منافقین کل بھی رسوا ہوئے اور آج بھی رسوا ہوتے ہیں
محترم قارئینِ کرام : منافقین علمِ غیب نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کا انکارکرتے ، علمِ نبی صلی اللہ علیہ وسلّم پر تنقید کرتے تھے اُن منافقین کی رسوائی اس طرح ہوئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے ہر منافق کا نام لے کر اس کو مسجد سے نکال دیا ۔ آیئے پہلے ان منافقین کے انکار و طعن کے متعلق پڑھتے ہیں پھر اُن کی رسوائی کے متعلق :
ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَلَئِنۡ سَاَلْتَہُمْ لَیَقُوۡلُنَّ اِنَّمَاکُنَّا نَخُوۡضُ وَنَلْعَبُ ؕ قُلْ اَبِاللہِ وَاٰیٰتِہٖ وَرَسُوۡلِہٖ کُنۡتُمْ تَسْتَہۡزِءُوۡنَ ۔ (سورہ توبہ آیت نمبر 65)
ترجمہ : اور اے محبوب (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) اگرآپ ان سے پوچھیں تو کہیں گے کہ ہم تو صرف ہنسی کھیل کررہے تھے ۔ تم فرماؤ : کیا تم اللہ اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنسی مذاق کرتے ہو ۔
امام المفسرین امام مجاهد رحمۃ اللہ علیہ (وفات 104 هجری ) اس آیت : ولئن سألتهم ليقولن إنما كنا نخوض ونلعب ۔ (سورہ توبہ آیت نمبر 65) کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ایک منافق نے کہا محمّد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہمیں یہ حدیث سناتے ہیں کہ فلاں شخص کی اونٹنی فلاں فلاں وادی میں ہے بهلا وہ (محمّد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) غیب کی باتیں کیا جانیں ۔ (تفسير ابن أبی حاتم جلد نمبر 6 صفحہ نمبر 1830)
اِنَّمَاکُنَّا نَخُوۡضُ وَنَلْعَبُ : ہم تو صرف ہنسی کھیل کررہے تھے ۔ اس آیت کا ایک شانِ نزول یہ ہے کہ غزوۂ تبوک میں جاتے ہوئے منافقین کے تین گروپوں میں سے دو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بارے میں مذاق اڑاتے ہوئے کہتے تھے کہ ان کا خیال ہے کہ یہ روم پر غالب آجائیں گے ، کتنا بعید خیال ہے اور ایک گروپ بولتا تو نہ تھا مگر ان باتوں کو سن کر ہنستا تھا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ان کو طلب فرما کر ارشاد فرمایا کہ تم ایسا ایسا کہہ رہے تھے ؟ انہوں نے کہا : ہم راستہ طے کرنے کے لئے ہنسی کھیل کے طور پر دل لگی کی باتیں کر رہے تھے اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی ۔ دوسرا شانِ نزول یہ ہے کہ کسی کی اونٹنی گم ہوگئی ، اس کی تلاش تھی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا او نٹنی فلاں جنگل میں فلاں جگہ ہے اس پر ایک منافق بولا ’’محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) بتاتے ہیں کہ اونٹنی فلاں جگہ ہے ، محمد غیب کیا جانیں ؟ اس پراللہ عَزَّوَجَلَّ نے یہ آیتِ کریمہ اتاری ۔ (تفسیر مدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۶۵، ص۴۴۳) (تفسیر در منثور، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۶۵، ۴/۲۳۰،چشتی)
اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا
(1) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اللہ تعالیٰ نے غیب کا علم دیا کہ جو تنہائی میں باتیں کی جائیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو ان کی خبر ہے ۔
(2) کفر کی باتیں سن کر رضا کے طور پر خاموش رہنا یا ہنسنا بھی کفر ہے ۔ کیونکہ رضا بِالْکُفر کفر ہے ۔
(3) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تَوہین اللہ تعالیٰ کی توہین ہے کیونکہ ان منافقوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی توہین کی تھی مگر فرمایا ’’ اَبِاللہِ وَاٰیٰتِہٖ وَرَسُوۡلِہٖ‘‘ یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا مذاق اڑانا اللہ تعالیٰ اور اس کی تمام آیتوں کا مذاق اڑانا ہے ۔ لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تعظیم اللہ تعالیٰ کی تعظیم ہے ۔
محترم قارئین : منافقین کا ایک گھناؤنا وطیرہ یہ تھا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے علم مبارک پر طعن کرتے اور یہ کہتے دیکھو یہ نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) آسمانی خبریں دیتا ہے مگر اونٹنی کے بارے میں نہیں جانتا ۔ غزوہ تبوک کے سفر کے دوران ایک مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے آرام فرمایا ۔ صبح کے وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اونٹنی گم ہوگئی صحابہ رضی اللہ عنہم تلاش میں نکلے وہاں ایک شخص زید بن الصیت تھا جو پہلے یہودی تھا بظاہر اسلام لایا مگر منافق تھا اس نے یہ کہنا شروع کردیا : محمد یزعم انہ نبی و ھو یخبرکم عن خبرالسماء وھو لایدری این ناقتہ ؟
ترجمہ : محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا دعویٰ ہے میں نبی ہوں اور وہ تمہیں آسمانی خبریں دیتا ہے حالانکہ وہ نہیں جانتا کہ اسکی اونٹنی کہاں ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا اللہ کی قسم میں وہی جانتا ہوں جو مجھے میرا اللہ بتاتا ہے ۔ یعنی میں ذاتی طور پر کچھ نہیں جانتا مجھے اللہ تعالیٰ ہی بتاتا ہے ۔ میرے رب نے مجھے اونٹنی کے بارے میں آگاہ فرمایا ہے وہ فلاں جگہ ہے اور اس کی نکیل درخت کے ساتھ پھنس گئی ہے ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھیجا اور وہاں سے اسے لے آئے ۔ (بحوالہ سبل الھدیٰ والرشاد، 5، 449،چشتی)
یہ واقعہ احادیث اور تاریخ کی متعدد کتب میں آیا ہے ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے علوم و غیوب بعطائے الہٰی پر شک کرنا اور ان کا طعن و تمسخر اڑانا صرف منافقین کا شیوہ تھا اور ہے ۔ اور آج بھی اگر کوئی علم نبوت کا انکار کرتا ہے تو وہ انہیں منافقین کی پیروی کرتا ہے جن کا ذکر احادیث میں بیان ہوچکا ۔
علم نبوی پر طعن کے ساتھ ساتھ اسکا مذاق اڑاتے
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے (یا ایھا الذین امنوا لاتسئلوا عن اشیاء) کے تحت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا : کان قزم یسئالون رسول اللہ علیہ السلام استھزا فیقول الرجل من ابی و یقول الرجل تضل ناقتہ این ناقتی فانزل اللہ فیھم ھذہ الایۃ ۔
ترجمہ : کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے بطور تمسخر و مذاق سوالات کرتے ہوئے پوچھتے بتائیں میرا والد کون ہے ؟ اونٹنی گمشدہ کے بارے میں پوچھتے میری اونٹنی کہاں ہے ؟ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی ۔ (صحیح بخاری، کتاب التفسیر،چشتی)
جبکہ بعض اوقات حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم منبر پر تشریف فرما ہوکر اعلان فرماتے کسی نے جو پوچھنا ہے مجھ سے پوچھ لے ۔
فواللہ لا تسالونی عن شئی الا اخبرتکم بہ ما دمت فی مقامی ھذا ۔ یعنی ۔ اللہ کی قسم تم جو بھی مجھ سے پوچھو گے میں اسی مقام پر کھڑے کھڑے بتاؤں گا۔
بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بار بار یہ اعلان فرماتے : سلونی سلونی ۔ مجھ سے پوچھو مجھ سے پوچھ لو ۔ (بحوالہ بخاری 2/183)
اسی طرح امام بدرالدین عینی الحنفی رحمۃ اللہ علیہ شارح بخاری شیخ مہلب کے حوالہ سے آپ کے خطبہ ، اعلان ، اور ناراضگی کا سبب ان الفاظ میں لکھتے ہیں : لانہ بلغہ ان قوماً من المنافقین یسالون منہ ویعجزونہ عن بعض مایسالونہ فتغیظ وقال لاتسالونی عن شئی الا اخبرتکم بہ ۔
ترجمہ : کچھ منافقین کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اطلاع ملی کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے سوالات کیئے اور کہا یہ ہمارے سوالات کا جواب دینے سے عاجز ہیں ، اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ناراض ہوئے اور برسر منبر تشریف لاکر اعلان فرمایا مجھ سے پوچھو ، جو تم پوچھو گے میں اس کا جواب دوں گا ۔ (عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری جلد 5 /27،چشتی)
یعنی منافقین کہتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہمارے سوالوں کے جواب نہیں دے سکتے اس طرح وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وسیع علم پر طنز کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ علم غیب کی بنا پر اعلان فرمایا کہ آؤ جو پوچھنا ہے مجھ سے پوچھ لو ۔
ان کے نزدیک بھی شیطان کا علم (معاذاللہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے علم سے زیادہ ہے اور یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو تو دیوار کے پیچھے کا بھی علم نہیں (بحوالہ تفویۃ الایمان ، صراط مستقیم براھین قاطعہ وغیرہ) ۔ لہٰذا آپ خود فرق تلاش کریں کہ ماضی کے منکرین اور حال کے منکرین میں کیا فرق رہا ؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا نام بنام منافقین کو مسجد سے نکالنا
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے سورہ توبہ آیت نمبر 101 کی تفسیر میں کرتے ہوئے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم جمعہ کے دن خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا : اے فلاں ! تو نکل جا تو منافق ہے ۔ اے فلاں ! تو نکل جا تو منافق ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے منافقوں کا نام لے لے کر ان کو مسجد سے نکال دیا اور ان کو رسوا کر دیا ۔ اس دن کسی کام کی وجہ سے اس وقت تک حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسجد میں نہیں پہنچے تھے ۔ جس وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ آئے تو وہ مسجد سے نکل رہے تھے ۔ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے چھپ رہے تھے ۔ ان کا گمان تھا کہ حضت عمر رضی اللہ عنہ کو حقیقتِ واقعہ کا پتا چل گیا ہے ۔ ایک شخص نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا : آپ کو خوشخبری ہو ۔ اللہ تعالیٰ نے آج منافقین کو رسوا کردیا ۔ یہ ان پر عذاب اوّل تھا اور عذاب ثانی عذاب قبر ہے ۔ (المعجم الاوسط ج ١ ص ٤٤٢، رقم الحدیث : ٧٩٦،چشتی)،(مجمع الزوائد ج ٧ ص ٣٣) ، (الکافی الشاف فی تخریج احادیث الکشاف ج ٢ ص ٣٠٦)
ان مفسرین کرام نے اس حدیث کا ذکر کیا ہے ۔ ان میں سے بعض نے اس کو اپنی سند کے ساتھ روایت کیا ہے : (١) امام ابن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ (جامع البیان جز ١١ ص ١٥) ۔ (٢) امام ابن ابی حاتم متوفی ٣٢٧ ھ، (تفسیر القرآن ج ٦ ص ١٨٧٠) ۔ (٣) امام ابواللیث سمر قندی متوفی ٣٧٥ ھ، (تفسیر سمرقندی ج ٢ ص ٧١) ۔ (٤) علامہ ابوالحسن الواحدی المتوفی ٤٦٨ ھ، (الوسیط ج ٢ ص ٥٢١ ) ۔ (٥) امام حسین بن مسعود بغوی متوفی ٥٣٨ ھ، (معالم التنزیل ج ٢ ص ٢٧٢) ۔ (٦) علامہ محمود بن عمر زمحشری متوفی ٥٣٨ ھ، (الکشاف ج ٢ ص ٢٩١) ۔ (٧) قاضی ابن عطیہ اندلسی متوفی ٥٤٦ ھ، (المحرر الوجیز ج ٨ ص ٢٦٢ ) ۔ (٨) امام عبدالرحمن جوزی متوفی ٥٩٧ ھ، (زادالمسیر ج ٣ ص ٤٩٢) ۔ (٩) امام فخر الدین رازیمتوفی ٦٠٦ ھ، ( تفسیر کبیر ج ٦ ص ١٣١) ۔ (١٠) علامہ علاء الدین خازن متوفی ٧٢٥ ھ، (لباب التاویل ج ٢ ص ٢٩١) ۔ (١١) علامہ نظام الدین نیشاپوری متوفی ٧٢٨ ھ، (غرائب القرآن ج ٣ ص ٥٢٤ ) ۔ (١٢) علامہ ابوالحیان اندلسی متوفی ٧٥٤ ھ، (البحر المحیط ج ٥ ص ٤٩٧) ۔ (١٣) حافظ ابن کثیر دمشقی متوفی ٧٧٤ ھ (تفسیر القرآن ج ٢ ص ٤٩٧) ۔ (١٤) علامہ ابو حجص عمر دمشقی متوفی ٨٨٠ ھ، (اللباب فی علوم الکتاب ج ١٠ ص ١٩٠) ۔ (١٥) حافظ جلال الدین سیوطی متوفی ٩١١ ھ، (الدرالمنثور ج ٤ ص ٢٧٣) ۔ (١٦) قاضی ابوالسعود متوفی ٩٨٢ ھ، (تفسیر ابوالسعود ج ٣ ص ١٨٦) ۔ (١٧) قاضی محمد شوکانی متوفی ١٢٥٠ ھ، (فتح القدیر ج ٢ ص ٥٦٧ ) ۔ (١٨) علامہ سید محمود آلوسی متوفی ١٢٧٠ ھ، (روح المعانی ج ١١ ص ١١) ۔ (١٩) نواب صدیق حسن خان بھوپالی متوفی ١٣٠٧ ھ، (فتح البیان ج ٥ ص ٢٨٦) ۔ (٢٠) صدرالافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی متوفی ١٣٦٧ ھ، (خزائن العرفان ص ٣٢٥ ) ۔ (٢١) علامہ شبیر احمد عثمانی دیوبندی متوفی ١٣٦٩ ھ، تفسیرِ عثامنی برحاشیہ قرآن ص ٢٦٢)
بعض علماء دیوبند اس حدیث کا انکار کرتے ہیں ۔ اس لیے ہم نے متعدد حوالہ جات ذکر کیے ہیں جنہوں نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے ۔ حافظ ابن کثیر نے بھی منافقین کے علم کے متعلق دو حدیثیں ذکر کی ہیں : امام احمد کی سند کے ساتھ ذکر کرتے ہیں کہ حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے کہا : میں نے عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ ہمیں مکہ کی عبادت کا کوئی اجر نہیں ملے گا ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم کو تمہاری عبادتوں کے اجور ملیں گے خواہ تم لومڑی کے سوراخ میں ہو ۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب اپنا سر کرکے کان لگا کر سنا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے اصحاب میں منافقین بھی ہیں ۔ اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بعض منافقین منکشف ہوگئے تھے اور وہ لوگ جو بے پر کی افواہیں اڑاتے تھے ۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو چودہ ، پندرہ معین منافقوں کا علم عطا فرمایا تھا اور یہ تخصیص اس کا تقاضا نہیں کرتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام منافقوں کے اسماء پر شخصی طور پر مطلع نہ ہوں ۔ اور امام ابن عساکر نے اپنی سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ ایک شخص جس کا نام حرملہ تھا وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا : ایمان یہاں ہے اور اس نے اپنے ہاتھ سے اپنی زبان کی طرف اشارہ کیا ۔ اور نفاق یہاں ہے ۔ یہ کہہ کر اس نے اپنے دل کی طرف اشارہ کیا اور اس نے اللہ کا ذکر بہت کم کیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے لیے دعا کی : اے اللہ ! اس کی زبان کو ذکر کرنے والا بنا دے ۔ اور دل کو شکر کرنے والا بنا دے اور اس کو میری محبت عطا فرما اور جو مجھ سے محبت کرتے ہیں ان کی محبت عطا فرما ، اور اس کا معاملہ خیر کی طرف کر دے ۔ اس نے کہا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میں منافقوں کا سردار تھا۔ کیا میں ان کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لائوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو ہمارے پاس آئے گا ہم اس کے حق میں استغفار کریں گے اور جو اصرار کرے گا تو اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے ، اور تم کسی کا پردہ فاش نہ کرنا ۔ ( تفسیر ابن کثیر ج ٤ ص ٤٣٠، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤١٩ ھ)
غور کیجیئے کہ آج کے دور کےمنافقین و خوارج اور ان سب کے ماننے والوں کا بھی لاعلمی یا پھر منافقت سے ویسا ہی عقیدہ ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے دور میں منافقین تھے جو کہ انکارِ علم نبوی کرتے تھے ۔ وہ اس دور میں کھلم کھلا انکار کرتے تھے ۔ اور انہوں نے مسلمانوں کا لباس پہنا ہوتا تھا نام رکھے ہوتے تھے اور آجکل یہ لوگ ہیں جنہوں نے دین میں بگاڑ ڈالا اور خوارج اسی لیئے کہلائے کہ امتِ مسلمہ سے ہٹ کر انہوں نے ایسی چیزوں کا انکار کیا اور توہینِ نبوی کے مرتکب ہوئے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment