Thursday, 26 December 2019

عبادت کا لغوی ، صطلاحی معنی اور مفہوم

عبادت کا لغوی ، صطلاحی معنی اور مفہوم
محترم قارئینِ کرام : عبادت کا معنی ، عبادت عربی زبان کے لفظ ’’عبد‘‘ سے مشتق ہے اور اس کا معنی آخری درجے کی عاجزی و انکساری ہے ۔

امام راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں : العبادةُ أَبْلَغُ مِنْهَا لِأَنَّهَا غَايَةُ التَّذُلَّلِ ۔
ترجمہ : عبادت عاجزی و فروتنی کی انتہا کا نام ہے ۔ (المفردات : 319)

عبادت عاجزی و تعظیم کی آخری حد کا نام ہے آخری حد کی تعظیم کا اظہار صرف اُسی ہستی کے لئے رَوا ہے جو معبودِ برحق ہے ۔ عبادت ، صرف ایسے فعل کا نام ہے جو کسی کی نسبت معبود ہونے کا اعتقاد رکھتے ہوئے اس کے لیے تعظیم ، عاجزی اور فروتنی کے اظہار کی خاطر صادر ہو ۔

عبادت کا لغوی معنی

علامہ جوہری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : عبودیت کی اصل خضوع اور ذلت ہے ‘ عبادت کا معنی ہے : اطاعت کرنا اور تعبد کا معنی ہے : تنسک (فرمانبرداری کرنا) ۔ (الصحاح ج ٢ ص ٥٠٣‘ مطبوعہ دارا العلم ‘ بیروت ‘ ١٤٠٤ ھ)

علامہ ابن منظور افریقی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : لغت میں عبادت کا معنی ہے خضوع (تواضع اور عاجزی) کے ساتھ اطاعت کرنا ۔ (لسان العرب ج ٣ ص ١٧٣ مطبوعہ نشر ادب الحوذۃ ‘ قم ‘ ایران،چشتی)

علامہ سید زبیدی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : عبادت کا معنی ہے طاعت ‘ بعض ائمہ نے کہا کہ عبودیت کی اصل ذلت اور خشوع ہے ‘ دوسرے ائمہ نے کہا : عبودیت کا معنی ہے : رب کے فعل پر راضی ہونا ‘ اور عبادت کا معنی ہے : ایسا فعل کرنا جس سے رب راضی ہو ‘ اسی وجہ سے کہا گیا ہے کہ آخرت میں عبادت ساقط ہوجائے گی عبودت ساقط نہیں ہوگی ‘ کیونکہ عبودت یہ ہے کہ دنیا اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے حقیقت میں متصرف ہونے کا عقیدہ نہ رکھے ‘ ہمارے شیخ نے کہا : یہ صوفیہ کی اصطلاح ہے ‘ اس میں لغت کا دخل نہیں ہے ‘ ازہری نے کہا : غلام جو اپنے مولی کی خدمت کرتا ہے اس کو عبادت نہیں کہتے اور مسلمان جو اپنے رب کی اطاعت کرتا ہے اس کو عبادت کہتے ہیں اللہ عزوجل نے فرمایا : (آیت) ” اعبدوا ربکم “ اس کا معنی ہے اپنے رب کی اطاعت کرو ‘ اور ” ایاک نعبد “ کا معنی ہے : ہم خضوع اور عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے ہیں۔ ابن الاثیر نے کہا : عبادت کا لغت میں معنی ہے : عاجزی کے ساتھ اطاعت کرنا ۔ (تاج العروس شرح القاموس ج ٢ ص ٤١٠‘ مطبوعہ المطبعۃ الخیریہ ‘ مصر ‘ ١٣٠٦ ھ)

عبادت کا اصطلاحی معنی

علامہ میر سید شریف رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : نفس کی خواہش کے خلاف ‘ اپنے رب کی تعظیم کے لیے مکلف کا کوئی کام کرنا عبادت ہے۔ عہد کو پورا کرنا ‘ اللہ کی حدود کی حفاظت کرنا ‘ جو مل جائے اس پر راضی رہنا اور جو نہ ملے اس پر صبر کرنا ‘ عبودیت ہے ۔ (کتاب التعریفات ص ٦٣‘ مطبوعہ المطبعۃ الخیریہ ‘ مصر ٦، ١٣ ھ،چشتی)

قرآن مجید میں عبادت کا لفظ توحید اور اطاعت کے لیے استعمال ہوا ہے

واعبدوا اللہ ولا تشرکوا بہ شیئا ۔ (سورہ النساء : ٣٦)
ترجمہ : اللہ کو واحد مانو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ۔

الم اعھد الیکم یبنی ادم ان لا تعبدوا الشیطن ۔ (سورہ یٰسین : ٦٠)
ترجمہ : اے اولاد آدم ! کیا میں نے تم سے یہ عہد نہیں لیا تھا کہ تم شیطان کی اطاعت نہ کرنا ۔

یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ عبادت کا اصطلاحی معنی ہے : اعتقاد الوہیت کے ساتھ کسی کی تعظیم اور اطاعت کرنا اور (آیت) ” یایھا الناس اعبدوا ربکم “ کا معنی ہے : اے لوگو ! اپنے رب کو الہ مان کر اس کی تعظیم اور اطاعت کرو ‘ اور (آیت) ” ایاک نعبد “ کا معنی ہے : ہم اعتقاد الوہیت کے ساتھ تیری تعظیم اور اطاعت کرتے ہیں ۔

قرآن مجید میں عبد کے اطلاقات

قرآن مجید میں پانچ قسم کے لوگوں پر عبد کا اطلاق کیا گیا ہے :

(1) غلام اور مملوک پر عبد کا اطلاق کیا گیا ہے

(آیت) ” العبد بالعبد، (البقرہ : ١٧٨) غلام کے بدلہ میں غلام (کوقتل کیا جائے)

(آیت) ” ضرب اللہ مثلا عبدا مملوکا لایقدر علی شیء “ (النحل : ٧٥) اللہ مثال بیان فرماتا ہے ایک مملوک (غلام) کی جس کو کسی چیز پر قدرت نہیں ہے۔

(2) جو اللہ کی تسخیر سے عبد ہیں

ان کل من فی السموت والارض الا اتی الرحمن عبدا (مریم : ٩٣) آسمانوں اور زمین میں جو کوئی بھی ہیں وہ اللہ کی بارگارہ میں بطور عبد حاضر ہوں گے ۔

(3) جو اپنے اختیار سے اللہ کے عبد ہیں اور عبدیت میں کامل ہیں

(آیت) ” ذریۃ من حملنا مع نوح ‘ انہ کان عبدا شکورا “۔ (بنی اسرائیل : ٣) ان لوگوں کی اولادجن کو ہم نے نوح کے ساتھ (کشتی پر) سوار کیا تھا ‘ بیشک وہ (نوح) عبد شاکر تھے ۔

(آیت) ” سبحن الذی اسری بعبدہ لیلا من المسجد الحرام الی المسجد الاقصا، (بنی اسرائیل : ١) سبحان ہے وہ جو اپنے (مقدس) عبد کو رات کے ایک قلیل حصہ میں مسجد حرام سے مسجد اقصی تک لے گیا ۔

(4) جو اپنے اختیار سے اللہ کے عبد ہیں اور عبدیت میں ناقص ہیں

(آیت) ” ان تعذبھم فانہم عبادک وان تغفرلہم فانک انت العزیز الحکیم (المائدہ : ١١٨) اگر تو انہیں عذاب دے تو بیشک وہ تیرے بندے ہیں ‘ اور اگر تو انہیں بخش دے تو بیشک تو ہی بہت غالب ہے۔ بڑی حکمت والا ہے ۔

(آیت) ” قل یعبادی الذین اسرفوا علی انفسہم لا تقنطوا من رحمۃ اللہ “۔ (الزمر : ٥٣) کہیے : اے میرے وہ بندو ! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے ‘ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو ۔

(5) جو اپنے اختیار سے غیر اللہ کے عبد ہیں

(آیت) ” ویوم یحشرھم وما یعبدون من دون اللہ فیقول ءانتم اضللتم عبادی ھؤلآء ام ھم ضلوا السبیل (الفرقان : ١٧) اور جس دن اللہ انہیں جمع کرے گا اور جن کی وہ اللہ کے سوا عبادت کرتے تھے ‘ پھر اللہ ان (معبودوں) سے فرمائے گا : کیا تم نے میرے ان بندوں کو گمراہ کیا تھا وہ خود ہی گمراہ ہوگئے تھے ؟

(آیت) ” یحسرۃ علی العباد مایاتیھم من رسول الا کانوابہ یستھزء ون (یس : ٣١) ہائے افسوس ان بندون پر ان کے پاس جو رسول بھی آیا یہ اس کا مذاق اڑاتے تھے ۔

خلاصہ یہ ہے کہ جو مملوک اور غلام ہیں ‘ جو تسخیرا عبد ہیں ‘ جو اپنے اختیار سے اللہ کے عبد ہیں اور عبد کامل ہیں اور جو اپنے اختیار سے اللہ کے عبد ہیں اور عبد ناقص ہیں اور جو اپنے اختیار سے غیر اللہ کے عبد ہیں ان سب پر قرآن مجید میں عبد کا اطلاق کیا گیا ہے ۔

اپنے غلام کو ” میرا عبد “ کہنے کی کراہت اور عبدالنبی وغیرہ نام رکھنے کی تحقیق

غلام کے لیے اپنے مالک کو میرا رب کہنا مکروہ تنزیہی ہے ‘ اسی طرح مالک کا غلام کو میرا عبد کہنا مکروہ تنزیہی ہے ۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم میں کوئی شخص یہ نہ کہے کہ اپنے رب کو کھلاؤ ‘ اپنے رب کو پلاؤ ‘ بلکہ میرا سید اور میرا مولا کہے ‘ اور تم میں سے کوئی شخص یہ نہ کہے : میرا عبد اور میری بندی ‘ اسے یہ کہنا چاہیے : میرا نوکر ‘ میری نوکرانی اور میرا غلام ۔ (صحیح بخاری ج ٢ ص ٣٤٧۔ ٣٤٦‘ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٨١ ھ،چشتی)

امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے کوئی شخص اپنے مملوک کے لیے میرا عبد نہ کہے، لیکن میرا خادم کہے ‘ اور نہ مملوک اپنے مالک کو میرا رب کہے لیکن میرا سید کہے ۔ (مسند احمد ج ٢ ص ٤٤٤‘ مطبوعہ مکتب اسلامی ‘ بیروت ‘ ١٣٩٨ ھ)

علامہ ابن اثیر جزری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے : کوئی شخص اپنے مملوک کو میرا عبد نہ کہے بلکہ میرا نوکر یا خادم کہے ‘ یہ ممانعت اس لیے کی گئی ہے تاکہ مالک سے تکبر اور بڑائی کی نفی کی جائے اور مالک کی طرف غلام کی عبودیت کی نسبت کی نفی کی جائے کیونکہ اس کا مستحق صرف اللہ تعالیٰ ہے اور وہی تمام بندوں کا رب ہے ۔ (نہایہ ج ٣ ص ١٧٠ مطبویہ موسستہ مطبوعاتی ‘ ایران ‘ ١٣٦٤ ھ)

علامہ بدرالدین عینی حنفی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : کسی شخص کا اپنے مملوک کو میرا عبد کہنا مکروہ تنزیہی ہے حرام نہیں ہے ‘ کراہت کی وجہ یہ ہے کہ اس کا مملوک اللہ کا عبد ہے اور اس کی عبادت کرتا ہے ‘ اب اگر اس کا مالک بھی اس کو اپنا عبد کہے تو یہ شرک اور مشابہت کو واجب کرتا ہے ‘ لہذا اس سے احتراز کے لیے مستحب ہے کہ وہ اس کو میرا نوکر اور میرا خادم کہے ‘ اور یہ حرام اس لیے نہیں ہے کہ قرآن مجید میں مالک کی طرف عبد کی اضافت کی گئی ہے ۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وانکحوالایامی منکم والصلحین من عبادکم وامآئکم ۔ (سورہ النور : ٣٢)
ترجمہ : اور تم اپنے بےنکاح (آزاد) مردوں اور عورتوں کا اپنے نیک عباد (غلاموں) اور باندیوں سے نکاح کردو ۔
علامہ ابن بطال رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ اس آیت کی رو سے کسی شخص کا اپنے غلام کو میرا عبد کہنا جائز ہے اور احادیث میں ممانعت تغلیظ کے لیے ہے تحریم کے لیے نہیں، اور یہ مکروہ اس لیے ہے کہ یہ لفظ مشترک ہے کیونکہ اس کا غلام بہرحال اللہ کا عبد ہے ‘ اب اگر وہ اسے میرا عبد کہے گا تو اس سے اس غلام کا مشترک ہونا لازم آگیا ۔ (عمدۃ القاری ج ١٣ ص ١١٠‘ مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المنیریہ ‘ مصر ١٣٤٨ ھ،چشتی)

بعض لوگوں کا نام عبدالنبی اور عب الرسول رکھا جاتا ہے

حکیم الامت دیوبند جناب اشرف علی تھانوی نے کفر اور شرک کی باتوں کا بیان اس عنوان کے تحت لکھا ہے : علی بخش ‘ حسین بخش ‘ عبد النبی ‘ وغیرہ نام رکھنا ۔ (بہشتی زیور ج ١ ص ٣٥ مطبوعہ ناشران قرآن لمیٹڈ لاہور)

ظاہر ہے کہ یہ دین میں غلو اور زیادتی ہے ‘ عبد النبی اور عبدالرسول نام رکھنا ‘ سورة نور کی اس آیت کے تحت جائز ہے اور احادیث میں جو ممانعت وارد ہے اس کی وجہ سے مکروہ تنزیہی ہے ۔ ہمارے نزدیک مختار یہی ہے کہ عبد النبی ‘ عبدالرسول اور عبدالمصطفی ‘ نام رکھنا ‘ ہرچند کہ جائز ہے لیکن چونکہ احادیث میں اس کی ممانعت ہے ‘ اس لیے مکروہ تنزیہی ہے ‘ اس لیے افضل اور اولی یہی ہے کہ ان کے بجائے غلام رسول اور غلام مصطفیٰ نام رکھے جائیں ۔

علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : فقہاء نے عبد فلاں نام رکھنے سے منع کیا ہے ‘ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عب النبی نام رکھنا ممنوع ہے ‘ علامہ مناوی رحمۃ اللہ علیہ نے علامہ دمیری شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کیا ہے کہ ایک قول جواز کا ہے جب کہ اس نسبت سے مشرف ہونا مقصود ہو ‘ اور اکثر فقہاء نے اس خدشہ سے منع کیا ہے کہ کوئی حقیقت عبودیت کا اعتقاد کرے ‘ جیسے عبدالدار نام رکھنا جائز نہیں ہے ۔ (رد المختار ج ٥ ص ٣٦٩ مطبوعہ مطبعہ عثمانیہ استنبول ‘ ١٣٢٧ ھ)

یٰعبادی کہہ کے ہم کو شاہ نے ​۔۔۔۔۔ اپنا بندہ کر لیا پھر تجھ کو کیا​

محترم قارئین : بعض لوگ کہتے ہیں کہ عبد المصطفی ، عبد النبی ، غلام رسول ، غلام نبی اور غلام محمد نام رکھنا شرک ہے ۔

آیئے اس کا مختصر جواب پڑھتے ہیں : اہل سنّت و جماعت یہ نام رکھنا جائز سمجھتے ہیں اور باعثِ برکات خیال کرتے ہیں کیونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا فرمان ہے : قُل یٰا عِبَادِ یَ الَّذِینَ اَسرَفُو ا علٰے اَنفُسِھِم ۔

علمائے دیوبند کے بزرگ اور پیر و مرشد حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کریمہ پر فرماتے ہیں کہ : چونکہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم واصلِ بحق ہیں ، عباد اللہ کو عباد الرسول کہہ سکتے ہیں ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : قُل یٰا عِبَادِ یَ الَّذِینَ اَسرَفُو ا علٰے اَنفُسِھِم ۔ مرجع ضمیر متکلم نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم ہیں ۔ ( امداد امشتاق صفحہ 93،چشتی)

حکیم الامت دیوبند علامہ اشرف علی تھانوی دیوبندی بھی اسی پر لکھتے ہیں کہ بھی انھیں معنی کا ہے آگے فرماتے ہیں : لا تقنطوا مِن رَحمَۃ اللّٰہِ اگر مرجع اُس کا اللہ ہوتا تو فرماتا مِن رَحمَتِی تاکہ مناسب عبادی ہوتی ہے ۔ (امداد المشتاق صفحہ 93)

اعلیٰ حضرت مجدد دین و ملت مولانا الشاہ احمد رضا خاں فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اسی لیئے فرمایا ہے :

یٰعبادی کہہ کے ہم کو شاہ نے ​
اپنا بندہ کر لیا پھر تجھ کو کیا​

سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا عقیدہ : امیر المومنین خلیفہ دوم خلیفہ برحق سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ بھی اپنے آپ کو عبد المصطفیٰ کہلاتے تھے جیسا کہ روایت میں ہے : فَلَمَّا وَلّٰی عُمَرَبنِ الخَطَّابِ خَطَبَ النَّاسَ عَلٰی مِنبَرِ رَسُو٘لِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَی٘ہِ وَسَلَّمَ حَمِدَاللّٰہَ وَاَثنٰی عَلَی٘ہِ ثُمَّ قَالَ یٰااَیُّھَاالنَّاسُ اِنِّی قَد عَلِم٘تُ اَنَّکُم کُنتُم تُونِِسُونَ مِن شِدَّ ۃِِ وَّ غِل٘ظَۃِِ وَّ ذٰالِکَ اَنِّی کُنتُ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیہِ وَسَلَّم وَکُنتُ عَباد ہٗ وَخَادِمُہٗ۔

ترجمہ : پس جب حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ خلیفہ مقرر ہوئے تو لوگوں کو آپ نے منبر رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر خطبہ دیا اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی پھر آپ نے فرمایا : اے لوگو ! میں جانتا ہوں کہ تم مجھ سے محبت رکھتے ہو اور یہ اس لیے کہ میں حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ رہا ہوں اور میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا عبد بندہ اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا خادم ہوں ۔ (الفوائد جز اوّل صفحہ نمبر 210 امام اصبہانی)ٓ( کنزالعمال جلد 3 صفحہ 147) (حیواۃ الحیوان للدمیری جلد 1،چشتی)(ازالۃ الخفاء للشاہ ولی اللہ الدہلوی جلد 2 صفحہ 63)

محترم قارئینَ کرام : آپ نے دیکھا کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ جن کے بارے میں فخر الرسل ، ہادی السُبل حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اِنَّ الشَّیطَانَ یَفِرُّ مِن ظِلِّ عُمَرَ ۔
ترجمہ : بے شک شیطان حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سایہ سے بھاگتا ہے ۔

اس شان والے عمر فاروق رضی اللہ عنہ جن کو شرک کے فتوے لگانے والے بھی جمعہ کے روز منبرِ رسول پر کھڑے ہو کر کہتے ہیں : منبر و محراب کی زینت اور اسلام کی عزت حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ منبر رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر کھڑے ہوکر ہزارہا صحابہ اور تابعین کے سامنے جن میں سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ ، سیدنا حضرت علی المر تضیٰ رضی اللہ عنہ ، جیسی شخصیتیں بھی موجود ہوں ، حمد و ثنا کے بعد اپنی خلافت کے منصب پر جلوہ افروز ہوتے ہوئے فرماتے ہیں ، میں رسول پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا عبد ، بندہ اور خادم ہوں ۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان میں سے کسی نے یہ نہ کہا کہ اے عمر فاروق ! تم نے شرک کیا ہے ۔ ( معاذاللہ )

سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا صحابہ اور تابعین کی موجودگی میں منبر رسول پر جلوہ افروز ہوتے ہوئے اپنے آپ کو عبد المصطفیٰ ، عبد النبی کہنا اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کا اعتراض نہ کرنا یہ واضح دلیل ہے کہ جملہ صحابہ اور تابعین عظام اور حاضرین محفل اور تمام مومنین (رضی اللہ عنہم) کا بھی یہی عقیدہ تھا اور اس نام اور اس نسبت کو وہ شرک نہیں سمجھتے تھے بلکہ ایسا عقیدہ رکھنے والے کو مومنِ کامل ہی سمجھتے تھے ۔ نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے : عَلَیکُم بِسُنَّتنی وَسُنَّۃِ الخُلفَائِ الرَّشِدِینَ المہھد یَّینَ ۔
ترجمہ : تم پر میری اور خلفاء راشدین جو ہدایت یافتہ ہیں کہ سنت لازم ہے ۔ (ترمذی شریف جلد 2 صفحہ 92)(ابن ماجہ شریف صفحہ 5،چشتی)(ابوداؤد شریف جلد 2 صفحہ 279)(مسند دارمی صفحہ 26)(مسند احمد جلد 4 صفحہ 27 )(مستدرک جلد 1 صفحہ 95)

پس اس ارشاد نبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو پیش نظر رکھتے ہوئے اور سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا سیدنا عثمان غنی ، سیدنا علی شیر خدا اور دیگر صحابی کرام اور تابعین عظام رضی اللہ عنہم کے سامنے ، عبد المصطفیٰ ، عبد النبی اپنے آپ کو قرار دینے کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اہل سنت و جماعت کے حضرات عبد المصطفیٰ اور عبد النبی نام رکھتے ہیں ، امام احمد رضا خاں محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کی جو مہر مبارک تھی آپ نے اُس مہر پر بھی عبد المصطفیٰ محمد احمد رضا خاں بریلوی لکھایا ہو اتھا ۔

علامہ ابو النور محمد بشیر صاحب کوٹلوی نے اسی لیئے لکھا ہے

میرے عبد المصطفیٰ احمد رضا تیرا قلم
دُشمنان مصطفی کے واسطے شمشیر ہے

بعض لوگ اس نام کو شرک کہتے ہیں ، اہل سنت و جماعت اس نام کو رکھتے ہیں ۔ پس حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا خود کوعبد المصطفیٰ ، عبد النبی کہلانا ثابت کرتا ہے کہ یہ نام مبارک شرک نہیں ہے بلکہ شرک کے فتوے لگانے والے اجہل اور متعصب ہیں ۔

میں نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم کا بندہ اور خادم ہوں

امیر المومنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ بھی اپنے آپ کو عبد المصطفیٰ کہلاتے تھے جیسا کہ روایت میں ہے : فَلَمَّا وَلّٰی عُمَرَبنِ الخَطَّابِ خَطَبَ النَّاسَ عَلٰی مِنبَرِ رَسُو٘لِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَی٘ہِ وَسَلَّمَ حَمِدَاللّٰہَ وَاَثنٰی عَلَی٘ہِ ثُمَّ قَالَ یٰااَیُّھَاالنَّاسُ اِنِّی قَد عَلِم٘تُ اَنَّکُم کُنتُم تُونِِسُونَ مِن شِدَّ ۃِِ وَّ غِل٘ظَۃِِ وَّ ذٰالِکَ اَنِّی کُنتُ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیہِ وَسَلَّم وَکُنتُ عَباد ہٗ وَخَادِمُہٗ ۔
ترجمہ : پس جب حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ خلیفہ مقرر ہوئے تو لوگوں کو آپ نے منبر رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر خطبہ دیا اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی پھر آپ نے فرمایا : اے لوگو ! میں جانتا ہوں کہ تم مجھ سے محبت رکھتے ہو اور یہ اس لیے کہ میں حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ رہا ہوں اور میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا عبد بندہ اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا خادم ہوں ۔ (المستدرک علی الصّحیحین جز اوّل صفحہ نمبر 203 ، 204 عربی) (الفوائد جز اوّل صفحہ نمبر 210 امام اصبہانی)( کنزالعمال جلد 3 صفحہ 147) (حیواۃ الحیوان للدمیری جلد 1) (ازالۃ الخفاء للشاہ ولی اللہ الدہلوی جلد 2 صفحہ 63)

محترم حضرات ! آپ نے دیکھا کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ جن کے بارے میں فخر الرسل ، ہادی السُبل حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اِنَّ الشَّیطَانَ یَفِرُّ مِن ظِلِّ عُمَرَ۔
ترجمہ : بے شک شیطان حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سایہ سے بھاگتا ہے ۔

اس شان والے عمر فاروق رضی اللہ عنہ جن کو شرک کے فتوے لگانے والے بھی جمعہ کے روز منبرِ رسول پر کھڑے ہو کر کہتے ہیں : منبر و محراب کی زینت اور اسلام کی عزت حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ منبر رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر کھڑے ہوکر ہزارہا صحابہ اور تابعین کے سامنے جن میں سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ ، سیدنا حضرت علی المر تضیٰ رضی اللہ عنہ ، جیسی شخصیتیں بھی موجود ہوں ، حمد و ثنا کے بعد اپنی خلافت کے منصب پر جلوہ افروز ہوتے ہوئے فرماتے ہیں ، میں رسول پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا عبد ، بندہ اور خادم ہوں ۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان میں سے کسی نے یہ نہ کہا کہ اے عمر فاروق ! تم نے شرک کیا ہے ۔ ( معاذاللہ )

سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا صحابہ اور تابعین کی موجودگی میں منبر رسول پر جلوہ افروز ہوتے ہوئے اپنے آپ کو عبد المصطفیٰ ، عبد النبی کہنا اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کا اعتراض نہ کرنا یہ واضح دلیل ہے کہ جملہ صحابہ اور تابعین عظام اور حاضرین محفل اور تمام مومنین (رضی اللہ عنہم) کا بھی یہی عقیدہ تھا اور اس نام اور اس نسبت کو وہ شرک نہیں سمجھتے تھے بلکہ ایسا عقیدہ رکھنے والے کو مومنِ کامل ہی سمجھتے تھے ۔ نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے :

عَلَیکُم بِسُنَّتنی وَسُنَّۃِ الخُلفَائِ الرَّشِدِینَ المہھد یَّینَ ۔
ترجمہ : تم پر میری اور خلفاء راشدین جو ہدایت یافتہ ہیں کہ سنت لازم ہے ۔ (ترمذی شریف جلد 2 صفحہ 92)(ابن ماجہ شریف صفحہ 5)(ابوداؤد شریف جلد 2 صفحہ 279)(مسند دارمی صفحہ 26)(مسند احمد جلد 4 صفحہ 27 )(مستدرک جلد 1 صفحہ 95)

پس اس ارشاد نبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو پیش نظر رکھتے ہوئے اور سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا سیدنا عثمان غنی ، سیدنا علی شیر خدا اور دیگر صحابی کرام اور تابعین عظام رضی اللہ عنہم کے سامنے ، عبد المصطفیٰ ، عبد النبی اپنے آپ کو قرار دینے کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اہل سنت و جماعت کے حضرات عبد المصطفیٰ اور عبد النبی نام رکھتے ہیں ۔ شرک کے فتوے لگانے والو ذرا سوچو ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...