نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے ممانعت پر دلیل نہیں ہے
محترم قارئینِ کرام : توسل بعد ازوصال کے متعلق غیرمقلد وہابی عالم نواب وحید الزّمان لکھتے ہیں : جب دعا میں غیر اللہ کے وسیلہ کا جواز ثابت ہے تو اس کو زندوں کے ساتھ خاص کرنے پر کیا دلیل ہے ؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے دعا کی تھی ، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے ممانعت پر دلیل نہیں ہے ‘ انہوں نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے اس لیے دعا کی تاکہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو لوگوں کے ساتھ دعا میں شریک کریں ‘ اور انبیاء علیہم السلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں ‘ اسی طرح شہداء اور صالحین بھی زندہ ہیں ‘ ابن عطاء نے ہمارے شیخ ابن تیمیہ کے خلاف دعوی کیا ‘ پھر اس کے سوا اور کچھ ثابت نہیں کیا کہ بطور عبادت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے استعانت کرنا جائز نہیں ہے ‘ ہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ پیش کرنا جائز ہے ‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے اس شخص کو آپ کے وسیلہ سے دعا تعلیم کی جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس جاتا تھا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اس کی طرف التفات نہیں کرتے تھے، اس دعا میں یہ الفاظ تھے : اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور ہمارے نبی محمد نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں ، اس حدیث کو امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے سند متصل کے ساتھ ثقہ راویوں سے روایت کیا ہے : کاش میری عقل ان منکرین کے پاس ہوتی ! جب کتاب اور سنت کی تصریح سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اعمال صالحہ کا وسیلہ پیش کرنا جائز ہے تو صالحین کے وسیلہ کو بھی اس پر قیاس کیا جائے گا اور امام جزری رحمۃ اللہ علیہ نے ” حصن حصین “ کے آداب دعا میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں انبیاء اور صالحین کا وسیلہ پیش کرنا چاہیے ‘ اور ایک اور حدیث میں ہے : یا محمد ! میں آپ کے وسیلہ سے اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہوں ‘ سید نے کہا کہ یہ حدیث حسن ہے موضوع نہیں ہے ‘ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے ،چشتی، ایک حدیث میں ہے : میں تیرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور موسیٰ علیہ السلام کے وسیلہ سے سوال کرتا ہوں ‘ اس کو علامہ ابن اثیر رحمۃ اللہ علیہ نے ” نہایہ “ میں اور علامہ طاہر پٹنی رحمۃ اللہ علیہ نے ” مجمع بحار الانوار ،چشتی“ میں ذکر کیا ہے ‘ اور امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ ‘ امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ اور امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک حدیث میں حضرت آدم علیہ السلام کی اس دعا کو روایت کیا ہے : اے اللہ ! میں تجھ سے بحق محمد سوال کرتا ہوں ‘ اور ابن منذر رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کیا ہے : اے اللہ ! تیرے نزدیک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جو وجاہت اور عزت ہے میں اس کے وسیلہ سے سوال کرتا ہوں ‘ علامہ سبکی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ وسیلہ پیش کرنا ‘ مدد طلب کرنا اور شفاعت طلب کرنا مستحسن ہے ‘ علامہ قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ اضافہ کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے اللہ کی طرف متوجہ ہو کر آہ وزاری کرنے کا متقدمین اور متاخرین میں سے کسی نے انکار نہیں کیا تھا حتی کہ ابن تیمیہ آیا اور اس نے انکار کیا ‘ قاضی شوکانی نے کہا کہ انبیاء میں سے کسی نبی ‘ اولیاء میں سے کسی ولی اور علماء میں سے کسی عالم کا بھی وسیلہ پیش کرنا جائز ہے جو شخص قبر پر جا کر زیارت کرے یا فقط اللہ سے دعا کرے اور اس میت کے وسیلہ سے دعا کرے کہ اللہ میں تجھ سے یہ دعا کرتا ہوں کہ تو مجھے فلاں بیماری سے شفاء دے اور میں اس نیک بندے کے وسیلہ سے تجھ سے سوال کرتا ہوں تو اس دعا کے جواز میں کوئی شک نہیں ہے۔ قاضی شوکانی کا کلام ختم ہوا ۔ (ہدیۃ المہدی صفحہ نمبر 47 تا 49 مطبوعہ اسلامی کتبخانہ سیالکوٹ)۔(طالبِ دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment