Tuesday, 10 December 2019

نشے کی حالت میں طلاق دینے کا شرعی حکم

نشے کی حالت میں طلاق دینے کا شرعی حکم

محترم قارئینِ کرام : اگر کوئی شخص حرام نشہ آور چیز اپنی مرضی سے استعمال کرے اور نشہ آ جائے ایسے نشہ میں طلاق واقع ہو جاتی ہے ۔

طلاق السکران واقع .
ترجمہ : نشہ کرنے والے کی طلاق واقع ہو جاتی ہے ۔ (مرغینانی، الھدایۃ جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 329 مطبوعہ کراچی)(درالمختار جلد نمبر ۴ صفحہ نمبر ۴۴۴)

کسی شخص کو اگر نشہ کی عادت ہے اور وہ خود نشہ کر کے اپنی بیوی کو طلاق دے تو طلاق واقع ہو جائے گی ۔ نشہ کى حالت مىں طلاق دىنے سے شرعا طلاق واقع ہوجاتى ہے ۔ لىکن اس مىں شوہر کا اقرار یا دو عادل مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کى شرعى شهادت شرط ہے ۔

احناف کے نزدیک حرام چیز کے مثلاً شراب کے نشے میں زجرًا و توبیخاً طلاق ہے تاکہ آئندہ وہ شراب کی عادت ترک کر دے ، یہی وجہ ہے کہ اگر کسی کو جائز و حلال چیز کے کھانے پیسے سے نشہ آگیا اور اس حالت میں طلاق دی تو طلاق واقع نہیں ہوتی ہے ، اور چونکہ نشہ کی حالت میں عقل باقی رہتی اور وہ شریعت کے احکام کا مکلف ہوتا ہے اس لیے نشہ کی حالت میں اس کا نکاح کو قبول کرنا صحیح ہوگا ، یعنی نشے کی حالت میں نکاح بھی صحیح ہوجاتا ہے ۔ چنانچہ فتاوی قاضی خاں میں لکھا ہے : في باب الخلع ، خلع السکران جائز وکذلک سائر تصرفاتہ إلا الردة والإقرار بالحدود والإشہاد علی شہادة نفسہ ۔ (خانیة مع الہندیة: ۱/۵۳۶) ۔ اور الاشباہ میں ہے : وقدمنا في الفوائد أنہ من محرم کالصاحي إلا في ثلث الردة والإقرار بالحدود الخالصة والإشہاد علی شہادة نفسہ ۔ (الأشباہ: ج۳/۳۷،چشتی)
اس میں صراحت کے ساتھ نکاح کا ذکر تو نہیں ہے لیکن سائر تصرفاتہ میں نکاح ، طلاق عتاق ، بیع بھی داخل ہونا اصولاً سمجھ میں آتا ہے ۔

اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کو نشہ کی حالت میں تین طلاق دی تو طلاق واقع ہوگئی فتاویٰ ہندیہ میں ہے طلاق السكران واقع اذاسكر من الخمر أو النبيذ هو مذهب أصحابنا رحمهم الله تعالى ۔ یعنی اگر کسی نے شراب یا نبیذ کے نشہ کی حالت میں طلاق دی تو ہمارے ائمہ کرام کے نزدیک طلاق پڑ جائے گی ۔ (فتاویٰ ہندیہ ج 1فصل فیمن یقع طلاقه وفيمن لا يقع طلاقه صفحہ 353)

در مختار مع ردالمحتار میں ہے ليدخل السكران أي فإنه في حكم العاقل زجرا له فإن طلاقه صحيح فلا منافاة بين قوله عاقل وقوله الآتي او سكران ۔ (در مختار مع ردالمحتار ج 4 کتاب الطلاق مطلب طلاق الدور صفحہ338،چشتی)

بہار شریعت جلد دوم میں ہے نشہ والے نے طلاق دی تو طلاق واقع ہو جائے گی کہ یہ عاقل کے حکم میں ہے اور نشہ خواہ شراب پینے سے ہو یا بنگ وغیرہ کسی اور چیز سے افیون کی پینک میں طلاق دے دی جب بھی واقع جائے ہوگی طلاق میں عورت کی جانب سے کوئی شرط نہیں نابالغہ ہو یا مجنونہ بہر حال طلاق واقع ہو جائے گی ۔ (بہار شریعت حصہ 8 طلاق کا بیان صفحہ5/6)

قرآن مجید میں ہے : فإن طلقها فلاتحل له من بعد حتی تنكح زوجا غيره ۔
ترجمہ : پھر اگر تیسری طلاق دی اس کے بعد وہ اس سے حلال نہ ہو گی جب تک دوسرے شوہر سے نکاح نہ کرے ۔ (پارہ 2 سورہ بقرہ آیت230)

ہاں اگر کسی نے جبراشراب پلادی تو طلاق واقع نہ ہوگی ۔ (فتاوی رضویہ جلد ۱۲/ص ۳۸۶/مترجم)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق محترم قارئین کرام : علامہ اقبال اور قائداعظم کے خلاف فتوی دینے کے سلسلے میں تج...