صالحین کی نسبت جانوروں کو بھی جنّت میں لے جائے گی
محترم قارئینِ کرام : اللہ کے انعام یافتہ بندوں کی نسبت کا مقام بھی عجب ہے ، اگر کتے کی نسبت خیر سے ہو تو جنت کا باسی بنتا ہے ، پانی کی نسبت خیر سے ہو جائے تو آب زم زم بن جاتا ہے ، پہاڑوں کی نسبت خیر سے ہو جائے تو کبھی صفا و مروا اور کبھی کوہ طور بن جاتے ہیں ، راہوں کی نسبت خیر سے ہو جائے تو وہ طواف بن جاتی ہیں ، مگر ایک اور بھی نسبت ہے کہ قلم میں اس کو بیان کرنے کی سکت نہیں ، ان الفاظ کے موتیوں کو تحریر کی لڑیوں میں پرونے سے قبل گھنٹوں رقت طاری رہی اور پھر جا کر ہمت پیدا ہوئی ۔
اگر لفظوں کی نسبت نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ہوئی تو قرآن بن گئے ، اگر خطہ ء زمیں کی نسبت آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ہوئی تو وہ مکہ اور مدینہ بن گئی ، وہ گنبد جو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نسبت میں آ گیا وہ گنبد خضرا بن گیا ، اگر علی رضی اللہ عنہ کی نسبت آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ہوئی تو علی حیدر کرار رضی اللہ عنہ بن گئے ، اگر ابوبکر رضی اللہ عنہ کی نسبت نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ہوئی تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بن گئے ، وہ مقام جو نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو پسند آجائے مقام مسجود ، یعنی قبلہ بن جاتا ہے ، اور وہ بے ادب ؛ جس کی آواز آپ کو ناگوار گزرے تو اس کا ایمان بھی غارت و برباد ہو جاتا ہے کہ اس کو پتہ بھی نہیں چلتا ۔ (سورت الحجرات :2،چشتی)
اس کائنات کی نسبت اک آواز سے ہے او ر یہ قیاس بعید نہیں کہ اس سے ہم آواز ہو کر اس کائنات کا ذرہ ذرہ ارتعاش (Vibration) میں ہو ، اور ایک محبت ، نسبت کی طاقت ہے جو سب کو باندھے ہوئے ہے ، آئیے اس آواز سے ہم آواز ہو کر اس نسبت لاثانی سے ہمکنار ہو جائیں اور اس کائنات کی آواز کو سمجھیں اور اس محبت میں غرق ہو کر لذت لا ثانی سے سرشار ہو جائیں ، ان اللہ و ملائکتہ یصلّون علی النبی یا ایھا الذین آمنوا صلّوا علیہ وسلّموا تسلیما ۔ (القرآن)
ترجمہ : بے شک اللہ تعالیٰ اور اسکے فرشتے بھی آپ صلی اللہ علیہ والہ و سلم پر درود و سلام بھیجتے ہیں ، اے ایمان والو! تم بھی نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر درود و سلام بھیجو ۔
بلغ العلٰے بکمالہ کشف الدجٰے بجمالہ
حسنت جمیع خصالہ صلوا علیہ و آلہ
نسبتِ سرکار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ میسرہو تو نہاں خانہء دل بھی منور ہو جاتا ہے ، نسبت ہی دین ہے ، نسبت نہیں تو دین بھی نہیں ، نسبت کے بغیر تو نمازنماز نہیں بنتی ۔ اللہ تعالیٰ کا حکم آتا ہے کہ ” اقیموا الصلوٰۃ ” نماز پڑھو اپنی عربی دانی پر نازاں فصحاء ِ عرب متحیر کھڑے ہیں کہ حکمِ صلوہ کیسے بجا لائیں ، نہ طریقِ صلوٰہ بتایا گیا اور نہ ہی تعدادِ رکعات بتائی گئیں ، فصاحت و بلاغت دیارِ یار کی طرف دیکھ رہی ہیں اور زبانِ حال سے کہہ رہی ہیں ، نسبتِ محبوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بغیر فرض کی بجا آوری کیسے ممکن ہو سکتی ہے ؟ سکوتِ محض میں بالآخر ایک نحیف آواز مرتعش ہوتی ہے ، فصاحت و بلاغت سوالی بنکر مفہومِ لغت جاننا چاہتی ہے ، سوال ہوتا ہے ” کیف نصلی یارسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ ” یارسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہم کیسے نماز پڑھیں ؟ کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ اس فریضہ کو کیسے ادا کریں ۔ پورا قرآن خاموش ہے ، الحمد سے والناس تک کہیں بھی ادائیگی کا طریقہ بیان نہیں کیا گیا ۔ جواب آتا ہے ، ” صلوا کما رایتمونی اصلی” مجھے دیکھو جس طرح میں پڑھتا ہوں ویسے ویسے تم بھی پڑھ لو ۔
شوق تیرا اگر نہ ہو میری نماز کا امام
میرا قیام بھی حجاب میرا سجود بھی حجاب
یعنی میری اداؤں کی ترتیب کو یاد کرلو جس طرح میں کرتا ہوں ویسے ویسے کرتے چلے جاو تمھاری نماز بن جائے ، لہٰذا نسبتِ محبوب کے بغیر نماز نماز ہی نہیں ہے ، نماز تو محبوب کی اداؤں کا نام ہے ، جس محبوب کی ادائیں رب کی عبادت بن جائیں ، اس محبوب کے خیال سے رب کی عبادت میں خلل کیونکر پڑ سکتا ہے ؟ کسی عاشق سے پوچھو کہ یہ ماجرا کیا ہے تو جواب ملتا ہے کہ یہی نسبت ہے ۔
مجھے کیا خبر تھی رکوع کی ، مجھے ہوش کب تھا سجود کا
تیرے نقشِ پا کی تلاش تھی کہ میں جھک رہا تھا نماز میں
نسبت کا مقام جاننا چاہتے ہوتو ذرا مناسک حج کی طرف بھی دیکھو ، دورانِ حج کیا جانے والا ہر عمل کسی نہ کسی کی یاد کو زندہ رکھنے کی سعی ہے ، ذرا صفا ومروہ کودیکھو جن کے بارے میں ارشاد ہوا : ان الصفاوالمروہ من شعائراللہ” کہ صفا و مروہ میری نشانیاں ہیں ۔ میری نشانیاں ؟ مگر کیسے ؟ باری تعالیٰ کیا کبھی تو ان پر اترا ، کیاکبھی ان پر چلا ؟ چڑھنااترنا ، یمین ویسارتو مخلوق کے لیے ہیں اور توتو وراء الوراء ۔ پھر یہ صفا و مروہ تیری نشانیاں کیونکر اور کیسے ؟ جواب آیا میرے بندے یہی تو سمجھانا چاہتا ہوں کہ میں ان علائقِ بشریہ سے پاک ہوں ، مگر جہاں میرے محبوبوں کے قدم لگ جائیں ، اس جگہ کو میں اپنی نشانیاں بنا دیتا ہوں ،۔بلکہ یہاں تک فرمایا کہ : والبدن جعلناھالکم من شعائراللہ : کہ وہ قربانی کے جانور جو تم اللہ کی طرف منسوب کر دیتے ہو ، اس نسبت کی وجہ سے وہ بھی اللہ کی نشانیاں بن جاتے ہیں ، یہاں پر تو کرم کی یہ انتہا ہے کہ اگر جانور محبوب سے منسوب ہوجائیں تو اللہ کی نشانیاں بن جاتے ہیں تو پھر کیا خیال ہے ان بندوں کے بارے میں کہ جنھیں دیکھ کر خدا یاد آجاتا ہے ؟
حج کی تیاری کی تو خاص لباس کا حکم آگیا کہ ان سلا لباس پہنوں ؟ آخر کیوں ؟ سلے ہوئے کپڑے میں زیادہ ہے حفاظت ہے ، تو ان سلا کیوں ؟ جواب آیا یہ میرے ابراہیم علیہ السّلام کی سنت اس کی نسبت کو نبھاؤ ، آپ نے احرام باندھ لیا پھر کہا کہ خبر دار “اصطباغ” بھی کرنا ، یعنی دایاں کندھا ننگا رکھنا ، باری تعالیٰ میں تو بڑا امیر ہوں ، مکمل جسم ڈھانپنے کے لیے کپڑا خرید سکتا ہوں ، پھر کندھا کیوں ننگا کروں ؟ جواب آتاہے طواف کرتے ہوئے میرے ابراہیم کا کندھا بھی ننگا تھا ، بس نسبتِ خلیل کو زندہ کرو ۔ جناب طواف کرتے ہوئے پہلے تین چکر اکڑ کر ، شانے ہلا ہلا کر تیزی کے ساتھ چلا جاتا ہے اسے “رمل” کہتے ہیں ۔ جناب اکڑ کر چل رہے اور وہ بھی خدا کے گھر میں ؟ آخر کیوں ؟ اسی خدا کاتو حکم ہے کہ : لا تمش علی الارض مرحا” کہ زمین پر اکڑ کر مت چلو ۔ یہ کیا ہے کہ خدا کو منانے کے لیے آنے والے آج اسی کے گھر میں ، میزاب رحمت کے نیچے ، حطیم کے ارد گرد اکڑ کر چل رہے ہے ، آخر وجہ کیا ہے ؟ جواب آتا ہے ذرا میرے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فاتحانہ شان کےساتھ مکہ میں داخلہ تو دیکھو ، جب کل کفارو مشرکین ارد گرد کھڑے ہوکر جانثار صحابہ کو دیکھ رہے تھے تو آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ میرے صحابہ طواف کرتے ہوئے پہلے تین چکر اکڑ کر چلو تاکہ کفار کے دلوں پر تمھارا رعب و دبدبہ طاری ہو جائے ، اپنے محبوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا وہ فرمان و ادا رب تعالیٰ کو اتنا پسند آیا کہ اب اکڑ کر چلنا حج کا حصہ بن گیا ، آج بھی وہ نسبتِ یار زندہ ہو رہی ہے ۔ ذرا آگے چلیے ، طواف سے فارغ ہوئے تو حکم آگیا کہ : وَاتَّخِذوا مِن مَّقَامِ اِبرَاھِیمَ مصَلیٰ “اور (حکم دیا کہ) ابراہیم (علیہ السلام) کے کھڑے ہونے کی جگہ کو مقامِ نماز بنا لو” مگر کیوں ؟ جواب آیا مقامِ ابراہیم وہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہو ابراہیم علیہ السلام نے مجھ سے میرے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو مانگا تھا ، اس پتھر کی نسبت دعائے میلادِ محبوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ ہے ، بس اس نسبت کو زندہ کرو ، ذرا آگے چلے پھر حکم آگیا کہ حجر اسود کو بوسہ دو ، حجرِ اسود کو بوسہ ؟ مگر کیوں ؟ میں ایسا کیوں کروں ، جواب آیا ، یہ نسبت والا پتھر ہے ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بھی کہا تھا کہ اے حجر اسود “انی اعلم انک حجر لن تضرنی ولا تنفع” میں جانتا ہوں کہ تو محض ایک پتھر ہے نہ مجھے نفع دے سکتا ہے اور نہ ہی نقصان، ” ماقبلتک” میں تمھیں ہرگز نہ چومتا ، مگر پھر بھی چوم رہاہوں تو صرف اس لیے کہ ” ولولاانی رایت رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ یقبلک ثم قبلہ” میں نے رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تمھیں چومتے ہوئے دیکھا تھا، پھر آپ نے بوسہ لیا ۔
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذت ِ آشنائی
امام محمد بن موسیٰ الدمیری متوفی رحمۃ اللہ علیہ (٨٠٨ ھ) لکھتے ہیں : جنّت میں تین جانوروں کے کوئی اور جانور نہیں جائے گا ، اصحاب کہف کا کتا ، عزیر علیہ السلام کا گدھا ، اور صالح علیہ السلام کی اُونٹنی ۔ (حيوة الحيوان ٢/٢٦٢،چشتی)
علاّمہ امداد اللّٰہ انور دیوبندی نے علاّمہ ابنِ نجیم حنفی رحمۃ اللہ علیہ (متوفى ٩٧١ ھ) اور المسطرف کے حوالے سے لکھا ہے کہ بانچ قسم کے جانور جنّت میں جائیں گے : اصحاب کہف کا کتا ، اسمعیل علیہ السلام کا دنبہ ، صالح علیہ السلام کی اونٹنی ، عزیر علیہ السلام کا گدھا ، نبی کریم کی براق ، (جنّت کے حسین مناظر صفحہ نمبر 531)
علاّمہ امداد اللّٰہ انور دیوبندی نے حموی شرح الإشباه والنظائر وغیرہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ : حضرت قتادہ (تابعی) رضی اللہ عنہ کے نزدیک نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اُونٹنی ، موسیٰ علیہ السلام کی گائے ، یونس علیہ السلام کی مچھلی ، سلیمان علیہ السلام کی چیونٹی ، اور بلقیس کا ھد هد ، (جنّت کے حسین مناظر صفحہ نمبر 532)
علاّمہ امداد اللّٰہ انور دیوبندی نے سیوطی سے نقل کیا ہے کہ یعقوب علیہ السلام کا بھیڑیا بھی جنّت میں جائے گا ۔ (جنّت کے حسین مناظر صفحہ نمبر 532)
دیوبندی مکتبہ فکر کے موجودہ بہت بڑے مشہور پیر ذوالفقار احمد نقشبندی دیوبندی لکھتے ہیں : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جس کھجور کے تنے کے ساتھ ٹیک لگاتے تھے وہ کھجور کا درخت ، صالح علیہ السّلام کی اونٹنی اور اصحابِ کہف کا کتا جنّت میں جائیں گے ۔ (رہے سلامت تمہاری نسبت صفحہ نمبر 9 پیر ذوالفقار احمد نقشبندی دیوبندی مطبوعہ دارالکتاب دیوبند،چشتی)
مکتبہ فکر دیوبند کے وہ لوگ جو ابن وہاب نجدی کے راستے وہابیت پر چل پڑے ہیں انہیں دعوت فکر واپس پلٹ آؤ عقائد و نظریات اہلسنت کی طرف تم کہتے ہو اللہ والوں کے در سے کیا ملتا ہے ؟ تمہارے ہی بہت بڑے شیخ لکھ رہے ہیں اللہ والوں کی نسبت سے جنّت ملے گی ۔
علامہ احمد حموی رحمۃ اللہ علیہ نے (غمز العیون البصائرحاشیۃ الاشباہ والنظائر 4/131) میں مفسر قرآن مُقاتل بن سلیمان بلخی رحمۃ اللہ علیہ (150ھ) سے نقل کیا ہے : قَالَ مُقَاتِلٌ - رَحِمَهُ اللَّهُ -: عَشَرَةٌ مِنْ الْحَیوَانَاتِ تَدْخُلُ الْجَنَّةَ : نَاقَةُ مُحَمَّدٍ عَلَیهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ ، وَنَاقَةُ صَالِحٍ عَلَیهِ السَّلَامُ ، وَعِجْلُ إبْرَاهِیمَ عَلَیهِ السَّلَامُ ، وَكَبْشُ إسْمَاعِیلَ عَلَیهِ السَّلَامُ ، وَبَقَرَةُ مُوسَى عَلَیهِ السَّلَامُ ، وَحُوتُ یونُسَ عَلَیهِ السَّلَامُ ، وَحِمَارُ عُزَیرٍ عَلَیهِ السَّلَامُ ، وَنَمْلَةُ سُلَیمَانَ عَلَیهِ السَّلَامُ ، وَهُدْهُدُ بِلْقِیسَ، وَكَلْبُ أَهْلِ الْكَهْفِ ، كُلُّهُمْ یحْشَرُونَ . كَذَا فِی "مِشْكَاةِ الْأَنْوَارِ" . وَذَكَرَ فِی "مِشْكَاةِ الْأَنْوَارِ شَرْحِ شِرْعَةِ الْإِسْلَامِ" : أَنَّهَا كُلُّهَا تَصِیرُ عَلَى صُورَةِ الْكَبْشِ ۔
دس جانور جنت میں داخل ہوں گے :
(1) جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اونٹنی
(2) حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی
(3) حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بچھڑا
(4) حضرت اسماعیل علیہ السلام کا مینڈھا
(5) حضرت موسی علیہ السلام کی گائے
(6) حضرت یونس علیہ السلام کی وہیل مچھلی
(7) حضرت عزیر علیہ السلام کا گدھا
(8) حضرت سلیمان علیہ السلام کی چیونٹی
(9) حضرت سلیمان علیہ السلام کا ھدھد
(10) اصحاب کہف کا کتا
علاّمہ ابن نجیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ : جانوروں میں سے پانچ جانور جنت میں جائیں گے ، ان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بُراق شمار کی ہے ، جبکہ مقاتل کی روایت میں اس کی جگہ اونٹنی مذکور ہے ۔ (الاشباہ والنظائرلابن نجیم : ۴/۱۳۱،بحوالہ مستطرف)
امام جلا الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے دیوان الحیوان میں : یعقوب علیہ السلام کا بھیڑیا بھی شمارکیا ہے ۔ اوربعض حضرات نے : نبی کریم صلی اللہ علیہو آلہ وسلّم کا دُلدُل نامی خچر بھی ذکر کیا ہے ۔ (دیوان الحیوان)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اَصحابِ کَہْف رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم کا کتَّا بلعم باعُور کی شکل (کا) بن کر جنّت میں جائے گا اور وہ اس کتّے کی شکل (کا) ہو کر دوزخ میں پڑے گا ۔ اُس (یعنی اصحابِ کَہْف کے کُتّے) نے محبوبانِ خدا کا ساتھ دِیا ، اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے اُس کو انسان بناکر جنّت عطا فرمائی اور اُس (یعنی بلعم باعُور) نے محبوبانِ خدا سے عداوت (یعنی دشمنی) کی (نتیجتاًوہ تباہ و برباد ہوگیا) ۔ (ملفوظاتِ اعلی حضرت صفحہ نمبر ۳۶۶)
حکیمُ الْاُمَّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:چند جانور جنّت میں جائیں گے : (1) نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اُونٹنی قَصوا ، (2) اَصحابِ کہف رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم کا کُتّا ، (3) حضرت سَیِّدُنا صالح عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اُونٹنی اور (4) حضرت سَیِّدُنا عیسیٰ رُوْحُ اللہ عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا دراز گوش ۔ (مرآۃ المناجیح،۷/۵۰۱،چشتی)
ایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں : اگر زمین مسجد کے لئے وقف ہو جائے تو اُس کی شان و عظمت بڑھ جاتی ہے ، اصحابِ کہف رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے کُتّے نے اپنی زندگی اللہ تعالیٰ کے پیاروں کیلئے وقف کر دی تو اُسے ہمیشہ کی زندگی مل گئی ، زمین اور کُتّا زندگی وقف کرنے کی وجہ سے شان والے ہو گئے ، تو اگر انسان اپنی زندگی اللہ تعالیٰ کی رِضا و خوشنودی کے حُصُو ل کی خاطِر دِین کے لئے وقف کر دے تو اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ فِرِشتوں سے بھی افضل ہو جائے گا ۔ (تفسیرِ نعیمی،پ۳،البقرۃ،تحت الآیۃ:۲۷۳،۳/۱۳۴)
حضرت اِمام ابو عبدُ اللہ محمد بن اَحمد قرطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جب نیک بندوں اور اولیائے کرام علیہم الرّحمہ کی صحبت میں رہنے کی برکت سے ایک کُتّا اتنا بلند مقام پا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے ا س کا ذکر قرآنِ پاک میں فرما یا تو اس مسلمان کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جو اولیائے کرام علیہم الرّحمہ اور نیک بندوں سے محبت کرنے والا اور ان کی صحبت سے فیضیاب ہونے والا ہے بلکہ اس آیت میں ان مسلمانوں کے لئے تسلّی ہے جو کسی بلند مقام پر فائز نہیں ۔ (تفسیر قرطبی، پ۱۵،الکھف، تحت الآیۃ: ۱۸،الجزء۱۰،۵/۲۶۹)
یعنی ان کیلئے تسلّی ہے کہ وہ اپنی اس محبت و عقیدت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کامیاب ہوں گے ۔
حدیثِ قُدسی میں ہے اللہ عَزَّ وَجَلَّ فرماتا ہے : مَنْ عَادَى لِي وَلِيًّا فَقَدْ اٰذَنْتُهُ بِالحَرْبِ ۔
ترجمہ : جس نے میرے کسی ولی سے دُشمنی کی میں اس سے اعلانِ جنگ کرتا ہوں ۔ (صحیح بخاری،کتاب الرقاق،باب التواضع...الخ،۴/ ۲۴۸،حدیث: ۶۵۰۲)
بے ادبی کی مذمّت بیان کرتے ہوئے نبیِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : اَدَبُ السُّو ْءِ كَعِرْقِ السُّو ْءِ ، یعنی بے ادبی بہت بُری عادت کی طرح ہے ۔ (شعب الایمان،باب فی الجود والسخاء،حدیث: ۱۰۹۷۴،۷/ ۴۵۵،چشتی)
حضرت عبدُ اللہ بن مُبارَک رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ فرماتے ہیں : ہمیں زیادہ علم کے مقابلے میں تھوڑے ادب کی زیادہ ضرورت ہے ۔ (رسالہ قشیریہ،باب الادب، ص۳۱۷)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : لَادِیْنَ لِمَنْ لَّااَدَبَ لَہٗ ، یعنی جو با ادب نہیں اس کا کوئی دِین نہیں ۔ (فتاویٰ رضویہ، ۲۸/۱۵۸)
کسی دانا کا قول ہے : مَاوَصَلَ مَنْ وَصَلَ اِلَّا بِالْحُرْمَۃِ وَمَاسَقَطَ مَنْ سَقَطَ اِلَّا بِتَرْکِ الْحُرْمَۃِ ، یعنی جس نے جو کچھ پایا اَدب واحترام کرنے کےسبب ہی پایا اور جس نے جو کچھ کھویا وہ اَدب واحترام نہ کرنے کے سبب ہی کھویا ۔ (راہِ علم صفحہ نمبر ۲۹)
نبیِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : اَدَّبَنِيْ رَبـِّيْ فَاَحْسَنَ تَاْدِيْبِـيْ ، یعنی مجھے میرے ربّ عَزَّ وَجَلَّ نے ادب سکھایا اور بہت اچھا ادب سکھایا ۔ (جامع صغیر،حرف الہمزہ، حدیث نمبر ۳۱۰ صفحہ نمبر ۲۵)
عزّت و ذِلّت سب اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے اختیارمیں ہے ، وہ چاہے تو اپنے پیاروں سے نسبت اور ان کا ادب بجالانے کی برکت سے ایک کُتّے کو بھی نواز دے اور اس کے سر پر عزّت کا تاج سجا کر اسے جنّت کا پروانہ عطا فرمادے اور چاہے تو بلعم بن باعور جیسے مقبولِ بارگاہ کو بے ادبی و گستاخی کی وجہ سے اپنی بارگاہ سے دُھتکار دے ۔ بَلْعَم باعُوربنی اِسرائیل میں بہت بڑا عالِم تھا ۔ مُسْتَجَابُ الدَّعَـوَات تھا (یعنی اُس کی دُعا قبول ہوتی تھی) مال کے لالچ میں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کے لئے بَددُعا کرنی چاہی ، جو اَلفاظ حضرت سَیِّدُنا موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کے لئے کہنا چاہتا تھا ، اپنے لئے نکلتے تھے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اُس کو ہلاک کردِیا ۔ (ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت صفحہ نمبر ۳۶۷) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
ماشااللہ سبحان اللہ اللہ تبارک و تعالی آپ کو سلامت رکھے آپ کی زندگی میں برکت عطا فرمائے اور آپ اور ہم سب کو دین دنیاں کی دولتوں سے مالا مال فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین
ReplyDelete