Friday 13 December 2019

درسِ قرآن موضوع آیت : لِّیَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ حصّہ اوّل

0 comments
درسِ قرآن موضوع آیت : لِّیَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ حصّہ اوّل

لِّیَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ وَ یُتِمَّ نِعْمَتَهٗ عَلَیْكَ وَ یَهْدِیَكَ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًاۙ (2) ۔ (سورۂ فتح آیت نمبر 2)
ترجمہ : تاکہ اللہ تمہارے سبب سے گناہ بخشے تمہارے اگلوں کے اور تمہارے پچھلوں کے اور اپنی نعمتیں تم پر تمام کردے اور تمہیں سیدھی راہ دکھا دے ۔

لِیَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ: تاکہ اللہ تمہارے صدقے تمہارے اپنوں کے اگلے اور پچھلے گناہ بخش دے ۔ اس سے پہلی آیت میں فرمایا گیا کہ ’’ہم نے آپ کے لیے روشن فتح کافیصلہ فرمادیا‘‘ اور اس آیت سے فتح کا فیصلہ فرما دینے کی عِلَّت بیان کی جا رہی ہے کہ اے حبیب ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم نے آپ کے لئے روشن فتح کا فیصلہ فرما دیا تاکہ اللہ تعالیٰ آپ کے صدقے آپ کے اپنوں کے اگلے اور پچھلے گناہ بخش دے اور آپ کی بدولت امت کی مغفرت فرمائے ۔

امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ نے آیت ِمبارکہ کے اس حصے سے متعلق فتاویٰ رضویہ میں بہت تفصیل سے کلام فرمایا ہے ، اس میں سے ایک جز کا خلاصہ یہ ہے کہ ’’سورہِ فتح کی اس آیت ِکریمہ میں موجود لفظ ’’لَکَ‘‘ میں لام تعلیل کا ہے اور ’’مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ‘‘ سے مراد ’’تمہارے اگلوں کے گناہ‘‘ ہے اور اگلوں سے میری مراد سیّدنا عبد اللہ اورسیّدتنا آمنہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے لے کر نسب ِکریم کی انتہاء تک تمام آبائے کرام اور اُمّہاتِ طیّبات مراد ہیں ، البتہ ان میں سے جو انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں جیسے حضرت آدم ، شیث ، نوح ، خلیل اور اسماعیل عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ، وہ اس سے مُستَثنیٰ ہیں ، اور ’’مَا تَاَخَّرَ‘‘ سے مراد’’ تمہارے پچھلے ‘‘ یعنی ’’ قیامت تک تمہارے اہلِ بیت اور امتِ مرحومہ ‘‘ مراد ہے ، تو آیت ِکریمہ کا حاصل یہ ہوا کہ ہم نے تمہارے لیے فتح ِمبین فرمائی تاکہ اللہ تعالیٰ تمہارے سبب سے بخش دے تم سے تعلق رکھنے والے سب اگلوں پچھلوں کے گناہ ۔ ( فتاوی رضویہ، ۲۹/۴۰۱،چشتی)

مسئلہ ۱۴۳ : مسئولہ مولینٰا مولوی سید غلام قطب الدین صاحب پر دیسی جی برہمچاری از شہر محلہ باسمنڈی ۳ربیع الاول شریف ۱۳۳۹ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین کہ اب کی دس جنوری کی اشاعت میں راما سنگھم نے قرآن عظیم کی تین آیات کا حوالہ دے کر محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو(معاذ اﷲ ) گنہگار قرار دیا ہے ان میں سے پہلی دو میں رسول مقبول ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ) کو یوں مخاطب کیا ہے۔ تو اپنے گناہوں کی معافی مانگ۔ تیسری آیت کا مطلب یہ ہےفی الواقعی ہم نے تیرے واسطے بلاشبہہ کا میابی حاصل کی ہے کہ خدا تیرے اگلے پچھلے گناہ معاف کرتا ہے مسٹر حسن ہم کو اس بات کا یقین دلاتے ہیں کہ ان آیات میں تو سے مراد تو ہر گز نہیں ہے بلکہ اس کا اشارہ اسلام کے نبی کے پیروؤں کے گناہوں اور غلطیوں کی طرف ہے یہ بات مشکل ہے کہ اس مباحثہ کو قابل یقین سمجھا جائے کیونکہ اگر عربی زبان ایسی ہی پیچیدہ ہے کہ ہر ایک پڑھنے والا اپنی خواہش کے مطابق مطلب لے سکتا ہے تب قرآن عظیم سے جو چاہیں مطلب لے سکتے ہیں، تاہم مسٹر حسن کا یہ بیان ہے کہ وہ آیاتِ زیر مباحثہ کے ان معنوں پر اعتقاد رکھتے اور قرآن عظیم کے مفسرین کی صنعت کو مانتے ہیں مجھ کو خوف ہے کہ مسٹر حسن نے تفسیروں کو غور سے نہیں پڑھا ہے۔ کیونکہ میں ذیل میں یہ دکھاؤں گا کہ قرآن عظیم کے مسلم مفسرین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گنہگار ہونے کو ( معاذ اﷲ) صاف طور سے مانتے ہیں اور بعض موقعوں پر ان خاص گناہوں کو بتاتے ہیں جن کی بابت رسول مقبول ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ) سے معافی مانگنے کو کہا گیا ہم وہ تین آیات لیتے ہیں جو راماسنگھم نے نقل کی ہیں، اول سورہ محمد ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ) کی انتیسویں آیت ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ تو معافی مانگ اپنے گناہوں اور اپنے معتقدین کی خواہ مرد ہوں خواہ عورت، یہاں پر کسی حالت میں بھی تو کے معنی پیروؤں کے نہیں ہوسکتے چونکہ ان لوگوں کا ذکر خود بھی آچکا ہے۔ اور حرف عطف سب پیچیدگیوں کو صاف کردیتا ہے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے پہلے اپنی اور بعد کو اپنے پیروؤں کی معافی مانگنے کو کہا گیا ہے۔ دوسری سورہ مومن کی پچیسیویں آیت ہے اور اس کا مطلب یہ ہے تو اپنے گناہوں کی معافی مانگ اس بات کو یقین کرنا دشوار ہے کہ آپ کے مسٹر حسن نے درحقیقت مفسرین سے دریافت کیا ہوگا اگر وہ دریافت کرلیتے تو کبھی نہ کہتے کہ وے لوگ اس بات کو راما سنگھم پر صاف عیاں کردیں گے کہ مسلمانوں کے پیغمبر ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ) ہر گناہ سے معصوم ہیں اس سے کہیں دور وہ صاف طور سے رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی گنہگاری کو مانتے ہیں، ابن عباس بڑے بھاری مفسرین میں سے ہیں اور اپنی تفسیر میں اس طرح سے کہتے ہیں:

واستغفر(عہ)لذنبک لتقصیروالشکر علی ماانعم اﷲ علیک وعلٰی اصحابک اس کے معنی یہ ہیں کہ تو معافی مانگ اپنے گناہوں کی وہ یہ کہ تو نے خدا کی اس مہربانی کے شکر گزار ہونے میں غفلت کی جو کہ خدا نے تیرے پیروؤں پر کی،۔

زمخشری ایک بڑے بھاری مفسر اپنی تفسیر الکشاف میں یوں لکھتے ہیں: لکن یغفر اﷲ لک ماتقدم من ذنبک قبل الوحی وماتا خرو ما یکون بعد الوحی الی الموت اس کے معنی یہ ہیں کہ خدا تیرے گناہ جو کہ وحی آنے کے قبل ہوئے ہیں اور اس کے بعد میں یعنی مرتے وقت تک معاف کردے۔ بینوا توجروا۔ عہ: ھکذا بخطہ ۔۱۲منہ

الجواب : اس سوال میں آریہ نے افتراء وجہالت و نافہمی و بے ایمانی سے کامل لیا۔
(۱) عبارت کہ کشاف کی طرف نسبت کی محض بہتان ہے، کشاف میں اُس کا پتہ نہیں،
(۲) بالفرض اگر کشاف میں ہوتی تو وہ ایک معتزلی بدمذہب بے ادب کی تصنیف ہے اس کا کیا اعتبار۔

(۳) یہ تفسیر کہ منسوب بسید نا ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما ہے نہ اُن کی کتاب ہے نہ اُن سے ثابت یہ بسند محمد بن مروان عن الکلبی عن ابی صالح مروی ہے اور ائمہ دین اس سند کو فرماتے ہیں کہ یہ سلسلہ کذب ہے تفسیر اتقان شریف میں ہے: واوھی طرقہ طریق الکلبی عن ابی صالح عن ابن عباس فان انضم الٰی ذلک روایۃ محمد بن مروان اسدی الصغیر فھی سلسلۃ الکذب ۔۱؂

اس کے طُرق میں سے کمزور ترین طریق کلبی کا ابوصالح سے اور اس کا ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کرنا اگر اس کے ساتھ محمد بن مروان اسدی کی روایت مل جائے تو کذب کا سلسلہ ہے ۔(ت)۔( ۱ ؎ الاتقان فی علوم القرآن النوع التاسع والسبعون فی غرائب التفسیر مصطفی البابی مصر ۲/ ۱۸۹)

(۴) اس کے ترجمے میں بھی آریہ نے تحریف کی ہے، عبارت یہ ہے: لتقصیر الشکر علی ما انعم اﷲ علیک وعلٰی اصحابک ۔ یعنی اﷲ عزوجل نے آپ پر اور آپ کے اصحاب پر جو نعمتیں فرمائیں ان کے شکر میں جس قدر کمی واقع ہوئی اس کے اس لیے استغفار فرمائیے۔
کہاں کمی اور کہاں غفلت، نعمائے الہٰیہ ہر فرد پر بے شمار حقیقۃً غیر متناہی بالفعل ہیں کما حققہ المفتی ابوالسعود فی ارشاد العقل السلیم ( جیسا کہ مفتی ابوالسعود نے ارشاد العقل ا لسلیم میں اس کی تحقیق کی ہے۔ت) قال اﷲ عزوجل وان تعدوا نعمۃ اﷲ لاتحصوھا ۔۲؂ اگر اﷲ کی نعمتیں گننا چاہو تو نہ گن سکو گے، جب اس کی نعمتوں کو کوئی گن نہیں سکتا تو ہر نعمت کا پورا شکر کون ادا کرسکتا ہے۔

ازدست و زباں کہ برآید کزعہدہ شکرش بدر آید

( کس کے ہاتھ اور زبان سے ممکن ہے کہ اس کے شکر سے عہدہ برآ ہوسکے۔ت)
( ۲ ؎ القرآن الکریم ۱۴/ ۳۴)

شکر میں ایسی کمی ہر گز گناہ بمعنی معروف نہیں بلکہ لازمہ بشریت ہے نعمائے الہٰیہ ہر وقت ہر لمحہ ہر آن ہر حال میں متزائد ہیں خصوصاً خاصوں پر خصوصاً اُن پر جو سب خاصوں کے سردار ہیں اور بشر کو کسی وقت کھانے پینے سونے میں مشغولی ضرور، اگرچہ خاصوں کے یہ افعال بھی عبادت ہی ہیں مگر اصل عبادت سے تو ایک درجہ کم ہیں اس کمی کو تقصیر اور اس تقصیر کو ذنب سے تعبیر فرمایا گیا۔

(۵) بلکہ خود نفس عبارت گواہ ہے کہ یہ جسے ذنب فرمایا گیا ہر گز حقیقۃً ذنب بمعنی گناہ نہیں۔
ماتقدّم سے کیا مراد لیا، وحی اترنے سے پیشتر کے ، اور گناہ کسے کہتے ہیں، مخالفتِ فرمان کو، اور فرمان کا ہے سے معلوم ہوگا، وحی سے۔ تو جب تک وحی نہ اتری تھی فرمان کہاں تھا جب فرمان نہ تھا مخالفتِ فرمان کے کیا معنی ، اور جب مخالفتِ فرمان نہیں تو گناہ کیا۔

(۶) جس طرح ماتقدم میں ثابت ہولیا کہ حقیقۃً ذنب نہیں۔ یوں ہی ماتاخر میں نقد و قت ہے قبل ابتدائے نزول فرمان جو افعال جائز ہوئے کہ بعد کو فرمان ان کے منع پر اترا اور انہیں یوں تعبیر فرمایا گیا حالانکہ ان کا حقیقہً گناہ ہونا کوئی معنی ہی نہ رکھتا تھا۔ یونہی بعدنزول وحی و ظہور رسالت بھی جو افعال جائز فرمائے اور بعد کو ان کی ممانعت اُتری اسی طریقے سے ان کو ما تاخر فرمایا کہ وحی بتدریج نازل ہوئی نہ کہ دفعۃً،

(۷) نہ ہر تفسیر معتبر نہ ہر مفسر مصیب، مشرک کا ظلم ہے کہ نام لے آیات کا اور دامن پکڑے نا معتبر تفسیرات کا۔ایسا ہی ہے تو وہ لغویات و ہزلیات و فحشیات کہ ایک مہذب آدمی کو انہیں بکتے بلکہ دوسرے آدمی سے نقل کرتے عار آئے جو آریہ کے ویدوں میں اہلی گہلی پھررہی ہیں اور خود بندگانِ وید نے اس کے ترجموں میں وہی حد بھر کے گندے گھناؤنے فحش لکھے ان سے آریہ کی جان کیونکر چھوٹے گی مثلاً یجروید میں ایشور کی بیماری کا حال لکھا کہ بستر بیماری پر پڑے پکار رہے ہیں کہ اوسیکڑوں کی طرح کی عقل و علم رکھنے والو ! تمہاری سیکڑوں ہزاروں طرح کی بوٹیاں ہیں ان میں سے میرے شریر کو نروگ کرو، اے اماں جان ! تو بھی ایسا ہی کر نیز یہ بھی فرمارہے ہیں کہ اے بوٹیوں کے مانند فائدہ دینے والی دیوی ماتا ! میں فرزند تجھ کو بہت نصیحت کرتا ہوں ماما جی کہتی اے لائق بیٹے! میں والدہ تیرے گھوڑے گائیں، زمین، کپڑے، جان کی حفاظت و پرورش کرتی تو مجھے نصیحت مت کرو اسی یجروید کے ادھیائے ۳۱ منتر اول میں ایشور کے متعلق ہے اس کے ہزار سر ہیں ہزار آنکھیں ہیں ہزار پاؤں ہیں زمین پر وہ سب جگہ ہے الٹا سیدھا تب بھی دس انگلی کے فاصلے پر ہر آدمی کے آگے بیٹھا ہے۔ نیز ویدوں میں اس کا نام سروبیاپک ہے یعنی وہ ہر جگہ سمایا ہوا، ہر چیز میں رما ہوا، ہر خلا میں گھسا ہوا ہے، ہر جانور کی مقعد ہر مادہ کی فرج ہر پاخانہ کی ڈھیری میں ایشور ہی ایشور ہے۔ دیانند نے محض زبردستی اُن کی کایا پلٹ کی اور انہیں فحش سے نکالا مگر اور مترجموں کا ترجمہ کہاں مٹ جائے گا مفسر تو اپنی طرف سے مطلب کہتا ہے اور مترجم خود اصل کلام کو دوسری زبان میں بیان کرتا ہے ترجمے کی غلطی اگر ہوتی ہے تو دو ایک لفظ کے معنی میں نہ کہ سارے کا سارا کلام محض فحش سے حکمت کی طرف پلٹ دیا جائے اور اگر سنسکرت ایسی ہی پیچیدہ زبان ہے جس کی سطروں کی سطریں چاہے فحش سے ترجمہ کردو خواہ حکمت سے تو وہ کلام کیا ہوا بھان متی کا گورکھ دھندا ہوا اور اس کے کس حرف پر اعتماد ہوسکتا ہے ، نہیں معلوم کہ مالا جپی ہے یا گالی بکی ہے۔

(۸) استدلال بڑی ذمہ داری کا کام ہے آریہ بیچارہ کیا کھا کر اس سے عہدہ برآمدہوسکتا ہے ۔

نباشد بہ آئین تحقیق دال کچوری و پوری و بھجیا و دال

شرط تمامی استدلال قطع ہر احتمال ہے علم کا قاعدہ مسلمہ ہے۔ اذا جاء الاحتمال بطل الاستدلال ۔۱؂ جب احتمال آجائے تو استدلال باطل ہوجاتا ہے۔(ت)

سورہ مومن و سورہ محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی آیات کریمہ میں کون سی دلیل قطعی ہے۔ کہ خطاب حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے ہے، مومن میں تو اتنا ہے۔: واستغفر لذنبک ۔۲؂ اے شخص اپنی خطا کی معافی چاہ کسی کا خاص نام نہیں کوئی دلیل تخصیص کلام نہیں،

قرآن عظیم تمام جہاں کی ہدایت کے لیے اترا نہ صرف اس وقت کے موجودین بلکہ قیامت تک کے آنے والوں سے وہ خطاب فرماتا ہے ، اقیموا الصلوۃ ۔۳؂ نماز برپا رکھو۔ یہ خطاب جیسا صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم سے تھا ویسا ہی ہم سے بھی ہے اور تا قیامِ قیامت ہمارے بعد آنے والی نسلوں سے بھی۔

اسی قرآن عظیم میں ہے: لانذر کم بہ ومن بلغ ۔۴؂ تاکہ میں اس سے تمہیں ڈراؤں اور جن جن کو پہنچے (ت)( ۱ ؎) ( ۲ ؎ القرآن الکریم ۴۰/ ۵۵)۔( ۳ ؎ القرآن الکریم ۲/ ۴۳ ) ( ۴ ؎ القرآن الکریم ۶/ ۱۹)

کتب کا عام قاعدہ ہے کہ خطاب ہر سامع سے ہوتا ہے بداں اسعدک اﷲ تعالٰی (تُو جان لے اﷲ تعالٰی تجھے سعادت مند بنائے۔ت) میں کوئی خاص شخص مراد نہیں۔

خود قرآن عظیم میں فرمایا : ارأیت الذی ینھٰی oعبدا اذا صلی oارایت ان کان علی الہدٰی oاوامربالتقوی۱؂o (ابوجہل لعین نے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو نماز سے روکنا چاہا اس پر یہ آیتِ کریمہ اتریں) کہ کیا تُو نے دیکھا اُسے جو روکتا ہے بندے کو جب وہ نماز پڑھے، بھلا دیکھو تو اگر وہ بندہ ہدایت پر ہو یا پرہیزگاری کا حکم فرمائے۔( ۱ ؎ القرآن الکریم ۹۶/ ۹ تا ۱۱ )

یہاں بندے سے مراد حضور اقدس ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم، اور غائب کی ضمیریں حضور کی طرف ہیں اور مخاطب کی ہر سامع کی طرف ، بلکہ فرماتا ہے: فمایکذبک بعد بالدین ۔۲؂ ( ان روشن دلیلوں کے بعد) کیا چیز تجھے روزِ قیامت کے جھٹلانے پر باعث ہورہی ہے۔( ۲ ؎ القرآن الکریم ۹۵/ ۷)

یہ خطاب خاص کفارسے ہے بلکہ ان میں بھی خاص منکران قیامت مثل مشرکین آریہ و ہنود سے ، یونہی دونوں سورہ کریمہ میں کاف خطاب ہر سامع کے لیے ہے کہ اے سننے والے اپنے اور اپنے سب مسلمان بھائیوں کے گناہ کی معافی مانگ۔

(۹) بلکہ آیت محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں تو صاف قرینہ موجود ہے کہ خطاب حضور سے نہیں، اس کی ابتداء یوں ہے: فاعلم انہ لا الٰہ الا اﷲ واستغفرلذنبک وللمؤمنین والمؤمنٰت ۔۳؂ جان لے کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اپنی اور مسلمان مردوں اور عورتوں کی معافی چاہ۔
تو یہ خطاب اُس سے ہے جو ابھی لا الٰہ الا اﷲ نہیں جانتا ورنہ جاننے والے کو جاننے کا حکم دینا تحصیل حاصل ہے، تو معنی یہ ہوئے کہ اے سُننے والے جسے ابھی تو حید پر یقین نہیں کسے باشد تو حید پر یقین لا اور اپنے اور اپنے بھائی مسلمانوں کے گناہ کی معافی مانگ ، تتمہ آیت میں اس عموم کو واضح فرمادیا کہ :

واﷲ یعلم متقلبکم ومثوٰکم ۔ ۴؎ اﷲ جانتا ہے جہاں تم سب لوگ کروٹیں لے رہے ہو، اور جہاں تم سب کا ٹھکانا ہے۔( ۳ ؎ القرآن الکریم ۴۷/ ۱۹ )( ۴ ؎ القرآن الکریم ۴۷ / ۱۹ )

اگر فاعلم میں تاویل کرے تو ذنبک میں تاویل سے کون مانع ہے اور اگر ذنبک میں تاویل نہیں کرتا تو فاعلم میں تاویل کیسے کرسکتا ہے، دونوں پر ہمارا مطلب حاصل، اور مدعی معاند کا استدلال زائل۔
(۱۰) دونوں آیۃ کریمہ میں صیغہ امر ہے اور امر انشا ہے اور انشاوقوع پر دال نہیں تو حاصل اس قدر کہ بفرض وقوع استغفار واجب نہ یہ کہ معاذ اﷲ واقع ہوا، جیسے کسی سے کہنا اکرم ضیفک اپنے مہمان کی عزت کرنا، اس سے یہ مراد نہیں کہ اس وقت کوئی مہمان موجود ہے نہ یہ خبر ہے کہ خواہی نخواہی کوئی مہمان آئے گا ہی بلکہ صرف اتنا مطلب ہے کہ اگر ایسا ہو تو یوں کرنا۔

(۱۱) ذنب معصیت کو کہتے ہیں اور قرآن عظیم کے عرف میں اطلاق معصیت عمد ہی سے خاص نہیں، قال اﷲ تعالٰی ، وعصٰی اٰدم ربّہ ۔۱؂ آدم نے اپنے رب کی معصیت کی ، ( ۱ ؎ القرآن الکریم ۲۰/ ۱۲۱ )

حالانکہ خود فرماتا ہے: فنسی ولم نجدلہ عزما ۔۲؂ آدم بھول گیا ہم نے اس کا قصد نہ پایا، لیکن سہو نہ گناہ ہے نہ اس پر مؤاخذہ ،( ۲ ؎ القرآن الکریم ۲۰/ ۱۱۵)

خود قرآن کریم نے بندوں کو یہ دعا تعلیم فرمائی: ربنا لاتؤاخذنا ان نسینا او اخطأنا ۳ ؎ اے ہمارے رب ! ہمیں نہ پکڑ اگر ہم بھولیں یا چُوکیں۔( ۳ ؎ القرآن الکریم ۲/ ۲۸۶ )

(۱۲) جتنا قُرب زائد اُسی قدر احکام کی شدت زیادہ ۔۔۔۔۔۔ع
جن کے رُتبے ہیں سوا اُن کو سوا مشکل ہے۔
بادشاہ جبار جلیل القدر ایک جنگلی گنوار کی جو بات سُن لے گا جو برتاؤ گوارا کرے گا ہر گز شہریوں سے پسند نہ کرے گا، شہریوں میں بازاریوں سے معاملہ آسان ہوگا اور خاص لوگوں سے سخت اور خاصوں میں درباریوں اور درباریوں میں وزراء ہر ایک پربار دوسرے سے زائد ہے اس لیے وارد ہوا۔ حسنات الابرار سیّئات المقربین ۔۴؂ نیکوں کے جو نیک کام ہیں مقربوں کے حق میں گناہ ہیں۔ وہاں ترکِ اولٰی کو بھی گناہ سے تعبیر کیا جاتا ہے حالانکہ ترک اولی ہر گز گناہ نہیں۔
( ۴ ؎ لباب التاویل (تفسیر الخازن ) تحت آیۃ ۴۷/۱۹ مصطفٰی البابی مصر ۶/ ۱۸۰)(ارشاد العقل السلیم تحت آیۃ ۴۷/ ۱۹ داراحیاء التراث العربی بیروت ۸/ ۹۷)

(۱۳) آریہ بے چارے جن کے باپ دادا نے بھی کبھی عربی کا نام نہ سُنا، اگر نہ جانے تو ہر ادنٰی طالب علم جانتا ہے کہ اضافت کے لیے ادنٰی ملا بست بس ہے بلکہ یہ عام طور پر فارسی، اردو ، ہندی سب زبانوں میں رائج ہے مکان کو جس طرح اس کے مالک کی طرف نسبت کریں گے یونہی کرایہ دار کی طرف،یونہی جو عاریت لے کر بس رہا ہے اس کے پاس جو ملنے آئے گا یہی کہے گا کہ ہم فلانے کے گھر گئے تھے بلکہ پیمائش کرنے والے جن کھیتوں کو ناپ رہے ہوں ایک دوسرے سے پوچھے گا تمہارا کھیت کَے جریب ہوا، یہاں نہ ملک نہ اجارہ نہ عاریت، اور اضافت موجود یونہی بیٹے کے گھر سے جو چیز آئے گی، باپ سے کہہ سکتے ہیں کہ آپ کے یہاں سے یہ عطا ہوا تھا، تو ذنبک سے مراد اہلبیت کرام کی لغزشیں ہیں اور اس کے بعد وللمؤمنین وللمؤمنٰت تعمیم بعد تخصیص ہے یعنی شفاعت فرمائیے اپنے اہلبیت کرام اور سب مردوں عورتوں کے لیے۔ اب آریہ کے اس جنون کا بھی علاج ہوگیا کہ پیروؤں کا ذکر تو بعد کو موجود ہے ۔

تعمیم بعد تخصیص کی مثال خود قرآن عظیم میں ہے: رب اغفرلی ولوالدی ولمن دخل بیتی مومنا وللمؤمنین والمؤمنٰت ۔۱؂ اے میرے رب ! مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو اور جو میرے گھر میں ایمان کے ساتھ آیا اور سب مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کو۔( ۱؎ القرآن الکریم ۷۱/ ۲۸،چشتی)

(۱۴) اسی وجہ پر آیۃ کریم سورہ فتح میں لام لک تعلیل کا ہے اور ماتقدم من ذنبک تمہارے اگلوں کے گناہ اعنی سیّدنا عبداﷲ وسیدتنا آمنہ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے منتہائے نسب کریم تک تمام آبائے کرام و امہات طیبات باستثناء انبیاء کرام مثل آدم و شیث ونوح وخلیل واسمعیل علیہم الصلوۃ والسلام، اور ما تاخر تمہارے پچھلے یعنی قیامت تک تمہارے اہلبیت و امتِ مرحومہ تو حاصل آیۃ کریمہ یہ ہو ا کہ ہم نے تمہارے لیے فتح مبین فرمائی تاکہ ﷲ تمہارے سبب سے بخش دے تمہارے علاقہ کے سب اگلوں پچھلوں کے گناہ۔والحمدﷲ رب العالمین۔

(۱۵) ماتقدم وما تأخر سے قبل و بعد نزول وحی کا ارادہ جس طرح عبارتِ تفسیر میں مصرح تھا آیت میں قطعاً محتمل ، اور ہم ثابت کرچکے کہ اب حقیقت ذنب خود مندفع ۔ وﷲ الحمد و صلی اللہ تعالٰی علٰی شفیع المذنبین وبارک وسلم الٰی یوم الدین وعلٰی اٰلہ وصحبہ اجمعین ، وﷲ تعالٰی اعلم ۔ (فتاویٰ رضویہ، جلد29، صفحہ 394 تا 401،چشتی)

صحیح بخاری شریف جلد اول ص نمبر 7 مطبوعہ اصح المطابع دہلی میں ایک حدیث کی تشریح بمعہ حوالہ جات پیژِ خدمت ہے پڑھیئے :

عن عائشۃ قالت کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم اذا امرھم امرھم من الاعمال بمایطیقون قالوا انا لسنا کھیئاتک یا رسول اللّٰہ ان اللّٰہ قد غفرلک ما تقدم من ذنبک و ما تآخر فیغضب حتی یعرف الغضب فی وجھہ ثم یقول ان اتقاکم و اعلمکم باللّٰہ انا ۔
ترجمہ : ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جب بھی صحابہ کرام کو کوئی حکم دیتے تو ایسے اعمال کا حکم دیتے جن کے کرنے کی ان میں طاقت ہوتی ۔ صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ! ہم آپ جیسے نہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے گذشتہ و آئندہ ذنب …… فرما دیئے ہیں ۔ اس پر سرکار ناراض ہوئے ، حتیٰ کہ ناراضگی کے آثار چہرۂ انور سے ظاہر ہونے لگے ۔ پھر فرمایا کہ میں تم سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں اور تم سب سے زیادہ اُسے جانتا ہوں ۔ (صحیح بخاری جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 7 مطبوعہ اصح المطابع دہلی)

علامہ بدرالدین عینی رحمۃ اللہ علیہ عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری میں اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں کہ : (انالسناکھیأتک) اراداو بھذا الکلام طلب الاذن فی الزیادۃ من العبادۃ والرغبۃ فی الخیر یقولون انت مغفور لک لا تحتاج الی عمل و مع ھذا انت مواظب علی الاعمال فکیف بنا و ذنوبنا کثیرۃ فرد علیھم و قال انا اولیٰ بالعمل لانی اعلمکم و اخشاکم ۔ (عمدۃالقاری ج 1ص 195 مطبوعہ مصر،چشتی)
ترجمہ : صحابہءِ کرام رضی اللہ عنہم کا اس کلام سے مقصود زیادہ عبادت کرنے کی اجازت مانگنا اور نیکیوں میں رغبت کا اظہار تھا ۔ گویا وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) آپ کو معصوم ہونے کی بنا پر عمل کی حاجت نہیں ۔ اس کے باوجود آپ پابندی سے اعمال بجا لاتے ہیں ۔ تو ہم کیوں نہ زیادہ اعمال بجا لائیں حالانکہ ہمارے گناہ زیاد ہ ہیں ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ان کا رد فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ میں عمل کا زیادہ سزاوار ہوں کیونکہ میں تم سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی معرفت رکھنے والا اور اس سے زیادہ ڈرنے والا ہوں ۔ اس حدیث کی کی یہی توضیح کرمانی علی البخاری ج1 ص 112 بیروت لبنان اور حاشیہ بخاری میں بحوالہءِ ارشاد الساری للقسطلانی بیان کی گئی ہے ۔

اہل سنت و جماعت کے نزدیک انبیاء کرام علیہم السّلام ہر گناہ سے معصوم ہیں اور جن مناہی کا بعض انبیاء کرام علیہم السّلام سے صدور ہوا ان میں ان کے قصد و ارادہ کو دخل نہیں تھا بلکہ وہ سہو و نسیان سے صادر ہوئے ایسے غیر قصدی منہیات کوزلات کہتے ہیں گناہ نہیں کہتے کیونکہ گناہ ایسے ممنوع و منہی امر کو کہتے ہیں جو قصد و ارادہ سے صادر ہوا ہو ۔

سیدنا امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالی فقہ اکبر میں فرماتے ہیں : والانبیاء علیھم السلام منزھون عن الصغائر والکبائر و قد کانت منھم زلات و خطیئات ۔
ترجمہ : تمام انبیاء کرام بڑے اور چھوٹے گناہوں سے پاک ہیں ۔ البتہ ان میں سے بعض سے لغزشیں صادر ہوئی ہیں ۔

علامہ ملا علی قاری رحمہ اللہ تعالی شرح فقہ اکبر میں فرماتے ہیں : والحاصل ان احدا امن اھل السنۃ لم یجوّز ارتکاب المنھی منھم عن قصد و لکن بطریق السھو والنسیان ویسمی ذالک زلۃ ۔ (شرح فقہ اکبرص 59مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی)
ترجمہ : خلاصہ کلام یہ ہے کہ اہل سنت میں سے کسی بھی عالم نے انبیاء کرام علیہم السّلام سے قصداً ممنوع امر کاارتکاب جائز نہیں مانا مگر بھول چوک سے اور اسے ذلت و لغزش کہا جاتا ہے ۔

لہٰذا گناہ کی نسبت انبیاء کرام علیہم السّلام کی طرف نام بنام کرنا ان کی شان میں بے باکی اور بے ادبی ہے ۔ ایسا کہنے والے پر توبہ لازم ہے ۔ اگر کسی شخص نے یہ بات اجتماعِ عام میں کہی تو اجتماعِ عام میں توبہ کرے ورنہ اہل اسلام ایسے شخص سے مقاطعہ کریں یہاں تک کہ وہ تائب ہو جائے ۔

قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم و اذا عملت سیءۃ فاحدث عندھا توبۃً توبۃ السر بالسر والعلانیۃ بالعلانیۃ ۔
یعنی جب تو کوئی گناہ کرے اسی وقت توبہ کر، خفیہ گناہ کی خفیہ توبہ اور اعلانیہ گناہ کی اعلانیہ توبہ ۔ (المعجم الکبیرللطبرانی رقم۵۴۷۶۱)

و قال اللّٰہ تعالی و اما ینسینک الشیطن فلا تقعد بعد الذکری مع القوم الظالمین ۔ (سورۃ الانعام آیت۸۶)
ترجمہ : بہرحال جب شیطان تجھے بھلائے تو نصیحت کے بعدظالم قوم کیساتھ مت بیٹھ ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔