Friday 6 December 2019

علم غیب کے بارے میں اہل سنت کا نظریہ

0 comments
علم غیب کے بارے میں اہل سنت کا نظریہ

محترم قارئینِ کرام : اہل سنت کے نزدیک اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم کو ابتداء عالم سے لے کر جنتیوں کے جنت میں جانے اور دوزخیوں کے دوزخ میں جانے تک کا تفصیلی علم عطا فرمایا لیکن یہ علم تفصیلی ایک بار نہیں بلکہ آہستہ آہستہ عطا فرمایا ۔ یہ علم شریف اس وقت مکمل ہوا جب قرآن عظیم مکمل طور پر نازل ہو گیا ۔ تکمیل نزول قرآن پر سرکار کے علومِ مذکورہ کی تکمیل ہو گئی اور آپ کا علم شریف صرف قیام قیامت تک محدود نہیں بلکہ ابد الآباد کے بے حد و بے شمار علوم سے آپ کو نوازا گیا ہے لہٰذا اگر تکمیل نزولِ قرآن سے قبل آپ کو کسی بات کا علم نہ ہو تو یہ اہل سنت کے نظریہ کے مخالف نہیں ۔ جب آپ نے یہ بات سمجھ لی تو اب آپ یہ سمجھئے کہ ما کنت تدری ما الکتب ولا الایمان کا مطلب یہ ہے کہ اے محبوب صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم آپ وحی آنے سے پہلے اور بعثت سے پہلے قرآن کو اور احکام شرع کی تفصیل کو نہ جانتے تھے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات کی معرفت اور بہت سے امور کو جانتے تھے مگر بعثت سے پہلے آپ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم قرآن کو نہیں جانتے تھے اس لئے کہ ابھی قرآن اترا ہی نہ تھا اور نہ احکام شرع کی تفصیلات سے واقف تھے ۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا یہی ترجمہ امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اختیار فرمایا چنانچہ وہ فرماتے ہیں : ما کنت تدری تعرف قبل الوحی الیک ما الکتب اي القران و لا الایمان ای شرائعہ و معالمہ ۔
ترجمہ : آپ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم وحی سے پہلے نہیں جانتے تھے کہ کتاب یعنی قرآن کیا ہے اور نہ ہی ایمان یعنی اس کے شرائع اور معالم ۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے محبوب صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم کو غیب کا وسیع علم عطا فرمایا ۔ یعنی جو چیزیں ہماری آنکھوں کانوں وغیرہ سے غائب ہیں اللہ تعالیٰ نے ان غیب چیزوں کی اپنے محبوب صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم کو اطلاع بخشی ۔ وحی کا آنا علم غیب کے منافی نہیں یعنی وحی آنے سے پہلے جو چیزیں ہم سے غیب تھیں وہ وحی آنے کے بعد ہم سے غیب ہیں لہٰذا ان کا علم ، علم الغیب ہو گا ۔

قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے : و ما ھو علی الغیب بضنین ۔ (سورۃ تکویر:۴۲)
یعنی حضور صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم غیب بتانے میں بخیل نہیں ہیں یعنی غیب کی خبریں بتاتے ہیں ۔ جبھی بتاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں غیب کی اطلاع بخشی ہے ۔

دیوبندی ، وہابی غیرمقلدین نام نہاد اہلحدیث حضرات نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم کے علم غیب عطائی کو بھی شرک قرار دیتے ہیں ۔ علم غیب عطائی ماننے والے کو ابوجہل جیسا مشرک کہتے ہیں ۔

اہلسنّت و جماعت نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی عطا سے اوّلین اور آخرین کے حالات جاننے والا اور غیب کی باتیں بتانے والا کہتے ہیں ۔

اللّٰہ تعالیٰ کا قرآن مجید فرقان حمید میں فرمان ہے : وَمَاکَا نَ اللّٰہُ لِیُطلِعَکُم عَلَی الغَیبِ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَجتَبِی مِن رُسُلِہ مَن یَّشَا ئُ ۔ (پارہ 4 رکوع 9 ّ)
ترجمہ : اور اللہ کی یہ شان نہیں کی اے عام لوگوں تمہیں غیب کا علم دے ۔ ہاں اللہ چُن لیتا ہے اپنے رسولوں سے جسے چاہے ۔

امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کا عقیدہ : اس آیت کے تحت امام اجل جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ معنٰے یہ ہیں کہ اللہ اپنے رسولوں میں جس کو چاہتا ہے چُن لیتا ہے ۔ پس ان کو غیب پر مطلع کرتا ہے ۔ ( تفسیر جلالین صفحہ 66 )

علامہ حقی علیہ الرحمۃ کا عقیدہ : علامہ اسماعیل حقی علیہ الرحمۃ اِسی آیت کے تحت فرماتے ہیں کہ پس حقائق اور حالات کے غیب نہیں ظاہر ہوتے بغیر رسول ِ اکرم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم کے واسطہ سے ۔ (تفسیر روح البیان صفحہ 132 جلد 2 مطبوعہ بیروت)

دوسرے مقام پر اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے : وَعَلَّمَکَ مَا لَم تَکُن تَعلَم وَکَانَ فَضلُ اللّٰہِ عَلَیکَ عَظِیمََا ۔ (پارہ 5 رکوع 14 )
ترجمہ : اور تم کو سکھادیا جو کچھ تم نہ جانتے تھے اور اللہ کا تم پر بڑا فضل ہے ۔

امام رازی علیہ الرحمۃ کا عقیدہ : امام المفسرین فخرالدین امام رازی علیہ الرحمۃ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں : اَی مِنَالاَحکَامِ وَالغَیبِ ۔
یعنی احکام اور غیب ۔ (تفسیر کبیر مطبوعہ مصر)

امام نسفی علیہ الرحمۃ کا عقیدہ : امام نسفی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں : یعنی شریعت مطہرہ کے احکام اور امور دین سکھائے اور کہاگیا ہے کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم کو علم غیب میں وہ باتیں سکھائیں جو آپ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم نہ جانتے تھے اور کہا گیا ہے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم کو چھپی چیزیں سکھائیں اور دلوں کے رازوں پر مطلع فرمایا اور منافقین کے مکر و فریب آپ کو بتادیئے ۔ اُمو ر دین سکھائے ، چھپی ہوئی باتیں اور دلوں کے راز بتائے ۔ (تفسیر مدارک التنزیل جلد 1 صفحہ 250 مطبوعہ بیروت،چشتی)

علامہ کاشفی علیہ الرحمۃ کا عقیدہ : علامہ کاشفی علیہ الرحمۃ نے اپنی تفسیر میں اسی آیت کے تحت فرمایا ہے : یہ ماکان وما یکون کا علم ہے کہ حق تعالیٰ نے شب ِ معراج میں حضور صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم کو عطا فرمایا چنانچہ حدیث معراج میں ہے کہ ہم عرش کے نیچے تھے ایک قطرہ ہمارے حلق میں ڈالا ، پس ہم نے سارے گزرے ہوئے اور آئندہ ہونے والے واقعات معلوم کرلئے ۔ ( تفسیر حسینی فارسی صفحہ 124)

خداوند کریم جل جلالہ کا ارشاد ہے : اَلرَّحمٰنُ عَلَّمَالقُرانِ ۰ خَلَقَ الاِنسَانَ ۰ عَلَّمَہُ البَیَانَ۰ ۔ (پارہ 27 رکوع 11 )
ترجمہ : الرحمٰن نے اپنے محبوب صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم کو قرآن سکھایا ، انسانیت کی جان محمد صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم کو پیدا کیا ۔

علامہ خازن علیہ الرحمۃ کا عقیدہ : تفسیر خازن میں اس آیت کے تحت لکھا ہے کہ کہا گیا ہے کہ انسان سے مراد حضرت محمد صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم ہیں کہ ان کو اگلے پچھلے امور کا بیان سکھا دیا گیا کیونکہ حضور صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم کو اگلوں پچھلوں کی اور قیامت تک کے دن کی خبر دے دی گئی ہے ۔

علامہ قاضی ثناء اللّٰہ پانی پتی علیہ الرحمۃ کا عقیدہ : علامہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی علیہ الرحمۃ نے اپنی تفسیر مظہری میں فرمایا ہے : اور اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم کو اسرار و مغیبات کے علوم عطا فرمائے ۔ (تفسیر مظہری)

علامہ جار اللّٰہ محشری : علامہ جار اللہ محشری نے اپنی تفسیر کشاف میں فرمایا ہے : خفیہ امور لوگوں کو دلوں کے حالات ، امور دین اور احکام شریعت ۔ (تفسیر کشاف جلد 1 صفحہ 563 مطبوعہ بیروت،چشتی)

علامہ بغوی علیہ الرحمۃ کا عقیدہ : تفسیر معالم التنزیل میں اُنہیں آیات طیبات کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے : اللہ تعالیٰ نے انسان یعنی محمد صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم کو پیدا فرمایا اور ان کو بیان یعنی اگلی پچھلی باتوں کا بیان سکھادیا ۔ (تفسیر معالم التنزیل)

تمام ثبوت قرآن و حدیث سے پیش کیے گئے ہیں جس سے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم کا علم غیب واضح اور روز روشن کی طرح عیاں ہوتا ہے ، لیکن دیوبندی ، وہابی اور غیر مقلد حضرات کے نزدیک یہ عقیدہ کفر و شرک ہے ، جبکہ قرآن و حدیث سے ثابت ہوگیا اور پھر حضرات اہلسنّت و جماعت ہونے کا دعویٰ بھی کریں تو یہ صریحاََ دھوکہ اور فریب ہے لہذا قرآن و حدیث کی روشنی میں معلوم ہوا کہ یہ اہلسنّت و جماعت نہیں ۔

یہ بات ذہن نشین رہے کہ ﷲ رب العزت کا علمِ غیب ذاتی اور قدیم ہے جبکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور باقی انبیاء کرام کا علمِ غیب عطائی اور حادث ہے ۔

علم بالذات اور علم بالعطا میں فرق

اس ضمن میں التباسات سے بچنے کے لئے چند نکات ذہن نشین کر لینے چاہئیں
اللہ رب العزت ہی حقیقی عالمِ الغیب ہے کہ وہ جو علمِ غیب رکھتا ہے وہ حقیقتًا محیط بالکل ہے ۔

اس کا علم ذاتی ہے عطائی نہیں ہے ۔

اس کا علم بالقدرت ہے یعنی ایسا علم ہے جس کے ساتھ اس کو نفع ونقصان کے بدلنے پر قدرت حاصل ہے ۔

پس ان تین صفات کے ساتھ متصف علم کو اللہ رب العزت کے لئے ثابت کرنا توحید ہے اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے لئے ثابت کرنا شرک ہے ۔

اللہ تبارک و تعالیٰ کا علم محض علم نہیں ہے بلکہ وہ علم ہے جو خالق کی شان کے لائق ہے۔ جس علم میں قدرت و تصرف، خالقیت اور احاطہ شامل ہے ۔ یہی شان قدرت تصرف اور احاطہ کلی اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کے لئے ثابت کیا جائے تو شرک ہے ۔

محترم قارئینِ کرام : پورے قرآن کا مطالعہ کر لیں جہاں جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے علمِ قدرت اور تصرف کی بات فرمائی کہیں بھی یہ نہیں فرمایا کہ میں علم غیب جانتا ہوں اور کسی کو عطا نہیں کرتا ۔ اگر ایک آیت بھی ایسی مل جائے جس میں اللہ رب العزت نے یہ فرمایا ہو کہ میں کسی کو علم غیب پر مطلع نہیں کرتا تو ہم اپنے مؤقف سے دست بردار ہونے کے لئے تیار ہیں ۔ پس صحیح عقیدہ یہی ہے کہ علم غیب کا بالذات مالک اﷲ رب العزت ہے مگر وہ اپنے برگزیدہ بندوں کو اپنے اذن سے جو چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔ اگر یہ مانا جائے کہ عطا نہ کرنا بھی اس کی توحید میں شامل ہے تو پھر عطائی علم غیب کا اثبات بھی شرک ہوگا مگر اللہ تعالیٰ نے پورے قرآن میں ایسا کہیں نہیں فرمایا بلکہ اس نے انبیاء کرام کو علمِ غیب عطا فرمایا ہے ۔ وَعِندَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ میں علمِ عطائی کا اثبات ہے ۔

قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے علم غیب کی مَفَاتِح (کنجیوں) کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ان کا علم بھی کسی کے پاس نہیں۔ دراصل اس آیت کا غلط ترجمہ اور مفہوم اخذ کرنے کی وجہ سے استدلال بھی غلط کیا جاتا ہے ۔

آیتِ مبارکہ مع ترجمہ ملاحظہ فرمائیں : وَعِندَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لاَ يَعْلَمُهَا إِلاَّ هُوَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَا تَسْقُطُ مِن وَرَقَةٍ إِلاَّ يَعْلَمُهَا وَلاَ حَبَّةٍ فِي ظُلُمَاتِ الْأَرْضِ وَلاَ رَطْبٍ وَلاَ يَابِسٍ إِلاَّ فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ ۔
ترجمہ : اور غیب کی کُنجیاں (یعنی وہ راستے جس سے غیب کسی پر آشکار کیا جاتا ہے) اسی کے پاس (اس کی قدرت و ملکیت میں) ہیں انہیں اس کے سوا (ازخود) کوئی نہیں جانتا، اور وہ ہر اس چیز کو (بلاواسطہ) جانتا ہے جو خشکی میں اور دریائوں میں ہے، اور کوئی پتا نہیں گرتا مگر (یہ کہ) وہ اسے جانتا ہے اور نہ زمین کی تاریکیوں میں کوئی (ایسا) دانہ ہے اور نہ کوئی تر چیز ہے اور نہ کوئی خشک چیز مگر روشن کتاب میں (سب کچھ لکھ دیا گیا ہے) ۔ (سورۃُ الانعام، 6 : 59)

اس آیت کے کلمات ’’وَعِندَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لاَ يَعْلَمُهَا إِلاَّ هُوَ‘‘ (اور غیب کی کُنجیاں اسی کے پاس ہیں انہیں اس کے سوا (ازخود) کوئی نہیں جانتا) قابلِ غور ہیں۔ اگر اس سے مراد یہ ہو کہ اس نے غیب کسی کو دینا ہی نہیں تو پھر غیب کے علم کی کنجیاں بنانے کا مقصد کیا ہے ؟ اور پھر ایسا تالہ لگانے کا کیا جواز جس کی کنجی ہی کسی کو نہیں دینی ؟ اس سے یہ پتہ چلا کہ جب اللہ تعالیٰ کہتا ہے میرے پاس علمِ غیب کی کنجیاں ہیں تو دراصل وہ یہ بتانا چاہتاہے کہ میں جس کے لئے چاہتا ہوں اسے کنجی سے کھول کر علمِ غیب دے دیتا ہوں ۔ پس کنجی کا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ اگر علم غیب کسی پر نہ کھولی جانے والی چیز ہوتی تو اس کے لئے کنجیوں کا لفظ استعمال ہی نہ کیا جاتا ۔ اللہ رب العزت نے یہ فرما کر اشارہ کر دیا کہ میری مرضی پر منحصر ہے جس کے لئے چاہوں غیبی علم کا خزانہ کھول دوں اور جس کے لئے چاہوں بند کر دوں ۔ ثابت ہوا کہ جن کو علم غیب نہیں دینا ان کے لئے قفل ہے اور جن کو عطا کردیا گیا ہے ان کے لئے کنجیاں ہیں۔ لاَ يَعْلَمُهَا إِلاَّ هُوَ َ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی مرضی ہے جسے چاہے خزانہِ علم سے دامن بھردے اور جسے چاہے محروم رکھے ۔ جس کو جتنا چاہتا ہے عطا فرما دیتا ہے۔ اسے کسی کے فتویٰ کی کوئی پروا نہیں ۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے علم غیب کا خزانہ اپنے پاس رکھا ہے اور چابیاں اپنوں کے لئے رکھی ہوئی ہیں کہ جن کو عطا کرنا چاہے انہیں چابیوں کے ذریعے عطا کردیتا ہے ۔

مَفَاتِحُ الْغَيْب کا معنی ائمہِ تفسیر کی نظر میں

حقیقت یہ ہے کہ اس آیت میں علم الغیب کی نفی نہیں بلکہ اثبات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے علمِ غیب کا خزانہ اپنوں کو عطا کرنے کے لئے رکھا ہے ۔ ائمہ تفسیر کے مطابق مفاتح وہ راستے اور ذرائع ہیں جن کا مالک بالذات اللہ تعالیٰ ہے جن کے ذریعہ اس کے خزانہِ علم تک پہنچا جاسکتا ہے اور وہ جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے۔ آیتِ مذکورہ کے تحت ائمہِ تفسیر کی آراء درج ذیل ہیں :

امام خازن رحمۃ اللہ علیہ مفاتح الغیب کے بارے میں کہتے ہیں : يکون المراد منه المفاتيح التي يفتح بها.
’’عِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ سے مراد یہ ہے کہ اس کے پاس وہ چابیاں ہیں جن سے وہ کھولتا ہے۔‘‘
یہاں یفتح بہا اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جن کے لئے غیب کھولنا چاہتا ہے ان چابیوں کے ذریعہ کھول دیتا ہے ۔
امام خازن رحمۃ اللہ علیہ مزید فرماتے ہیں : و جعل للغيب مفاتيح علی طريق الإستعارة لأن المفاتيح هی التی يتوصل بها إلی ما فی الخزائن المستوثق منها بالإغلاق. فمن علم کيف يفتح بها و يتوصل إلی ما فيها فهو عالم.
’’غیب کی چابیوں کا یہ بیان بہ طریق استعارہ ہے کیونکہ چابیاں وہ آلہ ہیں جن کے ذریعے مقفل خزانے تک پہنچا جاتا ہے۔ پس جسے یہ بات معلوم ہو جائے کہ کس طرح خزانہ کھولا جاتا ہے اور اس تک کیسے رسائی ہوتی ہے تو وہ شخص عالم ہے۔(تفسیر خازن، 2 : 21)
اللہ تعالیٰ کا اشارہ اس طرف ہے کہ اس کے پاس غیب کا سربستہ خزانہ ہے جس کا قفل وہ جس کے لئے چاہتا ہے کھولتا ہے اور عطا کرتا ہے۔
امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ان چابیوں سے مراد خزانہِ غیب ہے، وہ لکھتے ہیں : فاﷲ تعالی عنده الغيب، و بيده الطرق الموصلة إليه، لا يملکها إلا هو فمن شاء إطلاعه عليها إطلعه، وَمن شاء حجبه عنها حجبه.
ﷲ تعالیٰ کے پاس علم الغیب ہے اور اسی کے ہاتھ میں وہ راستے اور ذریعے بھی ہیں (جن کو چابیاں کہا گیا ہے) جن کے ذریعے سے اس خزانہِ غیب تک پہنچا جا سکتاہے۔ ان کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے پس وہ جسے اس پر اطلاع کرنا چاہے تو اسے اس پر مطلع کر دیتا ہے اور جسے محروم رکھنا چاہے محروم رکھتا ہے۔‘‘
(قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 7 : 2)
وہ ذرائع جو اس خزانہِ غیب تک پہنچتے ہیں ان ذرائع (چابیوں) کا مالک جس پر چاہے اس خزانہ علمی کو کھول دیتا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ ان ذرائع تک پہنچنے کا ذریعہ ﷲ تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں تو جس کو ﷲ تعالیٰ چاہتا ہے اس تک پہنچا دیتا ہے۔ ثابت ہوا کہ اس نے علم غیب کا خزانہ اپنے پا س رکھا ہوا ہے اور جن کو وہ علم غیب دینا چاہتا ہے ان کے لئے چابیاں رکھی ہوئی ہیں۔
علامہ زمخشری نے تفسیر الکشاف، امام نسفی نے تفسیر مدارک التنزیل اور امام شوکانی نے تفسیر فتح القدیر میں یہی معنی بیان کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے تمثیلاً چابیوں کا ذکر ہی اس لئے کیا تاکہ لوگوں کو پتا چلے کہ ان تک پہنچنے کا راستہ ہے اور اسے کن لوگوں پر کھولا جائے گا اور کن پر نہیں کھولا جائے گا۔ اول الذکر لوگ جن پر یہ خزانہِ غیب کھولا جائے گا وہ ﷲ تبارک و تعالیٰ کے مقبول اور پسندیدہ بندے انبیاء و رسل عظام ہیں۔

انبیاء اور اولیاء کو علمِ غیب عطا کیے جانے پر ائمہ کی تصریحات

تمام غیبی علوم کے خزانے کی کنجیاں اﷲ تعالیٰ کے پاس ہیں لیکن وہ جسے چاہے عطا فرماتا ہے۔ سورہِ لقمان کی درج ذیل آیت کے تحت مفسرینِ کرام نے اس کی صراحت کردی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : إِنَّ اللَّهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ ۔
’’بیشک ﷲ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے، اور وہی بارش اتارتا ہے، اور جو کچھ رحموں میں ہے وہ جانتا ہے اور کوئی شخص یہ نہیں جانتا کہ وہ کل کیا (عمل) کمائے گا اور نہ کوئی شخص یہ جانتا ہے کہ وہ کس سرزمین پر مرے گا بیشک ﷲ خوب جاننے والا ہے، خبر رکھنے والا ہے (یعنی علیم بالذّات ہے اور خبیر للغیر ہے، ازخود ہر شے کا علم رکھتا ہے اور جسے پسند فرمائے باخبر بھی کر دیتا ہے) ۔(سورہ لقمٰن، 31 : 34)
مفسرین کی درج ذیل عبارات سے علم عطائی کی تائید ہوتی ہے۔
ملا جیون رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کے حوالے سے رقمطراز ہیں :
ولک أن تقول أن علم هذه الخمسة و ان کان لا يملکه إلا ﷲ لکن يجوز أن يعلمها من يشاء من مُحبّه وأوليائه بقرينة قوله تعالی إن ﷲ عليم خبير، علی أن يکون الخبير بمعنی المخبر.
اور آپ یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ ان پانچ امور کا اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی مالک نہیں مگر یہ جائز ہے کہ وہ اپنے محبوب بندوں اور دوستوں میں سے جسے چاہے ان امور کا علم عطا فرما دے۔ فرمانِ الٰہی کے اس قرینہ کے باعث کہ ’’بیشک اللہ بہت جاننے والا ہے تو خبیر یہاں بمعنی مخبر (یعنی خبر دینے والا) ہے۔(تفسیرات احمدیہ : 607۔608،چشتی)
علامہ صاوی رحمۃ اللہ علیہ آیتِ مذکورہ کے تحت فرماتے ہیں :(قوله : وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ مَّا ذَا تَکْسِبُ غَدًا) أی من حيث ذاتها و أما باعلام ﷲ للعبد فلا مانع منه کالأنبياء و بعض الأولياء... فلا مانع من کون ﷲ يطلع بعض عباده الصالحين علی بعض هذه المغيبات فتکون معجزة للنبی و کرامة للولی، ولذالک قال العلماء الحق أنه لم يخرج نبينا من الدنيا حتی أطلعه ﷲ علی تلک الخمس.
(اللہ تعالیٰ کا ارشاد : اور کوئی شخص یہ نہیں جانتا کہ وہ کل کیا (عمل) کمائے گا) اس کا مطلب ہے کہ ذاتی طور پر کوئی نہیں جانتا البتہ اگر اللہ تعالیٰ بندے کو علم عطا فرمائے تو اس کیلئے کچھ مانع نہیں جیسے انبیاء کو اور بعض اولیاء کو۔ اللہ تعالیٰ کیلئے اپنے بعض صالح بندوں کو ان مغیباتِ (خمسہ) میں سے بعض پر اطلاع دینے سے کوئی شے مانع نہیں یہ اطلاع نبی کیلئے بطور معجزہ اور ولی کیلئے بطور کرامت ہوتی ہے۔ پس اسی وجہ سے علماء نے کہا حق بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دنیا سے وصال فرمانے سے قبل ان پانچوں مغیبات سے مطلع فرما دیا تھا۔(صاوی، حاشیہ الصاوی علی الجلالین، 3 : 260)
علامہ اسماعیل حقی رحمۃ اللہ علیہ مذکورہ آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں : وما روی عن الأنبياء والأولياء من الأخبار عن الغيوب فبتعليم اﷲ تعالی إما بطريق الوحی أو بطريق الإلهام والکشف... وکذا أخبر بعض الأولياء عن نزول المطر و أخبر عما فی الرحم من ذکر و أنثی فوقع کما أخبر.
جو غیب کی خبریں انبیاء اور اولیاء سے مروی ہیں یہ اللہ تعالی کی تعلیم سے یا وحی کے ذریعہ یا بطریقِ الہام و کشف (مروی ہیں)... اور اسی طرح بعض اولیاء نے بارش کے اترنے کی خبر دی اور بعض نے رحمِ مادر میں لڑکا یا لڑکی کی خبر دی تو ایسے ہی ہوا جیسے انہوں نے خبر دی تھی۔(اسماعیل حقی، روح البیان 7 : 105)

علم اور درایت میں فرق

سورہِ لقمان کی آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ کے لئے لفظِ’’ علم‘‘ اور بندے کے لئے لفظِ ’’درایت‘‘ آیا ہے۔ درایت اور علم اگرچہ دونوں الفاظ ’’جاننے‘‘ کا معنی دیتے ہیں جس کی بدولت دونوں کا مفہوم تقریباً ملتا جلتا ہے لیکن عربی زبان کی فصاحت اور قرآنی اسلوب کی لطافت کے باعث دونوں میں فرق ہے۔ درایت میں کوشش اور محنت و سعی اور کسب کا معنی پایا جاتا ہے۔
علامہ بدرالدین عینی رحمۃ اللہ علیہ شرح بخاری میں لکھتے ہیں :
اذ الدراية اکتساب علم الشئ بحيلة.
کسی شے کا علم کسی بھی ذریعہ اور تدبیر سے حاصل کرنا درایت ہے۔(عینی، عمدة القاری، 1 : 293)
قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ لفظِ درایت کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
فعنه اشارة إلی أن العبد أن عمل حيلة و بذل فيها وسعه لم يعرف ما هو لاحق به من کسبه و عاقبته، فکيف بغيره ما لم يحصل له علم بتعليم من ﷲ تعالی بتوسط الرسل أو بنصب دليل عليه.
آیت میں درایت سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بندہ جو بھی تدبیر اختیار کرے اور جتنی بھی کوشش اور طاقت ممکن ہو صرف کردے پھر بھی وہ اپنے بارے میں نہیں جان سکے گا کہ وہ کیا عمل کرے گا اور اس کا خاتمہ اور انجام کب اور کہاں ہوگا۔ تو دوسروں کا عمل اور موت جاننے کی حقیقت تک کیسے رسائی حاصل کر سکتا ہے؟ ہاں اگر انبیاء علیہم السلام کے ذریعے سے حاصل ہونے والی تعلیمِ الٰہی سے یا دلائل کی روشنی میں اللہ تعالیٰ اس کو علم عطا فرمادے تو یہ صورت استثنائی ہے۔(ثناء ﷲ، التفسیر المظہری، 7 : 265،چشتی)
اس سے معلوم ہو اکہ آیت مذکورہ میں بندے کے لئے درایت کی نفی ہے اللہ تعالیٰ کے اپنے منتخب بندوں کو علم عطا کرنے اور امور غیبیہ پر مطلع کرنے کی نفی نہیں۔ ان پانچ چیزوں کا علمِ ذاتی صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے ان کا علم عطا فرما دیتا ہے۔
درج بالا آیتِ مبارکہ کی تائید میں جو احادیثِ مبارکہ وارد ہوئی ہیں ان میں بھی ذاتی علمِ غیب کی نفی ہے نہ کہ عطائی علمِ غیب کی۔
علامہ عبدالرؤف المناوی رحمۃ اللہ علیہ فیض القدیر شرح الجامع الصغیر میں حدیثِ بریدہ کے تحت فرماتے ہیں :
خمس لا يعلمهن إلا ﷲ علی وجه الإحاطة والشمول کليا وجزئيا، فلا ينافيه إطلاع اﷲ تعالیٰ بعض خواصه علی کثير من المغيبات حتی من هذه الخمس لأنها جزئيات معدودة و إنکار المعتزلة لذالک مکابرة.
پانچ چیزیں وہ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور بالاستیعاب اس طرح نہیں جانتا کہ اس کا علم ہر ہر کل اور جز کو محیط اور شامل ہو۔ یہ اللہ تعالی کے اپنے بعض خاص بندوں کو بعض امورِ غیبیہ پر مطلع کرنے کے منافی نہیں حتی کہ ان امورِ خمسہ میں سے کسی پر اطلاع دے دینا بھی اطلاع علی الغیب کے منافی نہیں کیونکہ یہ چند جزئیات ہیں اور معتزلہ کا انکار حق بات کا انکار ہے۔(مناوی، فیض القدیر شرح الجامع الصغیر، 3 : 458)
امام عبدالروف المناوی رحمۃ اللہ علیہ ایک اور حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں :
أما قوله صلی الله عليه وآله وسلم : لا يعلمها إلا هو، فمفسّر بأنه لا يعلمها أحد بذاته ومن ذاته إلا هو لکن قد تعلم بإعلام ﷲ تعالی فإن ثمة من يعلمها.
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان کہ اللہ کے سوا ان غیوباتِ خمسہ کو کوئی نہیں جانتا سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا بالذات ازخود کوئی نہیں جانتا لیکن کبھی توفیق خداوندی سے انہیں جان لیا جاتا ہے بیشک ایسے موجود ہیں جو انہیں جانتے ہیں۔(مناوی، فیض القدیر شرح الجامع الصغیر، 5 : 526)
شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ مذکورہ بالا آیت کی شرح میں فرماتے ہیں : مراد آنست کہ بے تعلیمِ الہٰی بحسابِ عقل ہیچکس اینہا را نداند آنہا از امور غیب اند کہ جز خدا کسے آن را نداند مگر آنکہ وے تعالی از نزد خود کسے را بداناند بوحی والہام۔
اس آیت سے مراد یہ ہے کہ اطلاع و تعلیمِ الٰہی کے بغیر کوئی شخص محض اپنی عقل کی بنا پر ان کو نہیں جان سکتا۔ یہ وہ غیبی امور ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا مگر جن کو وہ اپنی طرف سے وحی و الہام کے ذریعے اطلاع فرما دے وہ جان سکتا ہے۔(عبدالحق، اشعة اللمعات، 1 : 44)
قرآن میں غیر سے علمِ غیب کی نفی اس معنی میں آئی ہے کہ وہ کسی کو غالب نہیں کرتا اور غالب کا معنی ہے کہ کوئی از خود نہیں لے سکتا، جس کو جو بھی ملتا ہے بالعطاء ملتا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خزانہِ غیب کا حصہِ کامل عطا کیا گیا ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔