درسِ قرآن موضوع آیت : اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ۔ حصّہ چہارم
علاّمہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں : میں کہتا ہوں کہ امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مبلغ علم کے اعتبار سے عثمان بن ابی عمر رضی اللہ عنہ کو متفرد کہا ہے ‘ ان کو یہ معلوم نہیں ہوا کہ روح بن عبادہ نے بھی شعبہ سے اس حدیث کو روایت کیا ہے اور یہ اسناد صحیح ہے ‘ اس سے معلوم ہوا کہ عثمان بن ابی عمر رضی اللہ عنہ اس روایت میں متفرد نہیں ہے ۔ (مجموع الفتاوی ج ١ ص ١٩٥۔ ١٩٤‘ مطبوعہ دارالجیل ‘ ریاض ‘ ١٤١٨ ھ)
طبرانی کی روایت مذکورہ کا صحاح کی دوسری روایت سے تعارض کا جواب
ایک سوال یہ ہوسکتا ہے کہ حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ کی اس روایت کو امام ترمذی ‘ امام ابن ماجہ ‘ امام احمد اور امام ابن سنی علیہم الرّحمہ نے روایت کیا اور اس میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں وسیلہ کے ساتھ دعا کا ذکر نہیں ہے ‘ اس کے برخلاف امام طبرانی اور امام بیہقی علیہما الرّحمہ نے حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ کی اس روایت میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں بھی حضور سے توسل کرنے کا ذکر کیا ہے ‘ اس کی کیا وجہ ہے ؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ایک حدیث کو بعض ائمہ اختصار کے ساتھ روایت کرتے ہیں اور بعض ائمہ تفصیل کے ساتھ روایت کرتے ہیں ‘ اعتراض کا محل یہ تھا کہ اس روایت کی سند صحیح نہ ہوتی یا ضعیف ہوتی اور جب علامہ ابن تیمیہ نے خود بیان کیا کہ طبرانی رحمۃ اللہ علیہ کی مفصل حدیث دو صحیح سندوں کے ساتھ مروی ہے تو پھر اعتراض کی کب گنجائش ہے ؟
امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے دوسندوں کے ساتھ اس حدیث کو اختصارا روایت کیا ۔ (دلائل النبوۃ ج ٢ ص ١٦٧۔ ١٦٦) ۔ پھر اس حدیث کو روح بن قاسم عن ابی جعفر مدینی عن ابی امامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کی سند سے تفصیل کے ساتھ روایت کیا جیسا کہ امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کیا ہے اور اس کے بعد مزید یہ کہا : اس حدیث کو ہشام دستوائی نے از ابو جعفر از ابوامامہ بن سہل از عم خود روایت کیا ہے ‘ ابوامامہ کے چچا حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ ہیں ۔ (لائل النبوۃ ج ٦ ص ١٦٨‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت،چشتی)
امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کی اس مفصل روایت کا اور اس دوسری سند کا شیخ ابن تیمیہ نے بھی ذکر کیا ہے ‘ لکھتے ہیں :
امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے اس سند کے ساتھ قصہ کو روایت کیا ہے اور اس سے آپ کے وصال کے بعد آپ سے توسل پر استدلال کیا جاتا ہے ‘ بشرطیکہ یہ روایت صحیح ہو ۔ (فتاوی ابن تیمیہ ج ١ ص ٢٦٨‘ مطبوعہ بامر فہد بن عبدالعزیز آل السعود)؎
توسل بعد از وصال پر علامہ ابن تیمیہ کے اعتراضات کے جوابات
علامہ ابن تیمیہ نے یہ تو کہا ہے کہ اگر اس حدیث کی سند صحیح ہو تو اس حدیث سے وفات کے بعد وسیلہ ثابت ہے ‘ لیکن انہوں نے اس حدیث کی سند پر کوئی اعتراض نہیں کیا اور اس میں کوئی ضعف نہیں نکال سکے ‘ علاوہ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہکی روایت بیان کرنے کے بعد انہوں نے اسی روایت کو امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالہ بیان کرچکے ہیں ‘ لہذا جب امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ کی روایت صحیح ہے اور اس روایت کی دوسری سند بھی صحیح ہے تو ابن تیمیہ کے اپنے اقرار کے مطابق وفات کے بعد وسیلہ ثابت ہوگیا اور یہ واضح ہوگیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد آپ سے دعا کی درخواست کرنا اور آپ کو یا محمد کے صیغہ سے ندا کرنا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نزدیک جائز تھا، جبھی حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو یہ دعا تلقین کی کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میں آپ کے وسیلہ سے آپ کے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہوں تاکہ وہ میری حاجت پوری کر دے ۔
ابن تیمیہ نے اس بحث میں جو آخری اعتراض کیا ہے وہ یہ ہے : حافظ ابوبکر بن خیثمہ نے اپنی تاریخ میں اس حدیث کو ان الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے : حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک نابینا شخص نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا : میری بینای چلی گئی ہے ‘ آپ اللہ تعالیٰ سے میری لیے دعا کیجئے ‘ آپ نے فرمایا : جا کر وضو کرو اور دو رکعت نماز پڑھو ‘ پھر کہو : اے اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیرے نبی محمد نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں ‘ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میں اپنے رب کے حضور اپنی بصارت لوٹانے کے لیے آپ کی شفاعت طلب کرتا ہوں ‘ اے الہ ! میرے حق میں میری شفاعت کو قبول کر اور میری بصارت لوٹانے میں میری نبی کی شفاعت قبول فرما ‘ اور اگر تمہیں کوئی اور کام ہو تو پھر اسی طرح کرنا پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی بصارت لوٹا دی ۔ (فتاوی ابن تیمیہ ج ١ ص ٢٧٥‘ مطبویہ بامر فہد بن عبدالعزیز آل السعود)
اس روایت پر ابن تیمیہ نے حسب ذیل اعتراضات کیے ہیں
(1) اگر تمہیں کوئی اور کام ہو تو اسی طرح کرو “ یہ حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ کے الفاظ ہیں ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے الفاظ نہیں ہیں ۔
(2) دوسرے راویوں کی روایت میں یہ الفاظ نہیں ہیں (جیسا کہ گزر چکا ہے) اور اگر بالفرض یہ الفاظ ثابت ہوں تب بھی یہ دلیل نہیں ہے ‘ کیونکہ اس سے زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ دعا کے بعض الفاظ کافی ہیں ‘ کیونکہ انہوں نے مشروع دعا کرنے کا حکم نہیں دیا بلکہ دعا کے بعض الفاظ کہنے کا حکم دیا ہے ۔
(3) حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے یہ گمان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد بھی اس طرح (یعنی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے دعا کرنا جائز ہے ‘ حالانکہ حدیث کے الفاظ اس کے خلاف ہیں ‘ کیونکہ نابینا صحابی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ سوال کیا تھا کہ آپ اس کے لیے دعا کریں اور اس کو یہ یقین تھا کہ آپ اس کے لیے دعا کریں گے اور آپ نے اس کو حکم دیا تھا کہ وہ دعا میں یہ کہے کہ اے اللہ ! حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت میرے حق میں قبول فرما ! اور اس طریقہ سے یہ دعا اس وقت صحیح ہوگی جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے لیے دعا کریں اور اس کی شفاعت کریں اور جس کو آپ کی دعا کرنے اور آپ کے شفاعت کرنے کا علم نہیں ہے، اس کا اس طریقہ سے دعا کرنا صحیح نہیں ہے ‘ اس طریقہ سے دعا کرنا اور شفاعت طلب کرنا آپ کی حیات دنیاوی میں ہی درست تھا اور یا قیامت کے دن درست ہوگا جب آپ شفاعت فرمائیں گے ۔ (فتاوی ابن تیمیہ ج ١ ص ٢٧٦۔ ٢٧٤‘ مطبوعہ بامر فہدبن عبدالعزیز،چشتی)
پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ : اگر یہ الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نہ ہوں بلکہ حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ ہی کے ہوں تب بھی کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ کسی چیز کے جائز ناجائز ہونے میں ابن تیمیہ کی بہ نسبت صحابی رسول کی فہم اور ان کے اجتہاد پر اعتماد کرنا زیادہ قرین قیاس ہے ۔
دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ : حافظ ابن ابی خیثمہ کی اس روایت سے ہمارا استدلال نہیں ہے ‘ اگر اس پر ابن تیمہ کو اعتراض ہے تو اس روایت کو ہم چھوڑ دیتے ہیں ‘ ہمارا استدلال تو امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ کی روایت ہے جس کے متعلق خود ابن تیمیہ نے تصریح کی ہے کہ یہ دو صحیح سندوں سے مروی ہے ۔
تیسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ : جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دعا کی درخواست کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ آپ کی اس درخواست کی طرف متوجہ کردیتا ہے یا اس درخواست پر مطلع کردیتا ہے ‘ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری دعا کی قبولیت کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور شفاعت کرتے ہیں اور اس میں کون سا شرعی یا عقلی استبعاد ہے ؟
امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں : حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھ پر میری امت کے اچھے اور برے تمام اعمال پیش کیے جاتے ہیں ۔ (صحیح مسلم ج ١ ص ٢٠٧‘ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٧٥ ھ)
اس حدیث کے پیش نظر جب آپ کا کوئی امتی آپ سے دعا کی درخواست کرے گا تو آپ کو اس کا علم ہوجائے گا اور آپ اس کی شفاعت فرمائیں گے ‘ کیونکہ آپ نے خود اپنے وسیلہ سے دعا کرنے اور دعا کی درخواست کرنے کی ہدایت دی ہے اور اس ہدایت کو عام رکھا ہے اور اس میں حیات یا بعد از وفات کی قید نہیں لگائی ‘ اس لیے ابن تیمیہ کا یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ ” اور اس طریقہ سے دعا اس وقت صحیح ہوگی ، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے لیے دعا کریں اور اس کی شفاعت کریں اور جس کو آپ کے دعا کرنے اور آپ کے شفاعت کرنے کا علم نہیں ہے اس کا اس طریقہ سے دعا کرنا صحیح نہیں ہے “ کیونکہ حیات اور ممات میں وسیلہ کے جواز اور عدم جواز کا فرق علم کے ہونے یا نہ ہونے کی وجہ سے ہوسکتا تھا اور آپ کے ہر دو صورت میں علم حاصل ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام احکام مسلمانوں کے لیے قیامت تک کے لیے حجت ہیں اور آپ کے افعال مسلمانوں کے لیے اسوہ اور نمونہ ہیں ‘ اگر آپ کا کوئی حکم صرف آپ کی حیات مبارکہ کے ساتھ مخصوص ہو اور بعد کے لوگوں کے لیے اس کا کرنا جائز ہو تو آپ پر لازم ہے کہ آپ یہ بیان فرمائیں کہ یہ حکم میری زندگی کے ساتھ خاص ہے اور بعد کے لوگوں کے لیے اس حکم عمل کرنا جائز نہیں ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوبردہ بن نیار رضی اللہ عنہ کو ایک شش ماہہ بکرے کی قربانی کرنے کا حکم دیا اور فرما دیا : تمہارے بعد کسی کے لیے یہ عمل جائز نہیں ہے ‘ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں : حضرت براء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو بردہ رضی اللہ عنہ نے نماز عید سے پہلے قربانی کرلی ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس کے بدلہ میں اور قربانی کرو ‘ انہوں نے کہا : میرے پاس صرف چھ ماہ کا ایک بکرا ہے جو سال کے بکرے سے فربہ ہے آپ نے فرمایا : اس کے بدلہ میں اس کی قربانی کردو ‘ اور تمہارے بعد کسی اور کے لیے شش ماہہ بکرے کی قربانی جائز نہیں ہوگی ۔ (صحیح بخاری ج ٢ ص ٨٣٤‘ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٨١ ھ،چشتی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ استثناء اس لیے بیان فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام اقوال اور افعال مسلمانوں کے حق میں قیامت تک کے لیے حجت ہیں اگر آپ یہ استثناء نہ فرماتے تو چھ ماہ کے بکرے کی قربانی سب کے لیے قیامت تک جائز ہوجاتی ‘ ابن تیمیہ کہتے ہیں : وفات کے بعد کسی بزرگ سے دعا کی درخواست کرنا شرک کی طرف لے جاتا ہے : ہر چند کہ انبیاء علیہم السّلام اور صالحین علیہم الرّحمہ اپنی اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور اگر یہ فرض کیا جائے کہ وہ زندوں کے لیے دعا کرتے ہیں اور بیشک اس کی تائید میں احادیث بھی ہیں ‘ پھر بھی کسی شخص کے لیے ان سے دعا کو طلب کرنا جائز نہیں ہے اور پہلے لوگوں میں سے کسی نے یہ نہیں کیا کیونکہ یہ شرک کا سبب ہے ‘ اور اللہ کو چھوڑ کر ان کی عبادت کا ذریعہ ہے ‘ اس کے برخلاف اگر ان کی زندگی میں ان سے دعا طلب کی جائے تو یہ شرک نہیں ہے ۔ (فتاوی ابن تیمیہ ج ١ ص ٣٣٠‘ مطبوعہ بامر فہد بن عبدالعزیز آل السعود)
ابن تیمیہ کا یہ قاعدہ باطل ہے کیونکہ وفات کے بعد کسی سے دعا کی درخواست کرنا شرک کا سبب ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس نابینا صحابی رضی اللہ عنہ سے فرما دیتے کہ اس طریقہ سے دعا کرنا صرف میری زندگی میں جائز ہے اور میرے وصال کے بعد اس طریقہ سے دعا کرنا جائز نہیں ہے ‘ بلکہ شرک کا سبب ہے ‘ کیونکہ آپ کی بعثت کا مقصد ہی شرک کی بیخ کنی کرنا تھا اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بغیر کسی استثناء کے نابینا صحابی کو دعا کا یہ طریقہ تعلیم کیا تو معلوم ہوا کہ قیامت تک اس طریقہ سے دعا کرنا جائز ہے اور صحابی رسول حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے اس حدیث سے یہی سمجھا تھا ‘ اسی وجہ سے انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد بھی ایک شخص کو دعا کا یہ طریقہ بتلایا اور ہمارے لیے صحابی رسول رضی اللہ عنہ کے طریقہ کی اتباع کرنا ‘ ابن تیمیہ کے افکار کی اتباع کرنے سے بہتر ہے ۔
توسل بعد از وصال کے متعلق شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا نظریہ
شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : کاش میری عقل ان لوگوں کے پاس ہوتی ‘ جو لوگ اولیاء اللہ سے استمداد اور ان کی امداد کا انکار کرتے ہیں ‘ یہ اس کا کیا مطلب سمجھتے ہیں ؟ جو کچھ ہم سمجھتے ہیں وہ یہ ہے کہ دعا کرنے والا ‘ اللہ کا محتاج ہے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہے اور اس سے اپنی حاجت کو طلب کرتا ہے اور یہ عرض کرتا ہے کہ اے اللہ ! تو نے اپنے اس بندہ مکرم پر جو رحمت فرمائی ہے اور اس پر جو لطف و کرم کیا ہے اس کے وسیلہ سے میری اس حاجت کو پورا فرما ‘ کہ تو دینے والا کریم ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وہ اس اللہ کے ولی کو ندا کرتا ہے اور اس کو مخاطب کرکے یہ کہتا ہے کہ اے بندہ خدا اور اے اللہ کے ولی ! میری شفاعت کریں اور اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کریں کہ وہ میرا سوال اور مطلوب مجھے عطا کرے اور میری حاجت برلائے ‘ سو مطلوب کو دینے والا اور حاجت کو پورا کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے ‘ اور یہ بندہ درمیان میں صرف وسیلہ ہے ‘ اور قادر ‘ فاعل اور اشیاء میں تصرف کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے ‘ اور اولیاء اللہ ‘ اللہ تعالیٰ کے فعل ‘ سطوت ‘ قدرت اور غلبہ میں فانی اور ہلاک ہیں اور ان کو اب قبر میں افعال پر قدرت اور تصرف حاصل ہے اور نہ اس وقت قدرت اور تصرف حاصل تھا ‘ جب وہ زندہ تھے ۔
اور امداد واستمداد کا جو معنی میں نے ذکر کیا ہے اگر موجب شرک اور غیر اللہ کی طرف توجہ کو مستلزم ہوتا جیسا کہ منکر کا زعم فاسد ہے تو چاہیے یہ تھا کہ صالحین سے طلب دعاء اور توسل زندگی میں بھی ناجائز ہوتا حالانکہ یہ بجائے ممنوع ہونے کے بالاتفاق جائز اور مستحسن ومستحب ہے ‘ اور اگر منکر یہ کہیں کہ موت کے بعد اولیاء اللہ اپنے مرتبہ سے معزول ہوجاتے ہیں اور زندگی میں جو فضیلت و کرامت انہیں حاصل تھی وہ باقی نہیں رہی تو اس پر کیا دلیل ہے ؟
اور اگر یوں کہیں کہ بعد موت کے وہ ایسی آفات وبلیات میں مبتلا ہوئے کہ انہیں دعا وغیرہ کی فرصت نہ رہی تو یہ قاعدہ کلیہ نہیں ہے اور نہ اس پر دلیل ہے کہ اولیاء کے لیے ابتلا قیامت تک رہتا ہے ‘ زیادہ سے زیادہ جو کہا جاسکتا ہے وہ یہ ہے کہ ہر اہل قبر سے استمداد سود مند نہیں ہوتی بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ بعض اولیاء جذب و استغراق کی کیفیت میں ہوں اور عالم لاہوت کے مشاہدہ میں اس طرح منہمک ہوں کہ اس دنیا کے حالات کی طرف توجہ اور شعور نہ رہے تو وہ اس دنیا میں تصرف نہ کریں جیسا کہ دنیا میں بھی اولیا اللہ کے حالات مختلف ہوتے ہیں۔ ہاں اگر اولیاء اللہ کے حق میں زائرین کا یہ اعتقاد ہو کہ وہ مدد کرنے میں مستقل ہیں اور اللہ کی جانب میں توجہ کئے بغیر بطور خود ذاتی قدرت سے امداد کرتے ہیں ‘ جیسے بعض جہلاء کا عقیدہ ہے کہ وہ قبرکو بوسہ دیتے ہیں اور سجدہ کرتے ہیں اور اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے ہیں ‘ یہ تمام افعال ممنوع اور حرام ہیں اور ناواقف عوام کے افعال کا کوئی اعتبار نہیں ‘ اور وہ خارج از بحث ہیں اور عارف بشریعت و عالم بہ احکام بہ احکام دین ان تمام منکرات سے سخت بیزار ہیں اور مشائخ اور اہل کشف سے ارواح کا ملہ سے استفادہ کے بارے میں جو کچھ مروی ہے وہ حصر سے خارج ہے اور ان کی کتابوں میں مشہور اور مذکور ہے ‘ حاجت نہیں کہ ہم اس کا ذکر کریں اور ممکن ہے کہ وہ منکر متعصب کو فائدہ نہ دے۔ اللہ تعالیٰ ہم کو اس بدعقیدگی سے محفوظ رکھے ۔ (اشعۃ اللمعات ج ٣ ص ٤٠٢۔ ٤٠١ مبطوعہ مطبع تیج کمار ‘ لکھنو،چشتی)
توسل بعد از وصال کے متعلق علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ کا نظریہ
علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں اور آپ کے وصال کے بعد آپ کی عزت اور وجاہت کے وسیلہ سے اللہ سے دعا کرنے میں میرے نزدیک کوئی حرج نہیں ہے ‘ اور آپ کی وجاہت سے یہاں اللہ تعالیٰ کی ایک صفت مراد ہے ۔ مثلا اللہ تعالیٰ کی آپ سے وہ کامل محبت جس کا یہ تقاضا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی دعا کو مسترد نہ کرے اور آپ کی شفاعت کو قبول فرمائے ‘ اور جب کوئی شخص دعا میں کہتا ہے : اے اللہ ! میں اپنی اس حاجت کے پورا ہونے میں تیری محبت کو وسیلہ بناتا ہوں اور اس دعا میں اور تمہارے اس قول میں کوئی فرق نہیں ہے کہ اے اللہ ! میں تیری رحمت کو وسیلہ بناتا ہوں کہ تو میرا یہ کام کردے ‘ بلکہ میں یہ کہنا بھی جائز سمجھتا ہوں کہ کوئی شخص یہ کہے کہ اے اللہ ! میں تجھ کو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وجاہت کی قسم دیتا ہوں کہ تو یہ کام کر دے ۔ وجاہت اور حرمت کے ساتھ سوال کرنے میں ایک جیسی بحث ہے ‘ توسل اور ذات محض کی قسم دینے میں یہ بحث جاری نہیں ہوگی ‘ ہاں وجاہت اور حرمت کے وسیلہ سے دعا کرنا کسی صحابی سے منقول نہیں ہے اور شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ صحابہ رضی اللہ عنہم وسیلہ کے ساتھ دعا کرنے سے اس لیے اجتناب کرتے تھے کہ لوگوں کے ذہنوں میں کوئی بدعقیدگی جگہ نہ پکڑے ‘ کیونکہ ان کا زمانہ بتوں کے ساتھ توسل کرنے کے قریب تھا ‘ اس کے بعد ائمہ طاہرین نے بھی صحابہ رضی اللہ عنہم کی اقتداء میں وسیلہ کے ساتھ دعا نہیں کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کعبہ کی اس وقت کی عمارت کو منہدم کر کے بناء ابراہیم پر اس کو دوبارہ تعمیر کرنا چاہتے تھے ‘ لیکن چونکہ آپ کی قوم تازہ تازہ کفر سے نکلی تھی ‘ اس لیے آپ نے فتنہ پیدا ہونے کے خدشہ سے اپنے ارادہ کو ترک کردیا جیسا کہ حدیث صحیح میں ہے ‘ میں نے وجاہت سے توسل اور قسم دینے کا جواز اور اس کی توجیہ اس لیے بیان کی ‘ تاکہ عام مسلمانوں کو اس دعا میں حرج نہ ہو ‘ کیونکہ بعض لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وجاہت کے وسیلہ سے دعا کرنے پر گمراہی کا حکم لگانے کا دعوی کرتے ہیں، اس تقریر سے میرا یہ مقصد نہیں ہے کہ اس طرح وسیلہ سے دعا کرنا ان دعاؤں سے افضل ہے ‘ جو قرآن مجید اور احادیث میں مذکور ہیں اور جن دعاؤں پر صحابہ کرام (رض) کاربند رہے اور اخیار تابعین نے جس طریقہ کو اپنا یا ‘ یقیناً دعا کا یہی طریقہ زیادہ اچھا ‘ زیادہ جامع ‘ زیادہ نفع آور اور زیادہ سلامتی والا ہے۔ (روح المعانی ج ٦ ص ١٢٨‘ مطبوعہ دارا حیاء التراث العربی ‘ بیروت) ۔ (بقیہ حصّہ پنجم میں پیش کیا جائے گا ان شاء اللہ)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment