Thursday, 12 December 2019

قبولِ اسلام سے پہلے کے اعمال کے متعلق شرعی حکم

قبولِ اسلام سے پہلے کے اعمال کے متعلق شرعی حکم

محترم قارئینِ کرام : آج کل بعض بد بخت لوگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اسلام سے پہلے کی زندگی کو لے کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی توہین کر رہے ہیں فقیر نے مختصر وقت میں مناسب سمجھا کہ ان بد بختوں کو جواب بھی دیا جائے اور عامۃ المسلمین کو بھی آگاہ کیا جائے کہ جو شخص کفر و شرک چھوڑ کر اسلام قبول کر لے تو اس کے حالتِ کفر میں سرزد ہونے والے تمام گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں ۔ اسلام سے پہلے جو بھی گناہ ہیں وہ اسلام قبول کرنے کے بعد معاف ہو جاتے ہیں اور اسلام انہیں ختم کر دیتا ہے آیئے اس کے متعلق مختصر مضمون پڑھتے ہیں حقائق و دلائل کی روشنی میں ۔

امام یحییٰ بن شرف نووی رحمۃ اللہ علیہ شرح صحیح مسلم میں لکھتے ہیں : قرآنِ مجید اور احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہے کہ جو شخص مسلمان ہو گیا اس کے زمانۂ کفر کے تمام گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں ۔ (شرح صحيح مسلم نووی جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 136)

اس کی وضاحت اس حدیث مبارکہ سے بھی ہوتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے فرمایا : اے عمرو! کیا تم نہیں جانتے کہ اسلام پچھلے تمام گناہ مٹا دیتا ہے؟ ۔ (مسلم، الصحيح، کتاب الإيمان، باب کون الاسلام يهدم ما قبله، 1 : 112، رقم : 121،چشتی)

حضرت عبد ﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ مشرکین میں سے بعض لوگ کثرت سے بدکاری و شراب نوشی اور دیگر کبیرہ گناہوں میں ملوث تھے ۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے : آپ ہمیں جس دین کی دعوت دیتے ہیں وہ بہترین دین ہے لیکن کیا اسلام قبول کرنے سے ہمارے (سابقہ) گناہوں کا کفارہ ہو جائے گا ؟ اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی : قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًاؕ-اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ ۔ (سورہ الزمر، 39 : 53)
ترجمہ : تم فرماؤ اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اللہ کی رحمت سے نااُمید نہ ہو بیشک اللہ سب گناہ بخش دیتا ہے بیشک وہی بخشنے والا مہربان ہے ۔

قُلْ: تم فرماؤ ۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بندوں پر اپنی کامل رحمت ، فضل اور احسان کا بیان فرمایا ہے ، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے حبیب ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، آپ فرما دیں کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے’’ اے میرے وہ بندو ! جنہوں نے کفر اور گناہوں میں مبتلا ہو کر اپنی جانوں پر زیادتی کی ، تم اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا اور یہ خیال نہ کرناکہ ایمان قبو ل کر لینے کے بعد سابقہ کفر و شرک پر تمہارا مُؤاخذہ ہو گا ، بیشک اللہ تعالیٰ اُس کے سب گناہ بخش دیتا ہے جو اپنے کفر سے باز آئے اور اپنے گناہوں سے سچی توبہ کر لے ،بیشک وہی گناہوں پر پردہ ڈال کربخشنے والا اور مصیبتوں کو دور کر کے مہربانی فرمانے والا ہے ۔ (تفسیرکبیر، الزّمر،تحت الآیۃ:۵۳، ۹/۴۶۳-۴۶۴، جلالین مع جمل، الزّمر، تحت الآیۃ: ۵۳، ۶/۴۳۹-۴۴۰، مدارک، الزّمر، تحت الآیۃ: ۵۳، ص۱۰۴۳)

اس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں متعدد روایات ہیں ، ان میں سے ایک یہ ہے ،حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’مشرکوں کے کچھ آدمیوں نے بارہا قتل و زِنا کا اِرتکاب کیا تھا ، یہ لوگ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ جو کچھ آپ فرماتے ہیں وہ باتیں تو بہت اچھی ہیں لیکن ہمیں یہ تو معلوم ہو جائے کہ کیا ہمارے اتنے سارے گناہوں کا کفارہ ہو سکتا ہے ؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی : وَ الَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ وَ لَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَ لَا یَزْنُوْنَ ۔ (سورہ فرقان:۶۸)
ترجمہ : اور وہ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کی عبادت نہیں کرتے اور اس جان کو ناحق قتل نہیں کرتے جسے اللہ نے حرام فرمایا ہے اور بدکاری نہیں کرتے ۔
اور یہ آیت نازل ہوئی : قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ۔
ترجمہ : تم فرماؤ : اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ! اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا ۔ (بخاری، کتاب التفسیر، باب یا عبادی الذین اسرفوا علی انفسہم... الخ، ۳/۳۱۴، الحدیث: ۴۸۱۰،چشتی)

مذکورہ حدیث میں صراحت کے ساتھ قبولِ اسلام سے پہلے کیے گئے برے اعمال کی معافی کا ذکر ملتا ہے ۔ اسی طرح ایک حدیث شریف حالتِ کفر میں کیے گئے نیک اعمال کی وضاحت یوں کرتی ہے : حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کیا : کیا مجھے ان نیکیوں پر اجر ملے گا جو میں نے زمانۂ جاہلیت میں کی تھیں ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : زمانہ جاہلیت میں جن نیکیوں کی تم نے عادت ڈالی تھی، وہ عادت اسلام میں بھی باقی رہے گی ۔ (مسلم ، الصحيح ، کتاب الايمان، باب بيان حکم عمل الکافر إذا أسلم بعده، 1 : 113، رقم : 123)

ایک اور حدیث شریف میں ہے کہ حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کے اسی سوال پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : سابقہ نیکیوں ہی کی بدولت تم کو اسلام قبول کرنے کی توفیق نصیب ہوئی ہے ۔ (بخاری، الصحيح، کتاب الزکة، باب من تصدق فی الشرک ثم اسلم، 2 : 521، رقم : 1369)(مسلم، الصحيح، کتاب الايمان، باب بيان حکم عمل الکافر اذا أسلم بعده، 1 : 114، رقم : 123)

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاجب کوئی بندہ مسلمان ہوجائے پس اچھی طرح مسلمان ہو تو اللہ اس کا ہر ایک گناہ اتار دے گا جو وہ (اسلام سے پہلے) کرچکا تھا اور اس کے بعد حساب شروع ہوگا ایک نیکی کے بدل ویسی دس نیکیوں سے سات سو نیکیوں تک (لکھی جائیں گی) اور برائی کے بدل ویسی ہی ایک برائی (لکھی جائے گی) مگر جب اللہ اس کو معاف کردے ۔ (بخاری ، جلد اول کتاب الایمان ،حدیث:31)

حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا میں نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! بتلایئے کفر کے زمانے میں جو میں نے نیکیاں کی ہیں جیسے خیرات کرنا ، غلام آزاد کرنا ، ناطے والوں سے سلوک کرنا ، کیا ان کا ثواب مجھے ملے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تُوجتنے نیک کام کرچکا ہے ، ان کو قائم رکھ کر مسلمان ہوا ۔ (بخاری ، جلد اول کتاب الزکوۃ ،حدیث نمبر:1353،چشتی)

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا ہم سے ان کاموں کا مواخذہ ہوگا جو دور جاہلیت میں ہم نے کئے ہیں ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے اسلام لانے کے بعد نیک عمل کئے اس سے جاہلیت کے کاموں کا مواخذہ نہ ہوگا اور جو اسلام لانے کے بعد بداعمالیوں میں مشغول رہا اس سے (جاہلیت کے کاموں کا) مواخذہ ہوگا ۔ (صحیح مسلم ، کتاب الایمان)

حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی ہے، ان کا بیان ہے کہ : لَمَّا جَعَلَ اللّٰہُ الإِسْلاَمَ فِیْ قَلْبِیْ، أَتَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ: أُبْسُطْ یَمِیْنَکَ فَلأُبَایِعَکَ، فَبَسَطَ یَمِیْنَہٗ فَقَبَضْتُ یَدَیَّ، فَقَالَ: مَا لَکَ یَا عَمَرُو! قُلْتُ: أَرَدْتُّ أَنْ أَشْتَرِطَ قَالَ: تَشْتَرِطُ مَاذَا؟ قُلْتُ: أَنْ یُّغْفَرَ لِیْ قَالَ: أَمَا عَلِمْتَ یَا عَمَرُو أَنَّ الإِسْلاَمَ یَہْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہٗ، وَأَنَّ الْہِجْرَۃَ تَہْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہَا، وَأَنَّ الْحَجَّ یَہْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہٗ۔ (صحیح مسلم کتاب الایمان)
ترجمہ : جب اللہ نے میرے دل میں مشرف باسلام ہونے کا خیال ڈالا تو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ، اور میں نے عرض کیا کہ اپنا ہاتھ بڑھائیے ؛ تاکہ میں آپ سے بیعت کروں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا داہنا ہاتھ آگے کردیا ؛ لیکن میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں کیا ہوا کہ تم نے ہاتھ کھینچ لیا ؟ میں نے عرض کیا کہ میں ایک شرط لگانا چاہتا ہوں ، وہ یہ کہ میری خطائیں بخش دی جائیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے عمرو! کیا تمہیں یہ معلوم نہیں ہے کہ اسلام قبول کرنا سابقہ سبھی گناہوں کو مٹادیتا ہے ، ہجرت بھی پہلے گناہوں کو ڈھادیتی ہے اور حج بھی ماضی کے گناہوں کو زائل کردیتا ہے ۔

اس حدیث میں اس کی صراحت کردی گئی ہے کہ اسلام سابقہ گناہوں کو مٹادیتا ہے؛ بلکہ اس کے بعض اعمال مثلاً ہجرت وحج کی بھی یہ تاثیر ہے ، یہ ملحوظ رہے کہ سابقہ گناہوں کا ازالہ اسلام اور ہجرت وحج سے اسی وقت ہوسکے گا جب کہ نیت صادق اور خالص ہو، نیز اسلام ودیگر اعمال سے حقوق اللہ معاف ہوتے ہیں ، حقوق العباد خصوصاً مالی حقوق اسی وقت معاف ہوتے ہیں ، جب حق داروں سے معاملہ صاف کرلیا جائے۔

محترم قارئینِ کرام : مذکورہ تمام دلائل سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جو شخص ظاہراً اور باطناً مسلمان ہو گیا اس کے زمانۂ کفر کے برے کاموں پر مواخذہ نہیں ہو گا اور سابقہ نیک کاموں کی بدولت وہ آئندہ زندگی میں بھی اچھے اعمال جاری رکھے گا ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...