Thursday 26 December 2019

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا علم مَاکَانَ وَمَایَکُوْن

0 comments
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا علم مَاکَانَ وَمَایَکُوْن

محترم قارئین کرام : ہمارا عقیدہ ہے کہ جو ہوچکا ہے جو ہو رہا ہے اور جو ہوگا ہمارے نبی صلی ﷲ علیہ وسلّم جانتے ہیں آیئے اس پر دلائل کی روشنی میں جائزہ لیتے ہیں :

جو ہوچکا جو ہوگا حضور جانتے ہیں
تیری عطاء سے خدایا حضور جانتے ہیں
(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم)

منکرین اس عقیدے کو جو کہ قران و حدیث سے ماخوذ ہے مشرکانہ عقیدہ بتاتے ہیں حالانکہ ایسا کہنا ازلی شقاوت کے اظہار کے علاوہ کچھ حیثیت نہیں رکھتا جب کہ اس کے برعکس حضور صلی اﷲعلیہ وسلم کیلئے علم ماکان ومایکون کا عقیدہ دراصل اکابرین و سلف صالحین کا عقیدہ ہے ۔

اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : اَلرَّحْمٰنُۙ O عَلَّمَ الْقُرْاٰنَؕ‏ ، ‏خَلَقَ الْاِنْسَانَۙ‏ عَلَّمَهُ الْبَيَانَ ۔ (سورہ رحمٰن)
ترجمہ : اسی نے انسان کو پیدا کیا اور اسے بولنا سکھایا ۔ (ترجمہ محمد جونا گڑھی غیر مقلد وہابی)

ان آیات کی تفسیر میں مفسرین نے بہت کچھ لکھا ہے ان میں سے چند اکابرین مفسرین علیہم الرّحمہ کی تفاسیر پیش خدمت ہیں :

خَلَقَ الْاِنْسَانَ : انسان کو پیدا کیا ۔ اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت میں ’’انسان‘‘ اور’’ بیان‘‘ کے مِصداق کے بارے میں مفسرین کے مختلف قول ہیں ۔ ایک قول یہ ہے کہ یہاں انسان سے مراد دو عالَم کے سردار محمد مصطفی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں اور بیان سے’’مَاکَانَ وَمَا یَکُوْنُ‘‘یعنی جو کچھ ہو چکا اور جو کچھ آئندہ ہو گا ، کا بیان مراد ہے کیونکہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اَوّلین و آخرین اور قیامت کے دن کی خبریں دیتے تھے ۔ ایک قول یہ ہے کہ یہاں انسان سے مراد حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں اور بیان سے مراد تمام چیزوں کے اَسماء اور تما م زبانوں کا بیان مراد ہے اور ایک قول یہ ہے کہ یہاں انسان سے اس کی جنس یعنی حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی تمام اولاد مراد ہے اور بیان سے مراد گفتگو کی صلاحیت ہے جس کی وجہ سے انسان دیگر حیوانوں سے ممتاز ہوتا ہے ۔ (تفسیر خازن، الرحمن، تحت الآیۃ: ۳-۴، ۴/۲۰۸)(تفسیر صاوی ، الرحمن ، تحت الآیۃ: ۳-۴، ۶/۲۲۷۳-۲۲۷۴،چشتی)

مشہور مفسّر امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : خلق الانسان یعنی محمداً صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ علمہ البیان یعنی بیان ماکان ومایکون ۔
ترجمہ : اس آیت میں انسان سے مراد محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں اور بیان سے مراد ماکان ومایکون کا بیان ہے ۔ (تفسیر البغوی معالم التنزیل صفحہ ١٢٥٧ ابی محمد حسین بن مسعود البغوی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٥١٦ھ)

امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ یوں فرماتے ہیں : الانسان ھاھنا یراد بہ محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ والبیان وقیل ماکان ومایکون ۔
ترجمہ : اس آیت میں انسان سے مراد محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں اور بیان سے مراد (بعض کہتے ہیں) ماکان ومایکون کا بیان ہے ۔ (الجامع الاحکام القرآن والمبین لما تضمنہ من السنتہ وآی الفرقان الجزءالعشرون صفحہ١١٣ ابی عبد ﷲ محمد بن احمد بن ابی بکر القرطبی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٦٧١ھ)

امام ابن عادل حنبلی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : المراد بالانسان ھنا محمد علیہ السلام علمہ البیان وقیل ماکان ومایکون ۔
ترجمہ : اس آیت میں انسان سے مراد محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں اور بیان سے مراد (بعض کہتے ہیں) ماکان ومایکون کا بیان ہے ۔ (اللباب فی علوم الکتاب المشہور تفسیر ابن عادل الجزء الثامن عشر صفحہ٢٩٣-٢٩٤ ابی حفص عمر بن علی ابن عادل الدمشقی الحنبلی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٨٨٠ھ،چشتی)

امام ثعلبی رحمۃ اللہ علیہ کی تفسیر میں موجود ہے : خلق الانسان یعنی محمداً صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ علمہ البیان یعنی بیان ماکان ومایکون ۔
ترجمہ : اس آیت میں انسان سے مراد محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں اور بیان سے مراد ماکان ومایکون کا بیان ہے ۔ (الکشف والبیان فی تفسیر القران المشہور تفسیر الثعلبی الجزء السادس صفحہ٤٨ العلامہ ابی اسحٰق احمد بن محمد بن ابراھیم الثعلبی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٤٢٧ھ)

اَلرَّحْمٰنُ : رحمن ۔ اس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ جب سورۂ فرقان کی آیت نمبر60 نازل ہوئی جس میں رحمن کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا توکفارِ مکہ نے کہا کہ رحمن کیا ہے ہم نہیں جانتے ،اس پر اللہ تعالیٰ نے سورۃُ الرّحمن نازل فرمائی کہ رحمن جس کا تم انکار کرتے ہو وہی ہے جس نے قرآن نازل فرمایا ۔ اور ایک قول یہ ہے کہ اہل ِمکہ نے جب کہا کہ محمد (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کو کوئی بشر سکھاتا ہے تو یہ آیت نازل ہوئی اور اللہ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی نے فرمایا کہ رحمن نے قرآن اپنے حبیب محمد مصطفی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو سکھایا ۔ (تفسیر خازن، الرحمن، تحت الآیۃ: ۱-۲، ۴/۲۰۸،چشتی)

اِس معنی کے اعتبار سے ان آیات سے 5 باتیں معلوم ہوئیں

(1) قرآنِ پاک اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے اسی لئے سب سے پہلے اس کا ذکر فرمایا ۔

(2) حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس قرآن پاک بظاہر حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کے واسطے سے آیا لیکن در حقیقت اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو قرآن سکھایا ۔

(3) مخلوق میں سے حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا کوئی استاد نہیں بلکہ آپ کا علم مخلوق کے واسطے کے بغیر اللہ تعالیٰ کی عطا سے ہے ۔

(4) حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو قرآنِ پاک کے مُتَشابہات کا علم بھی دیا گیا ہے کیونکہ جب اللہ تعالیٰ نے سارا قرآن اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو سکھادیا تو اس میں متشابہات کا علم بھی آگیا کہ یہ بھی قرآنِ پاک کا حصہ ہی ہیں ۔

(5) اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو تمام اَشیاء کے نام سکھائے ، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ’’وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا‘‘ ۔ (سورہ بقرہ:۳۱)
ترجمہ : اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھادیے ۔
حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو زِرہ بنانا سکھائی ،چنانچہ ارشاد فرمایا :
’’وَ عَلَّمْنٰهُ صَنْعَةَ لَبُوْسٍ لَّكُمْ‘‘ ۔ (سورہ انبیاء:۸۰)
ترجمہ : اور ہم نے تمہارے فائدے کیلئے اسے (جنگی) لباس کی صنعت سکھا دی ۔
حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو پرندوں کی زبان سکھائی ، جیسا کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ا س کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا : ’’ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّیْرِ‘‘ ۔ (سورہ نمل:۱۶۔)
ترجمہ : اے لوگو!ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے ۔
حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو طب ، تورات اور انجیل کا علم عطا فرمایا، ارشادِباری تعالیٰ ہے:’’وَ یُعَلِّمُهُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ التَّوْرٰىةَ وَ الْاِنْجِیْلَ‘‘ ۔ (اٰل عمران:۴۸)
ترجمہ : اور اللہ اسے کتاب اور حکمت اور توریت اور انجیل سکھائے گا ۔
حضرت خضر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو علمِ لدُنی عطا فرمایا ، چنانچہ ارشاد فرمایا:
’’وَ عَلَّمْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا‘‘ ۔ (کہف:۶۵)
ترجمہ : اور اسے اپنا علم لدنی عطا فرمایا ۔
اور اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جو کچھ سکھایا اس کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ : ’’ اَلرَّحْمٰنُۙ (۱) عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ‘‘ ۔
ترجمہ : رحمن نے ، قرآن سکھایا ۔
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا : ’’وَ اِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْاٰنَ مِنْ لَّدُنْ حَكِیْمٍ عَلِیْمٍ‘‘ ۔ (نمل:۶)
ترجمہ : اور (اے محبوب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) بیشک آپ کو حکمت والے، علم والے کی طرف سے قرآن سکھایا جاتا ہے ۔
اور ایک جگہ واضح طور پر فرمادیا کہ : ’’وَ عَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ‘‘ ۔ (النساء:۱۱۳)
ترجمہ : اور آپ کو وہ سب کچھ سکھا دیا جو آپ نہ جانتے تھے ۔
اس سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کاعلم تمام اَنبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بلکہ تمام مخلوق سے زیادہ ہے ۔

عَنْ عَمْرِو بْنِ اَخْطَبَ الْاَ نْصَارِیِّ قَالَ: صَلَّی بِنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمًا الْفَجْرَ وَصَعِدَ عَلَی الْمِنْبَرِ فَخَطَبَنَا حَتّٰی حَضَرَتِ الظُّھْرُ فَنَزَلَ فَصَلَّی ثُمَّ صَعِدَ الْمِنْبَرَ فَخَطَبَنَا حَتّٰی حَضَرَتِ الْعَصْرُ ثُمَّ نَزَلَ فَصَلَّی ثُمَّ صَعِدَ الْمِنْبَرَ حَتّٰی غَرَبَتِ الشَّمْسُ فَاَخْبَرَنَا بِمَا ھُوَ کَاءنٌ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ قَالَ: فَاَعْلَمُنَا اَحْفَظُنَا ۔ (مشکاۃ المصابیح،کتاب احوال القیامۃ وبدء الخلق،باب فی المعجزات، الحدیث:۵۹۳۶، ج۲،ص۳۹۷،چشتی)(مشکوٰۃ،باب المعجزات،ص۵۴۳)
ترجمہ : حضرت عَمْرو بن اَخْطَب اَنصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا کہ ایک دن ہم لوگوں کو رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فجر کی نماز پڑھائی اور منبر پر تشریف فرما ہوئے اور ظہر کی نماز تک خطبہ پڑھتے رہے پھر اُترے اور نماز پڑھ کر پھرمنبر پر تشریف فرما ہوئے اور خطبہ دیتے رہے یہاں تک کہ عصر کی نماز کا وقت آگیا پھر اُترے اور نماز پڑھی پھرمنبر پر تشریف فرما ہوئے اور سورج ڈوبنے تک خطبہ پڑھتے رہے تو (اس دن بھر کے خطبہ میں ) ہم لوگوں کو حضور نے تمام ان چیزوں اور باتوں کی خبر دے دی جو قیامت تک ہونے والی ہیں تو ہم صحابہ میں سب سے بڑا عالم وہی ہے جس نے سب سے زیادہ اس خطبہ کو یاد رکھاہے ۔

حضرت عَمْرو بن اَخْطَب : اِس حدیث کے راوی حضرت عَمْرو بن اَخْطَب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں ۔یہ اَنصاری ہیں اور ان کی کنیت ’’اَبو زید‘‘ہے اور محدثین کے نزدیک ان کی کنیت ان کے نام سے زیادہ مشہور ہے ۔ یہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بہت سے غزوات میں شریک ِجہاد رہے۔حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مرتبہ محبت اور پیار سے ان کے سر پر ہاتھ پھیر دیااور ان کی خوبصورتی کے لیے دعا فرمائیی۔جس کا یہ اثر ہوا کہ ان کی سو برس کی عمر ہوگئی تھی مگر سر اور داڑھی کے چند ہی بال سفید ہوئے تھے اور آخری عمر تک چہرے کا حسن و جمال باقی رہا ۔ (اکمال فی اسماء الرجال، حرف العین، فصل فی الصحابۃ، ص۶۰۷، چشتی)

مختصر شرحِ حدیث : یہ حدیث مسلم شریف میں بھی ہے ۔ اس حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نماز فجر سے غروب آفتاب تک بجز ظہر و عصر پڑھنے کے برابر دن بھر خطبہ ہی میں مشغول رہے اور سامعین سُنتے رہے اور اس خطبہ میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے قیامت تک کے ہونے والے تمام واقعات تمام چیزوں اور تمام باتوں کی سامعین کو خبر دے دی اور صحابہ میں سے جس نے جس قدر زیادہ اس خطبہ کو یاد رکھا اتنا ہی بڑا وہ عالم شمار کیا جاتا تھا ۔ (صحیح مسلم،کتاب الفتن واشراط الساعۃ،باب اخبارالنبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔۔۔الخ، الحدیث:۲۸۹۲،ص۱۵۴۶)

یہ حدیث حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے معجزات میں سے ہے کہ قیامت تک کے کروڑوں واقعات کو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے صرف دن بھر کے خطبہ میں بیان فرما دیا۔صحیح حدیثوں سے ثابت ہے کہ حضرت داود علیہ السلام کو خداوند ِعالَم نے یہ معجزہ عطا فرمایا تھا کہ آپ گھوڑے پر زِین کسنے کا حکم دیتے تھے اور ساءیس گھوڑے کی زین باندھ کر درست کر تا تھا اتنی دیر میں آپ ایک ختم ’’زبور شریف ‘‘کی تلاوت کرلیتے تھے (صحیح البخاری،کتاب احادیث الانبیائ،باب قول اللّٰہ تعالی۔۔۔الخ، الحدیث:۳۴۱۷، ج۲،ص۴۴۷ ، چشتی)
تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نبی آخرالزمان جو تمام انبیاء علیہم السلام کے معجزات کے جامع ہیں اگر دن بھر میں قیامت تک کے تمام احوال و واقعات کو بیان فرمادیں تو اس میں کونسا تعجب کا مقام ہے ۔

اس حدیث سے مندرجہ ذیل مسائل پر روشنی پڑتی ہے

حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو خدا وند ِعالِم ُا لْغَیْب و الشَّہادَۃ نے جس طرح بہت سے معجزانہ کمالات سے نوازااور تمام انبیاء اور رسولوں میں آپ کو ممتاز فرماکر’’سید الانبیاء‘‘ اور’’افضل الرسل‘‘بنایا اسی طرح علمی کمالات کا بھی آپ کو وہ کمال بخشا کہ’’ مَاکَانَ وَمَا یَکُوْنُ ‘‘ یعنی روز ازل سے قیامت تک کے تمام علوم کا خزانہ آپ کے سینہ نبوت میں بھر دیا ۔

مشکوۃ شریف کی حدیث ہے کہ : حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا کہ میں نے اپنے رب عزوجل کو بہترین صورت میں دیکھا تو اس نے مجھ سے فرمایا کہ اوپر والی جماعت کس چیز میں بحث کر رہی ہے؟ تو میں نے عرض کیا کہ یااللہ! عزوجل تو ہی اس کو زیادہ جاننے والا ہے پھر خدا وند ِعالَم نے اپنی (قدرت کی)ہتھیلی کو میرے دونوں شانوں کے درمیان رکھ دیا تو میں نے اس کی ٹھنڈک کو اپنی دونوں چھاتیوں کے درمیان میں پایا اور جو کچھ آسمان و زمین میں ہے سب کو میں نے جان لیا ۔ (مشکاۃ المصابیح،کتاب الصلاۃ،باب المساجد ومواضع الصلاۃ، الحدیث:۷۲۵،ج۱، ص۱۵۲)(مشکوٰۃ،باب المساجد،ص۷۰)

اللہ عزوجل نے میرے لیے دُنیا کو اٹھا کر اسطرح میرے سامنے پیش فرمادیا کہ میں تمام دنیاکو اور اس میں قیامت تک جو کچھ بھی ہونے والا ہے ان سب کو اسطرح دیکھ رہا ہوں جس طرح میں اپنی ہتھیلی کو دیکھ رہا ہوں ۔(شرح الزرقانی علی المواہب، المقصد الثامن، الفصل الثالث، ج۱۰، ص۱۲۳، وحلیۃ الاولیاء، حدیر بن کریب، الحدیث۷۹۷۹، ج۶،ص۱۰۷،چشتی)(زرقانی علی المواہب،جلد۷،ص۲۳۴)
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم ہم میں تشریف فرما ہوئے اور قیامت تک جو امور پیش ہونے والے تھے آپ نے ان میں سے کسی کو نہیں چھوڑا اور وہ سب امور بیان کردیئے، جس نے ان کو یاد رکھا اس نے یاد رکھا اور جس نے ان کو بھلا دیا اس نے نے بھلا دیا، اور میرے ان اصحاب کو انکا علم ہے، ان میں سے کئی ایسی چیزیں واقع ہوئیں جن کو میں بھول چکا تھا، جب میں نے ان کو دیکھا تو وہ یاد آگئیں، جیسے کوئی شخص غائب ہوجاتے تو اس کا چہرہ دیکھ کر اس کو یاد آجاتا ہے کہ اس نے اس کو دیکھا تھا۔ ( صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٦٠٤، صحیح مسلم کتاب الجنۃ ٣٣۔ رقم الحدیث ٧١٣٠، سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٤١٤٠، مسند احمد ج ٥ ص ٣٨٥، جامع الاصول ج ١١۔ رقم الحدیث : ٨٨٨٢)

حضرت ابو زید عمرو بن اخطب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم نے ہم کو صبح کی نماز پڑھائی اور منبر پر رونق افروز ہوئے ، پھر آپ نے ہمیں خطبہ دیا حتیٰ کہ ظہرآ گئی ، آپ منبر سے اترے اور نماز پڑھائی، پھر منبر پر رونق افروز ہوئے اور ہمیں خطبہ دیا حتیٰ کہ عصر آگئی، پھر آپ منبر سے اترے اور نماز پڑھائی، پھر منبر پر تشریف فرما ہوئے اور ہم کو خطبہ دیا حتیٰ کہ سورج غروب ہوگیا، پھر آپ نے ہمیں ” ما کان وما یکون “ ( جو ہوچکا ہے اور جو ہونے والا ہے) کی خبریں دیں، پس ہم میں سے زیادہ عالم وہ تھا جو سب سے زیادہ حافظہ والا تھا ۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٧١٣٤، مسند احمد ج ٣ ص ٣١٥، مسند عبد بن حمید رقم الحدیث : ١٠٢٩، البدایہ والنہایہ ج ٦ ص ١٩٢، جامع الاصول ج ١١۔ رقم الحدیث : ٨٨٨٥، الاحاد و المثانی ج ٤۔ رقم الحدیث : ٢١٨٣، دلائل النبوۃ للبیہقی ج ٦ ص ٣١٣)

حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم ہم میں تشریف فرما ہوئے اور آپ نے ہمیں مخلوق کی ابتداء سے خبریں دینی شروع کیں ، حتیٰ کہ اہل جنت اپنے ٹھکانوں میں داخل ہوگئے اور اہل دوزخ اپنے ٹھکانوں میں داخل ہوگئے، جس نے اس کو یاد کھا اس نے یاد رکھا اور جس نے اس کو بھلا دیا اس نے بھلا دیا ۔ ( صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣١٩٢، امام احمد نے اس حدیث کو حضرت مغیرہ بن شعبہ سے روات کیا ہے، مسند احمد ج ١٤۔ رقم الحدیث : ١٨١٤٠، طبع دارالحدیث، قاہرہ،چشتی)

نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم کے علم کے عموم اور علم ماکان وما یکون کے متعلق علماء اسلام کی مزید تصریحات

حضرت سواد بن قارب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر اسلام قبول کیا ، پھر رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم کی اجازت سے آپ کی شان میں چند اشعار سنائے، جن میں سے ایک شعر یہ ہے :

فاشھد ان اللہ لا رب غیرہ وانک مامون علی کل غائب
ترجمہ : میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی رب نہیں اور آپ اللہ تعالیٰ کے ہر غیب پر امین ہیں ۔

حضرت سواد بن قارب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم یہ اشعار سن کر مجھ سے بہت خوش ہوئے ، آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم کے چہرہ اقدس سے خوشی کے آثار ظاہر ہو رہے تھے : فرمایا : ” افلحت یا سواد “ اے سودا ! تم کامیاب ہوگئے ۔ اس حدیث کو بہ کثرت علماء اسلام نے اپنی تصنیفات میں ذکر کیا ہے ۔ بعض علماء کے اسماء یہ ہیں : امام ابو نعیم ، امام ابوبکر احمد بن حسین بیہقی، علامہ ابن عبد البر، علامہ سہیلی، علامہ ابن الجوزی، حافظ ابن کثیر، علامہ بدر الدین عینی، علامہ جلال الدین سیوطی، علامہ حلبی، شیخ عبد اللہ بن محمد بن عبد الوہاب نجدی، علامہ محم بن یوسف الصالی الشامی ۔ (دلائل النبوۃ لابی نعیم ج ١ ص ١١٤، دلائل النبوۃ للبیہقی ج ٢ ص ٢٥١، استعیاب علی ہامش الاصابہ ج ٢ ص ١٢٤، الروض الانف ج ١ ص ١٤٠، الوفاج ١ ص ١٥٣، السیرۃ النبویہ لا بن کثیر ج ١ ص ٣٤٦، عمدۃ القاری ج ١٧ ص ٨، الخصائص الکبریٰ ج ١ ص ١٧١، بیروت، انسان العیوب ج ١ ص ٣٢٤، مختصر سیرت الرسول ص ٦٩، سبل الہدیٰ والرشاد ج ٢ ص ٢٠٩)

علامہ ابن جریر طبری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : وعلمک ما لم تکن تعلم من خبر الاولین والاخرین وما کان وما ھو کائن ۔
ترجمہ : اولین اور آخرین کی خبروں اور ما کان وما یکون میں سے جو کچھ آپ نہیں جانتے تھے وہ سب اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتلا دیا ۔ (جامع البیان جز ٥ ص ٣٧٣، بیروت،چشتی)

امام قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : وما تعلق عقدۃ من ملکوت السموت والارض وخلق اللہ و تعیین اسماء الحنسنی وایاتہ الکبری و امور الاخرۃ واشراط الساعۃ واحوال السعداء والاشقیاء وعلم ما کان وما یکون مما یعلمہ الا یوحی۔
(الشفاء ج ٢ ص ١٠٠، ملتان)
ترجمہ : آسمانوں اور زمینوں کی نشانیاں ، اللہ تعالیٰ کی مخلوق، اللہ تعالیٰ کے اسماء کی تعیین، آیات کبریٰ ، امور آخرت، علامات قیامت، اچھے اور برے لوگوں کے احوال اور ما کان وما یایکون کا علم اس قبل سے ہے جس کو نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم نے بغیر وحی کے نہیں جانا۔ آسمانوں اور زمینوں کی نشانیاں، اللہ تعالیٰ کی مخلوق، اللہ تعالیٰ کے اسماء کی تعیین، آیات کبریٰ ، امور آخرت، علامات قیامت، اچھے اور برے لوگوں کے احوال اور ماکان وما یکون کا علم اس قبل سے ہے جس کو نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم نے بغیر وحی کے نہیں جانا ۔

امام ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :ان علمہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) محیط بالکیات والجزئیات ۔ (المرقات ج ١٠ ص ١٥١ )
ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم کا علم کلیات اور جزئیات کو محیط ہے ۔
نیز امام ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : کون علمھا من علومہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم ان علومہ تتنوع الی الکلیات والجزئیات و حقائق ودقائق وعوارف و معارف تتعلق بالذات والصفات وعلمھا انما یکون سطرا من سطور علمہ ونھرا من بحور علمہ ثم مع ھذا ھو من برکۃ وجودہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم ۔
ترجمہ : لوح و قلم ، علوم نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم سے ایک ٹکڑا اس لیے ہے کہ حضور کے علم انواع انواع ہیں، کلیات، جزئیات، حلائق و قائق، عوارف اور معارف کہ ذات وصفات الٰہی سے متعلق ہیں اور لوح و قلم کا علم تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم کے مکتوب علم سے ایک سطر اور اس کے سمندروں سے ایک نہر ہے، پھر بایں ہمہۃ وہ حضور ہی کی برکت سے تو ہے صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم ۔ (الزبدۃ شرح قصیدہ بردہ ص ١١٦، مطبوعہ پیر جوگوٹھ، سند، ٤١٠٦ ھ)

امام ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : الشانیۃ والاربعون اطلاع علی ما سیکون الثالثۃ والا ربعون الاطلاع علی ما کان ممالم ینقلہ احد قبلہ ( فتح الباری ج ٢١ ص ٣٦٧،چشتی)
ترجمہ : نبوت کی بیالیسوں صفت یہ ہے کہ ان کو ما یکون ( امور مستقبلہ) کا علم ہو اور تینتالیسویں صفت یہ ہے کہ ان کو ماکان ( امور ماضیہ) کا علم ہو، جن کو ان سے پہلے کسی نے نہ بیان کیا ہو ۔

امام سید محمود آلوسی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : (انزلہ بعلمہ) ای متلبسا بعلمہ المحیط الذی لا یعزب عنہ مثقال ذرۃ فی السموت ولارض ومن ھنا علم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ما کان وما ھو کائن ۔ (روح المعانی ج ٦ ص ٢٢ )
ترجمہ : اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت علم کے ساتھ تجلی کر کے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم پر قرآن نازل کیا ، جس صفت علم سے آسمانوں اور زمین کا کوئی ذرہ غائب نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم نے ما کان وما یکون کو جان لیا ۔
نیز امام آلوسی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : فلم یقبض النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حتی علم کل شئی یمکن العلم بہ ۔
ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم کا اس وقت تک وصال نہیں ہوا جب تک آپ نے ہر اس چیز کو نہیں جان لیا جس کا علم ممکن ہے ۔ ( روح المعانی ج ١٥ ص ١٥٤)

ضکیم الامت دیوبند جناب اشرف علی تھانوی کے خلیفہ مجاز شیخ مرتضیٰ حسین چاند پوری لکھتے ہیں : حاصل یہ ہے کہ سرور عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم کو علم مغیبات اس قدردیا گیا تھا کہ دنیا کے تمام علوم بھی اگر ملائے جائیں تو آپ کے ایک علم کے برابر نہ ہوں ۔ ( توضیح البیان فی حفظ الایمان صفحہ نمبر ١٢)

جس طرح حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ’’اَفضل الْخَلق ‘‘ہیں اسی طرح آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ’’اَعلم ُالْخَلق ‘‘ بھی ہیں کہ تمام جن و انس اور ملائکہ کے علوم سے بڑھ کر آپکا علم ہے یہاں تک کہ حضرت علامہ بوصیری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے قصیدۂ بُردَہ میں فرمایا کہ :

فَاِنَّ مِنْ جُوْدِکَ الدُّنْیَا وَضَرَّتَھَا وَمِنْ عُلُوْمِکَ عِلْمَ اللَّوْحِ وَالْقَلَمٖ
(القصیدۃ البردۃ، الفصل العاشر فی المناجات وعرض الحال)

ترجمہ : یارسول اللہ!صلی اللہ تعالیٰ علیک وسلم دنیا اور اسکی سوکن (یعنی آخرت) یہ دونوں آپ کی سخاوت کے ثمرات میں سے ہیں اور ’’لوح و قلم کا علم ‘‘آپکے علوم کا ایک جزو ہے ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)



0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔