حصّہ پڑھتے ہیں :

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خود اپنے وسیلہ سے دعا فرمانا

حافظ الہیثمی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کی والدہ حضرت فاطمہ بنت اسد بن ہاشم رضی اللہ عنہا فوت ہوگئیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی لحد کھودنے سے فارغ ہوگئے تو آپ ان کی لحد میں لیٹ گئے اور یہ دعا کی : اللہ ہی جلاتا ہے اور وہی مارتا ہے ‘ اور وہی زندہ ہے جسے موت نہیں آئے گی ‘ اے اللہ ! اپنے نبی اور مجھ سے پہلے انبیاء علیہم السلام کے وسیلہ سے میری ماں فاطمہ بنت اسد کی مغفرت فرما ‘ ان کو حجت القا فرما ‘ اس کی قبر کو وسیع کر ‘ بلاشبہ تو سب سے زیادہ رحم فرمانے والا ہے ‘ پھر آپ نے ان کی نماز جنازہ پڑھی اور آپ نے ‘ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے، اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کو قبر میں اتارا ‘ اس حدیث کو امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ نے ” کبیر “ اور ” اوسط “ میں روایت کیا ہے ‘ اس میں روح بن صلاح نام کا ایک روای ہے ‘ امام حبان اور امام حاکم نے اس کی توثیق کی ہے اور اس میں ضعف ہے ‘ اور اس کے باقی روای حدیث صحیح کے روای ہیں ۔ (مجمع الزوائد ج ٩ ص ٢٥٧‘ مطبوعہ دارالکتاب العربی ‘ بیروت ‘ ١٤٠٢ ھ)
اس حدیث کو علامہ نورالدین سمہودی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ذکر کیا ہے ۔ (وفاء الوفاء ج ٣ ص ٨٩٩۔ ٨٩٨‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی ‘ بیروت)
شیخ ناصر الدین البانی نے بھی اس حدیث کا ذکر کیا ہے ۔ (توسل ص ١٠٢‘ مطبوعہ مکتب اسلامی ‘ بیروت)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے دعا کرنا نہ صرف حضرت آدم علیہ السلام کی بلکہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بھی سنت ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خود اپنے وسیلہ سے دعا کرنے کی ہدایت دینا

انبیاء کرام علیہم السلام اور بزرگان دین کے وسیلہ سے دعا کرنے کی اصل یہ حدیث ہے : حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک نابینا شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ‘ اس نے عرض کیا : آپ اللہ سے دعا کیجیے کہ اللہ تعالیٰ میری آنکھیں ٹھیک کردے آپ نے فرمایا : اگر تم چاہو تو میں اس کام کو موخر کر دوں اور یہ تمہارے لیے بہتر ہوگا اور اگر تم چاہو تو (ابھی) دعا کر دوں ‘ اس نے کہا : آپ دعا کردیجیے آپ نے فرمایا : تم اچھی طرح وضو کرو دو رکعت نماز پڑھو ‘ اس کے بعد یہ دعا کرو :” اے اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور محمد نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں ‘ اے محمد ! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ کے وسیلہ سے اس حاجت میں اپنے رب کی طرف متوجہ ہوا ہوں تاکہ میری یہ حاجت پوری ہو ‘ اے اللہ ! نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو میرے لیے شفاعت کرنے والا بنا دے ۔ (سنن ابن ماجہ ص ٩٩ مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب ‘ کراچی،چشتی)
اس حدیث کو امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی روایت کیا ہے ۔ (جامع ترمذی ص ٥١٥‘ مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب ‘ کراچی)
اس حدیث کو امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے بھی روایت کیا ہے ۔ (مسند احمد ج ٤ ص ١٣٨‘ مطبوعہ مکتب اسلامی ‘ بیروت ‘ ١٣٩٨ ھ)
اس حدیث کو امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی روایت کیا ہے ۔ (مستدرک ج ١ ص ٥١٩‘ مطبوعہ دارالباز للنشر والتوزیع ‘ مکہ مکرمہ)
اس حدیث کو امام ابن عساکر رحمۃ اللہ علیہ نے بھی روایت کیا ہے ۔ (مختصر تاریخ دمشق ج ٣ ص ٣٠٤‘ مطبوعہ دارالفکر ‘ دمشق)
امام ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ ‘ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو عمارہ بن خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ کی سند سے روایت کیا ہے اور امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو اس سند کے علاوہ ابوامامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کی سند سے بھی روایت کیا ہے اس روایت میں یہ اضافہ ہے : قال عثمان : فو اللہ ماتفرقنا ولا طال الحدیث حتی دخل الرجال وکانہ لم یکن بہ ضرقط۔ (امام ابوبکر احمد بن حسین بیہقی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٤٥٨ ھ ‘ دلائل النبوۃ ج ٦ ص ١٦٧‘ مطبوعہ دار الکتاب العلمیہ بیروت) حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے کہا : بہ خدا ! ابھی ہم اس مجلس سے اٹھے نہیں تھے اور نہ ابھی سلسلہ گفتگو دراز ہوا تھا کہ وہ (نابینا) شخص اس حال میں داخل ہوا کہ اس کی آنکھ میں کوئی تکلیف نہیں تھی ۔
امام ابن السنی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس حدیث کو ابو امامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کی سند سے روایت کیا ہے ‘ جس میں مذکورہ الصدر اضافہ ہے ۔ (عمل الیوم واللیلہ ص ٢٠٢‘ مطبوعہ مجلس الدائرۃ المعارف ‘ دکن ‘ ١٣١٥ ھ)
علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو امام ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالوں سے بیان کیا اور اس میں یا محمد کے الفاظ ہیں ‘ علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو حسن صحیح لکھا ہے ۔ امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو سنن کبری (ج ٦ ص ١٦٩‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت ‘ ١٤١١ ھ) میں روایت کیا ہے ۔
امام محمد جزری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ ‘ امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ اور امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالوں سے ذکر کیا اور اس میں بھی یا محمد کے الفاظ ہیں ۔ (الاذکار ص ١٢٧‘ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت ‘ ١٣٧٥ ھ،چشتی)
قاضی شوکانی ” حصن حصین “ کی شرح میں لکھتے ہیں : اس حدیث کو امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ ‘ امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے ” مستدرک “ میں اور نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کیا ہے جیسا کہ مصنف رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا ہے ‘ امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو تمام اسانید بیان کرنے کے بعد کہا : یہ حدیث صحیح ہے ‘ امام ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس حدیث کو صحیح کہا ‘ سو ان ائمہ نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے البتہ نسائی کی روایت میں یہ تفرد ہے کہ اس میں یہ ذکر بھی ہے : اس نے دو رکعت نماز پڑھی ‘ اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ پیش کرنے کے جواز کی دلیل ہے ‘ اس لیے ساتھ یہ اعتقاد لازم ہے کہ حقیقۃ دینے والا اور منع کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے ‘ جو وہ چاہتا ہے وہ ہوجاتا ہے اور جو وہ نہیں چاہتا وہ نہیں ہوتا ۔ (تحفۃ الذاکرین ص ١٣٨۔ ١٣٧‘ مطبوعہ مطبع مصطفے البابی و اولا دہ ‘ مصر ‘ ١٣٥٠ ھ)

حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث جس کی بکثرت محدثین نے اپنی اپنی تصانیف میں صحت سند کی صراحت کے ساتھ روایت کیا ہے اس مطلوب پر قوی دلیل ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے دعا کرنا اور آپ سے دعا کی درخواست کرنا جائز اور مستحسن ہے اور چونکہ آپ کی ہدایات قیامت تک کے مسلمانوں کے لیے حجت ہیں ‘ اس لیے آپ کے وصال کے بعد بھی آپ کے وسیلہ سے دعا کرنا اور آپ سے دعا کی درخواست کرنا جائز ہے اور بالخصوص آپ کے وصال کے بعد آپ کے توسل سے دعا کے جواز پر دلیل یہ ہے کہ حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں ایک شخص کو اس کی قضاء حاجت کے لیے یہ دعا تعلیم کی ‘ اس حدیث کو امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ اور امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اپنی تصانیف میں صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے ‘ جیسا کہ عنقریب ہم بیان کریں گے۔ یہاں تک جو ہم نے احادیث بیان کی ہیں ان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات ظاہرہ میں آپ کے توسل پر دلیل ہے ‘ اب ہم ایسی احادیث پیش کررہے ہیں جن میں آپ کی وفات کے بعد آپ کے توسل پر دلیل ہے ۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں صحابہ رضی اللہ عنہم کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دعا کی درخواست کرنا ۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ایک سال قحط پڑگیا تو حضرت بلال بن حارث مزنی (رض) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضہ پر حاضر ہوئے اور عرض کیا : اپنی امت کے لیے بارش کی دعا کیجیے ۔
حافظ ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : مالک الدار ‘ جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے وزیر خوراک تھے وہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں (ایک بار) لوگوں پر قحط آگیا ‘ ایک شخص (حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مبارک پر گیا اور عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اپنی امت کے لیے بارش کی دعا کیجئے کیونکہ وہ (قحط سے) ہلاک ہو رہی ہے ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس شخص کے خواب میں تشریف لائے اور فرمایا : عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ ان کو سلام کہو اور یہ خبر دو کہ تم پر یقیناً بارش ہوگی ‘ اور ان سے کہو : تم پر سوجھ بوجھ لازم ہے ‘ تم پر سوجھ بوجھ لازم ہے ‘ پھر وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور ان کو یہ خبر دی ‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ رونے لگے اور کہا : اے اللہ ! میں صرف اسی چیز کو ترک کرتا ہوں جس میں میں عاجز ہوں ۔ (المصنف ج ١٢ ص ٣٢‘ مطبوعہ ادارۃ القرآن ‘ کراچی ‘ ١٤٠٦ ھ،چشتی)
نیز حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں : حافظ ابوبکر بیہقی رحمۃ اللہ علیہ اپنی سند کے ساتھ مالک سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں (ایک بار) قحط واقع ہوا ایک شخص (حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مبارک پر حاضر ہوا اور عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اپنی امت کے لیے بارش کی دعا کیجئے کیونکہ وہ (قحط سے) ہلاک ہو رہی ہے ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس شخص کے خواب میں تشریف لائے اور فرمایا : عمر کے پاس جاؤ ان کو سلام کہو اور یہ خبر دو کہ تم پر یقیناً بارش ہوگی ‘ اور ان سے کہو : تم پر سوجھ بوجھ لازم ہے ‘ تم پر سوجھ بوجھ لازم ہے ‘ پھر وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور ان کو یہ خبر دی ‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ عنہ نے کہا : اے میرے رب ! میں صرف اسی چیز کو ترک کرتا ہوں جس میں میں عاجز ہوں ۔ اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ (البدایہ والنہایہ ج ٧ ص ٩٢۔ ٩١ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت) ، حافظ ابوعمرو بن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ (حافظ عمرو یوسف بن عبداللہ عبدالبر قرطبی مالکی متوفی ٤٦٣ ھ ‘ الاستیعاب علی ہامش الاطابہ ج ٢ ص ٤٦٤‘ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت) اور حافظ ابن کثیر نے بھی اس روایت کو ذکر کیا ہے۔ (الکامل فی التاریخ ج ٢ ص ٣٩٠۔ ٣٨٩‘ مطبوعہ دارالکتاب العربیہ بیروت ‘ ١٤٠٠ ھ)
علم حدیث میں حافظ ابن کثیر کی شخصیت موافقین اور مخالفین سب کے نزدیک مسلم ہے اور حافظ ابن کثیر نے امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کی اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے اور اس روایت میں یہ تصریح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ نے آپ کے قبر انور پر جا کر آپ سے بارش کی دعا کے لیے درخواست کی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے یہ واقعہ اور اپنا خواب بیان کیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو مقرر رکھا اور اس پر انکار نہیں کیا ‘ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک بھی وصال کے بعد صاحب قبر سے دعا کی درخواست کرنا جائز ہے ۔
اس حدیث کے متعلق حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : امام ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ نے سند صحیح کے ساتھ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے خازن مالک الدار رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں (ایک بار) قحط واقع ہوا ‘ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مبارک پر حاضر ہوا اور عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اپنی امت کے لیے بارش کی دعا کیجئے ‘ کیونکہ وہ ہلاک ہورہی ہے ‘ پھر اس شخص کو خواب میں آپ کی زیارت ہوئی اور یہ کہا گیا کہ عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ ‘ الحدیث۔ سیف نے ” فتوح “ میں روایت کیا ہے کہ جس شخص نے یہ خواب دیکھا تھا وہ یکے از صحابہ حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ تھے ۔ (فتح الباری ج ٢ ص ٤٩٦ مطبوعہ دار نشر الکتب الاسلامیہ ‘ لاہور ١٤٠١ ھ ،چشتی) ۔ اس حدیث کو حافظ ابن کثیر اور حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ دونوں نے سندا صحیح قرار دیا ہے اور ان دونوں کی تصحیح کے بعد کسی تردد کی گنجائش باقی نہیں رہتی اور نہ کسی کا انکار درخور اعتناء ہے ۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں صحابہ رضی اللہ عنہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دعا کی درخواست کرنا :
حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص اپنے کسی کام سے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس جاتا تھا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے ‘ اور نہ اس کے کام کی طرف دھیان دیتے تھے ‘ ایک دن اس شخص کی حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی ‘ اس نے حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ سے اس بات کی شکایت کی ‘ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا : تم وضو خانہ جا کر وضو کرو ‘ پھر مسجد میں جاؤ اور وہاں دو رکعت نماز پڑھو ‘ پھر یہ کہو : اے اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور ہمارے نبی، نبی رحمت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں ‘ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ کے واسطے سے آپ کے رب عزوجل کی طرف متوجہ ہوا ہوں تاکہ وہ میری حاجت روائی کرے اور اپنی حاجت کا ذکر کرنا ‘ پھر میرے پاس آنا حتی کہ میں تمہارے ساتھ جاؤں ‘ وہ شخص گیا اور اس نے حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ کے بتائے ہوئے طریقہ پر عمل کیا ‘ پھر وہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس گیا ‘ دربان نے ان کے لیے دروازہ کھولا اور ان کو حضرت عثمان بن عفان (رض) کے پاس لے گیا، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کو اپنے ساتھ مسند پر بٹھایا اور پوچھا ‘ تمہارا کیا کام ہے ؟ اس نے اپنا کام ذکر کیا ‘ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کا کام کردیا : تم نے اس سے پہلے اب تک اپنے کام کا ذکر نہیں کیا تھا اور فرمایا : جب بھی تمہیں کوئی کام ہو تو تم میرے پاس آجانا ‘ پھر وہ شخص حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس چلا گیا اور جب اس کی حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی تو اس نے کہا : اللہ تعالیٰ آپ کو جزاء خیر دے ‘ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ میری طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے اور میرے معاملہ میں غور نہیں کرتے تھے حتی کہ آپ نے ان سے میری سفارش کی ‘ حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے کہا : بخدا ! میں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کوئی بات نہیں کی ، لیکن ایک مرتبہ میں رسول کی خدمت میں موجود تھا ‘ آپ کے پاس ایک نابینا شخص آیا اور اس نے اپنی نابینائی کی آپ سے شکایت کی ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم اس پر صبر کرو گے ؟ اس نے کہا : یا رسول اللہ ! مجھے راستہ دکھانے والا کوئی نہیں ہے اور مجھے بڑی مشکل ہوتی ہے ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا : تم وضو خانے جاؤ اور وضو کرو ‘ پھر دو رکعت نماز پڑھو ‘ پھر ان کلمات سے دعا کرو ‘ حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے کہا : ابھی ہم الگ نہیں ہوئے تھے اور نہ ابھی زیادہ باتیں ہوئی تھیں کہ وہ نابینا شخص آیا درآں حالیکہ اس میں بالکل نابینائی نہیں تھی، یہ حدیث صحیح ہے ۔ (حافظ زکی الدین عبد العظیم بن عبد القوی منذری متوفی ٦٥٦ ھ رحمۃ اللہ علیہ نے ” الترغیب والترہیب “ ج ١ ص ٤٧٦۔ ٤٧٤‘ مطبوعہ دار الحدیث ‘ قاہرہ ‘ ١٤٠٧ ھ) میں اور حافظ الہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے مجمع الزوائد ج ٢ ص ٢٧٩‘ مطبوعہ بیروت) میں اس حدیث کو بیان کرکے لکھا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے ۔

علامہ ابن تیمیہ کے حوالے سے حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ کی روایت کی تائید ‘ توثیق اور تصیح : امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو روایت کر کے کہا : اس حدیث کو شعبہ نے ابوجعفر سے روایت کیا ہے اور شعبہ سے اس حدیث کو صرف عثمان بن عمر رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے اور وہ اس روایت کرنے میں متفرد ہے (یعنی اس کا کوئی متابع نہیں ہے اور یہ حدیث غریب ہے) اور حدیث صحیح ہے ‘ شیخ ابن تیمیہ نے امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ پر اعتراض کیا کہ اس حدیث کو شعبہ سے روایت کرنے میں صرف عثمان بن عمر رضی اللہ عنہ متفرد نہیں ہے بلکہ روح بن عبادہ نے بھی اس حدیث کو شعبہ سے روایت کیا ہے اور یہ اسناد صحیح ہے ‘ اس کا خلاصہ یہ ہے امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ کی یہ روایت دو صحیح سندوں سے مروی ہے ‘ شیخ ابن تیمیہ کی اصل عبارت یہ ہے :
امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا : اس حدیث کو شعبہ نے ابوجعفر سے روایت کیا ہے اور اس کا نام عمر بن ابی یزید ہے اور وہ ثقہ ہے ‘ عثمان بن ابی عمر ‘ شعبہ سے اس روایت میں متفرد ہے۔ ابوعبد اللہ مقدسی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا : اور حدیث صحیح ہے ۔ (مزید حصّہ چہارم میں)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...