Tuesday, 10 December 2019

حضرت سیدنا ابو سفیان رضی اللہ تعالی عنہ

حضرت سیدنا ابو سفیان رضی اللہ تعالی عنہ

محترم قارئینِ کرام : حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ کا شمار جلیل القدر صحابہ میں ہوتا ہے ۔ اسلام لانے کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی اولاد سمیت اسلام کی ترویج میں بھرپور حصہ لیا ۔ یہ اسلام ہی سے محبت تھی کہ آپ رضی اللہ عنہ نے اس دین کی خاطر غزوہ طائف اور پھر جنگ یرموک میں اپنی دونوں آنکھیں گنوادیں ۔

آپ رضی اللہ عنہ کا پورا نام : صخر بن حرب بن امی بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصی بن لاب بن مرہ بن کعب بن لوی ، ابو سفیان القرشی الاموی ہے ۔ آپ رضی اللہ عنہ کی مشہور کنیت تو ابو سفیان رضی اللہ عنہ ہے مگر ایک غیر معروف کنیت ابو حنظلہ بھی ہے ۔ غسیل ملائکہ حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ آپ رضی اللہ عنہ ہی کے بیٹے تھے ۔ (اسد الغابہ جلد نمبر ۲ صفحہ نمبر ۲۹۳)

لَا یَسْتَوِیۡ مِنۡکُمْ مَّنْ اَنۡفَقَ مِنۡ قَبْلِ الْفَتْحِ وَ قٰتَلَ ؕ اُولٰٓئِکَ اَعْظَمُ دَرَجَۃً مِّنَ الَّذِیۡنَ اَنۡفَقُوۡا مِنۡۢ بَعْدُ وَ قٰتَلُوۡا ؕ وَکُلًّا وَّعَدَ اللہُ الْحُسْنٰی ؕ ۔ (سورۃُ الحدید آیت ۱۷)
ترجمہ : تم میں برابر نہیں وہ جنہوں نے فتحِ مکہ سے قبل خرچ اور جہاد کیا ۔ وہ مرتبہ میں ان سے بڑے ہیں جنہوں نے بعد فتح کے خرچ اور جہاد کیا اور ان سب سے اللّٰہ جنّت کا وعدہ فرماچکا ۔

حضرت ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ فتح مکہ کے موقع پر ایمان لائے اور صحابیت کے مرتبہ پر فائز ہوئے ۔

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فتح مکہ کے موقع پر یہ حکم دیکر اعزاز عطا فرمایا کہ جو ابوسفیان کے گھر میں پناہ لے اسے بھی امان ہے ۔

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صاحبزادی حضرت ام حبیبہ (رملہ) رضی اللہ تعالیٰ عنھا کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی زوجہ اورامہات المئومنین ہونے کا شرف حاصل ہے ۔

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نواسی حضرت لیلی ( بنت ابی مرۃ بن عروۃ بن مسعود ثقفی) حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زوجہ اور حضرت امام علی اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی والدہ ہیں ۔ (والدہ کی طرف سے شجرۃ ۔ حضرت لیلی بنت میمونہ بنت ابی سفیان) ۔ (تاریخ خلیفہ بن خیاط،چشتی)

جنگ حنین میں مع اپنے صاحبزادوں کے شرکت کی ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے کثیر مال غنیمت عطا فرمایا ۔ (الاستعاب لابن عبدالبر، اسد الغابہ فی معارفۃ الصحابہ)

جنگ حنین کے تقریبا چھ ہزار قیدیوں کو زیرحراست اوران کی دیکھ بھال کے لیے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو انکی صلاحیت و ایمانداری پر اعتماد کرتے ہوئے منتخب فرمایا ۔ اس کے علاوہ نجران کے صدقات پر بھی آپ کوعامل مقرر کیا گیا ۔ (المصنف عبدالرزاق)

غزوہ طائف میں بھی شریک ہوئے اس موقع پر ایک کافر نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تیر مارا جس سے آپ کی ایک آنکھ شہید ہوگئی ، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور بتایا کہ میری آنکھ اللہ کی راہ میں شہید ہوگئی ہے ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا اگرآپ چاہیں تو میں اللہ عزوجل سے دعا کرتا ہوں آپ کی آنکھ آپ کو واپس مل جائے گی اور چاہیں تو اسکے بدلے جنت ہے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا مجھے جنت چاہیئے ۔ (الاصابہ فی تمیز الصحابہ، کنزالعمال، تاریخ خمیس، فتوح البلدان)

جنگ یرموک میں مع اپنی زوجہ ، بیٹے ، بیٹی اور داماد شریک ہوئے اس جنگ میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دوسری آنکھ بھی شہید ہو گئی ۔ (البدایہ لابن کثیر ، کتاب نسب القریش، تہذیب التہذیب، الاصابہ لابن حجر، تارخ ابن خلدون)

الطاغیہ اور منات کو مسمار کرنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے جن صحابہ کو منتخب فرمایا ان میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی شامل تھے ۔ (سیرۃ ابن الہشام، البدایہ النہایہ، الاصابہ معہ الاستیعاب)

آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اہل نجران کے ساتھ جو معاہدہ کیا اس میں مسلمانوں کی طرف سےگواہوں میں حضرت ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوبھی شامل کیا ۔ (فتوح البلدان، البدایہ لابن کثیر، کتاب الخراج لامام ابی یوسف رحمۃاللہ علیہ)

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے مرتد ین کے خلاف قتال کیا ۔ جس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا وصال ہوا اس وقت آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ یمن میں بطورعامل مقرر تھے ، وصال کی اطلاع پا کر مدینہ منورہ لوٹ رہے تھے کہ مرتد ذولحمار سے ٹکراو ہو گیا آخر کار آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے قتل کر دیا ۔ (الدر منثور للسیوطی، تفسیرالقرآن العظیم لاسمعیل ابن کثیر)

مشہور قول کے مطابق 31 ھجری میں مدینہ منورہ میں وصال فرمایا ۔

آیت : اِدْفَعْ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیۡ بَیۡنَکَ وَبَیۡنَہٗ عَدٰوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیۡمٌ ﴿۳۴﴾ ۔ (سورہ حم السجدہ آیت نمبر ۳۴)
ترجمہ : برائی کو بھلائی سے ٹالیئے ۔جبھی وہ کہ تجھ میں اور اس میں دشمنی تھی ایسا ہوجائے گا جیسا کہ گہرا دوست ۔ یہاں وَلِیٌّ حَمِیۡمٌ (گہرا دوست ) سے مراد حضرت ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں ۔ (تفسیر خزائن العرفان، تفسیرروح البیان، تفسیر بغوی، تفسیر قرطبِی،چشتی)

حضرت ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اسلام قبول کرنا

حضرت ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جن کو قرآن نے ” رءوف و رحیم ” کے لقب سے یاد کیا ہے ۔ ان کی رحمت چمکار چمکار کر ابو سفیان کے کان میں کہہ رہی تھی کہ مت ڈر ۔ یہ دنیا کے سلاطین کا دربار نہیں ہے بلکہ یہ رحمۃ للعالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بارگاہ رحمت ہے ۔ بخاری شریف کی روایت تو یہی ہے کہ ابوسفیان بارگاہ اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے تو فوراً ہی اسلام قبول کرلیا۔ اس لئے جان بچ گئی۔ (بخاري ج۲ ص۶۱۳ باب این رکز النبی رایة)

مگر ایک روایت یہ بھی ہے کہ حکیم بن حزام اور بدیل بن ورقاء نے تو فوراً رات ہی میں اسلام قبول کرلیا مگر حضرت ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صبح کو کلمہ پڑھا ۔ (زرقاني ج۲ ص۳۰۴)

اور بعض روایات میں یہ بھی آیا ہے کہ حضرت ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے درمیان ایک مکالمہ ہوا اس کے بعد حضرت ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے اسلام کا اعلان کیا ۔ وہ مکالمہ یہ ہے :

رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم : کیوں اے ابوسفیان ! کیا اب بھی تمہیں یقین نہ آیا کہ خدا ایک ہے ؟

ابو سفیان : کیوں نہیں کوئی اور خدا ہوتا تو آج ہمارے کام آتا ۔

رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم : کیا اس میں تمہیں کوئی شک ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں ؟

ابو سفیان : ہاں ! اس میں تو ابھی مجھے کچھ شبہ ہے ۔

مگر پھر اس کے بعد انہوں نے کلمہ پڑھ لیا اور اس وقت گو ان کا ایمان متزلزل تھا لیکن بعد میں بالآخر وہ سچے مسلمان بن گئے ۔ چنانچہ غزوۂ طائف میں مسلمانوں کی فوج میں شامل ہو کر انہوں نے کفار سے جنگ کی اور اسی میں ان کی ایک آنکھ زخمی ہو گئی۔ پھر یہ جنگ یرموک میں بھی جہاد کے لئے گئے ۔ (سیرت ابن هشام ج۲ ص۴۰۳ و زرقاني ج۲ ص۳۱۳)

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خدمت میں فتح مکہ کے دن سن 8 ہجری میں حاضر ہوئے ۔ اپنے ماضی کے افعال پر ندامت و شرمندگی کا اظہار کرکے معذرت خواہ ہوئے اور سورہ یوسف میں مذکور ، برادران حضرت یوف علی نبینا و علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مقولہ عرض کیا : لقد اثرک ﷲ علینا وان کنا لخٰطئین ۔ (پارہ 13 رکوع 4، سورہ یوسف آیت 91)
ترجمہ : بے شک ﷲ نے آپ کو ہم پر فضیلت دی اور بے شک ہم خطا وار تھے ۔
جواب میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے وہ فرمایا جو حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے بھائیوں سے فرمایا تھا یعنی : لاتثریب علیکم والیوم، یغفرﷲ لکم وہو ارحم الرحمین ۔ (پارہ 63، رکوع 4، سورہ یوسف آیت 92،چشتی)
ترجمہ : آج تم پر کچھ ملامت نہیں ، ﷲ تمہیں معاف کرے اور وہ سب مہربانوں سے بڑھ کر مہربان ہے ۔
حضرت ابوسفیان رضی ﷲ عنہ حضور اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے دست حق پرست پر ایمان لائے ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ان کی تمام خطائیں معاف فرما کر اخلاق کریمہ کا مظاہرہ فرمایا ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے کمال عفوو کرم سے ان پر نگاہ لطف و عنایت فرما کر معاف فرمادیا بلکہ اپنے دامن میں پناہ عطا فرمائی ۔

کرکے تمہارے گناہ ، مانگیں تمہاری پناہ
تم کہو دامن میں آ ، تم پر کروڑوں درود

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اخلاق جمیلہ نے حضرت ابوسفیان کو ایسا گرویدۂ اسلام کردیا کہ انہوں نے اپنے ماضی کی خطاؤں کا کفارہ ادا کرتے ہوئے خلوص دل سے اسلام کی زریں خدمات انجام دیں ۔ اپنی تمام صلاحیتوں کو اسلام کے فروغ کے لئے ہی استعمال کیا اور ان کا شمار اکابر (بڑے) صحابہ کرام میں ہونے لگا ۔ حضرت ابوسفیان نے اسلام اور بانی اسلام کی جو بیش بہا خدمات انجام دی ہیں، اس کی کچھ جھلکیاں ملاحظہ فرمائیں ۔

جنگ حنین سن 8ھ میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ہم رکاب تھے اور حضورصلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی سواری کی لگام تھامے ہوئے تھے ۔

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے حکم سے عرب کے بڑے بت منات کے بت خانے کو منہدم کردیا ۔

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خدمت میں حاضر رہ کر وحی کی کتابت (تحریر) کی خدمت انجام دیتے تھے ۔

ملک شام میں لشکر اسلام کے ساتھ رہ کر بڑی جانفشانی سے رومیوں سے لڑے وغیرہ ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...