Thursday 5 December 2019

قبر پرست اور مولوی پرست دیوبندی فرقہ

0 comments
قبر پرست اور مولوی پرست دیوبندی فرقہ

محترم قارئینِ کرام : حکیمِ بیمارانِ دیوبند جناب اشرف علی تھانوی صاحب لکھتے ہیں : جب اثر مزار شریف کا بیان آیا آپ (یعنی حاجی امداد ﷲ) نے فرمایا کہ میرے حضرت کا ایک جولاہا مرید تھا ۔ بعد انتقال حضرت کے مزار شریف پر عرض کیا کہ حضرت میں بہت پریشان اور روٹیوں کا محتاج ہوںکچھ دستگیری فرمائیے ۔ حکم ہوا کہ تم کو ہمارے مزار سے دو آنے یا آدھ آنہ روز ملا کرے گا ۔ ایک مرتبہ میں زیارت مزارکو گیا وہ شخص بھی حاضر تھااس نے کل کیفیت بیان کر کے کہا کہ مجھے ہر روز وظیفہ مقررہ یہیں قبر سے ملا کرتا ہے ۔ (حاشیہ) قولہ وظیفہ مقررہ ۔ اقوال یہ منجملہ کرامات کے ہے ۔ (امداد المشتاق صفحہ نمبر 114 ، 115 مطبوعہ مکتبہ امداد اللہ مہاجر مکی محلہ خانقاہ دیوند)

تھانوی صاحب کی اس روایت اور بیان سے معلوم ہوا کہ ان حضرات کے نزدیک صاحب مزارسے اگر مشکل اور پریشانی عرض کر کے دستگیری کی درخواست کی جائے تو وہ دستگیری اور مددکرتے ہیں ۔ عام طور پر دیوبندیوں کے اہلسنت کے خلاف ایسے واقعات پر شرک کے فتوے ہیں مگر چونکہ بیان کرنے والے اپنے بزرگ ہیں ، جن کے مزار سے یہ دستگیری ہوئی وہ بزرگوں کے بھی حضرت ہیں اس لیئے یہاں پر یہ بات کرامت ہے ۔

یہ حق ، سچ ، ایمان ہے یا کفر ، شرک ، بدعت ہے اور سوال یہ ہے کہ قبر والے سے یہ کہنا کہ : بہت پریشان ہوں اور روٹیوں کو محتاج ہوں کچھ دستگیری فرمائیے
یہ ما تحت الاسباب ہے یا مافوق الاسباب اگر ما تحت الاسباب ہے تو کوئی اور بھی مانگ سکتا ہے یا صرف دیوبندیوں کو اس کی اجازت ہے اور اگر مافوق الاسباب ہے تو شرک ہوا یا نہیں ؟

قبر و مزار پرستی کی تعلیماتِ دیوبند

اکابرینِ دیوبند کے پیرو مرشد حاجی امداد ﷲ مہاجر مکی صاحب لکھتے ہیں : اولیاء اور مشائخ کی قبروں کی زیارت سے مشرف ہوا کرے اور فرصت کے وقت ان کی قبروں پر آ کر روحانیت سے ان کی طرف متوجہ ہو اور ان کی حقیقت کو مرشد کی صورت میں خیال کرکے فیض حاصل کر لے اور کبھی کبھی عام مسلمانوں کی قبروں پر جا کر اپنی موت یاد کیا کرے اور ان پر ایصالِ ثواب کرے اور مرشد کے حکم اور ادب کو خدا اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے حکم اور ادب کی جگہ سمجھے کیونکہ مرشدین خدا اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے نائب ہیں ۔ (کلیاتِ امدادیہ : صفحہ نمبر 72)

حاجی امداد ﷲ مہاجر مکی صاحب کے اس ارشاد سے معلوم ہوا کہ :

(1) اپنے پیر و مرشد کے حکم اور ادب کو ﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے حکم اور ادب کی جگہ ہی سمجھنا چاہیے ۔

(2) عام مسلمانوں کی قبروں کا حکم تو یہ ہے کہ ان پر کبھی کبھی جا کر ایصالِ ثواب کیا جائے اور ان زیارتِ قبور سے موت کو یاد کیا جائے ۔

(3) مگر اولیاء و مشائخ علیہم الرّحمہ کی قبروں کی زیارت جب فرصت ملے کرنی چاہیئے اور ان کی قبروں پر آ کر عام مسلمانوں کی قبروں سا سلوک نہیں ہونا چاہیے کہ ایصال ثواب کیا جائے یا موت کو یاد کیا جائے بلکہ بزرگوں کی قبروں پر آنے کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ روحانی طور پر ان کی طرف توجہ کی جائے اور ان سے فیض حاصل کیا جائے ۔ اس چیز سے ان بزرگوںکی قبروں سے وہی فائدہ حاصل ہو گا جو ان کی زندگی میں ہوتا تھا ۔ اگر یقین نہ ہو تو ملاحظہ فرمائیے :

حاجی امداد ﷲ مہاجر مکی صاحب اپنے پیر و مرشد میانجی نور محمد صاحب کے آخری وقت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : حضرت نے تشفی دی اور فرمایا کہ فقیر مرتا نہیں ہے ۔ صرف ایک مکان سے دوسرے مکان میں انتقال کرتا ہے فقیر کی قبر سے وہی فائدہ حاصل ہو گا جوزندگی ظاہری میں میری ذات سے ہوتا تھا ۔ (امداد المشتاق:ص۱۱۸ ، تذکرہ مشائخ چشت: ص۲۳۴،چشتی)

اشرف علی تھانوی صاحب اس روایت کوحاجی صاحب سے بیان کرنے کے بعدان کا تجربہ یوں نقل کرتے ہیں : فرمایا حضرت (یعنی حاجی امداد ﷲ) صاحب نے کہ مَیں نے حضرت کی قبر مقدس سے وہی فائدہ اٹھایا ، جو حالت حیات میں اٹھایا تھا ۔ (امداد المشتاق سفحہ نمبر ۱۱۸)

ان دیوبندی اکابرین کے بیانات سے معلوم ہوا کہ ان حضرات کے نزدیک :

(1) کسی بزرگ کی وفات کے بعداس کی قبر سے وہی فائدہ حاصل ہوتا ہے جو اس کی زندگی میں اس کی ذات سے ہوتا تھا ۔

(2) حاجی امداد ﷲ مہاجر مکی صاحب نے اپنے پیر و مرشد کی قبر سے اسی طرح فائدے حاصل کیئے جس طرح ان کی ذات سے زندگی میں حاصل تھے ۔

ایک دیوبندی خان صاحب بیان کرتے ہیں : شاہ ولی اﷲ صاحب بطن مادر میں تھے تو ان کے والد ماجد شاہ عبد الرحیم صاحب ایک دن (خواجہ) قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر حاضر ہوئے اور مراقب ہوئے اور ادراک بہت تیز تھا۔خواجہ صاحب نے فرمایاکہ تمھاری زوجہ حاملہ ہے اس کے پیٹ میں قطب الاقطاب ہے ۔ اس کا نام قطب الدین احمد رکھنا ۔ اقرار و تسلیم فرمایا اور آ کر بھول گئے ۔ ایک روز شاہ صاحب کی زوجہ نماز میں مصروف تھیں ۔ جب انہوں نے دعا مانگی تو ان کے ہاتھ میں دو چھوٹے چھوٹے ہاتھ نمودار ہو گئے ۔ وہ ڈر گئیں اور گھبرا کر شاہ صاحب سے فرمایا کہ یہ کیا بات ہے ۔ فرمایا ڈرو نہیں تمھارے پیٹ میں ولی ﷲ ہے ۔ (ارواحِ ثلاثہ صفحہ نمبر ۲۱)

دیوبندی حضرات کے روایت کردہ اس واقعہ سے معلوم ہوا :

(1) مزاروں پر جا کر مراقبہ کرنے سے جو فیوض و برکات حاصل ہوتی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ صاحبِ قبرسے ، بیٹا ہو گا کہ بیٹی ، نیک ہو گا کہ بد ، جیسی اہم معلومات حاصل ہو سکتی ہیں ۔

(2) اتنی اہم معلومات حاصل ہونے کا فائدہ یہ بھی ہو گا کہ اگر کسی عورت کے پیٹ میں کوئی ﷲ کا ولی پرورش پا رہا ہو تو جب اس کے چھوٹے چھوٹے ہاتھ اپنی ولایت کے اظہار کے لیئے اپنی ماں کے ہاتھوں میں نمودار ہوں گے تو خوف محسوس نہیں ہو گا ۔

قبروں اور مزاروں سے فیض اور دستگیری​

دیوبندیوں کے فخر المحدثین خلیل احمد سہارنپوری لکھتے ہیں : اب رہا مشائخ کی روحانیت سے استفادہ اور ان کے سینوں اورقبروں سے باطنی فیوض پہنچنا،سو بے شک صحیح ہے ۔ (المھند علی المفند صفحہ نمبر ۳۶)

سوال : بعض بعض صوفی قبور اولیاء پر چشم بند کر کے بیٹھتے ہیں اور سورۃ الم نشرح پڑھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارا سینہ کھلتا ہے اور ہم کو بزرگوں سے فیض ہوتا ہے اس بات کی کچھ اصل بھی ہے یا نہیں ۔
دیوبندیوں کے امام ربانی رشید احمد گنگوہی صاحب اس کے جواب میں فرماتے ہیں : اس کی بھی اصل ہے اس میں کچھ حرج نہیں اگر بہ نیت خیر ہے ۔ (تالیفاتِ رشیدیہ مع فتاویٰ رشیدیہ صفحہ نمبر ۱۹۶)

اس سے معلوم ہوا کہ دیوبندیوں کے نزدیک اولیاء اور بزرگوں کی قبروں سے فیض و برکات کا حصول ہوتا ہے ۔ آئیے اب اس دیوبندی عقیدے کی عملی شکل دیکھتے ہیں تا کہ کوئی ابہام باقی نہ رہے ۔

حکیمِ بیمارانِ دیوبند جناب اشرف علی تھانوی صاحب لکھتے ہیں : مولوی معین الدین صاحب حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب کے سب سے بڑے صاحبزادے تھے وہ حضرت مولانا کی ایک کرامت(جو بعد وفات واقع ہوئی) بیان فرماتے تھے کہ ایک مرتبہ ہمارے نانوتہ میں جاڑہ بخار کی بہت کثرت ہوئی ۔ سو جو شخص مولانا (محمدیعقوب) کی قبر سے مٹی لے جا کر باندھ لیتا اسے ہی آرام ہوجاتا ۔ بس اس کثرت سے مٹی لے گئے کہ جب ڈلوائوں تب ہی ختم ۔ کئی مرتبہ ڈال چکا ۔ پریشان ہو کر ایک دفعہ مولانا کی قبر پر جا کر کہا ۔ یہ صاحبزادے بہت تیز مزاج تھے۔ آپ کی تو کرامت ہو گئی اور ہماری مصیبت ہو گئی ۔ یاد رکھو کہ اگر اب کے کوئی اچھا ہوا توہم مٹی نہ ڈالیں گے ایسے ہی پڑے رہیو ۔ لوگ جوتہ پہنے تمھارے اوپرایسے ہی چلیں گے ۔ بس اس دن سے پھر کسی کو آرام نہ ہوا ۔ جیسے شہرت آرام کی ہوئی تھی ویسے ہی یہ شہرت ہوگئی کہ اب آرام نہیں ہوتا ۔ پھر لوگوں نے مٹی لے جانا بند کر دیا ۔ (ارواحِ ثلاثہ صفحہ نمبر ۲۵۷،چشتی)

دیکھا آپ نے دیوبندیوں کے نزدیک بزرگوں کی قبروں سے کیسے کیسے فیوض و برکات حاصل ہوتے ہیں ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دیوبندیوں کے مولوی بعد از وفات بھی لوگوں کو اپنی قبروں سے نفع پہنچاتے ہیں اوراس پر ان کا اختیار بھی ہے کیونکہ شکایت ہونے پر نفع رسانی بند بھی کی جا سکتی ہے ۔

پیر کی قبرکی زیارت گویا دیدارِ خدا ہے (نعوذ باللہ)​

حاجی امداد اللہ مہاجر مکی نے اپنے پیر و مرشد میانجی نور محمد کی قبر کے سرہانے چند اشعار کا ایک کتبہ نصب کروایا ۔ مشہور تبلیغی دیوبندی شیخ الحدیث محمد زکریا کاندھلوی ان اشعار کو بیان کرتے ہوئے ایک جگہ لکھتے ہیں :

’’جس کو ہوئے شوق دیدارِ خدا
ان کے مرقد کی زیارت کو وہ جا

یعنی پیر و مرشد مولا مرے حضرت نو ر محمد نیک پے ۔
(تاریخ مشائخ چشت صفحہ نمبر ۲۳۵)

گویا ان حضرات کے نزدیک اگر کسی کو خدا کی زیارت کا شوق ہو تو چاہیئے کہ حاجی امدادا للہ مہاجر مکی کے پیر و مرشد میانجی نور محمدکی قبر کی زیارت کر لے ۔

خواجہ عزیز الحسن اپنے حکیم الامت اشرف علی تھانوی صاحب کے پردادا کا واقعہ نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں : پردادا صاحب تو کیرانہ اور شاملی کے درمیان جہاں پختہ سڑک ہے شہید ہوئے ۔۔۔۔ کسی بارات میں تشریف لے جا رہے تھے کہ ڈاکوئوں نے آ کر بارات پر حملہ کر دیا ۔۔۔۔یہ مقابلہ میں شہید ہو گئے ۔۔۔۔ شہادت کے بعد ایک عجیب واقعہ ہوا ۔ شب کے وقت اپنے گھر مثل زندہ کے تشریف لائے اور اپنے گھر والوں کو مٹھائی لا کر دی اور فرمایا کہ اگر تم کسی پر ظاہر نہ کرو گی تو روز اسی طرح آیا کریں گے لیکن ان کے گھر کے لوگوں کو اندیشہ ہوا کہ گھر والے جب بچوں کو مٹھائی کھاتا دیکھیں گے تو معلوم نہیں کیا شبہ کریں اس لیے ظاہر کر دیا اور پھر آپ تشریف نہیں لائے ۔یہ واقعہ خاندان میں مشہور ہے ۔ (اشرف السوانح : جلد نمبر ۱ صفحہ نمبر ۳۹۔۴۰)

دیوبندی تبلیغی جماعت کے شیخ الحدیث زکریا کاندھلوی صاحب لکھتے ہیں : فرمایا کہ ایک صاحب کشف حضرت حافظ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے مزار پر فاتحہ پڑھنے گئے ۔ بعد فاتحہ کہنے لگے بھائی یہ کون بزرگ ہیں بڑے دل لگی باز ہیں ۔جب میں فاتحہ پڑھنے لگا تو مجھ سے فرمانے لگے کہ جائو کسی مردہ پر پڑھو، یہاں زندوں پر فاتحہ پڑھنے آئے ہو یہ کیا بات ہے؟ تب لوگوں نے بتایا یہ شہید ہیں ۔(امداد السلوک (مقدمہ) : صفحہ نمبر ۲۷)

زکریا کاندھلوی دیوبندی لکھتے ہیں : حضرت ابو سعید خزازؒ فرماتے ہیں کہ میں مکہ مکرمہ میں تھا ۔۔۔۔ کہ میں نے ایک نوجوان کی نعش رکھی ہوئی دیکھی جو نہایت حسین چہرہ والا تھا میں نے جو اسکے چہرہ کو غور سے دیکھا تو وہ تبسم کرتے ہوئے کہنے لگا ابو سعید تمھیں معلوم نہیں کہ عشاق مرتے نہیں بلکہ وہ زندہ ہی رہتے ہیں اگر چہ ظاہر میں مر جائیں انکی موت ایک عالم سے دوسرے عالم میں انتقال ہوتا ہے ۔ (فضائل حج صفحہ نمبر ۲۵۶،چشتی)

زکریا کاندھلوی صاحب مزید روایت کرتے ہیں : شیخ ابو یعقوب سنوسیؒ فرماتے ہیں کہ میرے پاس ایک مرید مکہ مکرمہ میںآیا اور کہنے لگاکہ اے استاد میں کل ظہر کے وقت مر جائوں گا۔۔۔۔جب دوسرے دن ظہر کا وقت آیا وہ مسجد حرام میں آیا اور طواف کیا اور تھوڑی دور جا کر مر گیا ۔۔۔۔ جب اس کو قبر میں رکھا تو اس نے آنکھیں کھولدیں میں نے کہا کیا مرنے کے بعد بھی زندگی ہے؟ کہنے لگا ہاں میں زندہ ہوں ، اور اللہ جل شانہ کا ہر عاشق زندہ ہوتاہے (روض) ۔ (فضائل حج صفحہ نمبر ۲۵۶​)
بعد از وفات دیوبندی اکابرین کا تصرف و امداد​

دیوبندی تبلیغی جماعت کے شیخ الحدیث محمد زکریا کاندھلوی اپنے شیخ المشائخ شاہ عبد القدوس گنگوہی کے متعلق لکھتے ہیں : حضرت نے اپنی کتاب انوار العیون میں تحریر فرمایا ہے کہ حضرت احمد عبد الحق کے منجملہ اور تصرفات کے ایک یہ بھی ہے کہ اپنے وصال سے پچاس سال بعد اس ناچیز کی اپنے روحانی فیض سے تربیت فرمائی ۔ (تاریخ مشائخ چشت صفحہ نمبر ۱۹۳)

اپنے شیخ المشائخ شاہ عبد القدوس گنگوہی کی اس کتاب انوار العیون کے بارے میں زکریا کاندھلوی صاحب لکھتے ہیں : آپ کی مئولفات میں ایک کتاب انوار العیون ہے جس کے سات فن ہیں جن میں حقائق و وقائق تصوف کو جمع فرمایا ہے ۔ (تاریخ مشائخ چشت صفحہ نمبر ۲۰۴)

معلوم ہوا کہ دیوبندی علماء کے نزدیک یہ بات حقیقت ہے کہ ان کے بزرگ و اکابرین فوت شدہ لوگوں سے فیض اور امداد حاصل کرتے رہے ہیں ۔ فوت شدہ لوگوں کا زندوں کی تربیت کرنا دیوبندی بزرگوں کا محض ایک تصرف ہے ورنہ منجملہ اس کے اور بھی کافی تصرفات پر وہ قادر ہیں ۔

مولوی حبیب الرحمٰن دیوبندی مدرسہ دیوبند کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : مولوی احمد حسن صاحب امروہوی اور مولوی فخر الحسن صاحب گنگوہی میں باہم معاصرانہ چشمک تھی اور اس نے بعض حالات کی بنا پر ایک مخاصمہ اور متنازعہ کی صورت اختیار کر لی اور مولانا محمود حسن صاحب گو اصل جھگڑے میں شریک نہ تھے نہ انہیں اس قسم کے امور سے دلچسپی تھی۔مگر صورت حالات ایسی پیش آئی کہ مولانا بھی بجائے غیر جانبدار رہنے کے کسی ایک جانب جھک گئے اور یہ واقعہ کچھ طول پکڑ گیا اور اسی دوران میں ایک دن علی الصباح بعد نماز فجر مولانا رفیع الدین صاحب نے مولانا محمود حسن صاحب کو اپنے حجرے میں بلایا(جو دارالعلوم دیوبند میں ہے) مولانا حاضر ہوئے اور بند حجرے کے کواڑ کھول کر اندر داخل ہوئے موسم سخت سردی کا تھا۔ مولانا رفیع الدین صاحب نے فرمایا کہ پہلے میرا یہ روئی کا لبادہ دیکھ لو ۔ مولانا نے لبادہ دیکھا تو تر تھا اور خوب بھیگ رہا تھا فرمایا کہ واقعہ یہ ہے کہ ابھی ابھی مولانا نانوتوی جسد عنصری کے ساتھ میرے پاس تشریف لائے تھے۔ جس سے میں ایک دم پسینے پسینے ہوگیا اور میرا لبادہ تر بتر ہو گیا اور فرمایاکہ محمود حسن کو کہہ دو کہ وہ اس جھگڑے میں نہ پڑے پس میں نے یہ کہنے کے لیئے بلایا ہے مولانا محمود حسن صاحب نے عرض کیا کہ حضرت میں آپ کے ہاتھ پر توبہ کرتا ہوں کہ اس کے بعد اس قصہ میں کچھ نہ بولوں گا ۔ (ارواحِ ثلاثہ صفحہ نمبر ۱۹۹)

بانی دیوبند قاسم نانوتوی صاحب کے اس طرح بعد از وفات دیوبند تشریف لانے پر اشرف علی تھانوی صاحب لکھتے ہیں : یہ واقعہ روح کا تمثل تھا اور اس کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں ۔ایک یہ کہ جسد مثالی تھا ۔مگر مشابہ جسد عنصری کے، دوسری صورت یہ کہ روح نے خود عناصر میں تصرف کر کے جسد عنصری تیار کر لیا ہو ۔ (ارواحِ ثلاثہ صفحہ نمبر ۲۰۰،چشتی)

معلوم ہوا کہ دیوبندی علماء و اکابرین کے نزدیک دیوبندی مولویوں کو مرنے کے بعد بھی دنیا کے حالات کی خبر رہتی ہے اورمرنے کے بعد روح کو یہ قدرت بھی حاصل ہوتی ہے کہ وہ چاہے تو خود تصرف کر کے ایک جسم تیار کرے اور حالات کے پیشِ نظر دنیا میں تشریف لا کر مشاورت و امداد کے فرائض انجام دے ۔ یاد رہے کہ بعد وفات تصرف کایہ مظاہرہ ایک بار ہی نہیں ہوا بلکہ متعدد مواقع پراس کا ثبوت دیا گیا ۔ چنانچہ ایک اور دیوبندی عالم مناظر احسن گیلانی لکھتے ہیں : ایسی صورت میں کیوں اصرار کیا جاتا ہے اس کی’’ موت ‘ ‘ کے بعد ہم اس کو مُردوں میں شمار کریں ، یاد ہو گا کہ ایک دفعہ نہیں ، متعدد مواقع پر مشاہدہ کرنے والوں نے بعد وفات دیکھا کہ ’’مولٰنا نانوتوی رحمتہ اللہ علیہ جسد عنصری کے ساتھ میرے پاس تشریف لائے تھے ‘‘۔‘‘ (سوانح قاسمی،حصہ سوم:ص ۱۴۹۔۱۵۰)

اسی طرح کا ایک اور لمبا واقعہ’’ سوانح قاسمی‘‘ میں موجود ہے جس میں دارالعلوم دیوبند کے انتہائی مشکل میں پھنسے ایک طالبعلم کی مدد اچانک نمودار ہونے والی ایک شخصیت نے کی جو بعد میں اچانک ہی غائب بھی ہو گئی ۔ اس طالبعلم نے اس واقعہ کو اپنے استادشیخ الہند محمود حسن دیوبندی سے بیان کیا ۔ سوانح قاسمی کے مصنف مناظر احسن گیلانی دیوبندی اس پر لکھتے ہیں : حضرت شیخ الہند فرماتے تھے ، میں نے ان مولوی صاحب سے دریافت کیا کہ اچانک نمودار ہو کر غائب ہو جانے والی شخصیت کا حلیہ کیا تھا،حلیہ جو بیان کیا فرماتے تھے کہ سنتا جاتا تھا اور حضرت الاستاذ کا ایک ایک خال و خط نظر کے سامنے آتا چلا جا رہا تھا۔، جب وہ بیان ختم کر چکے تو میں نے ان سے کہا یہ تو حضرت الاستاذ (قاسم نانوتوی) رحمتہ اللہ علیہ تھے ۔ جو تمھاری امداد کے لیئے حق تعالیٰ کی طرف سے ظاہر ہوئے ۔ (سوانح قاسمی ،حصہ اول:ص ۳۳۲)

گویا قاسم نونوتوی صاحب نے اپنی وفات کے بعدمشکل میں پھنسے اس دیوبندی طالبعلم کی امداد کی ۔ اس واقعہ کی توجیہ میں مناظر احسن گیلانی دیوبندی اس دیوبندی عقیدہ کی وضاحت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : بس بزرگوں کی ارواح سے مدد لینے کے ہم منکر نہیں ہیں ۔ (سوانح قاسمی ،حصہ اول:ص ۳۳۲)

مناظر احسن گیلانی دیوبندی ایک اور جگہ اپنے الامام الکبیر قاسم نانوتوی کے متعلق فرماتے ہیں : لیکن قلبی اور باطنی طریقہ پر قلب اس درجہ اولاد پر شفقت سے بھرپور رہتا تھا کہ زندگی ہی کی حد تک نہیں بعد وفات بھی اولاد پر آپ کی وہی نگاہ شفقت قائم رہی ۔ (سوانح قاسمی ،حصہ اول :ص ۵۶۰)

دیوبندی ملاّں قبر سے اٹھ کر مدد کرنے آگیا آخر یہ شرک کیوں نہیں ہے ؟

قاری طیب صاحب مہتمم دارالعلوم دیو بند بیان کرتے ہیں کہ جس زمانے میں مولوی رفیع الدین صاحب مدرسہ کے مہتمم تھے ، دارالعلوم کے صدر مدردین کے درمیان آپس میں کچھ نزاع چھڑ گئی آگے چل کر مدرسہ کے صدر مدرس مولوی محمود الحسن صاحب بھی اس ہنگامے میں شریک ہو گئے اور جھگڑا طول پکڑ گیا . اب اس کے بعد کا واقعہ قاری طیب صاحب ہی کی زبانی سنیے. لکھتے ہیں : اسی دوران میں ایک دن علی الصبح بعد نماز فجر مولانا رفیع الدین صاحب نےمولا نا محمد الحسن صاحب کو اپنے حجرہ میں بلایا (جو دارالعلوم دیو بند میں ہے) مولانا حاضر ہوئے اور حجرہ کے کواڑ کھول کر اندر داخل ہوئے . مولانا رفیع الدین صاحب نے فرمایا کہ پہلے میرا یہ روئی کا لبادہ دیکھ لو . مولانا نے لبادہ دیکھا تو تر تھا اور خوب بھیگ رہا تھا فرمایا کہ واقعہ یہ ہے کہ ابھی ابھی مولانا ناتوتوی جسد عنصری (جسم ظاہری) کے ساتھ میرے پاس تشریف لائے تھے جس سے میں ایک دم پسینہ پسینہ ہو گیا اور میرا لبادہ تر بتر ہو گیا اور یہ فرمایا کہ محمود الحسن کو کہہ دو کہ وہ اس جھگڑے میں نہ پڑے بس میں نے یہ کہنے کے لیے بلایا ہے . مولانا محمودالحسن صاحب نے عرض کیا کہ حضرت میں آپ کے ہاتھ پر توبہ کرتا ہوں کی اس کے بعد میں اس قصے میں کچھ نہ بولوں گا ۔ ( (ارواحِ ثلاثہ صفحات 193 ، 194 حکایت نمبر 246)

ایک دیوبندی مولوی صاحب کا مناظرہ تھا گھبرائے تو پہلو میں ایک اجنبی آکر بیٹھ گیا اور کہا گفتگو کرو جب گفتگو شروع کی تو جیت گیا حلیہ بتانے پر معلوم ہوا وہ بانی دیوبند نانوتوی صاحب تھے جو قبر سے آکر مدد کررہے تھے اور حاشیہ میں لکھا ارواح اولیاء سے مدد کے ہم دیوبندی بھی اہلسنت کی طرح قائل ہیں یہ مسلہ قرآن و حدیث سے ثابت کیا ہے۔ ارواح اولیاء کا مدد کرنا قرآن و حدیث سے ثابت ہے ۔ (سوانح قاسمی حصّہ اوّل صفحات 331 ،332،چشتی)

دیوبندی عالم جناب مناظر احسن گیلانی اپنے بڑوں کو شرک سے بچانے کےلیئے لکھتے ہیں مجبورا : پس بزرگوں کی ارواح سے مدد لینے کے ہم منکر نہیں ہمارا بھی ارواح صالحین سے مدد کے متعلق وہی عقیدہ ہے جو اہلسنت و جماعت کا ہے اور یہ سب قرآن و حدیث سے ثابت ہے ۔ (حاشیہ سوانح قاسمی جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 332 قدیم ایڈیشن و صفحہ نمبر 211 جدید ایڈیشن مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ اردو بازار لاہور)۔(مزید آپ خود اصل اسکینز میں پڑھیں)

مولوی نانوتوی صاحب کا خدائی تصرف (استغفراللہ)

اب ایک نیا تماشہ اور ملاحظہ فرمائیے قاری صاحب کی اس روایت پر دیوبندی مذہب کے پیشوا حکیم الامت دیوبند جناب اشرف علی تھانوی صاحب نے اپنا ایک نیا حاشیہ چڑھایا یے جس میں بیان کردہ واقعہ کی توثیق کرتے ہوئے موصوف نے تحریر کیا ہے : یہ واقعہ روح کا تمثل تھا اور اس کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں ایک یہ کہ جسد مثالی تھا مگر مشابہ جسد عنصری کے. دوسری صورت یہ کہ روح نے خود عناصر میں تصرف کر کے جسد عنصری تیار کر لیا ہو ۔ (ارواحِ ثلاثہ صفحات 193 ، 194 حکایت نمبر 246،چشتی)

محترم قارئین کرام دیکھ رہے ہیں آپ ؟ اس واقعہ کے ساتھ کتنے مشرکانہ عقیدے لپٹے ہوئے ہیں . پہلا عقیدہ تو مولوی قاسم صاحب کے حق میں علم غیب کا ہے کیونکہ ان حضرات کے تئییں اگر انہیں علم غیب نہیں تھا تو عالم برزخ میں انہیں کیونکر خبر ہو گئی کی مدرسہ دیوبند میں مدرسین کے درمیان سخت ہنگامہ ہو گیا ہے یہاں تک کہ مدرسہ کےصدر مدرس مولوی محمودالحسن صاحب بھی اس میں شامل ہو گئے ہیں چل کر انہیں منع کر دیا جائے ۔

اور پھر ان کی روح کی قوت تصرف کا کیا کہنا کہ تھانوی صاحب کے ارشاد کے مطابق اس جہان خاکی میں دوبارہ آنے کےلیے اس نے خود ہی آگ ، پانی اور ہوا ، مٹی کا ایک انسانی جسم تیار کیا اور خود ہی اس میں داخل ہو کر زندگی کے آثار اور نقل و حرکت کی قوت ارادی سے مسلح ہوئی اور لحد سے نقل کر سیدھے دیوبند کے مدرسہ میں چلی آئی ۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ مولوی قاسم صاحب نانوتوی کی روح کے لیے یہ خدائی اختیارات کو بلا چون و چرا مولوی رفیع الدین صاحب نے بھی تسلیم کر لیا مولوی محمودالحسن صاحب بھی اس پر آنکھ بند کر کے ایمان لے آئے اور تھانوی صاحب کا کیا کہنا کہ انھوں نے تو جسم انسانی کا خالق ہی اسے ٹھہرا دیا اور اب قاری طیب صاحب اس کی تشہیر فرما رہے ہیں ۔

ان حالات میں ایک صحیح الدماغ آدمی یہ سوچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ روح کے تصرفات و اختیارات اور غیبی علم و ادراک کی جو قوتیں سرور کائنات صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلّم اور ان کے مقربینرضی اللہ عنہم کے حق میں تسلیم کرنا یہ حضرات کفر و شرک سمجھتے ہیں وہی "اپنے مولانا" کے حق میں کیونکر اسلام و ایمان بن گیا ہے اور توحیدِ خالص بن گیا ؟ کیا یہ صورتحال اس حقیقت کو واضح نہیں کرتی کہ ان حضرات کے یہاں کفر و شرک کی یہ تمام بحثیں صرف اس لیے ہیں کہ انبیاء علیہم السّلام و اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ کی حرمتوں کے خلاف جنگ کرنے کےلیے انہیں ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جائے ورنہ خالص عقیدہ توحید کا جذبہ اس کے پس منظر میں کار فرما ہوتا تو شرک کے سوال پر اپنے اور بیگانے کے درمیان قطعاً کوئی تفریق روا نہ رکھی جاتی ۔ امید ہے کہ دیوبندی حضرات بھی گالم گلوچ کی بجائے اس پر غور فرمائیں گے اور مہذب انداز میں علمی جواب دینگے ، اللہ پاک ہم سب کو اصل اور نقل کی پہچان فرمائے آمین ۔

ہمارا سوال صرف اتنا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نہیں جانتے کون کس حال میں ہے آکر مدد نہیں کر سکتے اور اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ قبر سے مدد نہیں کر سکتے یہ کہتے ہیں دیوبندی مگر جب اپنے مردہ مولویوں کی باری آتی ہے تو سب کچھ جائز بلکہ اسے قرآن و حدیث سے ثابت بھی کرتے ہیں آخر یہ دہرا معیار و منافقت کیوں ؟

کیوں امت مسلمہ میں یہ دہرا معیار اہنا کر فتوے بازی کے بازار گرم کر کے تفرقہ و انتشار کیوں پھیلایا جاتا ہے ؟

اہلسنت و جماعت کے قرآن و حدیث سے ثابت شدہ عقائد و نظریات کو متانزعہ کیوں بنایا جاتا ہے اور جب اپنی باری آتی ہے تو سب کچھ جائز کیوں ہو جاتا ہے ؟

ہم منتظر رہیں گے بحوالہ مہذب علمی جواب کے اوٹ پٹانگ اور جاہلانہ کمنٹ کرنے والے جہلاء ہماری پوسٹ سے دور رہیں ۔

یہ ہیں دیوبندی مولوی جو مرنے کے بعد بھی پچھلوں کو اپنی نگاہِ شفقت میں رکھتے ہیں ۔ ان کے حالات کی خبر رکھتے ہیں اور مشکل میں پھنسے حضرات کی مدد کو پہنچتے ہیں مگر شرک نہیں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔