اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خو ف ہے نہ کچھ غم حصّہ دوم
محترم قارئینِ کرام اس آیت کریمہ کے متعلق حصّہ اوّل درسِ قرآن کے تحت آپ پڑھ چکے ہیں اب حصّہ دوم پیشِ خدمت ہے آیئے پڑھتے ہیں :
اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللہِ لَاخَوْفٌ عَلَیۡہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوۡنَ ﴿ۚۖ۶۲﴾ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَکَانُوۡا یَتَّقُوۡنَ ﴿ؕ۶۳﴾
ترجمہ : سن لو بیشک اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خو ف ہے نہ کچھ غم ۔ وہ جو ایمان لائے اور پرہیزگاری کرتے ہیں ۔ (سورہ یونس آیت نمبر 62 ، 63)
ولی کا لغوی معنی
علامہ حسین بن محمد راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٥٠٦ ھ لکھتے ہیں : ولایت کا معنی قرب ہے خواہ یہ قرب جگہ کے اعتبار سے ہو یا نسبت کے اعتبار سے یا دین کے اعتبار سے یا دوستی کے اعتبار سے یا اعتقاد کے اعتبار سے یا نصرت کے اعتبار سے۔ ولایت کا معنی کسی چیز کا انتظام کرنا بھی ہے، اور ولی بہ معنی فاعل بھی ہے یعنی منتظم اور متصرف اور مفعول کے معنی میں بھی ہے یعنی جو کسی کے زیر انتظام اور زیر تصرف ہو، مومن کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ اللہ کا ولی ہے (جیسا کہ اس آیت میں ہے، یعنی وہ اللہ کی ذات کی معرفت اور اسکے جمال اور جلال کے نور میں مستغرق رہنے کی وجہ سے اس کے قریب اور مقرب ہوچکے ہیں، اور وہ اپنے قلب اور قالب میں اپنی خواہش سے تصرف نہیں کرتے بلکہ اللہ تعالیٰ کی مرضی اور منشاء سے تصرف کرتے ہیں یا ان کے ہدایت پر قائم رہنے کا اللہ تعالیٰ متولی ہے، اور یا وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کرنے کے لیے ہر وقت اپنے اعضاء میں متولی اور متصرف رہتے ہیں) اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اللہ مومنین کا ولی ہے، قرآن مجید میں ہے : اللہ ولی الذین امنوا۔ (البقرۃ : ٢٥٧)۔(المفردات ج ٢ ص ٦٩٤، مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ، ١٤١٨ ھ)
امام ابن جریر طبری رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٣١٠ ھ اس آیت کے معنی میں لکھتے ہیں : سنو ! اللہ (کے دین) کے مدد گاروں کو آخرت میں اللہ کے عتاب کا خوف نہیں ہوگا، کیونکہ اللہ ان سے راضی ہوگیا اور اس نے ان کو اپنے عتاب سے محفوظ رکھا، اور نہ ان کو دنیا کے فوت ہوجانے کا کوئی غم ہوگا، اولیاء ولی کی جمع ہے اور ولی کا معنی ہے نصیر یعنی مدد کرنے والا ۔ (جامع البیان جز ١١ ص ١٧٠، مطبوعہ دارالفکر بیروت،١٤١٥ ھ،چشتی)
ولی کا اصطلاحی معنی علامہ مسعود بن عمر تفتازانی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٧٩٣ ھ لکھتے ہیں : ولی وہ مومن کامل ہے جو عارف باللہ ہوتا ہے دائمی عبادت کرتا ہے ، ہر قسم کے گناہوں سے مجتنب رہتا ہے، لذات اور شہوات میں انہماک سے گریز کرتا ہے ۔ (شرح المقاصد ج ٥ ص ٧٣۔ ٧٢،مطبوعہ منثورات الرضی ایران، ١٤٠٩ھ)
حافظ شہاب الدین احمد بن علی بن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٨٥٢ ھ لکھتے ہیں : ولی سے مراد وہ شخص ہے جو عالم باللہ ہو اور اخلاص کے ساتھ دائمی عبادات کرتا ہو ۔ (فتح الباری ج ١١ ص ٣٤٢، مطبوعہ لاہور، ١٤٠١ ھ، ایضًا عمدۃ القاری جز ٢٣ ص ٨٩، مطبوعہ مصر)
امام ملا علی بن سلطان محمد القاری رحمۃ اللہ علیہ المتوفی ١٠١٤ ھ لکھتے ہیں : ولی کا لفظ فعیل کے وزن پر بہ معنی مفعول ہے یعنی وہ شخص جس کے کاموں کی اللہ حفاظت کرتا ہو اور ایک لحظہ کے لیے بھی اسے اس کے نفس کے سپرد نہ کرتا ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وھو یتولی الصالحین ۔ (الاعراف : ١٩٦) اللہ نیک لوگوں کی حفاظت کرتا ہے ۔ اس معنی کے اعتبار سے ولی کو مراد (مطلوب) اور مجذوب سالک کہتے ہیں اور یا یہ لفظ فاعل کے معنی میں مبالغہ کا صیغہ ہے اور اس کا معنی یہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی اطاعت کی مسلسل حفاظت کرتا ہو اور اس کی زندگی میں کبھی گناہ شامل نہ ہو اس معنی کے اعتبار سے ولی مرید (طالب) اور سالک مجذوب ہے ، اس میں اختلاف ہے کہ ان میں سے کون افضل ہے اور حقیقت میں ہر مراد مرید ہے اور ہر مرید مراد ہے اور ان میں فرق ابتداء اور انتہاء کے اعتبار سے ہے ۔ (مرقاۃ ج ٥ ص ٥٤، مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان ١٣٩٠ ھ)
علامہ ابو الحسن علی بن محمد الماوردی رحمۃ اللہ علیہ المتوفی ٤٥٠ ھ نے ولی کی تعریف میں حسب ذیل اقوال نقل کیے ہیں : (١) یہ وہ لوگ ہیں جو تقدیر پر راضی رہتے ہیں اور مصائب پر صبر کرتے ہیں اور نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہیں۔ (٢) یہ وہ لوگ ہیں جن کے کام ہمیشہ حق کی موافقت میں ہوتے ہیں۔ (٣) یہ وہ لوگ ہیں جو محض اللہ کے لیے لوگوں سے محبت کرتے ہیں ۔ (النکت و العیون ج ٢ ص ٤٤١۔ ٤٤٠، مطبوعہ موسستہ الکتب الثقافیہ، بیروت،چشتی)
ولی کے مصداق اور ان کے فضائل کے متعلق احادیث اور آثار
امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٣١٠ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ اولیاء اللہ کون ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا : یہ وہ لوگ ہیں کہ جب یہ دکھائی دیں تو اللہ یاد آجائے۔(جامع البیان رقم الحدیث : ١٣٧٢٥، جز ١١ ص ١٧١، مطبوعہ دارالفکر بیروت ١٤١٥ ھ)
حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ کے بعض بندوں میں سے ایسے انسان ہیں جو نبی ہیں نہ شہید (لیکن) اللہ کے نزدیک ان کا مرتبہ دیکھ کر انبیاء اور شہداء بھی ان کی تحسین کریں گے۔ صحابہ نے کہا : یا رسول اللہ ! ہمیں خبر دیں وہ کون لوگ ہیں ؟ آپ نے فرمایا : یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں سے محض اللہ کی وجہ سے محبت کرتے ہیں حالانکہ وہ لوگ ان کے رشتہ دار ہوتے ہیں نہ ان کو ان سے کوئی مالی فائدہ حاصل ہوتا ہے اللہ کی قسم ان کے چہرے منور ہوں گے اور بیشک وہ نور پر فائز ہوں گے (بعض روایات میں ہے وہ نور کے منبر پر ہوں گے) اور جب لوگ خوف زدہ ہوں گے تو انہیں خوف نہیں ہوگا اور جب لوگ غم زدہ ہوں گے تو انہیں غم نہیں ہوگا پھر آپ نے اس آیت کو پڑھا : الا ان اولیاء اللہ لا خوف علیھم ولا ھم یحزنون ۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ٣٥٢٨)(حلیتہ الاولیاء، ج ١ ص ٣٦، طبع جدید، ج ١ ص ٥ طبع قدیم)(شعب الایمان رقم الحدیث : ٨٩٩٨،چشتی)(الترغیب و الترہیب ج ٤ ص ٢١)(مشکوٰۃ رقم الحدیث : ٣۔ ٥٠١٢)(اتحاف السادۃ المنتقین ج ٦ ص ١٧٥)(سنن الترمذی مختصر رقم الحدیث : ٢٣٩٠)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیشک اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے : جس شخص نے میرے ولی سے عداوت رکھی میں اس سے اعلان جنگ کردیتا ہوں، جس چیز سے بھی بندہ میرا تقرب حاصل کرتا ہے اس میں سب سے زیادہ محبوب مجھے وہ عبادت ہے جو میں نے اس پر فرض کی ہے اور میرا بندہ ہمیشہ نوفل سے میرا تقرب کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ میں اس کو اپنا محبوب بنا لیتا ہوں اور جب میں اس کو اپنا محبوب بنا لیتا ہوں تو میں اس کے کان ہوجاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے اور میں اس کی آنکھیں ہوجاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے، میں اس کے ہاتھ ہوجاتا ہوں جن سے وہ پکڑتا ہے اور اس کے پیر ہوجاتا ہوں جن سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے سوال کرے تو میں اس کو ضرور عطا کرتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے پناہ طلب کرے تو میں اس کو ضرور بنا دیتا ہوں اور میں جس کام کو بھی کرنے والا ہوں کسی کام میں اتنا تردد (اتنی تاخیر) نہیں کرتا جتنا تردد (جتنی تاخیر) میں مومن کی روح قبض کرنے میں کرتا ہوں۔ وہ موت کو ناپسند کرتا ہے اور میں اسے رنجیدہ کرنے کو ناپسند کرتا ہوں ۔(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٥٠٢)(حلیتہ الاولیاء ج ١ ص ١٥، طبع جدید)(صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٣٤٧)(السنن الکبریٰ للبیہقی ج ٣ ص ٣٤٦، ج ١٠ ص ٢١٩)(کتاب الاسماء والصفات للبیہقی ص ٤٩١)(صفوۃ الصفوۃ ج ١ ص ١٥)(مشکوٰۃ رقم الحدیث : ٢٢٦٦)(کنزالعمال رقم الحدیث : ٢١٣٢٧)
امامابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٨٥٢ ھ اور حافظ محمود بن احمد عینی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٨٥٥ ھ نے لکھا ہے کہ عبدالواحد کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ میں اس کا دل ہوجاتا ہوں جس سے وہ سوچتا ہے اور میں اس کی زبان ہوجاتا ہوں جس سے وہ کلام کرتا ہے ۔ (فتح الباری ج ١١ ص ٣٤٤، مطبوعہ لاہور، عمدۃ القاری جز ٢٢ ص ٩٠، مطبوعہ مصر)
اللہ اپنے محبوب بندے کے کان اور آنکھیں ہوجاتا ہے اس کی توجیہ اللہ تعالیٰ بندہ کے کان اور آنکھیں ہوجاتا ہے اس کی کیا توجیہ ہے ؟ عام طور پر شارحین اور علماء نے یہ کہا ہے کہ بندہ اپنے کانوں سے وہی سنتا ہے جس کے سننے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور پانی آنکھوں سے وہی دیکھتا ہے جس کے دیکھنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے تو بندہ کا سننا ، اللہ کا سننا اور بندہ کا دیکھنا ہوتا ہے ، اس لیے فرمایا : میں اس کے کان ہوجاتا ہوں اور اس کی آنکھیں ہوجاتا ہوں لیکن اس پر یہ اعتراض ہے کہ کوئی بندہ اس وقت تک اللہ تعالیٰ کا محبوب نہیں بنے گا جب تک کہ اس کا سننا، اس کا دیکھنا ، اس کا تصرف کرنا اور اس کا چلنا اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق نہ ہو اور جب اللہ اس کو اپنا محبوب بنا لے گا تو پھر اس کے کان ہوجاتا ہے اور اس کی آنکھیں ہوجاتا ہے کا معنی یہ نہیں ہوسکتا۔ اس حدیث کی بہترین توجیہ امام رازی نے کی ہے وہ فرماتے ہیں : بندہ جب عبادت پر دوام کرتا ہے تو وہ اس مقام پر پہنچ جاتا ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا : میں اس کی آنکھ ہوجاتا ہوں اور اس کے کان ہوجاتا ہوں پس جب اللہ کا نور جلال اس کے کان ہوجاتا ہے تو وہ قریب اور دور سے سن لیتا ہے اور جب اس کا نور جلال اس کی آنکھ ہوجاتا ہے تو وہ قریب اور بعید کو دیکھ لیتا ہے اور جب اس کا نور اس کے ہاتھ ہوجاتا ہے تو وہ مشکل اور آسان چیزوں پر اور قریب اور بعید کی چیزوں کے تصرف پر قادر ہوجاتا ہے ۔ (تفسیر کبیر ج ٧ ص ٤٣٦، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ١٤١٥ ھ)
خلاصہ یہ ہے کہ اللہ کا ولی فراٌص پر دوام اور نوافل پر پابندی کرنے سے اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر ہوجاتا ہے لیکن بندہ، بندہ ہی رہتا ہے خدا نہیں ہوجاتا جیسے آئینہ میں کسی چیز کا عکس ہو تو آئینہ و چیز نہیں بن جاتا اس کی صورت کا مظہر ہوجاتا ہے بلاتشبیھ تمثیل جب بندہ کامل کی اپنی صفات فنا ہوجاتی ہیں تو وہ اللہ کی صفات کا مظہر ہوجاتا ہے ۔
علامہ انور شاہ کشمیری دیوبندی متوفی ١٣٥٢ ھ لکھتے ہیں : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : فلما اتھانودی من شاطئی الوادالایمن فی البقعۃ المبارکۃ من الشجرۃ ان تموسی انی انا اللہ رب العلمین ۔ (سورہ القصص : ٣٠) پھر جب موسیٰ آگ کے پاس آئے تو انہیں میدان کے داہنے کنارے سے برکت والے مقام میں ایک درخت سے ندا کی گئی کہ اے موسیٰ بیشک میں ہی اللہ ہوں تمام جہانوں کا پروردگار ۔ دکھائی یہ دے رہا تھا کہ درخت کلام کر رہا ہے پھر اللہ تعالیٰ نے اس کلام کی اپنی طرف نسبت فرمائی کیونکہ اللہ جل مجدہ نے اس درخت میں تجلی فرمائی تھی اور اللہ تعالیٰ کی معرفت کے لیے وہ درخت واسطہ بن گیا تھا تو جس میں تجلی کی گئی تھی اس نے تجلی کرنے والے کا حکم لے لیا اور ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ تجلی میں صرف صورت نظر آتی ہے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ضرورت کی وجہ سے آگ میں (یا درخت میں) تجلی فرمائی تھی اور جب تم نے تجلی کا معنی سمجھ لیا تو سنو جب درخت کیلیے یہ جائز ہے کہ اس میں یہ ندا کی جائے کہ بیشک میں اللہ ہوں تو جو نوافل کے ذریعہ اللہ کا قرب حاصل کرتا ہے وہ اللہ کی سمع اور بصر کیوں نہیں ہوسکتا وہ ابن آدم جو صورت رحمن پر پیدا کیا گیا ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے درخت سے کم تو نہیں ہے (یعنی جب شجر موسیٰ اللہ تعالیٰ کی صفت کلام کا مظہر ہوسکتا ہے تو سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کا ولی جو اللہ کا محبوب ہوجائے وہ اللہ کی صفت سمع اور بصر کا مظہر کیوں نہیں ہوسکتا)۔(فیض الباری ج ٤ ص ٤٢٩، مطبوعہ مجلس علمی ہند ١٣٥٧ ھ،چشتی)
اللہ تعالیٰ کے تردد کرنے کی توجیہ اس حدیث کے آخر میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : میں جس کام کو بھی کرنے والا ہوں کسی کام میں اتنا تردد (اتنی تاخیر) نہیں کرتا جتنا تردد (جتنی تاخیر) میں مومن کی روح قبض کرنے میں کرتا ہوں ۔ وہ موت کو ناپسند کرتا ہے اور میں اس کے رنجیدہ ہونے کو ناپسند کرتا ہوں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ اپنے ولی کی روح اس وقت تک قبض نہیں کرتا جب تک کہ وہ اپنی موت پر راضی نہ ہوجائے ۔
امام ابوبکر احمد بن حسین بیہقی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں : اللہ تعالیٰ کی صفت میں تردد جائز نہیں ہے اور نہ ہی بداء جائز ہے ۔ (ابداء کا معنی یہ اللہ کوئی کام کرے پھر اس کو اس کام میں کسی خرابی کا علم ہو تو وہ اس کام کو تبدیل کر دے اس لیے ہم نے یہاں تردد کا معنی تاخیر کیا ہے) لہٰذا اس کی دو تاویلیں ہیں :
(1) انسان اپنی زندگی میں کسی بیماری یا کسی آفت کی وجہ سے کئی مرتبہ ہلاکت کے قریب پہنچ جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے شفا کی اور اس مصیبت کو دور کرنے کی دعا کرتا ہے تو اللہ عزوجل اس کو اس بیماری سے شفا عطا فرماتا ہے اور اس کی مصیبت کو دور کردیتا ہے اور اس کا یہ فعل اس طرح ہوتا ہے جیسے ایک آدمی کو تردد ہوتا ہے وہ پہلے ایک کام کرتا ہے پھر اسے اس کام میں کوئی خرابی نظر آتی ہے اس پر لازماً موت آتی ہے۔ ایک اور حدیث میں ہے : دعا مصیبت کو ٹال دیتی ہے اس کا بھی یہی معنی ہے ۔ حصرت سلمان رضی الل9ہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تقدیر کو صرف دعا بدل دیتی ہے اور عمر صرف نیکی سے دعا ہوتی ہے ۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢١٣٩)(المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٦١٢٨)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عمر صرف خیر سے زیادہ ہوتی ہے ۔ (مسند احمد ج ٣ ص ٣١٦) (٢)
(2) اس کی دوسری تاویل یہ ہے کہ میں جس کام کو کرنے والا ہوں میں اس کام کے متعلق اپنے رسولوں (فرشتوں) کو کسی صورت میں واپس نہیں کرتا جیسا کہ میں بندہ مومن کی روح قبض کرنے کے معاملہ میں اپنے رسولوں (فرشتوں) کو واپس کرلیتا ہوں جیسا کہ حضرت موسیٰ اور حضرت ملک الموت علیہما السلام کے واقعہ میں ہے اور حضرت موسیٰ نے تھپڑ مار کر ملک الموت کی آنکھ نکال دی تھی اور ملک الموت ایک بار واپس لوٹنے کے بعد دوبارہ ان کے پاس گیا تھا اور ان دونوں تاویلوں میں اللہ تعالیٰ کا اپنے بندہ پر لطف و کرم اور اس پر اس کی شفقت کا اظہار ہے۔ حضرت موسیٰ اور حضرت ملک الموت کے واقعہ کی تفصیل اس حدیث میں ہے : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ملک الموت کو حضرت موسیٰ علیہما السلام کی طرف بھیجا گیا جب ان کے پاس ملک الموت آیا تو حضرت موسیٰ نے ان کے تھپڑ مارا ۔ (مسلم کی روایت میں ہے : س ان کی آنکھ نکال دی) ملک الموت اپنے رب کے پاس لوٹ گئے اور کہا تو نے مجھے ایسے بندہ کی طرف بھیجا ہے جو مرنے کا ارادہ ہی نہیں کرتا ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی آنکھ لوٹا دی اور فرمایا : دوبارہ جائو اور ان سے کہو کہ اپنا ہاتھ بیل کی پشت پر رکھ دیں ، آپ کے ہاتھ کے نیچے جتنے بال آئیں گے ہر بال کے بدلہ میں آپ کی عمر میں ایک سال بڑھا دیا جائے گا ۔ حضرت موسیٰ نے کہا : اے رب ! پھر کیا ہوگا ؟ فرمایا : پھر موت ہے ۔ حضرت موسیٰ نے کہا : پھر اب ہی موت آجائے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ وہ ان کو ارض مقدسہ کے اتنے قریب کر دے جتنے قریب ایک پتھر پیھنکینے کا فاصلہ ہوتا ہے ۔ حضرت ابوہریرہ نے کہا، رسول اللہ نے فرمایا : اگر میں اس جگہ ہوتا تو تم کو حضرت موسیٰ کی قبر دکھاتا جو کثیب احمر (سرخ ریت کے ٹیلہ) کے پاس راستہ کے ایک جانب ہے ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٣٣٩)(صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٣٧٢،چشتی)(سنن النسائی رقم الحدیث : ٢٠٨٩)(مسند احمد ج ٣ ص ٣١٥)(کتاب الاسماء و الصفات ص ٤٩٣، ٤٩٢، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت)
ولی کے فضائل کے متعلق مزید احادیث
زید بن اسلم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دن حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مسجد میں گئے وہاں دیکھا کہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مبارک کے پاس بیٹھے ہوئے رو رہے تھے ۔ انہوں نے کہا تم کس وجہ سے رو رہے ہو ؟ حضرت معاذ نے کہا میں اس وجہ سے رو رہا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تھوڑا سا ریا بھی شرک ہے اور بیشک جس شخص نے بھی میرے ولی سے عداوت رکھی اس نے اللہ سے اعلان جنگ کردیا بیشک ان نیک متقی بندوں سے محبت کرتا ہے جو چھپے رہتے ہیں اگر وہ غائب ہوں تو ان کو تلاش نہیں کیا جاتا اور اگر وہ حاضر ہوں تو ان کو بلایا نہیں جاتا، نہ پہچانا جاتا ہے ان کے دل ہدایت کے چراغ ہیں وہ ہر غبار آلود اندھیروں سے نکل آتے ہیں ۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٩٨٩)(المعجم الکبیر ج ٢٠ رقم الحدیث : ٣٢١، ص ١٥٤)(حلیتہ الاولیاء رقم الحدیث : ٣، طبع جدید)(اتحاف السادۃ المتقین ج ٨ ص ٢٦٤، ٢٦٣)
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس نے میرے ولی کو ایذاء پہنچائی ، اس سے میری جنگ حلال ہوگئی ۔ (حلیتہ الاولیاء رقم الحدیث : ٢، ص ٣٥، اتحاف السادۃ المتقین ج ٨ ص ٤٧٧)
حضرت عمرو بن الجمع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : میرے اولیاء میرے بندے اور میرے محبوب ہیں، یہ میری مخلوق میں سے وہ لوگ ہیں جو میرا ذکر کرتے ہیں اور میں ان کا ذکر کرتا ہوں ۔ (مسند احمد ج ٣ ص ٤٣٠، حلیتہ الاولیاء رقم الحدیث : ٥)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ کتنے لوگ ہیں جن کے بال بکھرے ہوئے غبار آلود ہوتے ہیں وہ دو بوسیدہ چادریں پہنے ہوئے ہوتے ہیں ان کی طرف توجہ نہیں کی جاتی ۔ وہ اگر اللہ پر (کسی کام کے کرنے کی) قسم کھائی تو اللہ ان کی قسم سچی کردے گا ان میں سے براء بن مالک ہیں ۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٨٥٤)(مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ٣٩٨٧،چشتی)(مسند احمد ج ٣ ص ١٤٥)(المستدرک ج ٣ ص ٣٩١)(الجامع الصغیر رقم الحدیث : ٤٤٠١)(حلیتہ الاولیاء رقم الحدیث : ١٠)(کنز العمال رقم الحدیث : ٢٩٢٥)(الکامل لا بن عدی ج ٣ ص ٧٥، مطبوعہ ١٤١٨ ھ)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ جب کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبرئیل علیہ السّلام کو بلا کر فرماتا ہے میں فلاں سے محبت کرتا ہوں تم اس سے محبت کرو ، پس اس سے جبرئیل علیہ السّلام محبت کرتا ہے پھر وہ آسمان میں ندا کرتا ہے کہ اللہ فلاں سے محبت کرتا ہے تم بھی اس سے محبت کرو ، پس آسمان والے اس سے محبت کرتے ہیں ، پھر زمین میں اس کے لیے مقبولیت رکھ دی جاتی ہے اور جب وہ کسی بندے سے بغض کرتا ہے تو جبرئیل علیہ السّلام کو بلا کر فرماتا ہے میں فلاں سے بغض رکھتا ہوں تم اس سے بغض رکھو ۔ پھر جبرئیل علیہ السّلام اس سے بغض رکھتے ہیں پھر زمین میں اس کے لیے بغض رکھ دیا جاتا ہے ۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٦٣٧)(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٧٤٨٥)(مسند احمد ج ٢ ص ٤١٣، مسند احمد رقم الحدیث : ٩٣٢٣، دارالحدیث قاہرہ، رقم الحدیث : ٧٦١٤، عالم الکتب بیروت)(سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣١٦١)(کنز العمال رقم الحدیث : ٣٠٧٧٠، مشکوٰۃ رقم الحدیث : ٥٠٠٥)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment