Tuesday, 24 December 2019

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم تجہیز و تدفین اور جنازہ میں صحابہ کی شرکت

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم تجہیز و تدفین اور جنازہ میں صحابہ کی شرکت
محترم قارئینِ کرام : سنیوں کے لبادے میں چھپے رافضی اور شیعہ حضرات اکثر سادہ لوح سنی مسلمانوں میں اس قسم کی بے بنیاد باتیں پھیلاتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اس دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد ، حضرت ابوبکر و حضرت عمر اور باقی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا جنازہ چھوڑ کر خلافت حاصل کرنے کے لئے لگ گئے ۔ فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی کو حضرت پیر مخدوم اویس علی چشتی قبلہ نے فون کر کے حکم فرمایا کہ اس کے متعلق لکھیں سو فقیر نے اُن کے حکم کے مطابق چند معروضات پیش کر دی ہیں اللہ تعالیٰ اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے آمین ۔

اور ہمارے سادہ سنی مسلمان بھی بغیر تحقیق کئے شیعوں کے اس مکر و فریب سے متاثر ہوکر شیعہ بن جاتے ہیں اور اپنی عاقب خراب کر بیٹھتے ہیں ۔

لیکن ہم ان شاء اللہ اس البم میں اہل سنت و جماعت اور اہل تشیع کی بہت ساری کتابوں سے یہ ثابت کریں گے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا جنازہ تمام صحابہ اور خصوصا حضرت ابوبکر و حضرت عمر رضی اللہ عنہم نے ادا کیا ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی جنازہ نماز تمام صحابہ مہاجرین و انصار ، بلکہ عورتوں نے بھی ادا کیا ۔ اور خصوصا حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہم اجمعین نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی جنازہ کی نماز ادا کی ۔ اور ان مختلف 14 راویوں میں جن میں حضرت علی ، حضرت امام حسن اور عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہم بھی شامل ہیں ۔ جو اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی جنازہ نماز تمام صحابہ رضی اللہ عنہم نے ادا کی ۔ اب اگر اتنی واضح حقیقت کے بعد بھی اگر کوئی نہ مانے تو پھر اس آیت کا مصدا ہی بن سکتا ہے ۔ (طبقات ابن سعد جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 237 تا 239 مترجم اردو مطبوعہ نفیس اکیڈمی کراچی)

خَتَمَ اللّٰهُ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ وَعَلٰي سَمْعِهِمْ ۭ وَعَلٰٓي اَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ وَّلَھُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ ۔
ترجمہ : اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے ۔

تاریخ کی سب سے معتبرترین کتاب ’’تاریخ ابن خلدون‘‘ ۔۔۔ میں بھی اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جنازہ کی نماز تمام صحابہ رضی اللہ عنہم (مردوں عورتوں اور بچوں) نے ادا کی ۔ (تاریخ ابن خلدون حصّہ اوّل صفحہ نمبر 171 مترجم اردو مطبوعہ نفیس ایکڈمی کراچی)

نوٹ: ایک بات کی میں وضاحت کرتا چلوں وہ یہ کہ ہو سکتا ہے کوئی یہ کہہ دے کہ جنازہ کی نماز عورتوں پر فرض نہیں تو یہ جنازہ عورتوں نے کیسے ادا کیا ؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ بے شک جنازہ کی نماز عورتوں پر فرض نہیں ہے ۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا جنازہ مبارک اس طرح ادا نہیں کیا گیا جس طرح عام لوگوں کا ادا کیا جاتا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی جنازہ مبارک میں نہ کوئی امام بنتا تھا نہ کوئی مغفرت کی دعا کی جاتی تھی جس عام جنازوں میں ہوتی ہے ۔ بلکہ اس میں صرف اور صرف درود پاک پڑھا جاتا تھا اور یہی نماز جنازہ تھا ۔ تاریخ کی معتبر کتاب تاریخ ابن کثیر البدایہ والنہایہ میں ہے کہ : جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو کفن دیا گیا اور آپ اپنی چار پائی پر تھے کہ حضرت ابوبکر اور حضرعمر رضی اللہ عنہما آئے اور ان کے ساتھ انصار و مہاجرین کے اتنے آدمی تھے جو گھر میں سما سکتے تھے ۔ ان دونوں حضرات نے کہا السلام علیک ایھالنبی و رحمۃ اللہ و برکاتہ اور انصار مہاجرین نے بھی حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عہنھم کی طرح سلام کہا پھر انہوں نے صفیں باندھ لیں اور ان کا کوئی امام نہ تھا اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما پہلی صف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے سامنے کھڑے تھے ۔
آگے لکھا ہے : وہ (صحابہ رضی اللہ عنہم) تین دن آپ کی نماز جنازہ پڑھتے رہے ۔
(تاریخ ابن کثیر البدایہ والنہایہ مترجم اردو جلد نمبر 5 صفحہ نمبر 361 مطبوعہ نفیس اکیڈمی کراچی،چشتی)

تو یہاں یہ بات دوپہر کے چمکتے سورج کی طرح کتنی واضح ہو گئی کہ تمام صحابہ اور خصوصا حضرت ابوبکر و حضرت عمر رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جنازہ نماز پہلی صف میں کھڑے ہوکر ادا کی ۔ اور پھر یہ بھی وضاحت ہوگئی کہ تین دن تک مسلسل لوگ آتے رہے اور جنازہ نماز پڑھتے رہے ۔ تو ثابت ہوا کہ دو دن یا تین دن کی جو تاخیر تدفین میں ہوئی اس کی اھم وجہ بھی نماز جنازہ کا ادا کرنا تھا ۔

نوٹ : کیونکہ ام المومنین حضرت سیدتنا عائشہ رضی اللہ عنہا کا حجرہ مبارک بہت چھوٹا تھا اور اندر زیادہ لوگ نہیں جاسکتے تھے بس زیادہ سے زیادہ 10 لوگ اندر جاسکتے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی جنازہ نماز لاکھوں لوگوں نے ادا کرنی تھی ۔ جس کی وجہ سے تدفین میں تاخیر ہوئی جس کو دشمنان اسلام رافضیوں اور سنیوں کے لبادے میں چھپے رافضیوں نے ایک ہنگامہ بنا کر لوگوں کو گمراہ کرنا شروع کردیا ہے ۔ تاکہ رسالت کے چشم دید گواہوں کو ہی مشکوک بنا کر اسلام کو ہی ختم کیا جائے ۔ (استغفر اللہ)

سیرۃ حلبیہ میں ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی جنازہ نماز تمام صحابہ مہاجرین و انصار اور خصوصا حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق تو پہلے صف میں کھڑے موجود تھے ۔ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم بھی شامل تھے ۔ (سیرۃ حلبیہ)

ہم نے الحمد للہ اہل سنت و جماعت کی معتبر کتابوں سے چار حوالے پیش کیئے ہیں ۔ حوالے تو اور بھی بہت ہیں لیکن ماننے والے کے لیے تو ایک ہی حوالا کافی ہے اور نہ ماننے والوں کے لیے ہزاروں بھی ناکافی ہیں ۔

بات دراصل یہ ہے کہ یہ جتنے بھی اب تک حوالے دے چکے ہیں وہ سب اہلسنت و جماعت کی کتابوں سے تھے جو پہلے ہی مانتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی جنازہ نماز تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پڑھا ۔ لیکن اصل اعتراض تو شیعہ حضرات کو ہے جو اہل سنت کی کتابوں کو مانتے نہیں ان کی تاریخ اور حدیثوں کی کتاب ہم سے الگ ہیں ۔

اس لیے اب ہم ان شاء اللہ باقی جتنے بھی حوالے پیش کریں گے وہ شیعہ کتابوں سے پیش کریں گے اور اتنے دلائل پیش کریں گے کہ وہ خود دیکھ کر دنگ رہ جائیں گے ۔ ان شاء اللہ ۔

شیعہ کی بنیادی اور اصول اربع کی پہلی کتاب جس کا نام اصول کافی ہے جو بقول شیعوں کے یہ کتاب لکھنے کے بعد شیعوں کے بارویں امام مہدی کو غار میں پیش کی گئی مہدی نے اس کتاب کو پڑھنے کے بعد شیعوں کو کہا ھذا کاف لشیعتنا یعنی یہ کتاب میرے شیعوں کے لئے کافی ہے ۔ اس دن کے بعد اس کتاب کا نام کافی رکھا گیا ۔ شیعوں کی اسی معتبر کتاب میں امام باقر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نماز جنازہ تمام صحابہ مہاجرین و انصار نے فوج در فوج ادا کیا ۔ (الشافی اصولِ کافی جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 26 مطبوعہ کراچی)

شیعو اور سنیوں کے لبادے میں چھپے رافضیو خدا کا خوف کرو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بغض میں اس حد تک چلے گئے ہو کہ اپنے معصوم امام کی حدیث کو بھی بغض صحابہ کے دلدل میں پھنس کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتے ہو اور پھر اہل بیت اور اماموں کے حبدار بھی کہلاتے ہو ۔

شیعہ کی بنیادی اور معتبر کتاب اصول کافی میں حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی نماز جنازہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دس دس روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں داخل ہوکر ادا کی ۔ (الشافی اصولِ کافی جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 27 مطبوعہ کراچی،چشتی)

پہلے حوالے حضرت امام محمد باقر رضی اللہ عنہ فرما رہے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نماز جنازہ تمام صحابہ مہاجرین و انصار رضی اللہ عنہم نے ادا کیا ۔ شیعہ کی معتبر کتاب اصول کافی کی تیسری حدیث ہے جس میں امام صاحب رضی اللہ عنہ کا کتنا صاف اور واضح فرمان موجودہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جنازہ نماز تمام صحابہ و انصار رضی اللہ عنہم نے فوج در فوج ادا کی ۔

اب شیعوں سے یہ سوال ہے کہ جب تمہاری معصوم کتاب میں معصوم امام بار بار یہ فرما رہے ہیں کہ (الشافی اصولِ کافی جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 26 مطبوعہ کراچی) کی جنازہ نماز تمام صحابہ نے فوج در فوج ادا کی۔ تو پھر کسی غیرمعصوم شیعہ ذاکر کا معصوم امام کے مقابلے میں یہ کہنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جنازہ نماز سواء چند کے کسی صحابی رضی اللہ عنہ نے ادا نہیں کا تو کیا اس ذاکر مولوی کا یہ کہنا شیعوں کے ہاں کفر نہیں ؟ کیونکہ شیعوں کے ہاں امام کے مقابلے میں کوئی بات کرنا کفر ہے ۔

شیعوں کے معتبر مصنف علامہ باقر مجلسی کی معتبر کتاب جلاء العیون میں امام باقر علیہ السلام کا فرمان کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انتقال فرمایا تو آپ کا جنازہ تمام فرشتوں ، مہاجروین و انصار رضی اللہ عنہم نے فوج در فوج ادا کا ۔ (جلاء العیون جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 153 مترجم اردو مطبوعہ انڈیا)

شیعہ حضرات اکثر، اہلسنت عوام کو دھوکا دیتے ہیں اور یہ شور مچاتے رہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جنازہ نماز صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے چند ساتھیوں نے ادا کیا ۔ لیکن جب ہم نے شیعوں کی اپنی کتابوں میں ان کو دکھاتے ہیں وہ بھی ان کے معصوم اماموں کے بقول کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جنازہ نماز تمام صحابہ مہاجرین و انصار رضی اللہ عنہم نے ادا کیا۔ تو ان کو ایسا سانپ سونگھ جاتا ہے جیسے قومہ میں چلے گئے ہوں ۔

ایک طرف تو شیعہ ذاکر سادہ ذہن لوگوں کو یہ دھوکا دیتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جنازہ نماز ادا نہ کی ۔ لیکن اس بات کا کوئی ثبوت ان کے پاس نہیں ۔ شیعہ کتاب حیات القلوب میں تو یہاں تک لکھا ہے کہ حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے یہ روایت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جنازہ کی نماز حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اما م بن کر پڑھائیں ۔ لیکن بقول شیعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایسا کرنے نہ دیا ۔ پھر شیعہ یہ کیوں شور مچاتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جنازہ ادا نہیں کیا ۔ یہاں تو اس کے الٹ ہے ۔ یہاں تو یہ لکھا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ امام بن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جنازہ پڑھا رہے تھے لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایسا کرنے نہ دیا ۔ (حیات القلوب مترجم اردو جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 1022 ، 1023)

یہاں شیعوں سے ہمارا سوال یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو نمازِ جنازہ پڑھانے نہیں دے رہے اور پھر شیعوں نے لکھا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پیچھے حضرت علی رضی اللہ عنہ نمازیں بھی پڑھا کرتے تھے ۔ اور حضرت امام باقر رضی اللہ عنہ کا فرمان کہ دس دس لوگ آتے تھے اور جنازہ ادا کرتے تھے ۔ اور بغیر امام کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز جنازہ ادا کیا ۔ یہ سلسلہ پیر کے دن منگل کی رات صبح تک اور منگل کے دن شام تک جاری رہا ۔ حتیٰ کہ مدینہ اور اس کے گرد نواح کے تمام چھوٹے بڑے مردوں اور عورتوں نے اسی طرح نماز جنازہ ادا کی ۔

شیعہ کی معتبر کتاب مراۃ العقول جوکہ شیعہ کی بنیادی کتاب اصول کافی کی شرح ہے ۔ اور اس کا شارح شیعوں کا مشہور مصنف علامہ باقر مجلسی ہے ۔ اس نے اس کتاب میں واضح لکھا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز جنازہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دس دس ٹولیوں میں آکر ادا کی اور آگے لکھا ہے کہ : حتی لم یبق احد من المہاجرین والانصار الا صلی ۔ ترجمہ : یہاں تک کہ ان تمام صحابہ مہاجرین و انصار رضی اللہ عنہم میں سے کوئی ایک بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جنازہ پڑھنے سے نہ رہا ۔ (مراۃ العقول عربی الجزء الخامس صفحہ نمبر 244 کتاب الحجہ)

تو اس حوالے سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جنازہ تمام لوگوں نے مردوں نے عورتوں نے بچوں نے یہاں تک کہ کوئی ایک بھی شخص ایسا نہ رہا جس نے جنازہ نہ پڑھا ہو ۔ اس عبارت کے بعد اب شیعہ کے پاس اب کوئی بہانا باقی نہیں رہتا جس کے بعد اب یہ کہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے یا خلفاء ثلاثہ رضی اللہ عنہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جنازہ نماز ادا نہ کی ۔

شیعہ حضرات کا وہ معتبر اردو ترجمہ قرآن جو تقریبا ہر شیعہ کے گھر میں موجود ہوتا ہے ۔ ترجمہ مقبول معہ ضمیمہ ۔ یعنی اس میں تفسیر بھی ہے ۔ اس قرآن کی تفسیر میں صاف لکھا ہوا ہے کہ جناب سردار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی تو جوق جوق مہاجرین و انصار رضی اللہ عنہم اور ملائکہ علیہم السّلام نے آنحضرت اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا ۔ (یعنی اسی طرح جنازہ ادا کیا) ۔ (ضمیمہ مقبول صفحہ نمبر 460 مطبوعہ ممبئی انڈیا،چشتی)

شیعہ حضرات کی معتبر تفسیر الصافی کی جلد نمبر 4 صفحہ نمبر 90 پر امام باقر رضی اللہ عنہ کا فرمان مذکور ہے : لما قبض النبی صلت علیہ الملائکۃ و المہاجرون والانصار فوجا فوجا ۔ ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد فرشتوں اور مہاجرین و انصار رضی اللہ عنہم نے فوج در فوج ہو کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نمازِ جنازہ (صلوٰۃ و سلام) پڑھی ۔ اب میرا شیعہ سے سوال ہے کہ جب شیعہ کے امام معصوم شیعہ کی معتبر کتاب میں فرما رہے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جنازہ تمام صحابہ مہاجرین و انصار رضی اللہ عنہم نے ادا کیا تو پھر شیعہ اپنے ائمہ کی بات کو رد کر کے اپنے ذاکروں اور مولویوں کی بات کو کیوں مانتے ہیں جبکہ شیعہ مذہب میں اماموں کی بات کو ٹھکرانا کفر ہے ۔

شیعہ حضرات کی مشہور کتاب احتجاج طبرسی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جنازے میں انصار و مہاجرین رضی اللہ عنہم کی شرکت کے متعلق مرقوم ہے : ثم ادخل عشرۃ من المہاجرین و عشرۃ من الانصار فیصلون و یخرجون حتیٰ لم یبق من المہاجرین والنصار الا صلی علیہ ۔ ترجمہ : پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ دس دس مہاجرین اور انصار رضی اللہ عنہم کو حجرۂ مبارکہ میں جنازہ کے لیے داخل کرتے رہے پس وہ لوگ نماز جنازہ پڑھتے اور نکلتے رہے ۔ یہاں تک کہ مہاجرین و انصار رضی اللہ عنہم میں سے کوئی ایسا نہ رہا جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جنازہ نہ پڑھا ہو ۔ مطلب کہ کوئی ایک صحابی بھی ایسا نہ رہا جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جنازہ نہ پڑھا ہو ۔ (الاحتجاج طبرسی جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 80 مطبوعہ بیروت لبنان)

ان صریح احادیث کے باوجود یہ کہنا کہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھما اور دیگر صحابہ کرام نے جنازہ نہیں پڑھا ، کتنا بڑا جھوٹ ھے ۔ کیا مدینہ و اطراف مدینہ مہاجرین و انصار ۔ مرد و زن ۔ خورد کلاں کے عموم سے یہ صحابہ رضی اللہ عنہم خارج ہیں ؟ پھر حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ نے حصر کر کے کیوں بیان فرمایا ؟ شیخین رضی اللہ عنہما کا استثناء کیوں نہیں فرمایا ؟ آخر آپ کو ان سے کیا ڈر تھا ؟ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال مبارک کے وقت اہل مدینہ صحابہ تھے یا نھیں ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر پاک میں موجود آپ کے ہی پیچھے جمعہ جماعت پڑھنے والے لوگ صحابہ نھیں تھے ؟

جب شیعہ اپنے گھر سے لاجواب ہوجاتے ہیں تو کہتے ہیں اہل سنت کی کتابوں میں ان کی جنازہ میں شرکت کی صراحت نہیں ملتی ۔ حالانکہ کتاب کسی بھی مذھب کی ہو جو ہرزاروں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شرکت بتانے کے لئے"سب مھاجرین و انصار ، کل مرد و زن ، بچے اور اھل مدینہ ، خورد و کلاں ، گرد نواح " جیسے عمومی الفاظ بیان کیے جاتے ہیں نہ کہ شخصی نام ۔

دس دس آدمیوں کے جنازہ پڑھنے والے گروہوں میں حضرت علی رضي الله عنہ اور دیگر چار مومن صحابہ رضی اللہ عنہم کی بھی شرکت ملے گی ، اگر نہیں ملتی تو حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کے لئے یہ مطالبہ کیسے کیا جاتا ہے ، عموم سے استثناء کے لئے خصوصی اور قوی ترین دلیل در کار ہوتی ہے ۔ یہ ایک اصولی بات ہے کہ شیعہ حضرات دو طرفہ نا انصافی کرتے ہیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمومی مناقب سے حضرات خلفاء و اکابرین امت رضی اللہ عنہم کو بلا دلیل خصوصی نکالتے ہیں اور دلیل خاص کی ضرورت نہیں سمجھتے ۔ لیکن حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنھما اساطین امت ہیں ان کا تذکرہ خصوصیت سے بھی یقینا ملتا ہے ۔ البدایہ والنھایہ میں ہے : لما کفن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و وضع علی سریرہ دخل ابوبکر و عمرفقالا:السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ومعھما نفر من المھاجرین و الانصار قدر مایسع البیت فسلموا کما سلم ابوبکر وعمر وھما فی الصف الاول حیال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : اللهم انا نشهد انه قد بلغ ما انزل اليه...ثم يخرجون و يدخلون آخرون حتى صلوا عليه الرجال ثم النساء ثم الصبيان ۔ (البداية والنهايه: 5/265،چشتی)
ترجمہ : جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کفن دیا جاچکا اور چارپائی پر آپ کو رکھا گیا تو حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھما داخل ھوئے اور فرمایا " اے نبی آپ پر سلامتی ہو ، اور آپ پر اللہ کی رحمتیں اور برکتیں ہوں ، ان دونوں کیساتھ جتنے حجرہ میں آسکتے تھے اتنے مھاجرین و انصار بھی تھے ، جس طرح ابوبکر وعمر نے سلام کیا انہوں نے بھی اسی طرح سلام پڑھا ، حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنھما صف اول میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تھے اور یوں کہتے تھے" اے اللہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ وحی پوری طرح پہنچائی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کی گئی ۔۔ پھر یہ نکلتے اور دوسرے لوگ داخل ہوتے تھے حتی کہ سب مردوں پھر عورتوں اور پھر بچوں نے نماز و سلام کا فریضہ ادا کیا ۔ (البداية والنهايه: 5/265)

جنازہ مبارک پڑھنے کی یہی کیفیت طبقات ابن سعد201/5 ، اور سیرت حلبیہ 394/3، پر موجود ہے اور بخاری شریف میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا گھر سے آتے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ کھولنا اور جھک کر بوسہ دینا اور رونا پھر مشھور خطبہ دینا مذکور ہے ۔ سنی و شیعہ کی کتابوں سے ان تصریحات کے باوجود بھی کسی شخص کو یہ جھوٹ بولنے کی گنجائش ہے کہ شیخین رضی اللہ عنھما جنازہ میں شریک نھیں تھے ؟

ان صحیح و معتبر روایات کی روشنی مین اس قسم کی ضعیف و شاذ جھوٹی کوئی روایت کیسے قبول ہوسکتی ہے جس میں لکھا ہو کہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھما جنازہ و دفن میں شریک نھیں تھے ؟ جیسے کنزل الاعمال کی روایت ہشام بن عروہ سے نقل کی جاتی ہے کہ جناب ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دفن کے بعد لوٹے ۔ حالانکہ ہشام تو عروہ کا بیٹا ہے خود عروہ کی ولادت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے اخیر میں یا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کی ابتداء میں ہوئی ۔ دیکھیں (تذکرۃ الحفاظ 1/59، تھذیب التھذیب 183/7) ۔ لہٰذا اس واقعہ میں خود عروہ ( باپ) کی موجودگی ناممکن ہے چہ جائیکہ اس کا بیٹا ہشام موجود ہو ، دوسرے لفظوں میں جب پاب کی پیدائش اس وقت نہیں ہوئی تھی تو بیٹے نے کہاں سے دیکھا ؟ بہر حال یہ روایت منقطع اور غیر معتبر ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...