Wednesday 11 December 2019

حلالہ کیا ہے اور نکاحِ حلالہ کی شرعی حیثیت

0 comments
حلالہ کیا ہے اور نکاحِ حلالہ کی شرعی حیثیت

انتہائی افسوسناک مقام ہے موجودہ دور کے مسلمانوں کےلیئے شرعی مسائل کو مذاق بنایا جاتا ہے ، جنہیں علم تک نہیں ہوتا کہ شرعی مسائل پر بات کرنے کے اصول و ضوابط کیا ہیں ؟ شرع مسائل پر بحث کرنے کےلیئے کن کن علوم کا حاصل ہونا ضروری ہے اس کے باوجود بھی شرعی مسائل پر بحث کرنے میں احتیاط برتنا ضروری ہے ۔ مگر موجودہ دور میں مسلمان کہلانے والوں کی روش بن چکی ہے جسے استنجا کرنے کے مسائل معلوم نہیں وہ بھی اہم شرعی مسائل پر بحث کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور جب علم نہیں ہوتا تو پھر گالم گلوچ شروع ہوجاتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے وہ ہمیں اس فتنے و گناہ سے بچائے آمین آیئے اب اس مسلہ کو سمجھتے ہیں :

اصل حلالہ نکاح صحیح کے ساتھ حقوق زوجیت کی ادائیگی کا نام ہے اور یہ ایک ایسا امر ہے جو عین شریعت کے مطابق ہے اگر مطلقہ عورت کو شوہر سابق کے ساتھ پھر عقد کرنے کے لئے دوسرے شوہر کے ساتھ نکاح بشرط حلالہ کیا جائے تو نکاح میں فرق نہیں پڑے گا صرف یہ شرط لگانی مکروہ ہوگی کیونکہ حلالہ کی شرط سے نکاح کرنے کرانے والے پر لعنت کی گئی ہے۔ اس لئے کہ نبی اکر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لعن اللہ علی المحلل و المحل لہ۔ حلالہ کرنے والا اور جس کے لئے حلالہ کیا جائے ملعون ہیں لہٰذا یہ شرط لگانی مکروہ نکاح میں کوئی فرق نہیں پڑھتا کیونکہ نکاح کے منافی شروط خود اڑ جاتی ہے نکاح متاثر نہیں ہوتا۔ اس مسئلہ کو غلط اور ادھورے طریقہ سے پیش کیا جاتا ہے ۔

قارئین محترم پہلے یہ سمجھیں کہ حلالہ کیا ہے ؟ حلالہ کا معنیٰ ہے حلال کرنے والا نکاح حقیقت میں تو ہر نکاح منکوحہ کو ناکح کے لئے حلال کرتا ہے مگر یہ خاص صورت وہ جب کوئی عورت منکوحہ طلاق مغلظہ کے ساتھ (تین طلاقوں کیساتھ ) اپنے پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہو جائے اس کے بعد یہ عورت پہلے شوہر کے ساتھ رشتہ ازدواجیت قائم کرنا چاہے تو اس کی ایک ہی صورت شریعت اسلامیہ نے رکھی ہے وہ کسی اور مرد سے نکاح کرکے حقوق زوجیت ادا کرے اور وہ دوسرا شوہر اس کو طلاق دیکر زوجیت سے خارج کرے یہ عورت عدت گزارنے کے بعد زوج اول سے نکاح کر سکتی ہے اب یہ نکاح ثانی حلالہ کی شرط کے ساتھ ہو یا اتفاقاً (نارمل طریقہ سے) نکاح ہو دونوں صورتوں میں نکاح بھی صحیح ہوگا ۔ حلالہ بھی ہو جائے گا ۔

مشروط بشرط حلالہ نکاح کو بدکاری کہنا بالکل غلط ہے اور زوجین پر بہتان ہے حلالہ کی شرط سے نکاح کرنے والا شرعاً طلاق دینے کا پابند نہیں وہ عورت شرعاً اس کی بیوی اس سے قرار پانے والا حمل جائز و حلال اور اگر ان میں سے کوئی ایک طلاق سے پہلے مر جائے تو وراثت جاری ہوگی ۔ دوسرا یہ کہنا کہ مرووجہ حلالہ یک بار تین طلاقوں پر ہوتا ہے غلط ہے اصل حلالہ کی یہ صورت تین طلاقیں واقع کرنے کے بعد پیش آتی ہے چاہے یک بار تین طلاقیں واقع کی جائیں یا ایک ایک ماہ کے وقفے میں کی جائے۔ اگر طلاق سنی یعنی ایک ایک ماہ کے بعد تین ماہ میں طلاقیں واقع کرنے کے بعد پھر وہی عورت پہلے شوہر سے نکاح کرنا چاہیے تو حلالہ کے بغیر ممکن نہیں چاہے نکاح حلالہ کے پروگرام سے ہو یا بغیر حلالہ کے پروگرام کے ہو نکاح ثانی مع ادائے حقوق زوجیت اب طلاق کے بعد یہ عورت شوہر سابق کے لئے حلال ہوئی یعنی اس کے ساتھ نکاح کرنا حلال و جائز ہوا۔ اب رہی یہ بات حلالہ کا ثبوت کہاں ہے اور کیا تین طلاقوں کے بعد ہی حلالہ کی صورت آتی ہے جواباً دو دلیلیں عرض ہیں ۔

(1) کتاب اللہ عز و جل (2) سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و سحبہ وسلّم

پہلی دلیل : سورہ بقرہ آیت نمبر1 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فان طلقہا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ ۔
ترجمہ اگر مرد اپنی بیوی کو تیسری طلاق بھی دے دے پس یہ عورت اس مرد کے لئے حلال نہیں ہو سکتی جب تک یہ اس کے علاوہ کسی اور مرد کے ساتھ نکاح صحیح سے حقوق زوجیت ادا نہ کرلے ۔ یہ ہے حلالہ قرآن سے ثابت اب ان کا انکار مسلمان نہیں کر سکتا ۔

دوسری دلیل حدیث شریف میں ہے : ایک صحابیہ رضی اللہ عنہا عورت کو شوہر نے طلاق دے دی اور اسی عورت نے ایک اور مرد سے نکاح کرلیا اب اس عورت کا پہلے شوہر کے ساتھ نکاح کا خیال ہوا مگر دوسرے شوہر سے مجامعت نہ ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئی پہلے شوہر کے پاس نکاح کے ساتھ جانے کا خیال ظاہر کیا اور اشاروں اشاروں میں عرض کیا کہ حقوق زوجیت ادا نہیں ہوئے (دوسرے شوہر سے) تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تک ایک دوسرے کا شہد نہ چکھا جائے (یعنی حقوق زوجیت ادا نہ ہوں) تم پہلے شوہر کے لئے حلال (بطور بیوی) نہیں ہو سکتی ( سنن ابن ماجہ)
یہ حلالہ کے ثبوت ہر دلیل حدیث سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلّم سے ہے ۔ اور خالی نکاح نہیں قرآن و حدیث دونوں سے ادائیگی حقوق زوجیت ثابت ہے ۔
محترم قارئین پر واضح ہو حلالہ ایک امر شرعی ہے اور اسکا ثبوت قطعی ہے اس سے مطلق انکار نہیں کیا جا سکتا ہاں اگر خرابی ہے تو وہ حلالہ کی شرط لگا کر نکاح کرنا یہ باعث لعنت ہے مگر نکاح پھر بھی صحیح اور شرط کے بعد بھی اگر وہ مرد طلاق نہ دے تو کوئی شرعی جرم نہیں ۔ حلالہ کو شرعی اور مروجہ کہہ کر خواہ مخواہ امت کو الجھایا گیا ہے حلالہ بھی ہو اور غیر شرعی (بدکاری) ہو یہ ممکن نہیں رہی یہ بات کہ تین طلاقیں یک بار واقع ہوتی ہیں کے نہیں ؟ تو حلالہ اس پر موقوف نہیں وہ مطلق تین طلاقیں واقع کرنے پر ہے ۔

باقی اہل غیر مقلد وہابی علماء خود تسلیم کر چکے ہیں کے آئمہ اربعہ (امام اعظم ابو حنیفہ، امام شافعی، امام مالک، امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہم )کا مذہب یہی ہے کہ واقع ہو جاتی ہیں ۔ سعودی نجدی وہابی علماء کا فتویٰ تین طلاق تین ہی ہیں ۔ ایک لفظ کے ساتھ ایک مجلس میں تین طلاقیں دینے سے تینوں واقع ہوجاتی ہیں، یہی أئمہ أربعہ علیہم الرّحمہ اور جمہور امت کا اور یہی شیخ ابن عبدالوهاب اور اس کے پیروکاروں کا مسلک ہے . (الدرر السنية : كتاب العقائد ، ١/٢٤٠،چشتی)

کیا کہتے ہیں وہابی ؟ بانی وہابی نجدی مذہب اور نجدی علماء کے بارے میں ؟

مجموعہ رسائل و مسائل علماء نجد کے جامع شيخ عبد الرحمن بن محمد بن قاسم العاصمي النجدي الحنبلي، الشيخ عبد الله بن محمد بن عبد الوهاب كا فرمان لکھتے ہیں کہ: ہمارے نزدیک امام ابن القیم اوران کے شیخ (ابن تیمیہ) أهل السنة میں سے حق کے امام ہیں، اور ان کی کتابیں ہمارے نزدیک مستند کتابیں ہیں، لیکن ہم ہر مسئلہ میں ان (امام ابن القیم اور امام ابن تیمیہ) کی تقلید نہیں کرتے کیونکہ سوائے ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ہر کسی کا قول لیا بهی جاتا ہے اور چهوڑا بهی جاتا ہے ، لہذا ہم نے کئی مسائل میں ان دونوں (امام ابن القیم اورامام ابن تیمیہ ) کی مخالفت کی ہے جو کہ ایک معلوم بات ہے ، مثلا انہی مسائل میں سےایک لفظ کے ساتھ ایک مجلس میں تین طلاقوں کا مسئلے میں ہم أئمہ أربعہ (امام أبوحنیفہ ، امام شافعی ، امام أحمد بن حنبل ، امام مالک علیہم الرّحمہ) کی پیروی کرتے ہیں، (ایک لفظ کے ساتھ ایک مجلس میں تین طلاقیں دینے سے تینوں واقع ہوجاتی ہیں ، یہی أئمہ أربعہ علیہم الرّحمہ اور جمہور أمت کا اور یہی شیخ ابن عبدالوهاب اور اس کے پیروکاروں کا مسلک ہے . (الدرر السنية : كتاب العقائد ، ١/٢٤٠) ۔

تو پھر اور دلیل کی ضرورت ہے ۔ جو احادیث پڑھ کر اہل حدیث استدلال کرتے ہیں ۔ ان احادیث کی کتب کے جامع مثلا امام بخاری ، امام مسلم، امام ابن ماجہ وغیرہ خود ان آئمہ کے مقلد ہیں اصل ان احادیث کو آئمہ اربعہ نے سمجھا ہے اور ان کی سمجھ پر امت نے اعتماد کیا ہے کیونکہ ان کے پائے کے عالم آج تک پیدا نہیں ہوئے۔ قارئین غور فرمائیں غوث پاک بہائو الدین نقشبند، شہاب الدین سہروردی، خواجہ معین الدین چشتی، داتا علی ہجویری لاہوری، مجدد الف ثانی اور آئمہ تفسیر و احادیث علیہم الرّحمہ سب ان آئمہ کے مقلد ہیں تو پھر ماننا پڑے گا جو آئمہ دین نے فرمایا بالکل صحیح ہے لہٰذا ادھر ادھر کی بات نہ کرو ہمیں آئمہ دین اور اکابرین امت، اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ کے راستے پر رہنے دو جو کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں ہے الحمد للہ ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)















مسلہ حلالہ 3 طلاق کے بعد کا حکم از فتاویٰ رضویہ جلد نمبر 12

مسئلہ ۱۶۱تا۱۶۳: از فتح پور ضلع شیحا واٹی درگاہ مسئولہ پیرجی محمد حنیف صاحب ۵شوال ۱۳۳۹ھ کیا فرماتے ہیں علمائے دین ان مسائل میں کہ:
(۱)کتنی بار طلاق دینے سے عورت خاوند پر حرام ہوسکتی ہے؟
(۲) جس شخص اپنی زوجہ کو دس۱۰ بار طلاق دے اوراس کے ثبوت میں تین بار خاص اپنے ہاتھ سے تحریر لکھ لکھ کر لوگوں پر ظاہر کرے تو کیا وُہ عورت بغیر حلالہ اس کے لئے بغیر نکاح حلال ہوسکتی ہے؟
(۳) اسی مطلقہ سے اُنہیں شرطوں پر بغیر حلالہ کئے رہی، طلاق دینے والا خاوند صحبت کرتا رہے اور اس کو بدستور اپنے عملدرآمد میں لاتا رہے ا س کا کیا حکم ہے ؟ اُس کی اولاد کیسی ہے اور اس کی جائداد کی مستحق ہوگی یانہیں اورایسا شخص قابلِ خلافت وسجادگی وخرقہ درویشی ہے یانہیں؟بینواتوجروا ۔

الجواب : (۱) جب طلاقیں تین تک پہنچ جائیں پھر وُہ عورت اس کے لئے بے حلالہ کسی طرح حلال نہیں ہوسکتی،

قال ﷲ تعالٰی فان طلقھا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ۱؎۔ وﷲ تعالٰی اعلم۔

ﷲ تعالٰی نے فرمایا ہے: اگر تیسری طلاق دی تو مطلقہ اس کےلئے حلال نہ ہوگی تاوقتیکہ وُہ کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کرلے۔وﷲ تعالٰی اعلم(ت)
(۱؎ القرآن ۲ /۲۳۰)

(۲) جس نے دس۱۰ طلاقیں دیں، تین سے طلاق مغلظ ہوگئی اور باقی سات۷ شریعت سے اس کا استہزا تھیں، بلانکاح تو مطلقہ بائن بھی حلال نہیں ہوسکتی ہے اور یہ تو نکاح سے حرام محض رہے گی جب تک حلالہ نہ ہو طلاق دے یا مرجائے اور بہر حال اس کی عدت گزرجائے اس کے بعد اس پہلے سے نکاح ہوسکتا ہے ورنہ ہرگز ورنہ ہرگز نہیں۔وﷲ تعالٰی اعلم۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
(۳) وُہ صحبت زنا ہوگی اور اسے اگر مسئلہ معلوم ہے تو یہ زانی اور شرعاً سزائے زنا کا مستحق اور اولاد ولدالزناء اور ترکہ پدری سے محروم،اور ایسا شخص قابل ِ خلافت وسجادہ نشینی نہیں،

وقد قال فی ردالمحتار وغیرہ من الاسفار انہ زنا اذاعلم بالحرمۃ۲؎۔

ردالمحتاروغیرہ کتب میں فرمایا: جب حرام ہونا معلوم ہے تو یہ زنا ہے۔(ت)

(۲؎ ردالمحتار باب العدۃداراحیاء التراث العربی بیروت ۲ /۶۱۰، ۶۱۲، ۶۱۵)

اور اس میں برابر ہے کہ تین طلاقیں ایک ساتھ ہوں یا متفرق۔

درمختار میں ہے : لاحدبشبہۃ الفعل ان ظن حلہ کوطء معتدۃ الثلاث ولوجملۃ۳؎۔(ملخصًا)

جب حلال ہونے کا گمان کیا تو یہ شبہہ فعل ہوگا جس پر حد نہیں، جیسا کہ اپنی مطلقہ ثلاثہ کی عدت میں جماع کیا اگرچہ اکھٹی تین طلاقیں ہوں(ملخصاً) (ت)

(۳؎ درمختار باب العطاء الذی لایوجب الحد الخ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۳۱۸)

ردالمحتار میں ہے: ای ولوکان تطلیقۃ الثلاث بلفظ واحد فلایسقط عنہ الحدالاان ادعی ظن الحل وکذالو وقع الثلاث متفرقۃبالطریق الاولٰی اذلم یخالف فیہ احد لان القراٰن ناطق بانتفاء المحل بعد الثلاثۃ۱؎۔واﷲتعالٰی اعلم۔

یعنی ایک لفظ سے تینوں طلاقیں دے دی ہوں تو عدت میں وطی کرنے پر حد ساقط نہ ہوگی مگر ا س نے اس صورت میں حلال ہونا گمان ہوتو پھراس پر حد نہ ہوگی، او ریوں ہی اگر اس نے تین متفرق دی ہوں تو بطریق اولٰی حد ساقط ہوگی کیونکہ اس میں کوئی مخالف نہیں تین طلاقوں کے بعد بیوی کامحلِ وطیئ نہ رہنا قرآن کی نص ہے۔ وﷲ تعالٰی اعلم(ت)(چشتی)
(۱؎ ردالمحتار باب الولی الذی یوجب الحد والذی لایوجبہ داراحیاء التراث العربی بیروت ۳ /۱۵۲)
--------------------------------------------------------------------
مسئلہ ۱۷۴تا۱۸۰: ازجھر یا ضلع مان بھوم محلہ گوالہ ٹولی مسئولہ محمد یوسف صاحب۲۹ جمادی الاولٰی ۱۳۳۹ھ کیا فرماتے ہیں علمائے دین ان مسائل میں کہ :
(۱) زید کاہندہ کو تین بار طلاق دینا ایک طلاق کا حکم رکھتا ہے یا تینوں طلاق واقع ہوگئیں اور حلالہ کی ضرورت ہوگی یا نہیں؟
(۲) باوجود ممانعت زید کا نہ ماننا اور صریح لفظوں میں تین بار یہ کہنا کہ میں نے طلاق دیا، ایسی صورت میں نیت پر طلاق کا مدار رہے گا یا نہیں؟ اور زید کا یہ قول کہ لوٹانے کی نیت تھی معتبر ہوگا۔
(۳) بہ نیت حلالہ خالد و ہندہ کو سمجھا کر راضی کرنا اور بدون اجازت ولی ہر دو کا برضاایجاب وقبول کرلینا یہ نکاح جائز ہوا یا ناجائز؟
(۴) اگر خالد کا نکاح درست ہے توبغیر خالد کے طالق دئے یا بغیر صحبت کئے وعدت گزارے شوہر اوّل سے ہندہ کا نکاح کرادینا اور میاں بیوی کی طرح دونوں کا اکٹھا رہنا کیسا ہے اور نکاح کرانے والے حضرات او رجو لوگ اس نکاح سے راضی ہیں اور جوایسے آدمی سے میل جول رکھتے ہیں ان کے لئے وعید اور حکمِ شرعی ہے؟
(۵) بالفاظِ مر قومہ بالاحلالہ کی ترغیب دلانے والے کے لئے کیاحکمِ شرعی ہے؟
(۶) خلافِ واقع جُھوٹی باتیں کہہ کر حق کو ناحق بنانے اور رسمِ قدیم نہ ٹوٹنے اور اپنی مونچھ کزتار رکھنے کےلئے اور حلال وحرام کی پرواہ نہ کرنے والے کے واسطے حکمِ شرعی کیا ہے؟
(۷) لڑکی ولڑکا حدِ بلوغت کو کتنے برس کے بعد ہوتے ہیں، اور جب بالغ دونوں ہیں تو اپنے نکاح کے مختار ہیں کہ نہیں کہ اس میں بھی ولی کی ضرورت ہے کہ نہیں؟

الجواب : (۱) بلاشُبہہ باجماعِ ائمہ اربع تین طلاقیں ہوگئیں اور بے حلالہ وہ اس کے لئے حلال نہیں ہوسکتی قال ﷲ تعالی:فان طلقھا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجھاغیرہ۱؎۔ وﷲ تعالٰی اعلم۔

اگر تیسری طلاق دے دی تو بیوی اس کے بعد حلال نہ ہوگی تاوقتیکہ وہ کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کرلے۔ وﷲ تعالٰی اعلم(ت)۔(۱؎ القرآن الکریم ۲ /۲۳۰)

(۲) اس صورت میں لوٹانے کی نیت حکمِ الٰہی کو بدلنا ہے اور یہ الفاظ صریح ہیں صریح میں نیت کی حاجت نہیں ہوتی، جس نے یہ فتوٰی دیا ہے کہ رجعت کی نیت تھی تو ایک رجعی ہوئی وہ گمراہ ہے۔
(۳) اگر خاوند ہندہ کا کفو تھا یعنی مذہب یا نسب یا چلا چلن یا پیشہ میں ایسا کم نہ تھا کہ ہندہ کا اُس سے نکاح اس کمی کے سب اولیائے ہندہ کے لئے ننگ وعار ہو اور انہوں نے دو۲ گواہوں کے سامنے جو سُنتے اور سمجھتے تھے ایجاب و قبول کرلیاتو صحیح ہوگیا اجازتِ ولی کی کوئی حاجت نہ تھی،
اذلاولایۃ مجبرۃ علی البالغین لما نصوا علیہ فی الکتب قاطبۃ۔
کیونکہ بالغ حضرات پر کسی کو جبری ولایت نہیں ہے جیسا کہ تمام کتب میں نصوص ہیں (ت)
(۴) بحالت صحت نکاحِ خالد ظاہر ہے کہ بے طلاق وہ کسی سے نکاح نہیں کرسکتی۔

قال تعالٰی والمحصنٰت من النسا۱؎۔

ﷲ تعالٰی نے فرمایا: شادی شدہ(منکوحہ) عورت دوسروں کے لئے حرام ہیں(ت)
(۱؎ القرآن ۴ /۳۴)

اور اگر خالد بے صحبت کئے طلاق دے بھی دے جب بھی ہرگزشوہر اوّل کے لئے حلال نہیں ہو سکتی،

قال صلی ﷲ تعالٰی علیہ لاتحلین لزوجک الاول حتی یذوق الاخر عسیلتک تذوقی عسیلتہ۲؎۔ ۔ حضور علیہ الصّلٰوۃ والسلام نے فرمایا اے عورت تو حلال نہیں پہلے شوہر کیلئے جب تک دوسرا خاوند تیرا اور تو اس کا مزہ نہ چکھ لے(یعنی جماع نہ کرلو)۔(ت) ۔ (۲؎ صحیح بخاری باب لم تحرم مااحل ﷲ لک قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۷۹۲)

جولوگوں نے دانستہ یہ نکاح کرادیا سب زنا کے دلال ہوئے اور زید ہندہ زانی زانی۔اور اُن سب کے لئے عذابِ شدید نارِجہنم کی وعیدہے، یُونہی وُہ جو اس سے نکاح پر راضی ہوئے، نکاح نہیں زنا پر راضی ہوئے۔

والرضابالحرام وقد یکون کفرا والعیاذ باﷲ تعالٰی۔
حرام فعل پر رضاحرام ہے اور کبھی یہ رضا کفر ہوتی ہے۔ والعیاذ باﷲ تعالٰی۔(ت)
ان سب سے مسلمانوں کو میل جول منع ہے،

قال تعالٰی : وامّا ینسینک الشیطٰن فلاتقعد بعدالذکرٰی مع القوم الظٰلمین۱؎۔
خبردار شیطان تجھے بُھلا دیتا ہے یاد ہونے پرظالموں کے پاس مت بیٹھو۔(ت)
(۱؎ القرآن الکریم ۶ /۶۸)

اُن سے میل جول کرنے والے اگر اُس نکاح پر راضی یا اُسے ہلکا جانتے ہیں تو اُن کےلئے بھی یہی حکم ہے۔
(۵) اگر اس نے زن وشو میں اصلاح اور اُن کی مشکل کشائی کی نیّت سے ترغیب دلائی تو اس پر الزام نہیں بلکہ باعثِ اجر ثواب ہے۔
(۶) جُھوٹی باتیں کہہ کر حق کو ناحق یا ناحق کو حق بنانا یہودیوں کی خصلت ہے۔

قال ﷲ تعالٰی ولا تلبسوا الحق بالباطل وتکتموا الحق وانتم تعلمون۲؎۔
ﷲ تعالٰی نے فرمایا: حق کو باطل سے خلط ملط نہ کرو اور دیدہ و دانستہ حق کو نہ چھپاؤ۔(ت)(۲؎ القرآن الکریم ۲ /۴۲)

رسمِ باطل کی پیروی کے لئے حلال وحرام کی پروانہ کرنا کافروں کی عادت ہے۔قالوا بل نتبع ماالفینا علیہ اٰبائنا۳؎(کفار نے کہا بلکہ ہم اپنے آباء واجداد کی پیروی کریں گے۔ت)(۳ القرآن الکریم ۲ /۱۷۰)

(۷) لڑکے اور لڑکی کو جب آثارِ بلوغ ظاہر ہوں مثلاً لڑکے کو احتلام ہو اور لڑکی کوحیض آئے اس وقت سے وُہ بالغ ہیں اور اگر آثار بلوغ ظاہر نہ ہوں تو پندرہ برس کی عمر پُوری ہونے سے بالغ سمجھے جائیں گے کما فی الدرالمختار وعامۃالاسفار(جیسا کہ درمختار اور عام کتب میں ہے۔ت) بالغ کواپنے نکاح میں ولی کی اصلاً ضرورت نہیں یُونہی بالغہ کو جبکہ نکاح کفو سے ہو یا غیرکفؤ سے ہوتواس کا کوئی ولی نہ ہو، ورنہ جب تک ولی قبل نکاح اس غیر کفؤ کو غیر کفؤجان کر صریح اجازت نہ دے گا بالغہ کا نکاح صحیح نہ ہوگا،

فی الدرالمختار ویفتی فی غیرالکفؤ بعدم جوازہ اصلالفساد لزمان۴؎ وﷲ تعالٰی اعلم۔

درمختار میں ہے : زمانہ کے فساد کی بناء پر غیر کفؤ میں نکاح اصلاً جائز نہ ہونے پر فتوٰی دیاجائے۔ وﷲ تعالٰی اعلم(ت)
(۴؎ درمختار باب الولی مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۱۹۱)

اور ایک بات یہ بھی قابلِ بیان رہی کہ وُہ جس نے استہزا کہا تھا چھوٹی کتاب میں جائز لکھا وُہ بھی سخت گنہگار ہوا توبہ فرض ہے مسئلہ شرعیہ استہزا کا محل نہیں۔ وﷲ تعالٰی اعلم۔(چشتی)
-------------------------------------------------------
مسئلہ ۱۸۷: از ضلع خاندیس پچھم بھاگ تعلقہ تلو دھا ڈاکخانہ لگر مندھا بسوستان کاٹھی مقام عکلکوا مرسلہ محمد اسمٰعیل صاحب ۱۲جمادی الاولٰی ۱۳۳۶ھ
(۱) حلالے کے بارے میں ایک شخص نے نکاح کیا اور پہلی بی بی کاحق کُل نہیں ادا کیا، وہاں پر قاضی نہیں ہے، اپنے مکان کے لوگ آپ ہی قاضی آپ ہی وکیل آپ گواہ، جس شخص نے پہلے نکاح کیا اس نے خوشی سے طلاق دیا اور اس عورت نے خوشی سے طلاق لیا، بعد دس۱۰ روز اسی عورت اور وہی دھنی ایک جگہ رہنے لگے، اور اس شخص طلاق دے کر تین مہینے رکھا، پھر تین مہینے بعد حلالہ کیا، حلالہ کرنے والاجوشخص تھا اس کی بی بی نے رضا نہیں دی، رضالینے کے واسطے اپنی بی بی مارا، تو بی بی نے زبردستی سے رضا دی، اس کا حلالہ درست ہواکہ نہیں؟
(۲) ایک دوسرا آدمی ایک عورت کا لے کر بھاگ گیا، اس کی دو لڑکیا تھیں، دو۲ برس بغیر نکاح کے اس عورت کو رکھا، بعد دوبرس کے لڑکے ہوشیار ہوگئی، اس عورت کو چھوڑ کر بیٹی کو رکھنے لگا اس شخص کے حرام سے ایک لڑکی ایک لڑکا پیدا ہوئے، سو یہاں کے پنچوں نے جماعت سے باہر کردیا سوا س لڑکی سے بھی نکاح نہیں ہوا ہے، بعد بارہ۱۲ مہینے کے جماعت کے آدھے لوگ اس کو ہمراہ لے گئے اور وہی لوگ کہتے تھے اس کا منہ دیکھناروا نہیں ہے، اب وہی لوگ اس کے ساتھ کھاتے پیتے ہیں، اس کے بارے میں مسئلہ کیا کہتا ہے، اور یہاں اسلام کی ٹھٹھول کرتے ہیں اورکسی کو یہ خیال نہیں ہے کہ ہم اسلام کی مشکری کریں گے تو ہمارے کیا حال ہوں گے، اس پر حضرت رسولِ خدا(صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم) کی شریعت کا کیا بیان ہے؟

الجواب : (۱) شریعت کا حکم یہ ہے جس شخص نے اپنی عورت کو تین طلاقیں دی ہوں ایک دفعہ میں خواہ برسوں میں کہ ایک کبھی دی اور رجعت کرلی پھر دوسری دی اور رجعت کرلی اب تیسری دی دونوں صورتوں میں عورت اس پر بغیر حلالہ حرام ہے۔ حلالہ کے یہ معنٰی ہیں کہ اس طلاق کے بعد عورت اگر حیض والی ہے تواسے تین حیض شروع ہوکر ختم ہوجائیں، اور اگر حیض والی نہیں مثلاً نوبرس سے کم عمر کی لڑکی ہے یا پچپن برس سے زائد عمر کی عورت ہے اور اس طلاق کے بعد تین مہینے کامل گزجائیں یا اگرحاملہ ہے تو بچّہ پیدا ہولے، اس وقت اس طلاق کی عدّت سے نکلے گی، اس کے بعد دوسرے شخص سے نکاح بروجہ صحیح کرے یعنی وہ شوہر ثانی اس کا کفو ہو کہ مذہب، نسب، چال چلن، پیشہ کسی میں ایسا کم نہ ہو کہ اس سے اس عورت کا نکاح عورت کے اولیاء کے لئے باعثِ بدنامی ہو، یا اگر ایسا کم ہے تو یہ عورت کا ولی نکاح ہونے سے پہلے اس کو یہ جان کر کہ یہ کفو نہیں اس کے ساتھ نکاح کی بالتصریح اجازت دے دے، یا یہ ہوکہ عورت بالغہ کاکئی ولی ہی نہ ہوتو عورت کو اختیار ہے جس سے چاہے نکاح کرلے،اور ولی نے اسے غیر کفوجانکر نکاح سے پہلے صریح اجازت نہ دی تو نکاح ہی نہو گا،یونہی لڑکی اگر نابالغہ ہے ہے اور اس کے نہ باپ ہے نہ دادا بھائی چچا وغیرہ ولی ہیں، لوگوں نے کسی غیر کفو سے اس کا نکاح کردیا جب بھی نکاح نہ ہوگا، غرض جب شوہر ثانی سے نکاح صحیح طور پر واقع ہو اور وُہ اس سے ہمبستری بھی کرلےاور اس کے بعد وُہ طلاق دے اور اس طلاق کی عدت اسی طرح گزرے کہ تین حیض ہوں اور حیض نہ آتا ہو تو تین مہینے، اور حمل رَہ جائے تو بچّہ پیداہونے کے بعد اس کے بعد پہلا شوہر اس سے نکاح کرسکتا ہے، ان میں سے ایک بات بھی کم ہوگی تو وہ نکاح نہ ہوگا زنا ہوگا، ہاں نکاح کے لئے چاہے وہ شوہر ثانی سے ہو یا پہلے سے قاضی یا وکیل یا برادری کے لوگوں کی ضرورت ہے کہ مرد نکاح ثانی کرے تو پہلے بیوی سےاجازت لے، یہ سب باتیں بے اصل ہیں،فقط اس طریقہ کی ضرورت ہے جو ہم نے لکھا اس طرح پر اگر اصلاً نہ ہوا مثلاً دوسرے شوہرنے جب طلاق دی تو اس کے دس۱۰ ہی دن بعد بے عدّت گزرے پہلے شوہر نے اس سے نکاح کرلیا تو یہ نکاح نہ ہوا نراحرام ہوا اُس صورت میں ضرور ہوگا کہ عورت کو اس سے جُدا کردیا جائے اور نہ مانے تو اسے برادری سے خارج کردیاجائے۔(چشتی)
(۲) اسی طرح وہ شخص جس نے عورت کو رکھا اب اُس کی بیٹی کو رکھتا ہے وہ اس پر ضرور حرام ہے اگر نکاح نہ کرے جب تو زنا ہے ہی، اور نکاح کرے جب بھی حرام ہے کہ وہ اس کی بیٹی ہوچکی، برادری والوں کو چاہئے کہ اگر وُہ مرد وعورت جُدا نہ ہوں تو اس کو برادری سے خارج کردیں، اُن سے سلام کلام نہ کریں، اُن کے پاس نہ بیٹھے اُنہیں اپنے پاس نہ بیٹھنے دیں، اور وہ لوگ جو پہلے اُن سےجُدا ہوگئے تھے اوراب مل گئے اور اُن کے ساتھ کھاتے پیتے ہیں بیجا کرتے ہیں اُنہیں چاہئے اس سے بازرہیں،ﷲ تعالٰی فرماتا ہے : وامّا ینسینک الشیطان فلاتقعدبعد الذکری مع القوم الظلمین۱؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
شیطان تجھے بُھلادیتا ہے ، تو یا د آنے پر ظالم قوم کے ساتھ نہ بیٹھے۔واﷲتعالٰی اعلم(ت)(۱؎ القرآن الکریم ۶ /۶۸)
-------------------------------------------------
مسئلہ۱۸۸: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ حلالہ مع شرط کے یعنی اس قصد سے کہ بعد چند روز کے طلاق دے دے تاکہ زوج سابق کے واسطے بعد عدّت گزرنے کے حلال ہوجائے جائز ہے یانہیں؟بینواتوجروا۔

الجواب :شرائط اور چیز ہے اور قصد اور چیز۔ شرط تو یہ کہ عقد نکاح میں یہ شرط لگالے یہ ناجائز وگناہ ہے او رحدیث میں ایسے حلالہ کرنے والے پر لعنت آئی ہے، اور قصد یہ کہ دل میں اس کا ارادہ ہو مگر شرط نہ کی جائے تو یہ جائز ہے بلکہ اس پر اجر کی امید ہے۔

درمختار میں ہے : (کرہ) التزوج للثانی (تحریما) لحدیث لعن ﷲالمحلل والمحلل لہ(بشرط التحلیل) کتزوجتک علی ان احللک (امااذا اضمرا ذٰلک لا) یکرہ (وکان) الرجل (ماجورا) لقصد الاصلاح اھ ۲؎ مختصرا۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔

حلالہ کی شرط پر نکاح کہ میں اس شرط پر تجھ سے نکاح کرتا ہوں کہ تجھے طلاق دے کر حلال کردوں گا دوسرے شخص کا نکاح مکروہِ تحریمہ ہے لیکن دونوں نے اگر دل میں حلالہ کی نیت کی تو مکروہ نہیں، اس صورت میں دوسرا شخص اصلاح کی غرض سے نکاح کرنے پر اجر کر مستحق ہوگا اھ مختصراً۔ وﷲ تعالٰی اعلم(ت) ۔ (۲؎ درمختار باب الرجعۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۲۴۱)
------------------------------------------------
مسئلہ ۱۸۷: از ضلع خاندیس پچھم بھاگ تعلقہ تلو دھا ڈاکخانہ لگر مندھا بسوستان کاٹھی مقام عکلکوا مرسلہ محمد اسمٰعیل صاحب ۱۲جمادی الاولٰی ۱۳۳۶ھ
(۱) حلالے کے بارے میں ایک شخص نے نکاح کیا اور پہلی بی بی کاحق کُل نہیں ادا کیا، وہاں پر قاضی نہیں ہے، اپنے مکان کے لوگ آپ ہی قاضی آپ ہی وکیل آپ گواہ، جس شخص نے پہلے نکاح کیا اس نے خوشی سے طلاق دیا اور اس عورت نے خوشی سے طلاق لیا، بعد دس۱۰ روز اسی عورت اور وہی دھنی ایک جگہ رہنے لگے، اور اس شخص طلاق دے کر تین مہینے رکھا، پھر تین مہینے بعد حلالہ کیا، حلالہ کرنے والاجوشخص تھا اس کی بی بی نے رضا نہیں دی، رضالینے کے واسطے اپنی بی بی مارا، تو بی بی نے زبردستی سے رضا دی، اس کا حلالہ درست ہواکہ نہیں؟
(۲) ایک دوسرا آدمی ایک عورت کا لے کر بھاگ گیا، اس کی دو لڑکیا تھیں، دو۲ برس بغیر نکاح کے اس عورت کو رکھا، بعد دوبرس کے لڑکے ہوشیار ہوگئی، اس عورت کو چھوڑ کر بیٹی کو رکھنے لگا اس شخص کے حرام سے ایک لڑکی ایک لڑکا پیدا ہوئے، سو یہاں کے پنچوں نے جماعت سے باہر کردیا سوا س لڑکی سے بھی نکاح نہیں ہوا ہے، بعد بارہ۱۲ مہینے کے جماعت کے آدھے لوگ اس کو ہمراہ لے گئے اور وہی لوگ کہتے تھے اس کا منہ دیکھناروا نہیں ہے، اب وہی لوگ اس کے ساتھ کھاتے پیتے ہیں، اس کے بارے میں مسئلہ کیا کہتا ہے، اور یہاں اسلام کی ٹھٹھول کرتے ہیں اورکسی کو یہ خیال نہیں ہے کہ ہم اسلام کی مشکری کریں گے تو ہمارے کیا حال ہوں گے، اس پر حضرت رسولِ خدا(صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم) کی شریعت کا کیا بیان ہے؟

الجواب :(۱) شریعت کا حکم یہ ہے جس شخص نے اپنی عورت کو تین طلاقیں دی ہوں ایک دفعہ میں خواہ برسوں میں کہ ایک کبھی دی اور رجعت کرلی پھر دوسری دی اور رجعت کرلی اب تیسری دی دونوں صورتوں میں عورت اس پر بغیر حلالہ حرام ہے۔ حلالہ کے یہ معنٰی ہیں کہ اس طلاق کے بعد عورت اگر حیض والی ہے تواسے تین حیض شروع ہوکر ختم ہوجائیں، اور اگر حیض والی نہیں مثلاً نوبرس سے کم عمر کی لڑکی ہے یا پچپن برس سے زائد عمر کی عورت ہے اور اس طلاق کے بعد تین مہینے کامل گزجائیں یا اگرحاملہ ہے تو بچّہ پیدا ہولے، اس وقت اس طلاق کی عدّت سے نکلے گی، اس کے بعد دوسرے شخص سے نکاح بروجہ صحیح کرے یعنی وہ شوہر ثانی اس کا کفو ہو کہ مذہب، نسب، چال چلن، پیشہ کسی میں ایسا کم نہ ہو کہ اس سے اس عورت کا نکاح عورت کے اولیاء کے لئے باعثِ بدنامی ہو، یا اگر ایسا کم ہے تو یہ عورت کا ولی نکاح ہونے سے پہلے اس کو یہ جان کر کہ یہ کفو نہیں اس کے ساتھ نکاح کی بالتصریح اجازت دے دے، یا یہ ہوکہ عورت بالغہ کاکئی ولی ہی نہ ہوتو عورت کو اختیار ہے جس سے چاہے نکاح کرلے،اور ولی نے اسے غیر کفوجانکر نکاح سے پہلے صریح اجازت نہ دی تو نکاح ہی نہو گا،یونہی لڑکی اگر نابالغہ ہے ہے اور اس کے نہ باپ ہے نہ دادا بھائی چچا وغیرہ ولی ہیں، لوگوں نے کسی غیر کفو سے اس کا نکاح کردیا جب بھی نکاح نہ ہوگا، غرض جب شوہر ثانی سے نکاح صحیح طور پر واقع ہو اور وُہ اس سے ہمبستری بھی کرلےاور اس کے بعد وُہ طلاق دے اور اس طلاق کی عدت اسی طرح گزرے کہ تین حیض ہوں اور حیض نہ آتا ہو تو تین مہینے، اور حمل رَہ جائے تو بچّہ پیداہونے کے بعد اس کے بعد پہلا شوہر اس سے نکاح کرسکتا ہے، ان میں سے ایک بات بھی کم ہوگی تو وہ نکاح نہ ہوگا زنا ہوگا، ہاں نکاح کے لئے چاہے وہ شوہر ثانی سے ہو یا پہلے سے قاضی یا وکیل یا برادری کے لوگوں کی ضرورت ہے کہ مرد نکاح ثانی کرے تو پہلے بیوی سےاجازت لے، یہ سب باتیں بے اصل ہیں،فقط اس طریقہ کی ضرورت ہے جو ہم نے لکھا اس طرح پر اگر اصلاً نہ ہوا مثلاً دوسرے شوہرنے جب طلاق دی تو اس کے دس۱۰ ہی دن بعد بے عدّت گزرے پہلے شوہر نے اس سے نکاح کرلیا تو یہ نکاح نہ ہوا نراحرام ہوا اُس صورت میں ضرور ہوگا کہ عورت کو اس سے جُدا کردیا جائے اور نہ مانے تو اسے برادری سے خارج کردیاجائے۔
(۲) اسی طرح وہ شخص جس نے عورت کو رکھا اب اُس کی بیٹی کو رکھتا ہے وہ اس پر ضرور حرام ہے اگر نکاح نہ کرے جب تو زنا ہے ہی، اور نکاح کرے جب بھی حرام ہے کہ وہ اس کی بیٹی ہوچکی، برادری والوں کو چاہئے کہ اگر وُہ مرد وعورت جُدا نہ ہوں تو اس کو برادری سے خارج کردیں، اُن سے سلام کلام نہ کریں، اُن کے پاس نہ بیٹھے اُنہیں اپنے پاس نہ بیٹھنے دیں، اور وہ لوگ جو پہلے اُن سےجُدا ہوگئے تھے اوراب مل گئے اور اُن کے ساتھ کھاتے پیتے ہیں بیجا کرتے ہیں اُنہیں چاہئے اس سے بازرہیں،اﷲ تعالٰی فرماتا ہے :
وامّا ینسینک الشیطان فلاتقعدبعد الذکری مع القوم الظلمین۱؎۔ واﷲتعالٰی اعلم۔
شیطان تجھے بُھلادیتا ہے، تو یا د آنے پر ظالم قوم کے ساتھ نہ بیٹھے۔واﷲتعالٰی اعلم(ت) ۔ (۱؎ القرآن الکریم ۶ /۶۸)
-----------------------------------------------------
مسئلہ۱۸۸: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ حلالہ مع شرط کے یعنی اس قصد سے کہ بعد چند روز کے طلاق دے دے تاکہ زوج سابق کے واسطے بعد عدّت گزرنے کے حلال ہوجائے جائز ہے یانہیں؟بینواتوجروا۔

الجواب : شرائط اور چیز ہے اور قصد اور چیز۔ شرط تو یہ کہ عقد نکاح میں یہ شرط لگالے یہ ناجائز وگناہ ہے او رحدیث میں ایسے حلالہ کرنے والے پر لعنت آئی ہے، اور قصد یہ کہ دل میں اس کا ارادہ ہو مگر شرط نہ کی جائے تو یہ جائز ہے بلکہ اس پر اجر کی امید ہے۔

درمختار میں ہے : (کرہ) التزوج للثانی(تحریما) لحدیث لعن اﷲالمحلل والمحلل لہ(بشرط التحلیل)کتزوجتک علی ان احللک (امااذا اضمرا ذٰلک لا) یکرہ (وکان) الرجل (ماجورا) لقصد الاصلاح اھ ۲؎ مختصرا۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔

حلالہ کی شرط پر نکاح کہ میں اس شرط پر تجھ سے نکاح کرتا ہوں کہ تجھے طلاق دے کر حلال کردوں گا دوسرے شخص کا نکاح مکروہِ تحریمہ ہے لیکن دونوں نے اگر دل میں حلالہ کی نیت کی تو مکروہ نہیں، اس صورت میں دوسرا شخص اصلاح کی غرض سے نکاح کرنے پر اجر کر مستحق ہوگا اھ مختصراً۔ واﷲ تعالٰی اعلم(ت) ۔ (۲؎ درمختار باب الرجعۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۲۴۱)
-------------------------------------------------
مسئلہ ۱۸۹: ازکانپور بیگم گنج طلاق محل مرسلہ احمدعلی خاں وکیل ۱۲ذی الحجہ ۱۳۲۲ھ کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید نے ایک وقت حالتِ غصّہ میں مجبور ہوکر ہندہ زوجہ کو تین بار طلاق دی، نزدیک امام ابوحنیفہ رحمۃ اﷲتعالٰی علیہ کے مغلظ ہوگئی اور نزدیک امام شافعی رحمۃ اﷲ علیہ کے ایک رہی، تو ایسی حالت میں جو پیر وامام ابوحنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ کا ہے رجوع کرسکتا ہے یانہیں؟ حالاتِ مقدمی یہ ہیں کہ زید کو ہندہ کے ساتھ محبت قلبی ہے اس نے قصداً چھوڑا دینے کی نیّت سے طلاق نہیں دی اور نہ ہندہ اپنے عدول حکم پر سمجھ سکتی ہے کہ مجھ پر طلاق ہوگی کیونکہ بجائے خود نادم تھی، مگر ہندہ کی بہن جو دشمن ہندہ کی ہے چند الفاظ دلانے والے جو طلاق دینے پر مبنی تھے ایسے کہ جس سے زید کو مجبوراً غیظ آگیا اور دفعۃً تین بار طلاق دے کر ہندہ کے مکان سے اُٹھ آیا، اب زید وہندہ وسخت صدمہ ہے اور دو۲ لڑکے یعنی ایک پسر بعمر۹ سال ایک دختر بعمر۵سال جو ہندہ کے پاس ہیں اور ہندہ محتاج ہے پرورش بدقت کرسکتی ہ اور نیز بلاتعلیم رہنے کا خیال قوی ہے اور زید کو ایسا رنج ہے کہ نوبت بجان ہے برنظر حالات رجوع کرسکتا ہے یا نہیں؟ بینواتوجروا

الجواب : ایک بار تین طلاق دینے سے نہ صرف نزد حنفیہ بلکہ اجماعِ مذاہب ِ اربع تین طلاقیں مغلظہ ہوجاتی ہیں، امام شافعی، امام مالک ، امام احمد رضی ﷲ تعالٰی عنہم ائمہ متبوعین سے کوئی امام اس باب میں اصلاً ہوا اور عورت اس کے نکاح سے ایسی خارج ہوئی کہ اب بے حلالہ ہرگز اس کے نکاح میں نہیں آسکتی، اگر یُونہی رجوع کرلی بلاحلالہ نکاحِ جدید باہم کرلیا تو دونوں مبتلائے حرامکاری ہوں گے اور عمر بھر حرام کاری کریں گے۔ ﷲ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے : ومن یتق ﷲ یجعل لہ مخرجاً۱؎ ۔ جو ﷲ تعالٰی سے ڈرتا ہے اﷲتعالٰی اس کیلئے راستہ بنادیتا ہے۔(ت) ۔ (۱؎ القرآن الکریم ۶۵/۲)

اس نے تقوٰی نہ کیابلکہ خلافِ خدا ورسول تین طلاقیں لگاتار دینے کامرتکب ہوا ﷲ عزوجل نے اس کے لئے مخرج نہ رکھا اب حلالہ کے سخت تازیانے سے اسے ہرگز مفر نہیں یہاں تک کہ ائمہئ دین نے فرمایا کہ اگرقاضی شرح حاکمِ اسلام ایسے مسئلہ میں ایک طلاق پڑنے کا حکم دے تو وُہ حکم باطل ومردود ہے۔ وہابیہ غیر مقلدین اب اس مسئلہ میں خلاف اٹھا رہے ہیں وہ گمراہ دین ہیں، ان کی تقلید حلال نہیں ،

فتح القدیر میں ہے: ذھب جمھور الصحابۃ والتابعین ومن بعدھم من ائمۃ المسلمین الی انہ یقع ثلث، وفی سُنن ابی داؤد عن مجاہد قال کنت عند عباس رضی ﷲ تعالٰی عنھما فجاء رجل فقال انہ طلق امرأتہ ثلثا قال فسکت حتی ظننت انہ رادھا الیہ ثم قال ایطلق احدکم فیرکب الحموقۃ ثم یقول یا ابن عباس یا ابن عباس فان ﷲ عزّوجل قال ومن یتق ﷲ یجعل لہ مخرجا عصیت ربک وبانت منک امرأتک،ثم ذکر ادلتہ بروایۃ لامؤطاعن ابن عباس وابی ہریرۃ معاومثلہ عن ابن عمرقال وروی ایضاعن عبد ﷲ بن عمروبنن العاص واسند عبدالزاق عن علقمۃ عن ابن مسعود و وکیع عن امیرالمؤمنین علی وامیر المومنین عثمان بن عفان وقد قدمہ عن امیرالمومنین عمرو اوردہ بروایۃ ابن ابی شیبۃ والدار قطنی عن ابن عمر عن البنی صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم وذکرہ فی اٰخر الکلام بروایۃ عبدالرزاق فی مصنفہ عن عبادۃ بن الصامت عن النبی صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم ورضی ﷲ تعالٰی عنھم اجمعین الی ان قال، قداثبتنا النقل عن اکثرھم صریحا بایقاع الثلث ولم یظھر لھم مخالف فما ذابعد الحق الاالضلال وعن ھذاقلنا لم یحکم حاکم بان الثلث بفم واحد واحدۃ لم ینفذ حکمہ لانہ لایسوغ الاجتھادفیہ فھو خلاف لااختلاف۱؎ (ملخصاً) واﷲتعالٰی اعلم۔

جمہور صحابہ، تابعین اور ان کے بعد والے مسلمانوں کے ائمہ کرام کا مسلک ہے بیک لفظ تین طلاقیں تین ہوں گی ۔ امام مجاہد سے سُنن ابو داؤد میں مروی ہے کہ میں حضرت ابن عباس رضی ﷲ تعالٰی عنہ کے پاس موجود تھا تو ایک شخص آیا اور کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں، مجاہد کہتے کہ حضرت ابن عباس رضی ﷲ تعالٰی عنہ کچھ دیر خاموش رہے تو میں نے خیال کیا کہ شاید ان عباس سائل کو بیوی واپس کردیں گے، تو کچھ دیر بعد آپ نے فرمایا تم میں سے بعض لوگ بیوی کو طلاق دیتے ہوئے حماقت سے کام لیتے ہیں اور پھر اے ابن عباس اے ابن عباس کہتے ہیں، تو یاد رکھو اﷲتعالٰی نے فرمایا: جو شخص ﷲ تعالٰی سے ڈرتا ہے تو ﷲ تعالٰی اس کے لئے کوئی سبیل پیدا فرمادیتاہے، جبکہ تو نے ﷲ تعالٰی کی نافرمانی کی ہے تیری بیوی تجھ سے لاتعلق ہوچکی ہے ۔ اس کے بعد فتح القدیر نے اس پر دلائل ذکر کئے ۔ مؤطا کے حوالہ سے ابن عباس اور ابن مسعود رضی ﷲ تعالٰی عنہما کی روایت ذکرکیں جیسا کہ ابوداؤد نے ابن عباس اورابوہریرہ رضی ﷲ تعالٰی عنہما سے اکھٹی روایت کی، اس طرح کی روایت ابن عمر رضی ﷲ تعالٰی عنہ سے ذکر کی، اور کہا کہ عبد ﷲ بن عمر بن العاص رضی ﷲ تعالٰی عنہ سے بھی مروی ہے ، اور انہوں نے کہا کہ عبدالرزاق نے علقمہ عن ابن مسعود رضی ﷲ تعالٰی عنہ ، اور وکیع عن امیرالمومنین عمر فاروق عثمان بن عفان رضی ﷲ تعالٰی عنہم سے سند ذکر کی ، اور قبل ازیں فتح القدیر نے امیرالمومنین عمر فاروق رضی ﷲ تعالٰی عنہم سے روایت ذکر کی اور انہوں نے ابن ابی شیبہ اور دار قطنی کی روایت بھی ابن عمر رضی ﷲ تعالٰی عنہ کے ذریعہ حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام سے بیان کی۔ اور اسی کو انہوں نے کلام کے آخر میں یُوں ذکر کیا کہ عبدالرزاق نے اپنے مصنف میں عبادہ بن الصامت کے واسطہ سے حضور علیہ الصّلٰوۃ والسلام سے روایت کیا، یہاں تک کہا کہ ہم نے اکثر حضرات سے تین طلاقوں کا نافذ ہونا صراحتاً ثابت کیا اور ان حضرات کوئی بھی مخالف ظاہر نہ ہوا، تو اس حق کے بعد گمراہی کے سواکیا ہوسکتا، اسی بناء پر ہم کہتے ہیں کہ اگر کسی حاکم نے بیک زبان تین طلاقوں کے ایک طلاق کا حکم دیاتو اس کاحکم نافذ نہ ہوگا کیونکہ اس میں اجتہاد کی گنجائش نہیں ہے اور یہ حق کے خلاف ہوگا اس کو اختلاف نہ کہا جائے گا ۔ و ﷲ تعالٰی اعلم(ت)(۱؂ فتح القدیر باب طلاق السنۃ نوریہ رضویہ سکھر ۳/ ۳۳۰)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔