مسجد کی محراب کے متعلق شرعی حکم
محترم قارئینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : اِذْ تَسَوَّرُوا الْمِحْرَابَۙ ۔ ُسورہ ص آیت نمبر 21)
ترجمہ : جب وہ دیوار کود کر (حضرت داؤد علیہ السلام کے پاس کی) مسجد میں آئے ۔
اِذْ : جب تَسَوَّرُوا : وہ دیوار پھاند کر آئے ، الْمِحْرَابَ : محراب (مسجد)
مشکل الفاظ کے معانی
ص ٓ: ٢١ میں ” نبوء “ کا لفظ ہے، اس کا معنی ہے خبر، اس کے بعد ” الخصم “ کا لفظ ہے ، اس کا معنی ہے جھگڑنے والا، اس کا استعمال واحد ، تثنیہ، جمع ، مذکر ، مؤنث سب کے لئے ہوتا ہے ۔ اس کے بعد ” تسسوروا “ کا لفظ ہے ، اس کا معنی ہے : انہوں نے دیوار کو پھاند، تسور کا معنی ہے دیوار پر چڑھنا اور بلندی سے کودنا، اس کے بعد ” محراب “ کا لفظ ہے ، محرات کا معنی ہے گھر یا مجلس کا صدر مقام، سب سے بلند اور مقام جگہ ۔ حرب کا معنی ہے جنگ کرنا سو محراب کا معنی ہے جنگ کرنے کی جگہ، مسجد اور عبادت کی جگہ کو محراب کہتے ہیں کیونکہ وہاں انسان اپنے نفس اور شیطان سے جنگ کرتا ہے یا اس لئے کہ وہاں انسان دنیا کے مشاغل اور افکار پریشان سے منقطع ہو کر یکسوئی کے ساتھ یاد الٰہی میں بیٹھ جاتا ہے، بالاخ ، انہ اور چوبارہ کو بھی محراب کہتے ہیں ۔
محراب مسجد کی تحقیق‘‘ میں علامہ ابن منظور افریقی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : المحراب صدر البيت واکرم موضع فيه. والجمع المحاريب وهو ايضا الغرفة ۔
ترجمہ : مکان کے سامنے کا حصہ ۔ مکان میں سب سے زیادہ عزت کا مقام ۔ جمع محاریب ۔ کمرہ ۔
والمحراب عند العامة الذی يقيمه الناس اليوم مقام الامام فی المسجد ۔
ترجمہ : عام علماء کے نزدیک وہ جگہ ہے جسے آج کل لوگ امام مسجد کے کھڑے ہونے کی جگہ بناتے ہیں ۔ قرآن کریم میں ہے : اِذْ تَسَوَّرُوا الْمِحْرَابَۙ ۔ (سورہ ص آیت نمبر 21)
ترجمہ : جب وہ دیوار کود کر (حضرت داؤد علیہ السلام کے پاس کی) مسجد میں آئے ۔
قال الزجاج. . . المحراب ارفع بيت فی الدار وارفع مکان فی المسجد. . . والمحراب ههنا کالغرفة.
ترجمہ : حویلی میں سب سے زیادہ اونچا مکان۔ مسجد میں اونچی جگہ،۔ ۔ ۔ یہاں محراب کمرے کے معنی میں ہے ۔
المحراب القبلة ومحراب المسجد ايضا صدره واشرف موضع فيه. ومحاريب بنی اسرائيل مساجدهم التی کانوا يجلسون فيها. . . يجتمعون فيها للصلوة.
ترجمہ : ٍمحراب قبلہ ہے، مسجد کا محراب بھی اس کا مرکزی مقام ہے اور بزرگ تر مقام۔ بنی اسرائیل کے محراب ان کی وہ مسجدیں تھیں جن میں وہ بیٹھا کرتے تھے اور نماز کے لئے جمع ہوتے تھے ۔ قرآن کریم میں جو آتا ہے ۔ فَخَرَجَ عَلٰی قَوْمِه مِنَ الْمَحْرَاب.علماء نے کہا وہ اپنی قوم کے پاس مسجد سے باہر آئے۔المحراب اکرم مجالس الملوک.’’محراب بادشاہوں کی سب سے بڑی عزت والی نشست‘‘۔
المحراب سيد المجالس ومقدمها واشرفها.
’’محراب مجالس میں اعلیٰ ترین جگہ، سب سے آگے، سب سے بزرگ تر ۔
العرب تسمی القصر محرابا لشرفه.
’’عرب محل کو محراب کہتے ہیں اس کی بزرگی کی وجہ سے ۔
وقيل المحراب الموضع الذی ينفرد فيه الملک فيتباعد من الناس.’’ اور کہا گیا ہے کہ محراب وہ جگہ ہے جس میں صرف اکیلا بادشاہ ہوتا ہے اور لوگوں سے (حفاظتی نکتہ نظر سے) دور رہتا ہے‘‘۔ (لسان العرب، 3 : 102 طبع بیروت)،(شرح تاج العروس من جواہر القاموس سید مرتضیٰ زبیدی ص 207 ج 1)،(النہایہ لابن الاثیر الجذری ص 359 ج 1 طبع ایران،چشتی)،(مفردات راغب اصفہانی ص 112 طبع کراچی)، ( الجامع لاحکام القرآن للقرطبی ص 58 ج 11)
المحراب الموضع العالی الشريف.
’’محراب بلند و بزرگ مقام‘‘۔
قال الاصمعی المحراب الغرفة.
’’اصمعی نے کہا محراب کا معنی ہے کمرہ‘‘۔
(الجامع الاحکام القرآن للقرطبی ص 58 ج 11)
علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ان کے زمانے میں مقصورہ اس کمرے کو کہتے تھے جو مسجد کی قبلہ والی دیوار کے اندر کی طرف ہوتا تھا۔ جس میں حکمران نماز جمعہ ادا کرتے تھے۔ اور دشمن کے خطرے کی وجہ سے لوگوں کو اس کمرے میں نہیں جانے دیتے تھے ۔ اس وجہ سے اختلاف ہوا کہ پہلی صف کون سی ہے ؟ وہ جو اس کمرے کے اندر امام کے ساتھ والی ہے یا وہ جو باہر کی طرف سے کمرے کے ساتھ ملی ہوئی ہے؟ فقیہ ابواللیث سمر قندی رحمۃ اللہ علیہ نے دوسرا قول لیا ہے ، تاکہ عام لوگوں کے لئے فضیلت کی گنجائش نکل سکے ۔اور ان کا ثواب ضائع نہ ہو ۔ (شامی صفحہ نمبر 569 جلد نمبر 1)
اس تمام تحقیق کے بعد اب ہم غور کرتے ہیں کہ آیا محراب مسجد کا حصہ ہے یا نہیں ؟ ۔ محراب میں آج کل محراب مسجد بھی شامل ہے ۔ قبلہ کی طرف امام کا کمرہ بھی شامل ہے جسے محراب کہتے ہیں اور جس میں بادشاہ لوگ اپنے مسلح محافظوں کے ساتھ کھڑے ہوتے تھے ۔
اسی سورہ ص آیت نمبر 13 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے : يَعْمَلُوْنَ لَهٗ مَا يَشَاۗءُ مِنْ مَّحَارِيْبَ وَتَمَاثِيْلَ وَجِفَانٍ كَالْجَــوَابِ وَقُدُوْرٍ رّٰسِيٰتٍ ۔
ترجمہ : اس کے لیے بناتے جو وہ چاہتا اونچے اونچے محل اور تصویریں اور بڑے حوضوں کے برابر لگن اور لنگردار دیگیں ۔
یَعْمَلُوْنَ لَهٗ مَا یَشَآءُ : وہ جنات سلیمان کے لیے ہر وہ چیز بناتے تھے جو وہ چاہتا تھا ۔ اس آیت میں بیان ہوا کہ جنات حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لیے ہر وہ چیز بناتے تھے جو وہ چاہتے تھے ۔ان میں سے چند چیزیں یہ ہیں :
(1) اونچے اونچے محل ،عالی شان عمارتیں ، مسجدیں اور انہیں میں سے بیت المقدس بھی ہے ۔
(2) تانبے ،بلور اور پتھر وغیرہ سے درندوں اور پرندوں وغیرہ کی تصویریں ۔یاد رہے کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کی شریعت میں تصویر بنانا حرام نہ تھا ۔
(3) بڑے بڑے حوضوں کے برابر کھانے کے پیالے۔یہ پیالے اتنے بڑے ہوتے تھے کہ ایک پیالے میں ایک ہزار آدمی کھانا کھاتے تھے ۔
(4) ایک ہی جگہ جمی ہوئی دیگیں ۔یہ دیگیں اپنے پایوں پر قائم تھیں اور بہت بڑی تھیں حتّٰی کہ اپنی جگہ سے ہٹائی نہیں جاسکتی تھیں ،لوگ سیڑھیاں لگا کر ان پر چڑھتے تھے اوریہ یمن میں تھیں ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے فرمایا ’’اے داؤد کی آل! تم اللہ تعالیٰ کی اطاعت کر کے ان نعمتوں کا شکر ادا کروجو اس نے تمہیں عطا فرمائی ہیں اور میرے بندوں میں شکر کرنے والے کم ہیں ۔ (تفسیر جلالین، السبا، تحت الآیۃ: ۱۳، ص۳۶۰)(تفسیرمدارک، سبأ، تحت الآیۃ: ۱۳، ص۹۵۸،چشتی)(تفسیر خازن، سبأ، تحت الآیۃ: ۱۳، ۳/۵۱۹)
اس آیت میں ذکر ہے کہ وہ محاریب اور تماثیل بناتے تھے ، محاریب سے مراد ہے بلند اور حسین عمارت، قتادہ نے کہا اس سے مراد محلات اور مساجد ہیں ابن زید نے کہا اس سے مراد گھر ہیں ۔
مسجد کی محراب کے متعلق یہ بحث کی جاتی ہے کہ یہ مسجد میں داخل ہے یا مسجد سے خارج ہے اس میں تحقیق یہ ہے کہ مسجد بنانے والا مسجد بناتے وقت جس جگہ کو مسجد میں داخل رکھے گا وہ مسجد میں داخل ہوگی اور جس جگہ کو مسجد سے خارج رکھے گا وہ مسجد سے خارج ہوگی ، اور جب مسجد بنائی جاتی ہے تو تعمیر کرنے والے یہ قصد نہیں کرتے کہ محراب کو مسجد سے خارج رکھا جائے گا ، بلکہ مسجد کی محراب اسلامی طرز تعمیر کا شعار اور اس کی خصوصیت ہے ۔ البتہ امام کو نماز میں پیر محراب سے خارج رکھنے چاہئیں تاکہ عبادت میں امام کی مخصوص جگہ کا وہم نہ ہو اور نصاریٰ کے ساتھ تسبہ نہ ہو ، محراب اس لئے بنائی جاتی ہے کہ امام مسجد کے وسط میں کھڑا ہوسکے پس حقیقی محراب مسجد کا وسط ہے اور یہ مخصوص ساخت عرفی محراب ہے ۔
علامہ زین الدین ابن نجیم حنفی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٠٧٩ ھ لکھتے ہیں : امام اور مقتدی میں مکان (جگہ) کا اختلاف نماز کے نواز سے مانع ہے اور اگر جگہ کے اختلاف کا شبہ ہو تو وہ کراہت کا موجب ہے اس لئے اگر امام محراب میں کھڑا ہو تو یہ مکروہ ہے ، ہرچند کہ عادت مستمرہ (دائمہ) یہ ہے کہ محراب مسجد میں داخل ہے لیکن اس کی مخصوص ہیئت اور صورت جگہ میں اختلاف کے شبہ کی موجب ہے اس لئے اگر امام کے پیر محراب میں ہوں تو یہ مکروہ ہے اور اگر پیر محراب سے باہر ہو تو پھر کوئی کراہت نہیں ہے ۔ (البحرالرائق ج ٢١ ص ٦٢، مطبوعہ مکتبہ ماجدیہ کوئٹہ)
علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٢٥٢١ ھ لکھتے ہیں : مسلمانوں کی دائمی عادت یہ ہے کہ محراب مسجد میں داخل ہوتی ہے تاہم اگر امام کے پیر محراب میں داخل ہوں تو اس سے یہ شبہ ہوتا ہے کہ امام کی الگ اور ممتاز جگہ ہے اور یہ اہل کتاب کے طریقہ کے مشابہہ ہے اس لئے امام کے پیر محراب سے باہر ہونے چاہئیں اور اگر اس کے پیر محراب میں ہوں تو یہ مکروہ ہے ۔(ردالمحتارج ٢، ص ٧٥٣، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت، ٩١٤١ ھ )
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٠٤٣١ ھ لکھتے ہیں : ابن الانباری رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ محراب کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس میں امام اکیلا کھڑا ہوتا ہے اور لوگوں سے دور ہوتا ہے ۔ (تاج العروس ج ١ ص ٧٠٢، داراحیاء الثراث العربی بیروت) علامہ ابن منظور افریقی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا کہ محاریب سے مراد جائے صدور ہے اسی سے محراب مسجد ہے اسی سے یمن میں غمدان کے محراب اور محراب قبلہ ہے۔ (لسان العرب ج ١، ص ٥٠٣، دارصادر بیروت) خلاصۃ الوفاء کے باب چہارم کی آٹھویں فصل میں فرمایا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو مسجد میں کنگرے اور محراب نہ تھے ، سب سے پہلے محراب اور کنگرے بنانے والے حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ ہیں ، اسی کی دوسری فصل میں ہے کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیات اور خلفاء راشدین کے دور میں محراب نہ تھا ، امارت ولید بن عبدالملک میں عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے بنوایا ۔ (وفاء الوفاء ج ٢ ص ٥٢٢، داراحیاء التراث العربی بیروت،چشتی) حافظ عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٢٥٨ ھ فرماتے ہیں علامہ کرمانی نے لکھا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر کے ایک کنارے کھڑے ہوتے تھے، اس وقت مسجد میں محراب نہ تھا۔ ) (فتح الباری ج ٢ ص ١٢١، مصر)
علامہ بدرالدین عینی رحمۃ اللہ علیہ حنفی متوفی ٥٥٨ ھ نے لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر کے پہلو میں قیام فرماتے تھے کیونکہ اس وقت مسجد میں محراب نہ تھا ۔ (عمدۃ القاری ج ٤، ص ٠٨٢، ادارۃ الطباعۃ المنیریہ مصر) ،(فتاویٰ رضویہ طبع جدید ج ٧، ص ٧٤٣۔ ٥٤٣، ملخصارضا فائونڈیشن لاہور، ٥١٤١ ھ)
نیز اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : مسجد کا محراب بھی اس کی اعلیٰ و اشرف جگہ ہوتی ہے یہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے ہے ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ محراب مجالس کی اعلیٰ و اشرف جگہ ہوتی ہے اور اسی طرح مساجد کے محراب ہیں ۔ (لسان العرب ج ٠١ ص ٥٠٣) ، محراب طاق وغیرہ کی صورت کا نام نہیں بلکہ ٨٨ ھ سے پہلے مساجد قدیمہ میں اس کا وجود نہ تھا، سب سے افضل مسجد حرام اس سے اب تک خالی ہے ، اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیات ، خلفاء راشدین ، امیر معاویہ اور حضرت عبد اللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہم کے دور میں مسجد نبوی میں صورت محراب نہ تھی بلکہ ولید بن عبدالملک مروانی نے اپنے دورامارت میں محراب بنایا اور یہ تسلیم ہے کہ زینت کے علاوہ امام کی جگہ پر علامت کے طور پر محراب کا ہونا بہتر ہے خصوصاً بڑی مساجد میں تاکہ ہر دفعہ غور و فکر نہ کرنا پڑے اور رات کو بغیر روشنی کے امام کو پایا جاسکے، اور امام کے محراب میں سجدہ کی وجہ سے مقتدیوں کو وسعت بھی مل جاتی ہے تو جب محراب میں یہ مصالح تھے تو اس کا رواج ہوگیا اور تمام بلاد اسلامیہ میں یہ معروف ہوا ۔ (فتاویٰ رضویہ ج ٧، ص ٥٤٣۔ ٤٤٣، ملخصا، رضا فائونڈیشن لاہور، ٥١٤١ ھ،چشتی)
نیز اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : محراب کا مقصد یہ ہے کہ وہ قیام امام کی علامت ہو ، تاکہ اس کا قیام صف کے درمیان ہو ، یہ مقصد نہیں کہ امام محراب کے اندر کھڑا ہو محراب اگرچہ مسجد کا حصہ ہے لیکن ایک دوسرے مقام کے مشابہ ہے لہٰذا اس کے اندر کھڑے ہونے سے کراہت ہوگی ۔ (فتاویٰ رضویہ ج ٧ ص ٠٥٣، رضا فائونڈیشن لاہور، ٥١٤١ ھ)
استاذی المکرّم مفتی وقار الدین رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٣١٤١ ھ لکھتے ہیں : محراب مسجد میں داخل ہے ۔ (وقار الفتاویٰ ج ٢، ص ٦٥٢، بزم وقارالدین کراچی)
محراب کے بدعت ہونے یا نہ ہونے کی تحقیق
مفتی محمد شفیع دیوبندی لکھتے ہیں : اور تحقیق اور صحیح بات یہ ہے کہ اگر اس طرح کی محرابیں نمازیوں کی سہولت اور مسجد کے مصالح کے پیش نظر بنائی جائیں اور ان کو سنت مقصودہ نہ سمجھا جائے تو ان کو بدعت کہنے کی کوئی وجہ نہیں ، ہاں اس کو سنت مقصودہ بنالیا جائے اس کے خلاف کرنے والے پر نکیر ہونے لگے تو اس غلو سے یہ عمل بدعت میں داخل ہوسکتا ہے ۔ (معارف القرآن جلد نمبر 7 صفحہ نمبر 268)
میں کہتا ہوں کہ اس قاعدہ کا اطلاق ان تمام امور پر کرنا چاہیے جن میں مکتب فکر بریلی اور مکتب فکر دیوبند کا اختلاف ہے ، مثلا سید نا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام اقدس پر انگوٹھے چومنا ، اذان سے قبل یا بعد فصل کے ساتھ صلوٰۃ وسلام پڑھنا ، محفل میلاد منعقد کرنا ، وغیر ھا، علماء اہل سنت ان امور کو جائز اور مستحب ہی کہتے ہیں ، سنت مقصودہ یا سنت لازمہ نہیں کہتے ، لہٰذا اس مذکورہ قاعدہ کے مطابق علماء دیوبند کو ان امور کے ارتکاب پر بدعت کا اطلاق نہیں کرنا چاہیے ۔
خلاصہ یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظاہری دورِ مبارک میں کسی مسجد میں محراب نہیں بنائی گئی ۔ سب سے پہلے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حفاظتی نکتہ نظر سے محراب تعمیر فرمائی ۔ امیرالمومنین رضی اللہ عنہ اسی محراب سے اپنے گھر آتے جاتے تھے ۔ محراب میں گھر کی طرف کھلنے والا دروازہ ہوتا تھا ۔ محراب میں امیرالمومنین نماز کی امامت کے لئے کھڑے ہوتے پیچھے محافظ دستہ ہوتا تھا ۔ بعض فقہاء کرام نے فرمایا یہ محراب مسجد سے زائد ہوتا تھا ۔ مسجد میں داخل نہ تھا ۔ لہذا آج کل مسجد میں جو محراب ہے وہ مسجد سے خارج ہے اس لئے وہ فرماتے ہیں کہ امام مسجد کے پاؤں محراب سے باہر ہونے چاہئیں ورنہ امام اور مقتدیوں میں فاصلہ ہوجائے گا اور مقتدیوں کی اقتداء درست نہ ہوگی ۔ اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ آج کل محراب مسجد سے خارج نہیں مسجد ہی کا حصہ ہے ۔ لہذا نماز میں فرق نہیں پڑتا ۔ قرآن کریم میں درج محراب کا مطلب مسجد اور کمرہ ہے ۔ محراب کا وہ معنی نہیں جو ہم آج مراد لیتے ہیں اور جسے محراب مسجد کہتے ہیں ۔ یہ محراب حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور سے بنایا گیا ہے ۔ لہذا دونوں باتیں درست ہیں یعنی موجودہ محراب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ مبارکہ میں نہیں ہوتا تھا ۔ حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس کی ابتدا فرمائی ۔ مگر یہ مسجد سے خارج نہیں اس میں داخل ہے یا یہ ایک مسجد کا توسیعی حصہ ہے جو امیرالمومنین کی حفاظتی تدابیر کے طور پر تعمیر ہوا ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment